اگلی صبح جنت وقت پر آفس میں موجود تھی ساڑھے آٹھ کا وقت تھا وہ آٹھ پندرہ پر موجود تھی حالانکہ اسے بس سے آنا ہوتا تھا پھر پندرہ بیس منٹ کی واک پر دفتر تھا— بلکہ ٹاور تھا
“مس جنت؟” وہ ویٹنگ ائیریا میں ایک طرف کھڑی تھی کہ رسیپشن پر کوئی آئے تو بات کرے کہ اسے جانا کہاں ہے؟ جب وہی کل والا لڑکا اسکے پاس آکر کھڑا ہوگیا
“جی” جنت نے اسکی جانب دیکھا اس نے وائلٹ کلر کی شرٹ اور وائٹ جینز پر لائننگ والی ٹائی لگا رکھی تھی بازو کہنیوں تک فولڈ تھے— جینٹس پرفیوم کی خوشبو اسکے آنے سے ہوا کو معطر کرگئی تھی— بہت گھنے اور سیاہ رنگ بال تھے—کلین شیوڈ بہت امپریسو لُک تھا اُسکا “کم ود می” اس سے کہہ کر وہ مڑ گیا— ایک ہاتھ جینز کی پاکٹ میں ڈالے دوسرا یونہی لٹکائے چل رہا تھا— پورٹیبل کیبن کے پاس سے گزر کر سامنے آلیومنیم فریم اور ٹمپرڈ گلاس سے ڈیزائن شدہ خوبصورت سا آفس روم تھا اس سے کچھ فاصلے پر لفٹ تھی— جنت آس پاس دیکھتے اسکے پیچھے پیچھے چل رہی تھی—لفٹ میں سوار ہوتے اسے کل والی اپنی حرکت یاد آگئی تھی
“ہمیں ففتھ فلور پر جانا ہے یہ پی فائف اسے پریس کریں گے” اس نے بہت سارے دو کالم میں لگے بٹنوں میں سے ایک بٹن پریس کرتے کہا “یہ اوپر لکھا آرہا ہے کہ لفٹ کس فلور پر ہے” معیز نے لفٹ ڈور کے اوپر اشارہ کیا— جنت نے فقط سر ہلانے میں ہی عافیت جانی تھی— پینٹ کی دونوں جیبوں میں ہاتھ ڈال کر وہ سیدھا کھڑا تھا
“آپ کا کیبن میں دکھا دیتا ہوں— آپ وہیں پر بیٹھیں گی آج سے” لفٹ کے کھلتے ہی وہ باہر نکل گیا جنت نے بھی اسکی تقلید کی— سامنے بہت سے کیوبکل ڈیزائن کے پارٹیشنڈ کیبنز تھے– وائٹ اور چاکلیٹ کلر کا انٹرئیر بہت دلکش اور آنکھوں کو بھلا لگ رہا تھا
“آپ ایسا کریں” ہونٹوں کے گوشے وا کیے– شہادت کی انگلی سے پیشانی کھرچتے وہ کچھ سوچنے لگا– جنت اسکے چہرے پر نظریں جمائے اسکا جملہ مکمل ہونے کے انتظار میں تھی
“اچھا— ٹھیک” وہ جیسے اپنے آپ سے مخاطب تھا
“آئیں” دائیں طرف بنے کیبنز کی جانب جاتے بولا (آ تو رہی ہوں اور کتنا آؤں) جنت اسکے دو منٹ بعد آئیں آئیں کی رٹ سن کر تنگ آچکی تھی— اپنے کیبن میں آکر معیز نے جس میز پر کمپیوٹر پڑا تھا اسکا دراز کھولا اور ایک فائل نکالی “بیٹھ جائیں” جنت نے آس پاس دیکھا کوئی کرسی نہیں تھی
“کیا ہوا؟” فائل کے صفحات پلٹتے اس نے سر اٹھا کر کھڑی جنت کو دیکھا— پھر اٹھا اور کیبنز کے آخر میں ایک دوسرے پر چڑھی بہت سی پلاسٹک کی کرسیوں میں سے ایک کرسی اسکے لیے نکال کر لایا
“ایک کیبن میں ایک ہی چیئر رکھتے ہیں ورنہ ورکرز کہیں بھی بیٹھ کر باتیں شروع کردیتے ہیں” وہ خود ہی بولا– جنت خاموشی سے اسکی لائی کرسی پر بیٹھ گئی
“پہچانتی ہیں اسے؟” کمپیوٹر کی روشن اسکرین کی جانب دیکھتے اس نے جنت سے پوچھا
“پوسٹ کرون” جنت نے مکمل اعتماد سے جواب دیا
“جنت ہمارے بہت سینئر سر لغاری دوبئی شفٹ ہوگئے ہیں مارکٹنگ کا برڈن زیادہ تھا جس وجہ سے آپ کا سلیکشن ود آؤٹ اینی بونڈنگ اینڈ ہارڈ انٹرویو کے ہوگیا– آج میں ایک طرح سے آپ کا ٹیسٹ لوں گا اسکے بعد ہی ہم کوئی فیصلہ کرسکتے ہیں کہ آپ کی پوسٹ کیا ہونی چاہیے آپ کو کتنے لیول کا ٹاسک اسائن کیا جاسکتا ہے” مکمل سنجیدگی سے ایک پروفیشنل کی طرح وہ جنت کو دیکھ کر کہہ رہا تھا جنت بھی پوری توجہ سے اسکی بات سُن رہی تھی
