حریم اجڑی روتی اپنی ماں کے گھر چلی گئی
اسکی ماں تو اسکی یہ حالت دیکھ کر اور طلاق کا سن کر صدمے سے ڈھے گئی حریم کو اسکو سنبھالنا بہت مشکل ہورہا تھا…..
وہ اپنے آپکو سنبھالے کہ اپنی ماں کو….
رات ہورہی تھی اس وقت ڈاکٹر کے پاس لیکر کیسے جائے کچھ سمجھ نہیں آرہا تھا اسکے دونوں بھائی بھی باہر تھے….
تھوڑی دیر گزری تھی کہ دونوں بھائی آگئے انہوں نے حریم کو دیکھا اور ماں کی ایسی حالت تو پریشان ہوگئے جلدی سے بھاگ کر رکشہ لےکر آئے اور ماں کو ہسپتال پہنچایا….
بروقت طبی امداد ملنے کی صورت میں اسکی ماں کی حالت خطرے سے باہر ہوگئی تھی…..
حریم اپنا غم بھلا کر اپنی ماں کی صحت یابی کے لیے دعا کررہی تھی….
اسکی ماں نے آنکھیں کھولیں اور حریم کو پکارا….
وہ اپنی ماں کے پاس گئی اور اس سے کہا اماں جلدی سے ٹھیک ہوجاؤ مجھے تمہاری بہت ضرورت ہے….
وہ دونوں رو رہی تھیں…..
ڈاکٹر نے معائنہ کیا اور دوائیں دے دیں اور احتیاطی تدابیر بتائی….
اور بہت خیال رکھنے کے لیے کہا.۔۔۔
وہ بہت ہمت والی تھی شوہر کے انتقال کے بعد اسنے اپنے بچوں کو سنبھالا مگر بیٹی بھری جوانی میں طلاق کا داغ لیکر آگئی اس سے یہ صدمہ برداشت نہیں ہورہا تھا…..
تین دن تک وہ ہسپتال میں رہی اور چوتھے دن حالت کچھ بہتر ہوئی تو ڈاکٹر نے ڈسچارج کردیا……
اس نے اپنے بیٹے سے اپنے کام والے گھروں میں کہلوادیا تھا سب نے کچھ نا کچھ امداد کردی تھی جس سے ہسپتال کا خرچہ باآسانی نکل گیا تھا….
اک ہفتے بعد وہ دوبارہ کام پہ جانے کے لیے اٹھ کھڑی ہوئی حریم نے منع بھی کیا کہ اماں ابھی مت جاؤ مگر اس نے انکار کردیا اور کہا کہ کام کروں گی تو ہی روزی روٹی ملے گی….
حریم خاموش ہوگئی….
اور اسکی ماں کام کے لیےنکل پڑی…..
بیٹی کا غم اس کے دل پہ لگا تھا…..
کتنے ظالم لوگ تھے…
جنہوں نے ایسے اسکی معصوم بیٹی کو صرف اولاد نا ہونے پہ گھر سے نکال دیا تھا….
وہ کام پہ جانے کے بجائے حریم کے سسرال چلی گئی دیکھا تو وہاں تالا لگا ہوا تھا اردگرد کے لوگوں سے پوچھا تو انہوں نے بتایا یہ لوگ دو دن پہلے یہاں سے چلے گئے ہیں……
ظالم ظلم کرتے وقت یہ نہیں سوچتا کہ وہ جو رب ہے عرش معلی پہ وہ سب دیکھ رہا ہے زمین پہ بیٹھے ہوئے فرعون کو کب اور کیسے غرق کردے کچھ نہیں پتہ اسکی لاٹھی بے آواز ہے کب اس ظالم کے سر پہ پڑ جائے اور اسکو سنبھلنے کا موقع بھی نا ملے…..
وہ بےچاری غم کی ماری اپنے کام پہ چلی گئی….
اسکی مالکن نے اسکو دیکھا تو وہ اسکو بہت پریشان لگی…..
پریشانی اسکے چہرے سے عیاں تھی….
مالکن نے پوچھا….
