حترم قارئین! انگریز لکھاری جناب George Orwell کے ناول Animal farm کا اردو ترجمہ پیش کیا جا رہا ہے۔ یہ شہرہ آفاق ناول کئی ممالک کے تعلیمی نصاب کا حصہ بھی حصہ ہے۔ اس کے دس ابواب ہیں اور ہر بار ایک باب کا اردو ترجمہ دیا جایا کرے گا۔ مدیر اعلیٰ
اس واقعہ پر ابھی تین راتیں بھی نہیں گزری تھیں کہ سوتے میں ہی بوڑھا میجرؔ اس دارِفانی سے کوچ کر گیا۔ اسے باغ کے ایک کونہ میں دفنا دیا گیایوں ایک کہانی اپنے منطقی انجام کو جا پہنچی۔
یہ سانحہ مارچ کے اوائل میں رونما ہوا اور اگلے تین ماہ کے دوران جانوروں کی خفیہ سرگرمیوں میں تیزی آتی چلی گئی۔ میجر ؔکے خطاب نے باڑہ کے ذہین جانوروں کو زندگی کے ایک بالکل نئے رخ سے آشناکر کے جلا بخش دی تھی۔ وہ یہ تو نہیں جانتے تھے کہ میجرؔ کی پیشگوئی کے مطابق بغاوت کب ہو گی اور اگر ہو گی بھی تو اس وقت تک وہ زندہ بھی ہوں گے یا نہیں؟ لیکن اس کیلئے وہ خود کو ذہنی طور پر تیار کر چکے تھے چونکہ سؤر جانوروں میںسب سے ہوشیار متصور ہوتے تھے،اس لئے دیگر جانوروں کی رہنمائی اور تعلیم و تربیت نیز انہیں منظم کرنے کی ساری ذمہ داری انہوں نے از خود اپنے سر لے لی تھی۔سؤروں میں سے نپولینؔ اور سنوبالؔ نامی دو جوان سؤر اس کام میں پیش پیش تھے، انہیں مسٹر جونز ؔ فروخت کی غرض سے پال رہا تھا۔وہاں بسنے والے جانوروں میں برک شائرؔ سے تعلق رکھنے والا واحد جانور، نپولینؔنسبتاً بارعب دکھائی دینے والا ایک جسیم سؤر تھا ۔ وہ خاموش طبع ضرور تھا لیکن اپنا الو سیدھا کرنا خوب جانتا تھا ۔
سنو بال،ؔ نپولین ؔکی نسبت زندہ دل ، لسان اور جدت پسند واقع ہوا تھا لیکن اس قدرذہین و فطین نہیں مانا جاتا تھا، اور رہی بات باڑہ میں موجود باقی سؤروں کی، تو وہ تو نرے سؤر ہی تھے، البتہ بھرے بھرے گالوں ، چمکتی آنکھوں ، پھرتیلے بدن اور تیکھی کھنکتی ہوئی آواز کے مالک پستہ قد سقیلرؔ کو سب سؤروںمیں سے اچھا گردانا جاتا تھا۔وہ ایک زبر دست مقرر تھا جو کسی بھی مشکل مسئلہ پر گفتگو کا ملکہ رکھتا تھا دورانِ گفتگو اِدھر اُدھر گھومتے رہنے اور مسلسل دم ہلاتے رہنے کا عادی تھا۔اس کا یہ دلکش انداز سبھی کو بھاتا اورسبھی اس کی چرب زبانی کے قائل تھے ، کیونکہ سبھی جانتے تھے کہ وہ سیاہ کو سفید اور سفید کو سیاہ ثابت کر دینے کا ہنر جانتا ہے۔
