جنت سات پچپن پر ہی کانفرنس روم میں داخل ہوگئی تھی— پندرہ منٹ بعد اسکے باس تشریف لائے— پینٹ کوٹ میں ملبوس قیمتی برانڈد پرفیوم کی خوشبو میں لپٹے مرکزی کرسی پر بیٹھ گئے جبکہ انہیں اندر آتا دیکھ کر جنت احتراماً اپنی نشست سے کھڑی ہوچکی تھی پھر ان کے اشارہ کرنے پر روایتی مسکراہٹ لبوں پر سجاتے بیٹھ گئی
“I’ve a pleasant news for you!”
ایسے جوش و خروش سے بولے جیسے پالم جمیرا میں جنت کو ڈھائی ملین ڈالر کا ولاء خرید کر دے رہے ہوں—
“What sir? “
اب ملازمت کا سوال تھا خوشامد کرنا اسکی مجبوری تھی اُس نے دوگنا زائد پُرجوش لہجے میں دریافت کیا
“آپ کی آج ابراہیم حسین سے میٹنگ ہے—” جنت نے آنکھیں پٹپٹا کر انہیں دیکھا— کہیں وہ نیند میں تو نہیں تھے؟ ایک ملٹی نیشنل بینک کے سی ای او اور ابراہیم گروپ آف انڈسٹریز کے مالک سے اسکی میٹنگ؟
“یاہ! ” کرسی گھماتے ہاتھوں کو جوڑتے اسکی حیرت کی تصدیق کی
“سنیں مس جنت آپ ہماری ملٹی نیشنل کمپنی میں مارکٹنگ منیجر کے عہدے پر فائز ہیں اور یہی نہیں بلکہ آپ موجودہ طور پر ہماری کمپنی کی برانڈ امبسیڈر بھی ہیں— اس لحاظ سے اس میٹنگ میں آپ کا ہی کام ہے— ابراہیم حسین نے ٹاپ تھری کمپنیز سیلکٹ کی ہیں اپنے بینک ایڈز کے ساتھ ساتھ وہ ابراہیم گروپ آف انڈسٹریز کے نئے پروجیکٹ کی مارکٹنگ کیلیے بھی ایک رسپونسیبل اور ایکسپرٹ کمپنی کی تلاش میں ہے اور میں چاہتا ہوں کہ یہ دونوں پراجیکٹس ہماری کمپنی کو ہی ملیں— آپ کو میٹنگ میں اپنی کمپنی کی پروگرس بتانی ہے بس—” اسکی ہچکچاہٹ محسوس کر کے وہ اپنے مخصوص مالکانہ روعب سے بولے
“مس تحریم بھی ساتھ جائیں گی؟” جنت نے پوچھا
“اسکی ضرورت نہیں–” کہتے ساتھ وہ سیدھے ہو کر بیٹھ گئے پھر اپنی گھڑی کی جانب دیکھتے کہنے لگے
“آپ لیٹ ہورہی ہیں— ایک گھنٹے میں تیار ہو کر پارکنگ میں پہنچے طحٰہ آپ کو ڈراپ کردے گا–” انہوں نے اپنی نشست چھوڑ دی تھی—ان کے کھڑے ہوتے جنت بھی کھڑی ہوگئی وہ باہر نکلے تو اس نے گہرا سانس خارج کیا—شکل کچھ پریشان سی تھی
***************
“اگر تم اتنی ہی تنگ ذہن رہی نا جنت تو زندگی میں کبھی ترقی نہیں کرسکو گی–” اسے سفید اور مہرون رنگ کا تھری پیس سوٹ نکالتے دیکھ کر تحریم نے تیکھے انداز میں تبصرہ کیا
“اپنی پروفیشنل لائف میں آپ کو اپنی ڈریسنگ پر کمپرومائز کرنا پڑتا ہے اور وہ کہاوت تو تم نے سنی ہوگی جیسا دیس ویسا بھیس– یہاں کون سا تمہارا شوہر تمہیں دیکھ رہا ہے یا تمہارے رشتے دار جو تم اس طرح کی احمقانہ حرکتیں کررہی ہو–” چست جینز پر بمشکل کمر تک ٹی شرٹ پہنے شالڈر کٹ بالوں میں کھڑی تحریم اسے پھر لیکچر دینے لگی
“اگر اپنا قومی لباس پہننا تنگ ذہن ہونے کی نشانی ہے مس تحریم تو میں تنگ ذہن ہی رہنا پسند کروں گی— ہمارا مسئلہ پتا ہے کیا ہے؟ ہم نے کبھی اپنے کلچر, اپنی تہذیب, اپنے لباس, اپنی زبان کی خود عزت نہیں کی تو ہم کیا اُمید رکھیں کہ دوسرے ممالک ہماری ثقافت کو پسند کریں یا اپنانے کی کوشش کریں— اِس دوپٹے قمیض پر اگر آپ کو اعتراض ہے, ایک پاکستانی عورت کو تو میں کیسے اُمید رکھوں کہ اسے غیر ملکی پسند کریں گے؟ مگر قصور آپ کا بھی نہیں ہے کیونکہ جیسا دیس ویسا بھیس–” آخری جملہ انہیں کی ٹون میں ان کو واپس مارا اور تیزی سے واش روم کی جانب بڑھ گئی— اسکے پاس زیادہ لمبی تقریریں کرنے کا فی الحال وقت نہیں تھا–
تقریباً ایک گھنٹے بعد وہ پارکنگ میں موجود تھی—طحٰہ تازہ تازہ گاڑی شو روم سے دھلوا کر لایا تھا— سیاہ چمچماتی گاڑی کا دروازہ جنت کیلیے کھولا تو وہ سنجیدہ صورت کے ساتھ فرنٹ سیٹ پر بیٹھ گئی— دبئی میں گاڑی سڑکوں پر دھونے پر سخت پابندی ہے
“How are you?”
