جنت کل یہاں آئی تھی اور آتے ساتھ ابراہیم حسین کے دیے گئے ایک روم میں بند ہوگئی تھی— زندگی نے ایسے موڑ پر لا کر کھڑا کردیا تھا کہ وہ سوچنے پر مجبور ہوگئی تھی کہ ابراہیم حسین کا ساتھ ہی اسے ہر مشکل سے نکال سکتا ہے— واپسی کا تو سوال ہی پیدا نہیں ہوتا تھا—
ابراہیم حسین کی دھمکی اور معیز کا اس پر شک کرنا دونوں ہی واپسی کے راستے کی بڑی رکاوٹ تھیں—
صبح آٹھ بجے کا وقت تھا جب وہ اپنے روم سے باہر نکلی جو گراؤنڈ فلور پر تھا—ابراہیم حسین چاکلیٹ براؤن پینٹ کوٹ اور سفید شرٹ میں ملبوس ایک ہاتھ میں اپنا لیپ ٹاپ بیگ لیے سیڑھیاں اُتر رہا تھا وہ کافی تیزی میں لگ رہا تھا—
اسکا رُخ ڈائننگ روم کی جانب تھی جہاں پہلے سے اسکا اکلوتا سپوت سہل ابراہیم سکون سے بیٹھا اپنے بریک فاسٹ کا انتظار کررہا تھا مگر یہ تو طے تھا کہ اس نے اپنے باپ کو سکون نہیں کرنے دینا تھا—جنت بھی چھوٹے چھوٹے قدم اُٹھاتی ڈائننگ روم کی جانب بڑھنے لگی—
“اگلے ماہ سے تمہاری پاکٹ منی بند—ایک روپے بھی میں اب تمہارے اکاؤنٹ میں ٹرانسفر کروانے والا نہیں–” ابراہیم حسین کے غصے سے مجال ہے جو اسے ذرا بھی فرق پڑا ہو ویسے ہی بائیں ٹانگ پر رکھی دائیں ٹانگ کا پیر جھلاتا رہا,سیب کھاتا رہا—
“میں تم سے کچھ پوچھ رہا ہوں سہل—ایک دن میں تم نے بیس لاکھ اُڑا دیے؟ میں تمہارے آوارہ اور عیاش دوستوں کیلیے نہیں کماتا—” یہ ایک دن کا قصہ نہیں تھا وہ یونہی پیسہ پانی کی طرح بہاتا تھا—ابراہیم حسین کو مکمل نظرانداز کرتے وہ سامنے سے نظر آتے ملازم کو پکار کر بولا
“دین چاچا میرے لیے فریش جوس لے آئیں—” ابراہیم حسین نے لیپ ٹاپ بیگ میز پر پٹخا—
“سرونٹس کو اُن کی اوقات میں رکھا کرو—ان دو ٹکے کے ملازموں سے رشتے داریاں بنانے کی ضرورت نہیں ہے کتنی بار سمجھایا ہے تمہیں—“
“یہ مشورہ تو میں آپ کو بھی دے سکتا ہوں—” وہ خاموش کھڑی جنت کی جانب دیکھ کر بولا جو کب سے ان کی تکرار سُن رہی تھی—
“شٹ اپ سہل! ” ابراہیم حسین غصے سے دھاڑا—
“آپ سے تیئس چوبیس سال چھوٹی ہے, میرڈ ہے—جسٹ تھنک اباؤٹ اِٹ ڈیڈ—” اس نے اپنے ماتھے پر اُنگلی مارتے کہا
“اور تم؟ شیم آن یو!” وہ اب جنت کی جانب اشارہ کرتے کہہ رہا تھا جسکا چہرہ پہلے ہی ذلت و اہانت کے سبب سُرخی جھلکا رہا تھا
“اپنے ہسبینڈ کو چھوڑ کر جس محل میں رہنے آئی ہو نا چار دن صرف چار دن لگیں گے یہاں کے مالک کا تم سے دل بھرنے میں—” وہ نفرت بھرے لہجے میں کہہ رہا تھا—
“سہل! ” ابراہیم حسین نہ صرف دھاڑا تھا بلکہ ایک زور دار چماٹ بھی اسکے گال پر دے مارا تھا—سہل بےیقینی سے اپنے رخسار پر ہاتھ رکھے سامنے کھڑے غصے سے گھورتے ابراہیم حسین کو دیکھ رہا تھا پھر جنت کو دیکھا اور کرسی کو لات رسید کرتا سیڑھیاں چڑھنے لگا مگر سیڑھیوں کے کنارے پڑی لمبی میزوں پر رکھی صراحیاں گرانا نہیں بھولا تھا—یہ علامت تھی اسکے شدید غصے کی—
ابراہیم حسین جنت کی جانب مُڑے جو ایک تلخ نگاہ ان پر
ڈالتی واپس اپنے روم کی جانب چل پڑی—
