جنوری کی اُداس شاموں میں سردی اپنی عروج پر تھی پرندے شام ڈھلتے ہی اپنی پناہ گاہوں میں گھس کر ٹھرٹھراتی سردی سے اپنے آپ کو بچانے کی کوشش میں تھے۔۔۔جنوری کا مہینہ اپنے جوبن پر تھا جھنگ سے تیس میل دور واقع گاؤں میں شادی کی تقریبات اپنی عروج پر تھی کافی تیز میوزک جس پر کھڑے لوگ ہلکا پھلکا جھول رہے تھے
اسٹیج پر بیٹھے دونوں نقوش ایک دوسرے سے کافی فاصلے پر بیٹھے تھے مرون رنگ کے لہنگے میں مبلوس جس میں اُسکی براؤن آنکھیں مسلسل کسی کی تلاش میں تھیں آنکھوں میں سُرخ ڈورے واضح ہورہے تھے ہاتھوں کی انگلیاں مسلسل چٹخار رہی تھی پاؤں بار بار ہل رہا تھا لیکن متلاشی آنکھیں چاروں طرف گھوم رہیں تھی جب ہال کے دروازہ پر نظر پڑی وہ واپسی کا راستہ بھول گئیں
طالش ابراہیم اپنی تمام تر وجاہتوں کے ساتھ کھڑا کسی کے ساتھ محوے گفتگو تھا بلیک رنگ کا سوٹ جس پر آف وائٹ رنگ کی جیکٹ بال مخصوص انداز میں سیٹ کیا گے تھے اُسکا ہاتھ مسلسل اپنی بیئرڈ کو نوچ رہے تھے چھ فٹ سے نکلتا قد جو اُسکی شخصیت کو چار چاند لگا رہے تھا
"عندلیب ”
کسی کی آواز پر اپنے پسندیدہ شخص سے نہ چاہتے ہوئے بھی نظریں چرا گئی
"اگر کسی کو ٹوٹ کا اپنی زندگی میں چاہا تھا تو ایک انسان تھا۔۔اُسکے دل پر کتبوں پر ہر جگہ ایک ہی نام تحریر تھا "طالش ابراہیم خان "۔لیکن انا کی جنگ میں کبھی اُس نام کو اپنے لبوں نہ لائی تھی ۔۔۔ اگر اُس مغرور لڑکی نے کسی کو خدا سے ٹوٹ کر مانگا تھا تو وہ طالش ابراہیم تھا اُس کی آنکھوں کی ٹھنڈک ایک ہی شخص تھا لیکن قسمت کو منظور نہیں ہوا تھا آج تھوڑی دیر پہلے کسی اور کے نام ہی چکی تھی ”
انکھوں سے ایک آنسو چپکے سی نکل کر رخسار پر بہہ گیا ایک قسم جو عندلیب نے کھائی تھی آئندہ کچھ نہ مانگنے کی نہ لوگوں سے اور نہ خدا سے
"دو طرفہ محبت تو ہر کوئی کر لیتا ہے اُسکو منزل بھی مل جاتی ہے لیکن جو یک طرفہ محبت ہوتی ہے وہ اپنی شدت میں دوسری محبتوں سے کہیں زیادہ تھی اس کی تکلیف بھی کوئی عام انسان نہیں سہہ سکتا ۔۔۔۔یکطرفہ محبت توڑ دیتی ہے انا کو روند دیتی ہے ۔۔۔یہی عندلیب مجاہد کے ساتھ ہُوا تھا ٹوٹ گی تھی اور جس سے محبت کی تھی اُسے خبر بھی نہیں ہوئی ”
"عندلیب”
دوبارہ پھر پکارا گیا
نظریں اُٹھا کر دیکھا تو پاس بیٹھا وجود اُسکی طرف متوجہ تھا عجیب سی اُلجھن ہوئی تھی اُسی اپنا نام اُسکی منہ سے کافی عجیب لگا تھا
"مجھے پتہ ہے یہ غلط ہے لیکن میں مجبور ہوں ۔۔۔میں نہیں چاہتا تمہاری کوئی بد دُعا میری بیٹی کے آگے آئے اِس لیے میری مجبوری کو سمجھنے کی کوشش کرنا”
دوسری طرف سے پتہ نہیں کیا کہا گیا تھا سمجھنے کی کوشش بھی نہیں کی تھی
"میں رضوان طاہر اپنے ہوش وحواس میں عندلیب مجاہد کو طلاق دیتا ہوں ”
وہ کھڑا ہو کر سب کو متوجہ کرکے بولا تھا پاس بیٹھی عندلیب صدمہ سے کھڑی ہوئی
اُسکے سمجھنے سے پہلے ہی تین مرتبہ ایک فقرہ دوہرایا گیا سارے لوگ منہ پر ہاتھ رکھ کر اُس لڑکی کی قسمت پر افسوس ہو رہا تھا
وہیں ہوش و خرد سے بیگانہ ہوکر زمین پر گر گئی تھی قیامت کا سنا تو تھا لیکن آج بیعت گئی تھی