طحٰہ نے سرسری انداز میں پوچھا—
“Good”
وہ ونڈ اسکرین کی جانب دیکھتی زبردستی مسکرائی
“میٹنگ کہاں ہے؟” جنت نے پوچھا
“جمیرا ٹاورز—” طحٰہ نے مختصر جواب دیا— مزید دس منٹ کی ڈرائیو کے بعد وہ اپنی منزل تک پہنچ گئے تھے— جمیرا ٹاورز دیکھ کر یوں معلوم ہوتا تھا جیسے ایک ہی ٹاور کو دو حصوں میں تقسیم کردیا ہو— جمیرا ٹاورز دبئی کا عظیم بزنس سپاٹ مانا جاتا ہے— چارو سو کمروں, آٹھ وسیع میٹنگ ایریاز اور سپیشل ڈائننگ کی بناء پر یہ بزنس ٹائیکونس اور انڈسٹرلسٹ کی نظروں کا تارہ بنا رہتا ہے— یہ فائیور سٹار ہوٹل بزنس اور سوشل ایونٹ کیلیے آؤٹ ڈور ونیو بھی مہیا کرتا ہے— یہاں ٹہرنے والوں کو جمیرا کے پرائیوٹ بیچ اور وائلڈ وادی واٹر پارک تک مکمل رسائی حاصل ہوتی ہے—
رسیپشن پر پہنچ کر طحٰہ نے ابراہیم حسین کے انفارم کردہ میٹنگ روم کا دریافت کیا— ریسپشن بہت حسین پھولوں سے سجا ہوا تھا— آس پاس کا ائیریا آرام دہ صوفہ سیٹس اور میز کی سہولت سے مزین تھا—ریسپشن والی سمت ہی لفٹس لگی تھیں—
انہیں انتظار کرنے کا کہا گیا تو وہ بھی ایک ٹیبل کا انتخاب کرتے سیٹس پر آمنے سامنے بیٹھ گئے— جنت اپنے ارد گرد بےفکرے اور اس امیر طبقے کے لوگوں کو دیکھنے لگی— سر اُٹھا کر اوپر دیکھا تو اس منزل کی بلندی نے متحیر سا کردیا تھا— طحٰہ بھی یونہی ادھر اُدھر نظریں دوڑا رہا تھا مگر جنت کی نظروں میں موجود حسرت و رشک اسکی آنکھوں سے نہیں جھلک رہا تھا— دولت سے مرعوب ہونا ایک فطری عمل ہے مگر حقیقت کو تسلیم کرنا ایک جبری عمل اور جنت اپنے اوپر یہ جبر کرنے کو قطعاً تیار نہ تھی— پندرہ منٹ کے طویل انتظار کے بعد ابراہیم حسین کا مینجر سیاہ پینٹ کوٹ میں ملبوس ان کے پاس آیا—طحٰہ سے مصافحہ کرنے کے بعد اس نے جنت کو اپنے پیچھے آنے کا اشارہ کیا
“بیسٹ آف لک! ” طحٰہ نے اسے وش کیا تو وہ ہلکا سا مسکرائی— حقیقتاً اسکی ٹانگیں کانپ رہی تھیں مینجر کے پیچھے چلتے— ایسا لگ رہا تھا کہ ابھی اس شیشے کے مانند چمکتے فلور پر پھسل جائے گی— میٹنگ روم کے دروازے پر ٹہر کر مینجر نے اسے اندر جانے کا اشارہ کیا تو وہ بائیں کندھے پر لٹکے بیگ کے اسٹریپ پر مضبوط گرفت کرتی اندر داخل ہوئی
کریم اور سفید رنگ کا بڑا سا منفرد اسٹائل کا میز پڑا تھا جسکے اطراف میں ہم رنگ کرسیاں لگی تھیں— میز کے درمیان میں خلا تھا, ڈیزائن پتے کی مانند تھا— مرکزی کرسی کے پیچھے بلیک وال پیپر لگا تھا جس پر چھوٹے چھوٹے چکور پیلے, گرے بورڈز لگے تھے—کمرہ نہ چکور تھا نہ گول– میٹنگ روم کی ایک گلاس وال سے دبئی کی زمین پر کھڑے بلند و بالا ٹاورز نظر آرہے تھے — وہاں کوئی بھی موجود نہ تھا گلاس وال کی مخالف دیوار پر لگا ایل ای ڈی تازہ ترین خبریں سنا رہا تھا—اس لگثری میٹنگ روم کا مکمل جائزہ لینے کے بعد جنت کا اعتماد مزید کم ہوچکا تھا— ایک عجیب سا سناٹا تھا اسکے اندر بھی اور باہر بھی—
وہ ڈرتی ڈرتی ایک سیٹ پر بےآرام سی بیٹھ گئی— پانچ منٹ لگے تھے اسے اپنے آپ کو کچھ قابو کرنے میں پھر اپنے بیگ سے مینی لیپ ٹاپ اور ایک فائل نکال کر اپنے سامنے میز پر رکھی اور پانی کی بوتل تھوڑی دور کردی— اپنی نازک دودھیاں کلائی پر بندھی کریم رنگ کی رسٹ واچ کی جانب دیکھا— میز کی سطح پر مخروطی اُنگلیاں بجاتے وہ انتظار کرنے لگی—
