سورج آہستہ آہستہ ڈھل رہا تھا ۔ آسمان پر بادلوں کا راج تھا ۔ ہلکی ہلکی ہوا چل رہی تھی ۔ یہ منظر ہے اسلام آباد کی بہیرا یونیورسٹی کے لاء ( law ) ڈپارٹمنٹ کا ۔ طالب علموں کی تعداد خلاف معمول کم تھی ۔ کچھ طلباء راہداری سے گزرتے ہوئے سینیمار ہال کی جانب بڑھ رہے تھے ۔ ہال میں دونوں اطراف میں بہت سی کرسیاں لگی تھیں جن پر سٹوڈنٹس کی کثیر تعداد بیٹھی تھی ۔ سامنے سٹیج بنا ہوا تھا جہاں سائیڈ پر کچھ کرسیاں اور ایک میز تھی اور بیچ میں ڈائس رکھی تھی ۔ سٹوڈنٹس کی آمد جاری تھی ۔ اچانک ہال کی لائٹس بند ہوگئیں ۔ طالب علموں کی سرگوشیاں رک گئیں ۔اس خاموشی میں کچھ قدموں کی چاپ سنائی دی ۔ ہال کے کھلے دروازوں سے سٹوڈنٹس کا ایک گروہ داخل ہوا ۔ ہال کی تمام لائیٹس کا رخ ان کی طرف ہوگیا ۔ سٹوڈنٹس ایک ٹیم کی صورت میں چلتے ہوئے سٹیج کی جانب بڑھ رہے تھے ۔ سب سے آگے سیاہ برقع نقاب میں ایک لڑکی تھی جو کہ اپنی مغرور چال سے چلتے ہوئے اب سٹیج پر چڑھ رہی تھی ۔ہال میں خاموشی کےسٹیج پر چڑھتے سٹوڈنٹس کے قدوں کی آواز صاف سنائی دے رہی تھی ۔ سٹیج پر پڑی ان کرسیوں پر اب وہ سٹوڈنٹس بیٹھ چکے تھے ۔
أَعُوذُ بِاللَّهِ مِنَ الشَّيْطَانِ الرَّجِيمِ
پناہ مانگتا ہوں میں اللہ کی شیطان مردود سے ”
(ہال میں ایک لڑکے کی آواز گونجی )
بِسْمِ اللهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
شروع اللہ کے نام سے جو بڑا مہربان اور نہایت رحم کرنے والا
ٱلۡحَمۡدُ لِلَّهِ رَبِّ ٱلۡعَٰلَمِينَ
تمام تعریفیں اس اللہ کے لیے ہیں جو تمام جہانوں کا رب ہے
ٱلرَّحۡمَٰنِ ٱلرَّحِيمِ
جو بڑا مہربان اور نہایت رحم والا ہے
مَالِكِ يَوْمِ الدِّينِ
بدلے کے دن کا مالک ہے
إِيَّاكَ نَعْبُدُ وإِيَّاكَ نَسْتَعِينُ
ہم تیری ہی عبادت کرتے ہیں اور تجھ ہی سے مدد مانگتے ہیں
اهدِنَــــا الصِّرَاطَ المُستَقِيمَ
ہمیں سیدھا راستہ دکھا
صِرَاطَ الَّذِينَ أَنعَمتَ عَلَيهِمْ غَيرِ المَغضُوبِ عَلَيهِمْ وَلاَ الضَّالِّينَ
راستہ ان لوگوں کا جن پر تو نے اپنا انعام کیا ناکہ ان لوگوں کا جن پر تیرا غضب ہوا اور جو گمراہ ہوئے
صَدَقَ اللهُ العَظيمُ”
بیشک اللہ نے سچ کہا
تلاوت کے ختم ہونے کے بعد سیاہ برقع نقاب والی وہ لڑکی کرسی سے اٹھ کر ڈائس کی جانب بڑھی
Asalam o alikum every one, I Am Irsa Hashim from Law Department . Today is our last dat at the university . When we were in this university we had a lot to learn but today we have learned a lot
ہال میں ارسا کی بارعب آواز گونج رہی تھی ۔
