ابرھیم کی کال حیدر نے ہی وصول کی تھی۔ نہ کوئی حرف تسلی نہ اظہار ہمدردی۔۔۔ بس اطلاع بہم پہنچائی اور فون بند کر دیا گیا تھا۔
“صوفیہ! جلدی تیاری کرو، ہمیں اسلام آباد کے لیے نکلنا ہے۔” وہ بہت حوصلے سے گھر آئے تھے۔ اکلوتی بیٹی کا بھری جوانی میں بیوہ ہو جانا۔۔۔ اس پہاڑ سے غم کو سہنے کے لیے سینہ بھی پتھر چاہیے تھا۔
“کیا ہوا؟” رات کے کھانے کے لیے سبزی بناتی صوفیہ پریشان سی اٹھ کھڑی ہوئیں۔
“وہاں سب خیریت سے ہیں؟ موتیا اور ہادی؟”
“تم تیاری کرو صوفیہ، میں نے گاڑی کا پتا کیا ہے ایک گھنٹے میں نکلے گی” حیدر بتا نہیں پا رہے تھے۔ وہ ایک بیگ میں کپڑے رکھ کر تیار ہو چکی تھیں۔ کچھ سوچ کر انھوں نے موتیا کا نمبر ملایا کافی دیر گھنٹی بجتی رہی، اس نے فون نہیں اٹھایا، پھر انھوں نے سعدیہ کا نمبر ملایا تھا۔ اب بھی فون بج بج کر بند ہو گیا۔
“یا اللہ خیر۔۔۔ یہ دونوں ہی فون نہیں اٹھا رہیں۔ پہلے تو کبھی ایسا نہیں ہوا” فون ہاتھ میں لیے وہ بلند آواز میں بڑبڑائی تھیں۔
“صوفیہ۔!” حیدر دروازے میں کھڑے تھے چہرہ آنسوؤں سے تر تھا۔
“ہادی۔۔ ہادی نہیں رہا صوفیہ۔” فون ان کے ہاتھ سے چھوٹ کر ان کی گود سے ہوتا، فرش پہ آ رہا۔
“وہ شہید ہو گیا ہے۔” وہ روح کو لرزا دینے والی خبر تھی۔ جوان بیٹی کا دکھ، بہنوں جیسی کزن کے جوان بیٹے کی موت کا دکھ۔۔۔۔ ان کا نازک دل کیسے اتنے دکھ سنبھالتا۔
“خود کو سنبھالو صوفیہ!” حیدر نے ان کے کندھے پہ ہاتھ رکھا اور سہارا ملتے ہی وہ پھوٹ پھوٹ کر روئی تھیں۔
“وہاں پہنچ کر تم نے ابھی موتیا اور سعدیہ کو بھی سنبھالنا ہے۔” وہ بےتحاشا روئے چلی گئیں، پہلے خود کو تو سنبھال لیتیں۔ پھر ہی ان کو سنبھالنا تھا۔
“میں نے فارہہ کو بھی بتا دیا تھا، وہ اور اس کی امی بھی چل رہی ہیں۔” حیدر نے انھیں بتایا تھا۔
“ہائے موتیا۔!” ان کے دل سے آہ نکلی تھی۔
**۔۔۔**۔۔۔**۔۔۔**۔۔۔**۔۔**
کون کہتا ہے کہ قیامت کا ایک وقت مقرر ہے؟ ابراھیم کو تو لگ رہا تھا جیسے آج ہی ان کے گھر میں محشر برپا ہو گیا تھا۔ جن کندھوں نے ان کے جنازے کا بوجھ اٹھانا تھا آج وہی ان کے کندھوں پہ سوار سوئے قبرستان روانہ تھا۔ کل تک وہ اس گھر سے جاتے ہوئے روتا تھا اور آج خود سب کو روتا چھوڑ کر جا رہا تھا۔ وہ ضبط کے کڑے مرحلے سے گزر رہے تھے، جبکہ آنسو متواتر چہرہ بھگو رہے تھے۔ انھوں نے ذرا سا رخ موڑ کر عدی کو دیکھا۔ اس کا تو ضبط ان سے کہیں بڑھ گیا تھا۔ کسی احساس کے پیش نظر عدی نے انھیں دیکھا۔ اس کی آنکھیں رت جگے اور روتے رہنے کی گواہ تھیں۔
