وھاج کافی دیر تک سڑکوں پر گاڑیاں دوڑاتا رہا پھر ساحل سمندر کی طرف گاڑی موڑ لی۔ وجیہہ کی ساری باتیں اس کے ذہن میں گردش کر رہی تھیں۔
” تو وہ میرے لئے ہی مجھے چھوڑنا چاہتی ہے کیا وہ بھی مجھ سے محبت کرنے لگی ہے۔” دل نے سوال اٹھایا۔ “مسٹر وھاج ابراہیم اس نے ایسا کب کہا ہے۔۔۔” دماغ نے فوراً تردید کی تھی۔ چہرے پر تکلیف کے آثار کہہ رہے تھے کہ میری ناراضگی پر اسے تکلیف ہوئی ہے دل نے ایک اور بہانہ بنایا۔ “اسے تم پسند ہو کیونکہ اس پر تمہارے کئی احسانات ہیں” دماغ نے پھر سے تردید کی۔ دل کو خاموش ہونا ہی پڑا کافی دیر سے احد کی کال آرہی تھی اس نے موبائل آف کر کے گاڑی میں پھینکا۔ اور سیگریٹ جلا کر لہروں کے درمیان جا کھڑا ہوا۔ “جو مجھ سے منسوب ہے تمہیں اس کی فکر ہے وجیہہ اور جس کے ساتھ نام جڑا ہے تمہارا اس کا کیا؟” وھاج ایک بار پھر خود کو کافی ہے بس محسوس کر رہا تھا۔ رات کے دو بجے تک وہ وہاں کافی سیگریٹ پی چکا تھا۔ تھک ہار کر وہ گھر کے لئے واپس لوٹا۔ اس کا گھر ساحل سمندر سے کافی قریب تھا گھر آ کر موبائل آن کیا تو احد کے ساتھ ساتھ وجیہہ کی بھی کالز آئی ہوئی تھیں۔ اس نے کال بیک کی۔ کال فوراً اٹینڈ کر لی گئی تھی۔
” تم سوئی کیوں نہیں اب تک۔” سلام کیے بغیر اس نے سوال کیا۔ میں پڑھائی کر رہی تھی۔ آپ کیوں نہیں سوئے۔” اس نے جھوٹ بولا اور وھاج کو یقین تھا کہ وہ جھوٹ بول رہی ہے۔
“میں باہر تھا ابھی آیا ہوں۔” وھاج نے سچ بتا دیا۔
” باہر کیوں سب ٹھیک تو ہے ناں آپ کی طبیعت تو ٹھیک ہے؟” وجیہہ پریشان ہوئی تھی۔
“کام تھا ایک چھوڑو تم یہ بتاؤ کال کیوں کی؟” طبیعت والی بات اس نے گول کر دی تھی۔ درحقیقت اس کے بازو میں کافی درد ہو رہا تھا ڈرائیونگ کی وجہ سے۔
” ایک دن ہوا نہیں ہاسپٹل سے آئے مگر وزیراعظم صاحب اتنے مصروف ہیں کہ کام ہی ختم نہیں ہوا۔ ملک کے اہم امور بھی تو سمبھالنے ہیں۔” وجیہہ کو سخت غصہ آیا تھا وھاج بے اختیار مسکرا دیا۔
“دوست سے اسائمنٹ لینی تھی اس کا گھر تھوڑا دور ہے وہیں تھا وھاج نے جھوٹ بولا۔
” ٹھیک ہے اپنا خیال رکھیے گا۔” وہ کال کاٹنے والی تھی کہ وھاج کی آواز پر رکی۔
“سنو! شکریہ۔” وہ مسکرا دیا تھا۔
” شکریہ کس لئے؟” وہ حیران ہوئی۔
” میری فکر کرنے کے لیے تم بھی اپنا خیال رکھنا۔ سو جاؤ اب۔ اللہ حافظ۔ وھاج نے کہہ کر کال کاٹ دی۔
