“جنت بیٹا معیز کو بھی بلا لو چائے بنا رہی ہوں—” اسے سیڑھیاں اُترتے دیکھ وہ کچن سے ہی بلند آواز میں بولیں مگر جیسے ہی ان کی نظر اسکے ہاتھ میں موجود ٹریولنگ بیگ پر پڑی وہ حیران سی باہر آئیں مگر تب تک جنت آگے بڑھ چکی تھی—
“جنت! جنت! ” وہ اسکے پیچھے جانے لگیں مگر وہ تو ہوا کے گھوڑے پر سوار باہر نکل گئی ان کے پاس دوپٹہ بھی نہیں تھا کہ اس کے پیچھے جاتیں اور اگر باہر آوازیں لگاتیں تو آس پاس کے رہائشی تماشہ دیکھتے—
“معیز جنت کہاں گئی ہے؟” وہ معیز کی طرف دیکھتے بولیں جو شکست خوردہ سے انداز میں سیڑھیاں اُتر رہا تھا—
“مما اُسے ایک امیر شخص چاہیے تھا حسین زندگی گزارنے کیلیے—-وہ مجھے چھوڑ کر چلی گئی ہے کیونکہ میں ایک غریب آدمی ہوں” اسکی آنکھیں نم تھیں اور ہونٹوں پر زخمی مسکراہٹ!
“ایک فریب تھی وہ” وہ خود کلامی کے انداز میں کہہ رہا تھا پھر پلٹ کر واپس سیڑھیاں چڑھ گیا—
اب اس کمرے میں اسے تنہا رہنا تھا–
“آرہی ہوں–” دروازے پر دستک کی آواز سُن کر حمنہ کمرے سے ہی بلند آواز بولی—الماری میں تہہ لگے کپڑے رکھ کر صحن کا احاطہ عبور کر کے بیرونی دروازے پر پہنچی—
“جنت تم؟” حمنہ دونوں جانب سے دروازے کے پٹ تھامے کھڑی تھی جب جنت اسکے ایک جانب سے ہاتھ جھٹکتی اندر داخل ہوگئی—- چہرے کے تاثرات اور بیگ کی موجودگی کچھ غلط ہونے کی علامتیں تھیں—
“کیا ہوا ہے؟ خیریت سے آئی ہو نا؟”حمنہ دروازہ بند کر کے اسکے پیچھے آئی—جنت نے خاموشی سے بیگ ایک طرف رکھا اور دوپٹہ اُتار کر بیڈ پر ڈال دیا پھر واش روم میں گھس گئی—دروازہ ایک بار پھر بجنے لگا—اس بار دروازے پر جنت کی والدہ تھیں—
“کوئی آیا تھا کیا؟ دروازہ بجنے کی آواز آئی تو میں اُٹھ کر آگئی—” وہ پڑوس میں ہی گئیں تھیں اس لیے جلدی واپس آگئیں—
“جنت آئی ہے—” حمنہ نے ان کے اندر آنے پر پیچھے سے دروازہ بند کرتے کہا
“خیریت سے؟” جنت شادی کے بعد کبھی رہنے کیلیے نہیں آئی تھی حتٰی کہ ملنے بھی صرف تین بار آئی تھی—
“خود ہی جا کر پوچھ لیں—” حمنہ کچن میں گھس گئی—
وہ کمرے میں داخل ہوئیں تو جنت ہاتھ منہ دھو کر باتھ روم سے نکل رہی تھی ایک ہاتھ میں ٹاول تھا–
“اسلام و علیکم امی” انہیں دیکھ کر سلام جھاڑا–
“وعلیکم اسلام! کیسا ہے میرا بچہ” اسے سینے سے لگاتے اسکے بال سنوارے
“ٹھیک ہوں—” مدھم آواز میں بولی—
“معیز کے ساتھ نہیں آئی؟”
“وہ کچھ مصروف تھے میں چند دن رہنے آگئی آپ کے پاس—“وہ ان سے الگ ہوتی نظریں چرا کر بولی—
“شکر ہے ورنہ اتنا بڑا بیگ دیکھ کر میں تو ڈر ہی گئی تھی خدا نخواستہ—” انہوں نے بات ادھوری چھوڑ دی—
“حمنہ بہن کیلیے چائے بنا لا میرے بچے—” انہوں نے کمرے سے ہی آواز لگائی—
****************
مؤذن بلند آواز میں اذان دے رہا تھا—فجر کا وقت تھا آسمان پر ہلکی ہلکی روشنی پھوٹ رہی تھی—جنت نے وضو کیا اور جائے نماز پر کھڑی ہوگئی—نماز ادا کرنے کے بعد جب اس نے دعا کیلیے ہاتھ اُٹھائے تو اللہ تعالٰی کے سامنے شکوے شکایتوں کا ایک انبار لگا دیا—
“اُس نے میری ذات پر شک کیا—وہ وہ کیسے کرسکتے ہیں ایسا؟ کیا میری صفائی اُن کیلیے کوئی معنی نہیں رکھتی تھی؟ کیا وہ کانوں کے اتنے کچے بھی ہوسکتے ہیں؟ کہاں گئی وہ محبت؟ کہاں گئے وہ اعتبار کے دعوے؟ کہاں گئے وہ نہ چھوڑنے کے وعدے؟” وہ دونوں ہتھیلیوں پر چہرہ جھکائے گریہ وزاری میں مصروف تھی—
