جنت حیرت زدہ سی وہ ریکارڈنگ سُن رہی تھی—
“کیا کیا کہتی رہی ہو تم اپنے ہبی سے جو وہ تم سے اتنا ڈِس ہارٹ ہوگیا ہے—ویری بیڈ یار! ” سہل بیڈ پر کہنی کے بل گرنے کے انداز میں لیٹ گیا—جنت ایک کنارے پر ٹکی تھی—
“مم—مجھے اندازہ بھی نہیں تھا کہ وہ میری اتنی پرانی باتیں یاد رکھے بیٹھے ہیں—وہ میری افسانوی سوچ تھی کہ امیر آدمی سے شادی کر کے مجھے خوشحال زندگی مل جائے گی مگر اب سوچتی ہوں تو اپنی سوچ پر شرمندگی ہوتی ہے انسان کو اپنی محنت سے حاصل کرنا چاہیے سب کچھ پتا نہیں کب تک ہمارا معاشرہ ہمیں امیر ہمسفر کے خواب دِکھلاتا رہے گا کیوں ہم لڑکیوں کو یہ سوچ نہیں دیتے کہ اپنے پیروں پر کھڑے ہو— اپنی خواہشات خود پوری کرنا سیکھو— شوہر کو تمہاری ضروریات تک محدود رکھا ہے بےجا خواہشات کا حکم نہیں دیا مگر مجھ جیسی لڑکیاں اپنے آپ کو حق پر سمجھ کر اپنے شوہروں کا جینا حرام کرے رکھتیں ہیں— جیسے میں نے معیز کو مشین بنا کر رکھ دیا تھا پھر بھی کبھی اُن کی محنت کا صلہ نہیں دے سکی ہمیشہ ناشکری رہی—” سہل ہی تھا جو تمام حقیقت سے آگاہ اور اس وقت اسکا ہمدرد تھا جنت نے اسکے سامنے ہی اپنا دل ہلکا کرنا تھا—
“ویسے اتنا ہینڈسم بندہ کہاں سے مارا تم نے؟” وہ اتنے ٹینشن زدہ ماحول میں بھی آنکھیں پٹپٹائے اس سے پوچھ رہا تھا—جنت کو اسکے انداز پر ہنسی آگئی—
“خود پرپوز کیا تھا معیز نے—” وہ اپنی اُنگلی میں پہنی سونے کی انگوٹھی گھماتی بولی—
“یو آر سو لکی!” وہ اُٹھ کر بیٹھ گیا—
“یاہ آئی ایم—” جنت نے اعتراف کیا—
*****************
اسے یہاں رہتے مزید تین دن گزر چکے تھے—ابراہیم حسین دو دن سے اسلام آباد گیا ہوا تھا اس دوران سہل مسلسل جنت کو فورس کرتا رہا تھا کہ وہ معیز کے پاس چلی جائے وہ آج بھی اس کیلیے اپنے دل, اپنی زندگی کے دروازے کھولے کھڑا ہے مگر اسکی ایک ہی رٹ تھی کہ اگر وہ گئی تو ابراہیم حسین اپنی بےعزتی کا بدلہ لینے کیلیے معیز کو کوئی بھی نقصان پہنچا سکتا ہے—پھر معیز کی بدگمانی بھی اسکی ہمت توڑ رہی تھی—سہل بھی اب غصے میں اس سے بات نہیں کررہا تھا
“جنت کہاں ہے؟” ابراہیم حسین سفید ٹی شرٹ اور بلیک ٹراؤز میں ملبوس گیلے بال ٹاول سے سکھاتا ڈریسنگ روم سے نکلا—ملازم رفریشمنٹ کی ٹرالی لے کر اندر آئی تو اس نے پوچھا—
“وہ اپنے کمرے میں ہی رہتی ہیں–” ملازمہ نے بتایا—
“جاؤ اُسے بلا کے لاؤ—” اس نے ٹاول ڈریسنگ مرر کے پاس لگے اسٹینڈ پر ٹانگتے کہا—ملازمہ سر ہلا کر نکل گئی—
“میں سو رہی ہوں—” جنت نے ملازمہ کے منہ پر دروازہ بند کردیا–ملازمہ دوبارہ سیڑھیاں چڑھ گئی—-
