جنت نے شاپنگ کیا کرنی تھی اسکا تو بی پی ہی لو ہوچکا تھا— ایسے لگ رہا تھا جیسے ماں دو سال کے بچے کو تیز ٹریفک روڈ پر چھوڑ کر چلی جائے—
وہ اسکی ذمہ داری ایک ایسے آدمی کو دے رہے تھے جو آج اسے نہایت گھٹیا آفر دے چکا تھا—کمرے میں اِدھر سے اُدھر چکر لگاتے وہ بار بار اپنی پیشانی مسل رہی تھی—
“اب کون سی مصیبت رہ گئی ہے جو مجھ پر نازل نہیں ہوئی—” اس نے چھت کو گھورتے انتہائی کوفت بھرے انداز میں کہا—
“اب معیز سے کیا کہوں گی؟” سب سے بڑی پریشانی تو اسکی ہی تھی
“جہنم میں جائیں سب, آگ لگے کانٹریکٹ کو, مرے ابراہیم حسین–” جنت نے مزید بھڑاس نکالی— کمرے میں کوئی نہیں تھا یہی اچھا موقع تھا— پہلے اس نے سوچا فون کر کے انفارم کردے مگر پھر اسکے آفس میں ہونے کے خیال سے اپنا ارادہ ترک کردیا—کافی دیر بےدلی سے ایل ای ڈی پر چینل سرچنگ کرتی رہی پھر اُٹھ کر اپنی پیکنگ کرنا شروع کی–
شام ڈھلے ساڑھے چھ پر تحریم روم میں داخل ہوئی—
“ہم دبئی مال گھومنے کا پلان کررہے تھے—طحٰہ اور مجھے شاپنگ کرنی تھی تم چلوگی؟” اس نے دوستانہ لب و لہجے میں اس سے پوچھا—
“چلو نا تم انجوائے کروگی وہ دنیا کا سب سے بڑا مال ہے—اور وہاں تعمیر انڈر واٹر زوو تو بہت مشہور ہے–” تحریم کے اسرار پر جنت راضی ہوگئی–
دبئی مال کی انٹرنس قابلِ دید تھی— بڑے بڑے گول کُھلے گملوں میں پھول لگے تھے ایک قطار میں ہی کافی سارے پڑے تھے—باہر سے بلڈنگ سنہری تھی—دبئی مال رقبے کے لحاظ سے دنیا کا سب سے بڑا جبکہ خرید و فروخت کے حساب سے چھبیس نمبر پر آتا ہے—- بارہ سو سے زائد دکانوں اور ایک سو بیس کے قریب ریسٹورینٹ/کیفے اور بائیس سنیما اسکرین کے ساتھ یہ دبئی میں سیاحت کو فروغ دینے میں اعلٰی کردار ادا کرتا ہے— دوہزار بارہ میں دبئی مال کو دنیا کا سب سے زیادہ وزیٹ کرنے والے مال کا اعزاز ملا تھا—نیو یارک میں تقریباً پچاس ملین افراد نے دوہزار بارہ میں وزٹ کیا جبکہ پینسٹھ ملین نے— اور یہ تعداد آنے والے سالوں میں بڑھتی رہی—
مال کے اندر داخل ہوتے ہی انہیں اندازہ ہوگیا کہ یہ مال کتنے بڑے رقبے پر پھیلا ہوا ہے— جبکہ باہر پارکنگ میں چودہ ہزار گاڑیاں باآسانی جگہ بنا سکتی تھیں—
“شاپنگ سے پہلے انڈر واٹر زوو دیکھنا ہے— کہیں ٹکٹ زیادہ مہنگا نہ ہو–” تحریم کا تو بس نہیں چل رہا تھا آتے ساتھ انڈر واٹر زوو میں گھس جائے—
“چلو پھر پہلے وہیں چلتے ہیں—” ایک سو بیس درہم کا ٹکٹ تھا جو پاکستانی کرنس کا تقریباً پانچ ہزار تھا—کرنسی ان کی طحٰہ پہلے ہی تبدیل کروا لایا تھا— جنت نے ان سب کے سامنے تو منع نہیں کیا–آخر عزت کا سوال تھا لیکن اتنا مہنگا ٹکٹ اسے رونے پر مجبور کررہا تھا—ٹکٹ لے کر وہ لائن میں لگ گئے—عمارت کے اوپر نیلے رنگ میں اکیوریم اینڈ انڈر واٹر زوو لکھا تھا—اسی رنگ کی مچھلی بھی بنی تھی—