“پوسٹ کراؤن کے علاوہ کوئی ٹول یوز کیا؟؟؟”
“بفر” جنت نے جلدی سے جواب دیا
“گُڈ” معیز نے پوسٹ کرون کو مینیمائز کر کے ایک اور ونڈو کھولی
“جب بھی آپ مارکٹنگ کیلیے نکلتے ہیں کانٹینٹ رائٹنگ ایک بہترین سکل مانی جاتی ہے کسٹمر کو متوجہ کرنے کیلیے— چلیں یہ پروڈکٹ ہے آپ کو اسکی مارکٹنگ کرنی ہے تھرو سوشل میڈیا ٹول– سٹارٹ” اس نے ماؤس جنت کی طرف کیا— اسے اپنی کرسی سے کمپیوٹر آپریٹ کرنا مشکل ہورہا تھا
“یہاں آجائیں” اس نے جنت کو اپنی کرسی پر آنے کا کہا خود اُٹھ چکا تھا اس نے جو جو کام جنت سے کروائے وہ سب اسکی جاب کی ضرورت تھے— جنت نے کچھ ٹاسکس میں اے تو کچھ میں اے ون لیکر اپنی قابلیت کا لوہا منوا ہی لیا تھا
“پیڈ ایڈورٹائزنگ کیلیے تو آپ بہت ہیلپ فل رہیں گی” باس کو جنت کی پوری رپورٹ دے کر آنے کے بعد اس نے اپنا کمنٹ دیا
“اور کانٹینٹ رائٹنگ تو آپکا پلس پوائنٹ ہے— اکسیلنٹ” اس نے انگوٹھا کھڑا کر کے دوستانہ مسکراہٹ سے نوازا— جنت بھی ہونٹ دبائے مروتاً مسکرائی— وہ ابھی تک کھڑا تھا— کلائی نظروں کے سامنے کیے وہ ٹائم دیکھ رہا تھا
“لنچ ٹائم ہوگیا ہے” ہاتھ میں پکڑی فائل اس نے میز پر رکھی اور جانے لگا پھر اُلٹے قدموں واپس مڑا
“آپ لنچ نہیں کریں گی؟” اس نے جنت سے پوچھا جو دوبارہ کمپیوٹر پر شروع ہونے والی تھی— بھوک کی تو وہ شروع سے کچی تھی مگر مسئلہ یہ تھا کہ یہاں کنٹین اسکی رینج میں تھی بھی کہ نہیں
“آج تو فرسٹ ڈے ہے آپ کا—- چھوڑیں اسے لنچ کرنے چلیں” عام سے انداز میں اس نے جنت سے اسرار کیا
“چلیں” ماؤس اسکی پہنچ سے کچھ دور رکھتے بولا تو وہ اپنا ہینڈ بیگ لے کر اسکے ساتھ چل دی— راستے میں جگہ جگہ کھڑے ہو کر وہ اپنے کولیگز سے گفتگو میں لگ جاتا اللہ اللہ کر کے وہ کنٹین پہنچے—الائچی والی چائے کی مزیدار خوشبو جنت کے نتھنوں سے ٹکرائی— اسنے لمبا سانس اندر کھینچا
“کیا لیں گی آپ؟” کاؤنٹر تک کا راستہ طے کرنے کے دوران معیز نے سوال کیا
“ایک کپ چائے” جنت جلدی سے بولی— معیز کی ہلکی سی مسکراہٹ مزید گہری ہوگئی
“ایک کپ چائے اور ایک پائن ایپل جوس” دونوں چیزیں لے کر وہ ایک ٹیبل پر آ کر بیٹھ گیا— جنت نے بھی اپنی جگہ لی— ابھی وہ ٹی بیگ ہی ڈپ کررہی تھی جب دو لڑکیاں فل میک اپ میں ان کے پاس چلی آئیں— بڑے بڑے شیفون کے دوپٹے اور سلیولس لان کی شرٹس, کیپری پجامے— آنکھوں پر موٹا موٹا آئی لائنر اور تیز پرفیوم
“ہائے معیز” دونوں یک زبان بولیں
“ہائے” بوتل کی کیپ اُتارتے معیز نے مسکرا کر جواباً کہا
“یہ کون ہے؟” ان میں سے ایک کی نظر جنت پر پڑی
“نیو انٹری؟” دوسری نے اندازہ لگایا
” مارکٹنگ کیلیے ہائیر کیا ہے” معیز بولا
“ہائے جنت” جنت نے مصافحے کیلیے ہاتھ بڑھایا— دونوں لڑکیوں سے ہاتھ ملانے کے بعد وہ پھر سے اپنی چائے کی جانب متوجہ ہوگئی— کسی بھی نئی آنے والی لڑکی کو پہلا ہفتہ تو کانفیڈنس گین کرنے میں لگ جاتا تھا مگر جنت اس معاملے میں بہت اچھی تھی اور سوشل ہونا بھی جانتی تھی— اسکو دیکھ کر لگتا نہیں تھا کہ وہ کسی چھوٹے محلے کے گورنمنٹ کالج سے گریجویشن کر کے آئی ہے— معیز نے اسکا ٹیسٹ لیا ہر جواب مکمل اعتماد سے دیا— ایک دو بار غلط جواب دے کر بھی مکمل اعتماد سے اسکی جانب دیکھتی رہی کہ معیز گڑبڑا گیا