“اے میرے رب ! میں نے کبھی کسی نامحرم کو غلط نگاہ سے نہیں دیکھا تو نے ہی وجیہہ کی محبت میرے دل میں ڈالی ہے میں اس کے بغیر رہ سکتا ہوں پر خوش نہیں۔ اس کا ساتھ میری زندگی میں ہمیشہ کے لئے لکھ دے۔” عشاء کی قضا نماز پڑھ کر وہ لیٹا تو اللہ سے دعا کرنے لگا۔ آج پھر وہ اپنی ہی چیز کو مانگ رہا تھا۔
☆☆ ☆☆ ☆☆ ☆☆
“آج زیان کی برتھڈے ہے اور تم نہیں جا رہی۔ کتنی خود غرض ہوں ناں لڑکی انہوں نے تمہیں بہن بنا کے رکھا ہے اور تم ہو کہ کیسی خالا ہو تم۔ ویسے صحیح کہتے ہیں اصل خالہ تو پھر اصل ہی ہوتی ہیں ناں۔ تم کون سا وریشہ آپی کی سگی بہن ہو۔” ساریہ نے وجیہہ کے نہ جانے کے فیصلے پر اچھی خاصی لمبی اور جذباتی تقریر کردی تھی اور بھلا ایسا ہو سکتا ہے کہ ساریہ کی جذباتی تقریر کا وجیہہ پر اثر نہ ہو۔ وہ بے دلی سے اٹھی اور تیار ہونے چل دی۔
“یار کیا پہنو؟” ساریہ کو تیار دیکھ کر اس نے سارے ہینگ کپڑے اس کے سامنے کیے اس نے سفید پر بلیک کڑھائی والی کرتی کی طرف اشارہ کیا تو وجیہہ جلدی سے تیار ہونے چلی گئی۔ ہلکا سا میک اپ کر کے دوپٹہ سر پر لپیٹا اور ساریہ کی طرف بڑھی وہ احد سے کال پر بات کر رہی تھی۔
” چلو وہ نیچے کھڑا ہے۔” ساریہ دروازہ کی طرف بڑھی تو وہ بھی موبائل اٹھا کر اس کے پیچھے چل دی۔
وہ حال میں پہنچی تو سب سے پہلے دادی سے ملی اور پھر سب کی طرف بڑھی وریشہ بھی ان کے پاس آ گئی تھی وہ اس کے گلے لگ گئی۔
“آپی میرے شہزادے نے چلنا کب شروع کیا؟” وہ زیان کو گدگدی کرتے ہوئے بولی۔
” بس دو مہینے پہلے۔” وجیہہ کو حیرت ہوئی۔ وریشہ زیان کو اسے تھما کر حال کے داخلی دروازے کی طرف بڑھی جہاں سے مہمان داخل ہو رہے تھے۔
” تم پہلی بار اس سے ملی ہوں ناں۔ ساریہ اور زیان کو کھیلتے دیکھ کر وجیہہ نے پوچھا تو اس نے اثبات میں سر ہلایا۔
“دیکھ لو بیٹا پہلی بار ملا ہے اور کتنا مانوس ہو گیا ہے اب میں ہوں ہی اتنی اچھی کیوں زیان۔” ساریہ فخریہ انداز میں بولی۔ وجیہہ مسکرا کر رہ گئی۔
” کتنے اچھے ہیں نہ وھاج بھائی کے گھر والے۔ میری منگنی پر تو کوئی آ ہی نہیں سکا تھا آج پہلی بار ملنے کا اتفاق ہوا۔” ساریہ نے حسنہ کو دیکھتے ہوئے کہا جو کسی مہمان سے مل رہی تھیں۔ “ہاں سب ہی بہت اچھے ہیں۔” وجیہہ نے زیان کو تنگ کرتے ہوئے کہا۔
“وھاج بھائی نظر نہیں آرہے کہاں غائب ہیں۔” ساریہ نے ادھر ادھر تشویش سے دیکھا۔
“سیدھا سیدھا بولو بیٹا کہ احد نظر نہیں آرہا۔” وجیہہ نے بات گھمادی۔ ساریہ کا جاندار سا قہقہہ برآمد ہوا۔