دس منٹ , پندرہ منٹ— وہ تو اب بیٹھی بیٹھی تھک گئی تھی— اُٹھ کر شیشے کی کھڑکیوں کی جانب آگئی– باہر کھڑے بڑے بڑے ٹاورز دیکھتے مزید سات آٹھ منٹ گزر گئے— اسے باہر جا کر پوچھ لینا چاہیے اسی سوچ کے تحت وہ باہر نکلنے لگی کہ اسی وقت کوئی اندر آیا— جنت دروازے سے چند قدم دور تھی
نیوی بلیو پینٹ کوٹ کے ساتھ سفید بے داغ شرٹ پر سرخ رنگ کی ٹائی لگا رکھی تھی— گہرے کتھئی رنگ کے بال نفاست سے ایک جانب سیٹ کیے ہوئے— سفید رنگ کے ہی شوز پہن رکھے تھے— اسکا یہ اسٹائل کہیں سے اسکی بڑھتی عمر کا پتا نہیں دیتا تھا— ابراہیم حسین نے بھی اپنے سامنے سفید چوڑی دار پجامے پر گھٹنے تک آتی مہرون قمیض پہنے کھڑی جنت کو دیکھا— اونچی پونی میں قید بال اور کانوں میں جھولتی نفیس ڈیزائن کی بالیاں اس پر خوب جچ رہی تھیں—
“گڈ مارننگ—” ابراہیم حسین کہتے ہوئے جنت کے ایک طرف سے نکل کر مرکزی سیٹ کی جانب بڑھ گیا—جنت بھی اپنی کرسی کی جانب آگئی— اسکی زبان تالو سے چپک چکی تھی جبکہ ابراہیم حسین اپنا کوٹ اُتار کر سیٹ کی بیک پر لٹکا چکا تھا پھر کرسی گھسیٹ کر بیٹھتے اس نے کالر کا پہلا بٹن کھولتے اپنی ٹائی کی ناٹ ڈھیلی کی— کف چڑھاتے اب وہ بےآرام سی بیٹھی جنت کو دیکھنے لگا جو اسکی جانب ہی دیکھ رہی تھی— ابرہیم حسین نے ہاتھ کا اشارہ کرتے اسے شروع ہونے کا حکم دیا–
جنت نے سٹپٹا کر اپنا اور کمپنی کا تعارف کروایا— اب اسکا کانفیڈنس بالکل ویسا ہی تھا جیسے ایک پروفیشنل کا اپنے کلائنڈ کے ساتھ ہوتا ہے— انگریزی لب و لہجے میں مکمل اعتماد سے اس نے اپنی کمپنی کی پروگرس بتائی ساتھ ہی اسے فائل بھی تھمائی–
“you can also check our client reviews about international events marketing and promotions.”
اس نے مینی لیپ ٹاپ کی اسکرین کی جانب دیکھتے کی پیڈ پر اُنگلیاں گھماتے کہا— ابراہیم حسین اسکی مصروفیت دیکھ رہا تھا جب اس نے سر اُٹھا کر لیپ ٹاپ اسکی جانب بڑھایا— ان کے درمیان دو کرسیوں کا فاصلہ تھا— کچھ سوچنے والے انداز میں ہاتھ ہونٹوں پر رکھے کرسی گھماتے وہ لیپ ٹاپ اسکرین کی جانب دیکھ رہا تھا اور جنت اسکے بےتاثر چہرے پر اپنے لمبی تقریروں کا نتیجہ اُخذ کرنے کی کوشش کررہی تھی
“”That’s fine but…. “
وہ لیپ ٹاپ کو ہاتھ سے پرے کرتے عجیب و غریب منہ بنانے لگا— جنت کو سخت زہر لگ رہا تھا اسکا یہ اپٹیٹیوڈ— اس نے اپنے دیر سے آنے کی معذرت تک نہیں کی تھی جنت سے
“مگر کیا سر؟” جنت نے پوچھا
“آپ رفریشمنٹ لینا پسند کریں گی؟” اس نے جنت کے سوال پر اُلٹا سوال کیا مگر موضوع پلٹ دیا
“نو سر— تھینک یو” جنت نے مناسب انداز میں معذرت کرلی
“ہوں—” کرسی گھمانا چھوڑ کر اب وہ میز پر کہنیاں ٹکا کر اسکی جانب دیکھنے لگا
“آپ کبھی اپنی زندگی میں کسی سے متاثر ہوئی ہیں؟ کسی میل سے—” ایک پروفیشنل میٹنگ کے دوران اس سوال کی بھلا کیا تُک بنتی تھی— جنت اسکی شخصیت سے جتنی مرضی مرعوب ہو مگر فلرٹ کرنے والے مرد اسے زہر سے بھی زیادہ برے لگتے تھے مگر مسئلہ یہاں کانٹریکٹ حاصل کرنا تھا—
“بل گیٹس سے سر—” اس کے جواب پر وہ ہونٹ بھینچتے اثبات میں سر ہلانے لگا پھر دوبارہ کرسی کی بیک سے ٹیک لگا لی