دو ہزار بارہ میں اس واٹر زوو کو ایوارڑ بھی دیا گیا تھا—انڈر واٹر زوو میں تقریباً تین سو سمندری جانوروں کی اقسام موجود تھیں جن میں شارک بھی تھی— ایسا معلوم ہوتا تھا جیسے کسی غار میں گُھس گئے ہیں اور سر اُٹھا کر دیکھو تو سمندر میں مچھلیاں تیر رہی ہیں—اس غار نما سیدھے راستے سے گزر کر وہ اندر کھلے حصے میں داخل ہوگئے—بہت سے سمندری جانور دیکھتے وہ انہیں سراہ رہے تھے—تصویریں اُتار رہے تھے—طحٰہ سے جنت نے اپنی ڈھیر ساری تصویریں اپنے سمارٹ کے کیمرے میں قید کروائیں—اب اسے ٹکٹ کے پیسوں پر افسوس نہیں ہورہا تھا—
مال میں گھومنے والوں کی تفریح کیلیے ایک ڈائنوسور بھی تھا—چوبیس میٹر لمبا اور سات میٹر اونچا—
“طحٰہ میری ایک تصویر لو—“جنت نے فوراً اپنا موبائل اسے تھمایا
“بس جنت کا ٹریولنگ البم ریلیز ہونے والا ہے–” سر لغاری نے مذاق اُڑایا–جنت کو مطلق پرواہ نہیں تھی— پھر ایک ریسٹورینٹ میں ڈنر کرکے وہ خوب تفریح کر کے رات گئے تک لوٹے تھے—ان سب نے ائیر پورٹ کی تیاری پکڑی جبکہ سر لغاری کا ذمہ جنت کو دوسری منزل پر منتقل کرنا تھا—
**************
سِم وئیر سے سات منٹ کی ڈرائیو پر ڈلمون پیلس ہوٹل تھا— یہ ہوٹل ہرگز بھی دبئی وزٹرز کیلیے مہنگا نہیں تھا—بزنس کیلیے آنے والے افراد ایک رات سٹے کا تین ہزار کے قریب قریب بھرتے ہیں—یہ ہوٹل وائی فائی, نائٹ کلب, بار , ریسٹورینٹس کی سہولت سے مزین تھا—سر لغاری اسے ریسیپشن پر سے کیز لے کر دے چکے تھے—
“آرام سے رہو– میٹنگ دو تین دن بعد ہی ممکن ہے—کسی بھی چیز کی ضرورت ہو یا کوئی پریشانی سب سے پہلے مجھے بتانا ہے اوکے؟” وہ نہایت مخلص لہجے میں کہہ رہے تھے—
“اگر کہیں باہر گھومنے وغیرہ کا پلان ہو یا باہر کھانے کا تو اکیلے مت جانا مجھے بس ایک مسیج کردینا اور یہاں بار کی جانب تو بالکل نہیں جانا–” وہ اسے اچھے سے ہدایات دے رہے تھے–
جنت نے ان کی تمام باتیں سُن کر سر ہلادیا—
“چلو اپنا خیال رکھنا—” سر لغاری اسے خدا حافظ کہتے چلے گا—
جنت اپنے کمرے میں داخل ہوئی چھوٹی سی گیلری میں ایک جانب واش روم تھا—آگے کھلا کمرہ تھا—بیڈ پر سفید بیڈ شیٹ بچھی تھی اور گلابی کمفرٹر پڑا تھا—روم میں اے سی بھی چل رہا تھا—پیچ رنگ کا دو سیٹر صوفہ بیڈ کے ساتھ والی دیوار کے پاس پڑا تھا اور بیڈ کے سامنے لکڑی کا آئرن میز تھا—ایل ای ڈی بھی موجود تھا—براؤن پردے اور ہلکے نیلے رنگ کا کارپٹ بچھا ہوا تھا—جنت نے سب سے پہلے اپنا سفری بیگ ایک طرف رکھ کر کھولا اور سادہ سا سوٹ نکال کر واش میں چل دی—گرے اور سفید ٹائلز سے واش روم جگمگا رہا تھا—
****************
دبئی میں واٹس ایپ بینڈ تھا وہ سب مسینجر سے ہی رابطے میں تھے—ابراہیم حسین کے مینجر کا پیغام آیا تھا اسے صبح دس بجے تک پارکنگ میں آنے کا کہا گیا تھا–معیز کی بھی بےتحاشا کالز آئیں ہوئیں تھیں, مسیجز بھی تھے-جنت نے اسے کال بیک کیا—تیسری بار کال پِک کرلی گئی تھی—
“کہاں ہو تم؟ میں پوری رات ائیر پورٹ پر بیٹھا رہا ہوں رات کو بھی کالز کیں مگر کوئی جواب نہیں— تمہیں میری پریشانی کا اندازہ ہے؟” وہ غصے و پریشانی میں کہہ رہا تھا—
“مم— معیز وہ—“
“وہ کیا؟” معیز تقریباً چیخا–
