باجی صاحبہ باجی صاحبہ۔۔۔“کام والی ماسی بھاگتی ہوٸی برآمدے میں آٸی جہاں سب موجود تھے۔
”کیا ہوا اتنی گھبراٸی ہوٸی کیوں ہو۔۔۔؟“انمول نے منہ بنا کر کہا۔
”باجی صاحبہ وہ ام کو گند والے ڈبے سے کچھ ملا اے آٶ تم کو دکھاتا ہے ام۔۔“ماسی نے پرجوش انداز میں کہا۔
”ایسا کیا ملا ہے تمھیں رضیہ۔۔؟“انمول نے بیڈ سے اٹھتے ہوۓ کہا۔
”ارے تم آٶ تو سہی آپ بہت پریشان ہے نا محب بابو کی وجہ سے آٶ دیکو تو سہی۔۔۔“
رضیہ اپنی پٹھانی بولی بولتے ہوۓ مسکراٸی۔لاچار انمول کو اس کے ساتھ آنا پڑا۔
لان کے بیچوں بیچ ڈسٹ بین الٹ پڑا تھا جس میں سے کسی چیز کے ذرات ملے تھے۔جو بکھرے پڑے تھے۔
”یہ تو کسی صندوق کے لگ رہے ہیں۔۔۔؟“انمول سوچتے ہوۓ بولی۔
اتنے میں ایوب صاحب بھی وہاں آگۓ۔
”آفتاب صاحب نے سنی برادرز سے بات کرنے کا سوچا ہے اس معاملے میں وہ ہی کچھ بتا سکتے ہیں۔۔۔۔“
”پاپا وہ کیا کریں گے بھلا۔۔۔؟“انمول کھڑی ہوگٸ۔
”وہ ان ذرات کا معاٸنہ کریں گے کہ اس پہ محب کی انگلیوں کے نشانات ہیں یا نہیں۔۔۔“ایوب صاحب نے کہا۔
انمول منہ بنا کر رہ گٸ اسے ان معاملات سے چڑ تھی۔
مگر وہ اپنے والد کو روک بھی تو نہیں سکتی تھی۔
☆☆☆☆
سالار تین بھاٸی تھے،سالار سفیل اور سنی انھوں نے نیا نیا دفتر کھولا تھا اور یہ سب اشتیاق احمد کے ناولز کی بدولت ہوا تھا کیوں کہ انھیں بھی جاسوسی کا شوق چڑھا تھا۔
ایک مہینہ ہونے کو آیا تھا کسی قسم کا کیس نہیں ملا تھا پھر بھی انھوں نے ہمت نہیں ہاری اور مسلسل بیٹھے رہے۔
”میرا خیال ہے دفتر کھولنے کا آٸیڈیا ہی بے کار تھا۔۔۔“سفیل بولا۔
”بے کار نہیں ہرگز نہیں۔۔۔۔“سنی نے اسے گھورا۔
”کوٸی کیس پلے نہیں پڑا بے کار ہی ہوا نا۔۔“سفیل نے پھر کہا۔
”تم بے کار ہوسکتے ہو مگر میرا آٸیڈیا نہیں۔۔۔“سنی بولا۔
سالار چپ چاپ بیٹھا اخبار پڑھ رہا تھا جب اچانک کوٸی کار ان کے دفتر کے سامنے آ رکی۔
”اللہ خیر لگتا ہے کوٸی کیس ملنے والا ہے۔۔“سنی کی آنکھوں میں چمک آگٸ۔سفیل کا منہ بن گیا۔
”کیا سنی برادرز کا دفتر یہی ہے۔۔۔؟“ایک درمیانے قد چھوٹی آنکھ،موٹا سا چشمہ پہنے اس شخص نے آتے ہی پوچھا۔
”جج۔۔۔جی یہی ہے۔۔۔“سنی کے منہ سے نکلا۔
”کیا آپ کیس آسانی سے حل کرلیتے ہیں۔۔؟“آنے والا کافی سمجھدار لگ رہا تھا۔
”جج۔۔۔جی اللہ کے فضل سے کرلیں گے۔۔۔۔“سنی ہکلایا۔
”کرلیں گے۔۔مطلب کہ ابھی کوٸی کیس پلے نہیں پڑا کیا یہی بات ہے۔۔۔؟“اس شخص نے ہنس کر پوچھا۔
”جج۔۔جی ہاں۔۔“سنی تیسری بار لڑکھڑایا جبھی سفیل نے اسے کہنی ماری۔