“وجہ؟” جنت کو شدید اُلجھن ہورہی تھی اس میٹنگ کو انٹرویو میں بدلتے دیکھ کر—
“امیر لوگوں سے متاثر ہوتی ہیں؟ بلکہ امیر مردوں سے؟” اسکی جانب سے کوئی جواب نہ پا کر وہ اپنے اندازے لگانے لگا—
“اپنی ذہانت کا استعمال کر کے دنیا کی امیر ترین شخصیات میں اپنی جگہ بنانے والے سے ہر کوئی متاثر ہوگا اگر میں ہوتی ہوں تو یہ کوئی انہونی بات نہیں— ہزاروں لوگ بل گیٹس کے فین ہوں گے ان میں ایک جنت ستار بھی سہی—” اب کی بار اس نے تفصیلی جواب دیا—
“بل گیٹس کے متاثرین کی تین کٹیگریز ہیں— پہلے وہ جو بل گیٹس کی ذہانت یعنی سافٹ وئیر کی ڈگری کے بغیر اسکے مائیکروسافٹ کے بانی بن جانے کی بناء پر اسے آئیڈیلائز کرتے ہیں—دوسرے وہ جو اسکے فلاحی کاموں, اسکی خدمتِ خلق کو پسند کرتے ہیں آخر اپنی دولت میں سے اَسی کھرب سے زائد روپے فلاحی سرگرمیوں کیلیے عطیہ کرنا متاثر کن عمل ہے اور تیسرے ہوتے ہیں آپ جیسے—” اس نے ہاتھ سے جنت کی جانب اشارہ کرتے اپنی چیئر گھمائی
“بل گیٹس کی دولت کے فین, امراء و رئیس لوگوں سے متاثر ہونے والے—” وہ بول کر خاموش ہوچکا تھا– جنت نے فوراً نفی میں سر ہلایا– گلابی گلوز لگے ہونٹوں کے گوشے کچھ کہنے کو وا ہوئے تھے کہ وہ پھر بول پڑا—
“جھوٹ مت بولیے گا–” ایسے سختی سے بولا جیسے انسپیکٹر مجرم سے بولتے ہیں
“مم–میں بس ایسے ہی—مم–مطلب—” جنت اُنگلیاں مروڑنے لگی–
“سب دولت سے مرعوب ہوتے ہیں سر—پیسہ کسے اچھا نہیں لگتا— میں بھی بل گیٹس جیسی شان و شوکت بھری زندگی چاہتی ہوں بلکہ اس دنیا کا ہر انسان چاہے گا کہ اُس کے پاس بینگلو ہو, مرسیڈیز ہو, بینک بیلنس, سرونٹس, اپنا بزنس ایمپائر ہو— کون ایسے خواب نہیں دیکھتا سر؟ آپ نے بھی دیکھیں ہوں گے تبھی اُن کو ارچیو کر کے آج—” اس نے ہونٹ بھینچتے اس لگثری میٹنگ روم کی جانب ہاتھ سے اشارہ کیا—ابراہیم حسین کے ہونٹوں پر جاندار مسکراہٹ ٹہر گئی—
“ضرور دیکھے تھے مگر کھلی آنکھوں سے مس جنت!” اس عمر میں بھی وہ اتنا ہینڈسم اور شاندار مرد تھا کہ جنت کو اس کی بیوی پر رشک آرہا تھا— دولت, عزت و شہرت, شاندار شخصیت اور یقیناً ایسے بندے کا خاندان بھی مکمل ہوگا— قسمت ہو تو ایسی— جنت اپنے خیالات میں اسے خوش قسمت ترین تصور کرچکی تھی—
“اگر آپ کی کمپنی یہ کانٹریکٹ نہ حاصل کرسکی تو اس سے آپکی ذات پر کیا اثر پڑے گا؟” اب وہ جنت کی جانب نہیں دیکھ رہا تھا
“سر ایم شیور ہماری کمپنی آپ کو بہت بہترین—“
“اوں ہوں— ” اس نے نہایت بدمزہ ہوکر اسکی بات کاٹی—
“جو سوال کیا جائے صرف اُسکا جواب— انڈر اسٹینڈ؟ لمبی لمبی کہانیاں سننے کی نہ ہی عادت ہے مجھے نہ ہی وقت ہے–“
“باس جی بھر کر میری انسلٹ کریں گے پہلے پھر کسی نہ کسی بہانے سے مجھے ملازمت سے خارج کردیں گے–” جنت بہت مایوس لہجے میں انگریزی میں کہہ رہی تھی—
“سر آپ پلیز ایک بار پھر چیک کررر—” اسکے گھورنے پر لیپ ٹاپ کی جانب جاتا اسکا ہاتھ اور بولتی زبان دونوں تھم گئے—
“کانٹریکٹ میں سائن کردوں گا مگر—” اس نے جنت کی جانب دیکھتی سرد آہ خارج کی—پھر اپنے سامنے پڑے کرسٹل کے باکس سے سگار نکال کر سُلگانے لگا—
“مگر کیا سر؟” جنت نے دھیمی آواز میں ٹہر ٹہر کر پوچھا—
“Can we be friends?”