“ایکچوئلی باس نے سٹے بڑھا دیا ہے—وہ میٹنگ–” جنت ابھی بول ہی رہی تھی کہ کال کاٹ دی گئی
“ہیلو؟ ہیلو؟ معیز؟” اس نے گہری سانس لی اور دونوں ہاتھوں میں سر گرا لیا—دس منٹ بعد اس نے دوبارہ کال کی مگر دوسری جانب آف لائن آرہا تھا—دو تین بار مسلسل کال کرنے پر بھی کوئی جواب نہیں آیا—جنت اُٹھی اور فریش ہونے چل دی
جنت کو یہی لگا کہ سارا گروپ وہاں اکٹھا ہوگا مگر وہاں اسکے سوا کوئی نہیں تھا— مینجر نے کار اسکے سامنے روکتے ونڈو کا شیشہ نیچے کیا تاکہ جنت اسکی شکل دیکھ سکے–
“باقی گروپ میمبرز کہاں ہیں؟ اور ہمیں جانا کہاں ہے؟” جنت کار میں نہیں بیٹھی تھی ونڈو سے اندر چہرہ کرتے پوچھنے لگی—
“مجھے صرف آپ کو کانفرنس روم تک پہنچانے کا آرڈر ہے اسکے سوا میں کچھ نہیں جانتا— ” کھرا جواب آیا مگر اس نان پروفیشنل انداز نے جنت کو تپا دیا تھا—غصے سے گاڑی میں بیٹھتے ٹھک سے دروازہ بند کیا—
آج پھر وہ جمیرا ٹاورز کے اُسی میٹنگ روم میں ابراہیم حسین کا انتظار کررہی تھی اور اپنے ملازم ہونے کا احساس شدت سے اسکے دل میں جاگ رہا تھا کاش اسے نوکری سے زیادہ اپنی عزتِ نفس کی فکر ہوتی اگر وہ نوکری چھوڑ بھی دیتی تو اس نے بھوکے نہیں مرنا تھا نہ اسکے بچے فاقے کاٹتے مرجاتے—بیس منٹ کے انتظار کے بعد اسے دروازہ کھلنے کی آواز آئی—جنت نے اپنے دونوں ہاتھ اچھے سے مروڑے—
“گُڈ مارننگ!” جب جنت اس سے کانفرنس میں ملی تھی تب اسکے بال , مونچھیں سیاہ تھیں— شاید اس نے بال ڈائی کروائے تھے—سیاہ پینٹ کوٹ میں وائٹ شرٹ پہنے سیاہ ہی ٹائی لگا رکھی تھی—
“مارننگ! ” جنت نے ناگواری چھپائی نہیں تھی—
“کیسی ہیں آپ؟” سنجیدگی سے پوچھا
“اگر ہم مارکٹنگ کے حوالے سے آپ کی ڈیمانڈز جان لیں تو کام جلد از جلد مکمل ہوجائے گا اور یقیناً آپ کا وقت بھی بچے گا—” جنت بھی جواباً سنجیدہ مگر تیکھے لہجے میں بولی—
“مجھے آپ سے معذرت کرنی تھی—کل ہماری جو بھی گفتگو ہوئی وہ بالکل بھی ارادتاً نہیں تھی—” وہ سر جھکائے بالکل نرسری کلاس کے بچے کی طرح بیٹھا تھا جو ٹیچر کی ناراضگی سے خوفزدہ ہوتا ہے–جنت نے گہرا سانس لے کر ادھر اُدھر دیکھا—
“I apologize for that!”
اسکی جانب سے کوئی جواب نہ پاکر وہ سر اُٹھا کر اسکی طرف دیکھتا بولا—
“ہمیں اس موضوع پر گفتگو ترک کر کے کام شروع کرنا چاہیے سر—” جنت اپنا لیپ ٹاپ کھولتی بولی—
“مطلب آپ نے میری سوری ایکسپٹ نہیں کی؟” وہ اسکی اسکرین پر جھکی پلکوں کی جانب دیکھتا بولا—ہلکے گلابی و جامنی پرنٹ کے کاٹن کے مکمل لباس میں وہ بہت پُروقار و دلکش دِکھ رہی تھی—
“آپ خفا رہیں گی تو ہم کام کیسے کریں گے؟” وہ ہلکا سا مسکرا کر بولا جنت نے سر اُٹھا کر اسے دیکھا—
“سر ہم اپنے رشتے داروں و دستوں سے خفا ہوتے ہیں—کلائنڈز سے نہیں—” جنت نے سہولت سے اسکی بات ٹالی—