“سر وہ سورہی ہیں—” ملازمہ نے چینل سرچنگ کرتے ابراہیم حسین کو کہا—اسکا روم تقریباً ایک پورشن جتنا تھا جس میں ٹی وی لانج الگ سے بنا تھا—
“اور یہ بات اُس نے خود تم سے کہی ہے؟” اس نے سنجیدگی سے نظریں اسکرین پر رکھتے کہا—
“نن–” ابراہیم حسین نے گھوری سے نوازا—
“جی” ملازمہ فوراً بولی—وہ ریموٹ سامنے پڑی سٹائلش سی شیشے کی میز پر رکھ کر کھڑا ہوگیا—اسکا کمرہ کسی ریاست کے شہزادے کی آرام گاہ معلوم ہوتا تھا—جس میں برسوں سے وہ تنہا رہ رہا تھا—
وہ بالوں کو ہاتھوں سے سنوارتا سیڑھیاں اُتر رہا تھا جب سامنے سے تیزی سے لانج کی جانب جاتی جنت کو دیکھا وہ سہل کو آتا دیکھ کر اُس طرف جارہی تھی مگر ابراہیم حسین کو دیکھ کر ٹہر گئی—
“سوتے میں چلنے کی عادت ہے تمہیں؟” وہ اس سے دو تین قدم کے فاصلے پر رُک گیا—پرفیوم اور شیمپو کی خوشبو نے جنت کے نتھنوں سے ٹکر ماری—
“وہ—” جنت نے ادھر اُدھر دیکھنا شروع کردیا—
“رات میں ہماری کمیونٹی کی ایک گیٹ ٹوگیدر ہے—تم ساتھ چل رہی ہو—آٹھ بجے تک ریڈی ہوجانا—” وہ جب بھی بات کرتا تھا اسکی طرف سے نگاہ نہیں پھیرتا تھا—مسلسل اسے دیکھ کر بولتا تھا—
“ایکچوئلی میرے سر میں بہت درد ہے—” جنت نے اپنے ماتھے پر ہاتھ پھیرا—
“بنالیا بہانا؟ ہوگیا شوق پورا؟ اب جا کر اپنی تیاری کرو—” وہ حکم دینے والے انداز میں بولا—
“جاؤ—” اسے ابھی تک کھڑے دیکھ کر وہ اپنی بات پر زور دے کر بولا—
“اپنے آپ کو سمجھتا کیا ہے یہ؟ ڈریکولا—چمپینزی! ” جنت اپنے کمرے کی جانب جاتی اونچے سے بڑبڑائی–
“He’s a rich man with killer looks!”
سہل اسکے پیچھے پیچھے چلتے بولا—جنت کے قدم رُکے–
“کتنے تیز کان ہیں تمہارے—” جنت اسکی جانب مُڑتی خفگی سے بولی—
“میرے ڈیڈ کو کچھ کہنے سے پہلے مرر دیکھ لیا ہوتا کچرا رانی—” سہل نے منہ چڑایا—جنت کی صدمے کے باعث آنکھیں باہر نکل پڑیں–
“ہزار بار کہوں گی ڈریکولا , ڈریکولا– ” جنت اُنگلی اُٹھا کر بولی
“کچرا رانی, کچرا رانی—” دونوں کی آوازیں گڈ مڈ ہونے لگی—
“ڈریکولا– ”
“کچرا رانی–”
“shut up! ”
ابراہیم حسین کے ڈپٹنے کی آواز پر دونوں ایکدم خاموش ہوگئے—
“کیا شور مچا رکھا ہے تم لوگوں نے؟” اسے کہاں عادت تھی گھر میں اس شور شرابے کی—برہمی سے پوچھا— جنت فوراً اپنے کمرے کی جانب دوڑ گئی— جبکہ سہل نے دانتوں کی نمائش کی—
***************
“معیز تم اکیڈمی کیوں نہیں جارہے؟” وہ کچن میں موجود حسنہ بیگم کیلیے سادہ گوشت بنارہا تھا— جبکہ وہ ہاتھ میں کارڈلیس تھامے کچن کاؤنٹر کے دوسری جانب کھڑی تھیں—شاید اکیڈمی سے ایڈمنسٹریٹر کی کال آئی تھی