؎ دکھ ہی ایسا تھا کہ رویا تیرا محسؔن ورنہ
غم چھپا کر اسے ہنستے ہوئے اکثر دیکھا
اس نے نظریں پھیر لیں، وہ جو اس کڑے وقت میں اپنے باپ اور ماں کے سہارے کے لیے چٹان کی طرح سخت بنا تھا تو اب اسے پتھر ہی رہنا تھا۔ وہ اپنے آنسو دکھا کر انھیں کمزور نہیں کر سکتا تھا۔
“میں اس نوکری کی ذمہ داری سے نہیں بھاگ رہا۔” عدی کو پندرہ روز قبل کی اپنی اور ہادی کی گفتگو یاد آئی۔
“اور تم نے ذمہ داری نبھا دی ہادی۔!” اس کا دل کراہا۔۔ تابوت قبر میں رکھا جا چکا تھا۔
“میں نے خود اپنی مرضی سے یہ ذمہ داریاں منتخب کی تھیں۔” آنکھیں دھندلا گئی تھیں۔
“اور اللہ نے تمھارے لیے وہ راستہ منتخب کیا جو سب سے بہترین ہے۔ اور جس کی منزل ابدی راحت ہے۔” اس نے دونوں ہاتھوں میں مٹی بھری۔ اور قبر پہ گرائی
“آاہ۔۔۔!!! اب میں تمھیں کبھی نہیں دیکھوں گا ہادی۔” وہ وہیں قبر کے پاس، اس کے سرہانے بے دم سا بیٹھ گیا۔
“یہ آنکھیں، یہ ہونٹ، یہ چہرہ۔۔۔” ہاتھ بڑھا کر تابوت کے شیشے پہ پھیرا جہاں سے اس کا پرسکون چہرا دکھائی دے رہا تھا۔
“مجھے اپنی زندگی میں کبھی دکھائی نہیں دے گا۔ میں اب کبھی ان آنکھوں میں اپنا عکس نہیں دیکھ سکوں گا۔” وہ شیشے کے اوپر سے بھی جیسے اس چہرے کی نرمی محسوس کر رہا تھا۔
“اب میرے کان کبھی ان ہونٹوں سے اپنا نام نہیں سن سکیں گے۔” دل کو جیسے کوئی کند چھری سے چیر رہا تھا۔ دل خون کے آنسو رو رہا تھا لیکن آنکھوں کے سوتے خشک پڑے تھے۔
“عدی۔!” اس کے دوست عماد نے اس کے کندھے پہ ہاتھ رکھا تھا۔ اور اس لمحے عدی کے لیے ایک وہ ہاتھ بھی ڈوبتے کو تنکے کا سہارا لگا تھا۔ اس نے عماد کے ہاتھ کو تھاما، زور سے آنکھیں بند کرکے سارے آنسو اندر اتارے اور اٹھ کھڑا ہوا۔
؏ درد کا اجر ہے، میرا جو صبر ہے۔
شیشے سے نظر آتا اس کا چہرہ اب مٹی میں چھپ گیا تھا۔ وہ اپنا غم چھپا کر باپ کی طرف متوجہ ہوا جو ایک ہی دن میں برسوں کے بیمار نظر آنے لگے تھے۔ بیٹے کی شہادت پہ لازوال اجر سہی، فوجی اعزازات اور فخر سے سر بلند سہی۔۔۔ لیکن جوان بیٹے کا یوں چلے جانا۔۔ کوئی ان سے پوچھتا تو وہ بتاتے کہ انھیں کوئی اعزاز، کچھ بھی نہیں چاہیے تھا، انھیں صرف اپنا ہادی چاہیے تھا۔ لیکن اللہ کے کاموں میں کسے دخل تھا، بےشک وہ جو کرتا ہے بہتر کرتا ہے۔ پس اب صبر بھی تو آتے آتے ہی آنا تھا۔
