(Last Updated On: )
ہوائی جہاز پر سوار ہوتے وقت مجھے کچھ شبہ ہوا۔ نیلے لباس والے لڑکی سے پوچھا تو اس نے بھی اثبات میں سر ہلایا، جب ہم جہاز سے اترے تو مجھے یقین ہو گیا اور میں نے پائپ پیتے آکسفورڈ لہجے میں انگریزی بولتے ہوئے پائیلٹ کو دبوچ لیا۔ ہم مدتوں کے بعد ملے تھے۔ کالج میں دیر تک اکٹھے رہے۔ کچھ عرصے تک خط و کتابت بھی رہی۔ پھر ایک دوسرے کے لئے معدوم ہو گئے۔ اتنے دنوں کے بعد اور اتنی دور اچانک ملاقات بڑی عجیب سی معلوم ہو رہی تھی۔
طے ہوا کہ یہ شام کسی اچھی جگہ گزاری جائے اور بیتے دنوں کی یاد میں جشن منایا جائے۔ میں نے اپنا سفر ایک روز کے لئے ملتوی کر دیا۔
جب باتیں ہو رہی تھیں تو میں نے دیکھا کہ وہ کافی حد تک بدل چکا تھا۔ مٹاپے نے اس کے تیکھے خد و خال کو بدل دیا تھا۔ اس کی آنکھوں کا وہ تجسس، نگاہوں کی وہ بے چینی، وہ ذہین گفتگو سب مفقود ہو چکے تھے۔ وہ عامیانہ سی گفتگو کر رہا تھا۔ یوں معلوم ہوتا تھا جیسے وہ اپنی زندگی اور ماحول سے اس قدر مطمئن ہے کہ اس نے سوچنا بالکل ترک کر دیا ہے۔ دیر تک ہم پرانی باتیں دوہراتے رہے۔ سہ پہر کو وہ مجھے ایک اینگلو انڈین لڑکی کے ہاں لے گیا جسے وہ شام کو مدعو کرنا چاہتا تھا۔ لڑکی نے بتایا کہ شام کا وقت وہ گرجے کے لئے وقف کر چکی ہے۔ ہم ایک اور لڑکی کے ہاں گئے۔ اس نے بھی معذرت چاہی کیوں کہ اس کی طبیعت نا ساز تھی۔ پھر تیسری کے گھر پہنچے۔ اگرچہ دوسرے کمرے سے خوشبوئیں بھی آ رہی تھیں اور کبھی کبھار آہٹ بھی سنائی دے جاتی تھی لیکن دروازہ نہیں کھلا۔ وہ ایک اور شناسا لڑکی کے ہاں جانا چاہتا تھا لیکن میں نے منع کر دیا تھا کہ کوئی ضرورت نہیں اور پھر اگر کوئی اور ساتھ ہوا تو اچھی طرح باتیں نہ کر سکیں گے۔ واپس آ کر اس نے ٹیلی فون پر کوشش کی۔ چوتھی لڑکی گھر پہنچ چکی تھی لیکن شام کو اس کی امی اسے نانی جان کے ہاں لے جا رہی تھی۔
شام ہوئی تو ہم وہاں کے سب سے بڑے ہوٹل میں گئے۔ رقص کا پرو گرام بھی تھا۔ اس نے پینا بھی شروع کر دیا۔ میرے لئے بھی انڈیلی اور اصرار کرنے لگا۔ یہ اس کی پرانی عادت تھی۔
میں نے گلاس اٹھا کر ہونٹوں سے چھوا، کچھ دیر گلاس سے کھیلتا رہا پھر ٹہلتا ٹہلتا دریچے تک گیا۔ ایک بڑے سے گملے میں انڈیل کر واپس آگیا اس نے دوسری مرتبہ انڈیلی مجھے بھی دی میں پھر اٹھا اور اپنا حصہ کھڑکی سے باہر پھینک آیا۔
وہ اپنی روزانہ زندگی کی باتیں سنا رہا تھا۔ کمپنی کی لڑکیوں کے متعلق جو نہایت طوطا چشم تھیں۔ شراب کے متعلق جو دن بدن مہنگی ہو تی جا رہی تھی۔ اپنے معاشقوں کے متعلق جو اسے بے حد پریشان رکھتے تھے۔ اس کی بیوی بھی اسی شہر میں رہتی تھی لیکن وہ اسے مہینوں نہ ملتا۔ جب کبھی بھولے سے گھر جاتا تو اتنے سوال پوچھتی کہ عاجز آ جاتا۔ اتنا نہیں سمجھتی کہ ایک ہوا باز کی زندگی کس قدر خطر ناک زندگی ہے۔ اگرچہ یہ اس نے خود منتخب کی تھی۔
یہ باتیں ہو رہی تھیں کہ دفعتاً ہم نے اس لڑکی کو رقص گاہ میں دیکھا جسے اس وقت گرجے میں ہونا چاہئے تھا۔ وہ ایک لڑکے کے ساتھ آئی ہوئی تھی۔ اس کے بعد وہ لڑکی آ گئی جس کی طبیعت نا ساز تھی پھر معلوم ہوا کہ چوتھی لڑکی بھی ہمارے سامنے رقص کر رہی ہے اپنی امی یا نانی جان کے ساتھ نہیں، ایک دوسرے ہوا باز کے ساتھ۔
وہ اپنی قسمت کو کوسنے لگا۔ نہ جانے یہ لڑکیاں ہمیشہ اسی کو کیوں دھوکہ دیتی ہیں۔ ہمیشہ ٹرخا دیتی ہیں۔ آج تک کسی لڑکی نے اسے دل سے نہیں چاہا۔ یہ اس کی زندگی کی سب سے بڑی ٹریجڈی ہے۔ وہ گلاس پر گلاس خالی کئے جا رہا تھا۔ میرے حصے کی ساری شراب گملوں اور پودوں کو سیراب کر رہی تھی۔ اسے حیرت تھی کہ مجھ جیسا لڑکا جو کالج کے دنوں میں باقاعدہ سگریٹ بھی نہ پیتا تھا اب ایسا شرابی ہو گیا کہ اتنی پی چکنے کے بعد بھی ہوش میں ہے۔ اس کے خیال میں ایسے شخص کو پلانا قیمتی شراب کا ستیا نا س کرنا تھا۔
پھر ان اجنبی چہروں میں ایک جا نا پہچانا مانوس چہرہ دکھا ئی دیا۔ یہ جینی تھی۔ جو رقص کا لباس پہنے ایک ادھیڑ عمر کے شخص کے ساتھ ابھی ابھی آئی تھی۔ ہم دونوں اٹھے۔ ہمیں دیکھ کر جینی کا مسکراتا ہوا چہرہ کھل گیا۔ وہ بڑے تپاک سے ملی۔ تعارف ہوامیرے خاوند سے ملئےاور یہ دونوں میرے پرانے دوست ہیں
میں نے ہاتھ ملاتے وقت اس کے خاوند کو مبارک باد دیاور کہا کہ وہ دنیا کا سب سے خوش نصیب انسان ہے۔
میں نے اسے غور سے دیکھا وہ چالیس سے اوپر کا ہو گا۔ اچھا خاصا سیاہ رنگ، دھندلی تھکی تھکی آنکھیں، بے حد معمولی شکل، پستہ قد۔ اگر وہ جینی کا خاوند نہ ہوتا تو شاید ہم اس کی طرف دوسری مرتبہ نہ دیکھتے لیکن جینی کی مسکراتی ہوئی آنکھیں اس کے سوا اور کسی کی طرف دیکھتی ہی نہ تھیں۔ وہ اس کی تعریفیں کر رہی تھی کہ وہ قریب کی بندرگاہ کا سب سے بڑا بیرسٹر ہے۔ اس علاقے میں سب سے مشہور شخص ہے۔ میں نے جینی کو رقص کے لئے کہا۔ اس نے آنکھوں آنکھوں اپنے خاوند سے اجازت لی۔ رقص کرتے ہوئے میں نے محسوس کیا کہ وہ بے حد مسرور ہے۔ اس قدر مسرور شاید میں نے اسے پہلے کبھی نہیں دیکھا اور اس کے چہرے کی چمک دمک ویسی ہی ہے۔ اس کے ہونٹوں کی وہ دلآویز اور مخمور مسکراہٹ جوں کی توں ہے۔ وہ مسکراہٹ جو اس قدر مشہور تھی جسے مونا لزا کی مسکراہٹ سے تشبیہ دی جاتی تھینہایت پر اسرار اور نا فہم مسکراہٹ، جس کی گہرائیوں کا کسی کو علم نہ ہو سکا۔ جو ہمیشہ راز رہی۔
اور یہی مسکراہٹ میں نے سالہا سال سے دیکھی تھی۔ اس مسکراہٹ سے میں مدتوں سے شناسا رہا۔ جینی کے خاوند کے دوست آ گئے اور مقامی باتیں ہونے لگیں۔ کچھ دیر کے بعد میں اور میرا دوست اٹھ کر واپس اپنی جگہ چلے آئے، جہاں بوتل اس کی منتظر تھی۔
میں نے اس سے جینی کے متعلق باتیں کرنا چاہیں لیکن اس نے جیسے سنا ہی نہیں۔ وہ ان تین لڑکیوں کے لئے اداس تھا جو اسے دھوکہ دے کر دوسروں کے ساتھ چلی آئیں۔ آج یہ پہلی مرتبہ ایسا نہیں ہوا، پہلے بھی کئی بار ہو چکا تھا اور یہ لڑکیاں اجنبی نہیں تھیں، پرانی دوست تھیں اس کے ساتھ باہر جا چکی تھیں۔ اس سے بیش قیمت تحائف لے چکی تھیں۔ دراصل اب ایسی ٹھوکریں اسے ہر طرف سے لگ رہی تھیں، ریس، برج، سٹّا، ہر جگہ وہ ہار رہا تھا۔ ایک ادنٰے فلم کمپنی کی ایکسٹرا لڑکی جس کے لئے اس نے سمندر کے کنارے مکان لیا، اسے چھوڑ کر کسی بوڑھے سیٹھ کے ساتھ چلی گئی اور میں دزدیدہ نگاہوں سے اس طرف دیکھ رہا تھا جہاں جینی تھی۔ وفورِ مسرت سے اس کا چہرہ جگمگا رہا تھا۔ اس کی آنکھیں روشن تھیں۔ وہی آنکھیں جو کبھی غمگین اور نم ناک رہا کرتیں، اب مسرور تھیں۔ رخسار جن پر مدتوں آنسوؤں کی کی لڑیاں ٹوٹ کر بکھرتی رہیں، اب تاباں تھے۔ وہ کھلی ہوئی مسکراہٹ شاہد تھی کہ دل سے اس شدید الم کا احساس جا چکا ہے جو جینی کی قسمت بن چکا تھا۔ اس خوشی میں اب غم کی رمق تک نہیں دکھائی دیتی تھی۔
لیکن اتنی زائد مسرت کیسی تھی؟ یہ انبساط کیسا تھا؟ اور اس پر اسرار مسکراہٹ کے پیچھے کیا تھا؟ میں صرف اس کے چہرے کو دیکھ سکتا تھا۔ اس کی روح بہت دور تھی۔ وہاں تک میری نگاہیں نہیں پہنچ سکتی تھیں۔ کیا وہاں کوئی عظیم طوفان بپا تھا؟ اذیت کن، کرب ناک شدید تلاطم؟ یا جلتے ہوئے شعلوں کی تپش نے بہت کچھ بھسم کر دیا تھا؟ یا وہاں سب کچھ یخ ہو چکا تھا؟ برف کے تودوں کے سوا کچھ بھی نہ رہا تھا؟ اس کا جواب میں نے اس کی مسکراہٹ سے مانگا۔
وہ لگاتار اپنے خاوند کے ساتھ رقص کرتی رہی۔ اس کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر کئی مرتبہ وہ بالکل قریب سے گزرے۔ اس نے میری طرف دیکھا اور مسکرائی پھر جیسے وہ مسکراہٹ پھیلتی چلی گئی۔ اس نے ماضی اور حال کی حدوں کو محیط کر لیا۔ وہ سب تصویریں سامنے آنے لگیں جو ذہن کے تاریک گوشوں میں مدفون تھیں۔
میں نے برسوں پہلے اپنے آپ کو یونیورسٹی کے مباحثے میں دیکھا۔ میرے ساتھ میرا پرانا دوست رفیق اور ہم جماعت جی بیؔ تھا۔ وہ ان دنوں بہترین مقرر تھا۔ سٹیج پر ہمیشہ فاتح کی طرح جاتا اور فاتح کی طرح لوٹتا۔ اس کی تقریر ختم ہوئی تو ایک لڑکی سٹیج پر آئی۔ گھنگھریالے بال، جھکی ہوئی آنکھیں، لبوں پر محجوب مسکراہٹ، ملا جلا انگریزی لباس پہنے۔
