وہ شروع سے ہی خود پسند تھی جو چیز اسے پسند آجاتی اسے حاصل کرنے کو اپنی زندگی موت کا مسئلہ بنا لیتی تھی۔
ایسا نہیں تھا کہ وہ کسی بہت ہی ہائی فائی کلاس سے تعلق رکھتی تھی اسکے والد ایک چھوٹی سی فیکڑی کے مالک تھے اصل وجہ اسکا اکلوتا ہونا تھی بچپن سے لے کر اب تک اسکی ہر خواہش زبان پر آنے سے پہلے پوری ہوتی آئی تھی۔
سچ کہتے ہیں کہ ہر انسان خیر پر پیدا ہوتا ہے پھر ماحول اور تربیت اسے ہیرا یا پتھر دونوں بناتی اسی تربیت کی بنا پر انسان خیر اور شر کے راستے چنتا ہے ۔
ماں باپ کے بے جا لاڈ پیار میں شائد اسکی اچھی تربیت کرنا بھول گئے تھے یا شائد اس نے اپنے شریف ماں باپ کی تربیت کو اپنایا نہیں تھا۔
لیکن جو بھی تھا وہ بلا کی خود غرض اور خود پسند تھی اپنا مطلب اسے خوب نکالنا آتا تھا اسکی شخصیت ایک سب سے غلط پہلو اپنی حاکمیت قائم کرنے کی عادت تھی ہر کسی کے منہ سے اپنی تعریف سننا اسکو جلا بخشتا تھا ۔
اسے یونی میں آئے کافی عرصہ ہوگیا تھا لیکن وہ اس ماحول کی عادی نہیں ہو پارہی تھی ۔
وہ جو اپنے آپکو بڑی چیز سمجھتی تھی یہاں اس سے بڑی بڑی چیزیں موجود تھیں اس لیے اس نے سارا عرصہ چپ رہ کر جلتے کڑھتے گزارا تھا۔
وہ ایک عام سا دن تھا ٹیچر کے نا آنے کی وجہ سے آج لیکچر نہیں ہونا تھا ۔
لیکن باہر سخت گرمی ہونے کی وجہ سے ثانیہ سمیت بہت سے سٹوڈنٹس کلاس میں ہی بیٹھے تھے۔۔
وہ گردن جھکائے یوٹیوب پر کوئی گانا سن رہی تھی جب یکایک کلاس میں ہلچل پیدا ہوئی کوئی آیا تھا سب کھڑے ہوگئے تھے وہ بھی نا سمجھی سے کھڑی ہوئی اور کھڑی ہی رہ گئی ۔۔
اسے لگا اس بندے کو اس نے کہیں دیکھا ہے۔
جب اس نے مسکرا کر روشن آنکھوں سے ہوری کلاس کی طرف دیکھا تو
ثانیہ کو یوں لگا جیسے اندھیری رات میں بہت سے جگنوں اکھٹے ہوکر چلے آئے ہوں اور سامنے نظر آنے والے خوبصورت سے انسان کی آنکھوں میں بسیرا کر لیے ہوں۔
اسکی آنکھوں کی چمک ایسی تھی کہ اگر کسی کو ایک پل کے لیے آنکھ بھر کر دیکھ لیتا تو فتح کرلیتا مار دیتا چھین لیتا کسی کو بھی اپنے آپ سے وہ کھڑی ہی تھی
جب سامنے کھڑے شخص نے الجھن آمیز نظروں سے دیکھتے ہوئے اسے کہا تھا مس ایوری تھنگ از اوکے؟
وہ ایک دم ہوش میں آئی تھی پھر ہکلا کر بولی جی جی جی سر
تو پلیز سٹ ڈاؤن انہوں نے سر کے اشارے سے اسے کہا تھا۔
جب مقابل نے سر کو مخصوص سے انداز میں ( جو انداز شائد پرانے وقتوں میں صرف شاہ زادوں کے لیے مخصوص ہوتا ہوگا )
