اج بھی آنکھیں بند کرتا ہوں تو آنکھوں کے سامنے وہ سبز گنبد وہ جنت کا گوشہ وہ مدینے کی گلیاں وہ معطر ہوائیں۔ وہ آزانوں کی صدائیں وہ پر نور فضائیں۔۔ اور سب سے بڑھ کر کملی والے مُحَمَّد ﷺ کی قربت یاد آتی ہے۔۔حاجی
محمد قاسم علی۔۔ کھڑکی میں کھڑا آنکھیں بند کرکے بند آنکھوں سے مدینے کی زیارت کر رہا تھا اور رو رہا تھا۔۔
میں جانتی ہوں آپ بہت مسس کرتے ہیں مدینہ منورہ کو۔۔ تڑپتی تو میں بھی ہوں۔۔ میرے لیے بھی وہاں سے آنا آسان نہیں تھا۔دل کرتا ہے اڑ کر چلی جاؤں۔۔ بیگم منال قاسم نم ہوتی آنکھیں صاف کرتی بولی۔۔
او میری حمیرا۔۔ دکھی نہ ہو ان شاء الله رمضان میں چلیں گے عمرہ کرنے پھر سے پورا رمضان وہاں رہیں گے۔۔
محمد قاسم علی نے بیوی کو غم زدہ دیکھا تو محبت سے بانہوں کے حصار میں لیتے ہوئے بولا۔۔
ایک تو جب آپ مجھے حمیرا کہتے ہے سچ میں ایسا لگتا ہے۔۔ میرے آقا ﷺ کے الفاظ سن رہی ہوں۔۔ بیگم منال مسکراتے ہوئے کہنے لگی۔
ارے کیوں نہ لگیں بھئی۔۔ یہ ہے کی میرے نبی کریم صلی الله علیه وآلہ وسلم کے الفاظ۔۔ محمد قاسم علی پر جوش کہنے لگا۔۔
بتایا تھا نا۔۔۔ میرے آقا مُحَمَّد ﷺ ۔۔ حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالٰی عنہ کو پیار سے حمیرا کہتے تھے
تبھی تو ہم بھی آپ کو اپنی حمیرا کہتے ہے۔۔ محمد قاسم علی مسکراتے ہوئے کہنے لگا۔۔
بیگم منال شرم سے لال هو گئی۔۔
ہاہاہاہا میری حمیرا اب 4 بچوں کی ماں هو گئی ہو اب تو شرمانا چھوڑ دو۔۔
جی نہیں یہ شرم تو میں کبھی نہیں چھوڑوں گی۔ یہ ہے تو آپ کی محبتوں کا رنگ حسین لگتا ہے ورنہ تو مجھ سے اظہار نہ ہو۔۔ میری شرم ہی آپ کو بتاتی ہے کہ ہم کتنی محبت کرتے ہے آپ سے۔۔ منال قاسم شرماتے ہوئے کہنے لگی۔۔
اووووئے ھووووووئے صدقے جاواں اج تو اظہار کر ہی دیا۔ میری حمیرا بیگم۔۔ ہماری 16 سال کی محنت رنگ لائی ہے آخر۔۔
محمد قاسم علی خوشی سے دیوانہ وار بیوی کو گلے لگاتے ہوئے کہنے لگا۔۔
منال قاسم مزید شرم سے لال ہوتی ان کے سینے میں منہ چھپا گئی۔۔
آج پھر ہم دوکان پر نہیں جائیں گے اسی خوشی میں۔۔ قاسم علی نے کہا۔۔
کیوں نہیں جائیں گے۔۔ منال جلدی سے بانہوں سے نکلتے ہوئے بولی۔ تیار ھو کر جلدی نیچے آئیں بچے ناشتے پہ انتظار کر رہے ہیں۔۔ میں بلانے آئی تھی مجھے بھی باتوں میں لگا دیا۔۔ وہ جلدی سے کمرے کی چیزیں سمیٹتے ہوئے کہنے لگی۔۔
