“کھانا دو آکر مجھے”
ضیغم کی آواز پر روشانے نے سر اٹھا کر اُسے دیکھا وہ بیڈ روم کے دروازے پر کھڑا اُسی کو دیکھ کر مخاطب تھا۔۔۔ اس کے دیکھنے پر ضیغم کمرے سے باہر نکل گیا تو روشانے اپنی کتابیں بند کرتی ہوئی کچن میں آئی تاکہ ضیغم کو کھانا دے سکے
تین دن گزر چکے تھے مگر ضیغم کا غُصہ کم نہیں ہوا تھا بلکہ وہ اب ناراضگی میں ڈھل چکا تھا۔۔۔ دو دن تو روشانے اس کو ساری بات کلیئر کرنے کی کوشش کرتی رہی مگر وہ روشانے کو بات کرنے کا موقع دیئے بغیر اسے اتنی بری طریقے سے آنکھیں دکھاتا کہ روشانے خود ہی سہم کر خاموش ہوجاتی اور جب روشانے نے اُس سے کل صبح بات کرنا چاہی تب ضیغم نے اسے بری طرح ڈانٹ دیا۔۔۔ اس کے بعد روشانے بھی بالکل خاموش ہو گئی اور ضیغم کو اُس کے حال پر چھوڑ دیا۔۔
وہ آج شام میں آفس سے گھر آنے کے بعد دوسرے کمرے میں مسلسل لیپ ٹاپ میں بزی تھا جبکہ روشانے بیڈ روم میں موجود تھی
“ہاتھ پر کیا ہوا ہے”
کھانا سرو کرتے ہوئے ضیغم کی نظر روشانے کی کلائی پر پڑی جو کہ اچھی خاصی جلی ہوئی تھی جس کو دیکھ کر ضیغم اُس سے پوچھے بنا نہیں رہ سکا
“کچھ نہیں ہوا کھانا کھائے آپ”
روشانے اُس کے آگے میز پر پانی کا بھرا ہوا گلاس رکھ کر وہاں سے جانے لگی تبھی ضیغم نے اُس کا دوسرا ہاتھ پکڑا اور کرسی سے اٹھ کھڑا ہوا
“کیا پوچھ رہا ہوں میں تم سے،، کیسے جلا یہ ہاتھ”
اب وہ کھانا بھول کر روشانے کے سامنے کھڑا اس کا ہاتھ دیکھ کر فکر مندی لہجے میں پوچھ رہا تھا
“آپ کو فکر کرنے کی ضرورت نہیں ہے سائیں، ٹھیک ہوجائے گا آپ کھانا کھائیں”
روشانے ناراضگی سے بولتی ہوئی جانے لگی تبھی ضیغم نے روشانے کا رُخ اپنی طرف کیا
“کیا کھانا کھانے کی رٹ لگا رکھی ہے،، جو پوچھ رہا ہوں اس کا جواب نہیں دینا تمہیں۔۔ کیسے جلا یہ ہاتھ”
اب کی بار ضیغم نے لہجے میں سختی لا کر غُصے سے پوچھا
“اب اِس بات کو بھی لے کر آپ مجھ پر غُصہ کریں گے یا پھر بات نہ کر کے سزا دیں گے مجھے”
روشانے بھرائے ہوئے لہجے میں ضیغم کو دیکھ کر پوچھنے لگی ہے تو ضیغم خاموشی سے روشانے کو دیکھنے لگا۔۔۔ اس نے ابھی بھی روشانے کا ہاتھ تھاما ہوا تھا۔ ۔۔۔روشانے نے اُس کے سینے پر سر ٹکا دیا
“دوپہر میں کھانا بنا رہی تھی تب گرم آئل گر گیا تھا”
وہ ضیغم کو کلائی کے جلنے کا سبب بتانے لگی تب ضیغم نے اُس کے گرد اپنے دونوں بازو باندھے
“دھیان کہا تھا تمہارا”
وہ روشانے کو اپنے حصار میں لیے شکوہ کرتا ہوا پوچھنے لگا جبکہ اس کا لہجہ نرم تھا
“آپ کی طرف،، ناراض جو ہیں آپ مجھ سے”