“چلا جاؤں گا—” وہ لاپرواہی سے بولا—
“اور آپ یہاں کیوں آئی ہیں؟ میں نے کہا نا آپ سے ریسٹ کریں—” ان کی طبیعت بہتر نہیں تھی بلڈ پریشر بہت لو رہنے لگا تھا—
“تم نکلو اب یہاں سے میں دیکھ لوں گی—” وہ اندر آنے لگیں—
“میں کررہا ہوں نا بلکہ بس بن گیا ہے دم آلینے دیں نرم ہوجائے گا—” وہ اب کچن کا پھیلاوا سمیٹ رہا تھا—
“مرد اتنے ظالم ہوتے ہیں بیویوں کو مارتے پیٹتے ہیں اُن کی ضرورتیں تک پوری نہیں کرتے, اچھا سلوک نہیں کرتے پھر بھی وہ اُف تک نہیں کرتیں اور ایک میرے بیٹے کے نصیب ہیں—” انہوں نے سرد آہ بھری—معیز کی ان کی جانب پُشت تھی وہ پلٹا نہیں تھا—صرف ہونٹ کاٹتا رہا—
**************
“ہیلو! ” سہل غریب بچوں کیلیے کھولے گئے اپنے اقراء اسکول کیلیے بہت سے اسٹوڈنٹس کی بھیجی گئی سی ویز دیکھ رہا تھا—جو ٹیچنگ کرنے میں دلچسپی رکھتے تھے–اسکے فون پر کال آئی تو نمبر دیکھے بغیر اٹینڈ کرلی—
“معیز احمد بول رہا ہوں—”
“ہاں بولو دیوداس—اُپس!” سہل نے زبان ہونٹوں میں دبائی—
“بولو معیز—” وہ جلدی سے بولا—
“جنت کو دیکھنا چاہتا ہوں میں—” وہ دھیمی آواز میں بولا—سہل نے بیڈ کراؤن سے ٹیک لگاتے لیپ ٹاپ سائیڈ پر کیا—
“تصویر دیکھ لو— یا غصے میں فلمی ہیرو کی طرح ساری جلا دی ہیں؟” وہ سچ مچ اس سے دیوداس جیسی حرکتیں ہی اُمید کررہا تھا—
“میں سنجیدہ ہوں—” اسے بات کو ہلکا لیتے دیکھ کر وہ بولا
“وہ ڈیڈ کے ساتھ رات کو ایک گیٹ ٹوگیدر میں جارہی ہے تم ایسا کرو وہیں چلے جاؤ بلکہ میں تمہیں خود لے جاؤں گا ورنہ گارڈز جانے نہیں دیں گے—” اس نے پلان بتایا—
“تم اُسے دیکھ کر کیا کروگے؟ ویسی ہی ہے چار دن میں کسی کی شکل نہیں بدلتی—سچ کہہ رہا ہوں—”
“اتنا کیسے بول لیتے ہو؟” معیز بےزاریت سے گویا ہوا—
“زبان سے یار!” اس نے معیز کی معلومات میں ہزار گنا اضافہ کیا تھا—
“اُففف—” معیز نے فون کان سے ہٹاتے کاٹ دیا—سہل نے ٹوں ٹوں کرتے فون کو دیکھتے منہ بگاڑا—
*****************
معیز تمام راستے سہل کی بک بک سنتے فارم ہاؤس پہنچا تھا—جنت اور ابراہیم حسین ابھی تک نہیں آئے تھے وجہ وہی تھی ابراہیم حسین کی گھڑی میں آٹھ کا مطلب نو اور نو کا مطلب دس ہوتا تھا—اسے انتظار کروانے کی عادت تھی–
“تم نے ڈیڈ کے سامنے نہیں جانا اوکے؟” سہل اسے فارم ہاؤس کے پچھلی طرف لایا تھا—
“میں ڈرتا نہیں ہوں تمہارے ڈیڈ سے—” وہ نخوت سے بولا
