“پہلا تو یہ کہ ہم اس خطرے سے دور ہو جائیں گے۔” کبڑے نے جواب دیا۔ “جو اس جزیرے میں ایک بار پیش آ چکا ہے اور ہو سکتا ہے کہ پھر دوبارہ پیش آ جائے۔ دوسرا فائدہ یہ ہو گا کہ ہم سمندر میں دور جا کر اس جزیرے کا انجام دیکھیں گے۔ یہ دیکھیں گے کہ آیا یہ وہی جزیرہ ہے جو پندرہ دن بعد سمندر میں آہستہ آہستہ غرق ہو جاتا ہے یا کوئی دوسرا۔ جہاں تک میں سمجھتا ہوں یہ طریقہ ہم سب کے حق میں بہتر ثابت ہو گا۔”
“لیکن میں سمجھتا ہوں کہ یہ بزدلی ہے!” جان نے سنجیدگی سے کہا۔
“اگر یہ بزدلی ہے۔” کبڑے نے آگے بڑھ کر غصہ سے کہا “اگر یہ بزدلی ہے تو پھر میں بزدل ہی بننا چاہتا ہوں۔ آپ اگر ان بتوں کی طرف بڑھے تو میں سمندر میں کود کر اپنی جان دے دوں گا۔”
“تمہارے جان دینے یا نہ دینے سے مجھے کوئی فرق نہیں پڑتا اس لئے تم کو اجازت ہے۔” جان نے خشک لہجے میں کہا۔
کہنے کو تو کبڑے نے سمندر میں کودنے کا نام لینا بہت آسان سمجھا تھا مگر جب جان نے اس کی اجازت دے دی تو سوچنے لگا اور پھر شاید ہمارے سامنے پہلی بار روتے ہوئے کہنے لگا۔
“میں نے عبدل کی بات مان کر زندگی میں سب سے بڑی حماقت کی ہے۔ میں اب مجبور ہوں۔ آپ جانتے ہیں نا کہ میں ایسا نہیں کر سکتا۔ مجھے اپنی جان پیاری ہے۔ مگر۔ ۔ ۔ ۔ مگر۔ ۔ ۔ ۔ ” وہ مونہہ چھپا کر رونے لگا۔ ملاحوں کے چہرے بھی اتر گئے اور وہ بھی خاموشی سے زمین پر بیٹھ گئے یہ حالت دیکھ کر جان نے نرمی سے کہا۔
“میں تمہارا برا نہیں چاپتا چتین۔ میں خود بھی یہی چاہتا ہوں کہ جلد سے جلد اس جزیرے کو چھوڑ دوں۔ لیکن فرض کرو اگر یہ وہی جزیرہ ہوا جس کی ہمیں تلاش ہے تو پھر ہم کیا کریں گے؟ کیا سمندر میں دور کھڑے ہو کر ہم اس کے ڈوبنے کا تماشا دیکھیں گے؟ پورے پندرہ دن کے بعد یہ جزیرہ پھر سمندر سے باہر آئے گا۔ کیا ہم پندرہ دن تک سمندر میں لنگر ڈالے طوفان کا مقابلہ کرتے ہوئے اس کے ابھرنے کا انتظار کرتے رہیں گے۔؟ ہر گز نہیں نہ تو میں یہ خطرہ مول لے سکتا ہوں اور نہ ہی اپنا وقت ضائع کر سکتا ہوں۔”
“ٹھیک ہے۔” کبڑے نے اپنے آنسو پونچھتے ہوئے کہا۔ “اس وقت تو خیر ہم کنارے پر ہیں لکین فرض کیجئے اگر آگے چلتے چلتے ہم جزیرے کے بیچ میں پہنچ گئے اور پھر یہ جزیرہ آہستہ آہستہ ڈوبنے لگا تو کیا ہم بھاگ کر اپنے جہاز تک واپس آ سکیں گے! کیا ہم جزیرے کے بیچ میں ڈوب نہ جائیں گے؟”
“میرے عزیز بھلا ایسا کس طرح ہو سکتا ہے؟ اول تو ہم سب تیرنا جانتے ہیں اور تیرتے ہوئے اپنے جہاز تک جا سکتے ہیں۔ دوسری بات یہ ہے کہ جزیرے کے ڈوبنے کے بعد ہمارا جہاز خود بخود پانی میں آ جائے گا۔ جب کہ اس وقت اس کو پانی میں کھینچ کر لے جانا ہی کٹھن ہے۔ اس وقت ہم آسانی سے جہاز تک پہنچ کر سمندر میں سفر کر سکتے ہیں!”
