“چھوڑئیے، اس پچھتانے کو، اگرہماری قسمت میں پچھتانا ہی لکھا ہے تو پچھتا لیں گے، مگر اب آپ یہاں سے تشریف لے جائیے کیوں کہ مجھے سخت نیند آرہی ہے ، اور اب میں آرام کرنا چاہتا ہوں۔”
“میں چلا جاؤں؟ ہاہاہا۔۔۔” کبڑا ہنسی کے مارے پھر دوہرا ہو گیا۔
“ضرور چلاجاؤں گا ننھے چوہے۔۔۔ تمہاری قسمت کا حال بتا کر جاؤں گا۔ یہ بتا کر جاؤں گا کہ آگے تمہاری تقدیر میں کیا ہونا لکھا ہے ، جو کچھ میں کہوں اسے کان کھول کر سن لو۔ اور جب میں چلا جاؤں تو تنہائی میں میری ان کہی باتوں پر خوب غورکرنا، نہیں نہیں میری بات کاٹنے کی کوشش نہ کرو، اور اب سنو کہ آئندہ تمہارے ساتھ کیا پیش آنے والا ہے ؟ یہاں سے آگے بڑھنے پر کل تمہیں ایک میل کے اندر جنگل میں دو بڑے بڑے پتھر کے بت نظر آئیں گے، تم اپنے آپ کو ان سے خواہ کتنا ہی بچاؤ، مگر وہ تم پر ضرورگریں گے۔ اچانک طوفان آئے گا، درخت ٹوٹ ٹوٹ کر زمین پر گریں گے اور بڑی تیز ہوا چلے گی ، ایسے وقت وہ بت تم پر گر جائیں گے، مگر تم ان سے میرے جادو کی وجہ سے بچ جاؤ گے ، اس کے بعد تیسرے دن تم ایک پہاڑی راستے سے گزر رہے ہوں گے کہ اچانک زلزلہ آئے گا اور زمین پھٹ جائے گی، تم اس زمین میں دھسنے لگو گے مگر میرا جادو تم کو بچا لے گا۔ میرے تم پر یہ دو احسان ہوں گے اور میں ان احسانوں کے بدلے میں یہ چاہوں گاکہ تم خزانے کا وہ نقشہ جو اب تمہارے ذہنوں میں محفوظ ہے دوبارہ کاغذ پر اتار دو، میں تمہیں دو دن کا یہ وقت اس لئے دے رہا ہوں کہ تم میری طاقت سے واقف ہو جاؤ، میری عزت کرو اور میرا کہا مان لو۔ بس مجھے اس کے علاوہ اور کچھ نہیں کہنا، اب میں جاتا ہوں، تم سے پرسوں ملاقات ہوگی، اور وہ ملاقات ایسی ہوگی کہ میرا رعب تم پر طاری ہو چکا ہوگا اور تم میری بات ماننے کے لئے بے قرار ہوں گے۔”
اتنا کہہ کر وہ جلدی سے مڑا اور بغیر پیچھے دیکھے فوراً خیمے کا پردہ اٹھا کر باہر چلا گیا ، میں نے اب جان کو دیکھا وہ کچھ سوچ رہا تھا ، کہ جو کچھ کبڑے نے کہا ہے اس پر یقین کیا جائے یا نہیں؟
“آپ کچھ سوچئے نہیں۔” میں نے جان سے کہا:
“میں اچھی طرح جانتا ہوں کہ وہ محض ہمیں خوفزدہ کر کے ہم سے وہ نقشہ دوبارہ بنوانا چاہتا ہے ۔ مگر میں اس کی چالوں سے اچھی طرح واقف ہو چکا ہوں اور خو ب سمجھتا ہوں کہ اس کو اکسانے والا کون ہے ، وہ کس کے کہنے پر یوں ہمیں بار بار آ کر ڈراتا ہے ۔”
“کس کے کہنے پر ڈراتا ہے؟َ” جان نے حیرت سے دریافت کیا۔
میں نے پہلے خیمے کا پردہ اٹھا کر یہ اطمینان کر لیا کہ کبڑا آس پاس کہیں ہے تو نہیںِ پھر میں نے جان کے قریب جا کر آہستہ سے اسے وہ وقت یاد دلایا جب کہ وہ نقشہ میری کمر پر بنانے کے بعد واپس خیمے میں آیا تھا اور میں نے جیک کے خیمے میں ایک شخص کو دیکھ کر بہت تعجب کیا تھا۔ بلکہ سب سے زیادہ تعجب اس بات کا ہوا تھا کہ جو شخص بہت کم بولا کرتا تھا اور جسے ہم اب تک گونگا سمجھتے رہے تھے، وہ چپکے چپکے دوسروں سے باتیں کرنے کا عادی ہے ۔ آپ شاید نہیں سمجھے۔