“زیان بیٹا آپ کی مامی بہت تیز نہیں ہوتی جارہی۔” ساریہ نے زیان کو مخاطب کرتے ہوئے کن اکھیوں سے وجیہہ کو دیکھا۔
“شرم کر لو تھوڑی سی یہاں اس کی ہونے والی مامی بھی موجود ہے۔” وجیہہ کا اشارہ سارہ کی جانب تھا۔
” اس سے پہلے ہو چکی مامی بھی تو موجود ہے۔ اب کل کس نے دیکھا ہے۔” ساریہ نے کندھے اچکائے۔ داخلی دروازے سے وھاج اور احد داخل ہوئے وہ مہمانوں سے ملتے ہوئے ان کی طرف آ رہے تھے۔ “اب برائے مہربانی اپنا منہ بند رکھنا ورنہ پورے ہفتے تمہیں کھانا نہیں ملنا۔”وجیہہ نے بلیک میل کیا۔ ساریہ کو کھانا بنانا نہیں آتا ساریہ نے مسکین سی شکل بنا کر وجیہہ کو دیکھا۔
” ماشاءاللہ وھاج بھائی آپکا بھانجا بہت ہی پیارا ہے میری تو اچھی دوستی ہو گئی ہے اس سے۔” ساریہ نے وھاج کو آتے ہی پکارا تھا۔ ساریہ کی گود سےاحد نے زیان کو ساتھ لیتے ہوئے ہیں موبائل کا لاک کھولا۔
“ہاں جی مجھ پر گیا ہے پیارا تو ہوگا ناں۔” احد نے اس کے ساتھ سیلفی لیتے ہوئے کہا۔ اس کا کچھ نہیں ہوسکتا سو خوش فہم مرے تھے تو یہ پیدا ہوا تھا۔ وھاج نے یہ بات دل میں سوچی تھی۔ احد نے زیان کو وھاج کی گود میں تھمایا اور وریشہ سے ملنے جانے لگا۔
“میں بھی چلتی ہوں روکو احد۔” ساریہ بھی گفٹ اٹھا کر کھڑی ہو گئی۔وجیہہ بظاہر موبائل میں مصروف تھی۔
“کیسی ہو وجیہہ؟” وھاج کی نرم آواز پر اس نے سر اٹھایا۔
” ٹھیک ہوں۔ آپ کیسے ہیں؟” اس نے بھی حال چال پوچھ کر گویا احسان کیا۔
“میں ٹھیک ہوں۔ وھاج نے زیان کو تھپکتے ہوئے بولا۔ اسے نیند آنے لگی تھی۔ اس کی گود میں ہی وہ آنکھیں بند کرنے لگا۔
” لائیں زیان کو مجھے دے دیں میں اسے سلا دوں۔” وھاج نے زیان کو اسے تھمایا۔
“کیا تم اب بھی طلاق لینا چاہتی ہو؟” وھاج نے لوگوں کو مسکراتے دیکھتے ہوئے سوال کیا۔
“اس بارے میں بعد میں بات کریں گے۔” وجیہہ نے پریشانی سے اردگرد نظر دوڑائیں اسے ساریی پر شدید غصہ آ رہا تھا۔
“وھاج آپ یہاں ہیں بڑی ماما آپ کو بلا رہی ہے۔” ساریہ وھاج کو وجیہا کے ساتھ دیکھ کر منہ بناتے ہوئے چلی آئی۔ وجیہہ نے کھڑے ہو کر سارہ سے مصافحہ کیا۔
” کس طرف ہے ماما؟” وھاج نے لان میں نظر دوڑائی۔
” میرے ساتھ آجائیں میں لے کر چلتی ہوں۔” سارہ کہہ کر آگے بڑھ گئی وھاج اس کے پیچھے چل پڑا۔
” زہر لگتی ہے یہ لڑکی مجھے۔”ساریہ نے صوفے پر بیٹھتے ہوئے کہا۔
“کیوں بھئی سارہ نے تمھارا کیا بگاڑا ہے؟” وجیہہ نے استفسار کیا۔
“تمھارے اور وھاج بھائی کے درمیان کیوں آتی ہے یہ” ساریہ غصہ تھی۔
