سب گھر والے فضا عالم ہائیسم اور ترتیل لاونج میں بیٹھ کر کوئی گیم شو دیکھ رہے تھے جب نڈھال سی روفہ تھکی ہاری لاونج میں ہی سلام کرکے فضا کے پاس آکر بیٹھ گئی ۔سب ہی نے مسکرا کر اس کو جواب دیا ۔مگر اس کے چہرے پر پھیلا اضطراب سب کو بے چین کر گیا ۔
” آج کافی دیر ہو گئی آپ کو ۔میں تو کب سے آپ کا انتظار کر رہی تھی ۔”
فضا نے اس کے سر پر محبت سے ہاتھ پھیرا کر اپنے ساتھ لگایا۔وہ چپ ہی رہی ۔۔
” کھانا لگاو میرے بچے کے لیے ۔۔آپ کے انتظار میں کسی نے بھی نہیں کھایا ۔”
فضا کو کہہ کر عالم نے روفہ کی جانب دیکھا ۔مگر اس کی نظریں ٹی وی سکرین پر جمی تھیں جہاں اب ترتیل نے فودیل کا ٹاک شو لگا دیا تھا ۔
ہائیسم نے ترتیل کو گھورا مگر وہ پھر بھی باز نہیں آئی ۔عالم اور ہائیسم کو روفہ کا خاموش رویہ پشیمان کرنے لگا تھا ۔فضا کیچن میں چلی گئیں۔
” بھائی گھر کیوں نہیں آتے روفہ آج پورے تیرہ دن ہوگئے ہیں ان کو گئے ہوئے ۔۔”
ترتیل نے روفہ سے استفسار کیا ۔۔
” مجھے نہیں پتا ”
مختصر سے جواب پر ترتیل نے ملامت سے اس کو دیکھا ۔۔
” آپ کو نہیں پتا ؟؟ پھر کس کو بھائی کی خیر خبر رکھنی چائیے ۔؟؟”
ہائیسم نے ترتیل کے ہاتھ پر دباو ڈال کر اس کو باز رہنے کا اشارہ کیا ۔۔
” تمہرا بھائی ہے ۔تم پوچھ لو ۔”
تنک کر جواب دیتی وہ بیگ اٹھا کر اٹھ کھڑی ہوئی سب کی سوال کرتی نگاہوں سے اس کو الجھن ہو رہی تھی ۔۔
” ہاں میرا بھائی ہے ۔مگر آپ کا بھی کچھ لگتا ہے ۔ خیر آپ کی طرح تو نہیں ہو میں۔ اس لیے میں ضرور پوچھ لوں گی ۔”
ترتیل کے تیکھے پن سے بولنے پر روفہ نے مٹھیاں بھینج کر خود پر قابو پایا ۔
” تم اگلی سو زندگیوں میں بھی میری طرح نہیں بن پاو گی ۔میں چپ ہوں تو مجھے خاموش ہی رہنے دو ۔بہتر ہے اپنے گھر اور شوہر پر توجہ دو ۔”
ہائیسم اور عالم روفہ کے رویے پر ششدر سے ایک دوسرے کو دیکھنے لگے ۔ترتیل سر جھٹک کر اپنے کمرے میں چلی گئی ۔۔رکی تو روفہ بھی نہیں تھی ۔
اس رات کی صبح روفہ کی آنکھ کھلی تو فودیل کہیں نہیں تھا ۔یہ بات اس کے دل کو لگی مگر پھر بھی وہ نظر انداز کر کے یونی چلی گئی ۔رات کو بھی وہ واپس نا آیا ۔۔روفہ کے اندر اب بے کلی سی مچ گئی اب تو سب کچھ صحیح ہونے کی طرف جارہا تھا پھر فودیل سامنے کیوں نہیں آ رہا تھا ۔۔
اکیلے کمرے میں وہ ساری رات سو نا سکی ۔مزید ایک ہفتہ گزر گیا وہ پھر بھی نا آیا ۔۔ اپنی انا کو کچل کر اس کو کال بھی کی ۔پہلے تو اس نے اٹھائی نہیں پھر موبائل ہی بند کر دیا ۔آج پورے تیرہ دن ہو گئے تھے ۔وہ نا گھر آیا تھا نا کسی کا فون اٹھا رہا تھا ۔
