(ستیہ پال آنند کے بارے میں)
میاں آزاد ہے وہ
ذات میں جس کی
میاں خوجی بھی بستا ہے
کہانی کار تھا وہ اور کہانی خوب لکھتا تھا
مگر آزاد نظموں کی لگن نے خوامخواہ
اس کے کہانی کار کو شاعر بنا ڈالا
الوہی شاعری کو بھی تماشا سا بنا ڈالا
میاں آزاد کے اندر میاں خوجی بسا ڈالا
اُسے یہ زعم تھا آزاد نظموں میں بھی
وہ قصے ہی لکھتا ہے
یہ زعم اب اتنا پختہ ہو گیا ہے کہ وہ اب
تحقیق کے مضمون بھی آزاد نظموں ہی میں لکھتا ہے
وہ شاعر ہے مگر غزلیں نہیں کہتا
غزل کی صنف سے ناراض ہے خاصا
غزل کے شعر اس کو زہر لگتے ہیں
اسے احمد فراز اس واسطے اچھا نہیں لگتا
کہ اس کے گرد ہر دَم خوبصورت عورتوں
کا جمگھٹا کیوں تھا
وہ اپنی شاعری کا آپ دیو آنند بنتا ہے
مگر آنند جس کا جا چکااور اب فقط اک دیو ہے
میرا جی و راشد سی شہرت کی تمنا کا
مگر اس کی حقیقت بھی
میاں آزاد کے اندر کے میاں خوجی جیسی ہے
میاں خوجی کہ جس نے اپنی نظموں کو
قرولی سا بنا ڈالا
سو اب جس سے بھڑکتا ہے
وہ اپنی فارسی زدگی پہ اتراتے ہوئے
نفرت میں اپنی ایسے اُس کو جھونک دیتاہے
فقط دھمکی نہیں دیتا
قرولی نظم کی
سچ مچ اُسے وہ بھونک دیتا ہے!
٭٭٭