اتنی تذلیل,اتنی بےعزتی! جنت کا دل چاہ رہا تھا کوئی زہر کا پیالہ لادے اسے— وہ کسی طرف کی نہیں رہی تھی—ابراہیم حسین کی دھمکی اسے یہ سب کرنے پر مجبور کررہی تھی—اگر واقع ہی اُس نے معیز کو کوئی نقصان پہنچا دیا تو وہ تاعمر خود کو معاف نہیں کرسکے گی— اس شخص کے ساتھ رہتے جنت کو معلوم بھی نہیں چلا کب وہ سانسوں کی طرح اس میں بسنے لگا تھا اور وہ ہمیشہ اسے ایک رشتہ سمجھتی آئی تھی آج حالات نے بتادیا تھا کہ معیز سے اسکا روح کا رشتہ ہے اور یہ رشتہ ہر کاغذی رشتے کے ٹوٹنے جانے کے باوجود بھی قائم رہے گا کاش یہ بات ابراہیم حسین سمجھ سکتا—
وہ کافی دیر بیڈ کے کنارے بیٹھی آنسو بہاتی رہی تھی—مگر کب تک؟ کب تک وہ ابراہیم حسین کی دھمکیوں اور ڈراوے میں رہ کر بےوقوفیاں کرتی رہے گی؟
شاید سہل اسکی کوئی مدد کرسکے—اس خیال کے تحت وہ کمرے سے باہر نکلی—
“بی بی آپ ناشتہ کریں بابو تو ابھی گھر پر نہیں ہیں شام تک آئیں گے—” وہی لڑکی اسکا ناشتہ میز پر لگاتے بول رہی تھی—
“رہنے دو مجھے بھوک نہیں ہے—” جنت پلٹ گئی—
“ہائے! اتنی پیاری لڑکی ہے مت ماری گئی ہے جو اپنے شوہر کو چھوڑ کر آگئی ہے بھلا اسکا اور بڑے صاحب کا کیا جوڑ—” لڑکی نے خانساماں کے سامنے اپنے خیالات کا اظہار کیا جو امریکن طرز کے بنے کچن میں کھڑا سبزیاں دھو رہا تھا—
“پتا نہیں یہ پیسہ عمروں کا فرق کیسے مٹا دیتا ہے؟ بیٹا جوان ہے اور باپ—-” خانساماں نے تاسف سے نفی میں سرہلایا—
جنت کو اپنا آپ صدیوں کا بیمار محسوس ہورہا تھا—سر الگ چکرا رہا تھا اور دل الگ خراب ہورہا تھا—کچھ کھانے کا سوچ کر ہی اسکا دل اوبنے لگتا—
شام کے وقت وہ پھر اپنے کمرے سے نکلی اور ملازمہ سے سہل کا پوچھا
“بابو تو اِس وقت اپنے اسٹوڈیو میں ہوگا—“
“کس طرف؟” جنت نے صوفے کے سامنے پڑی میز صاف کرتی لڑکی سے پوچھا
“اسٹوڈیو میں تو وہ کسی کو نہیں آنے دیتے—” ملازمہ پُرسوچ انداز میں بولی
“تم مجھے راستہ بتاؤ—” اس سے اسٹوڈیو کا پوچھ کر جنت اوپر کی سیڑھیاں چڑھ گئی—
جنت جھجھک کر ہلکے سے دروازہ کھولتی اندر داخل ہوئی— سہل کی اسکی جانب پُشت تھی وہ اسٹینڈ پر اپنا کینوس سیٹ کررہا تھا— باپ کی طرح وہ بھی خاصا گورا تھا بالکل انگریز لگتا تھا–گھنگریالے بالوں کی چھوٹی سی پونی بنائے—رف سے ٹراؤزر اور سلیولس ہوڈی میں ملبوس وہ کہیں سے ابراہیم حسین جیسے سوٹڈ بوٹڈ بندے کا بیٹا معلوم نہیں ہوتا تھا— اسکی چوڑی گوری کلائیوں میں کالے اور لال رنگ کے دھاگے بندھے تھے یہ صبح تک تو نہیں تھے—جنت کو تجسس ہوا—
سامنے ہی بل گیٹس کی پینٹنگ پڑی تھی جسے بہت سے رنگوں سے سجایا گیا تھا— فریم لیس گلاسز میں بل گیٹس کی شخصیت خاصی پرکشش لگ رہی تھی— دیوار پر دو تین مختلف سائز کے گٹار لٹک رہے تھے ایک طرف ڈرم بھی پڑا تھا—فرش پر جابجا کاٹن اور ٹوٹے کینوس بکھرے پڑے تھے—ہر چیز پر رنگ گرا ہوا تھا
“کس کی اجازت سے تم میرے اسٹوڈیو میں داخل ہوئی ہو؟” وہ کینوس اسٹینڈ پر سیٹ کرتا پلٹا مطلب وہ پہلے سے ہی اسکی یہاں موجودگی سے آگاہ تھا—جنت نے اپنے سامنے کھڑے اٹھارہ اُنیس سالہ لڑکے کو دیکھا جو اسے گھور رہا تھا—
“وہ—وہ—” جنت نے ہونٹ کاٹے—
“بول بھی پڑو—” وہ دھاڑا—
“مم—مجھے بات کرنی تھی تم سے—” جنت نے اپنے آنے کی وجہ بیان کی–
“تو بولو نا—” وہ نہایت اُکھڑ لہجے میں بولا—