ہال میں سرگوشیاں ہونے لگیں، ہمیں بتایا گیا کہ یہ نئی نئی کہیں سے آئی ہے۔ اس کا نام کچھ اور ہے لیکن اسے لیلےٰ کہتے ہیں۔ شاید اس کی ملیح رنگت اور گھنگھریالی پریشان زلفوں کی وجہ سے۔ کچھ دیر وہ شرماتی رہی، بول ہی نہ سکی، پھر ذرا سنبھل کر اس نے جی بی کی تقریر کی مخالفت شروع کی ایسے ایسے نکتے لائی کہ سب حیران رہ گئے۔ جی بی کی تقریر بالکل بے معنی معلوم ہونے لگی۔
جب وہ سٹیج سے اتری تو دیر تک تالیاں بجتی رہیں۔ پھر معلوم ہوا کہ پہلا انعام جیؔ بی اور اس لڑکی میں تقسیم کیا جائے گا لیکن جی بی نے ججوں سے درخواست کی کہ انعام کی وہی حقدار ہے اور اسی کو ملنا چاہئے۔ جیؔ بی کے رویے کو سراہا گیا۔ ہجوم میں ہیجان پھیل گیا۔ مدتوں کے بعد ایک لڑکی پہلا انعام جیت رہی تھی، وہ بھی ایسی لڑکی جو بالکل نو وارد تھی۔
جب لیلیٰ اسٹیج پر چاندی کا بڑا سا وزنی کپ لینے آئی تو اس کی پریشان زلفیں اور پریشان ہو گئیں۔ نگاہیں جھک گئیں۔ جب اس سے اتنا بڑا کپ نہ سنبھالا گیا، تو جی بی نے لپک کر چوبی حصہ خود اٹھا لیا۔ لیلیٰ نے جی بی کو جھکی ہوئی نگاہوں سے ایک مرتبہ دیکھا۔
اس بھولی بھالی الہڑ لڑکی سے ہمارا تعارف یوں ہوا۔ اس کے بعد ملاقاتوں کا تانتا بندھ گیا۔ جی بی کالج کا ہیرو تھا۔ لڑکو ں اور استادوں میں ہر دلعزیز۔ کالج میں سب سے ذہین، چست، ہنس مکھ اور خوش پوشاک۔ بڑے امیر والدین کا اکلوتا بیٹا۔ اس کی کار پروفیسروں کی کاروں سے بھی بڑھیا تھی۔ جہاں بھی ادبی تقریب ہوتی مجھے اور بی جی کو مدعو کیا جاتا۔ ہمارے کہنے پر لیلیٰ کو بھی بلایا جاتالیلیٰ کے خد و خال حسین نہیں تھے۔ اگر اسے نقادانہ طور سے دیکھا جاتا تو وہ حسین ہر گز نہیں تھیلیکن اگر حسین خد و خال کے بغیر بھی کوئی خوبصورت ہو سکتا ہے تو وہ لیلیٰ تھی۔ اس کی لہراتی ہوئی زلفیں، جھکی ہوئی شرمیلی آنکھیں، مسکراتے ہوئے ننھے منے ہونٹ، ملیح چمپئی رنگت اور نہایت معصوم باتیںسب مل کر نرالی جاذبیت پیدا کر دیتے۔ بعض اوقات تو وہ بے حد پیاری معلوم ہوتی۔
وہ ہوسٹل میں رہتی تھی، سب سے الگ تھلگ۔ کبھی ہم نے اسے کسی کے ساتھ نہیں دیکھا۔ اس کے والدین کے متعلق طرح طرح کی افواہیں سننے میں آتیں۔ ان کے خاندان میں انگریزی اور پرتگالی خون کی آمیزش تھی۔ اس کی والدہ جنوبی ہندوستان کی تھی۔ اس لئے نہ ان کا کوئی خاص مذہب تھا نہ کوئی نسل۔ لیلیٰ کا نام بھی عجیب تھا، اس کا لباس بھی ملا جلا ہوتا وہ اپنے والدین کے ذکر سے احتراز کرتی۔ یہ مشہور تھا کہ ان کی خانگی زندگی نہایت نا خوشگوار ہے۔ وہ ہمیشہ جدا رہتے ہیں ایک دفعہ ان کا تنازعہ عدالت تک بھی پہنچ چکا ہے۔
پھر کسی نے یونہی کہہ دیا کہ لیلیٰ جی بی کی طرف دیکھتی رہتی ہے۔ یہ افواہ بنی، پھر عام ہو گئی۔ ہر جگہ اس نئے معاشقے پر تبصرے ہونے لگے۔ سب نے دیکھا کہ لیلیٰ کے دل کا راز عیاں ہو چکا تھا۔ وہ بی جی کو چاہتی ہے۔ طرح طرح کے بہانوں سے وہ اسے ملتی۔ جانے پہچانے راستوں سے ایسے گزرتی کہ بی جی نظر آ جاتا۔ بی جی کو دیکھ کر اسے دنیا بھر کی نعمتیں مل جاتیں۔ یہ نو زائیدہ محبت اس کی زندگی میں طرح طرح کی تبدیلیاں لے آئی۔ وہ مسرور رہنے لگی۔ ادبی سر گرمیوں میں نمایاں حصہ لینے لگی۔ اس کا اجنبی لہجہ درست ہوتا گیا۔ اس کی گفتگو میں مٹھاس آ گئی۔
لیکن جی بی کچھ اتنا متاثر نہیں ہوا۔ اس کے لئے یہ کوئی نئی بات نہیں تھی۔ کتنی ہی مرتبہ اسے محبت خراج کے طور ملی تھی۔
وہ لیلیٰ سے ملتا، اسے ملنے کے موقع دیتا، خوب باتیں کرتا۔ بڑی شوخ اور چنچل قسم کی گفتگو، جس کا وہ عادی تھا۔
چاندنی رات میں دور ایک باغ میں تقریب ہوئی۔ لڑکیوں کے ساتھ لیلیٰ بھی آئی۔ جی بی ہمارے ساتھ نہیں آیا، معلوم ہوا کہ وہ ایک انگریز لڑکی کو لے کر آئے گا جس کا شہر بھر میں چرچا تھا۔ جو نوجوانوں کی گفتگو کا محبوب ترین موضوع تھی۔ یہ اس کی نئی محبوبہ تھی۔
جی بی دیر میں پہنچا، کار سے وہ اکیلا اترا۔ وہ لڑکی اس کے ساتھ نہیں تھی، وہ مایوس اور کھویا سا تھا اور فوراً واپس جانا چاہتا تھا لیکن اسے اجازت نہ ملی، وہ تو ایسی محفلوں کی جان تھا۔ جب وہ اپنا غزل سنا رہا تھا تو لیلیٰ اسے ایسی نظروں سے دیکھ رہی تھی جیسے آئینے میں خود اپنا عکس دیکھ رہی ہو۔ جیسے خود اپنی روح کو کسی اور روپ میں دیکھ رہی ہو۔ جی بی نے خلاف توقع غم آمیز اشعار سنائے جن میں شکوے تھے، التجا تھی اور وہ اشعار کسی خاص ہستی کے لئے تھے جو وہا ں نہیں تھی۔
لیلیٰ نے کئی مرتبہ اس سے باتیں کرنے کی کوشش کی لیکن وہ بدستور خاموش رہا۔ میں نے اسے ٹوکا، ایک طرف لے جا کر ڈانٹا بھی لیکن وہ جیسے وہ وہاں تھا ہی نہیں۔ ہم دونوں اکیلے کھڑے تھے کہ لیلیٰ آ گئی۔ جی بی کچھ دیر اس کی طرف یونہی دیکھتا رہا پھر اس کا ہاتھ پکڑا اور ایک اونچے سرو کے پیچھے لے گیا۔ وہ مبہوت بنی چپ چاپ چلی گئی۔ جی بی نے اسے بازوؤں میں لے کر چوم لیا۔ پہلے بوسے سے وہ کانپ اٹھی۔ ان جانی لذت سے مغلوب ہو کر اس نے آنکھیں بند کر لیں اور جی بی کے سینے پر سر لگا دیا۔ وہ اسے پھیکے ہونٹوں سے چومتا رہا ایسے الفاظ اس کے لبوں سے نکلتے رہے جو لیلیٰ کے لئے نہیں کسی اور کے لئے تھے۔ اس کے بازوؤں میں لیلیٰ نہیں تھی، کوئی اور بے وفا حسینہ تھی جس کے لئے وہ بے تاب تھا۔
لیلیٰ شدتِ احساس سے آنکھیں بند کئے خاموش کھڑی رہی، وہ جی بی اور اس کے بوسوں کی دنیا سے دور نکل گئی۔ وہ شعر و نغمے کی وادیوں میں جا پہنچی جہاں اس کے سہمے ہوئے خوابوں کی تعبیریں آباد تھیں، جہاں فضاؤں میں اس کی معصوم امنگیں تحلیل ہو چکی تھیں، جہاں کیف و خمار چھائے ہوئے تھے جہاں صرف رعنائیاں تھیں اور محبت پاشیاں!
اس کے بعد لیلیٰ کی نئی زندگی شروع ہوئی۔ اس کی دنیا میں ہر چیز پر نیا نکھار آگیا جو پہلے محض تخیل تھا، وہ تخلیق ہو گیا۔ غنچے چٹکے، خوش الحان طیور چہچہانے لگے۔ رنگ برنگ پھولوں کی خوشبوؤں نے ہوائیں بوجھل کر دیں۔ زمین سے آسمان تک قوسِ قزح کے رنگ مچلنے لگے، ہر شے کا خوابیدہ حسن جاگ اٹھا اور اس کے بعد نہ دنیا رہی اور نہ زندگی محض خواب تخیل اور حقیقت کی حدوں پر چھا گیا۔
بہت دیر کے بعد لیلیٰ اس خواب سے چونکی۔ دفعتاً اس پر اس بھیانک حقیقت کا انکشاف ہوا کہ وہ جی بی کے لئے محض ایک کھلونا تھی۔ جی بی کو اس سے محبت نہیں تھی اور وہ جی بی کے لئے ان متعدد لڑکیوں میں سے ایک تھی جو اس کا تعاقب کرتی تھیں اور بغیر کسی صلے کے اسے چاہتی تھیں۔
جب بات بہت مشہور ہوئی تو جی بی کترانے لگا۔ اس نے تقریبوں میں آنا بند کر دیا۔ لیلیٰ کو دیکھ کر کار تیز کر دیتا۔ اس کی طرف سے منہ پھیر لیتا۔
اپنی پہلی محبت کی شکست پر لیلیٰ کو یقین نہ آیا۔ اس کے وہم و گمان میں بھی نہ تھا کہ یوں بھی ہو سکتا ہے۔ اس صدمے کو اس نے اپنی روح کی گہرائیوں میں چھپا لیا لیکن اس کی محبت جوں کی توں رہی۔ وہ اس سے ملنے کے بہانے تلاش کرتی۔ اسے خط لکھتی، تحائف بھیجتی۔
ایک روز سب نے لیلیٰ کے خطوط کو نوٹس بورڈ پر دیکھا۔ یہ وہ محبت بھرے خطوط تھے جو اس نے جی بی کو لکھے۔ بہت سے لڑکے یہ خطوط دیکھنے گئے میں بھی گیا۔ سب نے مزے لے لے کر خطوط کو پڑھا، دلچسپ فقرے نقل کئے۔ خوب ہنسے بھی۔
بعد میں جب مجھے کچھ خیال آیا تو میں نے جی بی کو برا بھلا کہا، اسے یہ حرکت ہر گز نہیں کرنی چاہئے تھی۔ وہ کہنے لگا کہ لیلیٰ نے اسے اس قدر بد نام کر دیا ہے کہ اب وہ اس کے نام سے نفرت کرتا ہے۔ وہ اس سے ملتا ضرور رہا ہے لیکن کسے علم تھا کہ معمولی سا مذاق ایسی شکل اختیار کر لے گا اور وہ مفت میں بدنام ہو جائے گا۔ محض لیلیٰ کی وجہ سے بقیہ لڑکیاں اس سے دور دور رہنے لگی ہیں۔ وہ سمجھتی ہیں کہ پہل بی جی کی طرف سے ہوئی تھی۔
جی بی میرا گہر ا دوست تھا۔ ہم دونوں ہم عمر تھے، ہمارے خیالات ایک سے تھے۔ میں خاموش ہو گیا۔ دیر تک خطوط کا چرچا رہا۔ لیلیٰ کئی ہفتے کالج میں نہیں آئی۔ تنہا گوشوں میں بیٹھ کر رویا کرتی۔ اس نے کسی سے شکایت نہیں کی۔ جو کچھ اسے کہا گیا اس نے خاموشی سے برداشت کیا۔
جی بی نے لیلیٰ کی سہیلیوں کی منتیں کیں کہ اسے سمجھائیں کہ کسی طرح اسے دور رکھیں۔ اس نے ان راستوں سے گزرنا چھوڑ دیا جہاں لیلیٰ کے نظر آنے کا احتمال ہوتا۔ اپنے کمرے کی وہ کھڑکیاں مقفل کر دیں جو سڑک کی طرف کھلتی تھیں جن کی طرف سے لیلیٰ گزرتے ہوئے اسے دیکھ لیا کرتی۔ ایک دن مجھے ترس آگیا۔ میں جی بی سے خوب لڑا کہ جہاں ہم اتنی لڑکیوں سے ملتے رہتے ہیں وہاں کبھی کبھی لیلیٰ سے مل لینے میں کیا حرج ہے۔ وہ کہنے لگا۔ تمہیں معصومیت اور سادگی پسند ہے مجھے نہیں۔ مجھے نا پخت اور الہڑ لڑکیاں اچھی نہیں لگتیں۔ ذرا ذرا سی بات پر آنسو نکل آتے ہیں۔ خوش ہوئیں تو رونے لگیں۔ غمگیں ہوئیں تو آنسو بہنے لگے۔ دنیا کی کسی چیز کا بھی انہیں علم نہیں۔ ہر چیز خود بتانی پڑتی ہے اور میرے پاس اتنا وقت نہیں مجھے تجربہ کار اور کھیلی ہوئی لڑکیاں زیادہ پسند ہیں۔