“وہ کیسے مجھے اپنی زندگی سے نکال سکتے ہیں؟ کیا اتنی ہی کھوکھلی محبت تھی اُن کی؟ اتنا ہی ناپائیدار رشتہ تھا ہمارا؟” سوالات کا ایک لمبا سلسلہ تھا اور جواب دینے والا کوئی بھی نہیں تھا—اللہ کے سامنے رو کر اسکا دل اتنا ہلکا ضرور ہوگیا تھا کہ وہ سکون کی نیند لے رہی تھی مگر ابھی تین گھنٹے ہی گزرے ہوں گے کہ اس کا فون بجنے لگا—
“اسلام و علیکم! کون؟” جنت نے انجانا نمبر دیکھ کر پوچھا
“ابراہیم حسین مہر” دوسری جانب سے ٹہر ٹہر کر بتایا گیا تھا
“تت—تمہاری ہمت کیسے ہوئی مجھے فون کرنے کی؟” جنت دبے دبے لہجے میں غرائی—
“میری ہمت و طاقت کا ہلکا سا مظاہرہ تو تم دیکھ چکی ہو مزید جھلک تمہارے فیصلہ سنانے کے بعد دکھائی جائے گی—” ابراہیم حسین کے انداز میں رتی برابر فرق نہیں آیا تھا وہی مغرور و تکبرانہ لب و لہجہ—جیسے دنیا اسکے جوتے کی نوک پر پڑی ہو جسے فٹ بال سمجھ کر کبھی بھی اُچھال دے گا—
“کیوں پیچھے پڑ گئے ہیں آپ؟ کیا بگاڑا ہے میں نے آپ کا؟” وہ رونے لگی—
“مل کر بتاتا ہوں—گیارہ بجے اس ایڈریس پر آجانا جو ابھی ٹیکسٹ کروں گا—” وہ تو جیسے ہر کام مکمل پلان کر کے کرتا تھا
“میں کہیں نہیں آنی والی— تم ہوگے امیر و رئیس مگر میری زندگی کے حاکم نہیں ہو—” وہ نفرت سے گویا ہوئی—دوسری جانب موجود ابراہیم حسین اپنے وسیع روم میں موجود قد آدم ڈریسنگ مرر کے سامنے کھڑا بلیو ٹوتھ ائیر فون سے آتی اسکی آواز سنتا مسکرایا—
“طلاق لوگی یا بیوہ ہونا پسند کروگی؟” یہ سوال نہیں تھا یہ صاف لفظوں میں دی گئی دھمکی تھی جس نے جنت کے رونگٹے کھڑے کردیے تھے—
“مجھے انتظار کرنا پسند نہیں ہے—ٹھیک گیارہ بجے—” رابطہ منقطع ہوگیا تھا جنت کا سر چکرانے لگا—اس نے سوچا بھی نہیں تھا کہ ابراہیم حسین اسے اتنی گھٹیا دھمکی دینے پر اُتر آئے گا—
کوئی وقت تھا جب وہ کہتی تھی کہ اگر اسے کوئی امیر شخص مل گیا تو وہ اسکی عمر تک نہیں دیکھے گی— اور آج ایک امیر ترین شخص اسے مِل چکا تھا مگر آج نہ اُسکی دولت اسے پرکشش لگ رہی تھی نہ اُسکا محل—
اللہ تعالٰی نے اسکے لیے ایک ایسی آزمائش کھڑی کردی تھی کہ جہاں دعائیں تو قبول ہوگئیں تھیں مگر کسی وقت میں انہیں مانگنے والی ہستی اب اپنی حماقتوں پر اشک بہا رہی تھی—
****************
“معیز دروازہ کھولو بیٹا— معیز؟”حسنہ بیگم مسلسل اسکا دروازہ پیٹ رہی تھیں مگر دوسری جانب سے کوئی جواب نہیں آرہا تھا وہ کل سے کمرہ نشین تھا
“معیز؟” وہ بےبسی کے عالم میں مسلسل دستک دے رہی تھیں—
صبح کے دس بج رہے تھے— کمرہ اپنی حالتِ زار پر اشک بہارہا تھا—بیڈ شیٹ فرش کی سلامتی لے رہی تھی—تکیے و کشن قالین پر ادھر اُدھر گرے پڑے تھے—بُک شیلف میں ایک بھی کتاب نہیں پڑی تھی—پرفیوم کی بوتلیں زمین پر ٹوٹی پڑی تھیں—وہ سائیڈ ٹیبل کے کونے پر دیوار سے ٹیک لگائے بیٹھا سگریٹ پھونک رہا تھا—پوری رات اس نے شاید یہی کیا تھا— وہ سگریٹ نہیں پیتا تھا مگر کل سے مسلسل پی رہا تھا–پہلے باہر پی کر آیا پھر ساتھ گھر لے آیا—
دل برباد میں پھر اس کی تمنا کیوں ہے
ہر طرف شام ہے لیکن یہ اجالا کیوں ہے
جس کی یادوں کے دیئے ہم نے بجھا رکھے ہیں
پھر وہی شخص تصور میں اترتا کیوں ہے
تھک چکا ہے تو اندھیروں میں رہے میری طرح
چاند کو کس کی طلب ہے یہ نکلتا کیوں ہے
میں وہی خواب ہوں پلکوں پہ سجایا تھا جسے
آج غیروں کی طرح تم نے پکارا کیوں ہے
روز اک بات مرے دل کو ستاتی ہے ضیاؔ