“میں یہاں اپنی مرضی سے نہیں آئی—“
“ڈیڈ نے کڈنیپ کیا ہے تمہیں؟” سہل نے فوراً اسکی بات کاٹی
“نہیں—” جنت منمنائی—
“پھر تم اپنی مرضی سے آئی ہو—اگلی بات کرو—“
“میں جانا چاہتی ہوں—” جنت جلدی سے بولی
“تو روکا کس نے ہے؟” پھر طنزیہ ہنسا—
“اس دولت نے روکا ہے تو فضول ہے تمہارا رُکنا—” وہ پاس پڑے ایک اسٹول کو گھسیٹ کر اُس پر بیٹھ گیا–
“ڈیڈ کی عادت ہے ینگ گرلز سے شادی کے وعدے کرنا پھر جب دل بھر جاتا ہے تو کچھ دے دلا کر فارغ کردیتے ہیں—” اس نے حقارت بھرے لہجے میں کہا—جنت کی آنکھوں میں آنسو چمکے—سہل نے برا سا منہ بنا کر اسے دیکھا—
“تمہارے ڈیڈ نے مجھے دھمکی دی ہے کہ اگر میں اپنے ہسبینڈ سے ڈائیورس نہیں لوں گی تو وہ—وہ اُسے مروا دیں گے—” جنت سے بولا نہیں جارہا تھا—اس نے روتے ہوئے اپنی بات مکمل کی—سہل کے چہرے کے تاثرات بدلے—
“وہ بزنس مین ہیں گینگسٹر نہیں— تمہیں ڈرا رہے ہیں وہ ایسا کچھ نہیں کریں گے–آئی نو ہِم—” وہ پُریقین لہجے میں بولا—
“میں واپس پھر بھی نہیں جاسکتی—” جنت نے آنسو پونچھے
“کیوں؟”
“معیز نے مجھے گھر سے نکال دیا ہے—تمہارے ڈیڈ نے ہمارے درمیان اتنی غلط فہمیاں پیدا کردی ہیں کہ وہ سمجھتے ہیں کہ میں نے اُن کو دھوکہ دیا ہے—میرا تمہارے ڈیڈ کے ساتھ افیئر چل رہا ہے—” جنت کو اپنے منہ سے یہ سب بتاتے کتنی تکلیف ہورہی تھی یہ صرف وہی جانتی تھی—
“تم نے کچھ تو ایسا کیا ہوگا نا کہ تمہارے ہسبینڈ نے ڈیڈ کی باتوں پر یقین کرلیا—تمہیں اُسکی غلط فہمی دور کرنی چاہیے تھی اُس سے سوری کرنا چاہیے تھی نا کہ یہاں آکر ایک اور غلطی کرنی تھی—” سہل نے اسے مشورے سے نوازا—
“وہ سمجھتے ہیں کہ میں ابراہیم حسین کی دولت سے مرعوب ہوگئی ہوں اور ابراہیم جیسے امیر آدمی کیلیے اُنہیں چھوڑ سکتی ہوں—بھلا کوئی شوہر اپنی بیوی کے بارے میں ایسا کیسے سوچ سکتا ہے؟” جنت نے اِس سے پوچھا—
“تم نے سوچنے پر مجبور کیا ہوگا ورنہ جہاں تک میں جانتا ہوں تمہارا ہسبینڈ بہت ہی اچھا آدمی ہے—” سہل ایسے بولا جیسے وہ معیز کو جانتا ہو—
“تم کیسے جانتے ہو؟” جنت حیران ہوئی—
“ڈیڈ پر نظر رکھنی پڑتی ہے دل ہتھیلی پر لیے گھومتے ہیں اور میں مزید اسٹیپ مدرس افورڈ نہیں کرسکتا اور تمہیں تو بالکل بھی نہیں کرسکتا—” وہ لاپرواہی سے بولا—پھر پینٹنگ کلرز والا باکس اُٹھا کر برش پانی میں بھگونے لگا—
“مسٹر ابراہیم حسین نے کتنی شادیاں کی ہیں؟” جنت نے نارمل انداز میں پوچھا—
“تین—” جنت نے آنکھیں پھاڑ کر اسے دیکھا—
“ایک میری مما سے کی تھی جن کی دس سال پہلے ڈیتھ ہوگئی–دوسری چار سال پہلے اپنی سیکریٹری سے کی تھی, تیسری تین سال پہلے ایک یونیورسٹی کی اسٹوڈنٹ سے کی تھی اُسے بھی تمہاری طرح بڑے محل اور گاڑیاں اٹریکٹ کرتی تھیں—دو ماہ سے زیادہ ڈیڈ نے برداشت نہیں کیا—بیس تیس لاکھ اُسکے اکاؤنٹ میں ٹرانسفر کیے اور ڈائیورس پیپرز سائن کردیے اپنی سیکریٹری کے ساتھ بھی کچھ ایسا ہی کیا تھا—زیادہ یاد نہیں مجھے اُسکا—اینی ویز تم ڈیڈ کی مہمان ہو اُن تک رہو میرے معاملات میں گھسنے کی ضرورت نہیں ہے—” نارمل سے انداز میں بات کرتے کرتے وہ پھر روڈ ہوگیا—
