{جاڑا}
دسمبر اور جنوری کی درمیانی شب تھی۔ جاڑے نے پوری شدّت سے ماحول کو اپنے قبضے میں لے رکھا تھا۔ پُرانی وضع کا ایک کمرہ جس کی شکستہ دیواروں میں پڑی ہوئی دراڑوں سے اس کی خستہ حالی ہویدا تھی ۔ کمرے کے اندر اور باہر کے ماحول میںکُچھ خاص فرق نہیں تھا۔ کھڑکیاںاور دروازے قریباً نہ ہونے کے مترادف تھے۔ اگرچہ ضرورت کی ہر چیزموجود تھی لیکن اس قدر پُرانی ہو چُکی تھی کہ نا قابلِ استعمال تھی۔
پُرانی وضع کے ایک پلنگ پر احمد نامی ایک بوڑھا شخص لیٹا ہوا تھا۔ بیماری یا شاید ٹھنڈ کے باعث اس کے چہرے کا رنگ زرد ہو چکا تھا۔ اس کے جسم پر جگہ جگہ سُرخ اور سیاہ رنگ کے دَھبّے تھے۔کمرے کے عین سامنے ایک عمر رسیدہ درخت بھی موجود تھا۔ احمد کی نظریں اکثر اسی درخت پر جمی رہتیں ۔ آتش دان میں ، راکھ میں چھُپی آخری چنگاری بھی دم توڑ چُکی تھی۔ بوڑھے احمد نے ایک بار باہر کے ماحو ل کا جائزہ لیا پھرخود سے باتیں کرنے لگا۔۔
’’لگتا ہے یہ جاڑا تو میرے جسم کے ساتھ میری روح کو بھی منجمد کر دے گا۔ چار دانگ دھُند کا راج ہے۔ سرگریباں درختوں کی ننگی ٹہنیاںپوری طرح بھیگ چُکی ہیں۔ البتہ چند بوسیدہ پتوں نے ابھی تک درختوں کا بھرم رکھا ہوا۔ لیکن یہ کس قدر سو گوار ہیں ۔۔۔شاید۔۔ جاڑے نے انہیں بھی سوگوار کر دیا ہے۔‘‘
’’اُف یہ پالا تو چچڑی کی طرح میرے جسم سے چپک گیا ہے۔اور یہ تین برس پُرانا لان کا چتیلا کُرتا۔۔۔ گرمیوں میں یہ بھی موٹا لگتا تھا۔ یہ ٹھنڈ اس کا کہاں پاس رکھے گی۔ اور یہ لحاف۔ یہ بھی تو کتنا بوسیدہ ہو چُکا ہے۔ پر میں اسے پھینک نہیں سکتا۔ یہ میرے قابو میں نہیں آ رہا۔۔۔ نہیں یہ بھاری نہیں ہے۔ یہ تو اس قدر ہلکا ہے کہ سورج کی روشنی چھن کر گُزر جاتی ہے۔ جیسے ململ کا کپڑا۔ لیکن میرے یخ بستہ ضعیف ہاتھ اسے پکڑنے کی جسارت نہیں کر سکتے۔مجھ سے پہلے یہ میرے والد کی ملکیت تھا۔ ۔۔
آتش دان میں آگ بُجھ چُکی ہے۔ پاؤں سُن ہو رہے ہیں،ان میںہلنے کا یارا نہیں۔ آگ کون جلائے۔ حُسین ہوتاتو آگ جلا دیتا۔شاید سردی کی شدّت میں کُچھ کمی آ جاتی۔ میں آزار میں مبتلا ہو گیا اور وہ آزُردہ خاطر ہو کر مجھے یہاں چھوڑ گیا۔ جیسے میری سرتابی نے مجھے مجبور کر دیا تھا اور میں اپنے شفیق باپ کو اس اُجاڑ گھر میں آباد کر گیا تھا۔
اس روز حسین بھی کتنا مجبور تھا جب اس کی بیوی نے اعلان کیا کہ ہمارے گھر کی دیواریں اس بوجھ کے لیے تنگ ہو گئی ہیں۔ میں کسی طور گھر چھوڑنے پر راضی نہ تھا۔ لیکن جب حسین کی بے بس ملتجی نگاہیں دیکھیں تو ان کی نمی نے مجھے ہتھیار ڈالنے پر مجبور کر دیا۔ اس دن وہ مجھے یہاں چھوڑ گیا۔ اور وہ ایسا کیوں نہ کرتا۔ میں نے بھی تو یہی کیا تھا۔ میں اپنے شفیق باپ کو تنہائی کے اس جزیرے پر کرب میں مبتلا کر کے اپنے مفادات کے تعاقب میں نکل گیا۔
