ابھی وہ دونوں بھاگ ہی رہے تھے جب پیچھے سے ایک گولی محد کے بازو پر لگی پر اُنکے بھاگنے میں کوئی کمی نہیں آئی تھی اب تو رات کا اندھیرا بھی ہر سُو پھیل رہا تھا لیکن اُنکا تعاقب کرنے والی گاڑیاں ابھی بھی اُنکے پیچھے تھیں۔۔۔بھاگتے ہوئے ایک چھتا سا نظر آیا جسے وہاں کے انداز میں لکڑی سے بنایا گیا تھا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔محد اور مایا دونوں اُسکے پیچھے سے پھر واپس اُسے راستے پر بھگانے لگے اور گاڑی سیدھی گزر گئیں۔
محد کا خون اس حد تک بہہ گیا تھا کے رنگت بلکل زرد پڑھ گئی تھی
"تم ٹھیک ہو”
لیکن ہمت سے کھڑا تھا جب مایا اُسکا خون دیکھ کر پریشاں ہوئی
"مجھے لگا پیچھے بازو پر کچھ چب گیا ہے بھگتے ہوئے ۔۔۔۔اسلیے تھوڑی سی درد ہورہی ہے”
پیچھے سے بازو دیکھنے کی کوشش کی لیکن نظر نہیں آیا دونوں کا سانس کافی حد تک پھولا ہوا تھا اور حلق تک خُشک ہوچکا تھا ۔۔۔۔مایا کو تو عادت تھی بہت مرتبہ ایسے حادثے اُسکے ساتھ پیش آچکے تھے لیکن اُسے محد کی فکر ہورہی تھی
"مسٹرنی جی نام کیا ہے آپکا”
مایا اُسکے کا معائنہ کر رہی تھی جب محد کی زبان پر کھجلی ہوئی
"مایا شیخ… تم تھوڑا سا حوصلہ کرو بہت جلد میری ٹیم پہنچ جائے گی مجھے ٹریس کرکے پھر تمہاری پٹی کروں گی”
مایا نے اُسکے بازو پر ہاتھ رکھا ہوا تھا تاکہ بلیڈنگ کو روکا جا سکے
لیکن محد نے جواب نہیں دیا تو ٹارچ نکال کر دیکھا محد بے ہوش ہو چُکا تھا اور اُسکی سانسیں بھی اُکھڑ رہیں تھیں شاید زیادہ بھاگنے کی وجہ سے اُسکے پھیپھڑے اُسکی ضرورت کے مطابق آکسیجن پروڈیوس نہیں کر رہے تھے اور ساتھ میں جسم میں خون کی مقدار بھی رفتا رفتا کم ہو رہی تھی
"اوئے جنگلی جانور اٹھو ”
نام بھول چکا اور حالت دیکھ کر یہی نام سہی لگا تھا
"ہائے اللّٰہ میں کیا کروں ۔۔۔۔۔اگر اسے کچھ ہوگیا تو”
تھی تو ہلاکو خان کی بیٹی لیکن کبھی اپنے ملک کا پرندہ تک مرتا نہیں دیکھ سکی تھی اور یہ تو تھا ہی انسان
"مایا جی بس تھوڑی سی ٹانگیں دوبا دیں اللہ خیر کر سی”
مایا تو کرنٹ کھا کر پیچھے ہوئی اُسے لگا کوئی جن بھوت دیکھ لیا ہے لیکن جلد ہی سنھبل گئی
"جنگلی جانور ہاؤ دائڑ یو”
ایک زور کا دھکا دیا سیدھا سڑک پر لیٹ گیا
"لوو یو تو(ٹو)”
منہ پر ہاتھ رکھ کر شرمایا
"ہاں یہ تو پتہ پاکستان کی قوم کو اور کچھ انگلش کا سمجھ آئے یہ نہ پر یہ لوو یو کے سبلنگ پیدا ہوتے ہی سیکھ لیتے ہیں”
دل میں سوچا کیوں کے دھکا وہ پہلے ہی دے چُکی تھی
ابھی محد شرما ہی رہا تھا جب زن سے ایک گاڑی اُنکے پاس آکر رکی
"مس شیخ آپ ٹھیک ہیں”
ایک لڑکی باہر آئی تھی جس نے اپنے منہ پر کپڑا لپیٹ رکھا تھا
"جلدی کرو اسے گاڑی میں بیٹھوں گولی لگی ہے اسے”
اُسنے محد کی طرف اشارہ کیا جو گولی کے نام پر آنکھیں موند گیا
"اُٹھو جنگلی جانور جلدی سے ورنہ دوبارہ خطرہ پر سکتا ہے”
اُسکی طرف آئی جسے کوئی اثر نہیں ہوا تھا
"میں تو نہیں ہل سکتا مجھے امی کے پاس جانا ہے اگر لے جا سکتی ہو تو اُٹھا کر لے جاؤ”