خیمے میں گونگا جیک کبڑے جادوگر سے باتیں کر رہا تھا۔
اگر کوئی بم پھٹ جاتا تو جان کو اتنی حیرت نہ ہوتی جتنی یہ سن کر ہوئی کہ جیک، جسے وہ سمجھتا تھا کہ اس کا دایاں بازو اور برے وقت میں کام آنے والا بہادر ساتھی ہے ، اپنی مطلب براری یا اپنی کسی مصلحت کی وجہ سے کبڑے چیتن سے ساز باز رکھتا ہے۔ آخر اس میں اس کی کیا مصلحت تھی ؟ سچ پوچھئے تو مصلحت بھی اس کے سوا اور کیا ہوگی کہ اس طرح وہ کبڑے جادوگر کو ہماری خبریں پہنچاتا رہے ، بلکہ میں تو کہوں گا کہ جیک اور کبڑا دراصل ایک ہی تھیلی کے چٹے بٹے تھے۔ جیک جس انداز سے اس سے رات کو خیمے میں باتیں کر رہا تھا ، اسے دیکھ کر یہ محسوس ہوتا تھا کہ اس کا اثر کبڑے پر بہت زیادہ ہے ، میرے مالک جان کا خیال تھا کہ جیک ہمارا ایسا دشمن تھا جو ہر وقت ہمارے ساتھ رہ کر ہمارے دلوں کا بھید معلوم کرنا چاہتا تھا ، اور موقع ملنے پر ہمیں قتل بھی کر سکتا تھا۔ ایسے دغا باز انسان سے اب ہوشیار رہنے کا وقت آ گیا تھا۔
رات اب بہت زیادہ ہو گئی تھی، ہوا میں ہلکی ہلکی نمی بھی پیدا ہونے لگی تھی، مچھر اتنے تھے کہ ہمیں کسی صورت سے بھی نیند نہیں آ رہی تھی۔ نیند کا نہ آنا ہی ہمارے لئے بہتر تھا کیوں کہ دشمن اب ہماری تاک میں تھے اور کسی وقت بھی ہم پر وار کر سکتے تھے۔ مگر وہ جو کسی نے کہا ہے نا کہ نیند تو سولی پر بھی آ جاتی ہے، تو ایسا ہی کچھ ہمارے ساتھ بھی ہوا۔ بستروں پر لیٹتے ہی ہم ایسے سوئے کہ پھر صبح سورج کی پہلی کرن نے ہی ہمیں جگایا ۔ میں نے اس سفر میں ایک خاص بات کو اپنی عادت بنا لیا تھا اور وہ بات یہ تھی کہ سونے کے بعد جب میں جاگتا تو بغیر ہلے جلے آنکھیں پہلے ہلکی سی کھولتا تاکہ اگر کوئی خطرہ آس پاس ہو تو اسے محسوس کر لوں۔
میری یہ عادت اس وقت بہت کام دے گئی، جیسے ہی میں نے آنکھیں ہلکی سی کھولیں تو مجھے پلکوں کی چلمن سے دروازے میں ایک دبلا پتلا سایہ کھڑا نظر آیا۔ میں نے جلدی سے آنکھیں بند کر لیں ۔ اب میں صرف آہٹ سن رہا تھا ۔ قدموں کی چاپ آہستہ آہستہ میرے قریب آنے لگی۔ پھر کوئی میرے پہلو میں آ کر بیٹھ گیا ، شاید اس نے جھک کر میری شکل کو دیکھا کیوں کہ اس کا گرم سانس میرے گالوں کو چھو رہا تھا ، اور پھر یکایک مجھے ایک آواز سنائی دی ۔
“فیروز ! بنو مت، میں جانتا ہوں تم جاگ رہے ہو، خدا کے لئے اٹھو اور میری بات سنو۔”