جی بی کے اس رویے کا اثر یہ ہوا کہ لیلیٰ اس سے ڈرنے لگی۔ وہ اسے دور دور سے دیکھتی۔ کہیں آمنا سامنا ہوتا تو وہ کترا جاتی۔ دوسروں سے جی بی کے متعلق پوچھتی رہی۔ کئی مرتبہ میں نے خود اسے جی بی کے بارے میں باتیں بتائیں۔ اس کی تصویریں بھی دیں جس پر وہ مجھ سے خفا ہو گیا۔ پھر جی بی کو کچھ عرصے کے لئے اپنی تعلیم چھوڑ دینی پڑی۔ اس کے کچھ رشتہ دار دوسرے ملک میں بہت بڑے تجّار تھے۔ اسی سلسلے میں جی بی کے والد اسے باہر بھیجنا چاہتے تھے اور ان کے لئے تعلیم اتنی اہم نہ تھی۔ ہم دونوں کو ایک دوسرے سے بچھڑنے کا بہت افسوس ہوا۔ ایک شام ہم اداس بیٹھے تھے کہ میں نے اسے لیلیٰ سے آخری مرتبہ ملنے کو کہا۔ اس نے انکار کر دیا۔ جب میں نے پرانی دوستی کا واسطہ دیا تو وہ راضی ہو گیا۔ میں نے لیلیٰ کو بتایا تو اسے یقین نہ آیا۔ اس نے آنسو خشک کئے، اپنا بہترین لباس پہنا۔ سہیلیوں سے مانگ کر زیور پہنے۔ ان کے مشورے سے سنگار کیا۔ اپنے چہرے پر مسکراہٹ اور دل میں آرزوئیں لئے اپنے محبوب سے ملنے گئی۔ اس رات بی جی پئے ہوئے تھا۔ بعد میں اس نے بتایا کہ اس نے محض اس ملاقات کی وجہ سے پی تھی تاکہ وہ لیلیٰ سے پیار بھری باتیں کر سکے۔
اس نے لیلیٰ سے بہت سی باتیں کیں۔ اسے ہمیشہ مسرور رہنے کو کہا۔ جلد لوٹنے کے وعدے کئے۔ لیلیٰ کو ایک بار پھر اس فردوسِ گمشدہ کی جھلک دکھا دی جسے محبت کے پہلے بوسے نے تخلیق کیا تھا۔ لیلیٰ نے اقرار کیا کہ وہ ہمیشہ خوش رہے گی اور اس کا انتظار کرے گی۔ اگر اس کی وجہ سے جی بی کو کوئی تکلیف پہنچی ہو تو وہ سزا کی طالب ہے۔ اگر جی بی حکم دے تو وہ کہیں دور چلی جائے۔ اگر وہ چاہے تو لیلیٰ مر جائے۔ جدا ہوتے وقت اس نے اپنا رومال جی بی کو نشانی کے طور پر دیا۔ یہ رومال جی بی نے مجھے دے دیا۔کہنے لگا “شاید تمہارے پاس محفوظ رہے ورنہ میں تو اسے کہیں ادھر ادھر پھینک دوں گا۔” رومال سے بھینی بھینی خوشبو آ رہی تھی۔ ایک کونے میں سرخ دھاگے سے ننھا سا دل بنا ہوا تھا جسے لیلیٰ نے خود کاڑھا تھا۔
جی بی کے چلے جانے پر لیلیٰ ذرا بھی غمگین نہ ہوئی۔ اس کے وعدوں کو دل سے لگائے انتظار کرتی رہی۔ یہ انتظار طویل ہوتا گیا۔
پتے زرد ہو کر گر پڑے، پھول مرجھا گئے، ٹہنیاں لنج منج رہ گئیں، خزاں آ گئی۔ وہ نہ آیا۔ جھکڑ چلے، سوکھے پتے اڑنے لگے۔ گرد و غبار نے آسمان پر چھا کر چاندنی اداس کر دی۔ تاروں کو بے نور کر دیا۔ وحشتیں پھیل گئیں۔ وہ نہ آیا۔
کونپلیں پھوٹیں، ہریالی میں پیلی پیلی سرسوں پھولی، رنگین تتلیاں اڑنے لگیں۔ غنچے مسکرانے لگے، پرندوں کے نغموں سے ویرانے گونج اٹھے۔ بہار آ گئی لیکن وہ نہ آیا۔
دن لمبے ہوتے گئے۔ لمبی لمبی جھڑیاں لگیں۔ سفید بگلوں کی قطاریں سیاہ گھٹاؤں کو چیرتی ہوئی گزر گئیں۔ نیلے بادل آئے اور برس کر چلے گئے۔ جھیلوں کے کنارے قوسِ قزح سے رنگیں ہو گئےلیکن وہ پھر بھی نہ آیا۔
بہت دنوں تک لیلیٰ کھوئی کھوئی سی رہی۔ کافی دیر کے بعد وہ سب کچھ سمجھ سکی۔ جب جی بی لوٹا تو وہ سنبھل چکی تھی۔ جی بی اکیلا نہیں آیا، اس کے ساتھ اس کی بیوی بھی تھی۔ گوری چٹی فربہ عورت جو کسی لکھ پتی کی بیٹی تھی۔ جس کا گول مول چہرہ کسی قسم کے اظہار سے مبرّا تھا۔ جس کے دل میں جذبات کے لئے جگہ نہ تھی۔ جو اس ٹھوس اور مادی دنیا میں پیدا ہوئی اور اسی دنیا سے تعلق رکھتی تھی۔ ایسے اونچے اور امیر گھرانے میں شادی ہو جانے پر سب نے جی بی کو مبارکباد دی۔ اس کی قسمت پر رشک کیا۔ میں لیلیٰ کو بھی جانتا تھا اور جی بی کو بھی۔ یہ محض اتفاق تھا کہ وہ دونوں اس وقت رقص گاہ میں تھے۔ جی بی وہ میرا پرانا دوست تھا جو میرے ساتھ بیٹھا تھا اور لگا تار پی رہا تھا اور لیلیٰ وہ جینی تھی جو میرے سامنے اپنے خاوند کے ساتھ رقص کر رہی تھی۔
لیلیٰ کو بدستور چھیڑا جاتا۔ طعنے دئے جاتے۔ سب اس کا مذاق اڑاتے۔ ایک روز ہم نے سنا کہ وہ کالج چھوڑ کر گھر چلی گئی۔ کچھ دنوں تک اس کا انتظار کیا گیا لیکن وہ واپس نہ آئی۔ آہستہ آہستہ اس کی باتیں بھی بھولتی گئیں۔ کچھ عرصہ کے بعد لیلیٰ کا ذکر ایک پرانی بات ہو گئی۔
ایک روز وہ کہیں سے آ کر کالج میں دوبارہ داخل ہوئی۔ اب وہ شرماتی، لجاتی، سہمی ہوئی لیلیٰ نہیں بلکہ شوخ و بے باک جینیؔ تھی۔ یہ نیا نام اس نے خود اپنے عیسائی نام سے چنا تھا۔ وہ کالج کے قریب ہی ایک عیسائی کنبے کے ساتھ رہتی تھی۔ صبح صبح جب گردن اونچی کئے، نگاہیں اٹھائے سائیکل پر آتی تو لڑکے ٹھٹھک کر رہ جاتے۔ ہر وقت اس کے لبوں پر نہایت بے باک مسکراہٹ ہوتی۔
یونین کا جلسہ ہے تو جینی تقریر کر رہی ہے۔ ڈراما ہے تو وہ ضرور حصہ لے گی۔ مباحثہ ہے تو جینی اچھے اچھوں کی دھجیاں اڑا دے گی۔ اس کی دلیری اور صاف گوئی سے لوگ ڈرتے تھے۔ جینی کی بے باکی کو سراہا جانے لگا اور سب اسے عزت کی نگاہوں سے دیکھنے لگے تھے۔
ڈےؔ یونین کا صدر تھا، وہ دبلا پتلا سا بنگالی لڑکا تھا۔ اس میں صرف یہ خوبی تھی کہ وہ کئی سال سے یونین کا صدر تھا۔ میری اس کی جان پہچان تب سے ہوئی جب وہ ہوسٹل میں میرا پڑوسی بنا۔ اس کی شاعرانہ باتیں، اس کے انوکھے نظریے، اس کا حساس پنا، وائلن پر غمناک نغمے۔ یہ سب مجھے اچھے معلوم ہوئے لیکن مجموعی طور پر بطور انسان کے میں نے اسے کبھی پسند نہیں کیا۔ ویسے اس میں کوئی نمایاں عیب یا خامی نظر نہیں آئی۔ شاید یہ اس کا اجڑا سا حلیہ، اس کی آنکھوں کی مجرمانہ بناوٹ، اس کے چہرے کا فاقہ زدہ اظہار تھا جو مجھے ہمیشہ اس سے دور رکھتا۔
کبھی کبھی شام کو اسے بھی ہمراہ لے جاتا۔ اس طرح اس کی جینی سے ملاقات ہوئی۔
غالباً ڈے کی سب سے بڑی خوبی اس کا انکسار تھا۔ اسے اپنی کمزوریوں کا ہمیشہ احساس رہتا۔ بعض اوقات تو وہ اس قدر کسر نفسی سے کام لیتا کہ ترس آنے لگتا۔ یوں معلوم ہوتا جیسے وہ رحم کا طالب ہے۔ شروع شروع میں شاید جینی کو اس کی یہی ادا بھا گئی۔ دیکھے ہی دیکھتے وہ جینی میں ضرورت سے زیادہ دلچسپی لینے لگا۔ پھر جیسے جینی بھی اس کی جانب ملتفت ہوتی گئی۔ جب وہ وائلن پر درد بھرے نغمے سناتا تو اس کی نگاہیں جینی کے چہرے پر جم جاتیں۔ نغمے کی پرواز نہایت مختصر ہوتی۔ ڈے کی انگلیوں سے لے کر جینی کے دل تک!
جب وہ دونوں فلسفے کی کتابیں ہاتھ میں لئے بحث میں مصروف ہوتے تو اکثر بہک بہک جاتے، آنکھوں آنکھوں میں کچھ اور گفتگو ہونے لگتی۔
ان دونوں کی دوستی اشاروں اورکنایوں کی حدود سے نکل کر کھلم کھلا ملاقاتوں تک پہنچ چکی تھی۔ جینی کو بنگالی موسیقی سے لگاؤ ہو چلا تھا۔ وہ بنگالی زبان سیکھ رہی تھی۔ جب وہ بالوں میں پھول لگا کر ساڑی کو ایک خاص وضع سے پہن کرنکلتی تو بالکل بنگالی لڑکی معلوم ہوتی۔ کالج کی کئی لڑکیاں اسے دیکھ کر بالوں میں پھول لگانے لگیں۔
ان دنوں ہم ڈراما کر رہے تھے، دوپہر سے ریہرسل شروع ہو جاتی۔ شام بھی اکٹھے گزرتی۔ اکثر میں اسے گھر چھوڑنے جاتا۔ اس کے کمرے کی زیبائش خوب ہوتی۔ کسی روز تو یوں معلوم ہوتا جیسے کمرہ نہیں جنگل ہے۔ دیواروں پر گہرا سبز وال پیپر چسپاں ہے جس پر درخت اور گھنی جھاڑیاں بنی ہوئی ہیں۔ گلدانوں میں لمبی لمبی گھاس اور بڑے بڑے پتے ہیں۔ سبز قمقمے روشن ہیں۔ فرش پر بچھے ہوئے قالینوں کے نقش و نگار، دیوار سے ٹنگی ہوئی تصویریں، سبزی مائل پردے، گملوں میں رکھے ہوئے پودے۔ یوں معلوم ہوتا جیسے درندوں کی یہ تصویریں ابھی متحرک ہو جائیں گیپھر کسی روز سب کچھ زرد ہوتا۔ دیواریں، پردے غلاف، قالین، قمقموں کے شیڈ، گلدانوں میں صحرائی پھول اور خشک ٹہنیاں ہوتیں۔ انگیٹھی کے سامنے ریت کے چھوٹے چھوٹے ڈھیر۔ خیالات کہیں کے کہیں پہنچ جاتے۔ تصور میں لق و دق صحرا کا نظارہ پھرنے لگتا۔ تاروں کی چھت تلے حدی خوانوں کا نغمہ گونجنے لگتا۔
پھر کسی روز برف باری کے نظارے آنکھوں کے سامنے آ جاتے۔ اور کبھی کبھی یہی آرائش طوفان زدہ سمندر کی یاد دلا دیتی۔ جھاگ اڑاتی ہوئی چنگھاڑتی لہریں۔ ہوا کے تند و تیز تھپیڑے اور آندھیوں میں پتے کی طرح کانپتا ہوا سفینہ!
