لڑتے جھگڑتے چڑتے چڑاتے دن پر دن گزرت گئے اور یوں پورا دسمبر تمام ہوا ۔۔۔۔ جنوری کی پہلی صبح وہ بڑی تر و تازہ سی بیدار ہوئی تھی ۔۔۔۔۔ نئے ارادے کچھ وسوسے اور اپنی زندگی میں آنے والی اس عجیب تبدیلی پر غور و فکر کرتی وہ اس وقت حواس باختہ سی ہو کر کچن سے باہر نکلی تھی جب کچھ دھڑام سے گرنے کی آواز آئی تھی ۔۔۔۔
“آپ کیسے گر گئے؟
ٹھیک تو ہیں آپ” ؟
اسے زمین پر گرا دیکھ کر وہ اچھی خاصی پریشان ہو گئی تھی اور اس کے جواب نہ دینے پر بلکل ہی رو دینے کو ہو گئی تھی ۔۔۔
“آپ ڈرا رہے ہیں مجھے ۔۔۔۔ کیا ہو گیا ہے” ؟
“بخار ہو رہا ہے یار ۔۔۔۔ زحمت نہ ہو تو اٹھنے میں مدد کر دو ۔۔۔ کانٹے نہیں اُگے مجھ میں”
گہری گہری سانسیں لیتے ہوئے وہ بمشکل بول پایا تھا ۔۔۔۔
خفت زدہ سی ہو کر وہ اس کی مدد کو آگے بڑھی تھی ۔۔۔
“بخار ہو رہا تھا جب ! تو باہر کیوں آئے تھے”؟
“تمہاری خوشبو کھینچ لائی تھی”
نقاہت ذدہ آواز میں کہتا وہ اپنا سارا بوجھ اس پر چھوڑ چکا تھا ۔۔۔ گرتے گرتے اس نے مشکل سے خود کو سنبھالا تھا ۔۔۔۔
“کیا آپ بیہوش ہو گئے ہیں ؟”۔۔۔
پریشان ہو کر اس نے فوراً ہی معاز کو بلانے کا ارادہ کیا تھا۔ ۔
“تمہارے قرب میں ! ہوش میں رہ سکتا ہوں میں”
سرخ چہرے کے ساتھ وہ اسے بوجھ کی طرح بیڈ پر پھینک کر خود بھی وہیں بیٹھ کر ہانپنے لگی تھی ۔۔۔
“بخار دماغ پر چڑھ گیا ہے شائد !”
اسے بستر پر ٹھیک سے لٹا کر وہ کمبل بھی اس پر ڈال چکی تھی ۔۔۔
“کچھ کھائیں گے آپ” ؟
داود کا شانہ زرا سا ہلا کر اس نے پھر پوچھا تھا ۔۔۔۔۔۔
“تمہیں”
آنکھیں پھیلا کر خولہ نے دوسری طرف کو لڑھکے اس کے چہرے کو بغور دیکھا تھا ۔۔۔ اور اسے آنکھیں موندے بے سدھ دیکھ کر خجل ہوئی تھی ۔۔۔ “پتہ نہیں انہوں نے ہی کہا ہے یا میرے کان بجے ہیں ۔۔۔۔
اس شخص کا ویسے کوئی حال نہیں” ۔۔۔۔
“کیا بنائوں ۔۔۔۔ سوپ بنا لیتی ہوں” !
خود سے کہتے ہوئے وہ کمرے سے نکل گئی تھی ۔۔۔۔
*********
اچانک ہوتی بارش نے سردی کی شدت میں بے پناہ اضافہ کر دیا تھا ۔۔۔۔۔
وہ بارش کی شیدائی تھی مگر اس سردی میں بھیگا نہیں جا سکتا تھا ۔۔۔۔ سو وہ کمرے کی دہلیز پہ بیٹھی بارش کا نظارہ کر رہی تھی ۔۔۔۔
خوش قسمتی سے بارش کا رخ مخالف سمت تھا ۔۔۔۔ جس کی وجہ سے وہ بھیگنے سے محفوظ تھی ۔۔۔۔
“کیا سوچا جا رہا ہے” ؟
ارے ۔۔ آپ یہاں کیوں آ گئے ؟ واپس بستر پر جائیں ۔۔۔۔۔۔ تین دن بعد آپ کچھ بہتر ہوئے ہیں ۔۔۔۔۔ بہت خدمت گزاری کر لی میں نے ۔۔۔۔۔ اب بیمار ہوئے تو بلکل نہیں کرونگی ۔۔۔۔۔۔ اب جمے کیا کھڑے ہیں ؟ جائیں ۔۔۔۔ ٹھنڈ لگ جائے گی آپ کو” ۔۔۔۔۔
ایک ہی سانس میں کہتی وہ اٹھ کھڑی ہوئی تھی ۔۔۔۔۔۔
“تم یہاں کیوں ہو ؟ تمہیں بھی لگ جائے گی ۔۔۔۔”
مزے سے کہتا وہ وہیں دہلیز پہ بیٹھ گیا تھا ۔۔۔۔۔