کیا ہوا تھا تمہیں…؟؟ تم کچھ پریشان لگ رہی ہو….؟؟؟
اور وہ تو جیسے کسی کے پوچھنے کی منتظر تھی…..
پھوٹ پھوٹ کے روپڑی…
غم کی صورت میں اگر کسی کا کندھا جب انسان کو میسر آجائے تو وہ اپنا حال دل کہہ جاتا ہے بس یہی کچھ اسکے ساتھ بھی ہوا…..
“بیگم صاحبہ کیا بتاؤں میری بچی پہ تو ظلم کا پہاڑ ٹوٹ پڑا….. اس نے مجھے کبھی کوئی بات نہیں بتائی اپنے ساتھ ہونے والی کسی زیادتی یا ظلم کا نہیں بتایا بس چپ چاپ سہتی رہی ہمیشہ یہی کہا کہ اماں بہت خوش ہوں سب بہت اچھے ہیں….
میں ہی ملنے چلی جاتی تھی اس سے اور وہ ہمیشہ مجھے خوش رکھانے کا ناٹک کرتی میں اسسے کچھ پوچھتی بھی تو یہی کہتی کہ اماں سب ٹھیک ہے مگر مجھے کیا معلوم تھا کہ میری معصوم بچی پہ وہ ظلم کا پہاڑ توڑدینگے…..
اتنا کہہ کر وہ رونے لگی…..
اسکی مالکن نے اسکے کندھے پہ ہاتھ رکھا اور اسکو اپنے ساتھ لگالیا…. اور حوصلہ دینے لگی……
بیگم صاحبہ اب کیا ہوگا مجھے تو کچھ سمجھ نہیں آرہا اب میری بچی کیسے رہے گی….
یہ معاشرہ تو اسکو جینے نہیں دے گا…. غریب کی ویسے ہی کوئی عزت نہیں ہوتی اور اس پہ ستم کہ اک غریب لڑکی کے ماتھے پہ طلاق کا داغ لگ جائے….
کون کرے گا اب میری بیٹی سے شادی…..
مالکن بھی بہت افسردہ تھی وہ اسکو مسلسل حوصلہ دے رہی تھی۔۔۔۔
مگر کچن کی طرف آتے راحم کے قدم حریم کی ماں کی باتوں کو سن کر وہیں رک گئے تھے….
وہ واپس اپنے کمرے کی طرف پلٹ گیا یہ سوچتے سوچتے اسکا دماغ ماؤف ہورہا تھا کہ حریم کے ساتھ اتنا بڑا ظلم ہوا….
حریم کے چلے جانے کے بعد اسکو احساس ہوا تھا حریم کی محبت یکطرفہ نہیں تھی گویا کہ وہ اک عام سی شکل و صورت کی لڑکی تھی مگر اسکا دل بہت صاف تھا….
وہ اسکے بارے میں سوچتا اور اسکے لیے دعا گو رہتا مگر قسمت کو کچھ اور منظور تھا….
کمرے میں آتے تک اسنے اک فیصلہ کرلیا تھا…. راحم باذل اک فیصلہ کرچکا تھا بس اسکو پایا تکمیل تک پہنچانا تھا…..
باذل اور شانزے منگنی کے بعد بھی اکثر ساتھ وقت گزارتے….
شانزے کے امیدواروں میں اک ساحر علی تھا
جس نے بہت کوششیں کی کہ کسی طرح شانزے باذل کو چھوڑ دے
اور اس سے شادی کرلے مگر اک دو دفعہ شانزے نے اسکی کافی بےعزتی کی اور باذل کو بھی بتادیا…
باذل نے بھی اسکو اپنے طور پہ سمجھادیا
مگر وہ بھی ساحر تھا….
نا تو چپ رہنے والا تھا اور نا ہی پیچھے ہٹنے والوں میں سے تھا….
بس سہی وقت کا انتظار کرنے لگا…..
باذل نے شادی کا جلد ہی کہہ دیا تھا کیونکہ جہیز وغیرہ کا پہلے ہی منع کرچکا تھا
سو اسکی کوئی ٹینشن نا تھی….
شادی کے دن قریب آگئے….
تیاری زور و شور سے جاری تھی…..