"رخسانہ آج ہم نے اپنا بدلہ لے لیا اب ہمیں اجازت ”
ایک عورت جو کچھ سیکنڈ کے لیا عندلیب کی ساس بنی تھی کہتی چلی گی پیچھے باپ بھائی کھڑے اپنے خالی ہاتھ دیکھ رہے تھے
°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°
"سياں جی سامنے بیٹھے جام پی رے پی رے
مٹکاؤں میں کمریا دھیرے دھیرے دھیرے”
لاہور کے سرکاری کوٹر جو اپنی مدت کے بعد اب پرائیوٹ کمپنی کو دے دیا گیا تھا دو منزلہ عمارت جس کے آخری کوٹر میں پرانے زمانے کا لاؤڈ والیم سپیکر پر یہ گانا بج رہا تھا جس کی آواز پوری عمارت میں گونج رہی تھی
دروازہ مسلسل دستک کی زرد میں تھا
"ابے کمینے دیکھ لے کس کی موت آگئی ہے ”
زمین پر لیٹے ایک وجود نے دوسرے کو لات ماری جس نے پھٹی ہوئی شرٹ پہن رکھی تھی کمرے میں ہر چیز بکھری ہوئی تھی یہاں تک کے واش روم کا لوٹا بھی سراہنے والی سائڈ پر پڑا تھا ۔۔۔سلنڈر نما چولہا جو شاید سردی کم کرنے کے لیے چلتا ہے چھوڑ دیا گیا تھا لیکن اُنکے حلیہ دیکھ کر کسی طرف سے بھی سردی کے ہونے کا گمان نہیں ہو رہا تھا
"تیرا موت سے کوئی پردہ چل رہا ہے خود دیکھ لے”
دوسرا کروٹ لے کر ایک ٹانگ دوسرے کے پیٹ پر رکھی
"کمینہ یہ مجھے سنی لیون سمجھنا بند کر”
جس نے شرٹ بھی نہیں پہنی تھی ٹانگ اُٹھا نیچے پٹخ دی
دروازہ پر دستک بدستور جاری تھی بس اب دروازہ ٹوٹنا باقی تھا
"کیا ہے صبح صبح آگے نیند میں جگانے ”
چند فٹ کے فیصلہ بند دروازہ کو ایک ڈنڈے کی مدد سے کھولا اٹھنے کی کوشش دونوں میں سے کسی نے نہیں کی تھی
"یہ کیا بیہودہ کام شروع کیا ہوا ہے کواٹر میں مائیں بہنیں بھی رہتی ہیں ۔۔۔یہ گانا بجانا اگر بند نہ ہوا تو سامان سمیت باہر پھینک دیں گے”
ایک آدمی جس نے سے پر ٹوپی اور ہاتھ میں تسبیح پکڑ رکھی تھی دیکھنے میں کافی ظریف لگ رہا تھا
دونوں ایک سیکنڈ میں اٹھ گے سب سے پہلے سپیکر بند کیا لوٹا اٹھا کر واشروم میں رکھا نیچے جو چادر رکھی ہوئی تھی جلدی سے جس نے صرف پینٹ پہن رکھی تھی اُٹھا کر اپنے گرد لیپیٹ لی
"مولانا صاحب ہم نماز پڑھنے جا رہے تھے بس یہ خرافات پتہ نہیں کس نے لگا دی ”
اب دُنیا جہان کے نیک اور شریف لڑکے بنے کھڑے تھے جیسے ان سے نیک ابھی کوئی دُنیا میں آیا ہی نہیں تھا
"پتر ابھی گیارہ کا ٹائم ہے کونسی نماز پڑھنی ہے اِس وقت”
اُنکو سر پر ٹوپیاں لیتے دیکھ کر مولانہ صاحب پریشان ہوکر بولے
"وہ ہم نے شکرانے کے نفل پڑھنے ہیں فیک نہیں نوفل کی نوکری ہوگئی ہے آپکی امامت میں پڑھنے کے لیے آ رہے تھے”
وہ سن کر واپس چلے گئے
"کمینے تیری اس عاشقی مشوکی کے چکروں میں میں کہیں سچ میں نمازی نہ بن جاؤں”
ٹوپی اُتار کر نوفل (جسے وہ فتر کہتا تھا ) کے سر پر ماری
"دیکھ لے یار اس جگہ کام بن جائے پھر میں یہ چکر چھوڑ دینے ہیں ”
"اللہ کرے بن جائے ورنہ میں تو یہ ٹوپی ڈراما کرکے مر جاؤں گا ۔۔۔۔چل اُتر نیچے دیکھ کواٹر میں کسی نے ناشتہ بنایا ہے تو مانگ کر لے آ پھر کہیں نوکری کے لئے بھی ہاتھ پاؤں مارنے ہیں”
محد (پپو) اپنی ایک سلوٹوں سے بھری ہوئی شرٹ پہنتے ہوئے بولا