جھٹکا دے کر کہا تو اسے فوراً یاد آگیا اس بندے کو اس نے کہاں دیکھا ہے ۔
ساتھ بیٹھے کئی سٹوڈنٹس کے منہ سے نکلا تھا ہائے یہ نئے سر تو بنے بنائے میسی ہیں۔۔
پہلے دن کے بعد وہ سر میسی کو پسند کرنے لگی تھی لیکن مسئلہ تو یہ تھا کہ ساری میں سے آدھی یونی سر میسی پر مرتی تھی ۔۔۔ لیکن ثانیہ نے آپ ہی آپ سر میسی کو اپنی پراپرٹی سمجھنا شروع کردیا۔
وہ آہستہ آہستہ نا محسوس طریقے سے انکی نظروں میں آنے کے جتن کرنے لگی لیکن وہاں سے ہمشہ نو لفٹ کا بورڈ ہی نظر آتا تھا۔
اتنے میں نئے سیشن کا آغاز ہوا تو اس نے زلیخا آیت اور رملہ جو پہلے دن ہی پینڈو اور اعتماد سے عاری لگ رہیں تھیں پر اپنا اعتماد جمایا پھر انکو اپنے ساتھ روم میں شفٹ کرتے ان پر احسان عظیم کیا اس طرح سے کم ازکم اسکے اندر کی خود پسند لڑکی کسی حدتک خوش اور مطمئن ہوئی تھی۔
پھر جب زلی نے اسے اپنے ساتھ ہوئی ریگنگ کا بتایا تو اسے اچھا خاصہ غصہ آیا تھا اس لیے نہیں کہ اسکی جونئیر فرینڈ کے ساتھ برا ہوا بلکہ اس لیے کہ زلییخا نے اسکی بات نہیں مانی تھی۔۔۔
زلیخا کوسبق سکھانے کے لیے اس نے عجیب سا منصوبہ بنایا وہ جانتی تھی یوں گرنے سے سٹوڈنٹ کو اچھی خاصی چوٹیں آئیں گی اور زلیخا کو یونی سے وارننگ مل جائے گی۔۔
تینوں جونئیر کو فرنٹ مین بنا کر خود وہ دور نظر رکھنے پر مامور ہوگئی تھی۔
سب کچھ اسکے پلان کے مطابق چل رہا تھا وہ لڑکا بڑی ادا سے چلتے ہوئے آرہا تھا۔
اس نے رملہ کو تیار رہنے کا اشارہ کیا دل ہی دل میں وہ خوش ہورہی تھی کہ اب تماشہ ہوا کہ تب ہوا
اچانک وہ چونک اٹھی کیونکہ وہ لڑکا موڑ مڑ گیا تھا اور اسے کے پیچھے سر علی سبحان چلے آرہے تھے۔۔۔
بھاگتے رملہ کو منع کرتے جب وہ جائے واردات پر پہنچی تو ایک مکمل اور خوبصورت منظر اسکا منتظر تھا زلیخا علی سبحان خان کی گرفت میں آنکھیں موندیں ہوئے تھی اور دونوں پر بارش کے ساتھ گلاب برسے تھے کئی سٹوڈنٹس کے منہ سے ستائش میں واہ نکلی تھی کئیوں نے یہ پورا منظر اپنے کیمروں میں قید کیا وہ ہر ایک کے لیے مکمل منظر تھا سوائے ثانیہ بھٹی کہ
ایک آگ تھی جو اسکے تن بدن میں لگی تھی وہ اپنی آگ سامنے نظر آنے والے دو بہکے ہوئے لوگوں پتمر پھینک ہی دیتی اس سے پہلے ہی علی سبحان زلیخا کو ایک سائیڈ پر کیے آگے بڑھ گئے
اس دن کے بعد ثانیہ کو زلیخا سے اللہ واسطے کا بیر ہوگیا
