جمال غصے سے بھرا اپنے ڈیڈ کے آفس چلا آیا اس نے بنا دستک دئیے دروازہ کھولا اور اندر داخل ہوا۔۔
"یہ کونسا طریقہ ہے آفس میں آنے کا؟؟”وہ آفس کے ورکرز کی میٹنگ لے رہے تھے اسے اس طرح جارحانہ انداز میں اندر آتے دیکھ کے ڈپٹ کے بولے
"ان سب کے سامنے ساری باتیں کروں یا باہر بھیجیں گے ان کو؟؟” وہ الفاظ چبا چبا کے بول رہا تھا
انھوں نے میٹنگ برخاست ہونے کا اشارہ کیا اور سب کے باہر جاتے ہی اس نے ان کی ٹیبل پہ وہ کاغذات پھینکے۔۔
یہ کیا بدتمیزی ۔۔۔۔۔۔؟؟ وہ آدھا جملہ بول کے چپ ہوگئے ان کی نظر ان کاغذات سے گویا چپک ہی گئیں تھیں۔۔۔۔۔
"یہ کہاں سے ملے تم کو؟؟انھوں نے ماتھے سے پسینہ پونچھتے ہوئے پوچھا
"آپ کو صاف لفظوں میں منع کیا تھا میں نے لیکن آپ نے میرے دستخط کرکے اسے بھیج دیئے. کیوں آخر کیوں یہ سازش رچی آپ نے؟؟ وہ باوجود کوشش کے بھی اپنی آواز پست نہیں کر پارہا تھا
"دیکھو بیٹا !! کچھ فیصلے انسان کو اولاد کی بھلائی کے لیے لینے ہی پڑتے ہیں” وہ اپنی کرسی سے اٹھ کے اس کے پاس آگئے۔۔
"بھلائی؟؟ آپ نے میری زندگی کی ساری خوشیاں مجھ سے چھین لیں ۔ مجھے بے اعتباری کی دھند میں دھکیل دیا اور افسوس کہ میں صحیح اور غلط میں فرق تک نہیں کر پایا” وہ رندھے ہوئ آواز میں بولا
وہ قریب آ کے اس کے کاندھے پہ ہاتھ رکھنے لگے۔۔
جمال بدک کے پیچھے ہوا "نہیں چاہیئے مجھے آپ کی ہمدردی کون اپنی اولاد کو یوں برباد کرتا ہے ” وہ اپنے ہاتھ سے اپنے آنسو صاف کرتا جارہا تھا ۔۔
"میری بات تو سنو!! وہ اسے روکنے لگے
"مجھے جانے دیں ” وہ ان کو خود سے پیچھے کرتے ہوئے وہاں سے باہر نکل آیا ۔۔
سارے ورکرز اسے اس بکھری ہوئی حالت میں دیکھ کر پریشان ہورہے تھے۔۔
جمال وہاں سے نکل کے خالی الذہنی سے گاڑی میں آ بیٹھا ۔۔
اس کے دماغ میں جھکڑ سے چل رہے تھے کیسے وہ آسانی سے رچائی گئی سازش کا شکار ہوگیا ۔۔
وہ سر اپنے ہاتھوں پہ گرائے اپنا ہی محاسبہ کر رہا تھا کہ آخر غلطی اس سے ہوئی تو کہاں سے ہوئی اور ماضی میں نظر دوڑائی تو بے شمار جگہوں پہ وہ ہی غلط تھا۔۔
وہ ایک ان دیکھی گردش میں آیا تھا اور اس کا اغاز حسینہ کی بیوگی سے جڑا تھا وہ ہی اس کی تباہی کا اغاز تھا اور بعد میں مالا ٹوٹ جانے کے ہی جیسا تھا۔۔
ایک ایک کرکے آتے حوادث نے ان کو الگ ہی کردیا لیکن زیادہ نقصان حسینہ کا ہوا تھا وہ تو صرف جدائی کی آگ میں ہی جلتا رہا تھا اس نے تو اکیلے نا جانے کیسے کیسے جہنم پار کیے ہوں گے۔۔
میں کیسے اس قدر سنگدل ہوگیا؟؟
کیسے میں نے اس کو زمانے کی ٹھوکروں کے آگے کردیا؟؟
بچھتاوے کی آگ اسے جلا رہی تھی اس کا سر درد کی لہریں گردش کر رہی تھیں۔۔
اس کی گاڑی کا رخ خود بخود حسینہ کی بوتیک کی طرف ہوگیا۔۔
یادوں کا ایک ریلہ تھا جو اس کو بہائے لیے جارہا تھا اپنی بدگمانی میں اس نے کیا کھو دیا تھا اسے اس کا ادراک اب ہو دہا تھا ۔۔۔