“سارہ میں آئی ہوں وھاج اور سارہ کے درمیان۔ اب تم میری محبت میں کسی کے بارے میں غلط اور بروے خیالات نہیں رکھ سکتیں۔ یہ غلط ہے۔ اب خاموش رہنا آپی آرہی ہیں۔” وجیہہ نے اسے تنبیہہ کی۔
“سو گیا یہ لڑکا۔” وریشا نے سوتے ہوئے زیان کو دیکھ کر سکون کا سانس لیا۔ اور وجیہہ کے پاس آکر بیٹھ گئی۔ ہاں تو لڑکی اب بتاؤ گھر سے چھپ کر کیوں بھاگ آئی تھی؟” وریشہ نے پھر سے وہی بات چھیڑ دی وجیہہ نے میسنی شکل بنائی۔
“آپی پچھلی باتیں چھوڑ دیں۔ مجھے آپ سے ایک ضروری بات کرنی ہے۔ وجیہہ کے کہنے پر ساریہ نے ناراضگی سے اسے دیکھا وہ جانتی تھی کہ اسے طلاق کے بارے میں ہی بات کرنی ہوگی۔
“وجیہہ یہ موقع نہیں ہے کہ تم وہ بات کرو تم بعد میں بات کرلینا۔” ساریہ نے وجیہہ کو روکا تو وہ رک گئی۔ پر وریشہ پریشان ہوگئی تھی۔ اسکے استفسار کی وجہ سے اسے ساری بات بتانی پڑی۔
“ٹھیک ہے میں وھاج سے بات کرتی ہوں۔” وریشہ خود کافی دیر خاموش رہنے کے بعد بولی اور پھر وجیہہ کو یقین دلا کر چلی گئی۔
“کیا تم خوش ہو اپنے اس فیصلے سے وجی؟” ساریہ نے افسردگی سے اس کی جانب دیکھا۔
“ہاں میں خوش بھی ہوں اور پرسکوں بھی۔” وجیہہ نے مسکراتے ہوئے کہا پر نہ جانے کیوں اسے وجیہہ کی مسکراہٹ مصنوعی لگ رہی تھی۔ وہ مطمئن نہ ہوئی تھی پر خاموش رہی۔
☆☆ ☆☆ ☆☆ ☆☆
دن بہت ہی آہستہ گزر رہے تھے۔ یونیورسٹی میں بھی اس کی صرف احد سے ہی ملاقات ہو پاتی۔ ان کا فائنل سیمسٹر اختتامی مراحل میں تھا۔ امتحانات سر پر تھے اور وھاج چاہ کر بھی پڑھائی پر توجہ نہیں دے پارہا تھا۔ گھر والوں کا ارادہ تھا کہ وھاج کی یونیورسٹی ختم ہوتے ہی اس کا اور سارہ کا نکاح کردیا جائے۔
وجیہہ مکمل اسے اگنور کر رہی تھی۔ اس کا ایک ہی مطالبہ تھا۔۔۔۔۔ طلاق۔۔۔۔۔۔! احد اور ساریہ کی شادی سیمسٹر ختم ہوتے ہی امتحانات کے ایک مہینہ بعد رکھ دی گئی تھی۔ اور اسکے بعد وجیہہ اکیلی ہوجاتی۔ وھاج نہ اسے چھوڑ سکتا تھا اور نہ اسے رکھ سکتا تھا۔
آج وہ کافی عرصے بعد چاروں ایک ساتھ بیٹھے تھے اور اس دوران بھی وجیہہ کی نظریں کینٹین میں آنے جانے والے لوگوں کو دیکھ رہی تھی۔
“وجیہہ تم طلاق تو لینا چاہتی ہو ٹھیک ہے یہی طے ہوا تھا مگر کچھ مہیوں بعد میری اور ساریہ کی شادی ہوجائے گئ تو تم اکیلی کس طرح رہوگی؟” وہ جس مقصد کیلیئے بیٹھے تھے احد نے بات کا آغاز کیا۔