“یہاں کا انوارمنٹ (ماحول) بہت دوستانہ ہے آپ کی جب سب سے بات چیت ہوگی تو بالکل فیملی ٹائپ لگے گا آفس” معیز نے اسے آس پاس گپ شپ میں مصروف میل فی میل ورکرز کی بےتکلفی دیکھتے کہا— وہ مروتاً مسکرائی “چلیں” اس نے چائے کا کپ خالی کردیا تھا معیز سے پوچھنے لگی اتنے میں وہ دونوں لڑکیاں اپنا لنچ لے کر ان کے پاس ہی آگئیں
“معیز بندہ ٹریٹ ہی دے دیتا ہے— آخر کو تمہاری مارکٹنگ کی ٹیم میں ایک بندے کا اضافہ ہوا ہے بندہ بھی بڑا ذہین و فطین ہے آدھا کام تو کم ہوگیا تمہارا” ان میں سے ایک نے معیز کے ساتھ والی کرسی سنبھالتے کہا— ہاتھ میں سموسوں والی پلیٹ اور کولڈرنک تھی
“کس چیز کی ٹریٹ بھئی؟؟؟ کوئی اضافی بندہ نہیں آیا رپلیزمنٹ ہوئی ہے بس” معیز اسکی جانب مڑگیا
“سو کنجوس مرے ہوں گے جب تم پیدا ہوئے”
“اس سے بھی زیادہ مرے تھے” معیز ہنسا
*************
سرخ کتھئی رنگ پر آف وائٹ کڑھائی کے پھول بنے تھے— قمیض چھوٹی تھی اور فلازو کھلا تھا کافی— شیفون کا ہم رنگ دوپٹہ بائیں طرف شانے پر پھیلا رکھا تھا دائیں شانے پر اونچی پونی سے نکلتے بال ڈال رکھے تھے— میک اپ کے نام پر کاجل اور مسکارا لگا رکھا تھا
“کیا بات ہے آج تو لوگ بڑے تیار شیار ہو کر آئے ہیں” اسے آفس آتے ایک ہفتہ ہوچکا تھا– ایمن نے بڑی شوخی سے اسے چھیڑا
“اور بجلیاں بھی گرا رہے ہیں اوئے ہوئے” حفصہ نے بھی حصہ ڈالا— جنت ان کے کمنٹس پر مسلسل مسکرا رہی تھی “Am I looking pretty???” اس نے شیفون کا دوپٹہ شانے پر درست کرتے پوچھا
“much”
حرا نے فلائنگ کِس اُچھالتے کہا یہی اسکا انداز تھا
“ہائے” جنت نے اپنی کرسی پر موجود معیز کو سلام جھاڑا جسکی اُنگلیاں ہمیشہ کی طرح آج بھی اُسی مخصوص رفتار سے کی بورڈ پر چل رہی تھیں
“اسلام و علیکم” فائل کو بند کرکے—- انٹر کا بٹن پرس کرتے اس نے سر اٹھایا مگر جھکانا بھول گیا— دوسری طرف جنت اپنی کرسی سنبھال رہی تھی اسکی نظریں نہ محسوس کرسکی— معیز نے سر کو ہلکے سے خم دیا
“باس نے ٹائم نہیں بتایا میٹ اپ کا؟؟؟” جنت نے ڈرار سے ایک یو ایس بی نکال کر سی پی یو میں لگائی
“نو بیس تک نکلیں گے” معیز نے سنجیدگی سے جواب دیا (اسے کیا ہوا ہے) جنت سوچ کر رہ گئی— وہ اس سے میٹ اپ کے حوالے سے بہت کچھ پوچھنا چاہتی تھی مگر اسکی جانب سے نولفٹ کا بورڈ دیکھ کر اپنا سا منہ لے کر رہ گئی— دراصل اسے اپنی کمپنی کی مارکٹنگ کرنی تھی رات بھر وہ سلائڈز ریڈ کرتی رہی تھی— پریکٹس کرتی رہی تھی کہ اسے کیسے بولنا ہے— کیسے ہینڈ مووز ہونے چاہیے ہیں اتنے لوگوں کے سامنے اسکا کانفیڈنس ڈاؤن نہ ہوجائے جب باس نے معیز سے اس سیشن کی بات کی تو معیز نے بلا جھجھک اسکا نام لے ڈالا کہ جنت کے ہوتے ہمیں برانڈ امبسیڈر کی کیا ضرورت ہے— جنت ہینڈل کرلے گی—پھر جنت کے نہ نہ کرنے کے باوجود اس نے اپنا روعب برقرار رکھا— ایک لمحے میں دوست بن جاتا دوسرے میں باس
“یس سر وی آر کمنگ” انٹر کام پر معیز نے کسی سے کہا پھر سلائیڈز ریڈ کرتی جنت کی جانب متوجہ ہوا