ان تینوں نے میجرؔ کی تعلیمات کو ایک مکمل ضابطہ اور دستور کی شکل دے دی تھی جس کا نام انہوں نے ’’حیوانیت ‘‘ رکھا۔کئی راتوں سے وہ سب مسٹر جونزؔ کے سوجانے کے بعد باڑہ میں خفیہ اجلاس بلاتے اور حیوانیت یعنی جانورازم کے اصولوں کی تفاصیل سے دیگر جانوروں کو آگاہ کرتے۔ شروع شروع میں انہیںبد دلی اور مایوسی کا سامنا کرنا پڑا، کیونکہ ان میں سے کچھ تو مسٹر جونزؔ کے ساتھ وفاداری پر تلے ہوئے تھے اور کسی حال میں بھی اس سے غداری کا ارتکاب نہیں کرنا چاہتے تھے نیز اسے ہی اپنا اَن داتا اور آقا خیال کئے بیٹھے تھے۔وہ اپنے دلائل کا آغاز یوں کرتے کہ
دیکھو وہ کس طرح ہمارے لئے نان و نفقہ کا بندوبست کرتا ہے ورنہ ہم تو بھوکوں مر جائیں۔کچھ یوں گویا ہوتے کہ ہمیں اس سے کیا غرض کہ ہمارے مرنے کے بعد کیا ہوتا ہے؟یا اگر بغاوت ہی نوشتۂ تقدیر ہے تو پھر ہماری جدو جہد چہ معنی ٰ دارد؟ سؤروں کو شدید پریشانی کا سامنا تھا کہ وہ کس طرح اس بغاوت والے منصوبہ کو عملی جامہ پہنائیں؟اور تمام جانوروں کو اس بات کا قائل کر لیں کہ ایسی باتیں انہیں زیب نہیں دیتیں اور پھر’’ حیوانیت‘‘کی روح کے بھی منافی ہیں۔سب سے احمقانہ سوالات سفید خوبصورت گھوڑی مولیؔ کی طرف سے اٹھائے جاتے تھے۔ اس نے سنو بالؔ سے پہلا سوال یہ پوچھا کہ کیا بغاوت کے بعد اسے چینی مہیا ہو گی یا نہیں؟
سنو بالؔ نے سخت لہجہ میں جواب دیا ’’نہیں!ہمیں اس باڑہ پر چینی بنانے والے ذرائع میسر نہیں ہوں گے۔پھر تمہیں چینی کی ضرورت بھی نہیں ہو گی کیونکہ تمہیں وافر مقدار میں جی اور بھوسہ میسر ہو گا۔‘‘
مولی ؔ پھر گویا ہوئی کہ ’’کیا مجھے ایال میں سرخ ربن سے چوٹیاں گوندھنے کی اجازت ہو گی ؟‘‘
سنو بال ؔ کہنے لگا:’’پگلی ! جن فیتوں سے تم اس قدر محبت جتا رہی ہو وہی تو تمہاری غلامی کی علامت ہیں، کیا تمہیں اس بات کا بھی ادراک نہیں کہ آزادی کتنی بڑی نعمت ہے، اور ان ڈوریوں سے کہیں بڑھ کر ہے۔‘‘
مولی ؔ نے اس بات سے اتفاق تو کر لیا لیکن وہ کچھ زیادہ مطمئن دکھائی نہیں دے رہی تھی۔ سؤروں کو اس وقت اور بھی دشواری ہوئی جب ان کا سامنا بدنام زمانہ گپی موززؔ سے ہوا۔وہ کذب بیانیوں میں بڑا مشہور ، مسٹر جونزؔ کا سب سے چہیتا اورپکا مخبرتھا۔کوئی بھی بات گھڑ لینا اس کے بائیں ہاتھ کا کھیل تھا۔اس کا دعویٰ تھا کہ وہ شوگر کینڈی ماؤنٹین نامی ایک ایسے ملک کے بارہ میں جانتا ہے جو بادلوں سے بھی پرے واقع ہے اور مرنے کے بعد تمام جانوروں کو وہیں اکٹھا کیا جائے گا۔اس کا یہ بھی دعویٰ تھا کہ وہاں ہفتہ میںسات اتواریں ہوتی ہیں اور سارا سال ترفل اُگی رہتی ہے،نیز شکر کی ڈلیاں اور السی کی ٹکیاں بارہ مہینے باڑ پر لگی رہتی ہیں،ان ڈینگوں ، گپوںاور نکھٹوپن کی وجہ سے موززؔ سے شدید نفرت رکھنے کے باوجودبعض جانوروں نے اس شہر کے بارہ میں یقین کر لیا تھا۔ جس سے سؤر اور بھی مشکل میں پڑ پڑ گئے تھے۔اور بعد ازاں انہیں یہ یقین دہا نی کروانے میں سخت محنت کرنا پڑی کہ اس قسم کے کسی شہر کا سرے سے وجود ہی نہیں اور یہ بھی کہ یہ محض موززؔ کی نئی گپ ہے۔