“اچھا اگر میں طلاق نہ لوں تو کیا وھاج مجھے اپنی بیوی کے طور پر اپنے گھر لے جا سکتے ہیں؟” وجیہہ کے سوال پر احد خاموش رہا۔ وہ دوبارہ گویا ہوئی۔ “نہیں لے جا سکتے ناں۔ تو پھر کیا صرف نام جڑا رہنے سے مجھے تحفظ مل سکتا ہے۔ نہیں احد اکیلے رہنے کا سوال تو پھر بھی رہیگا ناں۔ ہمارا ساتھ رہنا بھی تو ممکن نہیں تو پھر نام جڑا رہے یا نہ رہے کیا فرق پڑتا ہے۔” وجیہہ نے ایک نظر بھی وھاج کو نہیں دیکھا تھا۔ احد خاموش رہا۔
“ہم ساتھ رہ سکتے ہیں۔ میں گھر میں بات کرلونگا۔ جو کچھ بھی ہوگا میں سنبھال لونگا۔” وھاج نے کہا تو احد اور ساریہ یکدم ہی پرسکون ہوگئے تھے۔ اور وجیہہ نے پہلی بار نظر اٹھا کر اسے دیکھا تھا۔ وھاج اسے ہی دیکھ رہا تھا۔ پھر وھاج نے نظریں موڑ لیں تھی۔
” اور سارہ کا کیا؟” وجییہ نہیں چاہتی تھی کہ وھاج اپنے گھر والوں کے خلاف کھڑا ہو۔
“اسے کوئی بھی اچھا لڑکا مل جائے گا۔ تمہیں اس کی فکر کرنے کی ضرورت نہیں۔” ساریہ کو غصہ آیا۔
“کیا مطلب سوچ کر بتاؤں گی جب ساری بات طے ہوچکی ہے تو تم کیا سوچو گی؟” احد نے حیرت سے اسے دیکھا۔
“مجھے وھاج سے محبت نہیں ہے انھیں ہوگی مجھے فرق نہیں پڑتا۔ مگر جو طوفان یہ اپنے گھر میں کھڑا کرنا چاہتے ہیں اسے سہنے کی ان میں طاقت ہوگی مجھ میں نہیں۔ اس گھر کے لوگوں نے مجھے بیٹی مانا ہے اور میں ان کیلیئے مشکلیں نہیں کھڑی کر سکتی۔” وجیہہ کہہ کر وہاں رکی نہیں تھی۔ اس کے جانے کے بعد فضا میں خاموشی چھائی رہی تھی۔
“آپ فکر نہ کریں وھاج بھائی اور گھر میں بات کریں وہ مان جائے گی۔” ساریہ وھاج کو تسلی دے کر چلی گئی۔
“فکر مت کر میرے یار سب ٹھیک ہوجائے گا۔” احد نے اس کے کندھے تھپکے۔
“چلو یار میں گھر چلتا ہوں۔” وھاج وہاں سے اٹھ کر بوچھل قدموں سے اٹھ کر پارکنگ ایریا کی طرف بڑھ گیا۔ اسے وجیہہ سے اتنی خودغرضی توقع نہیں تھی۔ وھاج اگلے دن کی پہلی فلائیٹ سے پشاور آگیا تھا۔ سارہ بھی وہیں آئی ہوئی تھی۔ وہ سب سے مل کر طعبیت خارابی کا بہانہ بنا کر اپنے کمرے میں آگیا۔
“میرا بیٹا ٹھیک کیوں نہیں ہے خیریت تو ہے ناں وھاج؟” حسنہ اس کے روم آئیں تو اسے سوچوں میں محو دیکھ کر ٹھٹکیں۔
“میں ٹھیک ہوں ماما بس زرا طعبیت خراب ہے۔” وھاج سیدھا ہو کر بیٹھ گیا۔
“ٹھیک بھی ہو اور طعبیت ٹھیک ہے بھی نہیں۔ مجھے تو ہمارا وھاج ٹھیک نہیں لگ رہا۔” وہ جھنجھلائیں۔
“پتہ نہیں ماما بس عجیب حالت ہورہی ہے بے سکونی ہے۔” وہ حسنہ کی گود میں سر رکھ کر لیٹ گیا۔
“میرے بیٹے کو کوئی پریشانی ہے؟” انھیں وھاج بہت زیادہ ڈسٹرب لگ رہا تھا۔