میں نے اطمینان کا لمبا سانس لیا اور آہستہ سے اٹھ کر بیٹھ گیا۔ کیوں کہ یہ عبدل کی آواز تھی ، اور جہاں تک مجھے یقین تھا عبدل ایسا آدمی نہیں تھا جس سے مجھے یا جان کو ڈر لگتا ۔ لیکن خطرے کے وقت غیروں سے تو کیا ا پنوں سے بھی خدشہ ہوتا ہے ، کہ کوئی غلط قدم نہ اٹھا بیٹھیں ۔ اس لئے میں مجبور تھا کہ عبدل کو بھی شک کی نظروں سے دیکھوں۔ میں نے لیٹے ہی لیٹے اپنے پستول پر ہاتھ رکھ کر کہا :
“کیا بات ہے ، آپ اس طرح چوری چھپے ہمارے خیمے میں کیوں آئے ہیں؟”
“فیروز! میری بات سنو” عبدل نے میرے شانے پر ہاتھ رکھ کر کہا:
“مجھے یقین ہے کہ تم بہت بہادر اور نڈر لڑکے ہو، مگر میں ایک خطرے سے آگاہ کرنے آیا ہوں۔”
“خطرہ۔۔۔ کیا خطرہ؟” میرے ساتھ ہی جان بھی یکایک ہڑبڑا کر اٹھ بیٹھا۔
“مسٹر جان، تم آرام سے پڑے سوتے ہو لیکن تمہیں کچھ بھی معلوم نہیں کہ یہاں کیا کچھ ہونے والا ہے ؟ ہم تینوں اس وقت سخت خطرے میں گھرے ہوئے ہیں، فیروز جاگ رہا تھا۔ اس لئے میں نے اسے ہی بتانا مناسب سمجھا۔ میں تم سے ایک راز کی بات کہنا چاہتا ہوں ، اور وہ یہ ہے۔۔۔ ”
اتنا کہہ کر اس نے ادھر اُدھر دیکھا ، پھر خیمے کے پردوں سے کان لگا کر باہر کے ماحول کا اندازہ لگایا ، جب کوئی آہٹ سنائی نہ دی تو اس نے مطمئن انداز میں گردن ہلائی اور پھر ہمارے پاس آ کر کہنے لگا۔
“اور وہ راز یہ ہے کہ ہمیں جیک سے ہوشیار رہنا ہوگا ، ہم سمجھتے ہیں کہ وہ خاموش رہنے والا آدمی بہت معصوم ہے ، نہیں بلکہ وہ کبڑے جاودگر کا آقا ہے۔ اس نے کبڑے کو ہمارے پیچھے خزانے کا وہ نقشہ حاصل کرنے کے لئے لگا رکھا ہے ۔”
اس سے پہلے کہ جان کچھ بولتا میں نے چہرے پر مصنوعی مسکراہٹ پیدا کر کے کہا۔
“ارے! یہ ۔۔ یہ آپ کیا کہہ رہے ہیں؟”
“بالکل ٹھیک کہہ رہا ہوں، حقیقت یہی ہے ، میں نے ابھی ان دونوں کو آپس میں باتیں کرنے سنا ہے۔” عبدل نے دانت پیس کر جواب دیا۔
میں نے پھر حیرت ظاہر کی ، میں چاہتا یہ تھا کہ اگر عبدل بھی دشمنوں کے ساتھ ہے تو ہمیں خود اسے یہ نہیں بتانا چاہئے کہ ہم ان کے راز سے واقف ہو گئے ہیں ۔ اس طرح وہ ہمارے اور دشمن ہو جائیں گے ، مگر مجھے جلد ہی معلوم ہوگیا کہ عبدل ایسا نہیں ہے ، کیوں کہ اس کی آنکھوں میں سچ کی چمک تھی ، اور اس کے لہجے کی گھبراہٹ سے ظاہر ہوتا تھا کہ وہ ہمارا وفادار ہے۔ یہ اندازہ لگانے کے بعد میں نے جان سے کہا:
“جان صاحب ، عبدل ٹھیک کہہ رہے ہیں، آپ انہیں بتا دیجئے کہ ہمیں یہ بات پہلے ہی سے معلوم ہے اور اب ہم جلدی یہاں سے کوچ کر دیتے ہیں۔”
جان نے پھر مختصراً تمام باتیں عبدل کو بتائیں مگر میں اس موقع پر اس کی تعریف کئے نہیں رہ سکتا کہ احتیاطاً اس نے نقشے کا میری کمر پر نقل ہو جانے والا راز اب بھی عبدل سے چھپایا ۔ جہاں تک میں سمجھتا ہوں اس نے پہلی بار یہ کام عقل مندی کا کیا تھا۔ عبدل لاکھ اپنا ہی آدمی سہی مگر اپنوں کو غیر بنتے کیا دیر لگتی ہے ؟ جیک کی مثال ہمارے سامنے تھی!