سؤروں کے سب سے وفادار مرید چھکڑے میں جوتے جانے والے گھوڑے باکسر ؔ اور کلوورؔ تھے۔ اگرچہ وہ زیادہ سوچنے سمجھنے کی صلاحیت تونہیں رکھتے تھے لیکن سؤروں کو ایک بار اپنامصلح تسلیم کر چکنے کے بعد ان کی ہر بات کو اچھی طرح ذہن نشین کر کے دوسرے جانوروں تک من و عن پہنچانے کی خدمت میںبڑی تندہی سے مصروف تھے۔ وہ باڑہ میںمنعقد ہونے والی ہر خفیہ مجلس کے سرگرم رکن بن چکے تھے اور باقاعدہ ہر اجلاس میں نہ صرف شامل ہوتے بلکہ ہر اجلاس کے اختتام پر ’’برطانیہؔ کے جانور‘‘گانے والوں میں بھی سر فہرست تھے۔
ہر کسی کی توقع کے برخلاف قبل از وقت بڑی آسانی سے بغاوت ہو گئی ۔ ہوا کچھ یوں کہ مسٹر جونزؔ سخت گیر اور محنتی کسان تھالیکن اب تو جیسے برے دنوں نے اس کے گھر کی راہ دیکھ لی تھی پہلے تو ایک مقدمہ میںاپنی ساری جمع پونجی سے ہاتھ دھو بیٹھا ، جس کاغم غلط کرنے کیلئے سارا سارا دن کچن سے ملحقہ شراب خانہ میں اپنی ونڈ سر سے بنی ہوئی کرسی پربیٹھا یا تو اخبار پڑھتا رہتا یا پھر شراب سے دل بہلاتا رہتا تھا۔اس دوران کبھی کبھار موززؔ کی قسمت یاوری کرتی تو اسے بھی شراب میں بھیگا ہوا روٹی کا ایک آدھ ٹکڑا کھانے کو مل جاتا۔مسٹر جونزؔ کی بدقسمتی کہ اس کے ملازمین بھی پرلے درجہ کے کاہل ،کام چور اور بددیانت واقع ہوئے تھے ان کی کاہلی اور مسلسل عدم توجہ کی وجہ سے زمینیں جھاڑیوں اور گھاس پھونس سے اٹ گئی تھیں اور ٹھیک طور پر دیکھ بھال نہ ہونے کی وجہ سے عمارت کو بھی نقصان پہنچ رہا تھااب تو اس کی حالت ناگفتہ بہ ہو چکی تھی۔کھیتوں کے اردگرد لگائے گئے حفاظتی جنگلے بھی مناسب نگہداشت نہ ہونے کی وجہ سے خراب ہو چکے تھے اور ادھر جانوروں کو پیٹ بھر چارہ بھی نہیں مل رہا تھا۔
جون کا مہینہ سر پر تھا ، بھوسہ کی فصل پک کر کٹنے کو تیار کھڑی تھی کہ ایک دن ہفتہ کے روز مسٹر جونزؔ ’’مڈ سمر ایو‘‘یعنی گرمیوں کی ایک سہانی شام منانے اور دل بہلانے ولنگڈن چلا گیا اس کا ارادہ تھا کہ کچھ دیر دل بہلا کر واپسی کی راہ لے گا۔ لیکن ’’ریڈ لائن کلب‘‘ میں بلانوشی کی وجہ سے اتوار کی دوپہر تک بھی نہ لوٹ سکا۔ ادھر اس کے ملازموں نے نہ تو گایوں کا دودھ دوہنا گوارا کیا اور نہ ہی جانوروں کو چارہ ڈالا اور جنگلی خرگوشوں کے شکار کو نکل کھڑے ہوئے۔مسٹر جونزؔ رات کی تاریکی میں لوٹا ، تھکا ہارا تھا اس لئے ’’نیوز آف دی ورلڈ‘‘اخبار منہ پر رکھ کر بغیر باڑہ کی خیر خبر لئے ڈرائنگ روم میںصوفہ پر ہی دراز ہوا اور تھوڑی ہی دیر میں ڈرائنگ روم اس کے خراٹوں سے گونجنے لگا۔ صبح سے بھوکے پیاسے جانور اب نڈھال اوربے حال ہو رہے تھے ان کے صبر کا پیمانہ لبریز ہو چکا تھا،اسی اثناء میں ایک گائے نے سینگ مار کر گودام کا دروازہ توڑ ڈالا، گودام کا دروازہ ٹوٹا دیکھ کر جانوروں سے رہا نہیں جا رہا تھا ہر کوئی اسی تگ و دو میں تھا کہ جلدی سے چارہ تک جا پہنچے، اسی جدو جہد میں باڑہ میں ایک اودھم اور دھما چوکڑی کا سماں پیدا ہو گیا تھا۔جس سے مسٹر جونزؔ کی آنکھ کھل گئی اور وہ بغیر وقت ضائع کئے اپنے چاروں ملازمین کے ساتھ کوڑے لہراتے ہوئے باڑہ میں آن دھمکے۔ بھوک اور پیاس سے نڈھال جانور آپے سے باہر ہو رہے تھے ، لہٰذا کسی بھی پیشگی منصوبہ بندی کے بغیر وہ اپنے ظالم آقاؤں پر چڑھ دوڑے اور جونزؔ کو اس کے ملازموں سمیت اپنے سینگوں اور دولتیوں پر دھر لیا۔اب صورتِ حال مسٹر جونزؔ اور اس کے ساتھیوں کے ہاتھ سے نکل چکی تھی۔ ظلم و ستم اور بے توجہی کے شکار جانوروں کی طرف سے اس غیرمتوقع سلوک نے ان کے دماغ ماؤف کر کے رکھ دئیے تھے۔چند لمحے اس دہشت میں مبہوت رہنے کے بعد انہوں نے دفاعی کوششیں ترک کیں اور سر پر پاؤں رکھ کر بھاگ نکلے۔ تعاقب کرتے ہوئے فتح کے نشہ میں چورجانوروں سے بچنے کیلئے انہوں نے عمارت کا رخ کرنے کی بجائے چھکڑے والی سڑک سے ملحق بڑی سڑک کا رستہ ناپا۔ مسٹر جونزؔ کی بیوی نے خواب گاہ کی کھڑکی سے یہ منظر دیکھ کر بھانپ لیا کہ اب خیر نہیں اور بجلی کی سی سرعت سے ایک بڑے سے بیگ میں چند ضروری اشیاء ٹھونسیں اور بغلی دروازہ سے کھسک لی۔موززؔ بھی چیختا چلاتا اپنے رین بسیرے سے اڑا اور تیزی سے ان کے پیچھے ہو لیا۔اس دوران جانور بڑی کامیابی سے مسٹرجونز ؔ اور اس کے ملازمین کو دور تک بھگا کر لوٹے اور فوراً ہی باڑہ کے پانچوں بڑے دروازے اندر سے بند کر دئیے۔ اس افراتفری میں جانوروں کویہ ادراک نہ ہو سکاکہ بغاوت انتہائی کامیابی کے ساتھ اپنے منطقی انجام کو پہنچ چکی ہے۔اب انہیں سمجھ آ رہی تھی کہ مسٹر جونزؔ کو بڑی کامیابی سے نکال باہر کرنے کے بعد سارے باڑہ پر بلا شرکت غیرے اب صرف انہی کا قبضہ ہے اورمکمل طور پر وہ باڑہ کے مالک بن چکے ہیں۔چند لمحے تو انہیں اپنی خوش قسمتی پر یقین ہی نہ آیا۔ اچھی طرح یقین کر نے کیلئے کہ باڑہ میں کہیں کوئی انسان نہ چھپا بیٹھا ہو انہوں نے سارے باڑہ کا فاتحانہ شان سے چکر لگایا اور پھر مسٹر جونزؔ کے قابل نفرت تسلط کی آخری یادگار کو مٹانے اور مٹی میں ملانے کیلئے عمارت کی طرف پیش قدمی شروع کی ۔ سب سے پہلے اصطبل کے ایک سرے پر موجود گھوڑوں کے سازوسامان والا کمرہ نقب لگا کرکھولا گیا۔لوہے کی بنی ہوئی لگامیںاور نکیلیں،کتوں کو باندھنے والی زنجیریں اور وہ تمام خونی خنجر جن کی مدد سے مسٹر جونزؔ سؤروں اور مینڈھوں کے تولیدی اعضاء کاٹ کر انہیں خصی کیا کرتا تھا، سب کے سب کنویں کی نذر کر دئیے گئے۔گھوڑوں کی گردنوں میں باندھی جانے والی رسیاں اور آنکھوں پر چڑھائے جانے والے چمڑے کے کھوپے اور عزتِ نفس مجروح کردینے والے غلامی کی علامت توبڑے وغیرہ صحن میں بھڑکتی ہوئی آگ میں پھینک دئیے گئے۔ ظالم کوڑے بھی حوالۂ نار کر دئیے گئے تھے، جنہیں بھسم ہوتا دیکھ کر تمام جانور بے اختیار اچھلنے کودنے اور ناچنے گانے لگے۔سنو بالؔ نے یہ کہتے ہوئے کہ’’آئندہ ربن بھی کپڑوں میں ہی شمار ہوں گے جو انسانی دور کی یادگار ہیں لہٰذا سب جانور برہنہ ہی رہیں‘‘ وہ تمام ڈوریاں، رسیاں اور سنگلیاں بھی آگ میں اچھال دیں جو فروخت کی غرض سے منڈی لے جائے جانے والے جانوروں کی گردنوں اوردموںمیں باندھی جاتی تھیں۔اس اعلان کا سننا ہی تھا کہ باکسرؔ نے بھوسہ کی بنی ہوئی چھوٹی سی وہ ٹوپی بھی نذر ِ آتش کردی جسے موسم ِ گرما میں مکھیوں سے بچنے کیلئے کانوں پر چڑھالیا کرتا تھا۔یوں کچھ ہی دیر میں مسٹر جونزؔ کی تمام یادگاریں ملیامیٹ یا خاکستر ہو چکی تھیں۔اس کام سے فارغ ہونے کے بعد نپولین ؔ انہیں خوراک کے گودام کی طرف واپس لے آیا جہاں ہر ایک کو اناج کی پہلے سے دوگنا مقدار مہیا کی گئی اور کتوں کو بونس کے طور پر دو د و بسکٹ بھی عطاکئے گئے تھے۔پھر انہوں نے’’ برطانیہؔ کے جانور‘‘ گیت سات بار گایا۔ اور اس کے بعدرات گزارنے کے بندو بست میں جٹ گئے اس رات وہ گھوڑے بیچ کر ایسے سوئے کہ اس سے پہلے انہیں بے فکری اور سکھ کی ایسی نیند کبھی میسر نہ آئی تھی۔
اگلی صبح وہ اگرچہ معمول کے مطابق ہی بیدار ہوئے تھے لیکن انقلاب کا و ہ عظیم واقعہ اچانک یادآنے پر بھاگم بھاگ چراگاہ کی جانب لپکے۔چراگاہ سے کچھ فاصلہ پر ایک ٹیلہ تھا جہاں سے تقریباً ساراباڑہ صاف دکھائی دیتا تھا۔ اسی نشہ میں کہ انہیں روکنے والا کوئی نہ تھا وہ ٹیلہ پر چڑھ دوڑے۔اور آزادی کی پہلی روشن اور حسین سحرکے پھوٹنے کا نظارہ کرتے کرتے چرنے لگے۔ اب یہ سب کچھ ان کا اپنا تھا ، ان کی ملکیت تھا، اور تا حد ِ نگاہ ہر چیز پر ان کی حکمرانی تھی۔ اس خیال نے ان پرایسا وجد طاری کرد یا کہ دائروں میں گھومتے ، چوکڑیاں بھرتے ہوئے خوشی سے اچھلنے کودنے اور ناچنے گانے لگے۔
