ارحم اور زاہد ایک قصبے میں رہتے تھے۔ دونوں سگے بھائی تھے۔ وہ دونوں نہم کلاس کے طالب علم تھے۔ ان کی دوستی مثالی تھی۔ ان کا بچپن سہانا گزر رہا تھا۔ صبح اسکول جانا، اسکول سے واپسی پر مسجد جا کر قاری صاحب سے قرآن پاک پڑھنا، عصر کے بعد کھیلنا کودنا اور گھر کے کام کاج میں امی ابو کی مدد کرنا۔ یہ تھے ان کے یومیہ معمولات۔ وہ اپنی زندگی میں مگن تھے۔ ان کے والدین ان سے بے حد خوش تھے کیونکہ وہ ان کا کہا مانتے تھے۔ اس کے علاوہ ان کی ایک بڑی خوبی یہ تھی کہ وہ اپنے گھر آنے والے جانوروں اور پرندوں کا بھی خیال رکھتے تھے۔ پرندوں کو دانہ دنکا ڈالتے تھے جبکہ دیگر جانوروں کو بھی خوراک مہیا کرتے تھے۔ اگرچہ یہ جانور ان کے پالتو نہیں تھے لیکن پھر بھی وہ ان کی خبر گیری کو فرض جانتے تھے۔ جبکہ ان کا پالتو جانور تو ایک بلی تھی۔ بہت ہی خوبصورت بلی جس کا پیلا رنگ اور نیلی آنکھیں تھیں۔ وہ روزانہ بلی کو دودھ پلاتے تھے۔ یہ بلی کافی عرصہ سے ان کے گھر تھی۔ یہ بلی عام بلیوں سے کافی مختلف تھی۔ شاید کسی خاص نسل سے تعلق رکھتی تھی۔ اسے دیکھ کر لگتا ایسے تھا کہ یہ سدھائی ہوئی بلی ہے۔ کیوں کہ وہ کام ہی ایسے کرتی تھی کہ سب حیران رہ جاتے۔ کبھی ایسا ہوتا کہ بلی صاحبہ موٹرسائیکل پہ بیٹھی اگلی دونوں ٹانگیں ہینڈل پہ رکھے ہوئے ہے۔ کبھی کسی کی نقالی کر رہی ہے۔ کبھی گیند منہ میں پکڑے اسے ادھر ادھر اچھال کر کھیل رہی ہے۔ کبھی عجیب انداز میں میاؤں میاؤں کر رہی ہے۔ یوں یہ بلی ارحم اور زاہد کا کھلونا بنی ہوئی تھی۔ وہ اسے اپنا دوست مانتے تھے اور اس کا دوستوں کی طرح خیال رکھتے تھے۔
٭…٭…٭
وہ ایک خوب صورت شام تھی۔ ارحم اور زاہد دودھ کا پیالہ لیے بیٹھے بلی کا انتظار کر رہے تھے۔ بلی روزانہ وقت پہ آتی۔ دودھ پیتی اور اس کے بعد کافی دیر میاؤں، میاؤں کرتی رہتی، گویا ان کا شکریہ ادا کرتی۔ یہ سب دیکھ کر انہیں روحانی تسکین ہوتی۔ آج بھی وہ بلی کا انتظار کر رہے تھے مگر بلی نہ آئی حالانکہ وہ روزانہ وقت پہ ہی آ جایا کرتی تھی۔ جب کافی دیر ہو گئی اور بلی نہ آئی تو وہ اٹھ کر گھر کے کونے والے اپنے اسٹور روم میں جا پہنچے کیوں کہ وہ بلی وہیں رہتی تھی۔ مگر وہاں بھی بلی نہیں تھی۔ اب تو انہیں تشویش ہونے لگی۔
’’کیا خیال ہے؟ ایک نظر باہر دیکھ لیں، ہو سکتا ہے کہ بلی باہر مہمان خانے کے اردگرد ہو۔‘‘ ارحم نے کہا تو زاہد سر ہلا کر رہ گیا۔ وہ دونوں باہر آئے اور دائیں بائیں دیکھنے لگے:
’’کیا تلاش کر رہے ہو؟‘‘ انہوں نے مانوس سی آواز سنی۔ وہ مڑے تو دیکھا ان کا محلے دار اور کلاس فیلو زبیر کھڑا تھا۔
’’یار!! ہماری بلی کھو گئی ہے، اسے تلاش کر رہے ہیں۔‘‘ زاہد نے جواب دیا۔