البتہ اس کا لائیو شو ضرور لگتا تھا ۔جس کو روفہ نے کبھی دیکھنے کی زحمت نہیں کی اب اس کے ضبط کی حد ٹوٹ گئی تھی ۔فودیل کو اس کے حال پر چھوڑ چکی تھی ۔۔مگر ان تیرہ دنوں میں اپنی بے قدری پر نا چاہتے بھی دل ٹوٹا تھا ۔
وہ محبت نا کرے ،مجنوں کی طرح اس کے آگے پیچھے نا گھومے ، چاہے تو اس کی فکر بھی ناکرے مگر کم ازکم اس کو عزت تو دے جس کی ہر عورت اپنے شوہر سے توقع رکھتی ہے ۔
محبت میں روفہ عالم جیسی حقیقت پسند لڑکی کو کبھی بھی دلچسبی نہیں تھی نا ہی اسے کبھی خواہش تھی ۔وہ بس عام عورت کی طرح عزت احترام بھری نگاہ کی بھوکی تھی ۔مگر شاید اس کا ہمسفر بے انتہاہ غریب تھا جو اس کو عزت کی نظر سے دیکھنے کا بھی روادار نا تھا ۔
فورٹریس کے میکڈونل میں فودیل دونوں ہاتھوں میں سر گرائے سراج کے سامنے اپنے گردن تک آتے الجھے بالوں سمیت بیٹھا تھا ۔جبکہ سراج کبھی اس کو دیکھتے تو کبھی گلاس وال سے باہر سڑک پر سٹوڈنٹ گروپ کو جو شاید کسی ٹرپ پر وہاں آئے تھے ۔
” فادی اگر میٹرک میں فیل ہونے والے طلباء جیسی شکل بنا کر دکھانی تھی تو آفس میں دیدار کروا دیتے مجھے الکیشن کے پولنگ سٹیشن کی خبریں چینل پر نشر بھی کراونی ہیں جو بات ہے صاف صاف بتاو ۔ٹائیم نا برباد کرو ۔”
نانا کو اب اس کے رویے سے کوفت محسوس ہوئی پچھلے آدھے گھنٹے سے وہ یوں ایک زاویے میں بیٹھا تھا
” نانا آپ کو شغل سوجھ رہا ہے ۔اور یہاں میری زندگی ہل کر رہ گئی ہے ”
دھیمی آواز میں نانا کو دیکھ کر کلس کر جواب دیا
” میں تمہیں کہاں سے مخول کرتا ہوا نظر آرہا ہوں ۔اب کچھ ارشاد فرماو گے کہ میں جاوں یہاں سے ۔”
نانا کی وارننگ پر وہ بھی سیدھا ہو کر بیٹھا ۔اپنی کالی سرخ پڑتی آنکھیں کو مسل کر سراج کی جانب دیکھا ۔
” نانا سب گڑبڑ ہوگیا مجھ سے میں نے روفہ کو اس کا حق دے دیا ۔نانا قسم سے میرا ایسا کوئی ارادہ نہیں تھا ۔مگر پتا نہیں یہ سب کیسے ہو گیا مجھ سے ۔میں اب ترتیل کی طرف سے بالکل مطمئین تھا ۔روفہ کو چھوڑنے کا پکا ارادہ بھی کر لیا تھا ۔مگر یہ سب غلطی سے ہو گیا ۔۔مگر خیر دیر تو اب بھی نہیں ہوئی ۔میں اس کو چھوڑنے کا حتمی فیصلہ لے چکا ہوں ۔مزید اس لڑکی کو برداشت کرنا میرے بس سے باہر ہے”
سراج کتنی ہی دیر بے یقینی سے اس کو دیکھتے رہے پھر یک لخت ہی ان کے تاثرات غیض وغضب میں ڈھل گئے۔۔
” مجھے خود پر شرمندگی محسوس ہو رہی فودیل زکی تم میرے نواسے ہو ۔۔یہ سب کہنے سے پہلے کہیں ڈوب مرتے تم ۔۔میری اور فضا کی تربیت ایسی تو نہیں تھی فادی۔۔”
ان کے انداز میں غصے کے ساتھ گہرا دکھ بھی تھا ۔۔فودیل کی باتوں سے ان کو دھچکا لگا ۔