لیکن دنیا ایک کلاس روم کی طرح ہے جہاں ہم ہر وقت کچھ نہ کچھ سیکھتے رہتے ہیں ہم بہت دفع گرتے ہیں بہت دفعہ اٹھتے ہیں ہم جیتتے ہیں لیکن ہارتے بھی ہیں اس جیت ہار کے درمیان بہت سے لوگ ٹوٹ جاتے ہیں لیکن کامیاب لوگ وہ ہیں جو ثابت قدم رہیں ۔ اگر آپ ثابت قدم رہنا چاہتے ہیں اگر آپ کایاب ہونا چاہتے ہیں تو خود پر یقین کرنا سیکھیں ۔ جان لیں کہ کوئی آپ کو توڑ نہیں سکتا ، کوئی آپ کو استعمال نہیں کر سکتا ، کوئی آپ کو خرید نہیں سکتا اگر آپ نہ چاہیں
اس نے گہری سانس لی ۔ اس کی بڑی بڑی آنکھیں چمک رہی تھیں
یہاں بیٹھے تمام سٹوڈنٹس ایک ہی ڈپارٹمنٹ کے ہیں لیکن آپ سب کا یہاں آنے کا مقصد الگ الگ ہیں کچھ یہاں پر صرف ڈگری کے لیئے آئے ہیں کچھ یہاں اپنے کریئر کی وجہ سے آئے ہیں کہ ایک lawyer کا کرئیر شاندار ہوتا ہے ، لیکن کچھ لوگ یہاں انصاف کے لیئے آئے ہیں اور وہی لوگ عدالت کی کرسی کے لائق ہیں ۔
اس کی رعب دار آواز سب کو مسحور کررہی تھی ۔ ایسے میں اس کی نظر آخری میں بیٹھی ایک لڑکی پر پڑی جو کہ اس کی تصاویر لے رہی تھی ۔ ایکدم اس کی سفید رنگت سرخ ہوئی تھی
آپ سب اس ملک کا مستقبل ہیں ۔ اس گرتی ہوئی مملکت کو آپ نے تھامنا ہے ۔ اور اس کے کیئے خود پر یقین کرنا سیکھیں ۔ یاد رکھیں کوئی آپ کو خرید نہیں سکتا ، کوئی آپ کو استعمال نہیں کرسکتا ۔ اللہ آپ سب کا ہامی و ناصر ہو ۔
ارسا اب سٹیج سے اتر رہی تھی ۔ خاموشی نے سٹوڈنٹس کا سکوت توڑا ۔ وہ سب کھڑے ہو کر تالیاں بجانے لگے ۔ اور وہ سیاہ جاگرز پہنے آہستہ باہر کی جانب بڑھ رہی تھی ۔ آخری قطار کے پاس آکر اس کے ہاتھوں نے کرسی پر بیٹھی اس لڑکی کا موبائل اٹھایا اور وہ لمبے لمبے قدم اٹھاتی باہر کی جانب بڑھ گئی
——————— ——————–
رات کا سماں تھا ۔ آسمان پر بادلوں کا راج تھا ۔ چاند کے علاوہ ہر چیز اندھیرے میں ڈوبی ہوئی تھی ۔ ایسے میں شہر سے دور ایک گاوں کی کچی پگڈنڈی پر کچھ لوگ گاڑیوں میں بیٹھے پچھلے ایک گھنٹے سے اپنی منزل کی جانب رواں دواں تھے ۔ فضا کی اس خاموشی کو فائرنگ کی آواز نے توڑا ۔ کچھ نقاب پوش سیاہ چغے پہنے ان گاڑیوں کےآگے آگئے ۔ تھوڑی دیر خاموشی رہی شاید وہ آپس میں بات چیت کر رہے تھے ۔ کچھ دیر بعد فضا میں فائرنگ کی آواز گونجی ۔ اگلے پانچ منٹ تک فائرنگ چلتی رہی پندرہ منٹ بعد وہاں گاڑیوں کے بجائے کچھ لوگوں کی لاشیں پڑی تھیں نقاب پوش اندھیرے میں غائب ہوچکے تھے ۔
———————–