اس کے کمرے میں کبھی ایک جیسا گلدستہ میں نے دو مرتبہ نہیں دیکھا۔ گلدان میں بڑے بڑے پھول بھی ہیں۔ شوخ پھول بھی ہیں لیکن سب سے نمایاں صرف ننھی منی کلیاں ہیں۔ باقی سب رنگ آپس میں گھل مل کے کھو گئے ہیں۔ کبھی غنچے، کلیاں، پھول سب کہیں جا چھپے ہیں، صرف خوشنما وضع کے پتے سامنے آ گئے ہیں۔ اس کے ترتیب دئے ہوئے گلدستوں کو دیکھ کر مجھے حیرت ہوتی کہ ایسے حسین و جمیل پھول بھی آسمان تلے کھلتے ہیں جنہیں گلشن میں نگاہ پہچانتی تک نہیں۔
ایک پروفیسر کے تبادلے پر باغ میں پارٹی ہوئی۔ طے ہوا کہ وہیں شام کو بارہ دری میں چھوٹا سا ڈرامہ بھی کیا جائے۔ جینی کو المیہ پارٹ ملا۔ وہ دن اس نے اکیلے گزارا۔ کسی سے بات نہیں کی۔ دن بھر اداس رہی۔ لیمپوں کی روشنی میں ڈراما شروع ہوا۔ جینی نے اپنا گانا بالکل آخر میں رکھا۔ لیمپ بجھا دئے گئے۔ سب نے دیکھا کہ درختوں کے جھنڈ سے چاند طلوع ہو رہا تھا۔ وہ ایک بنگالی نظم گا رہی تھی جس میں چودھویں کے چاند کو مخاطب کیا گیا تھا۔ ڈے وائلن بجا رہا تھا۔ وہ سادا سا گیت اور وائلن کا تھرتھراتا ہوا نغمہ چاند سے نئی نئی اتری ہوئی جلا کا جزو معلوم ہونے لگے۔ پھر جینی کا رقص شروع ہوا۔ اس کی انگلیوں کی جنبش جسم کے لوچ اور گھنگرو کی تال پر چاند تارے ناچنے لگے۔ پھر جیسے مندروں میں گھنٹیاں بجنے لگیں، دیوداسیاں سنگار کئے کئے، کنول کے پھول تھامے آ گئیں۔ پجاریوں کے سر جھک گئے۔ فضاؤں میں تقدس برسنے لگا۔ پھر جیسے چراغوں سے دھواں اٹھا اور دھند بن کر چھا گیا۔ سب کچھ آنکھوں سے اوجھل ہو گیا۔ صرف جینی رہ گئی اور اس کا محبوب، پجاری اور دیوتا۔
یہ غنائیہ باغ کی اس چاندنی رات میں ختم نہیں ہوا۔ ساز اور لے دیر تک ہم آہنگ رہے۔ ڈے نے ان پیار بھرے جذبات کا اظہار کر دیا جنہیں وہ دیر سے چھپائے بیٹھا تھا۔ اس نے اپنے بے پایاں محبت کا یقین دلایا۔ یہ بھی کہاکہ مرتے دم تک وہ جینی سے اسی شدت کے ساتھ محبت کرتا رہے گا۔ اور یہ کہ اس نے اپنے والدین کو سب کچھ لکھ دیا ہے۔ عنقریب اس کی والدہ آئیں گی اور جینی سے ملیں گی۔ پھر وہ جینی کو رسم کے مطابق سنہرا ہار دے گا جس میں دل کی شکل کا لاکٹ پرویا ہوا ہو گا۔ ان دونوں کو ایک بہت بڑی قوت نے آپس میں ملا دیا ہے۔ آرٹ نے۔ وہ دونوں آرٹسٹ ہیں۔ انسان فنا ہو جاتے ہیں۔ آرٹ جاوداں ہے۔
پھر میں نے جینی کے کمرے میں ساز دیکھے۔ معلوم ہوا کہ وہ ہندوستانی موسیقی سیکھ رہی ہے۔ مغربی موسیقی سے وہ شناسا تھی۔ میں نے اسے جانے پہچانے نغمے گنگناتے سنا تھا۔ پیانو پر اس کی انگلیاں خوب چلتی۔ کئی مرتبہ یوں ہوا کہ ریڈیو پر آرکسٹرا سمفنی بجا رہا ہے اور جینی مجھے سمجھا رہی ہے کہ سمفنی ایک نغمہ نہیں مختلف نغموں کا مرکب ہے۔ ایسے نغمے جو مختلف کیفیتوں کو ظاہر کرتے ہیں اور یہ کیفیتیں بغیر کسی تسلسل کے آتی ہیں۔ رنج و مسرت، انبساط و حسرت آشامیاں، شک، وسوسے، امید و بیم، اعترافِ غم۔ ہماری مسرتیں کبھی زنج کی آمیزش سے خالی نہیں ہوتی۔ اسی طرح غم کی گھٹائیں بھی اکثر بہجت کی کرنوں سے جگمگا اٹھتی ہیں۔ انسان کے دل میں کوئی جذبہ مکمل اور دیرپا نہیں ہوتا۔ یہ کیفیتیں بدلتی رہتی ہیں۔ تبھی سمفنی میں اتنے اتار چڑھاؤ آتے ہیں اور کئی کئی گتیں ساتھ ساتھ چلتی ہیں۔
میں نے اسے ہندوستانی راگ راگنیوں کے کچھ ریکارڈ دئے جنہیں اس نے بڑے شوق سے سنا۔ اسے یہ نغمے نہایت دلکش معلوم ہوئے۔ اسے یہ بھی محسوس ہوا کہ یہ سب راگ مختلف جذبوں اور کیفیتوں کو ظاہر کرتے ہیں۔
میں نے دربار ی کی تشریح کی کہ جیسے ایک بہت بڑا ہال ہے۔ سامنے تخت پر بادشاہ بیٹھا ہے۔ قندیلیں روشن ہیں، فانوس جگمگا رہے ہیں۔ دور دور تک امراء اور وزراء بیٹھے ہیں۔ پُر ہول خاموشی طاری ہے۔ موسیقار کو بلایا جاتا ہے۔ ایسے ماحول میں شوخ موسیقی بے ادبی میں شمار ہو گی۔ غمگین موسیقی بھی موزوں نہیں۔ ہلکی پھلکی چیزوں سے موسیقار گریز کرے گا کیونکہ وہ اپنے جوہر دکھانا چاہتا ہے۔ ان سب باتوں کو مد نظر رکھ کر وہ جو چیز چنے گا وہ درباری ہے۔ اسی طرح اور راگ راگنیوں کے متعلق بھی بتایا۔
جینی سنتی رہی۔ پھر ایک روز اس نے مجھے چند تصویریں دکھائیں جو اس نے خود بنائی تھیں۔ اسے مصوری کا شوق ضرور تھا لیکن معمولی سا۔ یہ اس کی پہلی کوشش تھی۔ ان تصویروں میں اس نے ذہنی تاثرات برش کے ذریعے کاغذ پر منتقل کئے تھے وہ تاثرات جو مختلف راگنیاں سن کر اس نے محسوس کئے۔ یہ نغمے اس نے پہلے کبھی نہیں سنے تھے۔ ہندوستانی موسیقی اس کے لئے بالکل نئی چیز تھی۔ جوگیا کی تصویر میں تا حدِ افق ننھے منے خود رو پھول کھلے ہوئے تھے، چھوٹے چھوٹے رنگ برنگے پھول جن میں کلیاں بھی شامل تھیں اور ادھ کِھلے ہوئے غنچے بھی۔ پتیوں پر شبنم کے قطرے چمک رہے تھے۔ پس منظر دور افق کے پرے برفانی چوٹیاں تھیں، اونچی اونچی برف سے لدی ہوئی چوٹیاں، جن سے نورانی شعاعیں منعکس تھیں۔ پودوں کے سائے، شبنم کے چمکیلے قطرے اور جگمگاتی چوٹیاں۔ سب اس امر کے شاہد تھے کہ سورج ابھی ابھی نکلا ہے اور سارے نظارے پر ایک اداس سی دھند پھیلی ہوئی تھی۔ ہلکی ہلکی نوزائیدہ دھند جس نے فضا میں رنگ و بو کے اس طوفان کے باوجود ایک غمگین تاثر پیدا کر دیا تھا۔
دوسری تصویر مالکوسؔ کی تھی، اس میں سمندر کی لہروں کو پیانو کے پردوں سے کھیلتے ہوئے دکھایا تھا سفیداور سیاہ پردوں کی لڑیاں نہروں پر تیر رہی تھیں۔ کبھی کبھی ایک اونچی سی لہر آتی تو سارے پردوں کو ایک سخت بلندیوں پر لے جاتی۔ راگ کی روانی اور زیر وبم کو لہروں کے کھیل سے ظاہر کیا گیا تھا۔
چھایا نٹؔ کی تصویر منظوم موسیقی کی تصویر تھی جس میں مچلتے ہوئے شوخ نغمے مرتعش تھے۔ چنچل رقاصائیں گھنگھرو باندھے ناچ رہی تھیں۔ ہر جبنش میں بلا کا لوچ تھا، مخمور کر دینے والی مستی تھی۔
جینی انکار کرتی رہی لیکن میں نے ان تصویروں کو نمائش میں رکھوا دیا۔ ایک روز ہم نمائش میں تھے۔ کسی نے یونہی جینی کا نام لے لیا۔ چند لمحوں میں ہجوم اکٹھا ہو گیا یہ سب جینی کے مداح تھے جو اس کی تعریفیں کرنے لگے۔ اس روز معلوم ہوا کہ جینی مشہور ہوتی جا رہی ہے۔ قریب ہی اکھاڑے کے گرد لوگ اکھٹے ہو رے تھے۔ ایک چینی پہلوان کی کشتی تھی۔ سانگؔ یا کچھ ایسا ہی نام تھا لوگ دور دور سے اسے دیکھنے آئے تھے۔ اسے ہجوم نے گھیر رکھا تھا۔ جہاں وہ اس قدر ہر دلعزیز ثابت ہو رہا تھا وہاں اس کے حریف کو جو مقامی پہلوان تھا کوئی پوچھتا ہی نہ تھا۔ کشتی شروع ہوئی اور غل مچ گیا۔ کچھ دیر برابر کا مقابلہ رہا۔ پھر دفعتاً مقامی پہلوان نے سانگ کو دونوں ہاتھوں سے پکڑ کر سر سے اونچا اٹھا لیا اور زمین پر سے مارا۔ سانگ بے ہوش ہو گیا۔اسی ہجوم نے جو اس کی تعریفیں کر رہا تھا اس پر آوازے کسنے شروع کر دئے۔ اس پر اشتہار اور کاغذوں کے ٹکڑے پھینک کر اکھاڑے میں تنہا چھوڑ دیا۔ سانگ ایک بنچ پر اکیلا بیٹھا تھا جینی مسکراتی ہوئی گئی اور اس سے باتیں کرنے لگی۔ اسے پسینہ پونچھنے کے لئے اپنا چھوٹا سا معطر رومال دیا جسے اس نے شکریے کے ساتھ لے لیا۔ جینی کی پیاری مسکراہٹ اور دلکش باتوں نے اسے موہ لیا۔
ان باتوں میں ایسی حلاوت تھی کہ سانگ کو اپنی زبوں حالت کا احساس نہ رہا۔ ساری شام ہم نے اکٹھے گزاری۔ جب وہ رخصت ہوا تو اس کے ہونٹ لرز رہے تھے اور آنکھوں میں آنسو تھے۔ ڈے کے والدین آ گئے اور وہ ہوسٹل سے چلا گیا۔ اس کی کی والدہ نے جینی کو دیکھا۔ جینی کو ان کے گھر بلایا گیا لیکن یہ آنا جانا بہت جلد ختم ہو گیا۔ ایک روز ڈے جینی سے ملا اور جی بی کے متعلق پوچھنے لگا۔ جینی نے شروع سے اخیر تک ساری کہانی سنا د ی سب کچھ بتا دیا۔ ڈے اس پر برس پڑا یہ باتیں اس سے پوشیدہ کیوں رکھی گئیں۔ اسے پہلے کیوں نہیں بتایا گیا۔ جی بی کے علاوہ اور بھی نہ جانے کتنے عاشق ہوں گے اب اسے کیوں کر یقین آ سکتا ہے کہ جینی کی محبت صادق ہے۔ یہ تو محض ڈھونگ تھا۔ کھیل تھا۔ اب اس کھیل کو فوراً ختم ہو جانا چاہئے۔
میں نے سنا تو ڈے کو سمجھایا کہ جن دنوں وہ جی بی سے ملا کرتی تھی، ڈے بنگال سے آیا بھی نہ تھا۔ بھلا وہ ڈے پر اتنی دور کیوں کر عاشق ہو سکتی تھی اور وہ بھی بلا دیکھے اور سنے اور پھر وہ خود جینی کے علاوہ کئی لڑکیوں سے محبت جتا چکا تھا۔ جینی جانتی تھی پھر بھی اس نے باز پرس نہ کی لیکن ڈے نہیں مانا۔ اس کے خیال میں ہر مرد کا فطری حق ہے کہ خود دنیا بھرکی لڑکیوں سے چہلیں کرتا پھرے، لیکن محبوبہ سے یہ توقع رکھے کہ وہ زندگی بھر صرف اسی کو چاہے گی۔ اس کی منتظر رہے گی۔ بچپن ہی سے اسے الہام ہو جائے گا کہ فلاں مرد آج سے اتنے سال بعد اسے چاہنے آئے گا جو خود ہرجائی ہو گا اور چاہنے سے پہلے لڑکی کی گذشتہ زندگی کو اچھی طرح کرید کر اپنی تسلی کر لے گا۔