“مجھے یہاں اچھا لگ رہا ہے” ۔۔۔۔۔
“مجھے بھی یہاں اچھا لگ رہا ہے” ۔۔۔۔
“اچھا لگ رہا ہے ؟ ۔۔۔ آپ کو بھی بارش پسند ہے” ۔۔۔ ؟
“مجھے تم پسند ہو”
جن نظروں سے داود نے اسے دیکھ کر کہا تھا وہ نظر اس کا چہرہ دہکا گئی تھی ۔۔۔۔۔
“آپ ضد پر آ جاتے ہیں تو کسی کی نہیں سنتے ۔۔۔۔ یہ جیکٹ ہی پہن لیں ۔۔۔۔ وہ بیڈ سے اسکی جیکٹ اٹھا لائی اور نظریں چراتے ہوئے اس کی طرف بڑھا دی ۔۔۔۔۔
کچھ لمحوں تک وہ اس کے ہاتھوں میں موجود اپنی سیاہ جیکٹ کو گھورتا رہا پھر تھکا تھکا سا اٹھ کھڑا ہوا ۔۔۔۔۔
“خولہ! ! جب تم مجھ سے محبت نہیں کر سکتیں تو میری پروہ بھی مت کیا کرو ۔۔۔۔۔ تمہاری پروہ مجھے امید دیتی ہے ۔۔۔ اور جب تم میری امید توڑ دیتی ہو ۔۔۔ تو مجھے بہت تکلیف ہوتی ہے ۔۔۔ بہت!!”۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
گم صم کھڑی وہ خالی خالی نظروں سے اسے الماری سے اپنا بستر نکال کر بیڈ کے ساتھ لگاتے دیکھ رہی تھی ۔۔۔ اسے نیچے لگائے گئے بستر پر لیٹتا دیکھ کر اسے یکدم ہی جیسے ہوش آیا تھا ۔۔۔۔
“بیڈ پر لیٹ جائیں آپ ۔۔۔۔ کوئی بات نہیں” ۔۔۔
“نہیں شکریہ ۔۔۔۔ مجھے میری اوقات یاد رکھنے دو”
نروٹھے پن سے کہتا وہ سر تا پا لیحاف میں چھپ گیا تھا ۔۔۔۔
“اچھے بھلے چلتے چلتے اچانک پتہ نہیں کیوں ٹریک سے اتر جاتے ہیں”
واپس دہلیز پر بیٹھتے ہوئے پتہ نہیں کیوں اس کی آنکھیں نم ہونے لگی تھیں ۔۔۔۔۔
“مجھے جس سے بھی محبت ہے قدرت اسے مجھ سے دور کیوں رکھتی ہے” ؟
بھیگتی آنکھوں کے ساتھ اسے جویریہ بیگم ۔۔۔ اپنے مرحوم والد اور نانی بہت یاد آئے تھے ۔۔۔۔
*********
جونہی وہ کوئی “ایسی ویسی” بات کرتا ۔۔۔ خولہ اس سے کترانا شروع کر دیتی ۔۔۔۔۔ پھر وہ پہلے سا ماحول بنانے کے لیئے کچھ نہ کچھ کیا کرتا تھا ۔۔۔۔۔۔
اس وقت بھی وہ چھت پر چلا آیا تھا ۔۔۔ ہاتھ میں بڑی سی ٹرے تھی ۔۔۔۔ جس میں پکوڑوں سے بھری پلیٹ اور چائے کے دو کپ رکھے تھے ۔۔۔۔ ” ڈھلتا دن اسے ہمیشہ سے عجیب سی سوگواریت میں لپٹا محسوس ہوتا تھا ۔۔۔ اور وہ اس سوگواریت کو ہمیشہ اپنے اندر اترتا محسوس کرتی تھی ۔۔۔۔ اس وقت بھی کسی غیر مرئی نقطے پر نظریں جمائے بیٹھی خولہ اسے اداسی کی مورت لگی تھی ۔۔۔ ڈھلتے سورج کی نارنجی کرنیں عین اس کے چہرے پر پڑتی اس مورت کے حسن میں اضافہ کر رہی تھیں ۔۔۔
بے ایمان ہوتے دل کو سنبھالے وہ کھنکھارا تھا ۔۔۔۔
چونک کر اس نے پہلے داود کو اور پھر اس کے ہاتھوں میں موجود ٹرے کو دیکھا تھا جو وہ اس کے پہلو میں رکھ چکا تھا ۔۔۔۔۔
ایک ہاتھ میں چار پانچ پکوڑے اٹھا کر دوسرے ہاتھ سے اس نے اپنا کپ اٹھا کر دیوار پر رکھ دیا تھا اور پھر خود بھی اس پر چڑھ کر بیٹھ گیا ۔۔۔۔
“یہ پکوڑے آپ نے بنائے ہیں” ؟
جیسا وہ وکھرا تھا اس سے یہ امید کی جا سکتی تھی۔ ۔