روشانے ضیغم کے سینے سے سر اٹھا کر اُسے دیکھتی ہوئی بولی
“تو کیا نہیں ہونا چاہیے”
وہ روشانے کا چہرہ دیکھ کر سوال کرنے لگا۔۔۔ وہ کہاں اپنے علاوہ کسی اور کے ساتھ روشانے کا نام برداشت کر سکتا تھا۔۔۔ اور تیمور خان کا نام تو ویسے بھی برداشت نہیں کر سکتا تھا۔۔ روشانے اس بات سے انکار بھی نہیں کر سکتی تھی کہ یہ نام اس نے نہیں لکھا ہے وہ اس کی ہینڈ رائٹنگ کو پہچانتا تھا
“ہونا چاہیے، مگر میری غلطی ہو تب،، میرا جرم ثابت ہو تب۔۔۔ آپ تو مجھے وضاحت کا موقع ہی نہیں دے رہے سائیں”
روشانے اب بے بسی سے ضیغم کو دیکھ کر بولی
“اچھا یہاں پر بیٹھو”
ضیغم اُسے دونوں شانوں سے تھام پر چیئر پر بٹھاتا ہوا دوسرے روم میں چلا گیا،، واپس آیا تو اس کے ہاتھ میں آئینٹمینٹ موجود تھا
“فوراً لگا لیتی تو جلد اثر کرتا۔۔ اب اسکن پر کتنے دنوں تک نشان رہے گا، تکلیف الگ سہی، بہت لاپرواہ ہو تم خود سے”
ضیغم روشانے کی کلائی پر آئینٹمینٹ لگاتا ہوا بول رہا تھا۔۔۔ روشانے خاموشی سے ضیغم کو دیکھنے لگی اس کی ناراضگی اب فکرمندی میں ڈھل چکی تھی
“آگر آج میرا ہاتھ نہیں جلتا تو مزید کتنے دن خفا رہتے مجھ سے”
روشانے ضیغم کو دیکھتی ہوئی پوچھنے لگی جس پر ضیغم نے اُسے انکھیں دکھائی
“فضول نہیں بولا کرو، کھانا کھا لیا تم نے”
ضیغم روشانے کو دیکھ کر پوچھنے لگا جس پر روشانے نے نفی میں سر ہلایا۔۔۔
اس کے بعد ضیغم نے اپنے ساتھ اُس کو بھی کھانا کھلایا
“وہ نام میں نے چھوٹے خان کے غُصہ کرنے پر لکھا تھا، یہ ہماری شادی سے پہلے کی بات ہے”
کھانے سے فارغ ہونے کے بعد ضیغم کمرے میں آ کر بیڈ پر لیٹا ہوا تھا تو روشانے بیڈ پر اُس کے سامنے بیٹھ کر ضیغم کو بتانے لگی
“روشی ختم کرو اس بات کو، میں نے تم سے کچھ پوچھا ہے کیا۔۔۔ نہیں سننا چاہتا ہوں میں کچھ بھی پلیز”
ضیغم روشانے کو دیکھتا ہوا بولا اس کے لہجے میں غصّے یا ناراضگی کا شائبہ تک نہیں تھا نہ وہ اپنی پر شک کر رہا تھا بس وہ تیمور خان کا نام، اس کا ذکر اپنی بیوی کے منہ سے نہیں سننا چاہتا تھا
“میں نہیں چاہتی سائیں، آپ اپنے دل میں کسی بھی بات یا غلط فہمی کو لے کر ساری زندگی اس پر کڑھتے رہے،، پلیز مجھے ایک بار سب کچھ کلیئر کرنے دیں”
روشانے ضیغم کے سینے پر اپنا ہاتھ رکھتی ہوئی بولی
اس نے اپنا اور تیمور خان کا اُس رات والا قصّہ بتایا جب رات کو تیمور خان اُس کے کمرے میں آیا تھا اور خوف سے روشانے نے اپنا نام اس کے نام کے ساتھ لکھا تھا