وہ زلیخا اور علی سبحان کی ایک ایک جنبش پے نظر رکھنے لگی اس پر یہ واضح ہوگیا زلیخا کے علم میں لائے بغیر علی سبحان اسے بڑی گہری نظروں سے دیکھتا ہے مگر کیوں؟؟
اس کیوں کا جواب تو اسے نا ملا لیکن اسے ناران کاغان کے ٹرپ پر زلیخا سے خود ساختہ دشمنی نبھانے کا موقع ضرور مل گیا تھا۔۔
سینیرز میں صرف وہ آئی تھی انکے گروپ کے ساتھ اپنی رملہ اور آیت کے کہنے پر اور صرف وہ جانتی تھی کہ نیچے جھیل پر ماوتھ آرگن بجاتا وہ جادوگر کوئی اور نہیں بلکہ علی سبحان ہے زلیخا کی ان روح پرور سازوں پر بے خودی دیکھ کر اسکے تن بدن میں پھر سے آگ بھڑک اٹھی تھی اسے خیال تھا علی سبحان کی سانسوں سے اٹھتے ان زندگی کے سازوں ہر صرف اسکا حق ہے ۔
وہ جو کسی اور طریقے سے بدلہ لینا چاہتی تھی اب فوراً زلیخا کو مارنے کے لیے پر تولنے لگی۔۔
اسی لیے جب وہ لوگ آنسو جھیل سے واپس آرہے تھے ثانیہ نے زلیخا کے خچر کی پیٹھ میں زور سے پن ماری تھی جانور بیچارہ درد اے کراہتے ہوئے بھاگ کھڑا ہوا تھا۔
لیکن زلیخا کی قسمت اچھی تھی کہ وہ دوسرے دن زندہ مل گئی تھی۔
ثانیہ کو اسے دیکھ کر خوشی نہیں ہوئی تھی لیکن اسکے ساتھ جڑ جانے والی کہانی کو سن کر وہ جھوم اٹھی تھی۔۔۔۔۔
ٹیچرز کے منع کرنے پر بھی اس نے ایک کی چار بنا کر پوری مصالحہ دار کہانی یونی میں پھیلا دی ۔
ایک روز حقوق نسواں کی ایک تنظیم کو زلیخا بن کر فون کیا اور اپنے ساتھ ہوئے ظلم کا بتا کر مدد کی درخواست کرنے لگی۔
جس دن زلیخا یونی چھوڑ کر گئی تھی وہ دن ثانیہ کو اپنی جیت کا دن لگا تھا۔
—————-
زلیخا کے سکتے کو اسکی ساس کی آواز نے توڑا تھا جو ناشتہ لانے کا کہہ رہی تھیں ۔۔
جی آئی اماں کہتے وہ جلدی سے اٹھی ہاتھ صافی سے صاف کیے برش سے چوڑیوں کا پھیلاوا سمیٹا ناشتہ ٹرے میں رکھ دوبارہ سے چائے کا پانی رکھا اس سب کے دوران اس نے ہاتھوں کی تکلیف کو نظر انداز کیے رکھا پھر جب ٹرے سیٹ کر کے اٹھانے لگی تو دھیان اپنے ہاتھوں کی طرف گیا ہھر سے خون کی لکیریں نازک سی سانولی کلائیوں پر پھیل رہی تھیں۔
دروازے پر آہٹ ہوئی اس نے جلدی سے ہاتھ سنک کے نیچے کر دیے ۔
سسسسس آہ ہ ہ
سسکاری زخموں پر گرتے پانی سے ہونیوالی جلن کی وجہ سے نکلی تھی
لیکن آہ کا موجب کسی کا زور سے ہاتھ پکڑنا تھا۔
وہ جو کوئی باہر کھڑکی سے لگا کھڑا تھا کچھ دیر پہلے جسکا دل ان نازک سانولے حنائی ہاتھوں کو چھونے کو چاہ رہا تھا چومنے کو چاہ رہا تھا ۔