گرما کی ٹھنڈی میٹھی اوس پڑی گھاس پر لیٹنے کے ساتھ ساتھ جی بھر کر منہ مارا،مٹی کے سیاہ رو ڈھیلوں کو اپنی ٹھوکروں پر رکھ لیا اور ان سے اٹھنے والی بھینی بھینی خوشبو کو سانسوں میں اتار لیا، ان مستیوں کے بعد پورے باڑہ کا تفصیلی معائنہ کیا۔ باڑہ کی زمینوں، بھوسہ کے قطعات، پھلوں سے لدے پھندے باغات ، جوہڑوں اور ایک چھوٹے سے جنگل نے ان کی حیرت گم کر دی تھی یہ سب کچھ وہ اس طرح دیکھ رہے تھے گویا پہلی بار دیکھ رہے ہوں۔ انہیں اپنی آنکھوں پر یقین نہ آرہاتھا اور یہ سوچ کران کے دل بلیوں اچھل رہے تھے کہ اب یہ سب کچھ اُن کی دسترس میں ہے اور صرف اور صرف اُنہی کا ہے!
کچھ دیر بعد وہ سنو بال ؔ اور نپولین ؔ کی قیادت میں باڑہ کی عمارت کی طرف بڑھے، دروازہ پر پہنچ کر وہ سب خاموش کھڑے ہو گئے جیسے کسی حکم کے منتظر ہوں، اگرچہ اب سب کچھ ان کا اپنا ہی تھا لیکن اندر داخل ہونے سے وہ کچھ گھبرا رہے تھے، تاہم کچھ دیر کی خاموشی کو سنو بالؔ اور نپولین ؔ نے یوں توڑا کہ اپنے کندھوں سے دروازہ کو دھکیلا، دروازہ ایک دھماکہ سے کھلا اور سارے جانور بیک وقت اندر داخل ہوگئے۔ وہ کسی بھی چیز کو خراب ہونے سے بچاتے ہوئے آزادی لیکن قدرے احتیاط کے ساتھ اِدھر اُدھر گھومنے لگے۔ سرگوشیاں کرتے، آسائشوں سے پُراس حیرت کدہ کو تکتے تکتے اور پنجوں کے بل نرم روی سے چلتے ہوئے ایک سے دوسرے کمرہ میں گھومنے لگے۔نرم نرم پروںسے بھرے گدیلوں میں ڈھکے ہوئے بستر ، قد آدم آئینے، گھوڑے کے بالوں سے بنایا گیاصوفہ، برسل کا غالیچہ، بیٹھک کی انگیٹھی پر سجی ہوئی ملکہ وکٹوریہؔ کی تصویر وغیرہ وغیرہ سب کچھ ان کو حیران کر دینے کیلئے کافی تھا۔سیڑھیوں سے اترتے ہوئے انہیں اچانک یہ احساس ہوا کہ مولیؔ ان کے ساتھ نہیںہے۔بعض جانوروں کو یاد آیا کہ لوٹتے ہوئے انہوں نے اسے سب سے خوبصورت سجی ہوئی خواب گاہ میں سنگھار میز کے سامنے کھڑے دیکھا تھا جس کی دراز سے مسٹر جونزؔ کے لائے ہوئے نیلے فیتے نکال کر اپنے کندھے سے لگا لگا کر انتہائی احمقانہ انداز میںوہ خود ستائشی میں مصروف تھی۔اس بات پر دیگر تمام جانوروں نے اسے سخت تنقید کا نشانہ بنایااور باہر نکل آئے تھے۔باورچی خانہ میں پکانے کی غرض سے لٹکتے ہوئے سؤروں کے گوشت کو باہر لا کربڑے احترام سے دفنا دیا گیا۔ناد انستگی میں باکسرؔ کا سم شراب والی الماری سے جا ٹکرایا جس سے الماری دھڑام سے زمین بوس ہوگئی اور اس میں پڑی ہوئی ساری بوتلیں چھناکوں سے ٹوٹ گئیں۔ اس کے علاوہ گھر کی کسی چیز کو چھوا تک نہ گیا تھا۔