جیسے جیسے روشانے بتا رہی تھی ویسے ویسے ضیغم کے چہرے کے تاثرات سخت ہو رہے تھے۔۔ اُسے مزید تیمور خان سے نفرت ہونے لگی،، اس کا بس نہیں چلتا تیمور خان کو جان سے مار دیتا اگر وہ اِس وقت اُس کے سامنے موجود ہوتا
“اُس نکاح میں خان کی مرضی شامل تھی، مجھ سے میری مرضی کا پوچھا نہیں گیا تھا صرف یہ بتایا گیا تھا کہ میرا خان سے نکاح ہے مگر میں خدا کو حاظر ناظر جان کر کہتی ہو، اس دن اگر میرا نکاح خان سے ہوجاتا تو میں ان سے کبھی وہ محبت نہیں کر پاتی جو محبت میں شادی کے بعد اب آپ سے کرتی ہو”
روشانے نے بولتے ہوئے آخر میں بیڈ پر لیٹے ہوئے ضیغم کے سینے پر اپنا سر رکھا۔ ۔۔۔
جہاں ضیغم کو روشانے سے متعلق تیمور خان کی باتیں جھلسائے دے رہی تھی وہی روشانے کی محبت کا اعتراف سے اُس کو اپنے اندر تک سرشار کر گیا
“اچھا ذرا آج معلوم ہو جائے میری بیوی اپنے سائیں سے کتنی محبت کرتی ہے”
ضیغم نے اپنے سینے پر رکھا ہوا روشانے کا ہاتھ ہونٹوں سے لگانے کے بعد اسے اپنے حصار میں لیتے ہوئے پوچھا جس پر روشانے مسکرا دی
ضیغم روشانے کو بیڈ پر لٹاتا ہوا غور سے اس کے چہرے کے ایک ایک نقش کو اپنے دل میں اتار رہا تھا، اس کی نظروں کی تپش سے روشانے کی پلکیں خود بخود جھگ گئی جس پر ضیغم ہلکا سا مسکرایا
“اس طرح شرمانے سے کام نہیں چلے گا محبت کا ثبوت محبت سے ہی دینا پڑے گا آج”
ضیغم اس کے شرمائے ہوئے روپ کو دیکھ کر بولا۔۔۔ تین دن سے اُس نے اپنے اور روشانے کے درمیان دوریاں پیدا کی ہوئی تھی مگر آج وہ اِن دوریوں کو نزدیکیوں میں ڈھالنا چاہتا تھا
“سائیں جو محبت کا ثبوت آپ مجھ سے مانگ رہے ہیں، اس کا مظاہرہ آپ ہی اچھے طریقے سے کر سکتے ہیں یہ آپ خود جانتے ہیں”
بات مکمل کر کے روشانے اپنی آنکھیں بند کر چکی تھی ضیغم ایک بار پھر مسکرایا
روشانے کے گلے میں موجود چین کو دیکھ کر ضیغم اس کی گردن پر جھکا تو روشانے نے بے اختیار اس کا کندھا پکڑا۔۔۔ ضیغم روشانے کا ہاتھ احتیاط سے تکیے پر رکھتا ہوا، اپنا ہاتھ اس کے گال پر رکھ کر اُس کے ہونٹوں پر محبت کی مہر ثبت کرنے لگا۔۔۔ چند سیکنڈ یونہی معنیٰ خیز خاموشی گزرے اس سے پہلے جذبات کا طوفان شور مچاتا کمرے میں مکمل اندھیرا چھا گیا
“یار اس لائٹ کو بھی ابھی جانا تھا” ضیغم بدمزہ ہو کر اٹھا تو روشانے کو ہنسی آگئی
“بہت ہنسی آرہی ہے ذرا جنریٹر آن کرنے دو پھر بہت اچھے سے ثبوت دوں گا تمہیں آج اپنی محبت کا”
ضیغم موبائل کی مدد سے ٹارچ لائٹ آن کرتا ہوا روشانے کو دھمکی دے کر بیڈ سے اٹھا اور بیڈ روم میں موجود بالکونی میں چلا گیا روشانے اپنے لب سکھیڑ کر خود بھی بیڈ سے اٹھی