“لیٹس گو” اپنا کوٹ سیٹ کی بیک سے اٹھا کر بازو پر ڈالتے اس نے بےنیازی سے کہا— اسکے چلنے سے سنگ مرمر کے فرش پر جو دھک دھک پیدا ہوتی تھی وہ آفس میں کسی کے قدموں سے جنم نہیں لیتی تھی شاید اسکے چلنے کا انداز ہی ایسا تھا— جنت نے جلدی سے یو ایس بی اجکٹ کی اور کمپیوٹر شٹ ڈاؤن کردیا تب تک وہ جاچکا تھا جنت تیزی سے اسکے پیچھے چلنے لگی— لفٹ کے بند ہوتے ہوتے وہ غڑاپ سے اندر گھسی بلیک ڈریس پینٹ کے ساتھ لائٹ پنک شرٹ پہنی ہوئی تھی— کہنیوں تک فولڈ کف کھول رہا تھا— بلیک لائننگ والی ٹائی بہت سوٹ کررہی تھی— شرٹ کے بازو سیدھے کر کے اس نے کوٹ پہنتے نظر اٹھا کر جنت کو دیکھا جو مسلسل اسکا جائزہ لینے میں مصروف تھی اسکے دیکھنے پر خفیف سی ہو کر ادھر اُدھر نظریں دوڑانے لگی— سیاہ چمچماتی ٹیوٹا لینڈ کروزر کھڑی تھی— وہ اور معیز پچھلی سیٹ پر آبیٹھے
(اس بندے نے آج ہی پرفیوم کی پوری بوتل اپنے اوپر اُنڈیلنی تھی) اسے پرفیوم سے سخت الرجی تھی ناک پر خارش شروع ہوچکی تھی وہ بار بار شہادت کی انگلی سے ناک رگڑتی اور پھر وہی ہوا جسکا ڈر تھا
“اچھو” اس نے ہینڈ بیگ سے ٹشو نکالے— معیز نے ایک نظر اسے دیکھا
“اچھو” “چھوں” (یااللہ کہیں تو عزت بنائے رکھ) گاڑی کی خاموشی میں اسے اپنی چھینکوں کی آواز نہایت بری لگی تھی
“آر یو فائن جنت؟؟؟” اسکے باس نے فرنٹ سیٹ پر ہی بیٹھے اونچے سے پوچھا
“یس سر” وہ منمنائی ساتھ ہی خونخوار نظروں سے معیز کو دیکھا
“دور ہو کر بیٹھیں” دبی دبی آواز میں وہ جھنجھلا کر بولی تو معیز نے حیرت سے پھٹی آنکھیں اسکے چہرے پر گاڑیں “اتنا تیز پرفیوم—” “اچھو” (ناک ٹشو سے رگڑی)
“لگایا ہے آپ نے” وہ تو پہلے ہی اس سے فاصلے پر بیٹھا تھا— مزید سرک کر گاڑی کے دروازے سے چپک گیا— جنت کا بھی کچھ یہی حال تھا بلکہ اس نے چہرہ بھی کھڑکی کی جانب موڑ رکھا تھا— ڈرائیور اور باس ان کی اس عجیب سیٹنگ پر حیران ہونے کے سوا کچھ نہیں کرسکتے تھے
*************
میٹ اپ ان کی سوچ سے بھی زیادہ شاندار گیا تھا گو کہ اپنی کمپنی کو انٹروڈیوز کرواتے اسے چھینک آئی تھی مگر سوری کہہ کر ایک ڈیسنٹ سا امپریشن قائم رکھتے اس نے اپنی گفتگو حاضرین کے ساتھ جاری رکھی تھی—کراچی ایکسپو سینٹر میں یہ میٹ اپ ارینج ہوا تھا— شہر کی مشہور و معروف کمپنیز کے سوا کچھ جامعات کے فائنل ائیرز کے اسٹوڈنٹس نے بھی شرکت کی تھی کہ انہیں مارکیٹ کا اندازہ ہوسکے— نیوز رپورٹرز بھی تقریب کے حوالے سے سوالات کرتے نظر آرہے تھے— جنت نے سنا تھا کہ انسان آہستہ آہستہ سیکھتا اور حاصل کرتا ہے مگر حقیقت تو یہ تھی کہ اس نے اچانک ہی لمبی چھلانگ لگائی تھی کہاں اُس نے کبھی کسی چھوٹی سی تقریب میں سپیکنگ کی ڈیوٹی نہیں لی تھی اور کہاں اب ایک بڑی کمپنی کو پروموٹ کررہی تھی— اسے یہ ماننا پڑا کہ برانڈ امبسیڈر کیلیے آپ کا مارڈرن ہونا یا صحیح معنی میں آپ کا مغربی لباس پہننا ضروری ہے— دوسری کمپنیز کی زیادہ تر برانڈ امبسیڈرز نے ٹائٹ پینٹ کوٹ پہن رکھے تھے اور بےحد تنگ پہنے تھے— میک اپ سے لدے چہرے اور ڈائی بال, بلاک ہیلز جنت ایک ایک کو غور سے دیکھ رہی تھی جب معیز اسکے برابر آکر بیٹھ گیا— ٹانگ پر ٹانگ جماتے وہ اسٹیج پر کھڑے اسپیکر کی جانب دیکھتے بولا