اس قدر ٹوٹ کے تم نے اسے چاہا کیوں ہے؟
باہر کھڑی حسنہ بیگم کا چہرہ کب آنسوؤں سے تر ہوا انہیں خبر ہی نہیں ہوئی–
ان کا آشیانہ آباد کرنے والی شعلہ بھڑکا گئی تھی—
معیز مما کی جان!” وہ مسلسل اسے پکار رہی تھیں—معیز نے زور سے سائیڈ میز کو لات رسید کی—ادھ جلی سگریٹ نیچے پھینک کر دونوں ہاتھوں میں سر گرا لیا—
***************
گیارہ بجنے میں دس منٹ تھے جب وہ اسکے بتائے گئے ایڈریس پر پہنچی وہ کوئی آفس یا فلیٹ نہیں تھا وہ ابراہیم حسین کا عالیشان بنگلہ تھا—ڈیفینس میں موجود اس بنگلے تک آنے کیلیے اس نے جتنا کرایہ ادا کیا تھا وہی اسکا بڑا نقصان تھا بھلا وہ اسکا مقابلہ کیسے کرسکتی تھی—ابراہیم حسین نے اس بنگلے کی صورت شاید اسے ایک بڑی آزمائش میں ڈالنا تھا—
بڑے سے سنہری اور گہرے براؤن کلر کے گیٹ کے اطراف میں دو چھوٹے چھوٹے گیٹ بھی موجود تھے—اس نے جھجھکتے ہوئے بیل بجائی—فوراً دروازہ کُھل گیا–نیوی بلیو کلر کی وردی میں ملبوس چوکیدار نے اسے اندر آنے کا راستہ دیا–
“آئیں بی بی—” وہ اندر داخل ہوئی تو وسیع و عریض رقبے پر پھیلے لان کے وسط میں لال اینٹوں کی بنی راہداری پر تیزی سے چل کر آتی لڑکی نے اسے مخاطب کیا— جنت خاموشی سے اسکے ہم قدم ہوگئی—لان میں بہت سی بیلیں لگی تھیں—سب سے زیادہ وہاں چھوٹے چھوٹے سفید پھول اور چمبیلی لگی ہوئی تھی—ایک طرف لکڑی کو تراش کر خوبصورت سے ڈیزائن کی کرسیاں اور میز لگا رکھی تھی—
“آجائیں—” جنت کو داخلی دروازے پر ٹہرا دیکھ کر وہ پلٹ کر بولی—
سامنے بڑا سا لانج تھا جسکی چھت کے بالکل وسط میں ستر اَسی کلو کا جھومر لگا ہوا تھا—یہاں موجود آرائش کا ہر سامان اپنی قیمت خود بول رہا تھا—سامنے سے دو سیڑھیاں اوپر کے پورشن کی جانب جاتی تھیں—سیڑھیوں کی چوڑائی بھی کافی زیادہ تھی—پورا بنگلہ چمک رہا تھا—ابراہیم حسین نے اسکے ضبط کا کڑا امتحان لیا تھا—
ملازمہ اسے ایک بڑے سے ڈرائنگ روم میں بٹھا کر چلی گئی—جہاں کی دیواروں پر لٹکتی قیمتی پینٹنگس مصوروں کے تخیل کی بہترین عکاسی کررہی تھیں—
پندرہ منٹ کے انتظار کے بعد ڈرائنگ روم میں ابراہیم حسین کے قدموں کی مخصوص آواز گونجی—معیز کے بھی چلنے کا انداز بالکل ایسا ہی تھا آفس کے سنگ مرمر کے فرش پر جب وہ چلتا تھا تو اسکے قدموں کی دھک دھک جنت کو اپنے دل کی سرزمین پر محسوس ہوتی تھی—
“کیسا لگا اپنا گھر؟ بلکہ بنگلہ—” ابراہیم حسین بالکل اسکے سامنے والے صوفے پر ٹانگ پر ٹانگ جما کر بیٹھتے پوچھ رہا تھا—بلیو جینز پر نیوی بلیو شرٹ پہنے وہ اپنے شاہانہ انداز میں اس سے مخاطب تھا–
“یہ میرا گھر نہیں ہے” جنت اپنی بات پر زور دے کر بولی—
“عنقریب ہوجائے گا—” وہ بھی دوبدو بولا تھا
“مجھے ایسی کوئی خواہش نہیں ہے—” جنت اسکی آنکھوں میں آنکھیں ڈالے بےخوفی سے بولی—
“خواہشات بدلتے وقت نہیں لگتا–” وہ ہلکے سے ہنسا—
“بالکل درست فرمایا آپ نے خواہشات و ترجیحات بدلتے وقت نہیں لگتا—میرے ساتھ بالکل ایسا ہی ہوا ہے—” جنت نے اسکی بات سے اتفاق کیا—
“میں تمہاری ترجیحات کی فہرست پر پہلے نمبر پر آنا چاہوں گا—” وہ دونوں کہنیاں اپنی ٹانگوں پر جما کر تھوڑا آگے کو جھکتا بولا
“ہر چاہت پوری نہیں ہوتی اور جو جگہ جسکی ہو وہ وہیں اچھا لگتا ہے—میں معیز کی جگہ کبھی آپ کو نہیں دے سکتی—یہ ناممکن ہے—” وہ نفی میں سرہلاتی بولی