جینی نے اسے وہ سارے وعدے یاد دلائے جو اس نے قسمیں کھا کھا کر کئے تھے۔ وہ محبت بھری باتیں یاد دلائیں جو ہزاروں بار دہرائی گئی تھیں۔ وہ خواب بتائے جو دونوں نے اکٹھے دیکھے تھے لیکن اس پر کوئی اثر نہ ہوا۔ وہ تو جیسے کسی بہانے کی تلاش میں تھا۔ دیکھتے دیکھتے جینی میں بے شمار نقص نکل آئے۔ نہ اس کا کوئی خاندان تھا نہ مذہب۔ سوسائٹی میں اس کے لئے کوئی جگہ نہ تھی۔ اس کے خون میں آمیزش تھی۔ اس کی تربیت ایسے والدین کے زیرِ سایہ ہوئی جن کی زندگی ہمیشہ ناخوشگوار رہی۔ جن میں سب سے بڑا عیب یہ تھا کہ وہ غریب بھی تھے اور پھر جینی کچھ اتنی خوبصورت بھی نہیں تھی۔ اس سے کہیں حسین اور بہتر لڑکیاں ڈے کو مل سکتی تھیں۔ ایک حسین لڑکی تو ڈے کی والدہ نے ڈھونڈ بھی لی تھی۔ لڑکی کے والد رائے بہادر تھے اور لڑکی کے ساتھ لاکھوں کی جائیداد دے رہے تھے۔ انہوں نے ڈے کو انگلستان بھیجنے کا وعدہ بھی کیا تھا۔
شادی کی تاریخ مقرر ہوئی۔ میرے نام دعوتی رقعہ آیا۔ میں خاموش رہا۔ جب جینی کے نام رقعہ بھیجا گیا تو مجھے بہت غصہ آیا۔ طیش میں آ کر میں نے کئی منصوبے باندھے۔ سب سے پہلا منصوبہ ڈے کی ہڈی پسلی ایک کر دینے کا تھا لیکن جینی کے کہنے پر میں نے ارادہ ترک کر دیا۔
شادی پر ہم دونوں گئے۔ جینی شادی کا تحفہ لے کر گئی۔ سب کے سامنے یہ تحفہ کھولا گیا۔ ڈے کی بیوی کے لئے سنہرا ہار تھاجس میں دل کی شکل کا لاکٹ پر ویا ہوا تھا۔ اگلے مہینے جینی نے کالج چھوڑ دیا اور گھر چلی گئی۔
ایک پارٹی میں میرا تعارف ڈے کی بیوی سے ہوا۔ معلوم ہوا کہ اسے دنیا میں اگر کسی چیز سے نفرت تھی تو وہ آرٹ سے۔ یہ سارے مصور، موسیقار، شاعر اسے زہر دکھائی دیتے تھے اور سب سے زیادہ چڑ اسے ان امیر لوگوں سے تھی جو اس قسم کی فضولیات میں پڑ کر اپنا وقت ضائع کرتے تھے۔ بھلا ستار یا وائلن سیکھنے کی کیا ضرورت ہے جب صبح سے شام تک ریڈیو پر ساز بجتے رہتے ہیں۔ مصوری سیکھنے میں کیا تک ہے، جب بازار میں ہر قسم کی تصویریں آسانی سے مل جاتی ہیں۔ اگر کسی نے الفاظ کو توڑ مروڑ کچھ شعر گھڑ لئے تو اس پر آنسو بہانے یا بے قابو ہو جانے کی کیا ضرورت ہے۔
آخری امتحان پاس کر کے میں کالج سے چلا آیا۔ مصروفیتوں نے آن دبوچا۔ ملک کے مختلف حصوں میں پھر تا رہا۔ مدتوں تک میں نے جینی کے متعلق نہیں سنا۔
پھر ایک دن ایک پرانا دوست ملا۔ میں نے جینی کا ذکر کیا تو اس نے باتیں سنائیں کہ وہ پہلے سے بالکل بدل چکی ہے۔ ہر جگہ یہی مشہور ہے کہ وہ محبت کے بغیر زندہ نہیں رہ سکتی۔ ایک معاشقہ ختم ہوا ہے تو دوسرا عنقریب شروع ہو گا۔ کالج چھوڑ کر اس نے ملازمت کر لی اور اب بالکل آزادانہ طور پر رہتی ہے ہر شام اس کے ہاں لوگوں کا جمگھٹا رہتا ہے۔ قسم قسم کے لوگ آتے ہیں۔ نہایت عجیب و غریب ہجوم ہوتا ہے۔ پھر خوب افواہیں اڑتی ہیں۔ لوگ شیخیاں مارتے ہیں کہ ہم نے یہ کیا وہ کیا، میرے کوٹ کے کالر سے جو بال چسپاں ہے وہ جینی کا ہے۔ یہ تصویر جینی نے مجھے دی تھی۔ میرے رومال پر جو سرخی ہے وہ جینی کے ہونٹوں کی ہے۔ اس نے یہ بھی بتایا کہ پچھلے سال وہاں سیلاب آیا تھا۔ لوگ بے گھر ہو گئے، قحط پڑا۔ جینی نے کچھ لڑکوں، لڑکیوں کو ساتھ لیا۔ گاؤں گاؤں پھر کر مصیبت زدہ مخلوق کی مدد کی۔ امیروں سے فلرٹ کر کے چندہ اکٹھا کیا۔ اپنی صحت اور آرام کا خیال نہ رکھا۔ رات دن محنت کی۔ کئی مرتبہ بیمار ہوئی کچھ اوباش قسم کے لوگ محض جینی کی وجہ سے محتاجوں کی امداد پر تیار ہو گئے۔ اسے چھیڑا، تنگ کیا۔ ایک شام بہانے سے اپنے ساتھ لے گئے اور اسے شراب پلانی چاہی۔ جینی نے گروہ کے سرغنے کے بال نوچ لئے۔ اس کا منہ طمانچوں سے لال کر دیا۔ وہ ایسے گھبرائے کہ اسی وقت جینی کو واپس چھوڑ گئے۔
پھر کسی نے جینی کی تصویر اخباروں میں نکلوا دی۔ اس کی تعریف بھی شامل تھی۔ جس پر سب نے یہی سمجھا کہ محض سستی شہرت کی غرض سے جینی نے لوگوں کی مدد کی تھی۔
کچھ عرصے کے بعد ایسا اتفاق ہوا کہ ایک تبادلے نے مجھے جینی کے قریب پہنچا دیا۔ محض چند گھنٹوں کی مسافت تھی۔ ہر دوسرے تیسرے ہفتے میں اسے ملنے جاتا۔ سچ مچ اب وہ پرانی جینی نہیں تھی۔ پہلے سے کہیں تندرست اور چست معلوم ہوتی تھی۔ اس کے چہرے پر تازگی تھی، نیا نکھار تھا، ہونٹوں میں رسیلا پن اور رخساروں پر سرخی آچکی تھی۔ اب وہ اک شعلۂ فروزاں تھی۔ وہ طرح طرح سے میک اپ کرتی، شوخ و بھڑ کیلے لباس پہنتی۔ جگمگ جگمگ کرتے ہوئے زیور، قسم قسم کی خوشبوئیں۔ وہ ہر موضوع پر بلا دھڑک گفتگو کر سکتی تھی۔ کلبوں اور رقص گاہوں میں اسے باقاعدگی کے ساتھ دیکھا جاتا۔ ہفتے بھر کی شامیں پہلے ہی مختلف مصروفیتوں کے لئے وقف ہو جاتیں۔ پرانی سیدھی سادی جینی کی جگہ اس شوخ و شنگ لڑکی کو دیکھ کر میں کچھ چڑ سا گیا۔ یہ جذبہ محض حسد و رشک کا جذبہ تھا۔ میں شاید برداشت نہیں کر سکتا تھا کہ گفتگو کرتے وقت مجھے بار بار یہ احساس ہوا کہ وہ مجھ سے زیادہ جانتی ہے۔ ہر بحث میں وہ مجھے ہرا دے۔ تاش کھیلتے وقت میں بغلیں جھانکنے لگوں۔ رقص گاہ میں بعض دفعہ مجھے ایک لڑکی بھی نہ ملے اور اس کے لئے بیسیوں لڑکے بے قرار ہوں۔ وہ ایسی چیزوں کا ذکر کرتی رہے جن کا مجھے شوق تو ہے لیکن ان تک پہنچ ذرا مشکل ہے۔
شام کو اس کے ہاں لوگوں کا ہجوم ہوتا۔ ان میں زیادہ تعداد عشاق کی ہوتی جو طرح طرح سے اپنی محبت کا اظہار کرتے۔ شادی شدہ حضرات اپنی غمگین ازدواجی زندگی کا رونا رویا کرتے کہ کس طرح قدرت نے ان کو دغا دی اور نہایت بد مذاق اور ٹھس طبیعت کی رفیقہ پلے باندھ دی۔ اب ان کے لئے دنیا جہنم سے کم نہیں۔ اب یہ عذاب برداشت نہیں ہو سکتا۔ خودکشی کے سوا اور کوئی چارہ نہیں لیکن اس سیاہ خانے میں امید کی ایک نورانی کرن نظر آتی ہے۔ وہ ہے جینی۔
پر مغز اور ذہین قسم کے لوگ اکثر سیاست اور ادب پر بحث کرتے۔ کارل مارکس فرائیڈ اور مولانا روم کے تذکرے چھیڑتے۔ سیاست دانوں کی غلطیاں گنواتے۔ مشاہیر پر تنقیدیں کرتے۔ بے لوث اور سچی دوستی کا دم بھرتے لیکن موقعہ پا کر عشق بھی جتا دیتے۔
ایک طبقہ نفاست پسند اور نازک اندام لوگوں کا تھا۔ یہ لوگ ہر وقت اپنی کمزوریاں گنواتے رہتے۔ اپنی بیماریوں کا ذکر کرتے۔ اپنے آپ کو بے حد ادنیٰ اور کم تر سمجھتے۔ بار بار جینی سے پوچھتے: اگر تمہیں برا معلوم ہوتا ہو تو میں آئندہ نہ آیا کروں۔ اگرچہ ایسا کرنے سے مجھے قلبی، جگری اور روحانی صدمہ پہنچے گا۔ مگر ہر شام کو آ دھمکتے۔
کئی ایسے شرمیلے بھی تھے جو چھپ چھپ کر خطوط لکھتے۔ جینی پر نظمیں کہہ کر اسے بدنام کرتے۔ سامنے آتے تو شرما شرما کر برا حال ہو جاتا۔
سب سے گھٹیا وہ عاشق تھے جو اپنے آپ کو جینی کا بھائی کہتے۔ بھائیوں کی سی دلچسپی لیتے۔ اس کی حفاظت اور بہبودگی کے خواہاں رہتے لیکن دل میں کچھ اور سوچتے رہتے۔
مجھے یہ تماشا دیکھ کر غصہ آتا۔ آخر یہ لڑکی چاہتی کیا ہے کہ سب کے سب تو اسے پسند آنے سے رہے۔ سارے ہجوم کو برخاست کر کے ان میں سے ایک دو سے ملتی رہا کرے۔ میرا ارادہ بھی ہوا کہ اسے ٹوکوں۔ پھر سوچا کہ بھلا میں اس کا کیا لگتا ہوں، دیکھا جائے تو میں بھی خود اسی ہجوم میں سے ایک ہوں۔ فرق صرف اتنا ہے کہ میں اسے ذرا پہلے سے جانتا ہو ں۔
پھر میں نے دیکھا کہ وہ ایک شخص کی جانب ملتفت ہوتی جا رہی ہے۔ یہ انسان بالکل عجیب تھا۔ پہلے پہل تو میں اسے سمجھ ہی نہ سکا۔ یہی سوچتا کہ آخر اس کی زندگی کا مقصد کیا ہے۔ اسے قریب سے دیکھنے پر معلوم ہوا کہ اس کی زندگی کا واقعی کوئی مقصد نہیں۔ اسے کسی چیز پر یقین نہیں تھا۔ محبت، نفرت، زندگی، موت، انسان، خدا۔ سب سے منکر تھا۔ بات بات پر بحث کے لئے تیار ہو جاتا۔ سب اس سے کتراتے تھے۔ اسے کامریڈ کے نام سے پکارا جاتا۔ محض جینی کی وجہ سے میں اس سے ملتا ورنہ میرے دل میں اس کے لئے نفرت تھی۔ یہ نفرت شاید اس دن پیدا ہوئی، جب ہم نے پہلی اور آخری بحث کی۔ کامریڈ عورتوں کو ہمیشہ برا بھلا کہتا۔ ا پر نکتہ چینیاں کرتا۔ ایک روز میں نے اختلاف کیا۔ عورت کی زندگی کی ان گنت مجبوریاں جتلائیں۔ لڑکی کی پیدائش کو نام بارک سمجھا جاتا ہے۔ لڑکوں کے مقابلے میں اس کی پرورش میں کوتاہی برتی جاتی ہے۔ بھائی اسے ڈانٹتے دھمکاتے ہیں۔ اس کا حصہ چھین لیتے ہیں۔ اس کے دل میں احساس کمتری پیدا کر دیتے ہیں۔ پھر بڑی ہونے پر کنبے اور پڑوسیوں کی تنقید شروع ہو جاتی ہے۔ دوپٹے کا ذرا سر سے اتر جانا خاندان کی ناک پر اثر انداز ہوتا ہے۔ ذرا سی بھول اسے زندگی بھر کے لئے مجرم بنا دیتی ہے۔ کالج میں اسے فلسفہ سکھایا جاتا ہے۔ مساوات اور آزادی کے سبق دئے جاتے ہیں لیکن جب شادی کا سوال آتا ہے تو اس سے کوئی نہی پوچھتا۔ اسے وہی کرنا پڑتا ہے جو چند خشک مزاج بزرگ چاہتے ہیں لیکن لڑکوں کی زندگی بالکل مختلف ہے۔ وہ بڑی آسانی سے جھوٹی قسمیں کھا کر لڑکیوں کو دھوکا دے سکتے ہیں۔ محبت کا واسطہ دلا کر سب کچھ منوا لیتے ہیں۔ پھر چند خاندانی مجبوریوں کا بہانہ کر کے انہیں بڑی آسانی سے دھتکار سکتے ہیں اور سلیٹ کی طرح بار بار سب کچھ دھل جاتا ہے۔ ان کا ماضی کوئی معنی ہی نہیں رکھتا۔ ان کے لئے بیاہ شادی کھیل ہے لیکن لڑکیوں کے لئے شادی نئی مصیبتوں کا پیش خیمہ بنتی ہے۔ بیوی بن کر بچوں کی پرورش، معاشی بے بسی، ذرا ذرا سی بات کے لئے خاوند کی طرف دیکھنا پڑتا ہے۔ عمر رسیدہ ہو جانے پر اولا د بے مصرف سمجھتی ہے، مذاق اڑاتی ہے۔