ہاہا ہا ابھی تو اتنی رومینٹک هو رہی تھی اور ابھی اچانک بیوی سے ہٹلر بن گئی۔ قاسم علی مسکراتے ہوئے کہنے لگا۔۔
ہاہا ہا میں ہٹلر ہی ٹھیک ہوں۔۔ وہ تو آپ کو مدینہ منورہ کے لیے دکھی دیکھا تو بھول گئی تھی کہ آئی کیوں ہوں۔ اور خود بھی دکھی هو گئی۔۔ منال قاسم بولی۔۔
دکھی نہیں بیگم اسے رومینٹک کہتے ہیں۔۔
کہتے ہونگے آپ جلدی سے نیچے آؤ۔۔ منال کمرے سے جاتے ہوئے بولی۔۔
قاسم علی مسکراتے ہوئے تیار ہونے لگا۔۔ اور نیچے ناشتے پہ آ گیا۔۔
اسلام وعلیکم ورحمته الله وبركاته بابا جانی۔۔ چاروں بچوں نے باپ کو دیکھا تو کھڑے ہو کر سلام کیا۔۔
وعلیکم السلام ورحمته الله وبركاته میرے جانوں۔۔
اسلام وعلیکم ورحمته الله وبركاته امی جان ابو جان۔۔ قاسم علی نے بچوں کے سلام کے جواب سے ساتھ ساتھ اپنے ماں باپ کو بھی سلام کیا جو ناشتے کی میز پر بیٹھے اسی کا انتظار کر رہے تھے۔۔
جیتے رہو بیٹا۔۔ بڑی دیر لگا دی آج آنے میں ناشتے پہ۔۔ حاجی محمد ناظم علی کہنے لگا۔۔
جی ابو جی کیا کروں جب مدینہ منورہ اور نبی کریم صلی الله علیه وآلہ وسلم کی یاد آتی ہے تو وقت کا پتہ ہی نہیں چلتا۔۔ اس کی آنکھیں پھر نم ہونے لگی۔۔
پتر اللّٰهُ اور اس کا رسول صلی الله علیه وآلہ وسلم اپنے چاہنے والوں کے دلوں میں رہتے ہیں ایویں دکھی نہ ہوا کر۔۔ خدیجہ بی بی کہنے لگی۔۔
جی امی جان درست فرمایا آپ نے۔۔۔ مگر اس دل کا کیا کروں۔۔
کم عرصہ تو نہیں گزارا وہاں ہم نے۔۔ اتنی عادت ہو گئی تھی صبح سویرے نبی کے گھر کی زیارت کرنے کی۔۔ اب آنکھیں کھولتا تو ہوں مگر پھر بھی اندھیرا اندھیرا لگتا ہے۔۔ قاسم علی نے آنکھوں کو صاف کرتے ہوئے کہا۔۔
پتر جب تک نصیب میں تھا۔ کرتے رہے زیارت۔ اب جب انہوں نے دور کیا ہے تاکہ وہ تمہیں دور سے تڑپتے ہوئے دیکھنا چاہتے ہے تمہاری محبت کی گہرائی دیکھنا چاہتے ہے تو پھر دکھی نہ ہو بلکے یہاں رہ کر اُن صلی الله علیه وآلہ وسلم کی محبت کو بھڑکائے جا یہ آگ بجھنی نہیں چاہیے۔۔ خدیجہ بی بی نے کہا۔
جی امی جی یہ تو قیامت تک نہیں بجھے گی ان شا اللہ بلکہ اسے تو ہلکا بھی نہیں ہونے دوں گا۔ قاسم علی نے مضبوط لہجے میں کہا۔۔
سب نے یک زبان ہو کر کہا۔۔ ان شاء الله۔۔
_—-__________——–________——-
قاسم علی نے میٹرک کے بعد تعلیم کو خیر باد کہہ دیا تھا۔۔ اس کے بعد اس نے الیکٹرونکس کا ایک سال کا ڈپلومہ کیا۔۔ اور اسی کام میں اسے سعودی جانے کا موقع ملا۔۔