وہی کوئی بڑی محبت سے بڑی شدت سے اسکے پیچھے کچن میں آیا تھا اپنے دل کی معمولی سی خواہش پر سانولے چہرے پر لرزتی پلکوں کو دیکھتے اسنے بڑے حق سے زلیخا کے ہاتھ تھامے تھے لیکن زلیخا کی سسکی نے اسے فوراً سے پہلے متوجہ کر دیا تھا۔
او او یہ کیا ہوا یہ چوٹ کیسے لگائی اماں اماں آپ کتنی غیر ذمہ دار ہیں ۔
وہ حدرجہ پریشان ہوکر اماں کو آوازیں دینے لگا تھا زلیخا جو اسکے اچانک کچن میں آجانے پر ساکت سی ہاتھ چھڑوانے کی کوشش کر رہی تھی اماں اماں کی صداؤں پر اسنے گیلا ہاتھ جلدی سے شاہنواز کے منہ پر رکھا تھا۔۔۔
وہ جو سخت مضطرب اور پریشان سا ہاتھوں کا جائزہ لے رہا تھا اس اچانک افتاد پر اس نے نظر اٹھائیں سامنے وہ اپنی بڑی بڑی شہد رنگ آنکھوں میں خفگی لیے اسی کو گھورتے گردن نا میں ہلا رہی تھی ۔
شاہنواز کی آنکھیں مسکرانے لگی تھیں اگر زلیخا کا ہاتھ اسکے منہ پر نا ہوتا تو وہ کھل کر مسکراتا
وہ جو میجر شاہنواز تھا جس کے دل نے اپنی بیوی کے ہاتھ چومنے کی معمولی سی خواہش کی تھی اور وہ اپنی تمام تر جرأت کو بروئےکار لا کر بھی ایسا کبھی نا کرپاتا ۔
وجہ ایک ان دیکھا سا گریز تھا جو شادی کی پہلی رات سے اب تک قائم تھا اپنی زندگیوں میں ایک دوسرے کی جگہ اور حیثیت قبولنے کے بعد بھی ان دونوں میں ایک دیوار سی حائل تھی شاہنواز نے اپنی طرف سے انکی عمروں کے دس کے فرق کو جھجھک کا باعث گردانا تھا
اور اب زلیخا کا خود سے اسکے منہ پر ہاتھ رکھنا اس نے ہنستی آنکھیں اوپر آسمان کی طرف اٹھائیں اور بے حساب خوش تھا۔
وہ دونوں ہی ٹرانس کی سی کیفیت میں تھے جب باہر سے ربنواز صاحب کی آواز آئی تھی شاہو پتر تیری یونٹ سے ٹیلیگرام آیا ہے۔
———————–
رملہ نے ساری یونی میں زلیخا کی شادی کہ تصویریں بانٹی تھیں اس وقت وہ دوستوں کے گروپ میں بیٹھی تھی جبھی سب کو ٹھوک بجا کر کہنے لگی
اللہ ہر کسی کا بہترین کارساز ہے زلیخا بے قصور تھی جبھی رب کی طرف سے آزمائش میں صبر کیے رہی اور رب سوہنے نے بدلے میں
“میجر شاہنواز خان بلوچ”
کی شکل میں اسے انعام دیا ۔
اب یہ شاہو بھائی کی پک غور سے دیکھو اور بتاؤ اپنی پوری یونی میں اتنا ہینڈسم اور گڈ لکنگ کوئی بندہ ہے؟
ہائے یار زلی کی تو لاٹری نکل آئی نیں؟؟
ہائے صدقے کیا ظالم مسکراہٹ ہے میجر صاحب کی؟؟
ارے وہ اپنے سر میسی تو پانی بھرتے نظر آرہے مجھے
غرض ہر طرف سے زلیخا کی قسمت کو سراہا جارہا تھا اسکے نصیب پر رشک کیے جا رہا تھا