شانزے کے پاپا نے اسکو لاکھوں کا جہیز دینے کے بجائے اسکو کیش دے دیا تھا….
باذل کے پاس بھی کوئی کمی نا تھی اور پھر وہ دن بھی آگیا جب شانزے رخصت ہوکر مکرم ہاؤس آگئی…..
وہ تو ویسے ہی بہت خوبصورت تھی اور اپنے سجے سنورے روپ میں تو وہ غضب ڈھارہی تھی…
باذل کی تو جیسے نگاہیں ہی نا ہٹ رہیں تھیں وہ تو اسکے حسن میں کھو سا گیا…..
وہ اسکو پاکر بہت خوش تھا اور خوش تو شانزے بھی تھی….
اتنا بڑا گھر ، دولت کی فراوانی، پھر شوہر بھی اتنا ہینڈسم اور دلکش پریسنالیٹی کا مالک…..
اسکی تو جیسے لاٹری نکل آئی تھی…
ولیمے کے فورا بعد وہ لوگ ہنی مون کے لیے دبئی چلے گئے…..
اک دوسرے کی سنگت میں وقت کیسے گزارا خبر بھی نا ہوئی…
روانگی کا وقت آگیا اور وہ لوگ واپس آگئے…..
اب زندگی کی روٹین شروع ہوچکی تھی،
شانزے کو ویسے بھی گھر کے کاموں میں کوئی دلچسپی نا تھی اور اسکے خیال میں اس گھر میں اسکے لائق کوئی کام نا تھا…..
اسکو بس باذل کے ساتھ گھومنا پھرنا اچھا لگتا ہر دوسرے دن وہ لوگ ڈنر باہر کرتے….
صبح وہ بھی باذل کے ساتھ شوٹ پہ آجاتی…..
وہ کافی ہٹ ہوچکی تھی لوگ اسکے کام کو کافی پسند کرتے تھے سو اسکو کافی رول ملنے لگے….
اور وہ اپنی کارکردگی کے جوہر دکھانے میں مگن رہتی…..
باذل کی طرف سے کوئی روک ٹوک نا تھی
البتہ ہادیہ نے اک دو دفعہ باذل سے کہا کہ شانزے کو سمجھائے وہ اب گھر پہ رہا کرے آنے جانے والے اسکا پوچھتے ہیں نئی نویلی بہو ہے اسکا گھر میں ہونا ضروری ہے…
مگر باذل نے انکو ٹال دیا…..
وقت گزرتا رہا شانزے کی روش برقرار تھی وہ گھر میں بلکل بھی نا ٹکتی تھی بس باذل کے ساتھ ہی رہتی اور ادھر ساحر علی بس موقع کی تلاش میں رہتا کہ کس طرح وہ شانزے کو حاصل کرے،
اسکی جو بےعزتی شانزے اور باذل نے کی تھی اسکے اندر انتقام کی آگ جل رہی تھی….
مگر ابھی وہ وقت نہیں آیا تھا کہ وہ اپنا مقصد پورا کرسکتا…..
اک روز شانزے کی طبیعت ٹھیک نہیں تھی باذل اسکو ڈاکٹر کے پاس لے گیا ڈاکٹر نے معائنہ کے بعد خوشخبری سنائی باذل تو بہت خوش تھا
مگر شانزے کو یہ سب جھنجھٹ لگتا تھا اس نے بہت کوشش کی کہ وہ اس جھنجھٹ سے آزاد ہوجائے
مگر اک تو باذل کی مرضی نہیں تھی دوسرا اللّٰہ نے جس کو اس دنیا میں لانا ہوتا ہے وہ آکر ہی رہتا ہے….
شانزے کی ساری کوششیں بےکار گئیں اور وہ مجبور ہوگئی کہ وقت ایسے ہی گزارے…..
اسنے شوٹ پہ بھی جانا چھوڑ دیا تھا…..
باذل اسکا بہت خیال رکھتا اور ہادیہ بھی بہت خوش تھیں وہ بھی اسکا پورا خیال رکھتیں….
اسکو سمجھاتیں….