چار بہنوں کا اکلوتا بھائی تھا ایک بڑی جبکہ تین بہنیں چھوٹی تھی۔۔
مڈل کلاس طبقے سے تعلق تھا جائداد بھی برائے نام صرف 5 مرلے کا گھر تھا جو اپنا تھا۔۔ اور کچھ نہیں۔۔ باپ کا چھوٹا سا چائے کا کھوکھا تھا جس سے رزق حلال کما کر بیوی بچوں کا پیٹ پال رہا تھا۔۔
قاسم نے سعودی جانے کے موقعے کو ہاتھ سے نہیں جانے دیا وہ 18 سال کی عمر میں سعودی چلا گیا۔۔
ماں باپ سے وراثت میں اسے ایمانداری مخلصی محنت کے ساتھ ساتھ ایمان کی دولت بھی ملی تھی۔۔ پھر اللّٰهُ کا کرم یہ ہوا اسے نوکری بھی سعودی کے شہر مدینہ منورہ میں مل گئی۔۔ اسے اس شہر سے اتنی محبت هو گئی کہ اگر اسے اچھے معاوضے کا کام دوسرے شہر میں ملتا تو وہ ٹھکرا دیتا۔۔
پہلے سال ہی اس نے عمرہ کیا اور حج بھی کیا کیونکہ کمپنی اپنے ورکرز کو موقع دے رہی تھی۔۔
حج عمرے کے بعد تو تھوڑا بہت دل میں دولت کا لالچ تھا وہ بھی ختم ہو گیا۔۔ محنت کی کماتا اور گھر بھیجتا۔۔
اس نے اپنے والدین سے لاکھ کہا کہ آپ لوگ عمرہ کر لیں مگر دونوں کی ایک ہی رٹ تھی پہلے بیٹیوں کے فرائض سے نمٹ لیں پھر ان شا اللہ۔۔
قاسم علی نے بھی زیادہ زور نہیں ڈالا کیونکہ وہ جانتا تھا اگر والدین یہاں آئیں گے تو پیچھے بہنیں اکیلی هو جائیں گی۔۔
قاسم علی پہ اللّٰهُ خوب مہربان ہوا ماشاء اللہ کام بھی خوب ملا اور کمپنی نے بھی آزاد کر دیا۔۔ اب تو دن رات ایک کرکے کمانے لگا۔۔
بھائی سعودی میں ہے دیکھ کر بہنوں کے اچھے رشتے آنے لگے۔۔
انہی میں سے ایک رشتہ گھر والوں کو پسند آ گیا گھر بار اپنا تھا لڑکا فوج میں تھا بیٹی کے لیے ماں باپ کو اور کیا چاہیے۔۔ قاسم علی سے پوچھ کر ہاں کر دی۔۔
بہن بھی خوش تھی۔۔
ڈیڈھ سال بعد قاسم چھٹی آیا تو ماں باپ نے بہن کی شادی رکھ دی۔۔
اس نے بھی جو جمع پونجی تھی لگا کر دھوم دھام سے بہن کو رخصت کیا۔۔
ہر رسم عالی شان طریقے سے منائی۔۔ مہندی ہلدی مائیوں بارات۔۔۔
شادی کے دوران قاسم علی کو اپنی بہن زونیرہ کی نند منال بہت اچھی لگنے لگی۔۔ وہ تھی ہی بہت پیاری چھوئی موئی نازک سی۔۔ بھائی کی شادی میں بنی سنوری کوئی گڑیا لگ رہی تھی۔۔
منال کو بھی قاسم علی اچھا لگا۔۔ ہر رسم میں قاسم منال کے پیچھے پیچھے تھا اور جہاں اسے کوئی کام ھوتا یا کوئی بولا لیتا تو منال کی آنکھیں اسے ڈھونڈنے لگتی۔۔
قاسم علی بات کرنے سے کترا رہا تھا وجہ تھی کہ بہن کا سسرال ہے کہیں کوئی گڑبڑ نہ ہو جائے