“ناممکن میں خود ممکن چھپا بیٹھا ہے— بس کوشش کرنے کی دیر ہے اور مجھے معلوم ہے تم یہ کوشش ضرور کروگی—”
“میں ایسا کچھ نہیں کروں گی—” جنت ابرو اُٹھاتے ایک ایک لفظ پر زور دے کر بولی—وہ ترچھی مسکان ہونٹوں پر سجاتا صوفے سے ٹیک لگا کر بیٹھ گیا پھر گہری نظروں سے اسے دیکھنے لگا—
“دنیا میں لڑکیوں کی کمی نہیں ہے اور ابراہیم حسین مہر کو تو بالکل نہیں ہے—جنت ستار نہ سہی تو کوئی اور سہی,کوئی اور نہیں تو کوئی اور سہی مگر—” جنت کی سانس اسکے مگر پر اٹک گئی تھی—
“تم نے مجھے ریجکٹ کیا—مجھے ہرٹ کیا ہے اب اتنی آسانی سے تو میں تمہیں معاف نہیں کرسکتا نا—“وہ معصوم سا منہ بنا کر نفی میں سر ہلانے لگا—-
“آئی ایم سوری میری وجہ سے آپ کو جو بھی تکلیف پہنچی ہے میں اُس کیلیے معافی مانگتی ہوں—” جنت نے اپنی انا ایک طرف رکھ کر اس سے معافی مانگ لینے میں ہی عافیت جانی وہ جانتی تھی وہ طاقت میں اسکا مقابلہ کبھی نہیں کرسکتی—
ابراہیم حسین نے ہونٹ بھینچتے نفی میں سرہلایا—
“تم نے مجھے تکلیف پہنچائی اب میں تمہیں تکلیف پہنچاؤں گا—حساب برابر تو اسی طرح ہوگا نا—” وہ بلا کی معصومیت سے کہہ رہا تھا جیسے کسی ننھے بچے کے ساتھ گیم کھیلتے اسے پہلے اصولوں سے آگاہ کر رہا ہو—
“اور کتنی تکلیف پہنچانا چاہتے ہیں آپ مجھے؟ میرے گھر سے تو بےدخل کرچکے ہیں مجھے—” جنت کی آنکھ میں آنسو چمکا—
“یہ رہا نا تمہارا گھر—یہاں آ کر رہو— ” وہ جلدی سے بولا—جنت نے دونوں ہاتھوں میں شکست خوردہ انداز میں اپنا چہرہ چھپالیا—
“بےفکر رہو معیز جلد ہی تمہیں ڈائیورس دے دے گا—” جنت نے جھٹکے سے سر اُٹھایا اسے لگا جیسے کسی نے اسکی سانسیں بند کردی ہوں—
“نن—نہیں معیز ایسا نہیں کریں گے—” جنت کی آنکھ سے آنسو ٹپکا
“میں کروا لوں گا—” مقابل کے اطمینان میں ذرا برابر فرق نہیں آیا تھا—
“دیکھو جب میں اُسکی نوکری ختم کرواسکتا ہوں تمہیں جاب سے, تمہارے گھر سے نکلوا سکتا ہوں تو میں کچھ بھی کرسکتا ہوں—اب تم فیصلہ کروگی کہ مجھے کیا کرنا چاہیے؟ طلاق لینا پسند کروگی یا بیوہ ہونا؟” اسکے سوال نے جنت کے ہاتھ پیر ٹھنڈے کر دیے تھے— جنت کو اسکے چہرے اسکے انداز سے پتا لگ رہا تھا کہ وہ صرف دھمکا نہیں رہا—جنت کے آنسو اب لڑی کی صورت اسکے گال بھگو رہے تھے—اسکے ہونٹ کپکپائے جارہے تھے—
“تم نے ابراہیم حسین کو کھلونا سمجھا تھا؟ تم نے کیا سوچا تھا کہ چند لمحے میرے ساتھ گزار کر اپنے شوہر کے پاس چلی جاؤگی اور میں یہاں تمہارے فراق میں آنسو بہاتا پھروں گا یا سگریٹ پھونکنے لگوں گا؟ وہ لیلی مجنوں کے زمانے گئے—اب پیسے کی طاقت پر کچھ بھی حاصل کیا جاسکتا ہے—پیسے سے دنیا خریدی جاسکتی ہے یہ تو پھر ایک محبت ہے!” وہ اسے بتارہا تھا کہ وہ اسکے جذبات سے کھیلی ہے اور وہ حیران تھی کہ کب اس نے ابراہیم حسین میں اپنی دلچسپی ظاہر کی تھی جو وہ یہ بیان کررہا تھا—
“آپ نے خود مجھے اپنے ساتھ وقت گزارنے پر مجبور کیا تھا—جھوٹے بہانے بنا کر—” وہ اسکے الزام پر چیخی—
“تم انکار بھی کرسکتی تھی—” وہ تو ہر الزام اسکے سر دھر رہا تھا
“کرسکتی تھی مگر—-”
“مگر نوکری جانے کے خوف نے تمہیں انکار کرنے نہیں دیا—آخر پیسے کا لالچ تھا نا—” اس مرد نے دنیا دیکھی تھی سامنے کھڑی عورت کو ایک نظر میں پہچان لیتا تھا وہ—جنت کی دولت و پیسے کی خواہش تو اس سے پہلی ملاقات میں ہی پہچان لی تھی اس نے—