(کیا ہم دوست بن سکتے ہیں؟)
جنت کی سیاہ چمکتی آنکھیں پوری کھل چکی تھی— اس نے تھوک نگلا— زندگی میں پہلا ایسا عجیب اتفاق ہوا تھا اسکے ساتھ—
“اپنی دوست کی ترقی اور بینک بیلنس کی ڈیوٹی میری—اس پروجیکٹ کی ادائیگی میں بیس فیصد شیئرز بھی تمہارے” اس نے مسکرا کر میز پر جھکتے معنی خیز لہجے میں کہا ساتھ ہی کانٹریکٹ پیپرز بھی جنت کے سامنے رکھ دیے— جنت کب کی اسکے فضول سوالات کا جواب دیے جارہی تھی مگر اب اسکی آفر نے جنت کے جبڑے کپکپا دیے تھے
“you are taking me wrong…I’m not that type of girl”
جنت کی برداشت ختم ہورہی تھی اسکی میدے جیسی رنگت میں اب سرخی جھلک رہی تھی— یوں لگ رہا تھا پورے جسم کا خون سمٹ کر چہرے پر آگیا ہو— اس نے خوامخواہ ہی اپنا دوپٹہ درست کیا— درحقیقت ایسی صورتحال سے یہ اسکا پہلا سامنا تھا—اسکے ایک ایک تاثر کا گہرائی سے جائزہ لیتے ابراہیم حسین کے لب تمسخرانہ انداز میں پھیل گئے
“بل گیٹس کا مقابلہ کرنے نکلی ہو تو ذہانت کا استعمال کرو— تم چاہو تو میں شیئرز بڑھا سکتا ہوں— پیسوں کیلیے تو تم جیسی لڑکیاں کچھ بھی کرسکتی ہیں” سگار ہونٹوں میں دباتے جنت کا دھواں دھواں چہرہ دیکھا—اسکی آنکھوں میں پانی چمک رہا تھا—ہاتھ میں موجود پیپر اب مٹھی میں دبوچا ہوا تھا
“Enough is enough”
فائل کو ہاتھ سے پرے پھینکتے جنت غصے سے غرائی—اسکا جسم بےعزتی و ذلت کے احساس سے کپکپا رہا تھا—اسکی آنکھوں سے آنسو لڑیوں کی صورت بہہ رہے تھے
“مانا آپ بہت بڑے آدمی ہیں ابراہیم حسین مگر عزت ہر انسان کی برابر ہوتی ہے آپ کو کوئی حق نہیں بنتا مجھے یوں انسلٹ کرنے کا” یہ اسکے صبر کی حد ہی تھی بات اب عزت پر آگئی تھی وہ کیسے لب سیے بیٹھی رہتی—ابراہیم حسین نے سگار لبوں سے ہٹاتے دھویں کے مرغولے اُڑائے اسے جنت کے غصے سے جیسے کوئی فرق نہیں پڑا تھا اطمینان سے بیٹھا تھا
“چچ مجھے افسوس ہوا یہ جان کر کہ آپ جھوٹ بولتی ہیں” اپنی کرسی سے ایک شان سے کھڑا ہوتا مصنوعی افسردگی سے بولا
“ہر انسان کی عزت برابر نہیں ہوتی مس جنت— آپ کی اور میری عزت میں زمین آسمان کا فرق ہے” وہ جنت سے چند قدم کے فاصلے پر رُکتا بولا
“زمین کون ہے اور آسمان کون؟؟؟ کیا یہ بتانا پڑے گا مجھے؟؟؟” ایک ہاتھ پینٹ کی جیب میں ڈالے دوسرے میں سگار لیے وہ شخص جنت سے دولت کے حساب میں بہت اونچا تھا
“اب یہ ہی دیکھ لیں میں نے,ایک Billionaire نے آپ کو جو آفر دی ہے اگر یہ کسی عام انسان نے دی ہوتی تو آپ اب تک اسکے منہ پر دس چماٹ مار کر جاچکی ہوتیں مگر افسوس آپ پچھلے پندرہ منٹ سے میرے ہاتھوں بےعزت ہورہی ہیں
And you know what that’s the major difference between the poor and rich”
سامنے کھڑے شخص کے ہر ہر انداز سے اپنی امیری کا غرور جھلک رہا تھا—
“آپ اپنا کانٹریکٹ اپنے پاس رکھیں—” جنت درشتگی سے کہتی تیزی سے اپنا لیپ ٹاپ, فائل وغیرہ سمیٹنے لگی—اسکی ایک انکھ سے اب تک آنسو ٹپک رہا تھا—
“اپنے باس سے کیا کہوگی؟” اسکی حرکات و سکنات کا جائزہ لیتا وہ بولا
“کہوں گی کہ اپنی بیٹی کی دوستی کروا دیں آپ کے ساتھ اور حاصل کرلیں یہ کانٹریکٹ—” جنت نہایت ناگواری سے کہہ رہی تھی—رونے کے باعث اسکی آنکھوں کےپیوٹے کچھ بھاری محسوس ہورہے تھے—جنت بیگ کندھے پر ڈالتی اسکی جانب مڑی–
“تم جیسی خوبصورت لڑکی چاہے تو دن میں لاکھوں کما لے اور تم ہو کہ صرف پچاس ہزار کی نوکری کر کے مرسیڈیز, بینگلو, بزنس امپائر کے خواب دیکھ رہی ہو—ہونہہ” وہ طنزیہ مسکرایا—جنت نے تھوک نگلا کتنی گھٹیا اور سطحی گفتگو کررہا تھا وہ–