“اچھا تو باکسنگ میچ کھیلنے آئے ہو اُن کے ساتھ؟” سہل نے سمجھداری سے سرہلایا—معیز نے ناسمجھی سے اسے دیکھا—پھر سر جھٹکا— سہل ابراہیم کی باتیں سہل ابراہیم کے سوا اور کوئی نہیں سمجھ سکتا تھا—
معیز نے دیوار کی اوٹ میں ہوکر دیکھا—سیاہ رنگ کی فراک اور چوڑی دار پجامے کے ساتھ شیفون کا دوپٹہ لیے وہ بہت سنجیدہ چہرے کے ساتھ ابراہیم حسین کے ساتھ مہمانوں کی جانب بڑھ رہی تھی—ہلکی سی گلابی لپ اسٹک کے سوا چہرہ ہر قسم کے میک اپ سے پاک تھا–
جنت کو کبھی میک اپ, مہنگے کپڑے یا چائنز,اٹالین کھانے کا شوق نہیں رہا تھا—وہ بہت سادہ تھی اور اس سادگی میں ہی خوش رہتی تھی—پھر پتا نہیں اس نے بل گیٹس جتنی دولت لے کر کہاں لگانی تھی؟ معیز کی سمجھ سے باہر تھی یہ بات—
“ہائے ڈیڈ! ” سہل کی آواز پر ابراہیم حسین نے حیرت سے اسے دیکھا–
“ہائے بیوٹی فل!” اسکے بعد وہ جنت کے کان میں گھس کر بولا—جنت نے منہ پھیرا—
“ہائے کچرا رانی! ” اس نے اندازِ تخاطب بدلا—جنت نے دانت پیسے—ابراہیم حسین اپنے ملنے والوں کی طرف چل پڑا—
کچھ دیر بعد سب آتش دان کے آس پاس لگی لکڑیوں کی کرسی پر بیٹھ گئے—ویٹرز کسی کو قہوہ تو کسی کو کافی, چائے سرو کررہے تھے—
ابراہیم حسین کے بالکل سامنے والی کرسی پر جنت بیٹھی تھی اور اسکے ساتھ والی پر سہل— ابراہیم حسین اس کے ساتھ جتنا وقت گزارنا چاہتا تھا وہ اتنا اس سے دور بھاگتی تھی—
سہل اپنا وائلن لے کر بیٹھا تھا—سب اسکے میوزک کے شوق کو جانتے تھے—اس نے ہلکی ہلکی دھن بجانا شروع کی—ماحول بہت مسحور کُن معلوم ہورہا تھا—جنت کے چہرے پر پڑتی آگ کی روشنی اسکے نقوش مزید حسین و پرکشش بنارہی تھی—ابراہیم حسین کی کرسی کے پیچھے دور کھڑے شخص کو وہ تاریکی میں دیکھ نہیں سکی تھی مگر وہ دیکھ رہا تھا اپنے اور اسکے درمیان ابراہیم حسین کی دیوار کو—ابراہیم حسین ٹانگ پر ٹانگ جمائے ایک ہاتھ میں کافی کا مگ تھامے کرسی سے ٹیک لگائے جنت کو دیکھ رہا تھا—اسکے اُداس چہرے کو دیکھ رہا تھا—ہوا میں بکھرا ساز کسی کے دل کے تار نہیں چھیڑ سکا بہت اُداس دھن تھی—
یاد ہے مجھ کو تو نے کہا تھا
تجھ سے نہیں روٹھے گے کبھی
دل کی طرح سے آج ملے ہیں
کیسے بھلا چھوٹے گے کبھی
اُداس دُھن پر یہ اُداس گیت سارے ماحول کو اپنی لپیٹ میں لے چکا تھا–سہل کا سر جھکا ہوا تھا وہ پورا مگن تھا گانے میں—
تیری بانہوں میں بیتی ہر شام
بےوفا یہ بھی کیا یاد نہیں
تاریکی میں نظر آتا وہ ہیولہ اب قریب آنے لگا تھا اور جنت کی آنکھیں بےیقینی سے اسے دیکھ رہی تھیں—
کیا ہوا تیرا وعدہ؟
وہ قسم وہ ارادہ
“you are mine and I’ll never leave you, never ever!”