ابھی وہ اس کے پاس پہنچ کر اپنی اور اس کی زندگی سے جڑے ہر سچائی کو اس کے سامنے رکھ دینا چاہتا تھا آگے اس کا جو فیصلہ ہو وہ اسے قبول کرنا ہی تھا۔۔
وہ بار بار اپنی آنکھیں بھی صاف کرتا جارہا تھا لیکن آنسو متواتر اس کی آنکھیں بھگا رہے تھے ۔۔
جذبات کا طوفان تھا جو اس کے اندر بپا تھا وہ خطرناک حد تک تیز رفتاری سے گاڑی چلا رہا تھا
ایک ہاتھ سے گاڑی چلاتے ہوئے اس نے آنکھیں صاف کرنے کے لیے بازو آنکھوں پہ رکھا اور اس کی گاڑی پوری قوت سے سامنے والی گاڑی سے ٹکرا گئ۔۔
اس اچانک جھٹکے سے اس کا وجود لرز اٹھا وہ فوری طور پہ گاڑی پہ قابو نا پا سکا اس کی گاڑی اب پے در پے دوسری گاڑیوں کی ٹکروں کی زد میں تھی ۔۔
اس کے ماتھے سے خون بہتا ہوا اس کی آنکھوں کے سامنے سرخ چادر سی تاننے لگا اور اس کا ذہن ہوش کی دنیا سے لا تعلق ہونے لگا ۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
جمال کے اس طرح غصے میں جانے سے پلوشہ نہایت پریشان تھی وہ بار بار اس کے نمبر پہ رابطہ کرنے کی کوشش کررہی تھی لیکن جمال اسکی کال نہیں اٹھا رہا تھا۔۔
"مجھے اسے کچھ نہیں بتانا چاہییے تھا سب میری غلطی ہے ” وہ اپنے آپ کو قصوروار ٹہرا رہی تھی
اس نے ان سالوں میں اس کی آنکھوں میں یادوں کا ماتم ہوتے دیکھا تھا ۔ جمال کی نظریں اس میں کسی اور کو ڈھونڈنتی رہی تھیں ۔۔
وہ اس کے قریب ہو کر بھی اس سے میلوں دور تھا اور یہی وجہ تھی کہ وہ اس کے سکون کی خاطر اسے سچ بتانے پہ مجبور ہوگئ۔۔
وہ اپنی سوچوں میں گم تھے کہ جمال کے ڈیڈ اس سے ملنے کے لیے پہنچ گئے ۔۔
وہ اس کا حال چال پوچھنے لگے
"جمال کہاں ہے ؟؟ انھوں نے اس سے پوچھا
” مجھے علم نہیں” پلوشہ نے جواب دیا
"وہ تم سے مل کے میرے پاس آیا تھا مجھے تم بتاؤ گی کہ وہ حسینہ تک کیسے پہنچا؟؟ انھوں نے لہجے کو حتی الامکان ہموار رکھنے کی کوشش کی۔۔
"وہ میں ۔۔۔ وہ میں اتفاقی طور پہ مل کے آئی تھی حسینہ سے ” وہ ہکلاتے ہوئے بولی ۔۔
"کیا غضب کر ڈالا ہے تم نے پلوشہ؟ جانتی تو ہو نا کیا کیا کرنا پڑا تھا اس عورت سے جان چھڑانے کے لیے یہ کیا کر ڈالا تم نے ” وہ اپنا سر ہی پکڑ کے بیٹھ گئے
اس ہی پل ان کا موبائل ںجنے لگا کسی انجان نمبر سے کال آرہی تھی۔۔
"ہیلو !! جی جمال کا والد بات کررہا ہوں "‘ وہ فون سنتے ہوئے بولے
وہ خاموشی سے کال کرنے والے کی بات سننے لگے
” کیا ؟؟ کب؟؟ کہاں ؟؟” وہ اپنی جگہ سے کھڑے ہوگئے اور ان کا پورا وجود واضح طور پہ لرزتا ہوا دکھائی دے رہا تھا۔۔
” کیا ہوا ماموں ؟؟ پلوشہ نے گھبرائی ہوئی آواز میں ان سے پوچھا
"جمال کا۔۔۔ ایکسیڈنٹ ۔۔ ہوگیا ہے ” وہ بھرائی ہوئی آواز میں اٹکتے ہوئے بولے
پلوشہ اپنی طبیعت کو بھول کر ان کے ساتھ اسپتال پہنچی جہاں جمال کو راہگیروں نے پہنچایا تھا۔۔
جمال کا پورا وجود پٹیوں اور مختلف نلکیوں میں جکڑا ہوا تھا اور مختلف مشینوں سے اس کی حالت کو جانچنے کے اس کے ساتھ منسلک کیا گیا تھا۔۔۔