اور منال لڑکی تھی وہ بھی شرم و حیا والی پہلے کیسے بات کرتی۔۔
اسی کشمکش میں شادی نمٹ گئی اور سب اپنے اپنے گھروں میں چلے گئے۔۔
فرواہ قاسم کی چھوٹی بہن جو قاسم سے کافی اٹیچ بھی تھی اس نے بھائی کے دل کی بات جان لی
قاسم علی ایک مہینے کی چھٹی آیا تھا شادی بیاہ میں مہینہ کیسے گزرا پتہ نہیں چلا آخر وہ دوبارہ اپنے کام پہ آ گیا۔۔
پیچھے سے فرواہ نے ماں باپ کو بھائی کی پسند کے بارے میں بتایا۔ جیسے سن کر دونوں بہت خوش ہوئے کیونکہ انہیں بھی منال بے حد پسند آئی تھی۔۔۔ کچھ دن بعد جا کر بات پکی کر آئے۔۔
منال اور قاسم علی کی دلی مراد پوری هو گئی تھی۔۔
شادی فرواہ کی شادی کے ساتھ طے پائی کے دونوں بہن بھائی کی شادی اکھٹی کی جائے۔۔
سب نے رضامندی ظاہر کر دی۔۔
فرواہ کی نسبت بچپن سے اپنے خالا زاد کے ساتھ طے تھی جو اسے بلکل بھی پسند نہیں تھا۔۔ پہلے تو چلو تھوڑا بہت پسند تھا مگر اس کی ایک حرکت نے فرواہ کے دل میں نفرت پیدا کر دی۔۔
ایک سال پہلے کی بات ہے جب خالا۔۔ امی کی طبیعت خراب کا پتہ لینے آئی تھی اس کے ساتھ نعمان بھی آیا تھا۔۔
فرواہ اسے چائے دینے گئی اس نے فرواہ کا ہاتھ پکڑ لیا۔۔ جب اس نے چھڑانے کی کوشش کی تو اس نے خباست سے ہنستے ہوئے کہا یہ میری ملکیت ہے آج بھی اور کل بھی۔۔
میں جیسے چاہوں استعمال کروں۔۔
فرواہ نے اسے دھکا دیا اور بھاگ کر باہر آ گئی۔ خالا دو دن رہی اور دو دن نعمان وقفے وقفے سے فرواہ کو تنگ کرتا رہا۔۔
اس دن سے فرواہ کو نعمان سے نفرت سی هو گئی۔۔
فرواہ کی جب بھی قاسم علی سے بات ہوتی تو باتوں باتوں میں اگر نعمان کا زکر آتا تو فرواہ بھائی کے سامنے اسے خوب برا بھلا کہتی تاکہ بھائی سمجھ جائے کے میں اسے پسند نہیں کرتی۔۔
مگر قاسم علی ہمیشہ یہ سمجھا کہ میں چھیڑتا ہوں تبھی اسے برا بھلا کہتی ہے اور کوئی بات نہیں۔۔ فرواہ اندر اندر پیچ و تاب کھاتی رہی۔۔
۔ دو سال بعد قاسم علی پھر چھٹی آیا تو گھر میں پھر سے شادی رکھ دی گئی اس بار قاسم علی اور فرواہ کی شادی تھی۔۔
گھر میں خوب رونق لگی ہوئی تھی زونیرہ بھی آ گئی تھی اسے اللّٰهُ نے بیٹے سے نوازا تھا پورا گھر دولہن کی طرح سجایا گیا تھا۔۔ ہر چہرہ خوشی میں دمک رہا تھا۔۔
مگر جو دولہن تھی وہ مرجھائی ہوئی اداس تھی۔۔
یہاں بھی گھر والوں نے یہ ہی سمجھا کہ بیٹیاں ماں باپ کے گھر سےجاتے وقت اداس ہوتی ہی ہے۔۔