”اوہ کوٸی نہیں ایک مسٸلہ لے کر آیا ہوں امید ہے آپ حل کرلیں گے۔۔اور آپ کا تجربہ بھی ہوجاۓ گا۔۔۔“اس۔شخص نے ابھی تک اپنا نام اور تعارف نہیں کرایا تھا۔
”جی ان شاء اللہ کوشش ہوگی۔۔“سنی اب کی بار ٹھیک بولا تھا شاید یہ سفیل کی کہنی لگنے کے بعد ہوا تھا۔
”میرا نام آفتاب ہے اور مسٸلہ یہ ہے۔۔۔۔“
وہ آفتاب صاحب(جمیل کے والد) تھے جنھوں نے ان کے دفتر کا رخ کیا تھا۔
آفتاب صاحب نے ایک مڑا تڑا کاغذ نکالا جس پر ساری تفصیل لکھی ہوٸی تھی۔
کیسے ان کے بیٹے اور اس کے تینوں کو وہ نقشہ ملا پھر وہ کسی مہم پر گۓ سب کچھ لکھا ہوا تھا۔
سنی نے سب پڑھنے کے بعد بولا۔
”ہمیں دو دن کا وقت دیجیے پرسوں اسی وقت آٸیے گا۔۔“
”جی بہتر اور معاوضہ۔۔؟“آفتاب صاحب نے جاتے جاتے رک گۓ اور فیس کا پوچھا۔
”جی ابھی اس کی ضرورت نہیں جب کیس حل ہو جاۓ گا پھر بتا دیں گے۔۔“سالار نے جواب دیا تو آفتاب شکریہ کرتے ہوۓ واپس چلے گۓ۔
”یہ مجھے کچھ سمجھ کیوں نہیں آٸی۔۔؟“سنی سر کھجاتے ہوۓ بولا۔
”کیوں کہ تم کم عقل ہو اس سے اچھا تھا تو ہم دفتر کھولتے ہی نہ۔۔۔“سفیل نے اسے گھورا سنی منہ بنا کر رہ گیا سالار دوبارہ اخبار میں کھو گیا۔
☆☆☆☆
”بھاٸی ہم حویلی کس طرح جاٸیں گے جبکہ بیچ میں دریا آتا ہے اور اس کے کنارے تک پہنچنے کے لیے کشتی کی ضرورت ہوگی جو یہاں ملنا تقریباً ناممکن ہے۔۔۔“سجاد نے کہا۔
”ہم خود بناٸیں گے میں جانتا ہوں کیسے بناٸی جاتی ہے۔۔۔“ایمون مسکرایا۔چاروں حیرت سے اس کا منہ تکنے لگے تو وہ شرما کر بولا۔
”ایسے کیا دیکھ رہے ہیں۔۔۔“وہ لڑکیوں کی طرح منہ چھپا کر بولا تو چاروں ہنس پڑے۔
درخت جو زمین سے نکل چکے تھے طافانوں کی وجہ سے ان سے لکڑی نکالی گٸ۔
ایمون بنا رہا تھا اور وہ چاروں اس کی مدد کر رہے تھے۔دریا ابھی بہت دور تھا۔
پانچ گھنٹے مسلسل محنت اور لگن کے بعد کشتی بن ہی گٸ۔
وہ سب خوشیاں منا رہے رہے تھے مگر جمیل چپ چپ سا تھا اس کے ذہن میں ابھی تک وہی چہرہ گھوم رہا تھا اس کی چپ کو محب نے محسوس کرلیا۔
”کیا ہوا تم اتنے خاموش کیوں ہو۔۔۔؟؟؟“
”بھاٸی مجھے آپ سے ایک بات کرنی ہے۔۔۔“جمیل نے کہا۔
”ہاں ہاں کہو لیکن اجازت کی کیا بات ہے۔۔۔“محب مسکرا کر بولا۔
”یہ پانی دیکھ رہے ہیں آپ۔۔۔؟“جمیل نے پتھروں کے بیچ سے آتے پانی کی طرف اشارہ کرتے ہوۓ کہا۔
”ہاں ظاہر ہے دکھاٸی دے رہا ہے تو دیکھ ہی رہا ہوں نا میں۔۔۔“محب نا سمجھی کے عالم میں بولا۔