بات معقول تھی اس لئے اس بار کسی نے جان کی بات نہ کاٹی اور سب “جیسے آپ کی مرضی” کہہ کر خاموش ہو گئے۔ میں نے کھنکھیوں سے کبڑے چتین اور ملاحوں کو دیکھا۔ ان تینوں کے چہرے اترے ہوئے تھے۔ ہماری نظر بچا کر چتین نے ملاحوں سے کچھ کہا بھی، مگر میں سمجھ نہ سکا کہ کہا کیا ہے؟ ہاں اتنا اب میں ضرور سمجھ گیا تھا کہ کبڑا ملاحوں سے مل کر پھر کوئی سازش کرنا چاہتا تھا۔ میرے ہوشیار رہنے کا وقت آ گیا تھا اس لئے میں نے مناسب سمجھا کہ اپنے پستول کو ہر وقت ساتھ رکھوں۔۔۔ مگرافسوس ہمارا سب ساز و سامان جہاز میں ہی تھا اور جہاز جزیرے کی زمین پر آڑا پڑا ہوا تھا۔
کچھ دیر بعد جب جان بتوں کی طرف بڑھنے لگا تو میں نے کہا۔
“جناب میں کچھ کہنا چاہتا ہوں کیوں کہ میرے خیال میں آگے بڑھنے سے پہلے یہ بہتر ہو گا کہ ہم اپنی حفاظت کے لئے اپنے پستول بندوقیں اور دوسری چیزیں ساتھ لے لیں۔ اس وقت ہم بالکل نہتے ہیں اور ایسی حالت میں آگے بڑھنا خطرے سے خالی نہیں۔”
“کہتے تو ٹھیک ہو۔” جان نے سوچتے ہوئے کہنا شروع کیا۔ “فیروز! مگر ان پھٹی ہوئی پتلونوں اور قمیضوں کے علاوہ ہمارے پاس اور کوئی لباس بھی نہیں ہے قمیضیں بھی اب شاید اتار دینی پڑیں گی کیوں کہ گرمی کافی محسوس ہونے لگی ہے۔ سمجھ میں نہیں آتا کہ یہ گرمی یہاں اس قدر کیوں بڑھ گئی ہے؟”
“یہ مقام خط استوا سے قریب ہے اس لئے۔” جیک نے جواب دیا۔
“پھر بھی مگر اتنی گرمی!۔۔۔ میرے خیال میں اس کی کوئی نہ کوئی وجہ ضرور ہے۔ خیر اس کی بابت تو پھر سوچا جائے گا۔ میرا مطلب تو صرف یہ تھا کہ ننگے بدن پر چمڑے کی پیٹیاں لٹکانے سے ہماری کھال چھل جانے کا ڈر ہے مگر خیر اس کے علاوہ اور کوئی چارہ بھی نہیں ہے۔ اس لئے آؤ پہلے ہم سامان نکال لیں۔” یہ کہہ کر جان جہاز کی طرف بڑھنے لگا اور ہم بھی اس کے پیچھے ہو لئے۔ جہاز کے اندر جانے کے بعد ہم اپنا اپنا ضروری سامان نکالنے لگے۔ دیکھا جائے تو یہ ہماری تیسری مہم کی تیاری تھی۔ خدا جانے ابھی ایسی کتنی مہمیں اور باقی تھیں! جب ہم جہاز سے نکل کر دوبارہ باہر آئے تو میں نے دیکھا کہ کبڑے نے اپنی کمر سے ایک ٹپکا باندھ رکھا ہے۔ میرے پوچھنے پر کہ وہ کیا چیز ہے، اس نے جواب دیا۔
“بات یہ ہے بیٹا کہ میں اب کافی بوڑھا ہو چکا ہوں۔ اس عمر میں ایسے سخت سفر کرنا اور اتنے عجیب و غریب خطروں سے دوچار ہونا میرے لئے بہت مشکل ہے۔ اس لئے اپنی کمر سے یہ کپڑا باندھ لیا ہے تاکہ چلتے وقت تھکن محسوس نہ ہو۔ ٹھیک ہے نا۔؟”