کامریڈ کو میری باتیں فضول معلوم ہوئیں۔ وہ یہی کہتا رہا کہ ویسے عورت اور مرد برابر ہیں لیکن مرد کا رتبہ دماغی اور جسمانی لحاظ سے بلند ہے۔ اس نے دونوں کے دماغ کی بناوٹ اور وزن کا ذکر بھی کیا۔ مرد کے لئے لمبے قد اور مضبوط بازوؤں کا حوالہ دیا۔
اس کے بعد میری اور اس کی کبھی بحث نہیں ہوئی۔
پتہ نہیں اس کا ذریعۂ معاش کیا تھا، وہ رہتا کہاں تھا۔ اس کی گذشتہ زندگی کہاں اور کیسے گزری۔ بس یہ مشہور تھا کہ وہ جینی کا مداح ہے۔
جینی ان دنوں بڑی ٹھوس قسم کی کتابیں پڑھتی۔ مشکل سے موضوع پر خشک اور سنجیدہ کتابیں۔ جب وہ دونوں باتیں کرتے تو بہت کم لوگ سمجھ سکتے کہ کس موضوع پر گفتگو ہو رہی ہے۔ ان دونوں کی دوستی کا یہ پہلو مجھے بہت اچھا معلوم ہوتا۔ جینی کی مدلل اور ذہین باتیں ظاہر کرتیں کہ وہ دماغی ارتقا کی منزلیں بڑی تیزی سے طے کر رہی ہے۔
ہم پکنک پر گئے۔ ایک تاریخی عمارت کو ہم نے بار بار دیکھا تھا، لیکن جب جینی نے ایک خاص زاویے سے ہمیں دیکھنے کو کہا تو یوں معلوم ہوا کہ جیسے اس باغ اور عمارت کو آج پہلی مرتبہ دیکھا ہے۔ کامریڈ اچھل پڑا۔ بولا صرف ایک آرٹسٹ کی آنکھ اس زاویے کو چن سکتی تھی۔ جب قصے کہانیاں ہو رہی تھیں تو ایک لڑکا اپنا رومان سنانے لگا۔ اسے ایک لڑکی دور دور سے دیکھا کرتی، اشارے ہوتے، پتھروں سے لپٹے ہوئے خطوط پھینکے جاتے، عہد و پیمان ہوتے، لیکن وہ فاصلہ اتنے کا اتنا تھا۔ نہ وہ خود قریب آتی نہ آنے دیتی۔ تنگ آ کر اس نے چھت پر جانا چھوڑ دیا۔ کئی دنوں کے بعدگیا تو لڑکی نے بڑی سخت سماجت کی۔ اس نے صاف کہہ دیا کہ اگر اب بھی قریب نہ آنے دو گی تو آئندہ کبھی چھت پر نہیں آؤں گا۔ بڑی مشکلوں کے بعد وہ رضا مند ہو گئی۔ بار بار یہی کہتی آپ وعدہ کیجئے کہ مجھ سے نفرت تو نہیں کرنے لگیں گے۔ اس نے وعدہ کیا تو مانی۔ یہ اسے ملنے گیا لڑکی نہایت حسین تھی لیکن اس کی آنکھوں میں نقص تھا۔ وہ بھینگی تھی۔ اس پر بڑے قہقہے پڑے۔ ہنستے ہنستے لوگ دوہرے ہو گئے لیکن جینی خاموش رہی، اس کی آنکھیں نمناک ہو گئیں۔ دیر تک وہ چپ چاپ رہی مجھے بھی اس کہانی نے اداس کر دیا۔ یہ کہانی ہرگز مضحکہ انگیز نہیں تھی۔
باغ کے گوشے میں ایک کنواں تھا جس کے متعلق مشہور تھا کہ اس میں جھانک کر جو خواہش کی جائے پوری ہو جاتی ہے۔ ہر ایک نے کچھ مانگا۔ جب جینی کی باری آئی تو اس نے کہا کہ مجھے کسی سے کچھ نہیں چاہئے، مجھے کسی کی مدد کی ضرورت نہیں، کوئی ارضی یا سماوی طاقت مجھے کچھ نہیں دے سکتی۔ بس مجھے ایک زندگی ملی ہے اور مجھے زندہ رہنا ہے۔
کامریڈ عش عش کر اٹھا۔ کہنے لگا کہ جینی کا یہ نظریہ صحیح ترین نظریہ ہے۔ ایسی دنیا میں جہاں لوگ اب تک بارش کے لئے دعا مانگتے ہیں، اس سے بہتر نظریہ نہیں ہو سکتا۔ کوئی کسی کے لئے کچھ نہیں کر سکتا، تقدیر اور قسمت وغیرہ فضول چیزیں ہیں۔ ہر شخص اپنے گرد بچھے ہوئے جال میں گرفتار ہے۔ اپنے حالات سے مجبور ہے۔ زندگی کے اٹل ارادے، شدید جذبے، سب حوادث کے غلام ہیں۔ ہم اس لئے ایک دوسرے کے دوست ہیں کہ اتفاق نے ہمیں ملا دیا۔ اسی طرح محض اتفاق سے ہم ان لوگوں کی رفاقت سے محروم ہیں۔ جنہیں اگر ملتے تو شاید گہرے دوست بن جاتے۔
پھر ایک روز وہی کامریڈ جو افلاطونی دوستی اور خلوص کے گن گایا کرتا تھا، جینی کو اپنے ساتھ لے گیا۔ انہوں نے اکٹھے چائے پی، پکچر دیکھی، چھوٹے موٹے تحفے خریدے جب ٹیکسی میں دونوں واپس آ رہے تھے تو اس نے جینی کو چومنے کی کوشش کی۔ جینی نے ٹیکسی ٹھہرا لی جتنے روپے کامریڈ نے اس شام صرف کئے تھے اس کے منہ پر مارے اور پیدل واپس چلی آئی۔
کامریڈ کئی روز تک غائب رہا پھر معافی مانگنے آیا۔ جینی نے کہا کہ مجھے طیش نہیں آیا، مایوسی ہوئی ہے۔ میں تمہیں ان سب سے مختلف سمجھتی تھی۔ میرا خیال تھا کہ تم اس ہجوم میں سے نہیں ہو لیکن تم میں اور دوسروں میں فرق نہیں۔
کامریڈ نادم تھا، بولا “میرے نظریے خواہ کیسے ہوں، میں انسان بھی ہوں۔ تم میں اتنی زبردست کشش ہے کہ میری جگہ کوئی اور بھی ہوتا تو یہی کرتا۔ میں نے کبھی تمہارے چہرے کو غور سے نہیں دیکھا۔ تمہاری بے چین روح کو دیکھا ہے اور یہی روح مجھے عزیز ہے۔ اگر تمہارے خدوخال بہتر ہوتے اور تم زیادہ خوبصورت ہوتیں تو تمہاری زندگی مختلف ہوتی۔ اگر تم کسی بہتر گھرانے میں پیدا ہوتیں تو تمہاری زندگی مقابلتاً آسان ہوتی لیکن تم اتنی صلاحیتوں کی مالک نہ ہوتیں۔ تمہاری روح اتنی حسین نہ ہوتی۔”
جینی عورت تھی، کامریڈ کے رنگیں فقروں نے اسے موہ لیا۔ اس کی آنکھیں جھک گئیں۔ دل دھڑکنے لگا۔ رخسار سرخ ہو گئے۔ جب کامریڈ نے بازو پھیلائے تو جینی نے مزاحمت نہ کی۔ اس کے بعد کامریڈ کی گفتگو کا انداز بدل گیا۔ محبت ایک دوسرے کی طرف دیکھنے رہنے کا نام نہیں بلکہ دونوں کا ایک سمت میں دیکھتے رہنے کا نام ہے محبت میں اگر رفاقت کی آمیزش ہو تو وہ انتہائی بلندیوں تک جا پہنچتی ہے۔” اسی قسم کی باتیں بار بار دہراتا۔
کبھی کبھی وہ مجھے کافی دلچسپ معلوم ہوتا۔ اس کی چند چیزیں مجھے پسند تھیں۔ اس کی صحرا نوردیاں، بے چین طبیعت، سیلانی پن لیکن اس کے شکست خوردہ نظریے، بلا وجہ کا حزن، تلخ خیالات برے معلوم ہوتے۔ وہ قنوطی تھا اور اذیت پسند۔ اس نے کبھی زندگی کا مقابلہ نہیں کیا۔ مصیبت کو آتے دیکھ کہ وہ ہمیشہ راستہ کترا جاتا۔ اپنے آپ کو مظلوم سمجھتا۔ دنیا بھر کا ستایا ہوا۔ اس کا ارادہ تھا کہ عمر بھر اسی طرح سرگرداں رہے گا۔ اس کی منزل کہیں نہیں۔
میرا تبادلہ ہوا تو جینی مجھے چھوڑنے سٹیشن پر آئی، جدا ہوتے وقت میں نے رومال مانگا۔ پوچھنے لگی “رومال لے کر کیا کرو گے؟” کہا “رومال تمہاری شوخ مسکراہٹوں کی یاد دلاتا رہے گا ” بولی “تم ہر مرتبہ رومال ہی کیوں مانگتے ہو۔” بتایا کہ اس کی مخمو رکن خوشبو اور ننھے سے سرخ دل کی وجہ سے۔
اگلے سال مجھے کسی نے بتایا کہ کامریڈ جینی کو چھوڑ کر چلا گیا۔ وہ بالکل ویسے کا ویسا رہا۔ جینی کی تمام کوششیں اس میں کوئی تبدیلی نہ لا سکیں۔ چلتے وقت اس نے جینی سے کہا کہ بے سر و سامانی اس کی تقدیر میں ہے۔ اس کی منزل مفقود ہے۔ وہ جینی سے محبت کرتا رہے گا۔ اس کی تصویر دل سے لگا کر رکھے گا۔ دوسرے شہروں سے اسے خط لکھا کرے گا۔ اسے ہمیشہ یاد رکھے گااور بس!
جینی نے اس کا تعاقب کرنا چاہا۔ جو کچھ اس کے پاس تھا فروخت کر دیا۔ پتہ نہیں وہ اسے ملا یا نہیں جب وہ واپس آئی تو طرح طرح کی افواہیں پھیلی ہوئی تھیں۔ جینی کے والد نے جو تنہا رہتا تھا اسے سخت سست کہا اور گھر سے نکال دیا۔ کچھ اوباش قسم کے لوگوں نے اس کی مدد کرنی چاہی لیکن جینی وہ شہر چھوڑ کر کہیں نکل گئی۔
کینریؔ سے میں سمندر پار ملا۔ وہ ہندوستانی تھا۔ لوگ اس کی حرکتوں کی وجہ سے اسے کیزا نووا کہتے، اسی سے یہ نام پر گیا۔ پہلی ملاقات پہاڑوں کے ایک کیمپ میں ہوئی۔ ہم نے قصبے سے کچھ شہریوں کو کھانے پر بلایا ہوا تھا۔ میس کے خیمے میں باتیں ہو رہی تھیں کہ وہ ایک روسی افسر سے لڑ پڑا۔ لڑائی کی وجہ ایک روسی لڑکی تھی۔ کینری نے فوراً اسے ڈوئل کی دعوت دی۔ روسی نے اپنے ریوالور سے چار گولیاں نکال لیں اور کینری سے بولا ہم اسے باری باری اپنے کان سے چھوا کر چلائیں گے۔ اس میں صرف دو گولیاں ہیں جس کی قسمت میں گولی لکھی ہو گی، اس کے دماغ میں سے نکل جائے گی۔ کینری پئے ہوئے تھا فوراً راضی ہو گیا۔ پہلا فائر کینری نے اپنے آپ پر کیا، وہ خانہ خالی نکلا۔ دوسرا فائر روسی نے کیا، کچھ نہ ہوا۔ کینری تیسرا فائر کر چکا تو ہم نے بڑی مشکلوں سے انہیں علیحدہ کیا۔ کنیری کو یقین نہیں تھا کہ ریوالور میں گولیاں ہیں۔ اس نے یونہی لبلبی دبا دی، دھماکہ ہوا۔ گولی خیمے کی دیوار چیر گئی۔
اس کا تبادلہ ہوا اور وہ ہمارے کیمپ میں آگیا۔ ہم دونوں بہت جلد دوست بن گئے۔
شہر کے حاکم نے ہمیں دعوت دی۔ ہم دونوں گئے۔ نہایت دلچسپ پروگرام تھا۔ آغا نے کینری کا تعارف ایک نہایت خوبصورت لڑکی سے کرایا۔
کینری اس سے گھل مل کر باتیں کر رہا تھا۔ محفل گرم ہوتی جاری تھی کہ یکایک گھڑی دیکھ کر کینری اٹھ کھڑا ہوا۔ اسن مجھے بتایا کہ دوسرے کیمپ کی قریب کسی لڑکی سے رات کو ملنے کا وعدہ کیا تھا۔ سردیوں کی اندھیری رات تھی۔ کیمپ وہاں سے سو میل کے لگ بھگ تھا۔ ہمیں سب نے منع کیا، لیکن کینری کا وعدہ تھا کیوں کر پورا نہ ہوتا۔ ہم جیپ میں روانہ ہوئے تو ہلکی ہلکی برفباری ہو رہی تھی۔ پہاڑوں کی پیچیدہ دشوار گزار سڑک برف سے سفید ہوچکی تھی۔ ہم اتنی تیزی سے جار رہے تھے کہ موڑوں پر جیپ ہوا میں اٹھ جاتی۔ راستے بھر وہ اپنی محبوبہ کے لافانی حسن کی تعریفیں کرتا رہا۔ جب ہم وہاں پہنچے تو دعوت ختم ہو چکی تھی۔ لڑکی منتظر ملی۔ کینری نے میرا تعارف کرایا۔ ان دنوں میں بے حد اداس تھا۔ مہینوں سے کسی دوست یا عزیز کا خط نہیں ملا تھا۔ میں نے بڑی جذباتی قسم کی گفتگو شروع کر دی۔ اسے یہ باتیں اچھی معلوم ہوئیں۔ ہم ایک گوشے میں جا بیٹھے۔ کینری ایک دو بار ہمارے پاس آیا لیکن جلد اٹھ کر چلا گیا۔ جب لوگ جانے لگے تو اس نے مجھے ایک طرف بلا کر کہا۔ “میں جا رہا ہوں۔ بعد میں تمہارے لئے جیپ بھجوا دوں گا۔”