”وہ بھاٸی اس پانی میں نا مجھے ایک چہرہ دکھاٸی دیا تھا۔۔۔“جمیل نے کہا تو محب ہنس کر بولا۔
”کیا مذاق کر رہے ہو بھاٸی کس کا چہرہ۔۔۔؟“
”بھاٸی میں سچ کہہ رہا ہوں مجھے وہ چہرہ دکھاٸی دیا وہ مجھے گھور رہا تھا۔۔۔“
جمیل کے چہرے پر سنجیدگی دیکھ کر محب بھی سنجیدہ ہوگیا۔
”جمیل پہلی بات تو یہ کہ ہمارے علاوہ یہاں اور کوٸی نہیں اور دوسرا یہ کہ یہ پانی اتنا گہرا نہیں کہ اس کے اندر کوٸی جاسکے پھر وہ چہرہ کیسے دکھاٸی دیا تمھیں۔۔۔؟؟؟“محب نے جلدی جلدی کہا۔
”بھاٸی اس چہرے کا دھڑ نہیں تھا صرف سر ہی تھا اور چہرہ بھی انسانی نہیں تھا۔۔۔“جمیل نے کہا۔
”اس چہرے کا دھڑ نہیں تھا اور چہرہ بھی انسانی نہیں تھا یعنی کہ تم یہ کہنا چاہ رہے ہو کہ وہ کوٸی جن ون یا کوٸی اور مخلوق تھی۔۔۔؟“
محب کے پوچھنے پر جمیل نے اثبات میں سر ہلاتے ہوۓ کہا۔
”جی بالکل بھاٸی میں یہی کہنا چاہ رہا تھا۔۔۔“
”اچھا وہ جگہ دکھاٶ تم جہاں وہ چہرہ تھا۔۔“
محب نے کہا تو جمیل اسے پانی کی طرف لے جانے لگا۔
”یہ دیکھیں اس جگہ پر تھا۔۔“
جمیل نے انگلی کی طرف اشارہ کیا۔محب نے آنکھیں پھاڑ کر دیکھنا چاہا مگر اسے وہاں کچھ نظر نہیں آیا۔
”یہاں تو کوٸی بھی نہیں ہے جمیل۔۔۔“محب نے گردن اس کی طرف کرتے ہوۓ کہا۔
”بھاٸی میں سچ کہہ رہا ہوں یہاں پر کچھ تھا۔۔۔“جمیل کی سمجھ میں نہیں آرہا وہ چہرہ گیا کہاں۔
”میں یہ کب کہہ رہا ہوں تم جھوٹ بول رہے تھے ہوسکتا ہے تمھارا وہم ہو۔۔“
محب نے مسکراتے ہوۓ اس کے کندھے تھپتھاۓ اور دونو اپنے باقی ساتھیوں کی طرف چلے آۓ۔
وہ سب چلنے کے لیے تیار تھے۔
”تو چلیں ساتھیو۔۔۔؟“محب مسکراتے ہوۓ بولا۔
”ہاں لیکن ایک بات اور کہ ہم کچھ ہتھیار وغیرہ بھی لے چلتے ہیں کیا پتا کب ضرورت پڑے۔۔۔“ایمون بولا۔
”ہم چاروں کے پاس ایک ایک خنجر تو ہے مزید کی کیا ضرورت ہے۔۔۔؟“طارق بولا۔
”معلوم نہیں کن کن آفتوں سے واسطہ پڑے کچھ تو ہونا چاہیے نا ہمارے پاس۔۔۔“ایمون نے زور دیتے ہوۓ کہا۔
”چلو جیسے تمھاری مرضی لے چلو بھٸ۔۔۔“محب نےاجازت دیتے ہوۓ کہا۔
”میں جاٸزہ لے آتا ہوں کہ دریا کتنی دور ہے۔“ایمون اٹھ گیا۔
”ٹھیک ہے تم جاٶ۔۔“محب نے اسے حوصلہ دیتے ہوۓ کہا۔
وہ چلا گیا اور وہ چاروں اس کا ایک درخت کی ٹہنی جو زمین پر پڑی تھی اس پر بیٹھ کر ایمون کا انتظار کرنے لگے۔
☆☆☆☆
ڈاکٹر شہباز ملک پہلا پنجابی پی ایچ ڈی
ڈاکٹر شہباز ملک پنجابی زبان و ادب کی دنیا میں ایک مشہور و معروف نام ہیں۔ وہ پاکستان میں پنجابی...