“ٹھیک ہے پھر ہم تین بجے ملتے ہیں کیونکہ آپ کے اس موڈ کے ساتھ ہم صحیح طرح کمیونکیٹ نہیں کرسکتے اور ڈسکشن کا تو سوال ہی پیدا نہیں ہوتا—” وہ کرسی چھوڑ کر کھڑا ہوچکا تھا اسکا انداز اب بالکل ایک رئیس زادے جیسا تھا— اکڑو و مغرور—اپنا کوٹ سیٹ کی بیک سے اُتارتا وہ یہ جا وہ جا—جنت کا منہ کچھ کہنے کو کُھلا کا کُھلا ہی رہ گیا— عجیب آدمی تھا جنت کا دل چاہا اپنا سر کہیں مار دے— کس مصیبت میں پھنس گئی ہے
***************
پورا دن ایک کمرے میں قید رہنا بہت مشکل تھا— جنت نے پہلے تو ابراہیم جسین کے بارے میں معلومات اکٹھی کی جو اسے پاکستان کی امیر ترین شخصیات کی لِسٹ میں بہت آسانی سے مل گئی—جو جدی پُشتی امیر تھا تبھی ایک ملٹی نیشنل بینک کا سی ای او ہونے کے ساتھ ساتھ اس نے ابراہیم گروپ آف انڈسٹریز کی بھی بنیاد پندرہ سال پہلے ڈالی تھی—وہ چالیس کا نہیں چھیالیس (46) سال کا تھا— اسکے بہت سے انٹرویوز بھی انٹرنیشنل میگزین کی زینت بنے ہوئے تھے— اسکی تصویریں دیکھ کر جنت کو وہ کوئی ماڈل ہی لگتا تھا—بہت کم لوگ بڑھتی عمر میں اپنی پرسنیلٹی مینٹین رکھ سکتے ہیں اور ایک انٹرویو میں اسکی صحت کی جانب سے بھی سوال کیا گیا تھا—جس پر اس اپنی پراپر ڈائٹ اور کثرت سے پانی پینے کا ذکر کیا تھا–
جنت کو بہت تلاشنے پر بھی اسکے حوالے سے کوئی سکینڈل نہیں ملا تھا نہ ہی کوئی ذاتی معلومات یا خاندان کے کسی فرد کا ذکر—
پھر اس نے اپنی نالج بڑھانے کو ڈوکیومنٹریز دیکھنا شروع کردیں—فلمیں,ڈرامے, گانے یہ سب اسے پسند نہیں تھا حالانکہ پاکستان کا ہر دوسرا بچہ یہ سب سنتے دیکھتے ہی جوان ہوتا ہے—دوپہر تین بجے اسے پھر آدھے گھنٹے میں پارکنگ میں پہنچنے کا پیغام آیا—
بالوں کی اونچی پونی بنا کر اس نے پنک گلوز لگایا, آنکھوں میں کاجل ڈالا اور کپڑے تبدیل کر کے اپنے روم کو لاک لگا کر نیچے آگئی—اپنی دودھیاں کلائی پر بندھی راسٹ واچ پر ٹائم دیکھتے وہ اِدھر اُدھر نظر دوڑانے لگی جب ایک سیاہ رنگ کی بی ایم ڈبلیو تیزی سے اسکے پاس آکر رُکی—جنت منہ میں ہی بڑبڑاتی پیچھے ہو کر کھڑی ہوگئی—گاڑی کا شیشہ نیچے ہوئے
“کم آن مِس جنت! ” ابراہیم حسین نے اسے اندر بیٹھنے کا اشارہ کیا— ساتھ ہی کار ڈور کا لاک اوپن کیا—جنت تو اسے یہاں دیکھ کر ہی شاکڈ میں تھی فوراً عمل نہیں کرسکی—
“ہیلو! ” اس نے ہاتھ ہلایا تو جنت سٹپٹا کر جلدی سے گاڑی میں بیٹھ گئی— گاڑی میں اے سی چل رہا تھا مگر ننھے ننھے موتی جنت کی پیشانی پر چمکنے لگے تھے–
ایک اتنا امیر شخص اسے پِک کرنے آیا تھا مگر کیوں؟
ابراہیم حسین بےنیازی سے ڈرائیونگ کی طرف متوجہ تھا—
“آپ نے بلاوجہ زحمت کی میں کیب لے کر آجاتی— اگر آپ مجھے لوکیشن بتادیتے تو—” تقریباً پانچ منٹ بعد گاڑی میں اسکی آواز گونجی—
“کیوں میرا آنا آپ کو اچھا نہیں لگا؟”اس نے ذرا کی ذرا گردن موڑ کر اسے دیکھا—
“نن—نہیں I didn’t mean that” وہ جلدی سے بولی—
“اگر میں کہوں کہ آپ جھوٹ بول رہی ہیں تو؟” جنت کو بڑی اُلجھن ہوتی تھی اسکی بات میں سے بات نکالنی والی عادت سے—
“مجھے کوئی پرابلم نہیں ہے آپ آئیں یا آپ کے ماتحت مگر آپ پر سوٹ نہیں کرتا اپنے امپلائی کو پِک کرنا—” اس نے نارمل سے لہجے میں کہتے ونڈو سے باہر دیکھنا شروع کردیا–