ہر رسم میں جہاں قاسم علی چہک رہا تھا وہاں فرواہ رو رو کر برا حال کر رہی تھی۔۔ جو کوئی بھی اسے روتا دیکھتا گلے لگ کر خود بھی بین کرنے لگتا۔۔ مگر کسی نے پوچھنا گوارہ نہ کیا کے پگلی روتی کیوں ہے۔۔۔(
یہ ہر گھر کی کہانی ہے اور اکثر عزت شرم و حیا والی لڑکیوں کے ساتھ ایسا ہی ہوتا ہے )
آج مہندی تھی سارے رشتے دار گھر میں جمع تھے بلند آواز میں ڈیگ میں گانے چل رہے تھے۔۔ حاجی ناظم علی نے بہت منع کیا مگر رشتے دار لڑکے لڑکیوں اور عورتوں نے کہا چاچا شادی بیاہ میں تو چلتا ہے۔۔ اب یہاں نا مولوی بن جانا۔۔ وہ بےچارہ اپنا سا منہ لے کر بیٹھ گیا۔۔
قاسم علی نے منع کرنا چاہا تو اسے بھی چپ کروا دیا۔۔
کہہ کر کے دولہے نہیں بولتے۔۔ فرواہ تو پہلے بددل ہوئی پڑی تھی۔۔
سہیلیاں رشتے دار لڑکیاں باتیں کرتی چھیڑتی۔ مگر فرواہ خاموش اداس اور آنسو بہاتی رہی۔۔
پہلے قاسم علی کو مہندی لگائی گئی کیونکہ صبح اس کی بارات تھی اور فرواہ کی مہندی۔۔ آگے دن جب قاسم علی کا ولیمہ تھا اس دن فرواہ کی بارات تھی۔۔
یعنی قاسم علی کے ولیمے میں بارات کا کھانا تھا۔۔
ایک طرف بلند آواز میں ڈیگ چل رہا تھا دوسری طرف عورتوں نے ڈھولکی بجانا شروع کر دی۔۔ وہ بولیاں ٹپے مائیے گاتی جاتی اور مہندی لگاتی جاتی۔۔
شام 8 بجے کا فنکشن شروع ہوا رات کے 2 بج گئے۔۔ اور ہلہ گلہ جاری تھا۔۔
سبھی نے قاسم علی کو مہندی لگائی مگر فرواہ اپنے کمرے سے باہر نہیں نکلی۔۔ وہ چادر اوڑھ کر لیٹ گئی کہ میرے سر میں درد ہے۔۔ اور منہ چھپا کر روتی رہی۔۔
اسے اپنے بھائی پہ غصہ تھا کیونکہ وہ صرف اس کا بھائی نہیں دوست بھی تھا۔۔ اور اس نے ہزار بار اشاروں سے بتایا تھا کہ اسے نعمان پسند نہیں۔۔ مگر قاسم علی بھی عام بھائیوں کی طرح نکلا اس نے بہن کی فیلنگ نہیں سمجھی۔۔یہ ہی وجہ تھی کہ فرواہ مہندی لگانے بھی نہیں آئی۔۔
اور نصیب کا کھیل دیکھو کسی نے نوٹ بھی نہیں کیا۔ کہ اکلوتے بھائی کی خوشی میں بہن موجود نہیں وہ بہن جس کو جب سے پیدا ہوئی تھی بھائی کی شادی کا شوق اور چاہ تھا۔۔
ایک ہی تو بھائی تھا ہر بہن کو کتنے ارمان ھوتے ہیں بھائیوں کی شادیوں کے۔۔
مگر جب خود کا دل مردہ ہو تو پھر کوئی خوشی معنی نہیں رکھتی۔۔
دوسرے دن قاسم علی کی بارات تھی 10 سے 12 گاڑیاں کاریں 2 وین بھر کر بارات گئی۔۔
منال کے گھر والوں نے بھی بیٹی کی شادی بہت دھوم دھام سے کی 100 سے زائد باراتی منگوائے ہوئے تھے۔ مگر افسوس صد افسوس کہ ان باراتیوں میں سگی بہن موجود نہیں تھی۔۔