وہ دونوں انتہائی نگہداشت والے کمرے کے دروازے پہ بنی کھڑکی کے شیشے سے اسے دیکھ رہے تھے ۔۔
ڈاکٹر کے آتے ہی وہ دونوں اس کی طرف بڑھے ۔۔
"ڈاکٹر میرا بیٹا ۔۔۔؟؟ وہ فرط جذبات سے اتنا ہی کہہ سکے
” مریض خطرے سے باہر نہیں ہم نے پوری کوشش کر چکے ہیں اب آپ لوگ دعا کریں اگلے بارہ گھنٹے ان کے لیے نہایت اہم ہیں ” وہ ان کے پیروں کے نیچے سے زمین کھینچتے ہوئے وہاں سے چلا گیا ۔۔
تھوڑی دیر میں جمال کی ماما کو بھی انہوں نے وہیں بلوا لیا ۔۔
وہ اپنے اکلوتے بیٹے کو اس حال میں دیکھ کر تڑپ ہی گئیں ۔۔
پلوشہ نے دھیمی آواز میں ان کو ساری روداد سنا دی جسے سن کر وہ سکتے میں ہی آگئیں۔۔
” ہر خوشی چھین لی آپ نے میرے بچے سے اس کے چہرے کی مسکراہٹ اس کا سکون سب چھین لیا آپ نے اس سے” وہ اپنے شوہر سے بولیں ۔۔
آپ نے میرے بچے کی زندگی غارت کر دی پھر بھی میں چپ رہی لیکن اگر آج میرے بچے کو کچھ ہوا تو میں آپ کو کبھی بھی معاف نہیں کروں گی” وہ سرخ آنکھوں کے ساتھ کہہ رہیں تھیں ۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
وقت کی رفتار اچانک ہی نہایت مدھم ہوگئی تھی گھڑی کی سوئیاں گھسٹ گھسٹ کر اپنا سفر طے کر رہی تھی ۔۔
"پلوشہ تم گھر چلی جاؤ تمھاری طبیعت بھی ٹھیک نہیں” جمال کی ماما نے اس سے کہا
اس نےگردن ہلا کے وہاں سے جانے سے انکار کردیا ان میں سے کوئی بھی وہاں سے جانے کے لیے تیار نا تھا ۔۔
سب ہی آنے والے وقت سے خوف زدہ تھے اور بار بار شیشے سے جمال کو دیکھ رہے تھے ۔۔
یک دم ڈاکٹروں اور نرسوں کی آمدورفت اس کے کمرے میں بڑھ گئی ۔۔
وہ لوگ بھی اٹھ کے کھڑے ہوگئے سب کے دل انجانے خوف سے لرز رہے تھے ۔۔
ڈاکٹر کے باہر آتے ہی وہ سب تیزی سے اس کی طرف بڑھے
"کیا ہوا ڈاکٹر؟ جمال ٹھیک تو ہے نا ؟؟
‘آئی ایم سو سوری ہم مریض کو نہیں بچا سکے” ڈاکٹر نے دنیا کے اذیت ناک الفاظ ادا کیے اور ان کو تسلی دیتے ہوئے وہاں سے چل دیا ۔۔
کوئی قیامت سی قیامت تھی جو ان کے اوپر گزر گئی تھی ساری سازشیں ساری تدبیریں بےکار گئی تھیں اب باقی کی زندگی ان سب کی پچھتاوں کی ہی نذر ہونا تھی ۔۔۔
اکلوتے بیٹے کا غم جمال کے والدین کا دل چیر رہا تھا ۔
پلوشہ ابھی بھی ایک راز اپنے سینے میں دفن کئے بیٹھی تھی لیکن اب وہ کسی بھی راز سے پردہ اٹھانے سے گریز ہی کر رہی تھی اس نے یہ ذمیداری حالات کے سپرد ہی کر دی تھی ۔۔
"ماموں !! حسینہ کو بھی اطلاع کروادیں” وہ دھیمی آواز میں بولی
انھوں نے خالی خالی نظروں سے اسے دیکھا
"ہاں بلوا لیں اسے میرے بچے کی تڑپتی روح اس کے آنے سے شاید کہ سکون پا جائے ” پلوشہ کی ساس نے بھی حمایت کی۔۔
تکبر سے تنے ہوئے کاندھے یکا یک جھک سے گئے تھے اپنی کی گئ ہر زیادتی کو اب وہ کسی بھی صورت جسٹیفائی نہیں کرسکتے تھے ۔۔
ڈاکٹر مقصود جعفری کی مکالماتی اسلوب کی منفرد شاعری
ڈاکٹر مقصود جعفری کہتے ہیں "میں نے کہا کہ زاغ و زغن پھر سے آ گئے کہنے لگے یہ طرزِ...