(Last Updated On: )
جی کے چسٹر ٹن
مترجم: سلیم آغا قزلباش
اس دنیا میں ایسی چیزیں موجود ہیں جن کے متعلق میں سنجیدگی سے کہہ سکتا ہوں کہ میں ان سے محبت کرتا ہوں، لیکن میں انھیں پسند نہیں کرتا۔ یہ بات محض لفاظی نہیں بلکہ نفسیاتی نقطہ نظر سے درست ہے۔ بلیّاں وہ اولین ہستیاں ہیں جو میرے نزدیک اس اصول کے سلسلے میں پیش کی جا سکتی ہیں۔ بلیّاں اتنی حسین ہوتی ہیں کہ کسی دوسرے سیارے کی مخلوق ان کے عشق میں مبتلا ہو جائے اور ساتھ ہی اتنی ناقابلِ فہم ہیں کہ وہ شاید تہ تیغ کر ڈالے۔ میرے دوست احباب میں سے کچھ بلیّوں کے بارے میں ایک انتہائی بلند رویہ اپنائے ہوئے ہیں۔ میرا خیال ہے کہ کچھ مسٹر ٹٹّر ٹون کی طرح بلی کو اس کی اخلاقی آزادہ روی کی بنیا پر (اور اس وجہ سے کہ وہ اچھا سلوک نہ کرنے والوں کے جسموں سے اپنا جسم رگڑنے پر آمادہ رہتی ہے۔) پسند کرتے ہیں۔ دیگر حضرات مسٹر بیلاک کی طرح بلّی کو ظالم، پر اسرار اور جادوگرنیوں کی سہیلی قرار دیتے ہیں۔ وہ ایک ایسی ہستی ہے جو زہریلی غذا کے سوا ہر شے نگل جاتی ہے۔ گویا اس میں عیسائیت کی سادگی اور عجز کا قطعی فقدان ہوتا ہے۔ جہاں تک میری ذات کا تعلق ہے تو میں ہر قسم کے احساس سے عاری ہوں۔ میں بلیوں کی تعریف کرتا ہوں جیسے کہ میں کیٹ کل کی ستائش کرتا ہوں وہ ننھی منی نرم ملائم روئیں دار چیزیں جو درختوں سے لٹکی ہوتی ہیں، جو بیک وقت خوبصورت بھی ہوتی ہیں۔ فر والی بھی اور دونوں اللّٰہ تعالیٰ کی عظمت کا اعلان بھی کرتی ہیں اور تمام ذی روح چیزوں میں موجود یہ تجریدی الفت سچ مچ محبت سے موسوم کی جا سکتی ہے۔ اس لیے کہ یہ محض انس والی مناسبت سے ایک بر تر حساس ہے۔ یہ تو ایک طرح کی رویت ہے۔ اس میں یہ مجاہدانہ بلکہ عارفانہ صفت ہے کہ یہ بدلے میں کسی چیز کا مطالبہ نہیں کرتی۔ میں گلی کوچوں کی ساری بلیوں سے اسی طرح محبت رکھتا ہوں جس طرح ایسی سی کے سینٹ فرانسس جنگل کے تمام پرندوں یا سمندروں کی تمام مچھلیوں سے محبت کرتا تھا بلا شبہ جملہ پرندوں اور مچھلیوں سے تو نہیں (مگر پھر یہ بھی سوچئے کہ میں کوئی عارفِ کامل تو ہوں نہیں) لیکن سینٹ فرانسس نے کسی پرندے کو اس طور لگام دے کر اور اس کی پیٹھ پر سواری کرنے کی خواہش کا کبھی اظہار نہیں کیا تھا جیسے کوئی شخص گھوڑے پر کاٹھی ڈال کر اس پر سواری کرتا ہے۔ اس نے اس بات کی خواہش نہیں کی تھی کہ مچھلی کی گردن میں پٹہ ڈال دے جس پر فرانسس کا نام نامی اور پتہ ASSISI رقم ہوا ہو، جیسا کہ کتوں کے سلسلے میں ہوتا ہے۔ اس نے اس کی تمنا نہیں کی تھی کہ وہ مچھلیاں اس سے خود کو منسوب کر لیں یا وہ خود ان سے منسوب ہو جائے۔ در حقیقت یہ ایک انتہائی بے ڈھب تجربہ ہوتا اگر اتنی ڈھیر ساری مچھلیوں سے وہ منسوب ہو جاتا لیکن دوسری طرف آدمی اپنے کتے سے واقعی منسوب ہوتا ہے۔ بالکل اس برابری کی سطح پر جس کے تحت کتا اس سے وابستہ ہوتا ہے۔ فرمانبرداری اور ذمہ داری کے عہد و پیمان کتوں اور آدمیوں کے مقابلے میں بدل تو جاتے ہیں لیکن وہ پیمان ہی رہتے ہیں۔ بالفاظِ دیگر ایک شخص فقط ایک کتے سے اس طور محبت نہیں کرتا جیسے (ایک روحانی لمحۂ خود فراموشی میں) کسی چڑیا سے جو اس کی کھڑکی کی چوکھٹ پر بیٹھ کر چہچہاتی ہے یا کسی خرگوش سے جو زقندیں بھرتا ہوا اس کا راستہ کاٹ جاتا ہے۔ آدمی کتے کو چاہتا ہے اور یہ خاصی سنجیدہ بات ہے۔