؏ ہم نے صبر کیا اور صبر بھی قیامت کا۔
سعدیہ پہ نیم غشی کی سی کیفیت تھی۔ کل سے اب تک سوائے چند گھونٹ پانی کے ان کے حلق سے کچھ نہیں اترا تھا۔
“ماما جان۔!” عدی ان کے سامنے بیٹھا، انھوں نے متورم آنکھوں سے اسے دیکھا
“چھوڑ آئے میرے ہادی کو عدی۔؟” اس نے اثبات میں سر ہلایا۔ اس وقت عدی کے دل نے شدت سے خواہش کی کہ کاش ماما جان اسے سینے سے لگا کر کہیں کہ “عدی۔۔ اپنا غم بھی بہا دو، کہہ دو جو دل پہ گزر رہی ہے۔” لیکن خواہش نا تمام ہی رہی۔
“وہ اب کبھی نہیں آئے گا نا عدی۔! کہا تھا اسے کہ مت جائے فوج میں، منع بھی کیا تھا، بتایا تھا اسے کہ اس کی ماں کا دل بہت کمزور ہے، نہیں ہے اس کی ماں اتنی عظیم کہ خود اپنے بیٹے کے سر پہ کفن باندھ کر میدان جنگ میں بھیجتی۔۔۔ میں کیسے صبر کروں عدی؟ ماں کا کلیجہ چھلنی ہے، صبر کیسے آئے گا؟” وہ اس سے لپٹ گئیں۔ اس نے اپنے بازوؤں کے گھیرے میں انھیں سمویا تھا۔
“شہید کی ماں ہونا اعزاز ہے لیکن کوئی پوچھے ہر اس شہید کی ماں سے جس نے اپنا جوان بیٹا قبر میں اتارا ہے کہ کیسے ان کے جسم پہ آرے چلتے ہوں گے۔ جب سوچتی ہوں گی کہ کس طرح کوئی گولی ان کے نازوں پلے لال کے وجود کو چیتھڑوں میں بدل گئی۔” وہاں موجود ہر شخص کی آنکھیں پھر سے نم ہوئی تھیں۔
“نہیں ہوں میں عظیم ماں، نہیں آ رہا مجھے صبر۔۔۔ کیسے صبر لاؤں؟ کہاں سے لاؤں؟” اس سے لپٹی وہ اب بچوں کی طرح بلک بلک کر روئی تھیں۔ بہت خاموشی سے کئی آنسو عدی کے چہرے سے ہوتے ہوئے ان کے بالوں میں جذب ہوئے تھے۔
؏ آ کسی روز، کسی دکھ پہ اکٹھے روئیں۔
اور عدی جانتا تھا کہ انھیں اب نجانے کتنا عرصہ، یا شاید تا عمر ہی اس دکھ پہ اکٹھے رونا تھا۔
**۔۔۔**۔۔۔**۔۔۔**۔۔۔**۔۔**
“مجھے معاف کر دینا موتیا۔” وہ اپنی مخصوص جگہ پہ تھی۔ کمرے میں کھڑکی کے پاس۔ گھر کے مکین کو گھر سے ابدی سفر پہ رخصت ہوئے ایک ہفتہ بیت گیا تھا۔ وہ اس کھڑکی کے قریب رکھی کرسی پہ بیٹھی لان کے ملگجے اندھیرے پہ نگاہیں جمائے تھی۔ نجانے کیا تلاشتی رہتی تھی۔ صوفیہ اور حیدر آج صبح ہی واپس گئے تھے۔ اس نے جانے سے انکار کر دیا تھا۔ باقی زندگی کا پتا نہیں لیکن عدت تک وہ اسی گھر میں رہنا چاہتی تھی۔
“تم بہت اچھی ہو موتیا!” ہادی کی باتیں رہ رہ کر یاد آتی تھیں۔ باتیں ہوئی ہی کتنی تھیں۔ صرف دو دن ہی کا تو ساتھ تھا، بندہ بھلا کتنی باتیں کر لیتا؟