قاسم علی نے منتیں ترلے کیے فرواہ کے مگر وہ نہیں مانی۔۔ اس کی وجہ سے ماں کو بھی اکلوتے بیٹے کی بارات کے ساتھ جانے کا ارمان دل میں رکھنا پڑا۔۔
سارا دن اکیلے گھر میں ماں بات بات پر کوستی رہی مگر زیادہ کچھ کہہ نہیں سکی کیونکہ اس کی بھی شادی تھی صبح اور وہ بھی پرائی هو جانی تھی۔۔
شام کو 6 بجے کے قریب منال مسز منال قاسم علی بن کر آ گئی۔۔
بہو کے گھر میں آنے سے گھر میں پھر سے چہل پہل گہما گہمی ھو گئی تھی۔۔ نئی بہو گھر آئے تو کافی رسمیں کرتی ہیں ساسیں وہی قاسم علی کی ماں خدیجہ بی بی بھی کرنے لگی۔
مثلاً دودھ پلائی گھونگھٹ اٹھائی۔۔ محلے والی دولہن دیکھنے آ رہی تھی تحفے تحائف دئے جا رہے تھے۔۔ قاسم علی پاس بیٹھا ایسے ہی چہک رہا تھا۔۔ کسی کو اس جان کی پرواہ نہیں تھی جس نے کل وداع هو کر جانا تھا۔۔
قاسم علی کی تو سہاگ رات تھی اسے دنیا مافیا کے ویسے خبر نہیں تھی اور اس وقت نہ کسی لڑکے کو ھوتی هے۔۔ وہ تو دعا کر رہا تھا کب یہ سب رسمیں ختم ہو اور وہ دلہن کے پاس اکیلے جائے۔۔ ا
الله الله کرکے رات 12 بجے منال کو اس کے کمرے میں چھوڑا گیا۔۔۔ قاسم علی لپک کر کمرے کی طرف بڑھا ہی تھا کہ زونیرہ اور چھوٹی دونوں بہنیں کھڑی ہو گئی دروازہ پکڑ کر۔۔۔
ارے اب تم سب کو کیا چاہیے۔۔ قاسم جھنجھلا کر بولا
کمرے میں جانے کا نیگ۔۔۔
پھر سے نیگ۔۔ کتنے نیگ لوگی تم سب۔۔
بھائی یہ آخری هے پھر نہیں مانگتی۔۔ چھوٹی بولی۔
اچھا کیا چاہیے۔۔۔۔۔۔۔۔۔ 10۔000۔
دس ہزار اتنے زیادہ۔۔ ابھی یہ 5000 بچے ہیں چاہیے تو ٹھیک ورنہ میں دوسرے کمرے میں سو جاتا ہوں قاسم علی نے دھمکی دی
ٹھیک ہے ٹھیک ہے یہ ہی کافی ہے زونیرہ نے پیسے لیتے ہوئے کہا اور دروازہ چھوڑ دیا۔۔
کمرے میں بیڈ کے درمیان میں لہنگا پھیلائے دلہن بنی شرماتی ہوئی گھونگھٹ میں منہ چھپائے منال بیٹھی تھی۔۔ قاسم علی دبے قدموں اس کے پاس گیا۔
اسلام وعلیکم ورحمته الله وبركاته۔ سلام کیا۔
جس کا آہستہ سے منال نے جواب دیا۔۔
قاسم علی نے گھونگھٹ اٹھایا اور جیب سے مخملی ڈبیہ نکال کر اس میں سے سونے کی انگوٹھی نکالی اور منال کو پہنا دی۔۔
منال نے شرماتے ہوئے انگلی میں پہنی انگوٹھی دیکھی۔۔
کیا حرف ع جس لغت میں ہو وہ عربی کا ہو گا؟
اردو کا ہر وہ لفظ، جس میں حرفِ "عین" آتا ہو، وہ اصلاً عربی کا ہو گا! مرزا غالب اپنے...