(Last Updated On: )
جینا ہے تو اب اپنے ہُنر بھول کے جینا
یعنی سببِ دیدۂ تر بھول کے جینا
آئینے سے بچ بچ کے گزر جانا سرِ راہ
واماندگیِ شوقِ سفر بھول کے جینا
سہ لینا ہر اک سانس کی بے ہودہ سی ذلت
یعنی کہ تری راہ گزر بھول کے جینا
کھو دینا حسیں قمقموں کی قید میں دن رات
اور پَر تو رُخ، شمس و قمر بھول کے جینا
اس جسم میں گھُلتا ہے تو بنتا ہے لہو نور
کیوں کر تری شب خیز سحر بھول کے جینا
صحرا میں بھی سامان ہیں تنہائی و غم کے
اسلمؔ مجھے راس آ گیا گھر بھول کے جینا
٭٭٭