“کاش وقت نے اتنی مہلت دی ہوتی ہادی! تو میں بھی آپ کو بتاتی کہ آپ بھی بہت اچھے ہیں۔” بہت سے لفظ ان کہے ہی رہ گئے تھے اور اب ہمیشہ کے لیے ان کہے ہی رہنے تھے۔
(اچھی بیویاں، شوہر کو سمجھتی ہیں۔) “میں آپ کو سمجھ گئی تھی۔” اس نے سوچا
“اللہ آپ کی شہادت قبول فرمائے آمین۔” مغرب کی اذان ہو گئی تھی، وہ نماز کے لیے وہاں سے اٹھ آئی تھی۔ نماز پڑھ چکی تو دروازے پہ دستک دے کر سعدیہ اندر آئی تھیں۔
“موتیا۔! مجھے لگتا ہے کہ اس کمرے میں اب بھی ہادی رہتا ہے۔ کیا میں یہاں آ جاؤں؟” کمرے کے ذرے ذرے میں جیسے ہادی کا وجود سانس لے رہا تھا۔
“اف ماما جان۔!” اس نے آگے بڑھ کر ان کا ہاتھ تھاما اور اندر لائی
“آپ جب چاہے، جیسے مرضی اس کمرے میں آئیں۔ آپ کا ہے جو بھی ہے۔” دونوں بیڈ پہ ہی بیٹھ گئیں۔ چپ بیٹھی جیسے ایک دوسرے کی خاموشی کو سن رہی تھیں۔
“سجنے سنورنے کے دن تھے تمھارے موتیا!” سعدیہ نے بےساختہ اس کے ملیح چہرے کو ہاتھ سے چھوا۔
“کیسا پہاڑ سا غم۔۔۔”ان کے آنسوؤں نے بات مکمل ہی نہ کرنے دی تھی۔ پھر جو دونوں ایک دوسرے سے لپٹ کر رونا شروع ہوئیں تو۔۔۔ ابراهيم کے آنے پہ ہی الگ ہوئی تھیں۔
کچھ دن مزید ایسے ہی بیت گئے تھے۔ اور پھر ہادی کا سامان بھی واپس آ گیا۔ اب اس کے جانے کے بعد بھلا ان بےجان چیزوں کا کیا کرنا تھا۔ سعدیہ نے اس کا سارا سامان یونہی بند ڈبوں میں گھر کے سٹور میں رکھوا دیا تھا۔ کسی نے بھی ایسا کرنے پر ان سے کوئی سوال نہیں کیا تھا۔ سچ ہی تو تھا جیتے جاگتے وجود کے منوں مٹی تلے جانے کے بعد ان چیزوں کی حیثیت ہی کیا رہ گئی تھی۔
**۔۔۔**۔۔۔**۔۔۔**۔۔۔**۔۔**
عدی کا وہ دن ہسپتال میں بےحد مصروف گزرا تھا۔ یہاں تک کہ وہ کھانا تو دور چائے کا ایک کپ تک نہیں پی سکا تھا۔ رات کے دس بج چکے تھے، نظریں بار بار موبائل کی طرف اٹھتیں کہ شاید ماما جان کا فون آ جائے کہ “عدی! بہت دیر ہوچکی ہے گھر آ جاؤ۔” اس نے کرب آمیز مسکراہٹ کے ساتھ سر جھٹکا۔ اور کرسی کی پشت سے اپنا کوٹ اٹھاتا ہوا اٹھ کھڑا ہوا تھا۔ اسے امید تھی کہ ماما جان اس کے انتظار میں ہوں گی۔ گاڑی سے اتر کر اندر آیا تو باورچی خانے میں روشنی دیکھ کر بھوک شدت سے چمکنے لگی تھی۔ لیکن دروازے میں قدم رکھتے ہی موتیا کی جھلک نظر آئی تھی۔ وہ وہیں ٹھہر گیا تھا۔ وہ عدت میں تھی۔ اور اس کی حتی المقدور یہی کوشش ہوتی تھی کہ اس کا آمنا سامنا نہ ہو۔
“عدی بھائی کھانا۔۔” وہ بھی شاید آہٹ سن چکی تھی۔ بنا پلٹے وہیں سے پوچھا۔