اُسے ہنسی نہ بھی آتی تب بھی اُسے معلوم تھا اُس کے شوہر نے اُسے اچھی طرح محبت کا ثبوت دینا ہے۔۔۔۔ اسلیئے وہ بالوں کا جوڑھے کی شکل دیتی ہوئی باہر کے دروازے کا لاک چیک کرنے چلی گئی
اس کے پاس کوئی ٹارچ لائٹ نہیں تھی وہ اندازے سے قدم اٹھاتی ہوئی بغیر دوپٹہ لیے کمرے سے باہر نکلی
“اب اس کو کیا مصیبت آگئی”
روشانے کو ضیغم کی آواز بالکونی سے آئی یقینناً وہ جنریٹر کے بارے میں بول رہا تھا
روشانے اندازے سے مین ڈور تک پہنچی، مین ڈور ضیغم لاک کر چکا تھا وہ مطمئن ہو کر پلٹی تب اسے دائیں جانب کمرے کی کھڑکی کھلی ہوئی دکھی جہاں سے ہلکی ہلکی روشنی کمرے میں چھلک رہی تھی اسی کمرے میں تھوڑی دیر پہلے ضیغم موجود تھا
روشانے کمرے میں داخل ہوئی اس نے جیسے ہی کھڑکی بند کرنے کے لیے آگے ہاتھ بڑھایا۔ ۔۔۔ کسی نے اس کا ہاتھ پکڑ کر اپنی طرف کھینچا،، اُس سے پہلے روشانے کے منہ سے چیخ نکلتی کوئی اس کا منہ بند کرچکا تھا
“شادی رچالی اُس کمینے جتوئی سے، تمہیں کیا لگا میں اتی آسانی سے یہ سب قبول کرلو گا، اگر میں اپنے دل سے شادی شدہ لڑکی کا خیال نکال بھی دو، تب بھی یہ کبھی نہیں چاہو گا کہ میرا خوف تمہارے دل سے نکلے،، ساری زندگی میں ان آنکھوں میں اپنے لیے خوف دیکھنا چاہتا ہوں”
تیمور خان اپنا ایک ہاتھ روشانے کے منہ پر رکھے جبکہ اپنے دوسرے ہاتھ سے روشانے کا جلا ہوا ہاتھ سختی سے پکڑ کر،، اسے دیوار کے ساتھ لگائے روشانے کے کان میں بول رہا تھا
روشانے بری طرح خوف سے کانپ رہی تھی، وہ اپنا تعارف نہ بھی کرواتا تو روشانے تیمور خان کو پہچان چکی تھی
“روشی،، کہاں ہو جان”
لائٹ ابھی تک بند تھی کمرے میں مکمل اندھیرا تھا ضیغم اسے پکارتا ہوا بیڈروم سے باہر آچکا تھا
“اپنے قریب مت آنے دینا اس کمینے کو،، ورنہ جیسے اس کے چچا کو مارا تھا ایسے ہی اِس کے سینے میں بھی گولیاں بھر دو گا”
تیمور خان ضیغم کی آواز سن کر روشانے سے بولا
روشانے کے منہ سے اپنا ہاتھ ہٹاتا اُس کے گلے میں چمکتی ہوئی نازک چین کو توڑ کر وہ کھڑکی کے راستے باہر جا چکا تھا۔۔۔ ویسے ہی کمرہ روشنی سے روشن ہوا۔۔۔ روشانے خوف کے مارے چیخ مار کر کمرے سے باہر نکل کر ضیغم کے پاس آئی
“روشی کیا ہوا، یہاں دیکھو پلیز مجھے بتاو”
وہ ضیغم کے سینے سے لگی ہوئی بری طرح رو رہی تھی۔۔۔ ضیغم پریشان ہوکر اس سے پوچھنے لگا
“وہ۔ ۔۔۔ وہاں”
خوف کے مارے روشانے کچھ بول نہیں پائی تھی، وہ کمرے کی طرف انگلی سے اشارہ کرتی ہوئی اتنا ہی بولی۔۔۔ ضیغم کمرے کی طرف دیکھتا ہوا آگے بڑھنے لگا
“سائیں پلیز نہیں”