“اگر میں آپ کو صرف اپنا امپلائی سمجھتا تو کبھی آپ کو پِک کرنے نہیں آتا—” وہ ونڈ اسکرین کی جانب دیکھتا ہی بولا—
“لیکن میں آپ کو صرف اپنا باس سمجھتی ہوں نتھنگ ایلس! ” جنت اب کی بار کچھ سختی سے بولی—
“اہمم– آپ ضرورت سے زیادہ روڈ نہیں ہورہیں؟” اس نے گردن موڑ کر جنت کو دیکھا جو ہاتھ گود میں رکھے ونڈ اسکرین کی جانب دیکھ رہی تھی—
“سوری! “جنت دھیمی آواز میں بولی تو ابراہیم حسین کے لبوں پر جاندار مسکراہٹ ٹہر گئی بلکہ وہ ہنسنے لگا–جنت کو سمجھ نہیں آئی وہ کیوں مسکرا رہا ہے؟ پانچ منٹ مزید خاموشی رہی—وہ جمیرا سے آگے جارہے تھے—جنت باہر کے نظاروں سے لُطف اندوز ہورہی تھی—
“میوزک پسند ہے آپ کو؟” اس نے جنت کی طرف دیکھتے کہا— اس نے نفی میں سر ہلایا وہ کچھ نروس سی لگی تھی اسے—
“ہم کہاں جارہے ہیں؟”جنت نے باہر دیکھنا ترک کردیا—ابراہیم حسین نے کوئی جواب نہیں دیا جیسے سنائی ہی نہ دیا ہو–عجیب آدمی تھا—جنت نے بھی دوبارہ نہیں پوچھا— گاڑی میریکل گارڈن کی پارکنگ میں کھڑی کرتے ابراہیم حسین نے اسے باہر نکلنے کا اشارہ کیا— وہ حیران کُن سی باہر نکلی جہاں مختلف ممالک کے لوگ آ جا رہے تھے—دبئی میں سب سے زیادہ تعداد بھارتیوں کی اور پاکستانیوں کی ہے اسکے بعد بنگلہ دیشی, فلیپینز اور امریکنز کی یہاں دبئی کے لوگ مطلب اماراتی صرف ستراں فیصد ہیں—
“آؤ—” ابراہیم حسین نے پہلے سے خریدی گئیں ٹکٹس چیک کروائیں اور اسے لیے اندر بڑھ گیا مطلب وہ پہلے سے یہاں آنے کا پلان کرکے آیا تھا— جنت کو سمجھ نہیں آرہی تھی کہ اتنی خوبصورت جگہ پر آکر وہ خوشی کا اظہار کرے یا اسکے یوں بن بتائے یہاں لانے پر غصے کا–
“ہم یہاں کیوں آئے ہیں؟” جنت نے کوشش کی تھی اپنا لہجہ سخت رکھنے کی مگر ا ابراہیم حسین ایک امیر آدمی ہے اور فلحال وہ اسکے انڈر کام کررہی ہے یہ بات اسے مقابل سے سخت لہجے میں مخاطب نہ ہونے دیتی—وہ لوگ مکمل چھتریوں سے ڈھکی راہداری میں کھڑے تھے—راہداری کے دونوں کنارے پھول لگے تھے—
“اس سے بہترین جگہ مجھے پورے دبئی میں نہیں ملی جہاں کھڑے ہو کر میں اپنے بی ہیویر کیلیے تم سے apologize کرسکوں– ” پھولوں سے ڈھکی راہداری میں وہ بالکل ایک دوسرے کے آمنے سامنے کھڑے تھے—وہ اس سے قد میں اونچا تھا جنت چہرہ اوپر کیے اسے دیکھ رہی تھی جب ابراہیم حسین نے کوٹ کی اندرونی پاکٹ سے ایک خوبصورت سفید گلاب نکال کر اسکے سامنے کیا—
“I apologize for hurting you! “
وہ جنت کے چہرے پر نظریں جمائے بولا جو ہلکی ہلکی سُرخی لیے ہوئے تھا—گہرے نیلے رنگ کی چکن کی شرٹ کے ساتھ سفید ٹراؤزر اور دوپٹہ میں وہ کچھ پریشان سی لگ رہی تھی—
“سس–سر آآ—پ–” جنت ہاتھ اُٹھائے کچھ کہنے کی کوشش کررہی تھی مگر کہہ نہ سکی—
“میں نے کبھی اپنے کسی امپلائی سے سوری نہیں کیا جنت—” وہ اب بھی گلاب کا پھول پکڑے کھڑا تھا جسے جنت نے آہستگی سے لے لیا–اسکی اُنگلیاں ابراہیم حسین کی اُنگلیوں سے مِس ہوئیں تھیں جنت نے چہرے پر آتے بال پیچھے کیے—
“Thank you!”