” آپ اس روفہ کے لیے یہ سب بول رہے ہیں کیوں کہ وہ آپ کے لاڈلے بھتیجے کی بیٹی ہے ۔مگر میری نظر میں اس کی دو کوڑی کی اوقات بھی نہیں ہے ۔اور جہاں تک بات ہے ہمارے رشتے کی تو ۔میں نے اس کے ساتھ کوئی گناہ تو نہیں کیا ۔یہ سب نارمل بات ہے ۔جیسے طلاق دے کر علیحدگی اختیار کرنا عام سی بات ہے ۔”
زور سے ٹیبل پر ہاتھ مار کر برہمی سے بولا ۔۔اردگرد کے کچھ لوگوں نے اس کو پلٹ کر دیکھا ۔مگر اس وقت فودیل کی ساری عقل پر پتھر پڑ گئے تھے ۔۔
” اور تم میرے بھتیجے کے ساتھ سگی بیٹی کے بیٹے ہو ۔تم مجھے سب سے زیادہ عزیز ہو فادی ۔ایسا مت کرو کہ بعد میں پچھتاوے کے ڈنگ تمہیں سونے بھی نا دیں ۔۔”
کہیں بہت دور اندر نانا کی بات اس کے دل کو لگی ۔شاید وہ صحیح کہہ رہے تھے مگر اگلے ہی پل عالم کی بلیک میلنگ ان کی دھمکی سماعتوں میں گونجی ۔۔ترتیل کو بیچ میں گھسیٹ کر عالم نے اس کی انا کو چوٹ لگائی تھی ۔۔یہ بات وہ کبھی نہیں بھول سکتا تھا ۔۔
” میں نہیں رہ سکتا اس کے ساتھ ۔سمجھوتا کرنا بھی میرے بس میں نہیں ۔۔”
وہ بضد تھا ۔۔۔
” اس کو چھوڑنے اور ٹھکرانے کی ترتیل اور عالم کے علاوہ کوئی ایک وجہ بتا دو میں تمہیں دوبارہ نہیں روکوں گا ۔۔”
دل کے ساتھ دماغ نے بھی عجیب خواہش کی کہ نانا اس کو روکیں ۔۔بار بار روکیں شاید وہ تھک کر اپنی ضد چھوڑ بیٹھے ۔اپنی آرزو پر وہ خود بھی کبھراہٹ کا شکار ہوا ۔
” وہ میری آئیڈیل نہیں ۔ایک میڈل کلاس ماحول میں پلنے والی کبھی بھی میری آئیڈیل نہیں ہو سکتی ۔سر پر ڈوپٹا جما کر رکھنے والی باپ بھائی کے علاوہ دوسرے مردوں کو اچھوت سمجھنے والی ایسی لڑکی کی کبھی خواہش نہیں رہی مجھے نانا۔۔ ردا جو ہمارے چینل کی ایڈیٹر ہے ویسی بولڈ دنیا کے مطابق خود کو ڈھالنے والی لڑکیاں مجھے ایکٹریکٹ کرتی ہیں ۔۔میرے خیال میں یہ وجہ کافی ہوگی ۔۔”
سوچ سوچ کر بس یہ ایک خامی ڈھونڈ کر وہ بڑی مشکل سے نانا کو بتا پایا تھا ۔۔
سراج خاموشی سے اس کے چہرے کو دیکھنے لگے جو اب ٹیبل پر پڑے کافی مگ کو گھور رہا تھا ۔۔
” ہمممم۔۔۔۔۔سہی ۔۔سمجھ آگیا مجھے ۔۔ایک بورڈ ٹاپر کوفیڈنٹ ،سمجھدار ،اپنی حدود کی پاساری کرنے والی ہر میدان میں سکالرشپ حاصل کرنے والی تمہیں آئیڈلائیز نہیں کرتی جبکہ تنگ بے ہودہ لباس پہن کر مردوں کو رجھانے والی سفارش پر نوکریاں حاصل کرنے والی تمہیں ایک بہترین عورت لگتی ہے ۔۔
فودیل زکی افسوس کے ساتھ تمہارا معیار ہی گھٹیا ہے ۔تمہیں واقعی روفہ کو چھوڑ ہی دینا چائیے ۔اس جیسی لڑکی کے بہت سے مرد خواہشمند ہو گے ۔۔
اور ایک آخری بات مجھے اس وقت کا انتظار رہے گا جب تم منہ کے بل گرو گے ۔