“آپ معیز کی غلط فہمی دور کیوں نہیں کردیتے؟ پلیز معاف کردیں مجھے اگر کبھی انجانے میں بھی میں نے آپ کو تکلیف پہنچائی ہو تو—” جنت نے اسکے سامنے ہاتھ جوڑ دیے— معیز کی جان کی خاطر وہ سامنے کھڑے شخص کے پیر بھی پکڑ سکتی تھی—
“ایسا کیوں کررہی ہو؟” ابراہیم حسین اسکے سامنے پڑی میز پر بیٹھ کر اسکے ہاتھ پکڑ کر ناراضگی سے بولا—
“دفع کرو اُسے جسے اپنی محبت, اپنی بیوی پر ذرا بھی اعتبار نہیں,جس نے تم سے ایک سوال بھی نہیں کیا اور تمہارے کردار پر شک کیا تمہیں اپنے گھر سے نکال دیا—آج تک دیا ہی کیا ہے اُس شخص نے تمہیں؟ اپنی چھوٹی چھوٹی خواہشات کیلیے دن رات ٹھوکریں کھاتی پھرتی ہو کیا یہ زندگی ڈیزرو کرتی ہو تم؟” جنت اپنے نازک دودھیاں ہاتھوں کی پُشت سے آنسو رگڑ رہی تھی—
“نہیں جنت— تم اس سب کی مستحق نہیں ہو— تمہیں اس طرح دیکھ کر دل کٹتا ہے میرا—” وہ نہایت محبت بھرے لہجے میں کہہ رہا تھا—
“دنیا جنت جیسی لڑکیوں سے بھری پڑی ہے ابراہیم حسین اور کون کیا ڈیزرو کرتا ہے اِس کا فیصلہ کرنے والی ذات اوپر بیٹھی ہے— وہ ہم سے بہتر جانتی ہے کہ میری جگہ کیا ہے؟ اور محنت سے کمانے کو اگر آپ ٹھوکریں کھانا کہتے ہیں تو مجھے اچھی لگتی ہیں یہ ٹھوکریں— کم از کم کوئی مجھے یہ تو نہیں جتائے گا کہ میری اوقات کیا ہے اور اُس نے مجھ پر کتنا خرچ کیا ہے؟” جنت کو یاد تھا اس نے دبئی میں جنت پر خرچ کیے ایک ایک پیسے کو کئی بار جتایا تھا—
“تمہارے دماغ میں بھوسا بھرا ہے کیا؟” ابراہیم حسین نے اسکے ماتھے پر اُنگلیاں مارتے دانت پیستے کہا
“ابھی تو تم اُسکے پاس بھی جاؤگی تو وہ تم پر لعنت بھیجے گا— کون بتائے گا اُسے کہ جس رات تم میرے ولاء میں رُکی تھی میں وہاں نہیں تھا— تمہارا وہ یقین کرے گا نہیں اور میں اُسے کبھی بتاؤں گا نہیں—” وہ اسے تلخ حقیقت بتارہا تھا—
“اگر شام تک تم نے معیز سے طلاق کا مطالبہ نہ کیا تو میں اُسکی جان کی کوئی گارنٹی نہیں دے سکتا—” وہ میز سے کھڑا ہوگیا—
“کل ملتے ہیں پھر—” اپنی کلائی پر بندھی رسٹ واچ کی جانب دیکھتے وہ بےنیازی سے بولا
“آ—-آپ—” جنت نے کچھ کہنا چاہا مگر وہ ہاتھ سے خدا حافظ کا اشارہ کرتا ڈرائنگ روم سے نکل گیا— جنت وہیں بیٹھی پھوٹ پھوٹ کر رو دی—
*****************
“آجاؤ چاٹ کھالو– بڑے تیز مصالحے ڈال کر بنائی ہے میں نے—“حمنہ ٹرے میں چاٹ کا پیالہ لے کر اندر داخل ہوئی— بیڈ پر بیٹھ کر مزے سے بولی
“اوئے اُٹھو نا” حمنہ کو تو عرصے بعد اس سے ملنے کا موقع ملا تھا
“میرا دل نہیں چاہ رہا—” وہ سر پر بازو رکھے لیٹی تھی
“کیوں دل نہیں کر رہا؟ کہیں میں خالہ تو نہیں بننے والی—” اس نے چہک کر جنت کے قریب جھکتے کہا
“بکواس نہیں کرو—” جنت نے اسے پرے دھکیلا—
جنت کے سیل فون پر مسیج ٹون بجی—
جنت نے اُٹھ کر بیڈ کراؤن سے ٹیک لگاتے موبائل دیکھا—
“ابراہیم حسین انتظار کرنے والوں میں سے نہیں, کروانے والوں میں سے ہے— تمہارے پاس آج کا دن ہے بس! پھر مجھ سے کوئی شکایت مت کرنا—سوری اینڈ ٹیک کیئر! ”
“کیا ہوا ہے؟” حمنہ نے جنت کے لٹھے کی مانند سفید پڑتے چہرے کو دیکھ کر تشویش بھرے انداز میں دریافت کیا— جنت کو پسینے بھی آرہے تھے—
“ابو کہاں ہیں؟” جنت نے جلدی سے پوچھا—
“آنے والے ہوں گے دکان سے—” حمنہ نے بتایا—
“لگتا ہے آپ کو گرمی لگ رہی ہے یہاں اے سی بھی نہیں لگا–اب تو آپ کو عادت ہوگئی ہے بڑے گھر میں رہنے کی–” حمنہ اس کیلیے پانی ڈال رہی تھی—