اب یہ ٹھیک تھا یا نہیں یہ تو مجھے معلوم نہ تھا۔ ویسے میں اتنا ضرور جانتا تھا کہ کبڑے کی نیت میں کچھ نہ کچھ کھوٹ ضرور ہے۔ اس لئے میں نے اس سے کہا۔
“ہو سکتا ہے کہ یہ ٹھیک ہو۔ لیکن میں نے بھی احتیاطاً پستول اپنے ہاتھ میں رکھ لیا ہے کیوں کہ مجھے کسی بھی وقت اس کی ضرورت پڑ سکتی ہے۔ کیوں ٹھیک ہے نا۔؟”
کبڑے نے میرا طنزیہ لہجہ سن کر اپنا مونہہ دوسری طرف پھیر لیا اور پھر بڑبڑانے لگا۔ اس کی اس حرکت کے ساتھ ہی وہ دونوں ملاح بھی مجھے گھور کر دیکھنے لگے۔ اب میں پورے طور پر سمجھ چکا تھا کہ دال میں ضرور کچھ کالا ہے۔ کبڑے نے ان دونوں ملاحوں کو اپنا ساتھی بنا لیا ہے اور اب یہ چاہتا ہے کہ جلد سے جلد ہم سے الگ ہو کر پھر اسی جگہ پہنچ جائے جہاں ہم نے خزانہ ڈھونڈا تھا اور اس طرح پورے خزانہ کا مالک بن جائے، سچ کہتا ہوں کہ یہ اندازہ لگا کر مجھے بڑی گھبراہٹ ہوئی۔ مجھے محسوس ہونے لگا کہ اب ہماری زندگیاں پھر خطرے میں ہیں اس لئے میں نے سوچ لیا چاہے کچھ ہو جائے، اس منحوس کبڑے کی اسکیم کو ہر گز کامیاب نہ ہونے دوں گا۔
آہستہ آہستہ چلتے ہوئے اور پھونک پھونک کر قدم رکھتے ہوئے ہم اس مقام کی طرف بڑھنے لگے جہاں اب سے کچھ دیر پہلے وہ راکٹ کھڑا تھا اور جو نہ جانے زمین سے کتنے ہزار میل کی دوری پر نکل چکا تھا۔ کچھ ہی دیر بعد ہم وہاں پہنچ گئے، راکٹ جس مقام سے اڑا تھا اب وہاں ایک گہرا گڑھا تھا۔ راکٹ کے نیچے سے جو شعلے نکلے تھے، یہ گڑھا دراصل انہوں نے ہی بنایا تھا۔ ہم گڑھے کو غور سے دیکھ ہی رہے تھے کہ یکایک چونک کر اسی جگہ ٹھٹھک گئے۔ ہماری نظریں گڑھے کے برابر ہی پڑی ہوئی ایک عجیب سی چیز پر گڑ کر رہ گئیں۔ یہ ایک نرالی قسم کا پہیہ تھا اور اس پہیے کے بیچ میں سے ایک اودی مائل نیلی روشنی نکل رہی تھی۔ ساتھ ہی یہ روشنی اس انداز سے گپ چپ کر رہی تھی، جیسے ستارے کرتے ہیں۔ ہم حیرت سے اس پہیے کو دیکھ ہی رہے تھے کہ اچانک اس روشنی نے رنگ بدلنے شروع کر دئے۔ پہلے اودی روشنی سبز ہوئی، پھر زرد اور سب سے آخر میں بے حد سرخ اتنی سرخ کہ اس پر ہماری نظر ہی نہ ٹھیرتی تھی، ہم تو جلدی سے گھبرا کر پیچھے ہٹ گئے، البتہ جان وہیں کھڑا رہا۔ وہ چوں کہ سائنس داں تھا اس لئے اسے اس چمکتی ہوئی چیز سے دل چسپی پیدا ہو گئی تھی!