مایا نے آگے بڑھ کر ایک زور کی لات اُسکے پیٹ میں رسید کی جس کے بعد آرام سے آکر گاڑی میں بیٹھ گیا
دونوں لڑکیاں آگے تھیں جبکہ پیچھے وہ پوری سیٹ اور قبض ہُوا بیٹھا تھا
"مایا کوئی فراڈ ہی نہ ہو ۔۔۔۔۔۔ہمیں آج کل زیادہ سیکیور ہونے کی ضرورت ہے”
وہ دونوں وہاں کی علاقائی زبان بول رہیں تھیں مایا نے ایک نظر بیک میرور سے اُسے دیکھا جو اُنکی باتوں سے بے نیاز بیٹھا اپنے دانتوں کی مدد سے ناخن کاٹ رہا تھا
"نہیں نوين یہ معصوم ہے ۔۔۔ویسے بھی آخر تک میرے ساتھ رہا ہے ان پڑھ معلوم ہوتا ویسے بھی”
وہ اب اپنے کپڑے جھاڑ رہی تھی جس پر کیچڑ اور مٹی سے نقشوں نگار بنے ہوئے تھے
"اس کی آنکھیں دیکھو ایسا معلوم ہوتا ہے جیسے ساری دُنیا کے راز ان آنکھوں میں ہوں”
نوین بیک مرور سے اُسکی انکھوں میں جھانک رہی تھی
"تمھیں تو یہ بھی لگتا تھا کے سلمان خان کی آنکھوں سے لگتا ہے وہ وفا دار ہوگا حالانکہ چھ ایکٹرز سے افیئرز رکھ چکے ہے اور کسی کے ساتھ وفاداری کا ثبوت نہیں دیا ”
یہ بات آج سے چھ سال پہلے جب وہ ملی تھیں تب بتایا تھا اور اُسے آج بھی ہوبا یاد تھا
"اچھا مجھے جو لگا بتا دیا ”
اپنی شامت آتے ہی بات بدل دی
جبکہ مایا نے سیٹ سے ٹھیک لگا دی اور آنکھیں موند لی
°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°
رو رو کر آنکھیں ایک بار پھر اُبلنے کو آئیں ہوئیں تھیں
"میں ہوں ہی بد قسمت ۔۔۔ویسے بھی اتنی بڑی ہوں اُس سے وہ کیوں میری طرف راغب ہوگا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔میں چلی جاؤں گی سب کچھ چھوڑ کر اپنی تذلیل اور برداشت نہیں کر سکتی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔طالش کبھی تو احساس ہو گا تمھیں ۔۔۔عندلیب مجاہد نے تمہیں ٹوٹ کر چاہا تھا راتوں کو جھاگ کر تمھیں اپنی دُعاوں میں مانگا تھا لیکن تم تھے ہی نہیں میری قسمت میں ”
اُسنے غلطی سے بھی اپنے نام کے ساتھ اُسکا نام نہیں لگایا تھا پر دل بری طرح ٹوٹ گیا جینے کی چاہت ختم ہوگئی تھی اپنے رشتے راس ہی نہیں آئے تھے ماں باپ نے بھوج سمجھ کر انکے گلے ڈال دیا اور یہاں چار دنوں سے جو اُسکی ذات کی تذلیل ہوئی تھی وہ کوئی عام انسان برداشت نہیں کر سکتا تھا
ہولے سے اُٹھی اپنا دوپٹہ اٹھایا اور ایک نظر کمرے کو دیکھا اُسکی ٹیبل اور پڑی رنگ پر نظر گئی تو جلدی سے اُسے اپنے ہاتھوں میں چھپا لیا اور آنسو صاف کرتی ہمیشہ کے لیے اُسکی زندگی سے نکل گئی
°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°
"جانم میری بات تو سن لو”
ایک لکڑی کے دروازہ پر کھڑا تھا یہاں لڑکی بار بار دروازہ بند کرنے کی کوشش کر رہی تھی گہرے نیلے رنگ کی گرم چادر لے رکھی تھی جس میں سی اُسکا سانولا سا دھک رہا تھا
"بابا آجائیں گے دامل آپ جائیں ”
منت والے انداز میں کہا لیکن اُسے آپ کہہ کر غلطی کردی تھی
"یار یہ تو مجھے آپ نہیں کہا کرو یہ پھر میری بات مان لیا کرو”
دامل نے اُسکا ہاتھ پکڑا مہر کے چہرہ سے خون چھلکنے لگ گیا
"میں نہیں رکھ سکتی آپی کو پتہ چل گیا تو جان سے مار دیں گیں”