تب بھی تم میرے ہی پاس آو گے میں جانتا ہوں کبھی کبھی جس دروازے کو ہم اپنے ہاتھوں سے خود پر بند کرتے ہیں وہ ہی ہماری منزل ہوا کرتی ہے مگر تب تک اس دروازے پر فقل پڑ چکے ہوتے ہیں ہم چاہ کر بھی اس کو کھول نہیں پاتے ۔خیر چلتا ہوں صبح آفس پہنچ کر مجھے آج والی فائل کی ساری معلومات دے دینا ۔”
ایک نظر اس کے نافہم تاثرات والے سنجیدہ چہرے پر ڈال کر طنزیہ انداز میں بول کر نانا کرسی گھسیٹ کر اٹھ کھڑے ہوئے ۔۔
فودیل نے تب تک ان کی پشت سے نظریں نہیں ہٹائیں جب تک گلاس ڈور کھول کر وہ چلے نہیں گئے ۔۔
اسے تو لگا تھا نانا ہمیشہ کی طرح اس کو پوری طرح قائیل کرنے کی کوشش کریں گے مگر وہ تو اس کو چار باتیں سنا کر چلے گئے ۔۔
دماغ کی شریانوں میں بری طرح سے درد محسوس ہونے لگا جبکہ پور پور تھکن اور سوچوں سے چور تھا ۔کچھ سوچ کر وہ بھی گاڑی کی چابی اور والٹ اٹھا کر اپنی بڑی مونچھوں کو سنوار کر اٹھ کھڑا ہوا ۔۔
چھت پر لگے فانوس کو گھورتے ہوئے روفہ کی سوچوں کا مرکز صرف اور صرف اس کا شوہر فودیل زکی تھا ۔
ایک ماہ پندرہ دن کے اس عرصے میں نا تو اس کو فودیل سے محبت ہوئی تھی نا عادت وہ بس اپنی ایمانداری سے اس رشتے کو نبھانا چاہتی تھی ۔
شاید اس کو بھی آہستہ آہستہ محبت ہو ہی جاتی اگر فودیل ایسا نا ہوتا ۔اس کا رویہ اتنا ہتک آمیز نا ہوتا ۔مگر فل حال روفہ کو اپنے ازدواجی رشتے کے مستقبل کی فکر کھائے جارہی تھی ۔۔
دروازے کھلنے کی آواز پر روفہ بری طرح چونکی ۔سامنے ہی اس کا شوہر اجاڑ حلیے میں اپنے بڑے بکھرے بالوں سمیت اس کے سامنے کھڑا تھا ۔۔پہلے تو روفہ کو شک سا گزرا شاید وہ نشہ کرکے آیا ہے ۔
وجہ اس کی حد سے زیادہ سرخ آنکھیں تھیں ۔مگر اگلے ہی پل اس نے اپنے خیال کی نفی کی ۔شاید رت جگوں کے باعث اس کی آنکھیں سرخ تھیں۔
” روفہ مجھے تم سے کچھ ضروری باتیں کرنی ہیں ۔امید ہے تم خاموشی سے سمجھداری کا مظاہرے کرتے ہوئے ساری حقیقت کو جانچ کر حقیقت پسند بن کر فیصلہ کرو گی ۔”
فودیل بیڈ پر اس کے قریب بالکل سامنے اس کی چشمہ لگی بروان آنکھوں میں دیکھ کر مضطرب سے انداز میں بولا ۔۔روفہ کی نگاہیں بھی اس کے چہرے پر ہی تھیں ۔مگر ” فیصلہ ” لفظ پر جانے کیوں دل بری طرح دھڑکا ۔
” روفہ اس گزرے ڈیڈھ ماہ میں نے بہت کوشش کی کہ میں اپنی دلی آمادگی کے ساتھ تمہیں قبول کر سکوں ۔مگر یہ مجھ سے نہیں ہو سکا ۔میں نے یہ شادی صرف اور صرف ترتیل کو عالم چاچو کی دھمکی سے بچانے کے لیے اس کو ایک مضبوط کردار کے انسان کے حوالے کرنے کی وجہ سے کی تھی ۔”
فودیل سانس لینے کو رکا اور روفہ کی جانب دیکھا جو اب بھی اس کے چہرے کی طرف عجیب نگاہوں سے دیکھ رہی تھی ۔۔فودیل نے پھر سے بولنا شروع کیا۔