“بہت اچھا بولتی ہو تم— یو ہیو آ بیوٹی فل وائز” جنت نے اسکی طرف دیکھا معیز نے اسٹیج پر سے نظریں ہٹا کر اسے دیکھا— پھر سر ہلا کر پوچھنے لگا کہ ایسے کیا دیکھ رہی ہو؟؟؟
“وائز میٹر نہیں کرتی یہاں کانفیڈنس اور انداز اہمیت رکھتا ہے اور جتنی بری طرح میں چھینکی تھی ڈیٹ واز سو امبیرسنگ–” جنت کا موڈ خراب تھا
“ایسا کچھ نہیں تھا تم فضول میں اپنے آپ کو ڈی گریٹ کررہی ہو— ہم پاکستانیوں کی آدھی ناکامی یہی ہوتی ہے کہ ہم کبھی مانتے ہی نہیں کہ یہ کام ہم نے اچھا کیا ہے— یا ہم میں یہ کرنے کی صلاحیت ہے”وہ رسانیت سے بولا
“ٹھیک ہے نو مور لیکچرز” جنت نے منہ بگاڑا
“کیا ہوا ہے— تمہارا موڈ خراب لگ رہا ہے” وہ اسکی جانب قدرے جھک کر بیٹھا دھیمی آواز میں بولا جیسے بہت اسکا ہمدرد اور بڑا ہی گہرا دوست ہو
“نتھنگ” جنت نے کرسی چھوڑ دی
“کہاں جارہی ہو؟؟؟”
“لنچ کرنے” جنت کو اس سے چھٹکارہ حاصل کرنے کا یہی ایک طریقہ سمجھ آیا
“چلو میں بھی چلتا ہوں” وہ بھی اسکے برابر کھڑا ہوتابولا (اسے کیا تکلیف ہے میرے پلو سے کیوں چپک گیا ہے) جنت نے کوفت سے سوچا مگر اس سے کچھ کہہ نہ سکی— لنچ میں ایگ نوڈلز, سنگا پوری رائز اور چکن چاومن تھا ساتھ بلیک کافی اور قہوہ جنت کا دل چاہا اپنا سر کسی دیوار میں دے مارے صبح ٹینشن میں ناشتہ بھی ڈھنگ سے نہیں کیا تھا اور ایسا کھانا زندگی میں کبھی نہیں کھایا تھا زیادہ سے زیادہ پاستہ یا نوڈلز وہ بھی دیسی انداز میں بنا کر کھالیتی تھی یہاں باقاعدہ چوپ اسٹکز پڑی تھیں اور چند چائنیز ان سے چاول کھارہے تھے اور اتنی تیزی سے کہ جنت بس دیکھ کر رہ گئی— اسٹوڈنٹس کو دیکھا تو وہ ان کاروباری افراد سے زیادہ پر اعتماد تھے اسے اپنے تعلیمی بیک گراؤنڈ پر افسوس ہوا معیز اپنی پلیٹ بنا کر اس تک آیا جو سامنے کھڑے لڑکے لڑکیوں کے ایک گروپ کو بےتکلفی سے باتیں کرتے دیکھ رہی تھی
“تم نے لنچ نہیں لیا؟؟؟” معیز کے پکارنے پر وہ فوراً متوجہ ہوئی
“بھوک نہیں ہے مجھے” اس نے بہانہ تلاشا
“ابھی تم لنچ کرنے آئی تھی اور اب دو منٹ میں تمہاری بھوک بھی غائب ہوگئی— ہوا کھاتی ہو کیا؟؟؟” اس نے اپنی پلیٹ زبردستی جنت کو تھمائی اور ایک اور پلیٹ لے کر کھانے کے میز کی طرف بڑھ گیا
“آجاؤ”
“مگر میں اتنا نہیں کھاؤں گی” جنت نے گھبرا کر کہا “زیادہ بنو مت اتنی ٹیسٹی ڈشز ہیں تم پچھتاؤ گی نہ کھا کر” اس نے جنت کیلیے کرسی کھینچی اسے بیٹھنے کا اشارہ کر کے اسکے سامنے والی کرسی پر بیٹھ گیا— آدھی تعداد لڑکیوں کی ایسی ہے جو کسی کے سامنے کھانا کھاتے شرم اور جھجھک کا شکار ہوتی ہیں— آفس جوائن کرنے سے پہلے جنت بھی ایسی ہی تھی مگر اب وہ کم از کم معیز کے سامنے بلا جھجھک کھا پی سکتی تھی “کھاؤ نا–“
“it’s delicious you should try”
وہ مزے سے ایگ نوڈلز کانٹے پر لپیٹتا کھا رہا تھا— جنت کو اس کے سامنے کھانے میں یہ ڈر لاحق تھا کہ اتنے لمبے نوڈلز اگر اسکے منہ سے لٹکتے رہے تو وہ اسکا کتنا مزاق بنائے گا “مجھے نوڈلز نہیں پسند” جنت کے کہنے پر کانٹے میں نوڈلز لپیٹتا معیز ٹہرا “اُففف سیریسلی؟؟؟ بہت بورنگ ہو یار تم— نوڈلز, پاستہ میکرونی میرے فیورٹ ہیں تمہیں یہ سب کھانا چاہیے” “آپ کے فیورٹ ہیں میرے تو نہیں نا” جنت کے تڑخ کر کہنے پر وہ سنبھلا “ہاں یہ بھی ہے” کھسیانا سا ہو کر بولا (اپنی زبان کو قابو میں رکھ معیز) اس نے اپنے آپ کو سرزنش کی “رائز ٹرائی کرو آئی ایم شیور تمہیں یہ پسند آئیں گے” جنت نے سر ہلایا پھر کانٹے سے چاول کھانے لگی— چاولوں کا ذائقہ اسے اگر اچھا نہیں لگا تو برا بھی نہیں تھا— “بس؟؟؟” دو چمچ ہی لیے تھے جنت نے جب اس نے حیران ہوتے پوچھا “ہاں” جنت نے کھانے سے ہاتھ کھینچ لیا تھا “کافی لو گی؟؟؟” اس نے پوچھا “نہیں” وہ ادھر اُدھر دیکھتی بےنیازی سے بولی (کتنے نخرے ہیں اسکے جیسے بل گیٹس کی اولاد ہو) معیز کو اسکے اتنے نخرے ایک آنکھ نہ بھائے ( کم از کم اسے ایگ نوڈلز تو کھانے چاہیے تھے سوچ لو معیز کیسے گزارا کرو گے) وہ موبائل پر مصروف جنت کو چور نظروں سے دیکھتے سوچ رہا تھا (یہ آج اتنی پیاری کیوں لگ رہی ہے؟؟؟ اگر میں اسکی تعریف کردوں تو اس میں مضائحقہ کیا ہے— شاید اسے اچھا لگے) معیز نے چاول کانٹے پر چڑھاتے سوچا “اہممم جنت” اس نے مخاطب کیا “جی” جنت نے اپنی دلنشین پلکوں کی جھالر اُٹھا کر اسے دیکھا (اوئے اُسے برا بھی تو لگ سکتا ہے) دماغ نے سرزنش کی “ہیری پوٹر پڑھی ہے؟؟؟” (میں کچھ اور بھی تو پوچھ سکتا تھا نا) “کیاااا” کس موقع پر وہ کیا سوال کررہا تھا “نہیں” اس نے نفی میں سر ہلایا “ہیری پوٹر کی پوری سیریس ہے” معیز صدمے سے چور آواز میں بولا “تو؟؟؟” جنت کی بےنیازی عروج پر تھی “تم نے دی فلاسفرس سٹون بھی نہیں پڑھی؟؟؟” اسکے منہ کے زاویے بتا رہے تھے کہ اسے زبردست شاک لگا ہے جنت ناسمجھی سے اسے دیکھ رہی تھی “اس کتاب کا اسی زبانوں میں ترجمہ کیا گیا تھا— بہت شہرت ملی تھی اس کتاب کو پانچ سو ملین کاپیاں چھاپی گئیں تھیں اسکی اور یہ تاریخ کی بیسٹ سیلنگ بُک کہلائی تھے” معیز کا بس چلتا تو زبردستی اسے ہیری پوٹر پڑھاتا “مجھے فینٹسی پسند نہیں— آئی جسٹ ہیٹ ناولز نہایت بیکار اور وقت کا ضیاع” جنت نے جانے کس جنم کی بھڑاس نکالی تھی “فینٹسی ورلڈ انسان کے دماغ کو چند لمحات کی راحت بخشنے کیلیے لکھاری تخلیق کرتے ہیں جہاں لوگ چغل خوری اور ٹی وی ڈراموں پر وقت ضائع کرتے ہیں وہاں ہم جیسے لوگ کتابوں پر ضائع کرلیتے ہیں— لکھاری اگر ہمارے معاشرے ہماری دنیا کے دائرے سے چند پل کیلیے علیحدگی اختیار کر کے کچھ فرحت بخش لکھ ڈالتا ہے تو اس میں برائی کیا ہے— حقیقت سے تو ہم سب ہی آشنا ہوتے ہیں اور فینٹسی تو نام ہی تصورات کا ہے اسکا حقیقت سے کیا مقابلہ” معیز نے اسکی بات کو سنجیدگی سے لیا تھا اور خاصا طویل جواب دیا تھا “سب کی اپنی اپنی پسند ہوتی ہے اگر مجھے نہیں پسند تو نہیں پسند— اب آپ کیا زبردستی لے جائیں گے مجھے اپنے اس فینٹسی ورلڈ میں” جنت نے برا مانتے کہا “لے جانے کا تو نہیں پتا مگر ایک بار اگر آپ میرے فینٹسی ورلڈ میں آگئیں تو واپسی کی تمام راہیں بند کرنی پڑجائیں گی— زیادہ مت سوچیں مشکل بات ہے آسانی سے سمجھ نہیں آئے گی— مجھے لگتا ہے باس آپ کو تلاش کررہے ہیں” اسکے کہنے پر جنت اپنی کرسی سے کھڑی ہوگئی پھر کچھ بھی کہے بنا فرنٹ چیئرز کی جانب چل دی (معیز اس نے تو ہیری پوٹر بھی نہیں پڑھی— دل نے منہ بسورا) *************