ایک مرتبہ پھر اپنا دُکھ سُنایا لیکن پھر بھی کوئی اثر نہیں ہوا تھا
"ٹھیک ہے اتنا ہی مرنا کا شوق ہے تو تمہارے سامنے پہلے خود کو مارو گا پھر کرلیا کرنا اپنے مرنے کی باتیں”
یکدم چہرے پر سختی امڈ آئی اور ہاتھ پر گرفت اور زیادہ مضبوط ہوئی
"دامل ایسے مت کہیں”
اُسکی چھوٹی چھوٹی سی انکھوں میں آنسو ٹپکنے لگے
"اُف اللّٰہ اچھا رو نہیں یہ کو موبائل اور کچھ نہیں کہنا اس نے بس کبھی جب میں آ نہیں سکتا تب کال کر لیا کروں گا”
اسکا منہ اپنے ہاتھوں کے پیالے میں لاکر لاڈ سے بچکارا
"دامل میں کیسے ”
ابھی وہ کُچھ کہتی دامل نے اُسکے ہاتھ کی پست پر اپنے لب رکھے اور مہر کے سمجھنے سے پہلے ہی چلا گیا
جب کہ مہر کو اپنے کانوں سے لو نکلتی محسوس ہورہی تھی اور سارے جسم کا خون نوچڑ کر اُسکے چہرے اور آگیا اور بھاگ کر اندر چلی گئی
°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°
طالش ٹیرس پر کھڑا سگریٹ کے کش لگا رہا تھا جب اُسے اپنی غلطی احساس ہوا پتہ نہیں کیوں پر اُس لباس میں وہ کسی اور کے سامنے جائے گی یہی بات اُسکے غُصہ کی وجہ بنی تھی
جو بھی تھا اب اُسے دیکھنے کی تمنا ہوئی تھی
"آرام سے بھی کہہ سکتا تھا میں ۔۔۔۔۔۔۔پہلے کم روتی ہے جو اور اُسکی آنکھوں کا اور دشمن بن گیا تھا ”
طالش نے ہم کلامی کی اور سگریٹ پھینک کر کمرے کی طرف گیا
لیکن سامنے خالی کمرے نے منہ چھڑایا
واش روم کا دروازہ بھی کھولا تھا
"دیب تنگ نہیں کرو سامنے آؤ”
جیسے وہ چھوٹی سی بچی ہو اور اُسکے کہنے اور کیٹن سے باہر آجائے گی
سارا کمرہ دیکھا پھر باہر گیا لیکن رخسار ابھی تک واپس نہیں آئی تھی دامل بھی کچھ دیر پہلے ہی گیا تھا دادا بھی شام کو نکل گے تھے پھر بھی ایک آس کے تحت رخسار کے کمرے میں گیا تو وہاں بھی کوئی زی روح ماجود نہیں تھا
"عندلیب ۔۔۔۔۔۔۔عندلیب”
اب پریشانی ھونے لگی تھی
پورے زور سے آوازیں لگا رہا تھا اور اُسکی آواز ہی واپس آرہی تھی
بھاگ کر باہر گیا لیکن گارڈن میں بھی اندھیرے اور کوئی دور دور تک نظر نہیں آرہا تھا
پھر گیٹ کے پاس کھڑے گارڈز کو دیکھ کر اُنکی طرف لپکا
"انور عندلیب کو دیکھا ہے”
تیز آواز میں پوچھا
"صاحب وہ تو ایک گھنٹہ پہلے چلی گیں تھی ۔۔۔۔کہہ رہیں تھی کسی کو مت بتانا اور مجھے کوئی ڈھونڈنے کی کوشش مت كرے ورنہ اپنی جان دے دونگی”
پہلے تو سوچا تھا کہ نہیں بتایا گا رات کا اندھیرا دیکھ کر سوچے سمجھے بغیر بول دیا
"تیری ہمت کیسے ہوئی اُسکی جان لینے کی بات کرنے کی۔۔۔۔۔۔جانے کیوں دیا اُسے”
وہ پاگلوں کی طرح اسے مار رہا تھا اُسے لگا تھا کوئی آہستہ آہستہ اُسکی جان نکال رہا ہے اُسکی سانسیں ساتھ چھوڑ رہیں ہیں
پھر خود ہی تھک کر نیچے بیٹھ گیا بس رویا نہیں تھا ورنہ حالت کسی دیوانے جیسی ہوگئی تھی
°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°
جب قانون موجود نہ ہو۔۔۔۔ ایک حیرت انگیز سچا واقعہ
یہ 1 نومبر 1955 کی بات ہے کہ جان گلبرٹ گراہم نامی ایک امریکی شہری کہ جس کا اس کی...