“مجھے تمہاری ہیلپ چاہیے—” جنت دو قدم آگے بڑھی—سہل نے ناسمجھی سے اسے دیکھا
“مم–میں یہاں سے جانا چاہتی ہوں—” جنت بولی—
“تو جاؤ—” اسکے لاپرواہی سے کہنے پر جنت نے اپنا سر دونوں ہاتھوں سے تھام لیا—
“تمہارے ڈیڈ معیز کو کوئی نقصان نہ پہنچا دیں—اُن کی دھمکی پر ہی میری ہمت نہیں ہورہی یہاں سے جانے کی—” جنت نے دوبارہ وجہ بتائی—سہل نے گہرا سانس لیا—
“تم وعدہ کرو کہ تمہیں ڈیڈ میں کوئی دلچسپی نہیں ہے—” سہل نے جانچتی نظروں سے اسے دیکھا
“ایک فیصد بھی نہیں ہے—” جنت زہریلے لہجے میں بولی—
“ڈیڈ کے پیسے میں تھی پھر ساری دلچسپی؟” سہل نے ابرو اُٹھاتے سوال کیا—
“جہنم میں جاؤ تم اور تمہارا باپ اپنی اس دولت کے ساتھ—ایک ہی بکواس لگا رکھی ہے سب نے— غلطی ہوگئی مجھ سے جو میں نے ایک بڑے گھر کی خواہش کا اظہار کردیا تم سب نے تو مجھے لالچی ہی سمجھ لیا کہ پیسے کے بل بوتے پر کوئی بھی کام لے سکتے ہو مجھ سے—” جنت کو اچانک ہی غصہ آیا تھا آخر کب تک وہ ان کی باتیں سنتی ہر انسان اسے یہی طعنہ دے رہا تھا کہ وہ تو دولت کی شیدائی تھی اب کیا تکلیف ہے؟ جنت غصے سے پلٹ کر جانے لگی جب سہل تیزی سے اسکے آگے آیا—
“سوری!” وہ جلدی سے بولا—جنت نے غصے سے منہ پھیرا—
“تم بیٹھو ہم آرام سے اس مسئلے کا حل نکالتے ہیں—” اس کے کہنے پر جنت نے اسٹوڈیو پر طائرانہ نگاہ ڈالی—ہر طرف اسکا پھیلاوا تھا وہ کہاں بیٹھتی؟ سہل نے اسکی نظروں کے تعاقب میں دیکھا پھر ایک بینچ پر سے کپڑا اُتار کر اور چند ڈبے نیچے رکھ کر اسکے لیے جگہ بنائی—
“تم آرٹسٹ ہو؟” اسکے پورٹریٹ خاصے پروفیشنل اور سحرزدہ تھے جنت نے بل گیٹس کے پورٹریٹ کی جانب دیکھتے پوچھا—
“بن جاؤں گا—” اس نے برش اور کلرز ایک طرف رکھتے اسٹول اسکے سامنے رکھا پھر خود اس پر چڑھ کر بیٹھ گیا—بل گیٹس کا ایک بڑا سا پورٹریٹ جنت کے سامنے والی دیوار پر بھی بنا ہوا تھا جسکی خاصیت یہ تھی کہ اسے کئی رنگوں کی لکیروں سے تخلیق کیا گیا تھا—
“تمہیں بل گیٹس کے علاوہ کسی کی تصویر نہیں ملی تھی پینٹ کرنے کو؟” جنت نے یونہی پوچھ ڈالا
“راز کی بات پوچھی ہے تم نے–” وہ مسکرایا—پل پل بدلتے اسکے انداز جنت کو حیرت میں ڈال رہے تھے—
“بل گیٹس جتنی دولت اکٹھی کرنا چاہتے ہوگے اپنے ڈیڈ کی طرح؟ یہ تصویر دیکھ کر موٹیویشنز آتی ہوں گی؟” جنت کا انداز مذاق اُڑانے والا تھا—
“ایک وقت تھا جب میں بھی اس امیر ترین شخصیت سے بہت متاثر تھی پھر میں نے جانا کہ ہر کسی کے نصیب میں بل گیٹس نہیں ہوتا یہ صرف ملینڈا گیٹس (بل گیٹس کی اہلیہ) کے نصیب میں ہے— مجھے کبھی بل گیٹس چاہیے تھا آج سوچتی ہوں تو ہنسی آتی ہے یہ تو ایسا ہے جیسے کوئی ایچ ٹی ایم ایل میں ہیلو ورلڈ لکھنا سیکھ لے اور گوگل کا سی ای او بننے کے خواب دیکھنے لگے—” وہ اپنے آپ پر ہنسی—
“بل گیٹس نہیں چاہیے بل گیٹس جیسی سوچ والے چاہیے ہیں پاکستان کو—” جنت نے ناسمجھی سے اسے دیکھا—
“ڈیڈ دنیا کے تو نہیں مگر پاکستان کی امیر ترین شخصیات میں آتے ہیں مگر مجھے کبھی فخر نہیں ہوا ان کے امیر ہونے پر—پتا ہے کیوں؟” جنت نے نفی میں سرہلایا—
“Because he never donate a single penny towards any charity in his life.”