معیز کو اسکا وعدہ یاد آیا
وہ وعدہ خلاف تھی؟
“I’ll never let you go”
جنت کو اسکے دعوے یاد آئے اور پھر اس نے کیا کیا؟ اسے خود جانے کا کہہ دیا—فریبی تھا وہ یا جھوٹا؟ جنت کی آنکھیں سوال کررہی تھیں—
وہ کہنے والے مجھ کو فریبی
کون فریبی ہے یہ تو بتاؤ
وہ جس نے غم لیا پیار کی خاطر
یا جس نے پیار کو بیچ دیا؟
گیت کے بول جیسے جنت کو جواب دے رہے ہوں—
نشہ دولت کا ایسا بھی کیا
کہ تجھے کچھ بھی یاد نہیں
گیت کے بول معیز کے سوال کو زبان دے رہے تھے—جنت نے نظریں چرالیں—
کیا ہوا تیرا وعدہ؟
“Why sad song sehel? ”
ابراہیم حسین کے بغل میں بیٹھے آدمی نے ہنستے ہوئے پوچھا—
“دنیا بہت اُداس ہے سر کبھی دلوں میں جھانک کر تو دیکھیں—” سہل نے پل کی پل نظریں جنت کی جانب اُٹھائیں—وہ ایکسکیوز کرتی اپنی جگہ چھوڑ کر اٹھ گئی—اسکا رُخ فارم ہاؤس کی پچھلی جانب تھا–ایک ماروائی طاقت تھی جو اسکے قدم روک نہ سکی—وہ اِدھر ادھر کسی کی تلاش میں نظریں دوڑا رہی تھی—
“جن کو چھوڑ جائیں پھر ان کی تلاش میں نہیں نکلتے—” اسکی پُشت پر آواز اُبھری—جنت نے پلٹ کر اسے دیکھا—معیز کو اسکی آنکھوں میں چمکتے موتی صاف نظر آرہے تھے—
“نکالے جانے والے اور چھوڑ کر جانے والوں میں بہت فرق ہوتا ہے ” وہ اسکی آنکھوں میں دیکھتی بولی پھر پلٹ کر جانے لگی تھی جب معیز نے اسکی کلائی پکڑ کر اپنی جانب کھینچ لیا—
“واپس آجاؤ جنت—” یہ ایک جملہ بولنے کیلیے کتنا وقت لیا تھا اس نے جنت نے اپنی کلائی آزاد کروانے کی کوشش کی—معیز نے اسے اپنی گرفت میں لے لیا—
“نہیں رہ سکتا میں تمہارے بغیر—” جذبات سے بوجھل بھیگی آواز جنت کے کان کے بہت قریب اُبھری تھی—
“چھوڑو مجھے” جنت مشتعل ہوتی اسکی گرفت سے نکلنے کو بے آب مچھلی کی مانند تڑپ رہی تھی
“نہیں چھوڑوں گا” معیز اسکو جھنجھوڑتا وحشت زدہ سا چلایا—جنت کی صراحی دار گردن میں ایک گلٹی سی اُبھری تھی—معیز کی آنکھوں میں جنون ہلکورے لے رہا تھا
“تم نے وعدہ کیا تھا تم مجھے چھوڑ کر نہیں جاؤ گی— تم نے کہا تھا تم مجھ سے محبت کرتی ہو—تم کیسے بھول گئی جنت” اسکی آواز اب مدھم ہوتی جارہی تھی— اسکا چہرہ جنت کے بےحد قریب تھا وہ اسکی نم آنکھیں دیکھ سکتی تھی—
“جھوٹ کہا تھا میں نے” جنت نے دونوں ہاتھ اسکے سینے پر دھرتے اسے دور دھکیلنا چاہا—معیز نے اسکی چھلکتی آنکھیں بغور دیکھیں
“جھوٹ تم اب کہہ رہی ہو” اسے پھر سے بازوؤں سے دبوچ کر اپنے قریب کرتے وہ دھاڑا
“واپس آجاؤ جنت— اتنی دولت کا کیا کروگی؟ کیا ابراہیم حسین مجھے replace کرسکتا ہے؟” اسکی مسلسل مزاحمت پر معیز نے اسے جھٹکا دیا