روشانے ضیغم کا ہاتھ پکڑ کر اس روکتی ہوئی بولی۔ ۔۔ تیمور خان بےشک جا چکا تھا مگر وہ ابھی بھی خوف کے زیرِ اثر تھی
“روشی کیا ہے کمرے میں مجھے دیکھنے تو دو، تم رو کیو رہی ہو اسطرح”
ضیغم اس کی حالت دیکھ کر حقیقت میں پریشان ہوگیا تھا چند منٹ پہلے وہ بالکل نارمل تھی
“وہاں اس کمرے میں چھپکلی تھی” ضیغم کے تجُسس بھرے انداز پر روشانے بات بناتی ہوئی بولی۔۔۔ ضیغم روشانے کی بات سن کر مزید حیرت سے اُس کو دیکھنے لگا
“چھپکلی سے اس طرح کون ڈرتا ہے اور اتنے اندھیرے میں تمہیں کون سی چھپکلی نظر آگئی”
وہ مزید مشکوک نظروں سے روشانے کو دیکھتا ہوا بولا اور اپنا ہاتھ چھڑاتا ہوا کمرے میں جانے لگا تو روشانے بھی اس کے پیچھے چل پڑی
“میں بہت زیادہ ڈرتی ہوں چھپکلی سے۔۔ باہر سے کمرے میں اچھی خاصی لائٹ آ رہی تھی تب میں نے چپکلی کو دیکھا،، لائٹ صرف ہمارے فلیٹ کی گئی تھی شاید”
روشانے ضیغم کو اپنی بات کا یقین دلانے لگی۔۔۔ وہ لائٹ کے بارے میں صحیح کہہ رہی تھی کیونکہ ضیغم اُسے یہی بتانے کے لئے کمرے سے باہر آیا تھا کہ باہر تمام فلیٹس کی لائٹ آ رہی تھی مگر لاؤنچ میں آکر اُس نے مین سوئچ طرف دیکھا تو آن کر دیا۔۔۔ تب ہی روشانے چیختی ہوئی اس کی طرف آئی
“یہ چین کیسے ٹوٹ گئی تمہاری”
ضیغم کی فرش پر نظر پڑی تو وہ چین سمیت پنڈینٹ اٹھاتا ہوا روشانے سے پوچھنے لگا
“یہ تو مجھے خبر نہیں ہوئی کہ کیسے ٹوٹ گئی،، میں نے آپ کو کتنی بار بولا ہے کہ رات میں کھڑکی بند کر کے کمرے سے آیا کریں مگر مجال ہے جو آپ میری بات مانیں،، نہ جانے کون کون سے حشرات کھڑکی سے اندر آ جاتے ہیں”
روشانے اس کا دماغ چین کی طرف سے ہٹانے کے لیے کھڑکی کا بولنے لگی وہ نہیں چاہتی کہ ضیغم کو کہیں سے بھی کوئی شک گزرے یا تیمور خان کا نام سن کر دوبارہ اس کا موڈ خراب ہو
“شکر ہے کھڑکی سے چھپکلی ہی آئی تھی کوئی بھوت نہیں،، چلو اپنے روم میں چلتے ہیں”
ضیغم کھڑکی بند کرکے روم کی لائٹ آف کرتا ہوا روشانے کو اپنے ساتھ بیڈروم میں لے آیا
“کیا ہوا یار اب موڈ تو ٹھیک کرو اپنا”
ضیغم روشانے کو دیکھتا ہوا بولا پینڈینٹ کو دراز میں رکھتا ہوا وہ روشانے کے قریب آکر بیڈ پر بیٹھا
“میں بالکل ٹھیک ہوں سائیں”
روشانے اپنے دماغ سے سوچو وہ جھٹک کر نارمل ہوتی ہوئی ضیغم سے بولی
“تو پھر وہی سے کینٹینو کریں”
ضیغم نے جس انداز میں پوچھا روشانے اپنا سیدھا ہاتھ ماتھے پر رکھتی ہوئی سر جھکا کر مسکرائی