وہ مایوس سا کہہ رہا تھا—
“زکوۃ بھی نہیں دیتے؟” جنت نے ہلکی سی آواز میں پوچھا—سہل نے ہونٹ بھینچتے نفی میں سرہلایا–
“تو تم دے دیا کرو—” جنت نے حل تلاشا–
“وہی تو کرتا ہوں— صبح جو ڈانٹ پڑ رہی تھی وہ اسی کا نتیجہ تھی—ہم اسٹوڈنٹس نے مل کر اقراء پروجیکٹ کا افتتاح کیا ہے—ہم دس اسٹوڈنٹس ہیں جن میں سے پانچ چھ ایسے ہیں جو الائٹ کلاس سے تعلق رکھتے ہیں مگر ان کے والدین صدقہ و خیرات نہیں دیتے— ہم سب سمجھتے ہیں کہ ہمارے مال میں غریبوں کا بھی حصہ ہے—ہم اتنے بڑے بڑے اور مہنگے تعلیمی اداروں سے پڑھ رہے ہیں اور پاکستان کی ایک آبادی ایسی ہے جہاں کے بچوں نے اسکول کا چہرہ تک نہیں دیکھا—ٹشو, مونگ پھلیاں بیچتے سڑکوں پر نظر آتے ہیں—ہم حکمرانوں سے کیا اُمیدیں لگائے بیٹھے ہیں؟ democrary کے نعرے لگاتے ہیں civil rights کی بات کرتے ہیں—بکواس سب بکواس! ہمارے ملک کا بچہ پڑھ نہیں سکتا, غربت کے باعث مائیں بچوں کو زہر دے رہی ہیں اور ہم آج بھی حکمرانوں سے اپنے حقوق کی بھیک مانگ رہے ہیں کبھی سڑکوں پر نکلتے ہیں تو کبھی سوشل میڈیا پر شور مچاتے ہیں— مگر خود کو نہیں بدلتے—انصاف بھی اُن کے لیے مانگ رہے ہیں جن کے ساتھ خود ناانصافی کررہے ہیں— ہم چاہتے ہیں کہ حکومت انصاف سے خرچ کرے وہ کیسے کرے گی جب تک ہم انصاف نہیں کریں گے؟ جیسی عوام ویسی حکومت! ” جنت نے اپنے سامنے بیٹھے اس اُنیس سالہ لڑکے کا ذہن دیکھا تھا کبھی اس نے ایسا نہیں سوچا تھا کبھی اس نے عطیہ نہیں کیا تھا وہ تو ہمیشہ ضرورت مندوں کی فہرست میں کھڑی رہتی تھی کبھی اپنے سے نچلے طبقے کو نہیں دیکھا—
“بل اور ملینڈا گیٹس فاؤنڈیشن کے تحت جتنے فلاحی کام بل گیٹس کررہے ہیں وہ ان سے متاثر ہونے کی سب سے بڑی وجہ ہے میرے نزدیک—عالمی صحت اور مختلف اسکولرشپس پروگرامز کیلیے دو ارب ڈالر سے زائد عطیہ کرنے والے,ملیریا , ایبولا کو شکست دینے کیلیے اپنے ارب ڈالر عطیہ کرنے کا فیصلہ اور پولیو ویکسنز کی غریب ممالک تک رسائی ممکن بنانے کیلیے اچھی خاصی لاگت لگانے والے بل گیٹس اپنے فلاحی کاموں اور انسانیت کی خدمت کے باعث میرے آئیڈیلز میں سے ایک ہیں نہ کہ کم عمری میں امیر ترین شخصیت بننے کے باعث میں اُن سے متاثر ہوں—ہر ملک کے امراء میں بل گیٹس کی خصوصیات چاہیے—ہر ملک کو بل گیٹس چاہیے—بہت سے لوگ سمجھتے ہیں کہ اتنی دولت ہے اگر خرچ کر بھی دیا تو کیا؟ کبھی اپنے آس پاس نظر دوڑائیں بنگلے گاڑیوں والوں کی بھی جان جاتی ہے کسی غریب کو دس روپے دیتے حالانکہ اس دس روپے سے ان کی دولت میں کمی نہیں آجائے گی مگر دل بڑے نہیں ہیں—زکوۃ, صدقہ و خیرات پر یقین نہیں ہے—اُس پر عمل نہیں کرتے تبھی امیر, امیر تر ہوتے جارہے ہیں اور غریب غریب تر—” اس نے افسوس کا اظہار کیا—
“بس نیک کام کی بنیاد ڈال دی ہے میں نے—اب دیکھنا یہ ہے کہ اقراء فاؤنڈیشن چلتی کہاں تک ہے؟” وہ پُراُمید تھا—
دونوں ایک ہی شخصیت سے متاثر تھے مگر دونوں کا نظریہ مختلف تھا—
*******************
“ہیلو آنٹی میں کل سے معیز بھائی کا نمبر ٹرائی کررہی ہوں بند جارہا ہے—جنت گھر پہنچی؟” انہوں نے جیسے ہی کال اٹینڈ کی حمنہ کی ٹرین اسٹارٹ ہوگئی—یہاں ان کی سمجھ میں کچھ نہیں آرہا تھا کہ وہ کیا پوچھ رہی ہے؟