“بولو؟” معیز دھاڑا—جنت کا چہرہ سُرخ ہورہا تھا—
“میں ابراہیم حسین کے ولاء میں پور رات ٹہرنے والی وہی جنت ہوں جسے آپ کی شک کی ایک نگاہ نے آلودہ کردیا ہے—اب دولت کیا؟ چھت ہی دے دے کوئی بڑی بات ہے–” وہ تلخی سے اسکے چہرے کی طرف دیکھتی گویا ہوئی—آنسو گالوں پر بہہ رہے تھے—
“میں نے شک نہیں کیا تھا جنت— ” اس نے ایک ہاتھ سے اسکے آنسو پونچھے دوسرا کمر کے گرد بندھا تھا—
“آپ نے کیا تھا—” جنت نے اسکا ہاتھ جھٹکا بالکل روٹھے بچے کی طرح رو رہی تھی
“صرف موقع دیا تھا تمہیں—آزمایا تھا کہ دولت اور محبت میں سے کسے چُنو گی—”
“اور میں نے دولت کو چُن لیا—یہی نظر آرہا ہوگا آپ کو—” جنت اسکی بات کاٹ کر بولی—
“اُسکی ایک دھمکی پر اپنا سب کچھ داؤ پر لگائے بیٹھی رہی ایک بار مجھے آگاہ نہیں کیا—وہ کون ہوتا ہے کسی کی زندگی و موت کا فیصلہ کرنے والا؟” وہ اسے ڈپٹ رہا تھا—
“کسی کو پیسے کی گڈی تھما کر ایک فائر کروانا آج کل کوئی خطرناک کام نہیں ہے اور اثر و رسوخ والوں کیلیے تو بالکل نہیں ہے—ہم اُس کا مقابلہ نہیں کرسکتے—” جنت نے جیسے اپنی کمزوری بتلائی ہو—
“تم میرا ساتھ دو تو میں کسی کا بھی مقابلہ کرسکتا ہوں—” اس نے جنت کے ماتھے پر آئے بال کانوں کے پیچھے اُڑیستے پیار بھرے انداز میں کہا—
“دوگی میرا ساتھ؟” اس نے جنت سے عہد چاہا—جنت نے اثبات میں سر ہلاتے اسکے سینے پر اپنا سر رکھ دیا—
“I really love you moiz…I love you so much and I’m sorry for everything, for my foolish behavior, for my stupid, nonsense attitude!”
معیز کو اپنا گریبان بھیگتا محسوس ہورہا تھا مگر یہ اعتراف روح کو مسرور کرنے کیلیے بہت تھا—جنت کے بازوؤں کی سخت گرفت وہ اپنی کمر کے گرد محسوس کررہا تھا—معیز نے اسکے بال سہلاتے اسکے گرد اپنا حصار قائم کیا— وہ سکون سے آنکھیں موندے اسکے سینے پر سر رکھے کھڑی تھی—قدموں کی چاپ پر معیز نے سامنے دیکھا—ابراہیم حسین پینٹ کی ایک جیب میں ہاتھ ڈالے کھڑا انہیں ہی دیکھ رہا تھا—معیز نے جنت کے گرد سے اپنا بازو ہٹایا اس نے بھی پلٹ کر دیکھا تھا—
“سنا تھا محبت اندھی ہوتی ہے مگر آج دیکھ بھی لیا—” وہ چلتا ہوا ان سے کچھ فاصلے پر کھڑا ہوگیا—
“بھئی جگرا ہے تمہارا— ہفتے ہفتے گھر سے غائب بیوی کو بھی کُھلے دل سے بانہوں میں لے لیا—I appreciate—” اس نے ایک ابرو اُٹھاتے سراہنے والے انداز میں کہا—
“وَل تمہاری بیوی کے ساتھ بہت اچھا وقت گزرا ہے میرا—” وہ اگلا جملہ نہیں بول سکا تھا معیز احمد کا بھاری مکا اسکے جبڑے پر پڑا تھا وہ دو تین قدم پیچھے گیا تھا—