معیز کا گھر ان کے گھر سے بڑا تھا مگر جنت نے ناشکری کی—اس نے خود یہ حالات پیدا کیے کہ اسکا شوہر اس پر شک کرے کہ اسکی بیوی ایک امیر آدمی کیلیے اسے چھوڑ سکتی ہے—
“لگتا ہے ابو آگئے ہیں–” دروازہ بجنے کی آواز پر حمنہ تیزی سے پانی کا گلاس اسے تھما کر باہر نکل گئی—
جنت نے پانی کا گلاس واپس ٹرے میں رکھا اور دوپٹہ گھسیٹ کر گلے میں ڈالتی صحن میں آگئی–بکھرے بال اور شکن زدہ لباس کے ساتھ وہ صدیوں کی بیمار لگ رہی تھی—چہرے کی تروتازگی کہیں گم ہوکر رہ گئی تھی—
“ارے کیسا ہے میرا بیٹا؟” ستار صاحب حمنہ سے پانی کا گلاس لیتے اسکی جانب دیکھ کر بولے
“ابو آپ سے ایک ضروری بات کرنی ہے—” وہ اٹک اٹک کر بولی—
“ہاں کہو بیٹا—” وہ ٹانگیں اوپر کر کے آرام سے چارپائی پر بیٹھ گئے—
جنت نے تھوک نگلا—وہ اپنی اُنگلیاں مروڑ رہی تھی—
“ابو مم— میں—میں—”
“کیا بات ہے جنت—” اتنے میں امی بھی کچن سے باہر آگئیں—
“مم— میں معیز سے علیحدگی چاہتی ہوں—” اسکے آنسو نکل پڑے اور دوسری طرف بیٹھے اسکے والدین گنگ رہ گئے انہیں لگا ان کے کانوں کو سننے میں غلطی ہوئی ہے–
“کیا کہہ رہی ہے جنت؟” امی چیخیں—
“امی مم–مجھے معاف کردیں—میں یہ رشتہ مزید نہیں نبھا سکتی—” جنت سر اُٹھا کر ان کی جانب دیکھتی بولی—
“اے جنت کیوں اپنے باپ کے سفید سر میں خاک ڈالنے کی باتیں کررہی ہے؟ دماغ تو نہیں چل گیا تیرا؟”انہوں نے تو دو ہتھڑ پیٹ ڈالا–
“اُس نے خود مجھے گھر سے نکالا ہے— وہ مجھ پر شک کرتا ہے میں اُسکے ساتھ نہیں رہ سکتی—بس یہ میرا آخری فیصلہ ہے—” جنت کھڑی ہو کر باغی انداز میں بولی—
“حمنہ بہن کا سامان باندھو میں خود اسے چھوڑ کر آؤں گا—” ستار صاحب سنجیدہ صورت کے ساتھ قمیض کا دامن جھاڑتے چارپائی سے کھڑے ہوگئے–
“میں واپس نہیں جاؤں گی—” جنت ایک ایک لفظ پر زور دیتی سرد لہجے میں بولی—اسکا چہرہ آنسوؤں سے تر, سرخ ہورہا تھا—
“میں تمہیں اپنے گھر میں نہیں رکھوں گا—” ستار صاحب سختی سے بولے—
“باہر نکلو!” ستار صاحب نے اسے جانے کا اشارہ کیا—جنت صدماتی کیفیت میں انہیں دیکھنے لگی—
“حمنہ اسے کہو میرے گھر سے دفع ہوجائے—اسکا سامان باہر پھینکو–“وہ حمنہ کی جانب دیکھ کر دھاڑے–
“ابو–” جنت نے بےیقینی سے انہیں پکارا—
“میں اپنی بیٹی بیاہ چکا ہوں اب میرے گھر میں وہ مہمان بن کر تو ضرور آسکتی ہے مگر اپنا سسرال چھوڑ کر نہیں!” انہوں نے جنت کو بازو سے پکڑا اور گیٹ کھول کر باہر کھڑا کر دیا ساتھ ہی اسکا ہینڈ بیگ اور کیری بھی رکھ دیا اور وہ مسلسل زخمی نظروں سے انہیں دیکھ رہی تھی—
“اپنے گھر جاؤ—”
ٹھک! آج اسکے منہ پر اسکے باپ نے اپنے گھر کے دروازے بند کردیے تھے—آج اسے پتا چلا تھا کہ یہ معاشرہ ماں باپ کے سینوں سے دل تک نکال دیتا ہے—
****************
“ہیلو! ” جنت نے ابراہیم حسین کی کال پِک کرتے مرے مرے لہجے میں کہا—
“تم مجھے ہلکا لے رہی ہو؟ تمہیں کوئی ٹریلر دکھانا پڑے گا—” وہ اسے دھمکا رہا تھا
“ابو نے مجھے گھر سے نکال دیا ہے—” جنت بچوں کی طرح منہ بسورتے بولی—
“چچ چچ قدر ہی نہیں انہیں تمہاری—کہاں ہو میں لینے آؤں؟ آج نہیں تو کل یہیں آنا ہے تمہیں—” اس نے جنت کی کوئی بھی بات سنے بغیر اسے ایک جگہ بتائی جو اسکے گھر سے چند منٹ کے فاصلے پر تھی اور خود اسے لینے پہنچ گیا—تمام راستے وہ اپنے آنسو پیتی آئی تھی اور وہ لاپرواہی سے ڈرائیو کرتا رہا—