آج اتوار کا دن تھا وہ بہت مزے سے بالوں کو دہی انڈہ لگائے صحن میں وائپر لگا رہی تھی— پاس پڑے موبائل پر دسپسیتو چل رہا تھا— گانے میں موجود سپینش تو اسے آتی نہیں تھی تو جو منہ پر چڑھ رہا تھا گائے جارہی تھی— ابھی آدھا صحن صاف ہوا تھا کہ دروازہ بجنے لگا
“کون ہے؟؟؟” جنت نے بلند آواز پوچھا
“یہ ستار صاحب کا گھر ہے” کسی خاتون کی نرم و ملیح آواز آئی— جنت نے تھوڑا سا دروازہ کھول کر باہر جھانکا وہ بھول چکی تھی کہ مشین لگانے کیلیے اس نے بہت گھسا پٹا سوٹ پہن رکھا ہے جسکا رنگ پھیکا پڑا ہوا تھا اور وہ یہ بھی فراموش کرچکی تھی کہ اس نے سر پر انڈہ اور دہی مل رکھا ہے
“کس سے ملنا ہے آپ کو؟؟؟” جنت نے سنجیدگی سے پوچھا
“ستار صاحب کا گھر یہی ہے؟؟؟” خاتون نے پھر پوچھا
“کون ہے جنت؟؟؟” اس سے پہلے کہ وہ کوئی جواب دیتی— سبزی کی ٹوکری لیے کچن سے نکلتی امی نے آواز لگائی “امی کوئی آنٹی ہیں”
جنت انہیں اندر بلانے سے خوفزدہ بھی تھی کہ کراچی کے حالات کا سب کو پتا ہے
“دروازہ تو چھوڑو” ان کے کہنے پر وہ دروازے سے ہٹ کر کھڑی ہوگئی— انہیں اندر آنے کا راستہ دیا— خاتون کے ساتھ ایک اور عورت بھی تھی— مطلب دو خواتین– امی ان کو اندر لے گئیں جنت نے دروازہ بند کیا اور پھر سے وائپر لگانے لگی— کام مکمل کر کے وہ واش بیسن پر ہاتھ دھو رہی تھی جب حمنہ کھی کھی کرتے اسکے پاس آئی
“پتا ہے یہ آنٹی کون ہیں؟؟؟” جنت نے نفی میں سر ہلایا– حمنہ پھر دانت نکالنے لگی”
“ساسو ماں ہیں تمہاری” حمنہ نے اسکا ہاتھ پکڑتے کان میں سرگوشی نما آواز میں کہا
“کیا بکواس کررہی ہو؟؟؟” جنت نے اسے دور دھکیلا
“بابل کی دعائیں لیتی جا,جا تجھ کو سکھی سنسار ملے” ہاتھ کو مروڑ کے ماتھے پر رکھ کر اس نے مصنوعی دکھ بھرا لہجہ بنایا “میکے کی نا کبھی یاد آئے” وہ بڑے غمگین انداز میں گا رہی تھی جنت نے ایک گھونسا مارا پھر ڈرائنگ روم کے دروازے کے پاس کان لگا کر بیٹھ گئی— حمنہ اپنے موبائل سے اسکی ویڈیو بنانے لگی
“جی صرف دو ہی بیٹیاں ہیں میری” امی کہہ رہی تھیں
“میرا ماشاءاللہ ایک ہی بیٹا ہے— اکلوتا میٹرک کیا تھا اُس نے جب میرے شوہر کا انتقال ہوگیا— اللہ کا شکر ہے اُس نے اتنا حوصلہ دیا کہ میں نے اکیلی عورت نے اپنے بیٹے کی اچھی تربیت کی پڑھایا لکھایا— عقل و شعور دیا” “حوصلہ ہے آپ کا بہن جی” جنت کا پورا وجود کان بن چکا تھا
” حمنہ” اندر سے امی نے آواز لگائی
“جی امی” حمنہ فون اسکی گود میں پھینک کر اندر بھاگ گئی
“بہن کو بولو چائے لے کر آئے” انہوں نے چائے پر دباؤ ڈالا جس کا مطلب تھا کہ حلیہ درست کر کے آئے—- حمنہ مسکراتی ہوئی سر ہلا کر نکل گئی
“جائیں اپنے ہونے والے اُن کی امی جان کیلیے چائے بنائیں” حمنہ نے ایک ہاتھ پسلی پر رکھ کر اُنگلی سے اسے کھڑے ہونے کا اشارہ کیا
” ایسی چائے بناؤں گی نا کہ یہ جو کوئی بھی میرا وہ بننے کی سوچ رہا ہے نا اُس کی درگت بنے گی آج اُسکی امی کے ہاتھوں” جنت بازو چڑھاتی کچن میں گھس گئی
“ارے کیا کرنے لگی ہو خدا کا خوف کرو اتنی پیاری عورت ہے تمہاری ساس ایسی میٹھی زبان ہے کہ واہ مجھے تو چم چم گلاب جامن سب پھیکے لگنے لگے ہیں” حمنہ اسے مزید تپا رہی تھی