“یو باسٹرڈ! ” ابراہیم حسین نے اپنے ہونٹ کے پھٹے کنارے کو شہادت کی اُنگلی سے چھوتے کہا اور اگلے ہی لمحے وہ دونوں گتھم گتھا ہوچکے تھے—شور کی آواز پر پوری کمیونٹی وہاں اکٹھی ہوچکی تھی—
سکیورٹی گارڈ بھی پہنچ چکے تھے—جنت کا سر چکرانے لگا—ہر شےء گھومتی محسوس ہوئی—
“جنت!” سہل نے چیختے ہوئے گرتی جنت کے سر کے نیچے ہاتھ رکھ کر فرش سے سر ٹکرانے سے بچالیا تھا—معیز اور ابراہیم حسین دونوں جنت کی جانب متوجہ ہوئے تھے—
******************
فارم ہاؤس کے ہی ایک روم میں بیڈ پر دراز اس نے موندی موندی آنکھیں کھول کر آس پاس دیکھا—ابراہیم حسین دور کھڑکی سے ٹیک لگائے کھڑا تھا—سہل بیڈ کے پاس کرسی رکھے بیٹھا تھا اور معیز لیڈی ڈاکٹر کی بات سُن رہا تھا—
“خطرے کی کوئی بات نہیں ہے— شی از اکسپیکٹنگ—آپ ان کے ہسبینڈ ہیں؟” ڈاکٹر نے معیز سے پوچھا— ابراہیم حسین نے جنت کی جانب دیکھا جو اب اُٹھ کر بیٹھ رہی تھی—
معیز نے ایک نظر ابراہیم حسین کی جانب ڈالی اور اثبات میں سرہلایا–
“Congratulations”
ڈاکٹر نے پرجوش انداز میں مبارک باد دی—ابراہیم حسین بیڈ کے کنارے پڑے اپنے کوٹ کو اُٹھاتا لمبے لمبے ڈگ بھرتا بغیر کسی کی جانب دیکھے کمرے سے نکل گیا—
معیز جنت کے پاس بیٹھا جانے اس سے کیا کہہ رہا تھا دروازے کے پاس کھڑے سہل کو وہ ایک مکمل فریم نظر آیا تھا—
گہرا سانس بھرتے وہ فارم ہاؤس سے نکل گیا—ابراہیم حسین کی گاڑی دھول اُڑاتی دور جاتی نظر آرہی تھی—
سہل نے بری طرح اپنے ہونٹ چبائے-
*****************
تین سال چھ ماہ بعد!
“عون—” یہ دبئی مال کے باہر مین سڑک تھی—جہاں فٹ پاتھ پر بھالو کی طرح مٹک مٹک کر چلتے گورے موٹے بچے کو آواز دیتی لڑکی کی جانب غیر ارادی طور پر سمارٹ فون پر مصروف ابراہیم حسین کی نظر پڑی تھی—سفید ٹائٹس کے ساتھ ہلکے آسمانی رنگ کی شرٹ اور گلے میں سفید سٹولر ڈالے, بالوں کی اونچی پونی کیے وہ اس چہرے کو, اس آواز کو بھول سکتے تھے بھلا؟ جنت نے بھی بچے سے نظر ہٹا کر سامنے کھڑے ابراہیم حسین کو دیکھا—آج بھی ویسا ہی سوٹڈ بوٹڈ حلیہ تھا اسکا—وہی روعب دار پرسنیلٹی—بچہ اب اسکے قریب آرہا تھا—ابراہیم حسین نے موبائل کوٹ کی پاکٹ میں ڈالتے جھک کر بچے کو اُٹھالیا—
“کیسی ہو؟” اس نے نارمل انداز میں جنت کے پاس جاتے اس سے پوچھا
“فائن—” اس نے دھیمی آواز میں جواب دیا—
“اکیلی آئی ہو؟”
“نہیں معیز ساتھ ہیں—” اس نے پراعتماد انداز میں جواب دیا—
“میں تم سے—” وہ اٹکا
“I am sorry!”