“کیا مطلب جنت پہنچ گئی؟ وہ تو یہاں سے جب کی گئی ہے پلٹ کر دیکھا بھی نہیں ہے—” وہ زہرخندی سے بولیں ان کا بس چلتا تو چیخ چیخ کر سب کو بتاتیں کہ ہمیشہ مرد ہی غلط نہیں ہوتا—
“جنت وہاں نہیں آئی تو کہاں گئی؟” حمنہ پریشان سی بڑبڑائی
“وہ کہیں بھی جاسکتی ہے تم بےفکر رہو اُس کے بہت ٹھکانے ہیں— ” انہوں نے فون بند کردیا—
“کون کہاں جاسکتی ہے؟ کس سے بات کررہی تھیں آپ؟” معیز جانے کب نیچے لانج میں آیا تھا—وہ صوفے پر بیٹھی تھیں ان کی پُشت پر اسکی آواز اُبھری
“کسی سے نہیں—” انہوں نے فون پٹخا—
“مما مجھے سچ بتائیں کس کی کال تھی—” وہ چیخا—آج کل وہ ایسا ہی وحشیانہ رویہ رکھے ہوئے تھا—جو ہاتھ میں آتا توڑ ڈالا—کبھی چیخنے لگتا تو کبھی رونے—اس نے اکیڈمی جانا بھی چھوڑ دیا تھا—حسنہ بیگم کو تو سمجھ نہیں آرہا تھا کہ اسے کیسے ڈیل کریں—
“حمنہ کی کال تھی جنت کا پوچھ رہی تھی کہ یہاں پہنچی یا نہیں—” انہوں نے مدھم آواز میں بتایا—
“کیا مطلب؟ وہ اپنے گھر نہیں ہے تو کہاں ہے؟” معیز کو شاک لگا
“تم نہیں جانتے وہ کہاں جاسکتی ہے؟” انہوں نے چبھتا سوال کیا—معیز انہیں کوئی بھی جواب دیے بغیر تیزی سے اوپر کی سیڑھیاں طے کرگیا—سائیڈ ٹیبل سے اپنا آف کیا فون اُٹھایا اور آن کرتے ساتھ حمنہ کو کال کرنے لگا مگر اس سے پہلے ہی جنت کے نمبر سے کال آنے لگی—
“کہاں ہو تم؟” کال رسیو کرتے ساتھ اس نے سوال داغا—
“آپ یقیناً اپنی وائف کے بارے میں پوچھ رہے ہیں—اگر آپ ان سے ملنا چاہتے ہیں تو آپ میری دی گئی لوکیشن پر تشریف لے آئیں—” کسی لڑکے کی آواز تھی—رابطہ منقطع کردیا گیا تھا مگر معیز کے ہاتھ پیر کانپ رہے تھے وہ کسی مشکل میں نہ ہو– کہیں اُسکے ساتھ کچھ غلط؟ عجیب عجیب سے خیالات اسکا سانس بند کیے دے رہے تھے—بھیجی گئی لوکیشن پر وہ جلد از جلد پہنچ جانا چاہتا تھا—
************
“یہ کیا کیا تم نے؟” جنت نے اسکے ہاتھ سے اپنا سیل فون جھپٹا وہ دونوں لانج میں آمنے سامنے کھڑے تھے—جنت کے چہرے پر غصہ جھلک رہا تھا—
“تم یہاں ڈیڈ کی دھمکیوں پر بھیگی بلی بن کر بیٹھی رہو میں ہی اس مسئلے کو حل کرتا ہوں—” وہ غصے سے اسے کہہ کر شیشے کی میز پر پڑا اپنا سیل فون اور بائیک کی چابیاں لے کر تیزی سے غائب ہوگیا—
“یہ کہاں گیا ہے؟” سہل کے جاتے ساتھ ہی ابراہیم حسین لانج میں داخل ہوئے—
“پتا نہیں!” جنت کہہ کر جانے لگی جب وہ بولا
“تم سے کیا کہہ رہا تھا؟” اسکا انداز تفتیشی تھا—
“کچھ نہیں! ” جنت پھر جانے لگی—وہ اس شخص کی شکل بھی نہیں دیکھنا چاہتی تھی—
“بیٹھ کر میری بات سنو—” وہ روعب سے مخاطب تھا—جنت صوفے پر ٹِک گئی—
“تمہارے ہسبینڈ نے ڈائیورس پیپرز نہیں بھیجے ابھی تک—میرا خیال ہے تمہیں خلع کا کیس دائر کردینا چاہیے—” وہ سنجیدگی سے مخاطب تھا–
“میں سپریشن نہیں چاہتی یہ بات آپ کی سمجھ میں کیوں نہیں آتی؟”جنت چیخ پڑی—
“مگر میں چاہتا ہوں اور ہوگا وہی جو میں چاہوں گا—” وہ اطمینان سے مخاطب تھا—
“آ—آپ کچھ اور نہیں تو ہمارا ایج گیپ ہی دیکھ لیں—آپ ایسا کیسے سوچ سکتے ہیں؟” جنت بےبسی سے بولی اسے اپنے سامنے بیٹھا شخص کہیں سے ایک بڑا بزنس مین نہیں لگ رہا تھا—وہ بالکل ایک ٹین ایج بوائے کی طرح برتاؤ کررہا تھا جسے اپنی من پسند چیز ہر حال میں چاہیے—-جو پیسے کے بل بوتے پر محبت خریدنا چاہتا تھا—
“Age doesn’t matter to me. I want you in my life that’s it.”
