شام کا وقت تھا حسین صاحب بھی گھر آ چکے تھے اور وہ سب حسین صاحب سمیت صحن میں بیٹھی ہوئی تھیں روش نے ان کے کندھے پہ سر رکھا ہوا تھا اور ان کا ہاتھ پکڑ کے انگلیوں کے ساتھ کھیل رہی تھی
“خیر تو ہے آج بڑا پیار آ رہا ہے ابا پہ کونسی نئی فرمائش پوری کروانی ہے؟” روش کو دیکھتے منیہا نے شرارت سے پوچھا تھا
“کیا مطلب ہے تمہارا میں ابا سے کوئی بات منوانی کو تبھی میں ان کے ساتھ ایسے لاڈ کرتی ہوں؟” روش تو اس کی بات پہ تڑپ ہی گئی تھی اس کی حالت دیکھ کے منیہا نے مسکراہٹ روکنے کے لیے لب دبا کے اثبات میں سر ہلایا تھا
“ابا” اس نے احتجاجاً حسین صاحب کو بھی بیچ میں گھسیٹا تھا
“خبردار تنگ مت کرو میری بیٹی کو یہ تو میرے جگر کا ٹکڑا ہے” انہوں نے روش کا سر چومتے محبت سے لبریز لہجے میں کہا تھا
“کیا مطلب ابا صرف وہی جگر کا ٹکڑا ہے تو ہم کیا ہیں؟” نویرہ نے فوراً احتجاج بلند کیا تھا
“ارے بھئی تم سب ہی میرے جگر کے ٹکڑے ہو لیکن سب سے چھوٹا ہونے کی وجہ سے یہ تھوڑی زیادہ پیاری ہے” حسین صاحب نے شرارتاً کہا تھا وہ ان سب کا ردعمل جانتے تھے
“ابا” حسبِ توقع وہ سب چیخی تھیں اور روش کھلکھلا کے ہنس دی تھی اور ساتھ ہی انہیں زبان نکال کے چڑایا تھا
“ابا کھبی آپ کے دل میں یہ بات نہیں آئی کہ میری سات بیٹیاں ہیں بیٹا کیوں نہیں ہے؟” مائرہ کے سوال پہ حسین صاحب نے چونک کے اسے دیکھا تھا جو سنجیدگی سے انہیں ہی دیکھ رہی تھی
“نہیں آتا اگر کھبی آنے کی کوشش بھی کرے تو میں یہ سوچ لیتا ہوں بیٹیاں ہی صحیح لیکن اللّٰہ نے مجھے اولاد سے تو نوازا ہے ورنہ دنیا میں اتنے کیسے لوگ ہیں جو بیٹی کے لیے بھی ترس رہے ہیں اور اگر اللّٰہ مجھے تم لوگوں سے بھی نہ نوازتا تو میں کیا کر سکتا تھا” حسین صاحب کی باتوں پہ ان سب کی آنکھیں بھیگی تھیں
“لیکن ابا پھر لوگ بیٹیوں کو بوجھ کیوں سمجھتے ہیں جس کی صرف بیٹیاں ہوں اسے ہمدردی اور ترس بھری نگاہوں سے کیوں دیکھتے ہیں؟” مریم نے بھیگے لہجے میں سوال کیا تھا
“نادان ہیں لوگ وہ یہ نہیں جانتے بیٹیاں تو رب کا تحفہ ہوتی ہیں ایسا تحفہ جس کا کوئی نعم البدل نہیں ہوتا ہمارے نبی کریم ﷺ کی نسل بھی
تو بیٹی سے چلی ہے ان کا بھی تو کوئی بیٹا نہیں تھا ان کی بیٹی تو جنتی عورتوں کی سردار ہیں اگر بیٹیاں بوجھ ہوتیں تو انہیں یہ اعزاز کھبی نہ ملتا” حسین صاحب بول رہے تھے اور وہ یک ٹک انہیں دیکھے جا رہی تھیں
“شاید اگر میرا کوئی بیٹا ہوتا تو میرا اس طرح خیال نہ رکھتا جس طرح تم لوگوں نے رکھا میرے پاس اتنا ٹائم نہیں ہوتا تھا کہ میں تم لوگوں کی تربیت کی طرف توجہ دے سکتا لیکن مریم نے چھوٹی عمر میں جس طرح تم لوگوں کو سنبھالا اور تربیت کی وہ قابلِ ستائش ہے تم لوگ میرا فخر اور مان ہو میں سر اٹھا کے فخر سے کہہ سکتا ہوں کہ میں بیٹیوں کا باپ ہوں” حسین صاحب کے لہجے میں ان سب کے لیے مان بول رہا تھا
“وی لو یو سو مچ ابا” وہ اب کورس میں کہتیں ان سے لپٹی تھیں حسین صاحب ان سب پہ اک نظر ڈالتے آسودگی سے مسکرا دیے تھے
_________________________
آج منیہا نے یونی سے چھٹی کی تھی یہ سوچ کر کے آج پورا دن بغیر کوئی کام کیے بس آرام کرے گی ویسے تو دو دن کی چھٹی کاموں کی نظر ہو جاتی تھی کیونکہ بقول نویرہ مریم کو وہ لوگ فارغ بیٹھی اچھی نہیں لگتی تھی
