“اب تو خدا نے تمھاری آنکھوں سے یہ پٹی بھی ہٹا دی کہ نین تارا کبھی بھی تمھاری ہو سکتی ہے ۔۔۔ تم برائے مہربانی اپنا نہیں تو اس بوڑھی ماں پہ ترس کھاو اور فریال سے شادی کیلیئے ہاں کر دو آخر کب تک یوں رہو گے؟؟ میری سانسوں کی بھی کوئی خبر نہیں”۔ کچن میں کشور مبشر کے سامنے ناشتے کی اشیا رکھتے اسے آمادہ کرنے میں لگی تھی۔
“امی نین تارا شادی شدہ ہے اسکی میری نظر میں کوئی وقعت نہیں ۔۔۔ احتشام نے اسے گھر سے نکال دیا ہے یہ بات اہمیت کی حامل ہے۔۔۔۔ مجھے پختہ یقین ہے کہ نین تارا اب کبھی بھی احتشام کی طرف رجوع نہیں کرے گی بلفرض ایسا نا بھی ہوا تو میں اسے زبردستی ایسا کرنے پہ مجبور کروں گا مگر پلیز آپ فریال کا ذکر بارہا میرے سامنے مت کیا کریں”۔ بریڈ پہ جام لگاتے مبشر نے کوفت سے کہا۔
“تم یہ بات شاید بھلا بیٹھے ہو مبشر کہ نین تارا امید سے ہے۔۔۔۔ وہ کچھ ہی عرصے میں احتشام کے بچے کی ماں بن جائے گی پھر کیا کرو گے؟؟ “۔ ہاتھ میں چائے کی پیالیاں لیئے کشور اس طرف آئی۔
اسی لمحے نین تارا کچن کی سرحد تک آئی جہاں کشور کی بات اسکی سماعتوں میں گھنٹی کی مانند بجی جس پہ اسنے اپنے قدم وہیں ساکت کر لیئے۔
“تو کیا ہوا امی؟؟ آپ بھی یہ بھول رہی ہیں کہ وہ بچہ ابھی اس دنیا میں آیا نہیں ہے”۔ زبان کا نفی استعمال کرتے اسنے سلائس کا بائٹ لیا۔
“لوگ ویسا نہیں ہوتے جیسا ہم انہیں سمجھ لیتے ہیں ۔۔۔ اپنوں پہ اعتبار کا سنگین نتیجہ میں پہلے ہی بھگت چکی ہوں اب اور نہیں ۔۔۔۔ مجھے ابھی یہاں سے جانا ہو گا میرا یہاں مزید رہنا خطرے سے خالی نہیں”۔ بغیر آواز کیئے نین تارا عجلت میں روم کی جانب بڑھی۔
☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆
“تم سے جتنا کہا گیا ہے اتنا کرو ۔۔۔ لوگوں کی پرواہ کرنے کی ضرورت نہیں”۔ فون کان کے ساتھ لگائے وہ کال سننے میں محو تھا جب دروازے پہ سعد آ کھڑا ہوا ۔۔۔۔ سعد کو اندر آنے کا اشارہ کرتے وہ سیدھا ہوا جبکہ سعد آہستگی سے چلتا احتشام کے قریب آیا۔
“غلطی ناقابل تلافی ہو گی یاد رکھنا۔۔۔۔۔۔ ہاں سعد کہو؟؟”۔ کالر کو سختی سے سرزنش کرتے احتشام نے کال کاٹ کر فون سائیڈ پہ رکھا پھر اپنی پوری توجہ سعد کی جانب مبذول کی۔
“سر ایک اہم مسئلہ آپکے گوش گزار کرنا تھا اسلیئے وقت کی تاخیر مناسب نہیں سمجھی”۔ پس و پیش اسنے بات کی ابتدا کی۔
“کیا مسئلہ ہے؟۔۔۔ ذرا کھل کر بتاو؟”۔ احتشام نے سعد کی بات پہ پوری طرح کان دھرتے کہا۔
“سر شالیمار گیسٹ ہاؤس کے کاغذات مل گئے ہیں ۔۔۔ جیسا ہم سوچ رہے تھے ایسا بالکل نہیں ہے نتیجہ اسکے برعکس ہے ۔۔ ان فیکٹ سنگین ہے”۔ سعد نے اسے معاملے سے آگاہ کرنا شروع کیا۔
“کیا مطلب ہے اس بات کا؟؟”۔
“سر گیسٹ ہاؤس سیٹھ رفیق نیازی کے نام نہیں بلکہ اسکا اصل مالک کوئی اور ہے”۔ احتشام وارفتہ چیئر سے اٹھتے سعد کے قریب آیا۔
“کون ہے وہ؟؟؟ ۔۔۔۔۔۔ میری بات کا جواب دو سعد کون ہے اس فساد کی جڑ؟؟”۔ سعد کی مہر خاموشی اسے مزید اندیشوں کے طوفان کی عنایت کر گئی۔
“روہینہ واجد”۔ سعد نے دو حرفی کہا۔