“آپ پیسے کے امیر ہیں مسٹر ابراہیم حسین مہر لیکن سوچ و تہذیب کے بہت غریب ہیں— عورت کی عزت آپ جیسے مرد کبھی نہیں کرسکتے—کبھی نہیں—“اس نے تاسف سے اسے دیکھتے نفی میں سر ہلایا—
“اپنے خواب ضرور پورے کرنا چاہتی ہوں مگر عزت و حلال کی کمائی سے نا کہ آپ جیسے رئیسوں—” جنت کو کہتے ہوئے بھی شرم آرہی تھی اور وہ اسے بڑے مزے سے آفر دینے کے بعد قائل کررہا تھا— جنت جملہ ادھورا چھوڑ کر ہی تیزی سے اسکے سائیڈ سے نکل کر باہر بھاگ گئی— بہت مشکل ہورہا تھا اسکے لیے اپنے آنسوؤں پر قابو پانا—
ابراہیم حسین محظوظ مسکراہٹ لبوں پر سجائے سُگار کے مرغولے اُڑانے لگا—اپنا سیل فون نکال کر اپنے مینجر سے رابطہ کیا— اسکے دماغ میں نجانے کیا چل رہا تھا؟
*******************
وہ نیچے آئی تو ریسیپشن کے پاس ہی ابراہیم حسین کا مینجر کھڑا تھا اسے دیکھ کر فوراً اسکی جانب بڑھا—
“آئیں میم میں آپ کو ڈراپ کردوں—” اس نے شائستگی سے کہا—
“نو تھینکس—” جنت بےرخی سے بولتی آگے بڑھ گئی تو وہ بھی ایک طائرانہ نگاہ ریسیپشن کے ویٹنگ ایریا پر ڈالتا اسکے پیچھے چل دیا–اسے ڈر بھی تھا کہ جنت کا رویہ دیکھ کر اُلٹا اس پر کوئی کیس ہی نہ بن جائے کیونکہ دبئی میں قوانین کی سخت پابندی کی جاتی ہے یہ پاکستان یا بھارت نہیں ہے کہ یہاں کسی بھی لڑکی کا پیچھا کر کے اسے ہراساں کیا جائے— دبئی جرم بعد میں بتائے گا جیل میں پہلے پھینکے گا— یہاں کے سخت قوانین ایک سسٹم تخلیق کیے ہوئے ہیں—یہاں رات گئے تک سڑک پر چلنے والے آدمی کو ڈکیتی کا خوف نہیں ہوتا, یہاں اے ٹی ایم سے کیش نکلواتا آدمی خوف زدہ نہیں ہوتا, یہاں عورتوں کے ساتھ تفریقی سلوک نہیں کیا جاتا–
“آپ نئی ہیں یہاں, آپ کو راستوں کا علم نہیں– تو مہربانی کریں—” آگے کی بات ادھوری چھوڑ کر اس نے جنت کی جانب دیکھا جس کے قدم اب سست ہوچکے تھے— پالم جمیرا پر مونو ریلز چلتی تھیں— جن کے الگ ٹریک روڈ کے اوپر بنے ہوتے تھے—یہ ڈرائیور لیس ٹرین مسافروں کو سفر کی بہترین سہولت مہیا کرتی ہے— ائیر کنڈیشنر ٹرین میں سفر کرنا دبئی کے بڑھتے ٹمپریچر میں ایک نعمت ہی ہے—ٹمپریچر کنٹرولڈ سٹی, دبئی کے حکمران شیخ محمد بن راشد المکتوم کے مستقبل کے منصوبوں میں شامل ہے کیونکہ یہاں موسم گرم و خشک رہتا ہے اور بارش بھی کبھی کبھار موسم سرما میں ہوتی ہے تو وہ ایک ایسا بڑا مال تیار کرنے کا خیال رکھتے ہیں جہاں ائیرکنڈیشن سڑکیں ہوں گی–
دبئی میں قدرتی دریا ایک بھی نہیں ہے مگر یہاں کے Man Made Island دبئی کی ترقی و انفرادیت میں بہترین کردار ادا کرتے ہیں— پالم جمیرا ایک ٹاپو نہیں ہے بلکہ درخت کی صورت میں ایک مصنوعے جزیرے پر دنیا آباد کی گئی ہے—دبئی کے شیخ کا دماغ ہمیشہ زیادہ منافع اور منفرد ساخت پر سوچتا رہتا ہے— اگر یہ ایک درخت کہ بجائے گول ہوتا تو محض اسکے کناروں پر ہی گھر تعمیر کیے جاسکتے تھے مگر اب اسکے ایک ایک پتے پر دونوں سمتوں پر ولاز موجود ہیں جن کی مالیت کروڑوں میں ہے—یہی نہیں بلکہ بڑے بڑے ہوٹلز, ٹاورز یہاں قائم کیے گئے ہیں—دبئی کے شیخ نے بنجر زمین پر ایسی عمارتیں تعمیر کی ہیں کہ سالانہ کروڑوں کی تعداد میں سیاح یہاں کا رُخ کرتے ہیں اور یہ برج خلیفہ, برج العرب ایسے ہی اس کچی ریت پر نہیں کھڑے انہیں روزانہ پانی چاہیے ہوتا– دو لاکھ گیلن لیٹر پانی تو روز صرف برج خلیفہ کو ہی چاہیے ہوتا ہے جو دنیا کا سب سے بڑا ٹاور ہے—اس کیلیے ایک بہترین واٹر منیجمنٹ سسٹم تعمیر کروایا گیا اور زمین سے ہی پانی نکالا گیا—
