فیصل عظیم(امریکہ)
بھیگی آنکھیں لئے
مُٹھیاں بھینچتے
ہونٹ دانتوں تلے لے کے بیٹھے ہوئے
کچھ ٹہلتے ہوئے
اور سر دونوں ہاتھوں سے پکڑے ہوئے
بے پنہ مضطرب
اَن گنت رشتے داروں کی اک بھِیڑ ہے
آنکھیں سوجی ہوئیٗ بال بکھرے ہوئے
دل جلےٗ سر پھٹےٗ
چیتھڑوں سے بدن کو چھپاتے ہوئےٗ
کچھ تو زخمی بدنٗ
اور نظریں سبھی کی ایمرجنسی کی راہداری کے آخر میں اُٹھتی ہوئی
آپریشن کے کمرے سے
ہر آتے جاتے کے چہرے کوٗ آنکھوں کوپڑھتی ہوئی
تھک گئی ہیں
مگر کوئی جاتا نہیں
بھِیڑ ہےٗ اور بڑھتی ہوئی بھیڑ ہے
ہر معالج کے ماتھے کی بڑھتی شکنٗ
سرخ آنکھوں کو خونناب کرتیٗ
تھکن اوڑھےٗ
گہری ہوئی جاتی ہے
آتے جاتے ہوئے سارے جرّاح
دستانے پہنے ہوئے
خون کے چھینٹے سب سے چھپاتے ہوئے
آتے جاتے ہوئے
ایک جھوٹی تسلّی سی دے جاتے ہیں
بھِیڑ بڑھتی ہوئی
اور بڑھتی ہوئیٗ
اتنے برسوں سے وہ سانس روکے ہوئےٗ
کتنی صدیوں کو خود میں سمیٹے ہوئے
نت نئے کچھ سوالوں میں ڈھل جاتی ہے
سوچتے سوچتے جاں نکل جاتی ہے۔۔۔