” اس رات جو بھی ہوا ۔۔میرے خیال میں ہم دونوں کو بھول جانا چائیے ۔وہ بس ایک کمزور لمحے کی گرفت میں آکر ہو گیا ۔ہم دونوں ہی ایک دوسرے کو ڈیزوو نہیں کرتے تمہارا تو پتا نہیں مگر کم از کم تم ویسی نہیں ہو جیسی میں نے اپنی پاٹنر سوچ رکھی تھی ۔
ان شورٹ سو باتوں کی ایک بات ۔مجھے تمہارے ساتھ نہیں رہنا ۔علیحدگی چاہئیے مجھے ۔۔اور تمہاری رضامندی سے ہی یہ ممکن ہے کیونکہ چاچو پھر سے دھمکیوں پر اتر آئیں گے ۔۔میں پھر تم سے چڑنے لگوں گا ۔۔یہ رشتہ پھر سے مجھے بوجھ لگنے لگے گا ۔
بالفرض ہم سمجھوتا بھی کرلیں تو کیا فائیدہ اس کا ہم دونوں ہی خوش نہیں رہیں گے روفہ ۔بہتر نہیں کہ جو ہے اس کو ابھی ہی ختم کرکے قصہ تمام کر دیا جائے ۔۔اب چونکہ میں ترتیل کی طرف سے بے فکر ہوں تو تمہارے ساتھ زبردستی رہنے کا کوئی جواز نہیں بنتا اس لیے اب تم کل صبح ہی چاچو سے کہو گی کہ تمہیں مجھ سے خلاء چایئے ۔Its all over rufa ”
ایک بار پھر فودیل نے روفہ کی جانب دیکھا جو خالی نگاہوں سے اس کو دیکھ رہی تھی ۔۔آنکھوں کے ساتھ چہرے پر بھی کوئی تاثر ہی نہیں تھا ۔ناشکوہ شکایت نا افسوس نا دکھ کچھ نہیں ، کچھ تھا تو صرف خالی پن ۔
فودیل کو اس کی چپی بری طرح کھلی ۔اس کا دل کیا اس لڑکی کو جھنجھوڑ کر پوچھے کیا تمہیں اتنے بڑے فیصلے سے کوئی بھی فرق نہیں پڑا ۔
کتنا ہی وقت بیت گیا ۔پورے کمرے میں گھڑی کی ٹک ٹک کے علاوہ اور دوسری کوئی آواز نا تھی ۔روفہ نے اب آیت الکرسی کی سینری پر نظریں جما لیں ۔جو اس کو بہت خوبصورت لگتی تھی ۔
اس کی خاموشی پر فودیل نے بے چینی سے پہلو بدلا ۔پورے بارہ منٹ بعد روفہ اس کے قریب سے اٹھ کر دروازے کی جانب بڑھی ۔فودیل اس کے عجیب وغریب ردعمل پر الجھا ۔۔
” اس وقت کہاں جا رہی ہو اور میں نے تم سے کچھ دیر پہلے کیا کہا تھا ۔یوں بنا جواب دیے میں جانے نہیں دوں گا ۔”
فودیل نے اس کے بازو کو زور سے پکڑ کر اپنی جانب کھینچ کر بھڑک کر کہا ۔۔
ایک نظر اپنے بازو پر اس کی سخت گرفت کو دیکھ کر ایک ہی جھٹکے میں اپنا بازو چھڑا گئی ۔
” بابا سے اپنے اور آپ کے خلاء کے بارے میں بات کرنے جارہی ہوں ۔۔”
فودیل دھک سے رہ گیا ۔۔وہ ابھی کچھ بھی تو قع کر سکتا تھا مگر روفہ سے ان الفاظ کو سننے کی کبھی نہیں ۔۔
” تم ۔۔تم ابھی جاو گی ان سے کہنے ۔ابھی تو گیارہ بج گئے ہیں ۔۔صبح چلی جانا ۔۔ابھی مناسب نہیں لگتا ۔”
وہ اسے جانے سے روک رہا تھا مگر کیوں ؟؟؟ اس وجہ سے وہ خود بھی انجان تھا ۔روفہ اس کی بات کو ان سنا کرکے دروازے کھول کر باہر چلی گئی ۔۔
فودیل اس کو ننگے پاوں ننگے سر باہر کی جانب جاتا ہوا دیکھنے لگا ۔ اس کی حالت پر دل میں کہیں بے چینی ہوئی ۔۔پھر خود بھی اس کے پیچھے چلا گیا ۔۔