وہ مسکرایا— جنت اور وہ اب ساتھ ساتھ راہداری سے گزر رہے تھے
“اب تو آپ خفا نہیں ہیں نا؟” اس نے سامنے دیکھتے ہی دریافت کیا
“خفا تو نہیں مگر آپ کی آفر مجھے بہت بری لگی تھی ایون مجھے اندازہ نہیں تھا کہ ابراہیم گروپ آف انڈسٹریز کا مالک مجھ سے اس قسم کی گفتگو کرسکتا ہے—” اس نے سر جھکاتے گلاب کی پتیوں پر اُنگلی پھیرتے کہا—
“بس کئی بار ہوجاتا ہے آپ کی ایک ہی فارمولا ہر بندے پر اپلائی کرنے کی کوشش کرتے ہیں—خیر میں نے جو بھی کہا اُسے بھول جائیں—” اب کی بار اس نے جنت کی جانب دیکھا تو وہ مسکرائی—
دبئی میریکل گارڈن کو دنیا کے سب سے بڑے قدرتی پھولوں کا باغ ہونے کا اعزاز حاصل ہے—یہ دوہزار تیرہ میں کُھلا تھا—باغ میں پچاس ملین پھول اور ڈھائی سو ملین پودے لگے ہیں— یہ صرف اکتوبر سے اپریل تک کے مہینوں میں کھلتا ہے دوسرے مہینوں میں زیادہ گرمی کے باعث اسے بند رکھا جاتا ہے—
وہ لوگ باغ میں گھومتے باتیں کرتے آئسکریم بھی کھاچکے تھے—مارکٹنگ کے حوالے سے اس نے پہلے جنت سے اُسکی سٹرگلنگ کا پوچھا جسے جنت نے مختصر سا بتایا پھر ابراہیم حسین نے بینکنگ کے نئے نظام کے حوالے سے اپنے پلان بتانا شروع کیے بھیج میں موضوعِ گفتگو بدل بھی جاتا تھا—
گارڈن میں بڑی سی پھولوں کی ائیر بس جسے جہاز بھی کہہ سکتے ہیں کو دیکھ کر جنت نے واؤ کے انداز میں منہ کھولا–
“کتنا خوبصورت ہے یہ سب, میں نے اتنا بڑا پھولوں کا باغ آج تک نہیں دیکھا— دِس از ونڈر فُل—” باغ میں صرف جہاز ہی نہیں بڑے بڑے مکی ماؤز , بطخیں اور دوسرے کارٹون بھی پھولوں سے بنے تھے—
“اس ائیر بس کو سب سے بڑے فلاور سٹریکچر کی بناء پر Guinness book of world record میں بھی شامل کیا گیا ہے—” ابراہیم حسین نے بتایا—
“یہ ہے بھی تو اتنا بڑا—” جنت اُس چھوٹے بچے کی طرح بولی جو پہلی بار ائیر پورٹ پر جہاز دیکھنے جاتا ہے– ابراہیم حسین نفی میں سر ہلاتا مسکرایا—
“چلیں؟” اس نے جنت سے پوچھا
“مگر ابھی ہم نے پورا تو گھوما نہیں ہے–” جنت دور سے نظر آتے سورج مکھی کے پھولوں کو دیکھتی بولی
“گارڈن بہت بڑا ہے تم تھک جاؤ گی— ” وہ نرمی سے بولا
“بس اُس طرف سے ہو آتے ہیں پھر چلیں گے–” اس کے اسرار کرنے پر وہ اُس طرف بھی گھوم آئے—واپسی پر بھوجن ریسٹورینٹ آگئے جو کہ بالکل گارڈن کے قریب تھا— کیونکہ جنت نے اسے بتایا تھا وہ چائنیز, اٹالین, امریکن کھانے نہیں کھاتی–ریسٹورینٹ کا کھانا واقع ہی لذیذ تھا—اسے بیف مٹن بھی نہیں پسند تھا یہ بات بھی ابراہیم کو آرڈر کرتے پتا لگی—
“بہت سستا کھانا کھاتی ہو تم—” ابراہیم حسین نے وائٹ رائز , وجیٹیبل اینڈ چکن سلاد کے ساتھ لیے تھے— جنت جو مٹکے والی بریانی کھول رہی تھی سر اُٹھا کر اسے دیکھنے لگی—
“معیز بھی یہی کہتے ہیں اگر وہ ابھی ہوتے تو میں کسی چائنیز ریسٹورینٹ میں بیٹھی ہوتی—“وہ بےدھیانی میں پُرجوش انداز میں بولی—اس دوران ان کے درمیان تھوڑی بےتکلفی جنم لے چکی تھی—
“معیز؟”ابراہیم حسین نے بریانی پلیٹ میں نکالتی جنت کو دیکھا
“My husband!”
جنت سرسری انداز میں بولی—ابراہیم حسین مسلسل بےفکر سی جنت کو دیکھ رہا تھا
“کک–کب ہوئی آپ کی شادی؟” اس نے اپنے لہجے کو نارمل بنانا چاہا تھا– مگر اگلا چاولوں کا چمچ اس سے نگلا نہیں گیا
“ہمم فار فائیو منتھس—” جنت نے سوچ کر بتایا—
“اتنی جلدی کیا تھی شادی کی؟” وہ ہلکے سے مسکرا کر پلیٹ میں کانٹا ہلاتا بولا
“مجھے کہاں تھی امی ہی پیچھے پڑی تھیں—” وہ بگڑے منہ سے بولی— اسکا انداز اب بالکل کالج گرل جیسا تھا بےفکر, لاپرواہ جو سختی و ناگواری ابراہیم کیلیے پہلے اسکے انداز میں تھی وہ بالکل مقفود ہوکر رہ گئی تھی—
“ویری بیڈ— ایک تو مجھے سمجھ نہیں آتی یہ پاکستانی فیملیز اپنی گرلز کو گرو کیوں نہیں کرنے دیتیں؟ پہلے ہی انہیں ایسے ریلیشن میں باندھ دیتے ہیں کہ وہ نہ اپنے بارے میں سوچ سکیں نہ ترقی کرسکیں— دنیا چاند پر پہنچ جائے گی مگر ان کی سوچ وہی چار دیواروں سے ٹکریں مارتی رہے گی— میں تو کبھی غلطی سے پاکستانی نیوز چینل لگا لوں تو تین دن ڈپریس ہی رہتا ہوں— عورتوں کو تو وہاں کے مرد انسان ہی نہیں سمجھتے—عورتوں کے ساتھ گھٹیا و تفریقی سلوک کرنے والا چھٹا ملک ہے پاکستان—کین یو امیجن؟” ابراہیم حسین نے جھرجھری لی—جنت اب کھانا چھوڑ کر اسے ہی دیکھ رہی تھی—
“ایم شیور تمہارے ہَبی نے بھی بہت کوشش کی ہوگی تمہیں گھر میں قید کرنے کی—“
“you know what jannat these typical pakistani men can never seen their women to be succeed.”