عبدل نے جب سب باتیں سن لیں تو اس نے بھی یہی رائے دی کہ اب جلد سے جلد یہاں سے روانہ ہو جانا چاہئے ۔ میں نے غور سے عبدل کا چہرہ دیکھا ، تو اندازہ ہوا کہ اس وقت وہ سخت غصے میں ہے، بار بار اپنے چمڑے کے تھیلے میں سے اپنا وہی خاص قسم کا کمان جیسا ہتھیار نکال کر اس کی دھار پر انگلی پھیر کر دیکھتا تھا ۔ جان اس کے ارادے کو بھانپ کر بولا۔
“خبردا ر عبدل، خواہ مخواہ کسی سے انتقام لینے کی کوشش نہ کرنا۔ ہم یہاں خون بہانے نہیں آئے ، بلکہ خزانے کو اور اس مکھی کو تلاش کرنے آئے ہیں جس کے سامنے ساری دنیا کے خزانے ہیچ ہیں۔ سمجھے۔”
“میں سمجھ تو گیا مسٹر جان! مگر۔” عبدل نے وہ ہتھیار اپنے تھیلے میں رکھنے کے بعد کہا:
“مگر میں جیک کو اس کی اس غداری کی سزا ضرور دوں گا۔”
“نہیں ایسا ہرگز نہ ہونا چاہئے۔” جان نے کہا۔
“خیر آپ کہتے ہیں تو میں اپنے غصے پر قابو پانے کی پوری کوشش کروں گا ۔ خدا کرے کہ میں اپنے ارادے میں کامیاب رہوں ۔”
اتنا کہنے کے بعد وہ ہمارے خیمے سے باہر نکل گیا۔
سورج نے جو اجالا پورے جنگل میں پھیلایا تھا، اس نے ہمارے دلوں کو ڈھارس دی ۔ کیوں کہ یہی جنگل رات کو بہت بھیانک نظر آ رہا تھا ، اور اب دن میں اس کی ہیبت ایک حد تک کم ہو گئی تھی، جو لمبے لمبے درخت رات کو دیوؤں کی طرح نظر آتے تھے ، اب صبح کے اجالے میں اتنے بھیانک دکھائی نہ دیتے تھے ۔۔۔ ہم مل جل کر اپنا سامان باندھ چکے تھے اور اب یہ سامان خچروں پر لادنا باقی تھا، جیک ہم سب سے الگ تھلگ ایک بڑے پتھر پر بیٹھا ہوا اپنا پستول صاف کر رہا تھا ۔ میرے ان تینوں مالکوں کے رویے میں اب عجیب و غریب تبدیلی آ چکی تھی ، جان اور عبدل تو اب مجھے نوکر کے بجائے اپنا ساتھی سمجھتے تھے ، ہاں البتہ جیک کی آنکھوں میں میں نے ہمیشہ بے رحمی جھلکتی دیکھی تھی۔ جب بھی وہ مجھے دیکھتا بڑی خطرناک اور غصیلی نظروں سے دیکھتا ۔ پہلے تو میں ان نظروں سے مرعوب ہو جایا کرتا تھا مگر اب میں بھی ان نگاہوں میں نگاہ ڈال کر دیکھا کرتا ۔ اور تب جیک مجھے بڑی حیرت سے بار بار دیکھتا۔
اب ہم سب تیار ہو چکے تھے ، سامان کو ایک نظر دیکھنے کے بعد ہم نے اپنا سفر پھر شروع کیا۔ جنگل پھر بہت گھنا ہونے لگا تھا اور قدم قدم پر مشکلات سے واسطہ پڑ رہا تھا ۔ خچروں کے لئے راستہ بنانے کی خاطر ہمیں تیز دھار والے خنجروں سے راستے کے جھاڑ و جھنکار اور بل کھاتی ہوئی بیلیں صاف کرنی پڑتی تھیں۔ یہ بات لکھنے کو تو میں نے صرف دو لفظوں میں لکھ دی ہے ، لیکن اس کام کو کرنے کے لئے ہمیں جتنی محنت کرنا پڑی، وہ بس ہمارا ہی دل جانتا ہے ۔ ہمارے جسم لہو لہان ہو گئے تھے، کپڑے جگہ جگہ سے پھٹ گئے تھے اور ٹانگوں سے خون بہہ بہہ کر ہمارے جوتوں میں جم گیا تھا ۔ اس سفر میں تھکے ہوئے جسم کو آرام دینے کی خاطر میرے علاوہ باقی سبھی لوگ جنگل کے درمیان ملنے والے چھوٹے چھوٹے تالابوں میں کئی بار نہائے تھے ، جی چاہتے ہوئے بھی میں جان بوجھ کر نہیں نہایا تھا ، میری کمر پر جو نقشہ بنا ہوا تھا اس کے گھل جانے کا تو ڈر تھا نہیں مجھے، ہاں البتہ قمیض اتارنے سے میری کمر ننگی ہو جاتی اور نقشہ سب کی نظروں میں آ جاتا ۔ میں یہ کسی صورت سے نہیں چاہتا تھا ، خیر یہ تو اس وقت کی بات تھی جب کہ سب لوگوں نے نہانے کی خواہش ظاہر کی تھی ، مگر اب جب کہ میری قمیض بھی تار تار ہونے لگی تھی۔ زخموں سے میں چور چور تھا اور مجھے اپنی بھی خبر نہ تھی، فرض کر لیجئے اگر ایسے موقع پر قمیض میں سے وہ نقشہ دشمنوں کو نظر آ جاتا تو۔۔۔۔!
جگہ جگہ درختوں سے کمر لگا کر میں بظاہر سستانے کے لئے کھڑا ہو جاتا لیکن دراصل ایسا کر کے میں دوسروں سے اپنی کمر کو چھپاتا تھا۔ اس کے علاوہ کوشش کرتا کہ سب سے پیچھے چلوں۔ مگر ایسا کرنے کے باوجود بھی دل مطمئن نہ تھا ۔ کون جانے کب راز کھل جائے ، آخر اچانک مجھے ایک ترکیب سوجھ ہی گئی۔
میں نے اپ نے چہرے پر یکایک ایسا اثر پیدا کر لیا جس سے یہ ظاہر ہوتا تھا کہ میں بہت تکلیف میں ہوں، آنکھیں اس انداز سے کھول لیں جیسے میں بے ہوش ہونے والا ہوں ، ہلکی ہلکی سی ہائے ہائے کی آواز بھی نکالنی شروع کر دی، اس ہائے ہائے نے سب کو میری طرف متوجہ کرلیا۔ جان دوڑ کر میرے پاس آیا اور گھبرا کر پوچھنے لگا۔
” کیا بات ہے فیروز، کیا ہوا، تم کراہ کیوں رہے ہو؟”
“مجھے۔۔۔ مجھے بخار سا محسوس ہو رہا ہے ۔” میں نے کراہتے ہوئے جواب دیا:
“جلدی سے کوئی کمبل اڑھا دیجئے۔”
یہ سن کر جان فوراً خچروں کی طرف دوڑا ، عبدل اور جیک بھی سامان میں سے کمبل تلاش کرنے لگے ۔ درخت کے تنے سے ٹیک لگاتے ہوئے میں دل ہی دل میں ہنس رہا تھا ۔ جیک میرا دشمن بھی اس وقت مجھے بچانے کی فکر میں تھا، میں اچھی طرح جانتا تھا کہ اسے میری جان اتنی عزیز نہیں ہے ، جتنا کہ نقشہ، نقشہ چونکہ اس کے خیال میں میرے ذہن میں محفوظ تھا، اس لئے وہ مجھے بچانے کی کوشش کرنا ضروری سمجھتا تھا۔
سامان میں سے سب سے پہلے کمبل جان ہی نے نکالا اور پھر دوڑ کر میری طرف آیا، جلدی سے اس نے مجھے کمبل اڑھادیا اور مجھے سہارا دے کر آگے آگے چلنے لگا ۔ باقی لوگ ہمارے پیچھے پیچھے آنے لگے راستے میں جان نے بہت ہلکی سی آواز میں مجھ سے کہنا شروع کیا۔
“شاباش فیروز۔۔۔ اتنی سی عمر میں تم ایسی عقل مندی کی باتیں کر کے مجھے حیرت میں ڈال دیتے ہو، سچ بات تو یہ کہ راستے بھر میں بھی یہی سوچتا ہوا آیا تھا کہ اب جب کہ تمہاری قمیض پھٹ چکی ہے ، خزانے کے نقشے کی حفاظت کا انتظام کیا ہونا چاہئے؟ میں تمہاری اس ہوشیاری کی داد نہیں دے سکتا جو تم نے ابھی کی ہے۔۔۔ شاباش۔”