ضیغم اس حصار میں لیتا ہوا بیڈ پر لٹا چکا تھا۔۔۔ وہ روشانے کی گردن پر جھکا روشانے کی نظریں تبھی کمرے کے کھلے دروازے پر گئی اسے معلوم تھا تیمور خان اب وہاں موجود نہیں ہے مگر اس کی دی ہوئی دھمکی کو یاد کر کے روشانے کو گھبراہٹ ہونے لگی۔۔۔ خان نے اس کے ماموں کی جان لے لی تھی،، وہ ظالم شخص کتنے آرام سے اُس کے سامنے اُس کے شوہر کو مارنے کی بات کر رہا تھا
“کیا ہوا”
ضیغم سر اٹھاتا ہوا روشانے کو دیکھ کر پوچھنے لگا
“کیا ہوا کچھ بھی تو نہیں”
روشانے غائب دماغی میں کمرے کے دروازے کو دیکھ کر بولی پھر ضیغم کو دیکھنے لگی
ضیغم نے اٹھ کر بیڈ روم کا دروازہ بند کیا۔۔ سائیڈ ٹیبل سے اپنا لائٹر اور سگریٹ کا پیکٹ اٹھاتا ہوا وہ بیڈ کے کراؤن سے ٹیک لگا کر اپنے پاؤں پھیلا ہوا بیٹھ گیا۔۔۔ ضیغم نے محسوس کیا تھا روشانے اُس کے قربت میں بھی اُس کے قریب نہیں تھی جیسے اُس کا دماغ کہیں اور ہو
“سائیں آپ خفا ہو گئے مجھ سے”
روشانے اُس کو اسموکنگ کرتا ہوا دیکھ کر شرمندگی سے پوچھنے لگی۔۔۔ وہ یہاں تیمور خان کی موجودگی کے بارے میں ضیغم کو ہرگز نہیں بتا سکتی تھی۔۔۔ اُس کے نام پر ہی وہ اپنے شوہر کا ردعمل دیکھ چکی تھی اگر ضیغم کو یہ معلوم ہوجاتا کہ تیمور خان اُس کے فلیٹ میں آیا تھا تو نہ جانے ضیغم کیا کرتا
“کیوں خفا ہو گا، یہاں آؤ”
ضیغم نے ہاتھ کے اشارے سے اس اپنے قریب آنے کو کہا۔۔۔ روشانے سرک کر ضیغم کے قریب آئی ضیغم نے اس کا سر اپنی گود میں رکھ لیا
“کیا بات ہے روشی، جس کے بارے میں اتنا سوچ رہی ہو جو تمہارے دل میں ہے تم مجھ سے شیئر کر لو”
ضیغم اسموکنگ کرتا ہوا روشانے سے پوچھنے لگا۔۔۔ ضیغم نے روشانے سے پوچھتے ہوئے اپنا لہجہ نارمل رکھا تھا
“کوئی بات نہیں ہے، آج کالج سے واپس آ کر سوئی نہیں تھی اس لیے نیند آرہی ہے”
روشانے ضیغم کی گود میں سر رکھے اُسے بتانے لگی اس کی نظریں اب بھی بند دروازے پر ہی ٹکی ہوئی تھیں
“سو جاؤ”
ضیغم نے آہستگی سے بولا اس کی نظریں روشانے کی کلائی پر تھی جس پر آئینٹمینٹ چُھٹ چکا تھا اور کلائی سرخ ہورہی تھی
روشانے کا خوف کے مارے بری طرح رونا، چین کا ٹوٹ جانا، لائٹ کو یوں اچانک بند ہو جانا،، اس کے اتنے نزدیک آنے پر اُس کی بیوی کا دماغی طور اس کے قریب نہ ہونا۔۔ کیا ان سب کے پیچھے چھپکلی وجہ تھی، یا واقعی روشانے کو نیند آ رہی تھی۔۔۔
وہ کچھ بھی پوچھ کر روشانے کو پریشان نہیں کرنا چاہتا تھا شاید اسے کھڑکی میں گرل لگوا لینا چاہیے تھا ضیغم اسموکنگ کرتا ہوا سوچنے لگا
****
ڈاکٹر شہباز ملک پہلا پنجابی پی ایچ ڈی
ڈاکٹر شہباز ملک پنجابی زبان و ادب کی دنیا میں ایک مشہور و معروف نام ہیں۔ وہ پاکستان میں پنجابی...