اس تاریخی موقع پردو شقوں پر مشتمل ایک اور قرارداد متفقہ طور پر منظور کی گئی :
1: باڑہ کے رہائشی حصہ کو ایک عجائب گھر کی حیثیت سے محفوظ کر لیا جائے گا۔اور
2: کوئی بھی جانور عمارت میں رہائش اختیار نہیں کر ے گا۔
ناشتہ سے فراغت پاتے ہی نپولینؔ اور سنوبالؔ نے تمام جانوروں کو بلا بھیجا اور سنو بالؔ ان سے یوں مخاطب ہوا کہ:’’ابھی صبح کے ساڑھے چھ ہوئے ہیں اور ہمارے سامنے ابھی پورا دن پڑا ہے۔آج سے ہم بھوسہ کی کٹائی شروع کریں گے۔لیکن یہ سب کچھ کرنے سے پہلے ہمیں ایک اور معاملہ نمٹانا ہے۔‘‘
اس موقع پر سؤروں نے ایک حیرت انگیز انکشاف کیا کہ گزشتہ تین ماہ سے وہ مسٹرجونز ؔ کے بچوں کی ان سب پرانی کتابوں کی مدد سے لکھنا پڑھنا سیکھ چکے ہیں جن میں حروف تہجی کی سطح سے سکھانے کی کوشش کی گئی ہے۔انہوں نے یہ بھی بتایا کہ یہ کتابیں انہیں کوڑے کے ڈھیر پر سے ملی تھیںاور انہوں نے اٹھاکر سنبھال لیں۔یہ بتانے کے بعد انہوں نے سیاہ اور سفید روغن منگوا کر بڑی سڑک کی طرف کھلنے والے پنج سلاخی پھاٹک تک رستہ بنایا اور خوش خط ہونے کی وجہ سے سنوبال ؔنے پاؤں کی انگلیوں سے برش تھام کر پھاٹک کے سب سے اوپر والے تختہ پرسے ’’ مینر فارم‘‘کے الفاظ مٹا کر اس کی جگہ’’جانوروں کا باڑہ‘‘کے الفاظ تحریر کر دئیے۔یہی وہ پہلا دن تھا جب باڑہ کا نام تبدیل کر دیا گیا۔اس کام سے فراغت پاکر وہ رہائشی حصہ کی طرف پلٹے جہاں سنو بالؔ اور نپولین ؔ نے دیوار کے سرے سے اوپر چڑھنے کیلئے سیڑھی منگوائی۔انہوں نے یہ بات تمام جانوروں پر واضح کر دی تھی کہ گزشتہ تین ماہ کے عمیق مطالعہ سے سؤر ’’حیوانیت‘‘سے متعلقہ فرامین اور قوانین کو ممکنہ حد تک کم کر کے سات تک محدود کرنے میں کامیاب ہو چکے ہیں۔ اب ان سات احکام کو دیوار پر کندہ کرنے کا مرحلہ درپیش تھاانہوں نے ایسے غیر مبدل قوانین وضع کئے تھے جن کی روشنی میں باڑہ کے تمام رہائشی جانور امن اور سکون کی زندگی بسر کر سکیںگے۔ایک سؤر کیلئے بہت مشکل تھا کہ وہ سیڑھی پر اپنا توازن پوری طرح برقرار رکھ سکے پھر بھی جیسے تیسے سنو بالؔ سیڑھی پر چڑھ کر اس کام میں جت گیا۔ایک زینہ پر روغن بھری بالٹی لٹکائی پھر اُس میں سے برش لگا لگا کر اس نے تارکول سے رنگی ہوئی دیوار پر سفیدرنگ میں جلی حروف سے سات احکام لکھ دئیے۔یہ احکام کچھ یوں تھے:
سات احکام
۱۔۔۔دو ٹانگوں والا ہر کوئی دشمن متصور ہو گا۔
۲۔۔۔تمام چوپائے اور پرندے دوست ہیں۔
۳۔۔۔کوئی بھی جانور لباس نہیں پہنے گا۔
۴۔۔۔کوئی بھی جانور بستر میں نہیں سوئے گا۔
۵۔۔۔کوئی جانور بھی شراب نوشی نہیں کرے گا۔
۶۔۔۔کوئی جانور کسی دوسرے جانور کو قتل نہیں کرے گا۔
۷۔۔۔یاد رکھو کہ بلحاظ حقوق تمام جانور برابر ہیں۔
یہ احکام بڑے خوش خط کر کے لکھے گئے تھے لیکن پوری احتیاط کے باوجود ہجوں میں دوغلطیاں رہ گئی تھیں۔”friend”میں”e”اور “i”آگے پیچھے لکھے گئے تھے اور ایک جگہ “s”غلط انداز میں لکھا گیا تھا۔ویسے عمومی طور پر تمام ہجے درست ہی تھے۔لکھنے سے فارغ ہو کر سنوبالؔ نے بآواز بلند انہیں دہرادیا اور تمام جانوروں نے اثبات میں سر ہلا ہلا کر اپنی رضامندی کا اظہار کیا اور ذہین جانوروں نے انہیں فی الفور زبانی یاد کرنا شروع بھی کر دیا۔
سنوبالؔ برش ایک طرف پھینک کر تقریباً چیختے ہوئے بولا:’’ساتھیو! چلو کاہ کے کھیت کی طرف پیش قدمی کرو ۔آؤ اور ثابت کر دو کہ ہم مسٹر جونزؔ اور اس کے کاہل ساتھیوں کی نسبت زیادہ تیزی اور جلدی سے کٹائی کر سکتے ہیں‘‘عین اسی لمحے گائیاں خوشی سے ڈکرانے لگیں،جو تھوڑی دیر پہلے بے چین ہو رہی تھیں، پچھلے چوبیس گھنٹوں میں ایک بار بھی ان کا دودھ نہیں دوہا گیا تھا اب ان کے تھن پھٹنے کے قریب تھے اچھی طرح غور و خوض کے بعد سؤروں نے کچھ بالٹیاں منگوائیں اور اپنے پیروں کی مدد سے بڑی کامیابی کے ساتھ سارا دودھ نکالیا۔جلد ہی وہاں جھاگ اڑاتے ہوئے تازہ دودھ کی پانچ بالٹیاں بھری پڑی تھیں، جنہیں تمام جانورمشتاق نگاہی سے تک رہے تھے۔کچھ نے کہا:’’ہم اس دودھ کا کیا کریں گے؟‘‘ ایک مرغی گویا ہوئی’’مسٹر جونزؔ ہمارے لئے تیار کردہ چوکر میں کبھی کبھار کچھ دودھ ملایا کرتے تھے‘‘اسی اثناء میں دودھ سے بھری بالٹیوں کے سامنے جگہ بناتے ہوئے نپولین ؔ چلایا:’’صاحبو! دودھ کی فکر چھوڑو اسے بالکل محفوظ سمجھو اور کٹائی کے کام کی طرف توجہ دو کیونکہ وہ زیادہ اہم ہے، اس کام میں سنوبالؔ تمہاری قیادت کرے گا۔میں کچھ توقف کے بعد تم سے آن ملوں گا۔ آگے بڑھو ساتھیو! کاہ کا کھیت تمہارا منتظر کھڑا ہے۔‘‘
یہ اعلان سنتے ہی تمام جانور کٹائی کی غرض سے ایک رسالہ کی صورت میں کاہ کے کھیت کی طرف پیش قدمی کرنے لگے، شام کو واپس لوٹنے پر انہیں احساس ہوا کہ دودھ تو ایسے غائب ہے جیسے گدھے کے سر سے سینگ۔