روفہ نیچے والے پورشن میں جاکر عالم اور فضا کے کمرے میں چا چکی تھی ۔۔
فودیل دل کی ویرانی سے کبھراہٹ کا شکار ہونے لگا ۔کبھی اس کے اتنظار میں لاونج میں ٹہلنے لگتا تو کبھی صوفے پر بیٹھ کر ٹانگ ہلانے لگتا ۔
اچانک ہی سینے میں گھٹن ہونے لگی ۔گہرے گہرے سانس لے کر فودیل نے خود پر قابو پانے کی کوشش کی مگر روفہ کے چہرے کا خالی پن آنکھوں کی ویرانی اس کو آگ میں جھلسا رہی تھی ۔۔
پندرہ منٹ بعد ہی روفہ سرخ آنکھوں اور بھینجے لبوں سے باہر آئی ۔۔فودیل کو حیرت ہوئی اسے تو لگا تھا دو تین گھنٹے تو ضرور چاچو اور چھوٹی ماما کو منانے میں لگیں گے ۔۔
” کیا کہا۔انہوں نے کیا مان گئے وہ ۔۔نہیں مانے ہوں گے ۔مجھے پتا تھا ۔خیر جہاں ڈیڑھ ماہ انتظار کیا ہے وہاں اور سہی ۔۔”
بے قراری سے روفہ کی جانب بڑھ کر اس کو شانوں سے تھام کر پوچھا ۔
وہ مزید انتظار کرنے کو تیار تھا ۔فودیل کو اپنے ہی الفاظ میں لڑکھڑاہٹ محسوس ہوئی ۔۔دل اور دماغ کی جنگ میں وہ چکرا کر رہ گیا تھا ۔
” ماما بابا مان گئے ہیں ۔۔کل شام سات بجے بابا آپ کو کورٹ کی طرف سے خلاء کا نوٹس دے دیں گے ۔ہائیسم ترتیل کو میری وجہ سے کبھی نہیں چھوڑے گا اس بات کی گارنٹی بھی دی ہے بابا نے باقی کی باتیں آپ خود ہی تفصیل سے کر لیجئے گا ۔۔”
فش ایکویریم کو دیکھتی دھیمے کھوکھلے لہجے میں بولی ساتھ ہی اس کے ہاتھ اپنے کندھے سے ہٹا لیے ۔
” اتنی جلدی مان گئے ۔ایسے کیسے مان گئے ۔حیرت ہے میرے کہنے پر تو مانے نہیں جب میں نے شادی سے منع کیا تھا اور اب اپنی بیٹی پر طلاق کا دھبہ لگانے کو بھی تیار ہیں۔۔”
طیش میں آکر اونچی آواز میں بولا یہ بات اس کے لیے ناقابل یقین تھی ۔روفہ نے بغیر کسی ردعمل کے گلاس ڈور کھول کر ننگے پاوں سمیت سیڑھیوں کی جانب قدم بڑھا دیئے ۔وہ بھی اس کے پیچھے ہی چل پڑا ۔
” وہاں کہاں جارہی ہو ۔کمرہ اس طرف ہے ۔۔”
ماتھے پر شکن لائے روفہ کو اپنے پہلے والے کمرے کی جانب بڑھتے دیکھ کر پوچھا ۔
” آج اور ابھی سے آپ پر میرا حق ختم ہوگیا ۔”
یہ کہہ کر وہ تو چلی گئی مگر فودیل بےحس وحرکت اس کے کمرے کے دروازے کو ساکت پتلیوں سمیت دیکھنے لگا ۔
ٹھنڈ کے احساس سے فودیل کی آنکھ کھلی ۔پورا کمرہ اندھیرے میں ڈوبا ہوا تھا ۔
پہلے تو خالی ذہن سے کھڑکی سے آتی دھوپ کو دیکھتا رہا مگر جیسی ہی حواس بیدار ہوئے تو نظریں فورا ہی بیڈ پر روفہ کی جگہ کی جانب گھومیں جو آج خالی تھی ۔بالکل اس کے دل کی کیفیت کی طرح ۔
ساری رات اس نے بہت سوچا تھا ۔جب بھی آنکھیں بند کرتا روفہ کا چہرہ سامنے آجاتا ۔۔بے بسی سے وہ اٹھ کر بالکنی میں چلا گیا جہاں روفہ بیٹھ کر پڑھتی تھی ۔۔