’’اچھا وہی پیلی سی، نیلی آنکھوں والی۔‘‘ زبیر نے استہزائیہ انداز میں کہا تو دونوں چونک پڑے۔
’’تم نے اسے کہیں دیکھا ہے؟؟‘‘ زاہد نے پوچھا۔
’’ہاں دیکھا ہے، ناک میں دم کر رکھا تھا اس نے۔ ہمارے گھر آ کر ہماری بلی سے لڑتی تھی۔ میری امی بہت تنگ تھیں اس سے، اس لیے انھوں نے۔۔ ۔‘‘ زبیر کہتے کہتے رک گیا۔
’’اس لیے کیا؟؟؟‘‘
ارحم کی آنکھوں میں الجھن سی تیر گئی۔
’’اس لیے اسے پکڑ کر باہر پھینک آئے ہیں۔ خس کم جہاں پاک۔‘‘ زبیر نے ہاتھ جھاڑتے ہوئے کہا-
’’کیا!!!‘‘ وہ دونوں ایک ساتھ چلائے۔
’’اوہو کیا ہو گیا تمہیں؟ ایک بلی ہی تھی، کہیں رہ لے گی وہ۔‘‘ زبیر نے منہ بنایا-
’’تم لوگوں سے تو بعد میں نمٹ لیں گے، فی الحال یہ بتاؤ کہ اسے کہاں چھوڑا ہے آپ نے؟؟‘‘
ارحم نے غصے بھر لہجے میں پوچھا، وہ کوشش کر رہا تھا کہ لڑائی نہ ہو۔
’’بھائی غصہ نہیں، ہم اسے ڈھونڈ لیں گے۔‘‘ زاہد نے بھائی کا کندھا دبا کر سرگوشی کی تھی، پھر وہ زبیر سے بولا: ’’دوست، صرف اتنا بتا دیں آپ نے اسے کہاں چھوڑا ہے۔‘‘
’’ریلوے لائن کے ساتھ لگے درختوں کے ذخیرے میں۔‘‘ زبیر نے کہا اور چلتا بنا۔
’’آؤ بھائی چلیں۔‘‘ زاہد نے بھائی کا ہاتھ پکڑا۔ انہوں نے اپنی سائیکل نکالی اور روانہ ہو گئے۔ یہ ریلوے اسٹیشن ان کے گھر سے سات کلومیٹر دور تھا، ریلوے اسٹیشن بھی ویرانے میں ہی تھا، اس کے ساتھ درخت ہی درخت تھے اور درختوں کا یہ ذخیرہ کسی چھوٹے سے جنگل کا منظر پیش کر رہا تھا۔ جب وہ وہاں پہنچے تو شام ڈھل رہی تھی۔ زاہد اور ارحم اپنی سائیکل پر سوار تھے۔ سائیکل ٹیڑھے میڑھے راستوں پر دوڑی جا رہی تھی۔ کچھ دیر بعد وہ اسٹیشن کے ساتھ لگے درختوں کے ذخیرے میں اپنی بلی کو تلاش کر رہے تھے۔ اچانک انھیں میاؤں کی ہلکی سی آواز سنائی دی۔
’’اوہ‘‘ وہ چونکے۔ اور مزید آگے بڑھ گئے۔ آواز ایک بار پھر سنائی دی تھی۔ اب کی بار آواز زیادہ واضح تھی۔ وہ آواز کی سمت میں آگے بڑھنے لگے۔
’’وہ دیکھو، وہ رہی۔‘‘ ارحم نے پر جوش آواز میں کہا۔ زاہد بھی ادھر مڑا، سامنے ہی ان کی بلی موجود تھی، بلی بھاگی بھاگی آئی اور ان کے قدموں میں لوٹنے لگی، زاہد بیٹھ کر اسے چمکارنے لگا، اسی اثناء میں اچانک بلی اٹھی اور ایک طرف چل پڑی۔ وہ اسے پچکار کر اپنے پاس بلانے لگے مگر وہ تو آگے ہی بڑھی جا رہی تھی۔ مجبوراً وہ دونوں اس کے پیچھے لپکے۔ بلی کچھ دیر چلتی رہی۔ وہ درختوں کے بیچوں بیچ پہنچ گئے تھے۔ یہاں چاروں طرف گھنے درخت تھے، بلی ایک درخت کی جڑ کے ساتھ رک گئی تھی اور پنجوں سے گھاس پھونس ہٹا رہی تھی۔
’’کیا کر رہی ہے یہ؟‘‘ زاہد حیران تھا۔ وہ آگے بڑھ کر دیکھنے لگے۔ بلی نے گھاس پھونس ہٹا لیا تھا۔ اگلا لمحہ حیران کن تھا۔ گھاس کے ہٹتے ہی نیچے کھدی ہوئی نرم زمین نظر آ رہی تھی۔ جیسے کسی نے گڑھا کھودا ہو اور اس کے بعد اوپر نرم مٹی ڈال کر اسے برابر کیا ہو۔ بلی میاؤں میاؤں کرتے ہوئے وہاں پنجے مار رہی تھی۔ ’’یہ کیا ماجرا ہے؟‘‘ ارحم کی آواز لہرائی۔