پھر وہ وقت آگیا جب شانزے نے اک بہت پیارے سے بیٹے کو جنم دیا….
وہ بلکل شانزے کی کاپی تھا…
بہت خوبصورت…..
سب بہت خوش تھے….
باذل نے مٹھائی بانٹی….
صدقہ دیا گیا…..
شانزے ہسپتال سے گھر آگئی…..
ہادیہ بہت خوش تھیں اور مکرم بھی دادا بننے کی خوشی میں دعوتیں دیتے پھر رہے تھے…..
بچے کا عقیقہ ہوا اور اسکا نام راحم رکھا….
شانزے کو اسکو سنبھالنا بہت مشکل لگتا….
ہادیہ اسکا ساتھ دیتیں اور بچے کو زیادہ تر وہی سنبھالنے لگیں۔۔۔۔
شانزے نے جیسے تیسے وقت گزارا اور واپس اپنی روٹین پہ جانے کی کوشش کرنے لگی….
باذل نے اسکو روکنا چاہا مگر اسنے کہہ دیا کہ مجھ سے اب گھر میں نہیں رہا جاتا….
میں ہر وقت گھر میں بند نہیں رہ سکتی…..
اور راحم کو ماما دیکھ لیتی ہیں بس مجھے اب اور نہیں رہنا گھر میں…..
باذل نے سمجھانے کی بہت کوشش کی مگر شانزے بھی ضد کی پکی تھی….
اسنے پہلے تو اپنے آپکو فٹ رکھنے کے لیے جم جوائن کیا تاکہ وہ موٹی نا لگے….
اور پھر اپنی روٹین پہ واپس آگئی اب وہ باقاعدگی سے جم بھی جاتی اور شوٹ پہ بھی……
اسکو اپنے بیٹے سے کوئی سروکار نہیں تھا…. راحم کو ہادیہ سنبھالتیں تھیں…
سو وہ اپنی زندگی میں مگن ہوگئی….
باذل کو کبھی کبھی احساس ہوتا کہ اس سے کوئی غلطی تو نہیں ہوگئی…. مگر وہ اسکی پسند تھی اسکی محبت تھی….
اب جو بھی تھی جیسی بھی تھی اسکے ساتھ ہی رہنا تھا…..
مونا کے بھی کئی رشتے آرہے تھے مگر وہ ہر اک کو انکار کیے جارہی تھی…..
نازیہ اسکی وجہ سے تھوڑا پریشان رہنے لگی تھی….
وہ اسکو سمجھاتی مگر اسکا بس اک ہی جواب ہوتا
مجھے شادی نہیں کرنی…..
اک روز نازیہ نے آخری کوشش کرتے ہوئے مونا کو سمجھایا اور کہا…..
“بیٹا باذل کی وجہ سے اگر انکار کررہی ہو تو بےوقوفی کررہی ہو….. وہ شادی شدہ ہے اب…
یہ بےکار کی ضد چھوڑ دو اور شادی کے لیے مان جاؤ….. جو تمہارا نہیں ہے وہ تمہیں کسی صورت نہیں ملے گا اور جو تمہارا ہے وہ خود چل کر آئے گا…..
مونا کو شاید اب اپنی ماں کی بات سمجھ آگئی تھی….
“ٹھیک ہے امی جیسا آپکو ٹھیک لگے…” وہ شادی کے لیے راضی ہوگئی تھی…..
ان رشتوں میں سے اک رشتہ نازیہ کو سمجھ آیا اور انہوں نے اسکے لیے ہاں کردی… .
باذل بھی لڑکا دیکھ آیا تھا…. اسکو بھی وہ اچھا لگا…. فیملی بیک گراؤنڈ بھی بہت اسٹرانگ تھا کوئی کمی نہیں تھی…..
سو مونا کا رشتہ طے ہوگیا……
*********
نادر کاکوروی اور آئرلینڈی شاعر تھامس مور کی نظم نگاری کا تقابلی مطالعہ
نادؔر کاکوروی اردو کے ممتاز شاعر اور تھامس مور آئرلینڈ کے انگریزی زبان کے شاعر ہیں، دونوں شعرا کی شاعری...