آنکھیں سیاہ رنگ کو مات دینی والی جن کو کوئی غور سے دیکھے تو اُن کی گہرائی میں ایک مرتبہ غوطہ زن ضرور ہو کافی زیادہ بڑی ہوئی شیوہ شاید ایک مہینے سے کروانے کی فرصت نہیں ہوئی تھی بال بھی چار چار انچ لمبے تھے جو پونی میں بآسانی قید ہو سکتے تھے لیکن اس کے لیا بھی ایک عدد پونی کی ضرورت تھی جو وہ افورڈ نہیں کر سکتے تھے قد چھ فٹ سے تھوڑا کم ہی تھا لیکن ایک پورا کڑیال جوان مرد تھا جس کی جسامت باکسر جیسی تھی
نوفل ایک معمولی سی شکل اور جسم کا ملک تھا
سارا دن سڑکوں کی خاک شیننے کے علاوہ اگر وہ دونوں کوئی کام کرتے تھے تو وہ مانگنے کا تھا جو صبح دوپہر شام کسی نہ کسی کے گھر سے روٹی مانگ کر ہی کھاتے تھے ۔۔۔لیکن اُن شان میں کوئی فرق نہیں آتا تھا کیوں کہ اُن کے مطابق اچھے محلے دار ہونے کا فرض تھا کے اپنے فرائض دوسروں سے پورے کروا کر سکون کی نیند سوئیں
°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°
برائیڈل روم میں ابھی بھی بے سُدھ پڑی تھی سارا میک اپ اتنی سردی میں بھی پسینے کی نظر ہوکر خراب ہو چکا تھا یہاں تھوڑی دیر پہلے لوگ اُسکی قسمت پر رشک کے رہے تھے وہی اب دھیمی آواز میں اُسکے کرادر پر اُنگلیاں اُٹھا رہے تھے
"عندلیب ہماری اور اپنی عزت کا پاس رکھ لو ”
اُسکے باپ کی آنکھوں میں آنسو تھے بے بسی سے اپنی اُجڑی ہوئی بیٹی کو دیکھ رہا تھا
اُسنے بس سر ہلا دیا
"آپکو طالش ابراہیم خان ولد ابراہیم خان کے نکاح میں با عوض دس کروڑ روپے حق مہر کے اُنکے نکاح میں دیا جاتا ہے کیا آپکو قبول ہے”
اُسے لگا کسی نے اُبلتا ہوا سیسہ اُسکے کانوں میں ڈال دیا ہے یہ پھر کوئی خواب ہے جس کی تعبیر بہت بیہانک ہونے والی ہے وہ دیکھ رہی ہے
تین مرتبہ فقرہ دہرایا گیا تینوں بار بس سر ہی ہلا سکی تھی آواز تو پہلے ہی کہیں دفن ہوگئی تھی
اب اُسکی آنکھوں ائے ایک آنسو نہیں بہہ تھا بس کانوں میں سوں سوں کی آواز اسکو پاگل کر رہی تھی
"بیٹا طالش نے ہماری عزت بھری محفل میں بچائی ہے اور تمہیں اِس کے بدلہ اُسے دوسری شادی کی اجازت دینی ہوگی نکاح نامہ میں تو نہیں لکھوا لیکن بھابھی اسی بات پر مانی ہے ،تم کوشش کرنا اُسکے دل میں جگہ بنانے کی ،ہمیں پتہ ہے تم سے تین سال چھوٹا ہے ابھی شاید میاں بیوی کے رشتے کی نوعیت کو بھی نہ سمجھے، لیکن تمہیں ہر حال میں یہ رشتا بچانا ہے چاہئے تمہیں وہ زندہ دفن کردے تم واپس نہیں آؤ گی ۔۔۔۔اور یہ مت بھولنا کبھی بھی کے تمہیں نکاح کے دس منٹ بعد طلاق ہوگی تھی”
اُسے اپنا آپ ایک بوجھ لگ رہا تھا یہ اُسکی ماں کے الفاظ نہیں ہوسکتے وہ تو شہزادیوں کی طرح رکھتی تھی اُسے یہ کوئی اور تھا ۔۔۔۔۔جو بیچ سمندر اُسے ڈوبنے کے لیا چھوڑ رہا تھا
آنکھیں اب کسی قسم کے تاثرات سے خالی تھیں چہرہ سفید پڑھ گیا تھا
"کاش اللّٰہ تعالیٰ آپ مجھے موت دے دیتے”
دل سے ایک کسک نکلی تھی
°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°
جب قانون موجود نہ ہو۔۔۔۔ ایک حیرت انگیز سچا واقعہ
یہ 1 نومبر 1955 کی بات ہے کہ جان گلبرٹ گراہم نامی ایک امریکی شہری کہ جس کا اس کی...