“اور یہ لڑکی “میں نے حیران ہو کر پوچھا۔
“یہ اب تمہاری ہے۔ میں یاروں کا یار ہوں۔ میں تمہارے چہروں کا مطالعہ کرتا رہا ہوں۔ میں نے تم دونوں کی آنکھوں میں اس روشنی کی چمک بھی دیکھی ہے جو پہلی ملاقات پر بلاوجہ پیدا نہیں ہوتی۔ میں اسے چاہتا ضرور ہوں، لیکن تم بھی میرے دوست ہو۔”
اس کی شخصیت عجیب تھی۔ نہ اسے کسی خطرے کا احساس تھا نہ کسی مصیبت کا ڈر۔ وہ ہمیشہ کام کر چکنے کے بعد یہ سوچتا کہ یہ کام اسے کس طرح کرنا چاہئے تھا۔ اس کے مزاج میں بلا کی تندی اور گرمی تھی۔ کیسی ہی آفت آن پڑے وہ کبھی نہ گھبراتا۔ ذرا ذرا سی باتوں پر بڑے سے بڑا خطرہ مول لینے کو تیار ہو جاتا۔ اسے سکون سے نفرت تھی۔ اس سے لڑ، اس سے جھگڑ۔ محاذ سے واپس آیا ہے تو ڈوئل لڑ رہا ہے، جوئے میں آج ہزاروں جیتے تو کل سب ہار دیئے۔
سب اس کے کامیاب معاشقوں پر رشک کرتے، اس کامیابی کا راز پوچھتے۔ وہ سر ہلا کر کہتا یہ تو کچھ بھی نہیں، ہزاروں محبتیں ایسی بھی تھیں جو ادھوری رہ گئیں۔ جو کبھی بھی نہ پنپ سکیں۔ جنہوں نے بار بار میرا دل توڑا۔
ہمارے قریب ایک چھوٹا سا خوش نما قصبہ تھا گلشن، آس پاس کے باشندوں میں کینری شہنشاہِ گلشن کے نام سے مشہور تھا۔
پہلے کبھی اس پر قتل کا مقدمہ بن گیا تھا، موت کی سزا تھی، پھر عجیب سے حالات میں وہ بری ہو گیا۔ آزاد ہو کر اس نے تہیہ کر لیا کہ وہ ہمیشہ زندگی کو ایک نئی زندگی سمجھے گا جو اسے تحفۃً ملی ہے۔ اس زندگی کا گزشتہ زندگی سے واسطہ نہیں۔ وہ ہمیشہ مسرور رہے گا، آزاد رہے گا۔ جو چیز نا پسند ہوئی اسے فنا کر دے گا، جو بھا گئی اس پر چھا جائے گا۔
محض اتفاق تھا کہ ایسا شخص زندگی کی شاہراہ پر جینی سے ملا۔۔
اس کا پیار آندھی کی طرح امڈا، آناً فاناً میں چھا گیا اور طوفان کی طرح اتر گیا۔
وہ چھٹی پر ہندوستان آیا۔ شام کو کسی شناسا لڑکی سے ملاقات کا پروگرام بنا۔ اسے ملنے گیا، وہ نہیں ملی مگر وہاں ایک اور لڑکی سے ملاقات ہو گئی۔ یہ لڑکی جینی تھی جو اپنی سہیلی سے ملنے آئی تھی۔ کینری نے جینی کو اپنی محبوبہ کا نعم البدل سمجھا اور جتنے دن وہ وہاں رہا اسے نعم البدل سمجھتا رہا۔ اس نے قیمتی تحفوں کی بارش کر دی۔ اپنی دلچسپ باتوں اور رنگین کہانیوں سے جینی پر جادو کر دیا۔ بھڑکیلی کاروں میں اسے لئے لئے پھرا۔ ایک چاندنی رات کو جب وہ سمندر میں تیرنے گئے تو ریت پر بیٹھ کر اس نے محبت کا واسطہ دے کر جینی کو شیمپین پلائی۔ عمر بھر با وفا اور صادق رہنے کا حلف اٹھایا۔ ہمیشہ اکٹھے رہنے کے عہد و پیمان کئے۔ یہ سب کچھ اس قدر پر خلوص تھا کہ جینی نے سچ مان لیا۔
اس آغاز کے بعد انجام وہی ہوا جس کی توقع کی جا سکتی تھی، جو نا گزیر تھا۔ جینی کی زندگی میں وہ جس طرح آیا تھا اسی طرح چلا گیا۔
لیکن جینی کی یاد اس کے دل سے مکمل طور پر نہ گئی۔ جب کبھی اسے کوئی ٹھکرا دیتا، جب دیر تک تنہا رہنا پڑتا، کوئی بری خبر سننے میں آتی، اداسیاں عود کر آتیں… تو اسے جینی کی معصومیت، اس کا خلوص اور پیار یاد آتا۔ رات کی تنہائی میں ہم دونوں دیر تک خیمے میں بیٹھے رہتے۔ باہر سرد ہواؤں کے جھکڑ چلتے تو وہ جینی کو یاد کرتا۔ اپنے جھوٹے وعدوں کو یاد کر کے شرمندہ ہوتا، اپنے آپ کو گنہ گار سمجھتا۔ بار بار کہتا کہ جینی ان سب لڑکیوں سے مختلف تھی جو اس کی زندگی میں آئیں۔ اگر اس کی زندگی میں شادی کی کوئی گنجائش ہوتی تو وہ جینی سے ضرور شادی کرتا۔ وہ نہایت غیر معمولی لڑکی تھی۔ اسے کسی نے سمجھا نہیں۔ کسی کی نگاہیں اس کے خدوخال سے آگے نہیں پہنچیں۔ اس کی روح کی عظمت کو کسی نے نہیں پہچانا۔ اس میں کسی مصور کی روح تھی، کسی عظیم شاعر اور بت تراش کی روح۔ اس میں اتنی صلاحیتیں تھیں کہ ان کی رفاقت کسی کی بھی زندگی چمکا سکتی تھی۔ اس میں بلا کی معصومیت تھی اس میں سیتا کا تقدس تھا۔ مریم کی پاکیزگی تھی۔ اس نے کئی مردوں سے محبت نہیں کی بلکہ صرف ایک ایک مرد سے محبت کی، ایک مرد جسے اس نے کلبلاتے رینگتے ہجوم سے چنا اور دوسروں سے مختلف سمجھا لیکن اس مرد نے اسے ہمیشہ دھوکہ دیا۔ اس کی مسکراہٹ کیسی تھی، بالکل مونالزا کی مسکراہٹ، معصوم، اتھاہ اور پراسرار، اس کی مسکراہٹ کے سامنے کینری جیسا انسان بھی کانپ اٹھا تھا۔
لیکن ایسی باتیں وہ کبھی کبھی کیا کرتا اور اگلی صبح اکثر بھول جاتا۔
اس کے بعد ایک طویل وقفہ آیا۔ یہ وقفہ ایسا تھا کہ اس نے سب کچھ بھلا دیا۔ جینی بھی یاد نہ رہی۔ میں ہزاروں میل کے فاصلے سے واپس ملک میں آیا تو دوبارہ دور بھیج دیا گیا۔ اس عرصے میں کبھی کوئی پرانی یاد تازہ ہو جاتی اور خیالات کے تسلسل میں جینی آ جاتی تو یہی سوچتا کہ غالباً اب اس سے کبھی ملاقات نہیں ہو گی۔
لگاتار تنہائی اور بہت سے کٹھن لمحوں کے بعد مختصر سی چھٹی ملی۔ میں قریب کی پہاڑیوں پر چلا گیا۔ وہ علاقہ نہایت سرسبز و شاداب تھا۔ دور دور تک چائے کے باغات تھے اور مالدار سوداگروں کی آبادیاں۔ جہاں میں گیا وہاں خوب رونق تھی۔ میری طرح بہت سے اجنبی چھٹیاں گزارنے آئے ہوئے تھے۔ چند ہی دنوں کے بعد محسوس ہونے لگا کہ باوجود اتنی چہل پہل اور شور شغب کے وہ احساسِ تنہائی کم نہیں ہوا جو مجھے وہاں کھینچ کر لایا تھا۔ ایک روز میں یونہی کھویا کھویا سا پھر رہا تھا کہ جینی مل گئی۔ ایسے دور دراز خطے میں اسے پا کر مجھے از حد مسرت ہوئی۔ اس مرتبہ تو وہ پہلے سے بالکل مختلف معلوم ہوئی۔ اس کی باتوں میں حزن کی آمیزش تھی۔ اس کے چہرے پژمردگی تھی لیکن ایسی پژمردگی جس میں عجیب جاذبیت تھی، جو حسن و شباب کی تازگی سے کہیں دلفریب معلوم ہو رہی تھی، اس مسکراہٹ میں افسردگی کی رمق نے ایک عجیب وقار پیدا کر دیا تھا۔
وہ وہاں اپنے کسی عزیز کے ہاں رہتی تھی جو چائے کا سودا گر تھا۔ وہ بھی اپنے آپ کو تنہا محسوس کر رہی تھی۔ کلب، رقص، پارٹیاں، پکنک۔ سب بے حد اکتا دینے والے تھے۔ وہاں اس کا صرف ایک واقف تھا، اسی کمپنی کا ایک بوڑھا ملازم جو تنہا رہتا۔ جس کی زندگی کا سب سے قیمتی خزانہ کتابیں تھیں۔ کام سے لوٹ کر وہ بڑے اہتمام سے کتابیں نکالتا۔ دونوں پڑھتے، بحث کرتے، جھگڑتے… اب ہم تین ساتھی ہو گئے۔ چھٹی کے بقیہ دن یوں گزرے کہ پتہ بھی نہ چلا۔ واپس آ کر میں نے تبادلہ کرا لیا اور جینی کے پاس چلا گیا۔ ہم جنگلوں میں نکل جاتے، سیریں کرتے، کتابیں پڑھتے، بچوں کی طرح ہنستے کھیلتے۔ میں اسے جتنا قریب سے دیکھتا اتنی ہی نئی خوبیاں پاتا۔ وہ بہترین رفیق تھی۔ اکثر یوں محسوس ہوتا جیسے میں اسے پہلے کبھی ملا ہی نہیں، اس کی بے پناہ جاذبیت سے آشنا نہیں ہوا۔ ہم رقص پر جاتے تو وہ لگاتار میری جانب متوجہ رہتی۔ اس کی نگاہیں میرے چہرے پر جمی رہتیں۔ مجھے اس پر فخر ہونے لگتا۔
ہم ایک دوسرے کے قریب خاموش بیٹھے پڑھتے رہتے۔ کئی کئی گھنٹوں تک ایک بات بھی نہ ہوتی، لیکن ہمارے خیالات ہم آہنگ ہوتے، دلوں میں طمانیت ہوتی۔ خاموشی اور گویائی کا فرق یوں مٹ جاتا جیسے ہم باتیں کر رہے ہوں۔ پتہ نہیں وہ کون سا رشتہ تھا جس نے اب تک ہم دونوں کو قریب رکھا۔ غالباً دوستی کا جذبہ۔ یہ قرب اس قدر اہم ہو گیا کہ ذرا سی جدائی بھی شاق گزرنے لگی۔
ایک روز میں نے اس کی کتابوں میں نظموں کی کاپی دیکھی۔ یہ نظمیں جینی نے لکھی تھی۔ یہ نظمیں کس قدر حزنیہ تھیں، کتنی کرب انگیز اور درد ناک۔ میں نے اس سے پوچھا کہ یہ اس نے کب اور کن حالات میں لکھیں؟ یہ اس کی لکھی ہوئی ہرگز نہیں معلوم ہوتیں، کیونکہ جس جینی کو میں جانتا ہوں وہ تو دلیر اور نڈر ہے۔ اس نے کوئی جواب نہ دیا اور خاموش رہی۔