دلِ اُمید توڑا ہے کسی نے
سہارا دے کے چھوڑا ہے کسی نے
نہ منزل ہے نہ منزل کا نشاں ہے
کہاں پہ لا کے چھوڑا ہے کسی نے
قفس کی تتلیاں رنگین کیوں ہے
یہاں پہ سر کو پھوڑا ہے کسی نے
میں اُن شیشہ گروں سے پوچھتا ہوں
کہ ٹوٹا دل بھی جوڑا ہے کسی نے؟
دلِ اُمید توڑا ہے کسی نے
****************
“معیز! ” وہ کب تک اسے اس کے حال پر چھوڑتیں؟ پورا ایک دن ہوگیا تھا اسے کمرہ نشین ہوئے—ان کا دل دہل رہا تھا گھر کے اس ماتم زدہ ماحول سے, اس ویرانے میں کہیں ان کا دم ہی نہ نکل جائے—
“معیز میں مرجاؤں گی بیٹا—یہ سناٹے مجھے مار دیں گے—” وہ اسکے دروازے سے ٹیک لگا کر نیچے بیٹھ گئیں—ان کی بوڑھی آنکھیں بھیگ رہی تھیں—وہ جانتی تھیں معیز بچپن سے ہی حساس دل کا مالک رہا ہے وہ عام مردوں کی طرح نہیں رہا—وہ ہمیشہ بچہ بنا رہا تھا اپنے مما کا اچھا بچہ—
وہ ہمیشہ اپنے سے جڑے لوگوں کیلیے حساس رہا تھا اور یہاں تو معاملہ بیوی کا ہی نہیں محبت کا بھی تھا—وہ اسکے بغیر رہنے کا تصور بھی نہیں کرسکتا تھا پھر کیسے اس نے جنت کو نکل جانے کا کہہ دیا؟ کیسے؟
اسکے باس نے اسے پیغام دیا تھا کہ ابراہیم حسین نے اپنے نئے پروجیکٹ کی مارکٹنگ کیلیے ان کی کمپنی کو ہائر کیا ہے مگر اس شرط کی بناء پر کہ مارکٹنگ مینجر کو فارغ کر کے ان کا اپنا بندہ اس پوسٹ پر رکھا جائے—
اسکے جسم میں اب بھی سوئیاں چبھنے لگتیں جب اسے وہ منظر یاد آتا جہاں ابراہیم حسین نے اس پر قیامت توڑی تھی—
“ابراہیم گروپ آف انڈسٹریز کا آنر ابراہیم حسین بات کررہا ہوں—” وہ اپنا سسپنشن لیِٹر لے کر آفس سے نکل رہا تھا جب ایک انجانے نمبر سے کال آئی اور پھر وہ نمبر انجانا نہ رہا—
“آپ سے ملاقات کرنی تھی پانچ منٹ کی میرے آفس آجائیں—لوکیشن میں سینڈ کررہا ہوں—” رابطہ منقطع ہوگیا اور معیز کار میں بیٹھا اور بیس منٹ میں وہ اسکے میٹنگ روم میں اسکے سامنے موجود تھا–
“میری آپ سے کوئی ذاتی دشمنی نہیں ہے بس آپ میرے راستے کی رکاوٹ ہیں–” معیز کے ماتھے پر ناسمجھے سے بل پڑ گئے—جبکہ وہ مسلسل کرسی گھماتے بات کررہا تھا—
“میں اور جنت ایک دوسرے میں انٹرسڈ ہیں اینڈ آئی وانٹ ہر ان مائی لائف– وہ بھی یہی چاہتی ہے مگر چونکہ یہ ٹیپیکل لور مڈل کلاس سوسائٹی سے بلانگ کرتی ہے تو اپنا مطالبہ تمہارے سامنے رکھتے جھجھک رہی ہے—دیکھو تم تو جانتے ہو وہ نہیں رہنا چاہتی اس مڈل کلاس سٹیٹس کے ساتھ یہاں تک کہ دبئی میں بھی وہ میرے ساتھ میرے ولاء میں رہی تھی اور بہت خوش تھی—ابھی تمہیں جاب سے بھی اس لیے نکلوایا ہے اُس نے تاکہ اُسے سپریشن کا بہانہ مل سکے—ہماری فوٹوز تو دیکھی ہوں گی تم نے— اگر تم چاہو تو جنت سے کنفرم کرلو—” معیز کو سکتے کے عالم میں دیکھ کر اس نے ابرو اُچکائے–پھر ہلکے سے مسکرایا—
“کیا تم جنت کی نیچر نہیں جانتے؟ she loves money and wants a billionaire in her life
کیوں خود کو دھوکہ دے رہے ہو؟” وہ اسکے سرخی جھلکاتے چہرے کو دیکھ کر اطمینان سے کہہ رہا تھا—
“آآ—-آپ—” معیز نے ہونٹ بھینچے–تو کیا وہ تصویریں محض آؤٹنگ نہیں تھیں؟ اُن کے پیچھے کی کہانی یہ تھی—
“آپ کو کیا لگتا ہے آپ مجھے کوئی بھی کہانی سنائیں گے اور میں یقین کرلوں گا؟ جنت اتنی بےوقوف نہیں ہے کہ آپ کے ولاء میں اکیلی ٹہر جائے ممکن ہی نہیں—آپ ایک تہذیب یافتہ انسان ہو کر کسی لڑکی کے کرکٹر پر اتنی بڑی تہمت کیسے لگا سکتے ہیں؟” وہ ضبط کی کڑی منزلوں سے گزر رہا تھا
