جنونِ تعمیرِ آشیاں میں نگاہ ڈالی تھی طائرانہ
جو ہوش آیا تو ہم نے دیکھا، بہ شاخِ نازک ہے آشیانہ
کوئی قرینہ نہیں ہے باقی، بھَلا ہو اے گردشِ زمانہ
کہاں وہ رندی، کہاں وہ ساقی، کہاں وہ اب مستیِ شبانہ
بتا دے ان رہ رَووں کو کوئی قدم اٹھائیں نہ عاجلانہ
سنا ہے صحنِ چمن میں ہر سو قدم قدم پر ہے دام و دانہ
جو گرم رہتا تھا خود بھی ہر دم، جو گرم رکھتا تھا دوسروں کو
مرورِ ایام کی بدولت رہا وہ دل ہو کہ سرد خانہ
غموں سے دوچار مستقل ہے، ہزار غم ہیں اور ایک دل ہے
غمِ محبت، غمِ سفینہ، غمِ مقدر، غمِ زمانہ
خوشا مقدر اگر ہو حاصل شہِ مدینہ تری زیارت
نہ ہو بھی ایسا تو فرق کیا ہے مجھے محبت ہے غائبانہ
یہی دکھائے ہمیں اب آنکھیں، ہمیں مٹانے پہ تل گئی ہے
کبھی یہ دنیا تھی ٹھوکروں میں، کبھی ہمارا بھی تھا زمانہ
ترے ہی در کا نظرؔ ہے سائل، کرم کی نظریں ہوں اس پہ مائل
تری عطائیں ہیں خسروانہ، ترا ہی دربار ہے شہانہ
٭٭٭