شام کے پانچ بج رہے تھے ۔ جنوری کا مہینہ تھا ۔ ٹھنڈی ہوا چل رہی تھی ۔ خوشگوار موسم میں پرندی آسمان پر چہچہا رہے تھے ۔ لاہور کی سڑکوں سے گزرتے ہوئے کورٹ کی بلڈنگ کے اندر جاو تو ارسا ہاشم کی نیم پلیٹ لگی تھی ۔ آفس کا دروازہ کھول کر اندر جاو تو وہ راکنگ چئیر پر وہ جھول رہی تھی ۔یہ ایک بڑا سا آفس تھا جہاں سفید ٹائلز لگی تھیں دیواروں پر بھی سفید ہی پینٹ ہوا ہوا تھا ۔ بیچ میں شیشے کی ٹیبل پڑی تھی ۔ جس کے پار راکنگ چئیر کی پشت سے ٹیک لگائے سیاہ برقع میں نقاب کو ٹھوڑی پر ٹکائے وہ آنکھیں موندے بیٹھی تھی ۔ بند بڑی بڑی آنکھیں ، کھڑی مغرور ناک ، سفید رنگت ۔ وہ ہر قسم کی ٹینشن سے آزاد نظر آرہی تھی ۔ کچھ وقت بعد اس نے اپنی آنکھیں کھولیں ۔ دیوار پر لٹکی وال کلاک سے ٹائم دیکھا ۔ پھر پاس پڑا ہینڈ بیگ اٹھایا ۔ نقاب اوپر کیا تیبل پر پڑی فائل کو ہاتھ میں لیا اور باہر کی جانب بڑھ گئی ۔ راہداری سے گزرتے ہوئے کار پورچ کی طرف آئی ۔ پاس کھڑی civic میں بیٹھ گئی ۔ اس کے بیٹھتے ہی گاڑی چلنے لگی ۔ کورٹ سے نکلتے ہی ایک پولیس موبائل ان کے پیچھے چلنے لگی ۔ بیس منٹ بعد گاڑی ایک بڑے سے بینگلو کے پاس رکی ۔ ڈرائیور کے ہارن دینے پر چوکیدار نے دروازہ کھولا تو گاڑی اندر کی جانب بڑھ گئی ۔ گاڑی کے رکتے ہی وہ گاڑی سے اتر کر وہ اندر کی جانب بڑھی ۔
دنیا میں سب سے مشکل کام کون سا ہے ارسا آپی ؟ لاونچ میں بیٹھ کر اخبار پڑھتے ہوئے اس کے چھوٹے بھائی عبداللہ نے پوچھا
کمرے کی جانب اس کے بڑھتے قدم رکے ۔ اس نے ایک نظر عبداللہ کو دیکھا
اسکارف باندھنا ۔ یہ کہ کر وہ اندر کی جانب بڑھ گئی ۔ جبکہ پیچھے بیٹھا عبداللہ حیرت سے اسے دیکھ رہا تھا
————————- ——————-
کمرے میں اندھیرا چھایا ہوا تھا ۔ کمرے میں چھائے سکوت کی وجہ سے کسی ذی نفس کے ہونے کا پتا نہیں چل رہا تھا ۔ تھوڑا سا آگے دیوار پر ایک بڑی سی ایل سی ڈی نسب تھی جس کی روشنی ان چاروں نفوس کے چہرے پر پڑ رہی تھی ۔ تھوڑی دیر بعد ایل سی ڈی پر اندھیرا چھا گیا ۔ اور ایک لڑکا دروازہ کھول کر اندر آیا
جی سر آپ نے بلایا ۔ اندر آنے والے لڑکے نے کہا
سر شیراز آپ سے ملنا چاہتا ہے ۔ ایک اور لڑکے نے اندر آکر کہا
بھیجو اسے ۔ ان چاروں میں سے ایک آدمی نے کہا
راجر سر ۔ اس لڑکے نے کہا اور باہر نکل گیا
تھوڑی دیر بعد وہ ایک لڑکے کے ساتھ اندر آیا جو لنگڑا کر چل رہا تھا
سر وہ وہ ۔ زخمی لڑکا بولنے لگا
انہوں نے بیچ راستے میں ہمیں روک لیا ۔وہ سارا سامان لے گئے انہوں نے سب کو مار دیا میں بڑی مشکل سے جان بچا کر بھاگا ہوں
لڑکے کی بات پر اس آدمی کا چہرہ غصے سے سرخ ہوا
کون تھے وہ ؟ اس آدمی نے غصے سے پوچھا
پتا نہیں سر ۔ انہوں نے سیاہ چغے پہن رکھے تھے اور نقاب کیا ہوا تھا ۔ اس لڑکے نے ڈرتے ہوئے کہا
آ آ آ آ آ آ ——وہ آدمی چلایا
زالان حیدر ۔ اس نے غصے سے اپنی مٹھیاں بھینچیں
—-‐—————- —————–
ڈاکٹر شہباز ملک پہلا پنجابی پی ایچ ڈی
ڈاکٹر شہباز ملک پنجابی زبان و ادب کی دنیا میں ایک مشہور و معروف نام ہیں۔ وہ پاکستان میں پنجابی...