مجھے یاد ہے جب میں نے انہیں فرقت کی یہ وعید سُنائی تھی۔ میں خرمن جمع کرنے میں محو رہا اور وہ یزدانی، وصل کے انتظار سے تنہائی کے کرب کو مات دیتا رہا۔ وہ وقت کو طے کر رہا تھا اور میں وقت کے پیچھے بھاگ رہا تھا۔ یہ وقت تو تھم گیا۔۔۔۔ آج میں وقت طے کر رہا ہوں۔۔۔‘‘
’’ارے۔۔۔ یہ کھڑکی میں سایہ کیسا ہے؟۔۔۔ یہ تو ننھا پرندہ ہے۔ اے ننھے پرندے۔۔۔اے میرے تنہائی کے رفیق۔۔ تم ہی تو میرے صاحبِ حال ہو‘‘
’’لیکن یہ کیا۔۔ تم اس قدر خاموش کیوں ہو؟ کیا جاڑے نے تمہاری چہچہاہٹ دبا دی؟۔۔ کیا تم بھی انتظار کی اسی صلیب پر لٹک رہے ہو جس پر میں لٹک رہا ہوں ، جس پر میرا باپ لٹک رہا تھا۔اے ننھے ساتھی۔۔ دھُند کی شدّت میں کس قدر اضافہ ہو رہا ہے۔۔ بھیگے پتوں سے گرنے والے پانی کے قطروں نے زمین کو گیلا کر دیا ہے۔ سنُو! یہاں میرے پاس آ جاؤ۔۔ میرے دل میں حول اُٹھ رہا ہے کہیں یہ جاڑا۔۔یہ گمنام قاتِل تمہارے وجود کو بھی منجمد نہ کر دے۔ اس ٹھنڈ نے میرے بوسیدہ لحاف سے گزر کر میرے وجود کو جما دیا ہے۔ میرے قواء مضمحل ہو چُکے ہیں۔ میری رگوں میں دوڑنے والا خون جم گیا ہے۔ دھڑکن کی رفتار بہت سست ہو رہی ہے۔ اے ننھے ساتھی تم بھی اس لحاف میں خود کو چھُپا لو ہو سکتا ہے یہ تمہاری متاعِ قلیل (زندگی) کو بچا لے۔ آؤ اسے شرمسارہونے سے بچا لو۔ شرمساری کا بوجھ ہلکان کر دیتا ہے لیکن انسان کس قدر بے خبر ہے۔ جوانی میں غفلت اور عجلت کو ترجیح دیتا ہے پھر بڑھاپے میں شرمساری کے بوجھ تلے دبتا جاتا ہے۔ بڑھاپا انسان کو کس قدر کمزور کر دیتا ہے۔ پھر عہدِ رفتہ کی بغاوتیں ندامت کا روپ دھار لیتی ہیں۔‘‘
’’اُف۔۔ میرا دماغ سُن ہو رہا ہے۔کہیں یہ جاڑا میری یادداشت کو منجمد نہ کر دے۔ جیسے اُس وقت اِس نے میرے شفیق باپ اور میرے احساسات کو منجمد کر دیا تھا۔ ‘‘
’’یہ کھڑکیوں کے کھٹکنے کی آواز کیسی۔۔ شاید ٹھنڈی ہوا چل رہی ہے۔۔ اے ننھے پرندے تم کہاں ہو؟ مجھے اب کُچھ نظر نہیں آ رہا۔ شاید رات ہو چُکی ہے۔‘‘
’’اُف یہ سرد ہوا۔۔۔ کیا تُم سُن رہے ہو؟ خاموش کیوں ہو؟ کیا اس سرسراہٹ نے تمہارے دِل میں خوف و حزن پیدا کر دیا ہے؟ تمہارا یہ خوف بجا ہے۔ ایسے قہر آمیز جاڑے سے ہر ذی جان خوف زدہ ہو جاتا ہے۔ لیکن تم اس خوف کو خود پر مسلط مت ہونے دینا۔ میرے رفیق یہ خوف فانی ہے۔ خود کو اس اندیشے سے دو چار مت کرو۔ یہ خوف ہماری روحوں کو دبوچنے سے قاصر ہے۔ اپنے دِل کو اندیشوں کا مسکن مت بناؤ ورنہ تمہارا ایمان کمزور ہو جائے گا‘‘