“مجھے بھوک نہیں ہے، میں کھا کر آیا ہوں۔” وہ کہہ کر رکا نہیں تھا۔ پتا نہیں کیا ہوا تھا کہ غصے سے دماغ کی رگیں پھٹنے کے قریب ہوئی تھیں۔ اسے غصہ بہت کم آتا تھا لیکن جب آتا تو شدید ہی آتا تھا۔ بھوک ایک دم سے مٹ گئی تھی۔ روم ریفریجریٹر سے پانی کی بوتل نکال کر ٹھنڈا پانی پی کر اس نے غصہ قابو کیا تھا۔
“معتداء کو اپنے گھر چلے جانا چاہیے تھا۔” اس نے ایزی چیئر پہ جھولتے ہوئے سوچا۔
“لیکن مجھے کیا حق پہنچتا ہے کہ اسے اس گھر سے جانے کا کہوں؟” خود ہی اپنے خیال کو رد کیا
“میں نے کبھی ماما جان سے اپنے ذاتی کام کرنے کو نہیں کہا، لیکن پھر بھی انھیں خود میرا احساس ہونا چاہیے، نا کہ معتداء کو۔” اس کا ذہن مختلف خیالات کی آماجگاہ بنا ہوا تھا۔ ایک بات ذہن میں آتے ہی وہ ایک جھٹکے سے اٹھا گھڑی میں وقت دیکھا اور ایک نمبر ملایا۔
“ہیلو ڈیوڈ!؟” فون فوراً ہی اٹھا لیا گیا تھا۔ وہ اب جرمن میں کسی سے مخاطب تھا۔
“تم نے کسی کورس کا بتایا تھا، کیا اب بھی جاری ہے؟ مجھے داخلہ مل سکتا ہے؟”
“ہاں ہاں کیوں نہیں!؟” دوسری جانب سے ڈیوڈ نے بہت جوش و خروش سے اسے اطلاع دینا شروع کی تھی۔
“چھ ماہ کا کورس تھا ایک مہینہ گزر چکا ہے لیکن مجھے یقین ہے کہ تم پچھلے ایک مہینے کی کمی بھی جلدی ہی پوری کر لو گے۔” ڈیوڈ کی شدت سے خواہش تھی کہ عدی وہ کورس کرے لیکن تب اس نے انکار کر دیا تھا۔ مگر آج۔۔ اس نے اچانک ہی اتنا بڑا فیصلہ کر لیا تھا۔
“ٹھیک ہے تم ساری کاغذی کاروائی مکمل کرو، میں ابھی اپنی سیٹ پکی کرواتا ہوں۔ دو دن میں پہنچ رہا ہوں۔”
“یہ ہوئی نا بات۔! جرمنی میں خوش آمدید۔” ڈیوڈ سے بات کرکے فون بند کیا تو اس نے آن لائن ہی اپنے لیے سیٹ مخصوص کروائی تھی۔ کچھ ہی دیر میں اسے فلائٹ نمبر وغیرہ کا پیغام اور میل موصول ہوئی تھی۔ اس نے ساری رات اپنا سامان باندھتے جاگتے ہوئے گزاری تھی۔ اپنے ہسپتال کے مالک کو بھی اس نے پانچ ماہ کی چھٹی کے لیے میل کر دی تھی۔ میل کے علاوہ فون پہ پیغام بھی بھیجا تھا۔ کچھ ہی دیر میں اس کا فون بجنے لگا تھا۔ ہسپتال کے مالک زمان چودھری کا ہی فون تھا۔
“یہ میں کیا پڑھ رہا ہوں عدی!؟” انھوں نے چھوٹتے ہی پوچھا تھا
“بس اچانک ہی خیال آیا کہ یہ کورس کرنا کافی فائدہ مند ہو گا، میرا جرمنی کا ایک دوست بھی بہت اصرار کر رہا تھا کہ مجھے یہ کورس کرنا چاہیے۔ تو بس میں نے سوچا کہ یہ موقع گنوانا نہیں چاہیے۔” اس نے انھیں تفصیل سے آگاہ کیا۔