“یہ چائے پینے کے بعد تمہیں مرچیں بھی تیکھی نہیں لگیں گی ان کی زبان کے آگے” جنت نے چائے کیلیے پانی چڑھایا “اللہ کو مانو— مجبور عورت پتا نہیں کس کی فریاد پر آئی ہے” اسے مصالحوں والا ڈبہ کھولتے دیکھ کر جمنہ نے گھبرا کر کہا “ناٹ مائی پرابلم” جنت نے شانے اُچکاتے ثابت کالی مرچیں اُبلتے پانی میں پھینکیں حمنہ کی آنکھیں پھیل گئیں— لونگ, دار چینی, بڑی الائچی اس نے سارے گرم مصالحے اور نمک ڈال کر تھوڑی سی پتی ڈال دی—- دوکپ چائے کے نکالے اور اسی حلیے میں اندر کمرے کی جانب چل دی حمنہ سر پیٹتی رہ گئی
“اسلام و علیکم” اس نے ٹرے رکھی تھی جب وہی نرم لہجے والی عورت بولی جب کہ اسکے ساتھ موجود بھاری جسامت والی عورت تنقیدی نگاہوں سے اسکا جائزہ لینے میں مصروف تھی— امی کی کڑی نگاہوں کا سامنا کرتے اس نے بڑے ادب سے مسکرا کر جواب دیا
” کیا نام ہے آپ کا” “امی نے بتایا نہیں
” جنت نے حیران ہونے کی اداکاری کی
“ماشاءاللہ بہت پیارا نام ہے” وہ کچھ خفیف سی ہوگئیں
“میں بھی پیاری ہوں بالکل اپنے نام کی طرح” اسکی بات پر امی نے گھوری دی
“ہاں ہاں بہت پیاری ہو ماشاءاللہ”
“آپ کو اچھی لگی میں” جنت نے مسکرا کر پوچھا
“بہت” انہوں نے پیار سے اسکا گال تھپتھپایا
“سب کو ہی لگتی ہوں” جنت نے پھر انہیں شرمندہ کرنا چاہا
“اچھی بچیاں تو سب کو ہی اچھی لگتی ہیں” وہ بغیر برا مانے بولیں
” آپ چائے لیں نا” جنت نے انہیں کپ تھمایا— ساتھ دوسری عورت کو بھی پکڑا دیا
“آپ چائے نہیں لیں گی” خاتون نے امی کو خالی ہاتھ دیکھ کر پوچھا
“نہیں امی چائے نہیں پیتیں” جنت نے دھڑلے سے جھوٹ بولا اور ساتھ ہی موٹی والی خاتون نے اتنی ہی تیزی سے گھونٹ بھری چائے باہر اُلٹ دی
“اس میں تو نمک ہے” چہرے کے زاویے بگاڑ کر جنت کو دیکھا
“نہیں امی چائے نہیں پیتیں” جنت نے دھڑلے سے جھوٹ بولا اور ساتھ ہی موٹی والی خاتون نے اتنی ہی تیزی سے گھونٹ بھری چائے باہر اُلٹ دی
“اس میں تو نمک ہے” چہرے کے زاویے بگاڑ کر جنت کو دیکھا
“مم میں نے تو چچ—” (یہ فلموں میں ہی ہوتا ہے کہ ہیرو صاحب نمک والی چائے پی لیتے ہیں حقیقت میں ہمیشہ ولن ہی ٹکرتے ہیں) جنت نے کلس کر سوچا “
کوئی بات نہیں— ہوجاتی ہے غلطی” وہی نرم سا انداز جنت کو شرمندہ کرگیا—امی مسلسل اسے گھور رہی تھیں پھر ان کے جانے کے بعد جنت کی اچھی کلاس لگائی ساتھ یہ بھی بتایا کہ آنے والی خاتون اپنے بیٹے کے کہنے پر آئیں تھیں “ان کا بیٹا مجھے کیسے جانتا ہے ہمارے محلے کی تو نہیں ہیں
” جنت اُلجھی “تمہارے دفتر میں کام کرتا ہے— نام, پتا, تعلیم, خاندان, فون نمبر سب لکھ کر گئیں ہیں بہت ہی اچھی عورت معلوم ہورہی تھی— بیچاری نے بڑے وقتوں سے بیٹے کو پالا—-” اس سے پہلے کہ امی ان کی ہمدردی میں دور کہیں نکل جاتیں جنت نے ٹوک دیا
” امی کہاں لکھ کر گئیں ہیں” جنت نے ڈرائنگ روم میں صوفے کی گدیاں اُٹھاتے پوچھا
“وہاں کیا ڈھونڈ رہی ہو یہ رہا” جنت نے تیزی سے کاغذ جھپٹا اوپر ہی معیز کا نام درج تھا— جنت کی آنکھوں کے سامنے تارے ناچنےلگے—
“اس کا دماغ تو میں کل ٹھکانے لگاتی ہوں— سمجھتا کیا ہے خود کو بل گیٹس ہے جو میں اس سے شادی پر راضی ہوجاؤں گی” جنت نے کاغذ کا ٹکڑا مروڑ کر مٹھی میں دبایا
*****************
کیا حرف ع جس لغت میں ہو وہ عربی کا ہو گا؟
اردو کا ہر وہ لفظ، جس میں حرفِ "عین" آتا ہو، وہ اصلاً عربی کا ہو گا! مرزا غالب اپنے...