وہ فوک کو پلیٹ کے کنارے پر رکھ کر ٹیبل کی طرف جھکا جنت کا پُرسوچ چہرہ دیکھ رہا تھا—
“یہ خود تو وہ آسائشیں اپنی بیویوں کو دے نہیں سکتے اور جب وہ خود اپنی تلاش میں کھڑی ہوتی ہیں تو ہاتھ پیر توڑنے کے ڈراوے دے دیتے ہیں— ہونہہ” وہ اب دوبارہ کھانے میں مصروف ہوگیا—
“معیز بہت اچھی نیچر کے ہیں— ” وہ زبردستی مسکرائی—
“ایم شیور وہ ایسا ہی ہوگا آفٹر آل اتنی پریٹی, چارمنگ وائف کے ساتھ کوئی سختی سے بات بھی نہ کرسکے—اور جب تم روتی ہو—” وہ اسکی جانب دیکھ کر گہری مسکراہٹ ہونٹوں پر لاتے آنکھیں بند کرگیا جیسے کوئی منظر یاد کررہا ہو–
“پلیز کسی کے سامنے اپنے آنسو کبھی مت بہانا—” جنت نے ناسمجھی سے اسے دیکھا— معیز بھی اسکے رونے پر تڑپ جاتا تھا
“سیریسلی بہت دکھ ہوتا ہے تمہیں دیکھ کر جیسے کوئی بہت اپنا ہو–“آخری الفاظ اس نے مخمور لہجے میں کہے—جنت نے پلکیں جھکا کر کھانے کی طرف توجہ دینا شروع کردی—
“اور کچھ نہیں بتاؤ گی اپنے ہَبی کے بارے میں؟ ویسے اُس نے تمہیں فری ہینڈ دیا ہوا ہے کافی, تبھی تو دبئی آنے دیا—” وہ دوبارہ سے کھانے میں مصروف سرسری سا پوچھ رہا تھا—
“ضد کرنا پڑتی ہے پھر کہیں جا کر اجازت ملتی ہے—” جنت بریانی کھاتی افسردگی سے بولی
“Exactly! Trust issue”
وہ طنزیہ ہنسا—
“تنگ نظری میں پاکستانی مردوں نے پوری دنیا کو پیچھے چھوڑ دیا ہے—” وہ اپنی رائے مسلسل دے رہا تھا—
“آپ بھی تو پاکستانی مرد ہیں—” جنت اچانک ہی بولی تھی—
“Hahah I’m far different from them–“
(میں اُن سے بہت مختلف ہوں–)
“پاکستان کے ایک سوشل, ویل ایجوکیٹڈ طبقے سے بلانگ کرتا ہوں— ہم ایلائٹ کلاس والے اتنا چھوٹا ذہن نہیں رکھتے—” وہ اب کی بار کچھ سخت لہجے میں بولا تھا جنت نے کوئی ردِ عمل ظاہر نہیں کیا—ریسٹورینٹ کا انٹریئر سفید اور سنہری رنگ کا تھا جبکہ پردے ہلکے رنگ کے تھے—کھانا کھانے کے بعد ابراہیم حسین نے بِل ادا کیا اور باہر گاڑی میں آ بیٹھے—
“تم پہلے کبھی دبئی آئی ہو؟” اس نے گیر لگاتے پوچھا— جنت نے نفی میں سر ہلایا—
“چلو تمہیں دبئی کی سب سے خوبصورت اور اپنی پسندیدہ جگہ پر لے کر جاتا ہو–” وہ مسکرایا— گاڑی کو ٹرن دیا—
“رات ہوگئی ہے—“
“رات میں ہی وہاں مزہ آتا ہے–” اس نے جنت کی بات کاٹ دی—
“لیکن—“
“میرے ساتھ ضد لگانے کی کوشش بھی نہیں کرنا—” وہ روعب جمانے والے انداز میں بولا—
*****************
دبئی میں دنیا کا سب سے بڑا فاؤنٹین ڈانسنگ شو بالکل برج خلیفہ, دنیا کے سب سے بڑے ٹاور کے سامنے دیکھنے کو ملتا ہے—یہ سسٹم تین سو ایکڑ مصنوعی جھیل پر تعمیر کیا گیا ہے–
یہاں مکمل اندھیرا چھایا ہوا تھا— فوارے اپنے مخصوص انداز میں رقص گری میں مصروف تھے—ہلکا ہلکا عربی میوزک پرسکون فضا میں ارتعاش برپا کررہا تھا—آہستہ آہستہ روشنیاں بڑھنے لگیں—فانوس جلنے لگے—
“It’s mesmerizing!”