“چلو جیسا تمھیں مناسب لگے، لیکن یاد رکھنا کہ ہسپتال میں تمھاری جگہ تمھاری ہی رہے گی۔ میں نوٹس لگوا دوں گا کہ ڈاکٹر عدی ابراهيم چھ ماہ کی رخصت پہ جرمنی گئے ہیں۔” زمان چودھری جوہر شناس تھے، اچھے اور قابل انسان کی پہچان کر سکتے تھے۔ اور وہ اس اچھے اور قابل ڈاکٹر کو کھونا نہیں چاہتے تھے کہ جس کی بدولت اب ان کے ہسپتال کی ایک باقاعدہ ساکھ بن چکی تھی۔
“ضرور زمان صاحب! میں بھی یہی چاہوں گا کہ میری جگہ کوئی دوسرا نہ لے۔” اس نے بھی ان کی بات کا بھرم رکھا تھا۔ اور فون بند کیا تھا۔ اپنے سارے کاغذات اور دیگر سامان رکھتے رکھتے اسے تین بج گئے تھے۔ وہ دو گھنٹے کے لیے سونا نہیں چاہتا تھا یہی سوچ کر ایک کتاب اٹھائی اور اس کا مطالعہ شروع کیا تھا۔ نماز پڑھنے مسجد گیا تھا، واپسی پہ، جبکہ سورج ابھی طلوع ہوا ہی چاہتا تھا۔ وہ کچھ کھانے کے لیے باورچی خانے میں آیا تھا۔ ماما جان اب بھی نہیں آئی تھیں۔ ایک اور خواہش دل ہی میں دم توڑ گئی۔ ہلکا پھلا سا ناشتہ کر کے تیار ہو کر جانے لگا تو سعدیہ کو ہال کمرے میں لگی ہادی کی تصویر کے سامنے کھڑا پایا تھا۔ نہ چاہتے ہوئے بھی وہ رکا
“ماما جان! جو اس دنیا سے جا چکا ہے اس کی یاد میں آپ، جو ہیں انھیں کیوں زندہ درگور کر رہی ہیں؟” وہ چونک کر پلٹی تھیں لیکن وہ اپنی بات مکمل کر کے ان کا جواب سننے کے لیے وہاں رکا نہیں تھا۔ ان کا جواب وہ جانتا ہی تھا۔ لیکن یہ کہاں کا انصاف تھا کہ ایک بیٹے کی یاد میں دوسرے کو فراموش کر دیا جائے۔
(تو کیا میں اتنی لاپروائی برتنے لگی ہوں عدی سے کہ وہ آج پہلی بار شکوہ کر کے گیا۔) وہ خود سے مخاطب تھیں۔
(ہاں ایسا ہے تبھی تو وہ شکوہ کر رہا تھا) دل و دماغ دونوں متفق تھے۔
(میں اس کے سارے گلے شکوے دھو دوں گی۔) وہ تہیہ کرکے اٹھیں۔ اور اس دن خوب دل سے عدی کی پسند کا کھانا تیار کیا تھا۔ عدی شام کے چار بجے گھر آیا تھا۔ اپنا سوٹ کیس گاڑی میں رکھ کر ہینڈ کیری لیے ابراھیم اور سعدیہ کے کمرے میں آیا تھا۔
“کہیں جا رہے ہو عدی؟” ابراھیم وہ ہینڈ کیری دیکھ کر حیران ہوئے تھے۔ سعدیہ کے چہرے پہ بھی یہی سوال تھا۔
“جرمنی جا رہا ہوں بابا جان! سات بجے کی فلائٹ ہے۔” اس کے جانے کی اطلاع ایسی ہی غیر متوقع تھی کہ سعدیہ تو کیا، ابراهيم بھی اپنی جگہ سے اٹھ کھڑے ہوئے تھے۔
“ایسے اچانک عدی؟ بغیر بتائے، کوئی ذکر تک نہیں کیا؟” ابراهيم ہی نے پوچھا تھا۔ سعدیہ تو بے یقینی سے یک ٹک اسے دیکھے جا رہی تھیں۔ عدی دانستہ ان سے نظریں نہیں ملا رہا تھا۔