وہ ضدی لہجے میں بولا—
“میرے ساتھ ضد لگاؤ گی تو معیز پر زندگی تنگ کردوں گا ابھی اُسکی نوکری گئی ہے—اُسکی چھت خریدنے اور جان لینے میں مجھے زیادہ وقت نہیں لگے گا—” وہ پینٹ کی دونوں جیبوں میں ہاتھ ڈالے اکڑ کر سینہ تانے اسکے سامنے کھڑا تھا—
“آپ خدا نہیں ہیں ابراہیم حسین—اللہ نہ چاہے تو آپ کچھ نہیں چاہ سکتے—کسی کی جان لینا آپ کے نزدیکی بہت چھوٹی سی بات ہے؟” جنت نے نہایت افسوس بھرے لہجے میں کہا—ابراہیم حسین نے سر کو ہلکے سے خم دیا—
“مجھے ہارنا نہیں پسند اور جیتنے کیلیے میں کچھ بھی کرسکتا ہوں—کچھ بھی!” وہ جنت کی آنکھوں میں دیکھتا بولا–
“کس سے جیتنا چاہتے ہیں آپ؟ میں تو پہلے ہی سب لُٹائے بیٹھی ہوں—خالی ہاتھ, بے سرو سامان کھڑی ہوں—میرا سب چھین لیا آپ نے مجھ سے—میرا شوہر, میرا گھر, میرا وقار, میری محنت, میرا کردار تک مشکوک کردیا—محبت تو نہیں ہوئی یہ—ہاں اگر جنگ لڑ رہے ہیں تو اپنے مقابل کے بندے سے لڑتے میں کہاں آپ جیسے طاقتور بندے کی حریف بن سکتی ہوں جسکے ایک انکار پر آپ نے اُس پر اُسکی زندگی تنگ کردی—” جنت رو رہی تھی—ابراہیم حسین نے سر جھٹکا—
“ہاں تو کیا برا کیا میں نے؟ تمہیں شرافت سے پرپوز کیا تھا نا؟ تم نے خود اپنے لیے یہ گڑھا کھودا ہے—نہ انکار کرتی نہ یہ سب ہوتا–” وہ تو اپنی غلطی تسلیم کرنے کو تیار ہی نہیں تھا—
“ایک میرڈ لڑکی کو پرپوز کرتے کچھ تو شرم کی ہوتی آپ نے—” وہ نخوت سے بولی
“شٹ اپ!” وہ اُنگلی اُٹھا کر بولا–
“لڑکیاں مرتی ہیں میرے جیسے ہینڈسم, رِچ پرسن سے شادی کرنے کیلیے اور ایک تم ہو؟ بار بار سمجھا رہا ہوں بہت خوش رکھوں گا تمہیں—اچھی لگتی ہو مجھے—” اس نے جنت کا ہاتھ پکڑے نرم لہجے میں کہا جنت نے اسکا ہاتھ جھٹکا اور لانج سے نکل گئی—
پیچھے ابراہیم حسین افسردہ سا کھڑا رہ گیا—
عشق اتنا بھی کیا ضروری ہے
کوئی بےعشق مر نہیں جاتا!
***************
وہ ایک سپر اسٹور کے سامنے اپنی کار پارک کیے کھڑا تھا جب ایک اول جلول حلیے میں سپورٹ بائیک پر موجود لڑکا اسکے پاس آرکا—
“معیز احمد؟” اس نے سر ہلایا تو اس نے معیز کو اپنے پیچھے بیٹھنے کا کہا—ایک دو گلیاں مُڑنے کے بعد وہ ایک کالونی میں داخل ہوئے جہاں بنے بڑے بڑے فلائٹس اور ٹاورز میں سے ایک کے سامنے اس نے بائیک روکی—پارکنگ کرکے وہ دوبارہ معیز کے پاس آیا—لفٹ میں سوار ہو کر بارہویں منزل پر اُترے—معیز خاموشی سے اسکے ساتھ چل رہا تھا جو کالے ٹراؤزر پر سلیولس شرٹ پہنے ہوئے تھا—اسکے ٹراؤزر پر جابجا پاکٹس لگی تھیں—گھنگریالے بھورے بال کندھوں تک آرہے تھے—جن کی مانگ نکال کر انہیں کان کے پیچھے اُڑیس رکھا تھا—مطلب وہ کوئی عجیب مخلوق ہی تھی—
“بیٹھو—” اس نے لائٹس آن کیں—معیز پہلے آرام سے بیٹھنے لگا تھا پھر صوفے کے پاس رسیوں میں جکڑے ایک شخص کو دیکھ کر چونک گیا اس نے اپنے پیچھے کھڑے سہل کو دیکھا—جس نے اسے دوبارہ بیٹھنے کا اشارہ کیا—
بلیک پینٹ کوٹ میں ملبوس وہ ابراہیم حسین کا مینجر تھا جس کے ہاتھ پیر رسیوں سے بندھے تھے اور منہ پر بڑی سی ٹیپ لگا رکھی تھی—
سہل نے زور سے اسکے منہ پر سے ٹیپ کھینچی—
“آآ—-آ–” وہ چیخا—
“ان سے اپنا اور میرا تعارف کرواؤ—” وہ اسے حکم دے کر کمرے میں موحود فریج میں سے کوک کے کین نکالنے لگا—
“میں ابراہیم حسین کا—” وہ ابھی بول ہی رہا تھا کہ سہل نے فریج کے پاس پڑی میز سے خالی کین اُٹھا کر وہیں کھڑے اسکے سر پر مارا—
“پہلے باس کا تعارف—” اس کے کہنے پر مینجر نے سر ہلایا—معیز ان کی حرکتیں دیکھ رہا تھا—
“یہ سہل ابراہیم ہیں ابراہیم گروپ آف انڈسٹریز کے مالک ابراہیم حسین مہر کے بیٹے—“
“اور یہ کچرا میرے ڈیڈ کا مینجر ہے—” سہل نے کوک کا ایک کین معیز کے سامنے میز پر رکھا اور ایک خود لے کر اس سے کچھ فاصلے پر گرنے کے انداز میں بیٹھ گیا—
“جنت کہاں ہے؟” معیز کو ان سے کوئی دلچسپی نہیں تھی اس نے اپنے مطلب کا سوال پوچھا—