“میں سارہ سے شادی نہیں کرسکتا ماما میں وجیہہ کو چھوڑ نہیں سکتا۔” میرا دل نہیں مانتا۔”وھاج نے اپنے دل کا حال اپنی ماں کے سامنے رکھ دیا۔
“بیٹا مجھے اور وریشہ کو بھی وجیہہ بہت پسند ہے اور ہماری بھی یہی خواہش ہے کہ وہ ہماری بہو ہو مگر سارہ سے تمہاری نسبت پچپن سے طے ہے جیسے الگ کرنا دو بھائیوں کو لڑوانا ہے۔ اس سے بہت بڑی قیامت آجائیگی بیٹا۔” حسنہ نے وھاج کو سمجھانا چاہا۔
“اور زبردستی کا رشتہ جو آپ لوگ ہمارے درمیان جوڑ رہے ہیں کیا میں خوش رہ پاؤنگا یا اسے خوش رکھ سکوں گا؟” وھاج نے سر اٹھا کر اپنی ماں کو دیکھا۔ جن کی آنکھوں میں پانی تھا۔
“بیٹا کیا تم دو بھائیوں کو لڑوا کر خوش رہ سکو گے؟” انہوں نے وھاج کو اسی انداز میں جواب دیا۔
“ماما میں کب چاچو اور پاپا کو لڑوانا چاہتا ہوں۔ کیا یہ مسئلہ مل بیٹھ کر حل نہیں ہوسکتا؟” وھاج کے سوال ختم نہیں ہورہے تھے۔
“تم شاید اپنے خاندان کے بڑوں کو جانتے نہیں ہو۔” حسنہ نے جیسے راستے بند کردئیے تھے۔
“ماما تو یہ کیسا نظام ہے جس میں دو لوگوں کی پوری زندگی کا فیصلہ اپنی مرضی سے ان کی چھوٹی سی عمر میں کردئیے جائیں چاہے بعد میں ان میں کوئی اس رشتہ کو برقرار رکھ ہی نہ پائے۔” وہ تلخ ہوا۔
“بیٹا سارہ نے اپنا دل تم سے جوڑ لیا ہے اب جب اسے سب کچھ پتہ چلے گا تو وہ کتنی ٹوٹ جائیگی۔” حسنہ کو سارہ کی فکر تھی۔
“وجیہہ کا نام جو میرے ساتھ جڑ چکا ہے میں نے تو اسے تحفظ دینے کیلیئے کچھ وقت کے لیے اپنا نام اسے دے دیا تھا اور پھر جب الگ ہونا طے تھا تو اللہ نے کیوں میرے دل میں اس کی محبت ڈال دی۔” اس کی باتوں نے حسنہ کو پریشان کر دیا تھا۔
“اچھا تم فکر نہ کرو۔ اللہ سے مدد اور سکون مانگو اور صبر کرو اللہ سب ٹھیک کردے گا۔” وہ اسے تسلی دے کر چلی گئیں۔اور اس نے اپنا سر بیڈ پر گرا لیا۔
وھاج کے علاوہ کوئی اور بھی تھا جو آج بہت زیادہ ٹوٹ گیا تھا۔ وہ محبت جو محبت کو جان لینے بعد اس نے اپنی مٹھی میں چھپا لی تھی آج وہ مٹھی کھولنے پر وہ مٹھی خالی نکلی تھی۔ اسے عمر کی باتیں یاد آئیں۔
“کیا مجھے عمر کی بددعائیں لگی ہے؟”
“نہیں محبت کرنے والے بددعائیں نہیں دیتے۔ یہ سب اس کی بددعاؤں نہیں بلکہ شاید اس کی دعاؤں کا نتیجہ ہے۔” وہ وریشہ کو کال ملاتے ہوئے گیسٹ روم کی طرف بڑھی۔ جہاں وہ مقیم تھی۔ پشاور آنے کے بعد آج کی رات سوگ کی رات تھی۔ اس گھر کے دو مکینوں کیلیئے، وہ جن کی نسبتیں طے تھیں۔۔۔۔۔۔۔