’’یہ شور کیسا؟ کیا میں نے بھی خود کو اس انجانے خوف میں مبتلا کر لیا ہے؟ نہیں نہیں۔۔ یہ تو بادل کے گرجنے کی آواز ہے ،غالباًدھُند نے زمین کے سینے سے اپنے پنجے نکال لیے ہیں‘‘
’’یہ چھَم چھَم کی آواز ۔۔ بارش ہو رہی ہے۔ تم کھڑکی میں بیٹھے رہو گے تو بھیگ جاؤ گے۔ اندر آجاؤ۔ دیکھو میرے انجام کی چادرنے مجھے ڈھانپ لیا ہے تم بھی اس کے نیچے چھُپ جاؤ میرے ننھے ساتھی‘‘
’’آہ۔۔ یہ سرکا درد۔۔ حسین کہاں ہو تم؟ کیا تم بھی اُسی دشتِ وارفتگی میں کھو گئے ہو؟جس میں میَں نے اپنی ذات کو گُم کر لیا تھا۔ ایسی ہی ایک طوفانی رات تھی۔ میرا شفیق باپ میری رفاقت کے لیے تڑپ رہا تھا۔ غفلت نے مجھے بہرہ کر دیا تھا اُس کی کرب سے بھری پُکار میری سماعت تک رسائی حاصل نہ کر سکی۔ اُسے فرقت تڑپاتی رہی اور میری آنکھوں پر خود غرضی کی پٹی بندھی تھی میں اُن کی تڑپ دیکھنے سے قاصر تھا‘‘
’’آہ۔۔ اس تند ہوا کے نوکیلے ناخن۔۔۔ میرے بوڑھے وجودسے گزر کر میری روح کو کرید رہے ہیں‘‘
’’حسین۔۔ کہاں ہو میرے بچّے؟۔۔ میرے لختِ جگر۔۔ دیکھو میں کس اذیت میں مبتلا ہوں۔ ابتلا کے شکنجے نے مجھے جکڑا ہوا ہے‘‘
’’میں موسم کی سختی سے نہیں اپنے خیالات اور عہدِ رفتہ کی یاد سے نجات چاہتا ہوں، میں سونا چاہتا ہوں،جاوداں نیند سونا چاہتا ہوں‘‘
’’الوداع۔۔ الوداع میرے بچّے۔۔‘‘
’’ابّا جان۔۔‘‘
’’ابّا جان اُٹھیے۔۔ یہ دیکھئے مجھے کیا ملا۔۔ ‘‘
ایک سات سالہ بچّہ بالکنی میں سوئے ہوئے نوجوان کو جگا رہا تھا۔ نوجوان کی آنکھ کھُلی۔ اپنے لختِ جگر کو اپنے سامنے دیکھ کر بڑبڑا کر اٹھ بیٹھا۔ ایک طویل سرد رات کے بعد زرد دھوپ نے اُسے تحیّر میں مبتلا کر دیا۔ اُس نے فوراً اپنے بچّے کو سینے سے لگایا۔
’’ حسین۔۔ میرا بیٹا۔۔ میری آنکھوں سے کبھی دور مت ہونا‘‘
اچانک اُسے بارش کا خیال آیا۔
’’بارش رُک گئی؟‘‘
حُسین نے حیرت سے جواب دیا۔۔
’’پر ابّا جان بارش کب ہوئی؟ دیکھیے کتنی اچھی دھوپ نکلی ہے‘‘
’’تو یہ محض خواب تھا؟ میں ابھی زندہ ہوں؟‘‘
یہ سوچ کر وہ اچانک اُٹھ کر کھڑا ہو گیا۔
’’حُسین۔۔ میں آپ کے داداجان کو لینے جا رہا ہوں‘‘
حُسین نے خوش ہو کر کہا۔۔
’’سچ ابّا جان؟‘‘
’’ہاں بیٹا اب وہ ہمارے ساتھ رہیں گے‘‘
احمد جلدی سے باہر کی طرف بڑھا۔ حُسین نے پیچھے سے آواز دی۔
’’پر ابّا جان۔۔ یہ تو دیکھتے جائیں۔۔ یہ مجھے آپ کی کھڑکی سے ملا۔ ‘‘
احمد نے مُڑ کر دیکھا۔ حُسین کے ہاتھ میں ایک بے جان ننھا پرندہ تھا۔
٭٭٭