جنت سَم ویئر پہنچ کر سیدھا اپنے روم میں پہنچی تھی— اسے بےتحاشا غصہ آرہا تھا بلکہ ایک بےبسی سی محسوس ہورہی تھی کہ اُس شخص کی ہمت کیسے ہوئی اسے اتنی گھٹیا آفر کرنے کی—
اُس نے کیا سوچ کر جنت کو یہ پیشکش کی؟ اسکا لباس, اسکا انداز کہاں سے وہ اِسے ایسی لڑکی لگی تھی—تحریم کمرے میں نہیں تھی تبھی وہ کھل کر اپنے آنسو بہا سکتی تھی— یہاں کوئی معیز نہیں تھا اسکے رونے کی وجہ پوچھنے والا, اسکے آنسو پونچھ کر پیار سے سمجھانے والا—ابھی وہ سوچ ہی رہی تھی کہ بیڈ پر پڑا اسکا سیل فون چیخنے لگا— معیز کالنگ دیکھ کر اس نے جلدی سے کال اٹینڈ کی–
“ہیلو! ” دوسری جانب سے معیز کی آواز آئی—جنت کچھ بولنے کی پوزیشن میں نہیں تھی مگر کال اب اُٹھا چکی تھی تو بولنا تو تھا ہی—
“جنت؟ ہیلو؟”معیز کی آواز ایک بار پھر فون اسپیکر میں اُبھری
“اسلام و علیکم!” جنت نے آنسوؤں پر قابو پاتے بمشکل سلام کیا
“کیا ہوا ہے؟ تم رو رہی ہو؟” وہ فوراً پہچان گیا تھا حالانکہ اس نے آواز بہتر کرنے کی کوشش کی تھی–
“نن—نہیں وہ–” جنت نے گال رگڑے–
“جنت کیا ہوا ہے؟ کوئی پرابلم ہے؟ مجھے تمہاری آواز بتا رہی ہے تم روئی ہو یا رو رہی ہو–بتاؤ کیا بات ہے؟” معیز نے سنجیدگی سے پوچھا—ذرا سی بھی ہمدردی پا کر آنسو مزید بہنے لگتے ہیں—جنت کے ساتھ بھی یہی ہوا تھا—
“آآ— آپ کی, گھر کی یاد آرہی تھی–” آنسوؤں کے درمیان بولی—دوسری جانب اپنے آفس روم میں اپنی چیئر پر بیٹھے معیز کے لب مسکرائے—
“تو کال کرلیتی—چلو اسکائپ پر بات کرتے ہیں–” اس نے فوراً حل ڈھونڈ نکالا—
“نہیں آپ ابھی آفس میں ہیں–“
“تم کہو تو گھر چلا جاتا ہوں—بہانے بہت ہیں میرے پاس آف لینے کے” وہ شرارتی انداز میں کہہ رہا تھا—روتے ہوئے بھی اسے ہنسی آگئی—
“آپ نے کیوں کال کی اس وقت؟”
“ہاں وہ میں نے تمہارے اکاؤنٹ میں کچھ مَنی ٹرانسفر کروائے ہیں پلیز اپنے لیے شاپنگ کرلینا میں نہیں چاہتا سیونگ کے چکر میں بعد میں تم پچھتاؤ کہ کچھ خریدہ نہیں دبئی مال سے—میں حفصہ لوگوں سے بات کروں تمہیں دبئی مال لے جائیں گی؟” اس نے ساتھ ہی اپنے جاننے والے گروپ میں سے ایک لڑکی کا نام لیا جو ان کے ساتھ آیا تھا—
“میرے اکاؤنٹ میں پیسے تھے مجھے شاپنگ کرنا ہوتی تو میں وہاں سے کرلیتی—“
“ہاں مگر وہ تمہارے پیسے تھے اور مجھے علم ہے تمہاری کنجوسی کا–” وہ بگڑ کر بولا–
“آپ کیلیے کیا لاؤں؟” وہ مدھم آواز میں بولی—
“مجھے تمہارے اور مما کے سوا زندگی سے کچھ نہیں چاہیے— دبئی مال سے کیا مانگوں؟” اسکے جملے میں پیار, محبت, اُلفت سب تھا–
“بس جلدی سے آجاؤ— مجھ سے تو کل تک کا انتظار بھی نہیں ہورہا—” وہ سرد آہ بھرتے بولا—ان کی کل صبح چار بجے کی فلائٹ تھی—
“میں بھی گھر کو بہت مِس کررہی ہوں–” جنت اپنی قمیض کے دامن پر اُنگلی پھیرتی بولی—
“اور مجھے؟” معیز نے پوچھا
“گھر میں دو ہی تو بندے ہیں–” وہ اپنی مسکراہٹ چھپاتی بولی—
“تم بہت خراب ہو— کبھی تو سیدھا اظہار کردیا کرو—” وہ ہنس دیا—
“اچھا سنو ابھی ایک میٹنگ میں جانا ہے رات میں کال کروں گا— اوکے؟” اس سے اجازت چاہی—
“ٹھیک ہے— اللہ حافظ” جنت نے رابطہ منقطع کردیا—
***************
دوپہر تین بجے کا وقت تھا جب تحریم کے ہلانے پر اسکی آنکھ کھلی—اس نے مندی مندی آنکھیں کھولتے اسے دیکھا جو ہمیشہ کی طرح ویل ڈریس کھڑی تھی—