اور پھر یکایک وہ بات دیکھنے میں آئی جس سے ہماری عقلیں دنگ رہ گئیں، اس پہئے میں سے ایک ہلکا سا سراٹا نکلنا شروع ہوا اور پھر یہ سراٹا آہستہ آہستہ بھرائی ہوئی آواز میں تبدیل ہونے لگا اور جلد ہی صاف انگریزی میں کسی نے کہا۔
“آپ حضرات سے میری ایک گزارش ہے اور وہ یہ کہ آپ جلد سے جلد اس جزیرے سے دور چلے جائیں۔ یہ بہت ضروری ہے۔”
“مگر۔۔۔ مگر آپ کون ہیں؟” جان نے پوچھا۔ “میں اتنا تو جان چکا ہوں کہ یہ ایک قسم کا لاؤڈ اسپیکر ہے جس سے آپ کی آواز آ رہی ہے مگر آپ ہیں کہاں؟”
“ہم اس وقت آپ سے ہزاروں میل دور خلا میں اڑ رہے ہیں۔ ابھی کچھ ہی دیر پہلے آپ ہمارے بچوں کی قید میں تھے آپ کو یاد ہے؟”
“جی ہاں یاد ہے۔ ہمیں شرارتی بچوں کی قید سے چھڑانے کا بہت بہت شکریہ۔” جان نے ہنس کر کہا “مگر آپ ہمیں واپس چلے جانے کو کیوں کہتے ہیں۔؟”
“اس لئے کہ اسی میں آپ کی بہتری ہے۔” آواز نے کہنا شروع کیا۔
“ہمارے پاس اتنا وقت نہیں ہے کہ تفصیل سے آپ کو سب کچھ بتائیں۔ مختصراً اتنا سن لیجئے کہ ہم سیارہ عطون سے آتے ہیں۔ یعنی وہ سیارہ جسے آپ زمین والے زہرہ کے نام سے جانتے ہیں۔ آپ کی دنیا کے اس جزیرے میں ایک خاص طاقت ہے جسے ہم سوبیا کہتے ہیں۔ سوبیا عطون میں نہیں ہوتی۔ مگر ہمارے لئے یہ وہی کام کرتی ہے جو آپ کی دنیا والوں کے لئے بجلی کرتی ہے۔ ہمارے کارخانے اور دوسری چیزیں سب اسی طاقت سے چلتی ہیں۔ اس جزیرے کے پتھروں میں چھپی ہوئی یہ طاقت ہمارے لئے کڑوڑوں سال تک کافی ہے۔ یہ طاقت اتنی حیرت انگیز ہے کہ پتھروں میں بھی جان ڈال سکتی ہے، جس مقام پر آپ آ گئے ہیں اس سے آگے بڑھنے پر ہماری حد شروع ہو جاتی ہے۔ ہم نے اس حد کے اندر اپنے کچھ پہرے دار مقرر کر رکھے ہیں جو آپ کو آگے بڑھنے سے روک سکتے ہیں اور ان پہرے داروں میں بھی وہی طاقت کام کر رہی ہے۔”
“مگر یہ طاقت کس جگہ چھپی ہوئی ہے؟” جان نے جلدی سے پوچھا۔ اس کی نظریں جزیرے میں ہر طرف گھوم رہی تھی۔
“ان پتھر کے بتوں کے نزدیک جو اس وقت آپ سے دو برط یعنی آپ کے حساب سے دو فرلانگ کے فاصلے پر ہیں۔” آواز نے کہنا شروع کیا۔۔۔ “میں آپ کو پھر آگاہ کرتا ہوں کہ آپ واپس چلے جائیں۔ کل آدھی رات کو یہ جزیرہ پانی میں غرق ہونا شروع ہو جائے گا اور تب آپ کا یہاں سے نکلنا بہت مشکل ہو گا۔”
“بہت اچھا ہم چلے جائیں گے مگر میں آپ سے دو باتیں اور پوچھنا چاہتا ہوں۔” جان نے کہا۔ وہ گھومتے ہوئے پہیہ کو غور سے دیکھ رہا تھا۔
“جلدی کہئے، کیوں کہ جلد ہی وہ مقام آنے والا ہے جب کہ آواز کی یہ لہریں آپ تک نہیں پہنچ سکیں گی۔ اور میں آپ سے بات نہیں کر سکوں گا۔”