میں نے مسکرا کر جواب دیا:
“اور مجھے خود بھی آپ کے اس طرح سے یہ بات جان لینے کی تعریف کرنا پڑتی ہے، آپ نے بھی خوب پہچانا کہ میری اس ادا کاری کا مطلب کیا ہے؟”
“خیر یہ تو ہوا ۔” جان نے کہا:
“اب کوشش یہ کرو کہ جب تک تمہارے لئے کپڑے مہیا نہ ہو جائیں، تم اسی طرح اداکاری کرتے رہو، جہاں تک مجھے یاد پڑتا ہے، وہ خزانہ اسی جنگل میں کہیں چھپا ہوا ہے ۔ نقشے میں صرف جنگل ظاہر کیا گیا ہے۔ خزانے کی اصل جگہ نہیں دکھائی گئی، وہ جگہ ہمیں خود تلاش کرنی پڑے گی ۔ لیکن ان دشمنوں کی موجودگی میں یہ کام بہت مشکل نظر آتا ہے ۔ ہم جس جگہ بھی جائیں گے یہ لوگ ہمارے پیچھے پیچھے ضرور آئیں گے ۔”
بات واقعی معقول تھی ۔ لیکن اب اس کے علاوہ چارہ بھی کیا تھا ۔۔۔ ہمیں دشمنوں کی موجودگی ہی میں سب کام پورا کرنا پڑا تھا۔ جنگل کا راستہ ، اگر ہم اسے راستہ کہیں تو بہت ہی دشوار ہونے لگا تھا ، ہم لوگ اب شاخوں پر چڑھ کر اور دوسری طرف کود کود کر راستہ طے کر رہے تھے ۔ خچر چوں کہ ایسے گھنے درختوں کو پھلانگ نہیں سکتے تھے ، اس لئے ان کے لئے ہمیں راستہ ضرور صاف کرنا پڑتا تھا ۔ جیک ہم سب میں سب سے زیادہ طاقتور تھا، اس لئے وہی درختوں کو کاٹ کاٹ کر پھینکتا تھا ۔ دشوار گزار اور گھنے جنگل کے درختوں اور کانٹے دار پودوں سے رگڑ کھانے کے بعد خچروں کے جسموں پر بھی جگہ جگہ خراشیں آ گئی تھیں ۔ ہمیں ان کی بھی فکر تھی ، کیونکہ اس خطرناک سفر میں خچر ہی ہمارے لئے سب سے بڑا سرمایہ تھے ، راستے کی دشواریوں کا اندازہ میری یہ داستان پڑھنے والے اس بات سے کر سکتے ہیں کہ آدھے میل کا یہ فاصلہ ہم لوگوں نے پورے ایک دن میں طے کیا۔ صبح ہم نے سفر شروع کیا تھا اور اب شام ہونے والی تھی۔ یہ حالت دیکھ کر جان نے عبدل سے کہا۔
“میرے خیال میں ہمیں جلد از جلد اس جنگل کو پار کر لینا چاہئے ، ایسا نہ ہو کہ رات ہو جائے اور ہم یہیں پھنسے کے پھنسے رہ جائیں۔”
“مگر جس رفتار سے ہم چل رہے ہیں، اس طرح تو ہم یہ جنگل دو دن میں بھی پار نہیں کر سکتے۔”عبدل نے جواب دیا۔
جان کچھ دیر تک سر جھکائے سوچتا رہا اور پھر بولا۔
“عبدل !میرے خیال میں بہتر ہوگا اگر تم جیک سے بھی دریافت کر لو۔ وہ گونگا تو خیر بنا ہوا ہے مگر گردن ہلاکر جواب تو دے سکتا ہے ۔”
عبدل بھی اس رائے کو مانتے ہوئے جیک کی طرف مڑا ، مگر یہ دیکھ کر اسے بڑی حیرت ہوئی کہ جیک وہاں نہیں تھا۔ ہم نے درختوں کے تنوں کی اوٹ سے جھانک کر دور دور تک اسے دیکھا مگر اب صرف اس کا خچر کھڑا ہوا زمین پر اپنے پیر مار رہا تھا اور جیک اس پر سوار نہ تھا۔
فوراً ہی ہمیں خطرے کا احساس ہوا۔