گرِل پر ہاتھ رکھے جنت تیزی سے رقص کرتے فواروں کو دیکھتے مدھم آواز میں بولی جو اسکے بالکل پاس کھڑے ابراہیم حسین نے بخوبی سنی تھی—
“it’s beautiful!”
جنت فواروں کو پانچ سو فٹ کی بلندی پر شوٹ کرتا دیکھ کر معصومانہ مسکان کے ساتھ پرجوش انداز میں بولی–
“Not more than your smile–“
ابراہیم حسین اب جنگلے سے کمر لگا کر اسکے چہرے کی جانب دیکھ رہا تھا— جنت کی مسکراہٹ پل بھر میں غائب ہوئی تھی—
“Don’t try to flirt with me–“
جنت نے اسکی جانب دیکھتے سنجیدگی سے ٹوک دیا پھر دوبارہ فاؤنٹین ڈانسنگ شو دیکھنے میں مصروف ہوگئی—
“اتنی خوبصورت مسکراہٹ اور اتنی دلنشین آواز میں نے آج تک نہ دیکھی ہے نہ سنی ہے—” اسکی جانب ہلکے سے جھک بولا تو جنت کے گلابی ہونٹ کھکھلائے
“سچ کہہ رہا ہوں—” جنت کے شکی انداز پر دیکھنے پر وہ مسکرا کر بولا—جنت اب کی بار سر جھکائے مسکرائی—
مرد جانتا ہے عورت کو شیشے میں کیسے اُتارنا ہے— سب سے پہلے وہ آپ کے خدوخال کی تعریف میں زمین آسمان ایک کرے گا—آپ کی معمولی سے معمولی چیز کی بھی تعریف کرے گا جیسے دنیا و کائنات کا سارا حُسن ساری ادائیں آپ میں ہیں اور عورت خوش فہمی کے آسمان پر یوں اُڑنے لگتی ہے جیسے کوئی مغرور پرندہ آسمان کے سینے پر پروان بھرتا زمین کا راستہ بھول جاتا ہے پھر اِسکو بس ٹھوکر ہی واپس لاسکتی ہے–
“آؤ پکچر لیتے ہیں—” ابراہیم حسین نے اپنے کوٹ کی پاکٹ سے جدید سمارٹ فون نکالا پھر سیلفی لینے لگا—ایک سیلفی کے بعد اس نے برا سا منہ بناتے موبائل جنت کو پکڑایا پھر اپنا کوٹ اُتار کر اسکے ایک بازو پر ڈالا—اپنی آستینیں چڑھائیں
“اب اچھا لگ رہا ہوں؟ ایک خوبصورت, ینگ لڑکی کے ساتھ سیلفی لیتے inferiority complex کا شکا ہورہا ہوں–” اس نے پہلے جنت سے پوچھا پھر خود ہی مسکراتے ہوئے کہنے لگا—
“آپ اب بھی ینگ ہی لگتے ہیں—” جنت نے تعریف کی—
“تم کہتی ہو تو مان لیتا ہوں— ” وہ اسکے برابر کھڑا ہوتا بولا—دونوں نے پیچھے گرِل سے ٹیک لگا رکھی تھی—جنت کا کندھا اسکے بازو سے مِس ہورہا تھا—ابراہیم حسین نے اس منظر کو اپنے قیمتی سمارٹ فون میں قید کر لیا— پھر وہاں ایک آدمی سے بھی گزارش کر کے اس نے اپنی اور جنت کی بہت سی تصویریں اُتروائیں–اسکا کوٹ اب تک جنت کے بازو پر لٹک رہا تھا—
ابراہیم حسین اسے ہاٹل ڈراپ کر کے واپس چلا گیا تھا— اس تمام عرصے میں ایک بےتکلفی سی ان کے درمیان پیدا ہوچکی تھی جس میں بڑا ہاتھ ابراہیم حسین کا تھا وہ ایک پل کو خاموش نہ ہوتا اور ہر بات پر اسے رائے دینے کو بھی اُکساتا—جنت تھکی ہاری اپنے روم میں داخل ہوئی آدھا گھنٹہ یونہی سوشل میڈیا اکاؤنٹس چیک کرتی سستی سے لیٹی رہی پھر چینج کیا اور آکر معیز کو کال ملائی—وہ آف لائن تھا—جنت نے اسے ڈھیرا سارے سوری کے مسیجز لکھے—یہاں ٹہرنے کی مجبوریاں بھی لکھ ڈالیں—رونے والے اموجی بھیجے وہ پورا گھنٹہ اس سے رابطہ کرنے کی کوشش کرتی رہی مگر دوسری جانب سے ایک بھی جواب نہیں آیا— موٹے موٹے آنسو جنت کی سیاہ آنکھوں میں بھرنے لگے— لمبے خوشگوار دن کا اختتام بہت اُداس کُن تھا—
آنسو لے کر آیا ہوں الفاظ نہیں
اب تو کہہ دو تم مجھ سےخفا نہیں
***************
کیا حرف ع جس لغت میں ہو وہ عربی کا ہو گا؟
اردو کا ہر وہ لفظ، جس میں حرفِ "عین" آتا ہو، وہ اصلاً عربی کا ہو گا! مرزا غالب اپنے...