“نہیں’لیکن لیکن لایا میں ہی ہوں ۔۔۔ اور چائے میں نے خود بنائی ہے ۔۔۔ اس لیئے اگر تم میری تعریف کرنا چاہتی ہو تو کر سکتی ہو”
معصومیت سے کہتا وہ اسے ہنسنے پر مجبور کر گیا تھا۔ ۔۔
“ارے آپ کے کپ پر کتنی مکھیاں بیٹھی ہیں”
کپ کے کناروے پر قطار سے بیٹھی مکھیوں سے اسے کراہیت محسوس ہوئی تھی ۔۔۔۔۔
“بیٹھے رہنے دو ۔۔۔۔ بچپن کی سنگی ساتھی ہیں میری ۔۔۔۔۔ ہر چیز ساتھ ساتھ کھائی پی ہے ہم نے” ۔۔۔۔
اطمینان سے کہ کر داود نے کپ اٹھا کر لبوں سے لگا لیا ۔۔۔۔۔
“ایہہ !! کم سے کم کنارے کو صاف ہی کر لیتے ۔۔۔ کتنے گندے ہیں آپ”
جواباً وہ اس کے تاثرات دیکھتا ہنس پڑا تھا ۔۔۔۔
“داود” !! کچھ لمحوں کی خاموشی کے بعد خولہ نے سے پکارا تھا ۔۔۔
چونک کر داود سرتاپا کان بن گیا تھا ۔۔۔ پہلی بار خولہ نے اس کا نام لیا تھا ۔۔۔۔
“ہاں” ؟
“وہ جو ویران سا بنگلہ نظر آ رہا ہے ۔۔۔۔ وہ کس کا ہے” ؟
خولہ کی تمام توجہ کافی دور نظر آتے مخدوش حال بنگلے پر تھی ۔۔۔۔
تبھی وہ داود کا پھولتا منہ نہیں دیکھ سکی تھی ۔۔۔
“مجھے کیا پتہ” ؟
لٹھ مار لہجے میں کہ کر داود نے پھر سے کپ پر امڈی آتی مکھیوں کو غصے سے اڑایا تھا ۔۔۔۔
“ارے آپ بچپن سے یہاں رہ رہے ہیں ۔۔۔ یہ بنگلہ اتنا دور بھی نہیں ہوگا ۔۔۔ آپ کا آنا جانا تو ہوا ہوگا کبھی اس کے آس پاس سے” ۔۔۔۔
داود نے بغور اس کی دلچسپی ملاحظہ کی تھی۔ ۔
“جب سے میں نے ہوش سنبھالے ہیں اسے ایسے ہی دیکھتا آیا ہوں” ۔۔۔۔
“کیا واقعی؟”
“ہاں واقعی !”
“واو”
“تم اتنی خوش کیوں ہو رہی ہو”؟
“اگر یہ واقعی’مستقل بند رہا ہے تو اب تک تو یہاں جن بھوتوں نے بسیرا بھی کر لیا ہوگا نا ؟”
“لگتا ہے میرا بخار تمہارے دماغ پر چڑھ گیا ہے ۔۔۔ پتہ نہیں کیا کیا بولے جا رہی ہو”
“”مجھے ایڈونچرز بہت پسند ہیں ۔۔۔ پلیز نہ آج چل کے دیکھتے ہیں ۔۔۔۔ کل سے آپ کام پر جانا شروع کر دیں گے ۔۔۔ وہی عام سے دن رات ۔۔۔ گھورے کیا جا رہے ہیں “ہاں” کیجئے ۔۔۔۔ بہت مزہ آئے گا داود ۔۔۔۔
پلیزززز۔ ۔۔۔۔”
ایک ہی سانس میں کہنے کے بعد وہ آخر میں معصوم سی شکل بنانے کے بعد ہاتھ بھی جوڑ چکی تھی ۔۔۔
تیزی سے اس کے بندھے ہاتھ کھولنے کے بعد وہ قطیعت سے گویا ہوا تھا ۔۔۔ “نہیں”
“پلیز” دانت پیسے گئے ۔۔
“نہیں” اطمینان
“پلیز” ناک کے پھنگ پھیلائے گئے
“نہیں” مکمل اطمینان
“داود پلیز” آنکھیں دکھائی گئیں ۔۔۔
“خولہ نہیں” اسی کے انداز میں کہتا وہ اسے تپا گیا تھا ۔۔۔
“ہیٹ یو”
اپنی چائے اور پکوڑوں کی پلیٹ اٹھا کر وہ پیر پٹختی نیچے جانے لگی تھی جب وہ بھننا کر بولا تھا ۔۔۔
“اچھا ملکہ عالیہ”
ڈاکٹر شہباز ملک پہلا پنجابی پی ایچ ڈی
ڈاکٹر شہباز ملک پنجابی زبان و ادب کی دنیا میں ایک مشہور و معروف نام ہیں۔ وہ پاکستان میں پنجابی...