لیکن نگہت بیگم کی طبعیت خراب ہونے کی وجہ سے مریم اوپر چلی گئی تھی روحان آفس جاتے ہوئے حسین صاحب سے کسی کو اوپر بھیجنے کی ریکویسٹ کر کے گیا تھا آج اس کی بہت امپورٹنٹ میٹنگ تھی جس کی وجہ سے وہ آفس سے آف نہیں لے سکتا تھا
وہ سب بھی مریم کے ساتھ نگہت بیگم کی عیادت کرنے گئی تھیں پھر کچھ دیر بعد واپس آنے کے بعد نویرہ اور روش یونی اور سکول چلی گئی تھیں اور حسین صاحب سٹور سب کے جانے کے بعد زینیہ نے کچن سنھبال لیا تھا اور فاتینا نے رومز سے جھاڑو پونچھا کرنے کے بعد پورے گھر کی ڈسٹنگ کرنی شروع کی تھی
اور منیہا کے حصے میں صحن اور برآمدہ دھونے کا کام آیا تھا رات کو آئی آندھی کے بعد برآمدے کی حالت کو دیکھ کر منیہا بس خود کو کوس رہی تھی کہ اس نے چھٹی ہی کیوں کی انکار بھی نہیں کر سکتی تھی کام کرنے سے کیونکہ اس کے انکار کو کسی نے خاطر میں نہیں لانا تھا
“چلو بھئی منیہا حسین شروع ہو جاؤ تمہاری قسمت میں چین سے چھٹی گزارنا لکھا ہی نہیں ہے” کمر کے گرد دوپٹہ باندھتے وہ بڑبڑائی تھی
پھر گہرا سانس بھرتے اس نے پائپ لگایا اور جھاڑو پکڑتے اس نے برآمدہ دھونے شروع کیا تھا اور ساتھ ساتھ بڑبڑانا بھی جاری تھی اس نے ابھی صحن دھونا شروع کیا ہی تھا کہ گیٹ کی بیل بجی تھی مگر اس نے کمال اطمینان سے اسے نظر انداز کیا تھا کہ کوئی اندر سے ہی آ کے دروازہ کھولے گا
مگر تھوڑی دیر گزرنے کے بعد بھی اندر سے کوئی برآمد نہیں ہوا تھا کیونکہ انہیں معلوم تھا کہ منیہا باہر ہے جبکہ گیٹ سے باہر موجود شخصیت نے بیل پہ جوں ہاتھ رکھا پھر ہٹانا بھول گیا تھا مسلسل بجتی بیل اور کسی کو باہر آتے نہ دیکھ کر اس نے جھنھلا کے جھاڑو نیچے پٹخا اور کمر کے گرد بندھا دوپٹہ کھول کے کندھوں پہ پھیلایا اور دھپ دھپ کرتی گیٹ کی طرف بڑھی تھی
“کیا مسئلہ ہے ایسے کون بیل بجاتا ہے یا پہلی دفعہ بیل دیکھ رہو جو ہاتھ رکھ کے اٹھانا بھول گئے تھے؟” دروازہ کھولتے ہی اسے تابش کا چہرہ نظر آیا تھا جسے دیکھ کر اسے مزید تپ چڑھی تھی
“محترمہ مجھے اچھی طرح بیل بجانی آتی ہے مگر لگتا ہے آپ لوگوں نے کانوں میں روئی ٹھونسی ہوئی تھی جس وجہ سے آپ کو بیل کی آواز نہیں آئی تھی بس آپ کے کانوں تک بیل کی آواز پہنچانے کے لیے اس طرح بیل بجائی” تابش نے بھی حساب برابر کیا تھا جس پہ تلملا اٹھی تھی
“ارے بھئی لوگ لڑائی کرنے میں اتنے بزی ہیں کہ انہیں میں دیکھائی ہی نہیں دے رہی” چچی کی آواز سن کے منیہا نے حیرت سے تابش کے پیچھے جھانکا تھا جہاں چچی یعنی شکیل صاحب کی بیگم اور تابش کی والدہ کھڑی تھیں
“ارے چچی آپ میں نے دیکھا ہی نہیں آپ کو” وہ گرمجوشی سے کہتے تابش کو اک سائیڈ ہٹاتے باہر نکل کے ان کے گلے لگی تھی
“سننے کے ساتھ ساتھ دیکھنے کی حس بھی کوئی فالٹ ہو گا” تابش بڑبڑایا تھا مگر آواز اتنی ضرور تھی کہ ان دونوں کے کانوں تک بآسانی پہنچ جاتی اس کی بات پہ منیہا اور چچی دونوں نے بیک وقت اسے گھورا تھا