“یہ بتائے گا نا سب—” اس نے مینجر کی جانب اشارہ کیا—
“وہ مس جنت جب انٹرنیشنل کانفرنس پر باس سے ملی تھیں تو انہوں نے مجھ سے ان کی پروفائل مانگی تھی پھر انہوں نے اُن کے ساتھ بہت سی میٹنگز ارینج کروائیں اور پھر انہوں نے کہا کہ وہ جنت کے ساتھ اپنے مستقبل کے پلان شیئر کرنا چاہتے ہیں مگر مصروفت کی بناء پر دو دن بعد میٹنگ کریں گے مس جنت کی ٹیم انہیں ہمارے سپرد کر کے واپس چلی گئی—مس جنت تب ڈلمون پیلس ہوٹل میں شفٹ ہوگئیں—سر انہیں میٹنگ کا کہہ کر گھمانے لے گئے پھر واپس ڈراپ کردیا—” وہ رکا معیز نے سہل کو دیکھا—
“جنت نے پھر مجھ سے جھوٹ کیوں کہا کہ وہ ولاء پر رُکی تھی— ” اس نے سہل سے پوچھا
“وہ رُکی تھیں مگر باس کے پلان کے مطابق–باس نے اُن سے جھوٹ کہا کہ اُن کی واپسی کا ٹکٹ کروا دیا ہے اور آج وہ واپس چلے جائیں گے—وہ انہیں ائیرپورٹ ڈراپ کرتے بہانے سے ولاء آگئے کہ وہ اپنا لیپ ٹاپ بھول گئے ہیں اور انہیں ایک ایمرجنسی کا کہہ کر جمیرا ٹاورز واپس آگئے—میں گواہ ہوں وہ مس جنت کی موجودگی میں ولاء پر نہیں تھے—” وہ بغیر کسی گھبراہٹ کے بتارہا تھا—
“میں اپنے ڈیڈ کے ایک ایک پل کی خبر رکھتا ہوں—اس نے مجھے اس بار بےخبر رکھا تبھی نوبت یہاں تک آگئی ورنہ میں اسے یہاں تک آنے نہیں دیتا—میں جانتا ہوں اُن کی دولت و شخصیت کے باعث لڑکیاں مکھیوں کی طرح اُن کے آس پاس بھنبھناتی رہتی ہیں اسی لیے تھوڑا چیک اینڈ بیلنس رکھنا پڑتا ہے—” وہ آخری جملے پر معصومانہ شکل بنا کر بولا—
“اسے تو کھول دو—” معیز نے بےچارے مینجر کی جانب اشارہ کیا—جس نے پلیز کے انداز میں سہل کو دیکھا—
“ڈیڈ نے تمہاری اور جنت کی جاب چھین کر اچھا نہیں کیا—میں اُن کے اس عمل سے بہت گلٹی فیل کررہا ہوں— وہ پتا نہیں کیوں آپکی لو سٹوری میں ولن بننے کی ناکام سی کوشش میں مصروف ہیں—” اس نے ہاتھ اوپر اٹھاتے ناسمجھی سے کہا—معیز اس عجیب سے لڑکے کو دیکھ کر رہ گیا—
“جنت ہمارے گھر پر ہے—اب پلیز پھر سے شک کرنے مت لگ جانا وہ ڈیڈ کے روعب میں بہت جلد آجاتی ہے—اُسے دھمکی دی ہے کہ ڈائیورس نہیں لے گی تو آپ کو شوٹ کروا کر راستہ صاف کرلیں گے تب سے ڈر کر ہمارے گھر بیٹھی ہے پاگل! ” سہل نے کوک کا خالی کین میز پر رکھا—
“وہ پاگل نہیں ہے—” معیز کو جیسے اسکی لمبی تقریر میں یہی لفظ سنائی دیا تھا—
“وہ ہے بلکہ بےوقوف اور احمق بھی ہے—” اس نے اپنی بات پر زور دے کر کہا—وہ سہل ابراہیم تھا وہ کچھ بھی کہنے سے جھجھکتا نہیں تھا—وہ بہت منہ پھٹ تھا
“تم اُسے لینے آؤگے تو وہ جائے گی— اُسے لگتا ہے ڈیڈ واقع ہی تمہیں شوٹ کروا دیں گے— کم آن میرے ڈیڈ ہیں وہ, چند اُلٹی حرکتوں کے سوا He is a Gentleman” وہ پل پل میں سٹیٹمنٹ بدلتا تھا—
“تمہارے ڈیڈ کا قصور نہیں ہے—جنت ایک امیر آدمی سے شادی کرنا چاہتی تھی اور ایک بار اُس نے مجھ سے کہا تھا کہ اُسے عمروں سے کوئی فرق نہیں پڑتا جو شخص اسکی خواہشیں پوری کرسکے وہ اسکے لیے کافی ہے— اگر اُسے میرے پاس آنا ہے تو وہ خود آئے گی میں اُس کو فیصلہ کرنے کیلیے کھلی آزادی دے چکا ہوں اب پلٹ کر نہیں دیکھوں گا—آج وہ میرے ساتھ آجائے اور کل کو اس گولڈن چانس کو مس کرنے پر پچھتاوے کا اظہار کرے اس سے اچھا ہے وہ کوئی فیصلہ کرلے—” وہ سنجیدگی سے کہہ کر کھڑا ہوگیا—
“She loves you man! “
سہل بھی اُچھل کر کھڑا ہوا—پتا نہیں کس دیوداس سے پالا پڑگیا تھا بےچارے کا—
“She loves money, she wants a billionaire
اور وہ اُس کو مل گیا—” معیز نے کندھے اُچکائے–
“میرے لیے یہی بہت ہے کہ وہ سیو ہے—اللہ حافظ! ” وہ تیزی سے فلیٹ سے باہر نکل گیا—
“پاگل ہیں دونوں!” سہل نے خالی کین دروازے پر دے مارا—
****************
کیا حرف ع جس لغت میں ہو وہ عربی کا ہو گا؟
اردو کا ہر وہ لفظ، جس میں حرفِ "عین" آتا ہو، وہ اصلاً عربی کا ہو گا! مرزا غالب اپنے...