“وٹ؟؟ ۔۔۔۔ آر یو آوٹ آف یور سنسز؟؟”۔ احتشام آپے سے باہر ہوا۔
“نو سر”۔ سعد نے سنجیدگی سے کہا۔ ” سر یہ میں اپنی جانب سے نہیں کہہ رہا ان ڈاکومنٹس میں صاف صاف درج ہے کہ اس گیسٹ ہاؤس کی لیگلی اتھارٹی مس روہینہ کے پاس ہے جو گزشتہ سال انہیں دی گئی تھی”۔
سعد کے ہاتھوں سے فائل پکڑتے احتشام نے چشم گزار کیا پھر بجلی سی پھرتی دکھاتا کیبن سے نکل گیا تھا۔
☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆
“اے میرے خدا ۔۔۔ ستیا ناس تیرا روہینہ یہ کیا کر دیا تو نے؟”۔ روہینہ نے تمام واقعہ ممتاز کی حس سامعہ کے پار کیا جس پہ وہ سر پکڑے بیٹھ گئی تھی۔
“ماما مجھ سے بہت بڑی غلطی ہو گئی ۔۔۔۔ میں آئیندہ ایسا نہیں کروں گی پلیز آپ مجھے بھائی سے بچا لیں”۔ ممتاز کے سامنے بیٹھے روہینہ نے ممتاز کے سامنے ہاتھ جوڑے۔
“روہینہ ۔۔۔۔۔ روہینہ ۔۔۔ کہاں ہو تم؟ باہر آو”۔ احتشام کی بھڑکیلی مدھم آواز کانوں تک پہنچتے ہی وہ بدک کے اٹھ کھڑی ہوئی۔
“ماما احتشام بھائی آ گئے ہیں ۔۔۔ وہ مجھے مار ڈالیں گے”۔ بھیگی پلکوں اور نم چہرے سے اسنے ممتاز کی جانب التجائیہ نظریں اٹھائیں۔
“کچھ نہیں کہے گا تم ڈرو نہیں۔۔۔۔ اگر تم اسکے سامنے نہیں گئی تو اسکا غصہ اور بھی بڑھ جائے گا بہتر ہے تم میرے ساتھ چلو۔۔۔ میں احتشام سے خود بات کروں گی”۔ اسکا ہاتھ پکڑتے ممتاز دروازے کی جانب بڑھی۔
“نہیں ماما پلیز مجھے چھوڑ دیں ۔۔۔ احتشام بھائی مجھے مار دیں گے”۔ ہزار التجاوں کے باوجود ممتاز نے اسکی ایک نا سنی۔
“میں تمھاری جان نکال لوں گا”۔ غصے میں بولتا احتشام روہینہ کی جانب بڑھا جو ڈرے سہمے وجود کو ممتاز کی پشت پہ چھپائے ہوئے تھی۔
“کیا ہوا احتشام بیٹا تم غصے میں کیوں ہو؟؟”۔ ممتاز نے بات سنبھالنے کی ہر ممکن کوشش کی۔
“یہ تو آپ اپنی اس صاحبزادی سے پوچھیں کہ کیا گل کھلائے ہیں اسنے”۔ احتشام کا غصہ اب آسمان کی بلندیوں کو چھونے لگا تھا۔
“بیٹا یہ تم کس لہجے میں بات کر رہے ہو اپنی بہن سے؟؟”۔ ممتاز نے تلخی سے کہا۔
“بہن نہیں آستین کا سانپ ہے یہ جس نے میری خوشیوں کو تو ڈسا ہی ہے ساتھ ہی اپنے زہر کے اثرات میری زندگی پہ تا زیست چھوڑ دیئے ہیں ۔۔۔ ایسی تربیت کی ہے آپ نے اسکی؟؟”۔ دل کی بھڑاس نکالتے وہ ممتاز کے قریب ہوا۔ “ایک گھٹیا انسان کے ہاتھوں میری عزت کو سستے داموں فروخت کیا ہے اسنے ۔۔۔۔۔ نین تارا کو آپ نے ہمیشہ اسی بات کا طعنہ دیا کہ بھگوڑی ماں کی بیٹی نیک کیسے ہو سکتی ہے؟ آپ کا سایہ تو اسکے سر پہ تھا نا پھر آپکی تربیت میں کھوٹ کیوں؟؟؟”۔ ممتاز کی آنکھوں میں آنکھیں ڈالے احتشام نے انگلی کے اشارے سے قہر برسا جس سے ممتاز شاکڈ ہو گئی تھی۔