ایک سہ پہر کو ہم سیر سے واپس آ رہے تھے کہ بارش شروع ہو گئی۔ پہلے تو درختوں کے نیچے چھپتے رہے۔ جب موسلادھار مینہ برسنے لگا تو بھاگ کر ایک شکستہ جھونپڑی میں پناہ لی۔ میں نے اپنا کوٹ سوکھی ہوئی گھاس پر بچھا دیا۔ ہم دونوں بیٹھ گئے۔ کچھ دیر خاموشی رہی۔ میں نظموں کی باتیں کرنے لگا۔ یونہی تنگ کرنے کو کہا کہ پہلے تو کبھی بھولے سے بھی کوئی شعر اس کی زبان پر نہ آتا تھا اب ہزاروں اشعار زبانی یاد ہیں۔ کہیں اسے کوئی شاعر تو پسند نہیں آگیا تھا؟ اس کا چہرہ اتر گیا۔ آنکھوں میں آنسو آ گئے۔ میں نے معافی مانگی۔ شاید کوئی دکھتی ہوئی رگ چھیڑ دی تھی یا تلخ یادیں تازہ کرا دی تھیں۔ اس کا ہاتھ اپنے ہاتھ میں لے لیا۔ دوبارہ معافی مانگی۔ ایک پھیکی سی مسکراہٹ اس کے لبوں پر آ گئی۔ جب وہ میرے شانے سے سر لگائے بیٹھی تھی، تو ایسی ننھی منی بچی معلوم ہو رہی تھی جو راستہ بھول گئی ہو۔ بالکل بے یار و مددگار ہو اور سہارے کی طالب ہو۔ میں نے اس کے آنسو خشک کئے۔ دونوں ہاتھوں سے اس کے چہرے کو تھام کر اسے پیار کیا۔ ان با رہا چومے ہوئے ہونٹوں پر اب تک تازگی تھی۔ ان آنکھوں میں اب تک معصومیت تھی۔ ان رخساروں پر وہی جلا تھی۔ یہ لڑکی اب تک وہی لڑکی تھی جسے میں نے برسوں پہلے جی بی کے ساتھ مباحثے میں دیکھا تھا۔ اس کی زندگی کی ایک کہانی ایسی بھی رہ گئی تھی جو میں نے نہیں سنی تھی۔ یہ کہانی اس نے خود سنائی۔ یہ ایک شاعر کے متعلق تھی جو شرابی تھا، جواری تھا، غیر ذمہ دار تھا، جھوٹا تھا۔ اپنی خود داری اور انفرادیت کو خیر باد کہہ چکا تھا۔ جس کی حرکتیں دیکھ کر افسوس کی بجائے غصہ آتا۔ جینی ہمیشہ اس پر ترس کھاتی۔ ہر ممکن طریقے سے اس کی مدد کرتی سفارشیں کر کے اس کا کلام چھپوایا۔ اسے ادھر ادھر متعارف کرایا۔ اس کی حوصلہ افزائی کی کہ شاید یہ اسی طرح سدھر جائے۔ اس کی زندگی بہتر بن سکے اور وہ بیش بہا خزانہ جو اس کے دماغ میں محفوظ ہے کہیں ضائع نہ ہو جائے۔ ترس کا یہ جذبہ دن بدن بڑھتا گیا۔ جینی غیر شعوری طور پر اس کے قریب ہوتی گئی۔ پھر اس جذبے نے ایک اور شکل اختیار کی۔ جینی کو خود علم نہیں تھا کہ جسے وہ محض جذبۂ ترحّم سمجھ رہی ہے ایک دن محبت کا پیش خیمہ ثابت ہو گا۔ جینی نے ایک آوارہ و بے خانماں کو پناہ دی۔ اپنی توجہ اور اپنا پیار ایسے انسان پر ضائع کیا جو ہر گز اس کا حق دار نہ تھا۔ وہ سدھرتا جا رہا تھا۔ اس کی حالت پہلے سے بہتر ہوتی جا رہی تھی۔ وہ کہا کرتا کہ کہ اسے جینی کی گزشتہ زندگی سے کوئی سروکار نہیں۔ ا ب تو اسے اپنی گزشتہ زندگی سے بھی تعلق نہیں رہا تھا۔ اس کی زندگی تب سے شروع ہوئی جب اس نے جینی کو پہلی مرتبہ دیکھا۔ پتہ نہیں اس سے پہلے وہ کیوں کر جیتا رہا لیکن اب وہ جینی کے بغیر زندہ نہیں رہ سکتا۔ اس نے اپنی نظموں میں بار ہا جینی کو مخاطب کیا تھا۔ تمہارے دل میں خلوص کے چشمے ابلتے ہیں۔ محبت کا قلزم رواں ہے۔ تمہارے دل میں وہ جذبات ہیں جن پر رات دن کا تسلسل قائم ہے۔ زمین و آسمان کی گردش قائم ہے۔ وہ جذبات جب فنا ہو گئے انسانیت فنا ہو جائے گی۔ دنیا چاند ستاروں کی طرح اجاڑ اور سنسان ہو جائے گی۔ یہاں کچھ بھی نہ رہے گا۔
ایک روز اس نے جینی کو بتایا کہ وہ بیمار ہے، اسے دق ہے۔ کبھی کبھی یہ بیماری عود کر آتی ہے۔کاش کہ وہ تندرست ہوتا، تب کسی روز وہ دونوں شادی کر لیتے۔ زندگی کتنی سہانی ہو سکتی تھی۔ کیسی کیسی راحتیں میسر ہوتیں۔ تب وہ سب اذیتیں بھول جاتیں جو دنیا کے جہنم میں اب تک برداشت کی تھیں۔
وہ یونہی آوارگی میں مرنا چاہتا تھا لیکن بڑی مشکلوں سے جینی نے اسے سینی ٹوریم میں بھجوایا۔ اس کا فالتو خرچ برداشت کرنے کے لئے وہ دن بھر دفتر میں کام کرتی۔ رات کو ٹیوشن پر لڑکیوں کو پڑھاتی۔ لگاتار مشقت نے اسے کمزور کر دیا۔ وہ بیمار رہنے لگی۔ وقت گزرتا گیا۔ ایک دن اسے معلوم ہوا کہ شاعر صرف اسی کے لئے نظمیں نہیں کہتا۔ اس کے تخیل میں کوئی اور بھی شریک ہے۔ یہ سینی ٹوریم کی ایک نرس تھی جسے وہ بعد میں ملا تھا۔
جینی نے اس افواہ پر توجہ نہ دی، یونہی کسی نے اڑا دی ہو گی۔ وہ وہاں رات دن ایک سے ماحول میں رہ رہ کر تھک گیا ہو گا۔ اسے تفریح بھی تو چاہئے۔کسی سے ہنسنے بولنے میں کوئی حرج نہیں۔ جب وہ اس سے ملنے جاتی تو نرس کے لئے بھی تحائف لے جاتی۔ ان دونوں کی دوستی پر اس نے کبھی شبہ نہیں کیا لیکن یہ افواہ محض افواہ نہیں رہی۔ شاعر سینی ٹوریم سے تندرست ہو کر آیا تو اس نے شادی کر لی۔ نرس کے ساتھ۔ جینی پھر بھی اس سے ملتی رہی، اسے مالی مدد دیتی رہی۔ آخر نرس نے ان ملاقاتوں پر اعتراض کیا کہ جینی جیسی لڑکی سے ملنا بدنامی مول لینا ہے۔ شاعر نے اس اعتراض کو سر آنکھوں پر لیا ور جینی سے ملنا چھوڑ دیا۔ موقع ملنے پر وہ اسے بدنام بھی کرتا۔ غزلوں میں اپنے کارنامے بیان کرتا اور جینی کے پرانے عاشقوں کے قصے دوہراتا۔
جب وہ کہانی سنا چکی تو میں نے اسے بتایا کہ ہم پرانے دوست ہیں۔ دوستی عظیم ترین رشتہ ہے۔ خلوص پر میرا ایمان ہے۔ میں انسانی کمزوریوں سے ہرگز منکر نہیں۔ شاید مجھے اچھے برے کی تمیز نہ ہو لیکن ان جذبات کی قدر کرتا ہوں، جن میں خلوص کار فرما ہو خواہ ان جذبات کا انجام کیسا ہی ہو۔ زندگی میں تبدیلیاں آتی رہتی ہیں ذہنی کیفیتیں بھی دیر پا نہیں ہوتیں لیکن وہ جذبات جو اپنے وقت پر صادق تھے، ہمیشہ صادق رہتے ہیں۔ اس لئے وہ مد و جزر جو تمہاری زندگی میں آئے ناگزیر تھے۔ تم سچی تھیں۔ تمہارے جذبات سچے تھے۔ میں نے تمہیں بہت قریب سے دیکھا ہے۔ تمہیں پسند کرنے کے علاوہ میں تمہاری عزت بھی کرتا ہوں۔
آہستہ آہستہ اس نے لوگوں سے ملنا چھوڑ دیا۔ باہر جانا بند کر دیا۔ وہ ہر وقت میری منتظر رہتی لیکن اب وہ مسرور نہیں تھی۔ اب اسے ماضی یا حال کا اتنا خیال نہیں رہا تھا جتنا کہ مستقبل کا، وہ تنہا اور اداس تھی۔ کئی مرتبہ میں نے اسے قبرستان میں بیٹھے دیکھا۔ ایک روز میں وہاں اس کے پاس چلا گیا۔ وہ عجیب سی باتیں کرنے لگی۔ “کبھی ایسے پرسکون لمحات بھی آئیں گے جب میں بھی اسی طرح سو جاؤں گی۔ وہ خاموشی کتنی سہانی ہو گی؟ موت کے بعد اگرچہ محض خلا ہو گا، دل دوز تاریکی ہو گی لیکن وہ تاریکی اس کرب انگیز اجالے سے ہرگز بری نہیں ہو گی۔”
پھر انگریزی میں لکھا ہوا یہ شعر دہرایا “میں ان بد نصیبوں میں سے ہوں جنہیں ہر صبح نہایت قلیل روشنی ملتی ہے۔ امید کی اتنی سی جِلا کہ صرف دن بھر زندہ رہ سکیں۔ جس روز یہ روشنی نہ مل سکی میں ظلمتوں میں کھو جاؤں گی۔”
میں نے رنگین اور خوش نما چیزوں کی باتیں کر کے موضوع بدلنا چاہا لیکن وہ بولی۔”کاش تم اندازہ لگا سکتے کہ میں کس قدر غمگین ہوں؟ کس قدر افسردہ ہوں؟ اگر اب مجھے سہارا نہ ملا تو میرے خواب تمام ہو جائیں گے۔ اصول ختم ہو جائیں گے۔ میں گم ہو جاؤں گی۔”
پھر ایک دن جب میں ان افواہوں کی تردید کرنا چاہتا تھا جو ہم دونوں نے با رہا اپنے متعلق سنی تھیں وہ کہنے لگی “تم مجھے جانتے ہو، سمجھتے ہو۔ میں بھی تمہاری سیّاح روح سے آشنا ہوں۔ تمہارے ان گنت مشغلوں، طرح طرح کے خوابوں کا مجھے احساس ہے۔ میں تم سے صرف ذرا سی توجہ مانگتی ہوں۔ بالکل ذرا سا سہارا۔ اپنی زندگی کا قلیل سا حصہ مجھے دے دو، میں ہمیشہ قانع رہوں گی۔ میں کبھی تم پر بار نہیں ہوں گی۔ تم میرا ساتھ نہ دینا میں تمہارے ساتھ چلوں گی۔”
میں اس اشارے کو سمجھ گیا۔ پہلے بھی کئی مرتبہ اس نے ایسی باتیں کی تھیں۔ میں یہ بھی جانتا تھا کہ عورت اور مرد کی دوستی نہایت محدود ہے اس پر کئی اخلاقی اور سماجی بندشیں عائد ہیں۔ یہ بندش ایک حد تک درست بھی ہیں۔ آخر ایک مقام آتا ہے جہاں فیصلہ کرنا پڑتا ہے۔
میں اس مقام سے لوٹ آیا۔
فیصلہ کرنے کا وقت آیا تو میں بزدل ثابت ہوا، میں خاموش ہو گیا۔ خاموش ہو کر میں اس گروہ میں شامل ہو گیا جو جینی کی زندگی میں مجھ سے پہلے آیا۔ گروہ جو بظاہر اپنے آپ کو باغی ظاہر کرتا، لیکن دراصل سماجی روایات کا غلام تھا۔ جینی سمجھ گئی۔ پھر اس نے کبھی ایسی باتیں نہیں کیں۔ ہم دونوں میں ایک معاہدہ سا ہو گیا۔ اگرچہ یہ معاہدہ زبان پر نہیں آیا، لیکن طے ہو گیا کہ جب تک ایک دوسرے کے قریب ہیں، محض پرانے دوستوں کی طرح رہیں گے۔
پھر میں نے تبادلے کے لئے کہا تو مجھے دوسری جگہ بھیج دیا گیا۔ چلتے وقت جینی مجھے چھوڑنے آئی اس کی آنکھوں میں آنسو تھے۔ پہلی مرتبہ میں نے اسے سب کے سامنے روتے دیکھا۔ ان آنسوؤں کے باوجود وہ مسکرانے کی کوشش کر رہی تھی۔ بار بار وہ آنکھیں خشک کرتی اور جب میں نے رومال مانگا تو اس نے بالکل پہلی سی شوخی سے پوچھا کہ رومال لے کر کیا کرو گے؟ میں نے کہا اسے یادگار کے طور پر رکھوں گا۔
“اور میرے آنسو کیوں کر خشک ہوں گے؟ ” اس نے گیلا رومال دیتے ہوئے پوچھا۔
چند مہینوں کے بعد میں نے سنا کہ اس نے کسی سے شادی کر لی۔
جو جواب میں نے اس کی مسکراہٹ سے مانگا تھا وہ نہیں ملا۔ پھر یک لخت معلوم ہوا کہ موسیقی ختم ہو چکی ہے۔ رقص ختم ہو چکا ہے اور لوگ کھانے کے لئے دوسرے کمرے میں جا رہے تھے۔ میں اور جی بی بھی چلے گئے۔ جب دیر کے بعد واپس آئے تو جینی جاچکی تھی۔ اس کا خاوند بھی وہاں نہیں تھا۔
مجھے یونہی خیال سا آیا کہ اس مرتبہ جینی سے بہت کم باتیں ہوئیں۔ میں اس سے دور دور رہا۔ نہ اس سے کچھ پوچھا نہ بتایا۔ اس سے رومال بھی تو نہیں مانگا۔
نہ جانے کیوں مَیں اس گوشے میں چلا گیا جہاں جینی اور اس کا خاوند بیٹھے رہے تھے۔ میں نے دیکھا کہ میز کے نیچے ایک مسلا ہوا رومال پڑا ہے جو رقص کرنے والے لوگوں کے قدموں تلے آ چکا تھا۔ میں نے اسے اٹھا لیا، جھاڑا، سلوٹیں دور کیں۔ جانی پہچانی خوشبو سے فضا معطر ہو گئی۔ یہ رومال یہاں کیسے آیا؟ جینی جان بوجھ کر میرے لئے چھوڑ گئی، یا یونہی اتفاق سے رہ گیا۔؟ دیر تک میں اس رومال کو لئے وہیں کھڑا رہا۔ اس روندے ہوئے، مسلے ہوئے سرخ دل کو دیکھتا رہا جو اب تک خمار آگیں خوشبو میں بسا ہوا تھا۔
جینی کا دل عورت کا دل۔