“میں یہ معلوم کرنا چاہتا ہوں کہ اس جزیرے کے پانی میں غرق ہونے کا راز کیا ہے؟” جان نے پوچھا۔
“یہ ہمارے بنائے ہوئے خاص پروگرام کے ساتھ ڈوبتا اور ابھرتا ہے۔ وہ طاقت سوبیا پندرہ دن تک پانی میں ڈوبے رہنے سے زیادہ قوت حاصل کرتی ہے اور پھر پندرہ دن بعد پانی سے اوپر آنے پر پچاس ہزار گنا طاقت بن جاتی ہے، ایسا سمجھ لیجئے کہ یہ ایک قسم کی بیٹری چارجنگ ہے جو ہم عطون میں بیٹھ کر ریڈیائی لہروں کے ذریعے کرتے ہیں۔ مگر آپ بے فکر رہئے ہم آپ کی دنیا کو غرق کرنے کا کوئی ارادہ نہیں رکھتے۔ ہاں اگر ہم چاہیں تو ایسا کر سکتے ہیں۔ مگر ہم عطونی لوگ بہت امن پسند ہیں، اس لئے ایسا کبھی نہیں کریں گے۔ اچھا اب دوسرا سوال؟”
“دوسرا سوال یہ ہے۔” جان نے بڑی بےتابی سے کہا “براہ کرم مجھے بتائیے کہ کیا آپ نے اس جزیرے میں کوئی خوفناک مکھی دیکھی ہے۔۔۔؟”
“اس جزیرے میں نہیں ہاں البتہ اس سے آگے ایک جزیرہ ہے جسے پہلے ہم نے اپنے مقصد کے لئے ڈوبنے اور ابھرنے والا جزیرہ بنایا تھا لیکن۔۔۔” اسی آواز نے جواب دیا، مگر جان کو اب کان لگا کر سننا پڑا کیوں کہ آواز ہلکی ہوتی جا رہی تھی۔ “بعد میں ہمیں معلوم ہوا کہ سوبیا وہاں بہت کم مقدار میں ہے۔ اس کے علاوہ ہمیں اس خوفناک پرندے سے بھی سابقہ پڑا جسے۔ ۔ ۔ ۔ آپ ۔ ۔ ۔ ۔ مکھی ۔ ۔ ۔ ۔ ”
اس کے بعد ایک زوردار زناٹے کی آواز آئی اس عجیب سے لاؤڈ اسپیکر کی روشنی اچانک غائب ہو گئی اور پھر فوراً ہی ایک کڑک و چمک کے ساتھ اس میں آگ لگ گئی۔ معلوم ہوتا تھا کہ زہروی باشندے اب ہماری زمین سے بہت ہی دور پہنچ چکے تھے اس لئے ان کی آواز بھی ہلکی ہوتے ہوتے بالکل ختم ہو گئی تھی جب ریڈیائی لہریں ختم ہو گئیں تو اس لاؤڈ اسپیکر میں آگ لگ گئی تاکہ ہم زمین کے رہنے والے ان کے راز سے واقف نہ ہو سکیں!
ہم کچھ دیر تک تو سہمے ہوئے کھڑے رہے اس کے بعد جان نے کہا۔
“اب بولئے کیا خیال ہے؟ کیا ہمیں آگے جانا چاہئے؟”
“بے شک جانا چاہئے۔” جیک نے جواب دیا۔ “ہو سکتا ہے کہ ان بتوں کے قریب جا کر ہمیں بھی اس طاقت کا پتہ مل جائے جسے وہ زہروی سوبیا کہہ رہا تھا۔ جب دوسری دنیا کے رہنے والے ہماری دنیا کی ایک دھات سے ایسی طاقت پیدا کر لیتے ہیں جو ہماری ایٹمی طاقت سے کہیں زیادہ اچھی ہے تو کیا ہم دنیا والے اپنی اس دھات سے کام نہیں لے سکتے؟ لہذا بہتر یہی ہو گا کہ ہم آگے چلیں۔ کیوں کہ میرے خیال میں وہ دیو ہمیں آگے بڑھنے سے صرف اس لئے روک رہا تھا کہ کہیں ہم دھات کے اس ذخیرے پر قبضہ نہ کر لیں۔!”