“ڈیوڈ کافی دنوں سے کہہ رہا تھا کہ ایک کورس ہے، کر لوں۔ پہلے تو ارادہ نہیں تھا جانے کا لیکن پھر خیال آیا کہ زندگی ایک جگہ آ کر ٹھہر گئی ہے۔ بس یہی سوچ کر تھوڑی تبدیلی کے لیے ہامی بھر لی بابا جان۔!” انھوں نے محسوس کیا کہ وہ سعدیہ کو مخاطب نہیں کر رہا تھا۔ اور وہ بھی اپنی جگہ چور سی کھڑی تھیں۔
“اچھا ماما جان۔! پانچ مہینے کے لیے جا رہا ہوں۔ اپنا خیال رکھیے گا۔” اس نے جھک کر ان کے ماتھے کا بوسہ لیا۔ اور ابراھیم سے گلے ملا تھا۔
“اپنا خیال رکھیے گا بابا جان!” وہ اسے رخصت کرنے باہر تک گئے تھے۔
“میں چھوڑ آؤں ایئرپورٹ تک؟”
“میں نے کریم سے گاڑی منگوا لی ہے بابا جان! بےفکر رہیے۔” اندر کی بےچینی چھپا کر اس نے شگفتگی سے کہا۔ گاڑی دروازے پہ موجود تھی۔ سامان رکھا جا چکا تھا۔
“سعدیہ! تمھارے اور عدی کے درمیان کوئی بات ہوئی ہے کیا؟” انھوں نے واپس آ کر ان سے پوچھا تھا۔ انھوں نے صبح کی کہی اس کی بات دہرا دی۔ ابراهيم کو حد درجہ تاسف نے گھیر لیا تھا۔
“تم سوچو سعدیہ کہ ضبط کے کس مرحلے پہ پہنچ کر وہ تم سے شکوہ کرنے پہ مجبور ہوا ہو گا؟”
“مجھے کیا پتا تھا کہ وہ یوں اچانک گھر سے راہ فرار اختیار کرے گا۔؟ میں نے تو آج اپنے ہر رویے کا مداوا کرنے کا بھی سوچ لیا تھا۔ لیکن اس نے کچھ کہنے سننے کا موقع ہی نہیں دیا۔”وہ تاسف سے بس کف افسوس ہی ملتی رہ گئیں۔
“جو بچے اپنے جذبات و احساسات کا اظہار نہیں کرتے انھیں ہی سب سے زیادہ ہماری ضرورت ہوتی ہے سعدیہ۔!” وہ انھیں سمجھانے لگے۔
“ہادی کے جانے کے بعد اسے شدت سے تمھاری ضرورت تھی۔ کہ جو بھی تھا بہرحال وہ تم ہی سے قریب تھا۔”
“مجھے کیا۔۔۔” وہ ایک دم سے رو پڑیں۔
“میں اپنا ایک بیٹا کھو چکی ہوں ابراھیم، دوسرے کو کھونا نہیں چاہتی۔”
“اللہ اسے اپنے حفظ و امان میں رکھے سعدیہ!”
“آمین” انھوں نے زیر لب کہا تھا۔
وہ صرف پانچ ماہ کے لیے گیا ہے۔ اور چلو اچھا ہوا، تم بھی اتنے عرصے میں خود کو سنبھالو، ہادی کے جانے کا غم واقعی بہت بڑا ہے، لیکن سچ یہی ہے کہ دیر یا بدیر ایک دن سب نے جانا ہے۔ اس لیے خود کو سنبھالو۔” وہ انھیں سمجھا کر تسلی دے کر وضو کرنے کے لیے اٹھ کھڑے ہوئے، مغرب کی اذان کا وقت ہو چکا تھا۔
**۔۔۔**۔۔۔**۔۔۔**۔۔۔**۔۔**
کیا حرف ع جس لغت میں ہو وہ عربی کا ہو گا؟
اردو کا ہر وہ لفظ، جس میں حرفِ "عین" آتا ہو، وہ اصلاً عربی کا ہو گا! مرزا غالب اپنے...