اپنے کمرے میں اس کی غیر موجودگی بےقرار کر رہی تھی ۔۔ایسا کیوں تھا وہ نہیں جانتا تھا بس روفہ عالم اس کو اس کمرے میں چایئے تھی ورنہ وہ ساری رات سو نا پاتا ۔۔
تبھی کمرے سے نکل کر روفہ کے کمرے کے باہر کھڑا ہو کر خود کو کمپوز کیا ساتھ ہی ہینڈل پر ہاتھ رکھ کر گھمایا مگر وہ تو لاک تھا ۔
غصے اور بےبسی کی تیز لہر دماغ میں اٹھی مگر وہ صبظ کر کے اپنے کمرے میں واپس آگیا ۔پھر ساری رات روفہ کی کتابوں کو دیکھتے ہوئے گزر گئی ۔اس کی وہی مدہوش کردینے والے خوشبو تکیے میں سے آرہی تھی ۔۔
اس پل فودیل زکی نے جانا وہ اس مہک کے حصار سے کبھی نکل نہیں پائے گا ۔وہ اس لڑکی کے بغیر رہ سکے گا ؟؟ اس کو تنگ کیے بغیر جی پائے گا ۔۔؟؟ اس کو دیکھنے اور سوچے بنا پہاڑ سی زندگی کیسے کٹ پائے گی ؟؟
ہر جانب سے جواب صرف اور صرف نفی میں آیا تھا ۔
اس رات بھی شاید وہ اس انجان جذبے کے تحت ہی اس کے قریب گیا تھا ۔اور وہ جذبہ محبت ہی تھا جس کی خبر آج فودیل کو ہو گئی تھی۔۔
وہ یہ بھی جانتا تھا روفہ کو اس سے محبت نہیں مگر جو اعتبار ایک آس روفہ کو اس پر تھی وہ بھی اس نے چکنا چور کر دی ۔ مگر وہ ایک موقع ضرور اپنے اور روفہ کے رشتے کو دے گا ۔۔عالم اور ترتیل کی وجہ سے وہ اپنی اور روفہ کی زندگی کو نہیں اجاڑے گا ۔نانا سہی کہتے تھے روفہ جیسے قابل لڑکی کے بہت سے مرد خواہشمند ہو سکتے ہیں مگر وہ تو اس کے نصیب میں تھی پھر ناشکری کیسی ۔
رات کے فیصلے کو سوچتے فودیل مطمئین سا اٹھ کر شاور لینے کی غرض سے الماری سے کپڑے نکالنے لگا اب اس کا ارادہ روفہ کو یونی سے پک کر کے اپنے نئے فیصلے کے بارے میں آگاہی دینے کا تھا ۔
الماری کا پٹ کھول کر توصیفی نگاہوں سے کپڑے دیکھنے لگا ۔پھر نفی میں سر ہلا کر دوسرا پٹ کھولا ۔آج پہلی بار وہ اپنی بیوی کے لیے تیار ہونے جا رہا تھا
یہ خیال آتے ہی دلکش مسکرہٹ اس کے عنابی ہونٹوں پر رقص کرنے لگی ۔روفہ کا خوبصورت سنجیدہ سراپا آنکھوں کے سامنے لہرایا ۔۔
تیسرا پٹ کھولنے پر آنکھیں ایک پل کو سکڑیں ۔۔مگر اگلا خیال جو آیا اس کے دل کی دھڑکن اپنی پوری رفتار سے تیز ہوئی ۔۔
اس پٹ میں روفہ کے کپڑے ہوتے تھے جو کہ اب کھالی تھی ۔۔کسی انہونی کے احساس تلے فودیل نے اپنا سینہ مسلا ۔پھر گردن کے پچھلے حصے میں ہاتھ ڈال کر الٹے قدموں ننگے پیر دروازہ کھول کر باہر کی جانب دوڑا ۔۔
بالکل ویسے ہی جیسے کل رات روفہ اپنا ہوش بھولائے ننگے پیر باہر کی جانب گئی تھی ۔۔سیڑھیاں اترتے وقت فودیل بری طرح لڑکھڑایا پاوں کا ناخن ریلنگ سے اڑ کر ٹوٹ گیا ۔۔مگر وہ نہیں رکا ۔۔