“ہونہہ, اپنی بیوی سے پوچھ لینا—” اسکا انداز مذاق اُڑاتا تھا—اپنی کرسی چھوڑ کر کھڑے ہوتے کوٹ کا بٹن بند کیا—
“ویل یو آر گُڈ لُکنگ, سمارٹ—انٹیلیجنٹ بھی ہو— جنت جیسی ہزاروں مل جائیں گے تمہیں—ایک بےوفا عورت کے ساتھ کتنی لمبی زندگی گزاروگے؟” اسکے پاس سے گزرتے اسکا کندھا تھپک کر وہ باہر نکل گیا—پیچھے معیز سوچتا رہ گیا کہ زندگی نے اسے اسکی سب سے زیادہ عزیز ہستی کے ہاتھوں اسے توڑا تھا مگر کہیں یقین اب بھی باقی تھا کہ وہ جھوٹ بول رہا ہے—جنت اسکے ولاء پر نہیں رہی تھی مگر تحریم نے بھی تو—
اسکا سر چکرانے لگا—اب جنت ہی اسکا جواب دے سکتی تھی اور جنت کے جواب نے اسے آسمان سے زمین پر پٹخ دیا تھا—
“معیز! ” اسکی ماں مسلسل پکار رہی تھی—ایک یہ عورت تھی جس نے اسے ہمیشہ سنوارا تھا اور ایک وہ تھی جس نے اِسکے ساتھ ساتھ اسکا آشیانہ بھی اُجاڑ دیا تھا اسکے دل کی دنیا بھی تباہ کرڈالی تھی—
ہلکے سے دروازہ کُھلا اور وہ باہر نکلا— سفید بنیان اور بلیک ٹراؤز میں بکھرے بال اور تھکن زدہ چہرے کے ساتھ وہ کہیں سے بھی ان کا زندہ دل معیز احمد نہیں لگ رہا تھا جو ہر وقت نک سک سے تیار اور فریش نظر آتا تھا—دو دو نوکریوں نے بھی اسکی یہ حالت نہیں کی تھی جتنی اُس عورت کی ایک دن کی جدائی نے کردی تھی—
“معیز بیٹا یہ کیا حال بنا رکھا ہے اپنا؟” انہوں نے اسکا چہرہ اپنے ہاتھوں کے پیالے میں لیتے روتے ہوئے پوچھا—
“اُس نے مجھے دھوکہ دیا مما— اُس نے مجھے چیٹ کیا—” وہ دھاڑا—
“میں نے اُسے کیا نہیں دیا؟ پیار, محبت, عزت, یہ سجا سجایا گھر, اُسکا وفادار رہا, پوری زندگی صاف ستھری گزاری خود کو اُسکی امانت سمجھا ایک مرد ہوکر اتنی وفا کی میں نے اور اُس نے کیا کیا میرے ساتھ؟” وہ انہیں بازو سے دبوچ کر اپنے مقابل کرتے بولے
“ساری غلطی آپ کی ہے—” اس نے فیصلہ کن انداز میں کہتے ان کے کندھے سے ہاتھ ہٹائے—
“آپ نے مجھے سکھایا ہی نہیں عورت کو اُسکی اوقات میں رکھنا, اُس پر دباؤ ڈالنا, اپنی حاکمیت جتانا— یہ, یہ سارے مرد صحیح کرتے ہیں بالکل درست کرتے ہیں ان عورتوں پر اپنا تسلط قائم رکھتے ہیں, انہیں آزادی راس نہیں آتی—” وہ حد سے زیادہ متنفر ہورہا تھا
“ایسا مت کہو معیز—” وہ ایڑیوں کے بل اونچی ہو کر اس کے بال سنوارنے لگیں اس نے سختی سے ان کا ہاتھ جھٹکا—
“I’ll kill her!”
وہ بلند آواز میں دھاڑا—
“وہ میری بیوی ہے—میں اُسے کیسے چھوڑ سکتا ہوں—میں نے اُسے کیوں جانے کا کہا؟” وہ بایاں ہاتھ اپنی چہرے پر رکھ کر نیچے بیٹھتا گیا—اسکی عقل جیسے منجمند ہوکر رہ گئی تھی—
دل اب بھی اُسکی اُمنگ کررہا تھا اور دماغ اُسے بےوفا کہہ رہا تھا—
خوشیوں کی منزل ڈھونڈی تو غم کی گرد ملی
چاہت کے نغمے چاہے تو آہیں سرد ملیں
دل کے غم کو دونا کرگیا جو غم خوار ملا
ہم نے تو جب کلیاں مانگیں کانٹوں کا ہار ملا
جانے وہ کیسے لوگ تھے جن کے پیار کو پیار ملا
بچھڑگیا ہر ساتھی دے کر پل دو پل کا ساتھ
کس کو فرصت ہے جو تھامے دیوانوں کا ہاتھ
ہم کو اپنا سایہ تک اکثر بےزار ملا
جانے وہ کیسے لوگ تھے جن کے پیار کو پیار ملا
***********
کیا حرف ع جس لغت میں ہو وہ عربی کا ہو گا؟
اردو کا ہر وہ لفظ، جس میں حرفِ "عین" آتا ہو، وہ اصلاً عربی کا ہو گا! مرزا غالب اپنے...