ان میں وہ بھی بیٹھی تھی جو زلیخا سے اللہ واسطے کا بیر پالے ہوئے تھی حسد کا ناگ ایک بار پھر سے اسکے اندر سر اٹھانے لگا تھا۔
یار ہمیں تو زلی نے بلایا ہی نہیں اب اسے کسی دن مبارک باد دینے چلتے ہیں بلکہ اسی فرائیڈے کو رکھتے ہیں سب کیوں کیا خیال ہے۔۔
سب نے اثبات میں سر ہلائے
زلی یہاں لاہور ہی آئی ہے نا شادی کے بعد؟؟
ثانیہ نے چہرے پر دوستانہ سی مسکراہٹ سجا کر پروگرام بناتے سب سے رائے لی اور لگے ہاتھوں رملہ سے ایڈریس بھی پوچھنے لگی۔
نہیں وہ اپنے گاؤں لالیاں ہی ہے شاہو بھائی کی حویلی ہے وہاں کچھ عرصہ بعد آئیں گے وہ لوگ رملہ نے جواب دیا
اچھا یار نمبر ہی دے دو بندہ فون پر ہی بات کر لے ثانیہ نے بڑی لگاوٹ سے کہا تھا
زلی کا تو ابھی نہیں ہے شاہو بھائی کا سینڈ کرتی ہوں تمہیں صبر
آیت رملہ کو گھورتی رہ گئی لیکن وہ رملہ چوہدری ہی کیا جو اپنی عقلمندی سے بے وقوف ہونے کا ثبوت نا دے
اس بار بھی خود کو عقل کل سمجھتے ہوئے اس نے پوری ایمانداری سے اپنی بے وقوفی کا ثبوت دیتے ثانیہ کو شاہنوازکا نمبر سینڈ کردیا تھا۔
———————–
ہیلو میجر صاحب میں ثانیہ بات کررہی ہوں ۔
جی جی محترمہ فرمائیں کیا آپکو زلہ سے بات کرنی ہے؟
بلواؤں اسے؟
ارے نہیں نہیں میں نے صرف آپ سے بار کرنے کے لیے فون کیا ہے آپ پلیز زلی کو مت بتانا ورنہ وہ مجھ سے خفا ہوجائے گی۔
شاہنواز کو عجیب سا لگا لیکن خود پر قابو پاتے ہوئے بولا
جی کہیں کیا بات کرنی تھی آپ کو؟
وہ سر بات دراصل یہ ہے کہ زلی کو پڑھنے کا بہت شوق تھا لیکن کالج میں کوئے حادثے اور دادا کی وجہ سے زلی کو پڑھائی ادھوری چھوڑنی پڑی ؟
حادثہ کیسا حادثہ؟
شاہنواز نے اسے بیچ میں ٹوک کر پوچھا
اوہ ہو تو آپکو نہیں پتا؟
ثانیہ نے چونکنے کی اداکاری کرتے ہوئے بڑی مکاری سے کہا؟
نہیں مس آپ بتا دیں ؟ شاہنواز کا وہی عاجزانہ سے لہجہ برقرار تھا
نہیں نہیں ار اگر آپکو نہیں پتا تو خیر ہے میں بھی بتا کر بری نہیں بنوں گی
اتنا کہہ کر اس نے ایک ڈرامائی وقفہ لیا پھر بولی
خیر میں نے اس، لیے فون کیا ہے کہ ہم اب کا لاسٹ سمسٹر ہے تو ہم سب نے مل کر پارٹی کرنے کا سوچا ہے چونکہ زلی ہمارے گروپ کا اہم رکن تھی تو اب فرینڈز کا کہنا ہے کہ پارٹی میں چیف گیسٹ نیولی میرڈ کپل کو رکھنا چاہئے
ثانیہ کی بات پر شاہنواز پر مسکراہٹ آگئی اپف یہ ٹین ایج بچے بھی نا؟؟
پھر کچھ اور باتوں کے بعد زلی کو سرپرائز دینے کا کہہ کر ثانیہ نے شاہنواز سے اسے نا بتانے اور لے کر آنے کا وعدہ لے کر فون بند کر دیا۔