’’دیکھنا پڑے گا۔‘‘ زاہد اکڑوں بیٹھ کر بولا اور پاس پڑی لکڑی سے نرم مٹی ہٹانے لگا۔ تھوڑی دیر بعد ہی لکڑی ایک سخت چیز سے ٹکرائی۔ ارحم اور زاہد نے آگے جھک کر دیکھا اور پھر حیرت سے ان کا منہ کھلا کا کھلا رہ گیا۔ سامنے لوہے ایک چھوٹا سا صندوقچہ تھا جو گڑھے میں دبا ہوا تھا اور اس پہ لگا تالا بھی صاف نظر آ رہا تھا۔
’’اف میرے خدایا! یہ کیا ہے؟؟‘‘ ارحم کی کانپتی آواز سنائی دی۔
’’شاید قدرت ہمیں یہاں کسی کی مدد کے لیے لائی ہے۔ اب میری بات سنو کہ ہم نے کیا کرنا ہے۔‘‘
زاہد نے کہا اور پھر وہ ارحم کو سمجھانے لگا۔ اس کی باتیں سن کر ارحم کا چہرہ کھل اٹھا۔ انہوں نے صندوقچہ اٹھا لیا اور گڑھا پہلے کی طرح پر کر دیا۔ اب وہ بلی کو ساتھ لیے واپس گھر جا رہے تھے۔
٭…٭…٭
پولیس اسٹیشن پر ارحم، زاہد اپنے ابو کے ہمراہ موجود تھے۔ میز پر صندوقچہ رکھا ہوا تھا، جس میں زیورات اور نقدی کا ڈھیر پڑا تھا۔ یہ سونا اس علاقے کے سیٹھ ارقم خان کا تھا جو ایک روز قبل ہی چوری ہوا تھا اور اس کی رپورٹ درج کی جا چکی تھی۔ سیٹھ ارقم خان بھی اسٹیشن پہنچ گئے تھے اور علامات سے اپنا مسروقہ مال شناخت کر چکے تھے۔ ہوا یوں تھا کہ جس وقت چور صندوقچہ زمین میں دبا رہا تھا عین اسی وقت بلی نے اسے دیکھ لیا تھا۔ چونکہ یہ ایک خاص بلی تھی، اس لیے وہ اپنے مالکان یعنی زاہد اور ارحم کو بھی وہاں لے گئی۔ اس طرح سیٹھ ارقم خان کا مال بازیاب ہو گیا۔ اب ایک کام رہ گیا تھا اور وہ تھا مجرموں کو پکڑنا۔ پولیس انسپکٹر نعیم بخاری صاحب نے اپنے دو سپاہی درختوں والی جگہ پر تعینات کر دیئے تھے کہ جیسے ہی مجرم اپنی چھپائی ہوئی چیز نکالنے آئیں گے انہیں دھر لیا جائے گا۔ اچانک انھیں موبائل پر اشارہ ملا۔
’’آئیے اس معاملے کو منطقی انجام تک پہنچائیں۔‘‘ انسپکٹر صاحب مسکراتے ہوئے بولے اور وہ سب گاڑیوں پہ بیٹھ کر ریلوے اسٹیشن کی طرف روانہ ہو گئے۔ تھوڑی دیر بعد وہ مجرموں کے سامنے تھے۔ یہ چار لوگ تھے جن کے منہ لٹکے ہوئے تھے، ان کے پاس سوائے اعتراف کے اور کوئی راستہ نہ تھا۔ سیٹھ ارقم خان بہت خوش تھے۔ وہ ایک بہت بڑے نقصان سے بچ گئے تھے۔ انھوں نے ارحم اور زاہد کا شکریہ ادا کیا اور انہیں خصوصی تحائف سے نوازا۔ جس وقت پولیس مجرموں کو ہتھکڑیاں لگا رہی تھی، اس وقت “جاسوس بلی بھی ارحم کے ساتھ کھڑی تھی۔ وہ تیزی سے آگے بڑھی اور صندوقچہ چھپانے والے شخص کے پاس جا کر زور زور سے میاؤں میاؤں کرنے لگی۔ جیسے اس کی حالت پہ افسوس کر رہی ہو۔ اس کی یہ حرکت دیکھ کر سبھی کھلکھلا کر ہنس پڑے۔
٭٭٭