“باس نے کنفرنس روم میں بلوایا ہے پندرہ منٹ کے اندر اندر تیار ہو–” اسے باس کا حکم سنا کر وہ ڈریسنگ مرر کے پاس کھڑی ہو کر اپنے بالوں سے پنیں نکالنے لگی—یقیناً کانٹریکٹ ان کی کمپنی کو نہیں ملا ہوگا— باس کتنا ذلیل کریں گے اسے— جنت کے سر میں درد شروع ہوچکا تھا—اسے اب اپنا یہاں آنا سراسر گھاٹے کا سودا معلوم ہورہا تھا—
“ہری اپ! ” اسے یونہی بیٹھے سوچ میں ڈوبے دیکھ کر تحریم نے کہا—مرتی کیا نہ کرتی کے مصداق اسنے اٹھ کر چینج کیا—
سفید کاٹن کے ٹراؤزر کے ساتھ پیرِٹ کلر کی کاٹن کی کھلی کُرتی اور سفید شیفون کے دوپٹے میں بالوں کو چھوٹے سے کیچر میں قید کیے— دھلے چہرے کے ساتھ وہ کانفرنس روم میں داخل ہوئی جہاں سب اس سے پہلے ہی موجود تھے—اسکے پیچھے ہی تحریم بھی اندر داخل ہوئی—اپنی اپنی نشستیں سنبھالنے کے بعد وہ سب مرکزی کرسی پر براجمان اپنے باس کو دیکھنے لگے—
“آج ہم نے اپنی worst competitor کمپنی کو پیچھا چھوڑ دیا ہے اور اس سال کا بہترین کانٹریکٹ سائن کروالیا ہے— میں خاص طور پر مس جنت کو اس کانٹریکٹ کا کریڈٹ دوں گا جنہوں نے نہ صرف ہماری کمپنی کو پروموٹ کیا بلکہ ایک بہترین مارکٹنگ مینجر ہونے کا ثبوت بھی دیا ہے— ابراہیم حسین جلد از جلد اپنے بینک کے نئے تکنیکی نظام کو متعارف کروانا چاہ رہے ہیں—بھارت, پاکستان, دبئی, ملائیشیا اور بھی کئی ممالک کی کمپنیز کے ساتھ کانٹریکٹ کیے ہیں جو ان کو مارکٹنگ میں سپورٹ کریں گی اور پاکستان کی کمپنیز میں سے اُنہوں نے ہماری کمپنی سیلکٹ کی ہے—” جنت کو سمجھ نہیں آرہی تھی کہ یہ شخص اسکے ساتھ کیا گیم کھیل رہا ہے؟ فی الحال وہ اپنی حیرت کسی پر عیاں نہیں کرنا چاہتی تھی—
“مس جنت آپ کی فلائٹ کینسل کروا دی گئی ہے— کیونکہ تمام کمپنیز کے مارکٹنگ مینجرز کی ایک گرینڈ میٹنگ ارینج کرنی ہے—تب تک آپ کو یہاں سٹے کرنا ہوگا—جس دن میٹنگ ہوگی میں اُسی دن یہاں پہنچ جاؤں گا—” جنت پر ایک اور بم گرا تھا—اسکے ہونٹوں کے گوشے ان کی ٹکٹ کینسل کرنے والی بات پر ہی کھل چکے تھے—
“مگر سر—“
“آپ کا ٹہرنا لازمی ہے ابراہیم حسین چاہتے ہیں کہ وہ اپنے پلانز آپ کے ساتھ ڈسکس کرلیں تا کہ بعد میں آپ اپنی ٹیم کو اچھے سے گائیڈ کرسکیں اور ویسے بھی یہ بہترین موقع ہے فیس ٹو فیس کمیونکیشن کا, اپنے کلائنڈ کے آئیڈیاز کلیکٹ کرنے کا اور اُسکی ڈیمانڈز جاننے کا—” جنت کی بات حلق میں ہی اٹک گئی تھی— جبکہ وہ اپنی کرسی سے کھڑے ہوگئے—
“دیٹس آل—تھینک یو– ” جنت بھی فوراً کھڑی ہوئی—
“سر میرا جانا بہت ضروری ہے اور میں اکیلی یہاں نہیں رہ سکتی—” جنت جلدی سے بولی—باس نے نہایت غصیلے انداز میں اسے گھورا—
“ابراہیم حسین کا مینجر آپ سے کانٹیکٹ کرلے گا جہاں اور کمپنیز کے امپلائز سٹے کررہے ہیں آپ کو بھی وہیں ڈراپ کردیں گے— اینڈ ون تھنگ آپ کوئی اسکول گرل نہیں ہیں— یو آر آ پروفیشنل ورکنگ لیڈی تو اپنا اٹیٹیوڈ ٹھیک کریں—کمپنی اپنا بجٹ لگا کر آپ کو یہاں کام کیلیے لائی ہے سر و تفریح کیلیے نہیں کہ دل بھر گیا تو مجھے جانا ہے—” لفظوں سے زیادہ ان کا لہجہ انسلٹنگ تھا—جنت سر جھکائے کھڑی تھی—
“مس تحریم آپ شام کو پانچ بجے مجھے جوائن کریں—کچھ ڈسکشن کرنی ہے—اور کسی کو کوئی پرابلم؟” جنت کو سنانے کے بعد اب دوسروں سے مسائل پوچھے جارہے تھے—
“نو سر—” سب کے انکار میں سر ہلانے پر وہ کانفرنس روم سے نکل گئے—
************
کیا حرف ع جس لغت میں ہو وہ عربی کا ہو گا؟
اردو کا ہر وہ لفظ، جس میں حرفِ "عین" آتا ہو، وہ اصلاً عربی کا ہو گا! مرزا غالب اپنے...