میرے نزدیک بد قسمتی سے (میں صرف ذاتی پسند کا ذکر کر رہا ہوں) بلی ایک جنگلی جانور ہے۔ بلی فطرت کی تجسیمی صورت ہے۔ فطرت کی مانند یہ اتنی پراسرار ہے کہ اس کی سندرتا میں بھی انسان کو سکھ چین نصیب نہیں ہے۔ لیکن فطرت ہی کی طرح یہ اتنی دلکش ہے کہ کوئی اس بات کو مان نہیں سکتا کہ یہ واقعتاً سفاک بھی ہے۔ ممکن ہے کہ یہ ایسی نہ ہو، اور اس معاملے میں بھی یہ فطرت سے مشابہ ہے۔
اگلے وقتوں کے لوگ بلیوں کی ویسی ہی پرستش کرتے تھے جیسے کہ مگر مچھوں کی۔ اور وہ عظیم المرتبت بوڑھے عارف اس بات سے با خبر تھے کہ وہ کن کی پوجا کر رہے تھے۔ وہ لمحہ جس میں کوئی سچ مچ بلیوں سے محبت کرتا ہے اس لمحے کی مانند ہے جس میں کوئی (اعتدال اور شعور کی حد میں رہتے ہوئے) مگرمچھوں سے پریم کرتا ہے۔ یہ ایک ایسا معرفت کا لمحہ ہے جب انسان اپنے تئیں محسوس کرتا ہے، نہیں تمام اشیاء کی ایکتا میں جذب ہو کر نہیں (کہ یہ ایک مکروہ گمان ہے) بلکہ تمام اشیا کے باہمی امتیازات سے لطف اندوز ہوتے ہوئے جس لمحے کوئی فی الواقع یہ جان جاتا ہے کہ وہ آدمی ہے تو اس بات میں ایک طرح کا طلسماتی لطف محسوس کرے گا کہ مگرمچھ مگرمچھ ہی ہوتا ہے وہ ان چیزوں پر زیادہ اترائے گا جو مگرمچھوں کی نسبت زیادہ نمایاں طور پر خوبصورت ہے۔ جیسے پھول، پرندے اور خاص طور پربلیاں۔ جو باقی ان دو کے مقابلے میں زیادہ حسین ہوتی ہیں۔ تاہم اس کا مطلب یہ ہر گز نہیں کہ وہ تمام پھولوں کو توڑنے اور سارے پرندوں کو پنجرے میں بند کرنے یا تمام بلیوں کو حاصل کرنے کی خواہش بھی کرے گا۔
ایسا کوئی نہیں ہے جس کا جمہوریت اور حقوقِ انسانی پر ایمان ہو اور جو اس بات کو تسلیم کرے کہ آدمی اور آدمی کا باہمی فرق، آدمی اورچوپائے کے مابہ الامتیاز سے مشابہ ہے، مگر ایسی قیاسانہ مماثلت کے دائرۂ کار میں بہر حال ایسے لوگ بھی شامل ہیں جنھیں میں اس ضمن میں بلیوں کا ہمزاد محسوس کرتا ہوں۔ مطلب یہ کہ انھیں چاہے بغیر میں ان سے محبت کر سکتا ہوں۔ میں متعدد عجیب و غریب اور اجنبی معاشروں بالخصوص جاپانیوں کے سلسلے میں یہ بات محسوس کرتا ہوں۔ قدیم جاپانیوں کی نفیس نقشہ نویسی (جس کو اب ہم نہیں دیکھ پائیں گے کیونکہ جاپان ترقی اور استعماریت کی طرف قدم بڑھا چکا ہے) میں ایک ایسا وصف تھا جو بے اندازہ پر کشش اور غیر مرئی نوعیت کا تھا۔ جاپانیوں کی تصاویر فی الاصل ایسی تھیں کہ محسوس ہوتا تھا گویا خود بلیوں نے انھیں تخلیق کیا ہے۔ وہ پروں ایسی ملائیمت اور بے ساختہ قسم کی چست خراشوں سے بھری پری دکھائی دیتی تھیں اگر کوئی شخص کسی ایسی گیلری میں ادھر ادھر گھومے جو خوش قسمتی سے اپنے اندر چاول سے بنے کاغذ پر (جو کہ مشرق کے دور دراز علاقوں سے آتا ہے) ہلکے آبی رنگ سے بنے خاکوں کے عمدہ نوادرات رکھتی ہو تو وہ ان میں لاتعداد ایسے اجزا کا مشاہدہ کرے گا جنھیں خیالی دنیا میں رہنے والا شخص بلیوں جیسا شمار کرتا ہے۔ مثال کے طور پر درختوں کی ان پھُننگوں سے ایک انوکھا لطف کشید کرنا جن تک یقیناً کوئی مصور نہیں، صرف بلیاں ہی پہنچ سکتی ہیں۔ جہاں چودھویں کے چاند کا بھتنے ایسا پیار اس قدر نمایاں اور روشن ہوتا ہے کہ لگتا ہے جیسے چینیوں کی لالٹین ان پتلی شاخوں سے لٹکی ہوئی ہو۔ وہ چاند اس قدر بڑا اور منور دکھائی دیتا ہے کہ کوئی بھی یہ تصور کر سکتا ہے ایک سو بلیاں اس کے نیچے کھڑی رو رہی ہیں۔ علاوہ ازیں وہاں پرندوں اور مچھلیوں کے ڈھانچوں کو تفصیل سے پیش کیا جاتا ہے جو ایسے موضوعات ہیں جن میں بلیاں خاصی دلچسپی رکھتی ہیں۔ مزید یہ کہ وہاں جملہ مشرقی دیوتاؤں اور آدمیوں کی بلی ایسی ترچھی آنکھ ہوتی ہے۔ لیکن یہ مشابہت کو ضرورت سے زیادہ نشان زد کرنے کی بات۔ ایسی صورت میں تو ہم بہت جلد ایک نئے نسلی نظریے کو اپنا لیں گے۔ (جس کا آغاز کچھ یوں ہو گا) ’’کیا تمام جاپانی لوگ بلیاں ہیں؟‘‘ اور ہر چند کہ میں اپنے اس نظریہ پر ایمان نہیں لاؤں گا۔، تاہم دوسرا کوئی بھی شخص اس پر ایمان لا سکتا ہے۔ مجھ سے خط و کتابت کرنے والے معظم اور قابلِ تکریم حضرات میں ایسے لوگ شامل ہیں جو کسی بھی چیز پر ایمان لا سکتے ہیں۔ یہاں میرے لیے فقط یہ کہہ دینا کہ محدود حوالے سے جاپانی لوگ مجھے بلیوں ہی کی طرح متاثر کرتے ہیں۔ میرا کہنے کا مطلب ہے کہ میں ان سے محبت کرتا ہوں۔ میں ان کی قدیم وضع کی ملکی شاعری کو، ان کی سیدھی سادی تہذیب کی جبلّت کو، ان کے بے مثال فن کا کوئی نعم البدل نہیں ہے اور ان کی انسان اور فطرت کے ضمن میں ان تھک دوڑ دھوپ پر مبنی مصروفیت کو پسند کرتا ہوں۔ اگر میں واقعی ایک صوفی ہوتا جو سچ مچ ایک پہاڑی پر سے ان پر نگاہ ڈال رہا تھا۔ مجھے کامل یقین ہے کہ میں ان سے توانا پروں والے، ان تھک پرندوں یا تیزی سے اپنی نسل کو بڑھانے والے زرخیز صفت مچھلیوں کے مقابلے میں زیادہ پیار کرتا۔ لیکن جہاں تک انھیں پسند کرنے کا معاملہ ہے جیسے کوئی ایک کتے کو چاہے۔۔ تو وہ ایک بالکل دوسرا مسئلہ ہے۔ اس کا مطلب تو یہ ہو گا کہ میرا ان پر اعتماد بھی ہے۔ (حالانکہ نہیں ہے)
انگریزی اور اسکاچ کی چار بَیتی رزمیہ نظموں میں پر یوں کا اسی طریقے سے اقرار کیا گیا ہے جس طرح کہ میں جاپانیوں اور بلیوں کا اقرار کرنے کی طرف مائل ہوں۔ انھیں بطور خاص شر نہیں کہا گیا ہے۔ ان سے تو اس بنا پر لطف اندوز ہوا گیا ہے کہ وہ سحر انگیز اور حیرت ناک ہیں۔ لیکن ان پر بطور خیر اعتماد نہیں کیا گیا ہے۔ آپ ان کے بارے میں غلط سلط نہیں کہہ سکتے۔ نہ انھیں غلط قسم کے تحائف پیش کرتے ہیں اور اس بارے میں تو پر تجسس خاموشی مسلط ہے کہ اگر آپ ایسا کر گزرتے تو آپ کے ساتھ کیا سلوک ہوتا۔ اب جہاں تک میرا تعلق ہے مجھے جاپان بالخصوص فنون کا جاپان ہمیشہ سے ایک پرستان دکھائی دیتا ہے۔ آ ہ، وہاں کے درخت تو پھولوں کی طرح خوش باش ہیں۔ اور پہاڑی چوٹیاں ایسے ہی سفید براق ہیں۔ جیسے شادی بیاہ کے کیک، لالٹینیں اتنی بڑی ہیں جتنے کہ مکانات اور مکانات اتنے ہی نازک ہیں جتنی کہ لالٹینیں! …لیکن… ایک عیسائی مشنری نے بیان کیا (میں نے اخبار میں پڑھا)کہ ’’جاپانیوں کی اذیت رسانی کا اقرار یا انکار محض لفظی ترجمہ کا مسئلہ تھا کیونکہ اہلِ جاپان انگوٹھے کو الٹی طرف موڑنے کو اذیت نہیں گردانتے۔‘‘
٭٭٭