بالکل اسی طرح جس طرح روفہ نے ہاتھ کی تکلیف کے باوجود اس کو خود سے دور نا کیا تھا ۔۔
لاونج پورا خالی تھا مگر ڈائینگ ٹیبل پر سب افراد کی باتوں کی آوازیں آرہی تھیں ۔۔
فودیل نے ڈائینگ حال میں داخل ہو کر امید سے پورے ٹیبل کی جانب نگاہ کی دل نے شدت سے دعا کی کاش وہ اپنی مخصوص کرسی پر عالم کے دائیں جانب بیٹھی ہو ۔
مگر وہ کہیں نہیں تھی ۔
” میری بیوی کہاں ہے چاچو ”
فودیل نے اپنے پھٹتے دماغ اور سست پڑتی دھڑکن کو محسوس کرتے خود کو کہتے سنا
ہائیسم کا دل کیا اس کا منہ توڑ کر رکھ دے ۔۔عالم اور فضا بھی ہائیسم کی طرح چپ تھے فقط ایک ترتیل ناسمجھی سے سب کو دیکھ رہی تھی ۔۔
” کچھ پوچھ رہا ہوں میں کہاں ہے میری بیوی ۔بتائیں مجھے اس سے پہلے کہ میں کچھ کر بیٹھوں ۔”
پوری قوت سے دھاڑ کر اس نے ٹیبل پر چائے کی کیٹل کو فرش پر پھینک دیا ۔ترتیل بری طرح ڈر کر ہائیسم کی آغوش میں چھپ گئی ۔۔
ہائیسم طیش کے عالم میں اٹھا اور پوری قوت سے الٹے ہاتھ کا تھپڑ اس کے سیدھے گال پر رسید کردیا ۔سب ہی کو ہائیسم کی حرکت پر سانپ سونکھ گیا ۔۔
عالم نے برہمی سے ایک نگاہ فودیل کے سرخ گال اور پھٹے ہونٹ پر ڈال کر واپس پھیر لی ۔۔
” چلی گئی وہ۔۔ تمہاری پہنچ سے بہت دور چلی گئی ۔تم اب چاہ کر بھی اس کو ڈھونڈ نہیں پاو گے ۔رات تک خلاء کے کاغذات تمہارے منہ پر ماروں گا ۔دل تو میرا چاہ رہا ہے تمہاری بہن کو بھی طلاق کے کاغذات پکڑا کر اپنی بہن کا بدلہ لے لوں ۔۔مگر میں چاہ کر بھی تمہاری طرح بے غیرت نہیں بن سکتا ۔۔دفعہ ہو جاو میری نظروں کے سامنے سے اس سے پہلے تمہارے کیے کا خمیازہ تمہاری بہن کو بھگتنا پڑے ۔”
ہائیسم کی گلے اور دماغ کی رگیں تن گئی تھیں ۔اس کا بس چلتا تو فودیل کو جان سے مارنے سے بھی باز نا آتا ۔
فودیل نے تڑپ کر دھندلی آنکھوں سے ہائیسم کو دیکھا جس کے چہرے کے ساتھ آنکھوں سے بھی شعلے نکل رہے تھے ۔۔اپنے سلگتے گال کی پرواہ کیے بغیر اس کی جانب بڑھا ۔۔
” پلیز ہائیسم مجھے بتاو روفہ کہاں گئی ہے خدا کی قسم اس کے ساتھ اب کچھ غلط نہیں کروں گا ۔۔ایک بار بتا دے یار ۔۔یہ دیکھ ہاتھ بھی جوڑ لیے میں نے ۔”
” تمہاری بھول ہے کہ تم میری بہن کے بارے میں جان پاو گے ۔”
اس کے دونوں جڑے ہاتھوں اور دھندلی آنکھوں کو نظر انداز کیے ہائیسم پھنکارا ساتھ ہی ترتیل کا بازو پکڑ کر چلا گیا۔۔اس سے پہلے وہ فضا سے کچھ پوچھتا عالم نے ہاتھ کے اشارے سے اس کو روکا ۔۔وہ جہاں تھا وہی کھڑا رہ گیا ۔۔سب ہی چلے گئے ملازم بھی تماشہ دیکھ کر پلٹ گئے ۔فودیل ٹوٹے کیٹل کو دیکھتا شکستہ سا کرسی پر ڈھے گیا ۔۔