“ٹھیک کہتے ہو جیک میرا بھی یہی خیال ہے۔ ویسے تمہاری کیا رائے ہے فیروز؟” جان نے پوچھا۔
“جو آپ سب چاہیں وہ ٹھیک ہی ہے۔” میں نے جواب دیا۔
“مگر میں آگے نہیں جاؤں گا مسٹر جان۔” کبڑے نے گھبرا کر کہا۔
“جیسے تمہاری مرضی چیتن! تم بے شک یہیں کھڑے ہو کر ہماری واپسی کا انتظار کر سکتے ہوں۔” جان نے کہا۔
“جی نہیں میں اس شخص کا اعتبار نہیں کر سکتا۔” میں نے اپنا پستول نکال کر اس کا رخ کبڑے کی طرف کر کے کہا۔ “تم ہمارے ساتھ چلو گے کیوں کہ تمہارا انداز اور برتاؤ میری نظر میں ٹھیک نہیں ہے۔ تم جو چاہتے ہو وہ میں ہر گز نہ ہونے دوں گا۔ تم چاہتے ہو کہ واپس جا کر ہمارے سامان پر قبضہ کر لو اور جہاز کو کسی نہ کسی طرح سمندر میں لے جا کر واپس ہندوستان چلے جاؤ؟ جی نہیں، ہم لوگ ایسی کچی گولیاں نہیں کھیلے ہیں۔ تم ہمارے ساتھ ہی چلو گے، ہم اگر مریں گے تو تمہیں ساتھ لے کر ہی مریں گے۔”
میں نے دیکھا کہ جان میری یہ باتیں سن کر مسکرانے لگا۔ البتہ کبڑے اور ملاحوں کے چہروں پر زردی چھا گئی۔
“تو کیا تم زبردستی کرو گے۔؟” کبڑے نے خوف بھرے لہجے میں کہا۔۔۔ وہ بے چینی اور اضطراب کے عالم میں ادھر ادھر دیکھ رہا تھا۔
“یقیناً۔ جس شخص پر ہمیں اعتبار نہ ہو، اس کے ساتھ یہی کرنا پڑے گا۔ کیا سمجھے۔” جیک نے جواب دیا۔
کبڑا یہ سن کر خاموش ہو گیا اور کچھ دیر تک سوچتے رہنے کے بعد کہنے لگا کہ “اچھا میں تیار ہوں۔ میں آپ کے ساتھ ہی چلوں گا۔”
اس کے بعد ہم نے احتیاطاً اپنے پستول نکال کر ہاتھوں میں لے لئے، چاروں طرف گھوم پھر کر دیکھا کہ کوئی خطرہ تو نہیں ہے اور جب اطمینان ہو گیا ہے کہ ایسی کوئی بات نہیں ہے تو آگے بڑھنا شروع کیا۔ جزیرے کی یہ زمین عجیب قسم کی تھی۔ بعض دفعہ تو ہمیں ایسا محسوس ہوا جیسے نیچے کی زمین ہلی ہو۔ مگر پھر یہ سوچ کر کہ خطرے کے وقت عجیب سے خیالات دماغ میں آتے ہی ہیں، ہم نے اس کی کوئی پرواہ نہیں کی اور آگے ہی آگے بڑھتے چلے گئے۔ آدھ گھنٹے کے لگاتار سفر کے بعد ہم ان چٹانوں کے قریب پہنچ گئے، جو دور سے انسانی شکل کی دکھائی دیتی تھیں۔ حیرت کی بات یہ تھی کہ حالاں کہ ان کے ناک، کان، اور مونہہ نہیں تھے مگر اس کے باوجود وہ بت جیسے دکھائی دیتے تھے۔ ان بتوں کے صرف چہرے ہی زمین سے اوپر تھے۔ ایسا لگتا تھا جیسے کسی ماہر سنگ تراش نے پتھر کی بڑی بڑی چٹانوں کو جوڑ کر انہیں بنایا ہو۔ جان نے بتایا کہ امریکہ میں نیشنل پارک میں چٹانوں پر ایسے مجسمے بنے ہوئے ہیں اور ان میں امریکہ کے پہلے صدر لنکن کا بت بھی ہے۔ میں سمجھا کہ زہروی لوگوں نے اسی طرح کے یہ بت بنا دیئے ہیں۔ مگر اب خیال آتا ہے تو جسم کانپ جاتا ہے۔ کسے معلوم تھا کہ اب ہمارے ساتھ کیا واقع پیش آنے والا ہے؟
کیا حرف ع جس لغت میں ہو وہ عربی کا ہو گا؟
اردو کا ہر وہ لفظ، جس میں حرفِ "عین" آتا ہو، وہ اصلاً عربی کا ہو گا! مرزا غالب اپنے...