وہ سر جھکا کر بولا—پہلی بار اس نے جنت سے مخاطب ہوتے اسکی طرف نہیں دیکھا تھا
“میں نے تمہارے کردار پر تہمت لگا کر تمہیں خود اپنے آپ سے بدظن کردیا ورنہ آج—”
“دولت کبھی نصیب نہیں خرید سکتی ابراہیم حسین— اگر نصیب میں صحت نہ ہو تو جتنی دولت بھی لگادو بیماری پیچھا نہیں چھوڑتی— اگر نصیب میں محبت نہ ہو تو کتنے بھی ہیرے جمع کرلو وہ نہیں ملتی–” ابراہیم حسین آج اُنہیں سڑکوں پر اسکی سُن رہا تھا جہاں وہ کبھی اسے اسکی غربت کا احساس دلاتا رہا تھا–
” قسمت میں دولت ہوتی ہے دولت سے قسمت نہیں!” جنت نے ایک جملے میں اسے پوری دنیا دکھا دی تھی—
“سوری ڈیڈ وہ ایک دوست—-” سہل تیزی سے فون کان سے ہٹاتا ان کے پاس آرکا پہلے بچے کو دیکھا پھر اپنے ساتھ کھڑی جنت کو—
“تم؟” وہ خوشگوار حیرت سے گویا ہوا—
“کیسی ہو؟ اور یہ فٹ بال تمہارا ہے؟” اس نے بچے کو ابراہیم حسین سے لیتے پرجوش انداز میں کہا—
“یہ عون ہے سہل—” جنت نے دانت پیسے—
“معیز کی کال آرہی ہے—میں چلتی ہوں—” اس نے بچے کو سہل سے لے لیا—
“ایک منٹ جنت—”
جنت مڑنے لگی جب ابراہیم حسین نے پکارا—
“میں نے اپنی کسی سیکریٹری سے شادی نہیں کی تھی, نہ کسی یونیورسٹی اسٹوڈنٹ سے—میں نے زندگی میں سہل کی مدر کے سوا اگر کسی لڑکی کو پرپوز کیا تھا تو وہ تم تھی–” وہ کہہ جنت سے رہا تھا مگر دیکھ سہل کو رہا تھا—سہل کا منہ کھلا کا کھلا رہ گیا جبکہ ابراہیم حسین اپنے سیاہ گلاسز لگا کر پلٹ گیا—سہل باپ کے پیچھے بھاگا
“ڈیڈ! —” جنت سہل کو باپ سے کچھ کہتے دیکھ رہی تھی—ان کی کار آگے کھڑی تھی وہ دونوں اُس میں بیٹھ چکے تھے اور جنت ان باپ بیٹے کی کمسٹری سمجھنے سے قاصر تھی—
گاڑی آگے جا کر سگنل پر رُک گئی تھی جب ابراہیم حسین نے گاڑی کا شیشہ نیچے کرتے فٹ پاتھ پر چلتے جنت اور معیز کو دیکھا—
عون دونوں کے درمیان چل رہا تھا—دونوں نے ایک ایک طرف سے اسکا ہاتھ پکڑ رکھا تھا—معیز کے ایک ہاتھ میں جوس تھا—اسکے کچھ کہنے پر جنت کھلھلا کر ہنس رہی تھی—
یہ منظر بہت خوبصورت تھا!
ائیر کنڈیشنر, جدید ماڈل کی کار میں قیمتی برانڈد لباس میں ملبوس اس شخص کے پاس وہ خوشیاں نہیں تھیں جو سڑک پر چلتے سادہ سے پینٹ شرٹ میں ملبوس معیز احمد کے پاس تھیں—
ہم کو نہ مل سکا تو فقط اک سکون دل
اے زندگی وگرنہ زمانے میں کیا نہ تھا
آزاد انصاری
●_●ختم شد●_●