“مجھے گھورنا بند کریں والدہ ماجدہ اور اندر چلیں آپ دونوں گلی میں کھڑی ہیں اور یہ محترمہ بھیگی ہوئی بھی ہیں جسے فلحال آپ دونوں بھول رہی ہیں” تابش کے کہنے کی دیر تھی کہ منیہا کی نظریں جھٹ اپنے کپڑوں پہ گئی تھی اور وہ شرمندہ ہو کے رہ گئی تھی شلوار کے ساتھ قمیص بھی گھٹنوں تک بھیگی ہوئی تھی
اس نے اک چور نظر تابش پہ ڈالی تھی جو اب گیٹ کی طرف دیکھ رہا تھا اس نے چچی کو اندر آنے کا اشارہ کیا اور خود بھی شرمندہ سی ان کے ساتھ اندر داخل ہوئی تھی تابش بھی گیٹ بند کرتا ان کی تقلید میں آگے بڑھا تھا
منیہا شرمندہ شرمندہ سی آگے بڑھ رہی تھی کہ اچانک اس کی نظر کیلے کی چھلکے پہ پڑی تھی اس نے اپنی شرمندگی کا اثر ذائل کرنے کے لیے اس نے اپنی غلطی ہونے کے باوجود اس سے بدلہ لینے کی ٹھانی تھی
اس نے نامحسوس انداز میں پاؤں سے اسے پیچھے کیا تھا تابش جو اپنے دھیان میں ان کے پیچھے آ رہا تھا وہ چھلکا دیکھ نہیں سکا تھا نتیجاً پاؤں پھسلنے کی وجہ سے وہ دھڑم کی آواز سے فرش پہ گرا تھا
وہ منہ کے بل گیلے فرش پہ گرا تھا دونوں ہاتھ زمین پہ جماتے اس نے بمشکل اپنا منہ زمین پہ لگنے سے بچایا تھا کچھ گرنے کی آواز پہ چچی نے دہل کے پیچھے دیکھا تھا اور سامنے ان کا سپوت زمین کو سلامی دے رہا تھا منیہا نے بھی اپنے منہ پہ حیرت سے بھرپور ایکسپریشن سجائے تھے
“ارے تابش بھائی دیکھ کر چلتے نا کہہ تو آپ مجھے رہے تھے کہ میری نظر میں فالٹ ہے لیکن مجھے لگتا یہ مسئلہ آپ کے ساتھ درپیش ہے” اسے دیکھتے منیہا نے بھرپور فکرمندی کا مظاہرہ کیا تھا مگر آنکھوں سے شرارت عیاں تھیں تابش اسے کھا جانے والی نظروں سے گھورتے ہوئے کھڑا ہو گیا تھا
“تم ٹھیک ہو کہی لگی تو نہیں؟” چچی نے تشویش سے پوچھا تھا
“نہیں بچت ہو گی منہ زمین پہ نہیں لگا بس کپڑے خراب ہو گئے ہیں” اس نے انہیں تسلی دیتے ہوئے اپنی سامنے سے گیلی ہوئی شرٹ دو انگلیوں سے پکڑی تھی جو گیلی ہونے کی وجہ سے اس کے جسم سے چپک چکی تھی
“اچھا چلو اندر کچھ کرتے ہیں اس کا بھی” چچی نے کہا تو اس نے اثبات میں سر ہلاتے اک نظر منیہا کو دیکھا تھا جو اسے ہی دیکھتے اپنی مسکراہٹ ضبط کر رہی تھی
تابش نے منہ پہ ہاتھ پھیرتے اس سے بعد میں بدلہ لینے کا اشارہ دیا تھا اور منیہا نے سر جھٹکتے اس کی وارننگ کو ہواؤں میں اڑایا تھا وہ لوگ برآمدے میں آئے تو زینیا اور فاتینا چچی کو دیکھ کر حیران ہوئی تھیں
“ارے چچی آپ؟ اور یہ تابش کو کیا ہوا ہے؟” ان سے پوچھتے ہوئے زینیا کی نظر تابش کی گیلی شرٹ پہ پڑی تو اس نے حیرت سے استفسار کیا تھا
“اس کا پاؤں پھسل گیا تھا باہر صحن میں اور کیا میں نہیں آ سکتی یہاں؟” بتاتے بتاتے انہوں نے آخر میں خفگی کا اظہار کیا تھا
“ارے ارے میرا ایسا کوئی مطلب نہیں تھا میں بس ویسے پوچھا آپ بیٹھے میں روحان کا بھیا کا کوئی ڈریس لے کے آتی ہوں تابش چینج کر لے پھر میں یہ دھو دوں گی” زینیا نے جلدی سے وضاحت دی اور سیڑھیوں کی طرف بڑھی تھی چچی کو دیکھ کر ان دونوں بہنوں کو خوشی ہوئی تھی کیونکہ ان کی موجودگی کسی کو بور نہیں ہونے دیتی تھی اور اگر اب وہ آئی تھیں تو پورا دن رکیں گی اور یقیناً ان کا دن شاندار گزرنے والا تھا
ڈاکٹر شہباز ملک پہلا پنجابی پی ایچ ڈی
ڈاکٹر شہباز ملک پنجابی زبان و ادب کی دنیا میں ایک مشہور و معروف نام ہیں۔ وہ پاکستان میں پنجابی...