“اسکی مناسبت سے آپ نے اسکے شوہر کو بیٹے کا درجہ دے دینا تھا چاہے وہ جیسا بھی ہوتا مگر میری مناسبت سے آپ نے میری بیوی کو بیٹی کا درجہ نہیں دیا ۔۔۔۔ ارے بیٹی کیا آپ نے تو اسے دل سے بہو تک تسلیم نہیں کیا ۔۔۔۔ آپ سے کیا گلا؟؟ جب میں خود اتنا ناقص العقل ٹھہرا کہ اپنی بیوی کے سر سے چادر کھینچ کر اسے بھرے بازار میں رسوائی کا مجسمہ بنا کے چھوڑ دیا ہے”۔ اسکی بے بسی اب آنسوؤں کا روپ اوڑھے زور پکڑ چکی تھی ۔۔۔۔ اسکی ہمت جواب دینے لگی تھی۔۔۔ انصاری ہاوس کے صحن میں وہ شکستہ زخموں سے چور کھڑا تھا۔ ” اسنے میری خوشیوں کا خون کیا ہے ۔۔۔ میں اسے جان سے مار دوں گا”۔ بولتے ہی اسنے جیب سے ریوالور نکالا جس پہ ممتاز کے ساتھ ساتھ روہینہ کے پیروں تلے سے زمین کھسکی۔
روہینہ کی جانب ریوالور کا رخ کرتے اسنے جونہی ٹریگر پہ انگلی رکھی واجد نے اسکے قریب آتے ریوالور کا منہ آسمان کی جانب کیا جس سے فائر ہوا میں ہوا۔
☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆
“کیا ہوا مبشر نین تارا ملی؟؟”۔ مضطرب سانسیں خارج کرتے اسنے بے چین نگاہ گیٹ پہ جمائیں تھیں جہاں سے مبشر داخل ہوا تب کشور تیزی میں اسکے قریب آئی۔
“نہیں”۔ مبشر نے تاسف سے کہا۔
“یہ سب تمھاری وجہ سے ہوا ہے ۔۔۔ نا تم ایسی باتیں کرتے نا نین تارا سنتی اور نا ہی گھر چھوڑ کر جاتی ۔۔۔۔ نجانے نین تارا کہاں چلی گئی ہے؟؟ میرے خدا اسکی حفاظت فرما”۔ مبشر کو کوستے اسنے اپنے قدم گھر کی اندرونی جانب رکھنا شروع کیئے۔
☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆
“یہ کیا کر رہے تھے تم؟؟ ۔۔۔۔ روہینہ اور تم بہن بھائی ہو احتشام ۔۔۔ تم ایسے اسکی جان کیسے لے سکتے ہو؟؟”۔ احتشام کے ہاتھوں سے ریوالور پکڑتے واجد نے سرد مہری سے کام لیا۔
“کیا مجھے آپکو بھی اسکی وضاحت دینی ہو گی؟؟”۔ نم افسردہ آنکھیں واجد کی جانب اٹھاتے احتشام نے کہا۔
“میں جانتا ہوں احتشام تمھارے ساتھ جو کچھ بھی ہوا اسکے بعد تم کسی پہ بھی اعتبار کرنا نہیں چاہو گے مگر تم کوئی معمولی باشندے نہیں اس شہر کے نگہبان اور محافظ ہو تمھارا ہر غلط قدم تمھیں موت کے منہ میں بھی دھکیل سکتا ہے”۔ واجد نے اسے جیسے آگاہ کیا۔
“اتنا کچھ ہونے کے باوجود بھی آپ مجھے موت کا ڈراوا کیسے دے سکتے ہیں پاپا؟؟؟۔۔۔۔۔ مجھے تب ڈر نہیں لگا جب نین تارا کو خود سے دور کیا تھا ۔۔۔۔ مجھے تب ڈر نہیں لگا جب میں نے اس پہ گھناؤنی الزام تراشی کی تھی ۔۔۔۔ مجھے تب ڈر نہیں لگا جب اسکی آنکھوں میں میری وجہ سے آنسو تھے ۔۔۔۔ مجھے تب ڈر نہیں لگا جب میں نے اسے دربدر کیا تھا۔۔۔۔ میں اتنا سنگ دل پہلے تو نہیں تھا پاپا میں بہت خوش تھا اپنی زندگی میں مگر اسنے ۔۔۔۔۔۔ اسنے میرے آشیانے کو جلا کر راکھ کر دیا پاپا”۔ احتشام گھٹنوں کے بل زمین پہ بیٹھتا چلا گیا تھا۔
“تف ہے مجھ پہ جو صحیح غلط کی پہچان نا کر سکا ۔۔۔ کیا ایسے ہوتے ہیں محافظ؟؟ ایسے ہوتے ہیں پیار کرنے والے؟؟”۔ اسکے آنسوؤں نے رخسار کا دامن چھوڑتے اب فرش کا رخ کیا۔ ” مر گئی ہے میرے لیئے یہ ۔۔۔ کوئی بہن نہیں ہے میری”۔ احتشام کے برابر پنجوں کے بل فرش پہ بیٹھتے واجد نے اسکے بائیں شانے پہ ہاتھ رکھا جبکہ ممتاز نے روہینہ کو گلے لگایا جو زار و قطار رو رہی تھی۔
☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆
“کہاں جاوں میں؟؟ کس کی چوکھٹ پہ؟؟ ۔۔ کس کے دروازے پہ دستک دوں؟؟ کون میری پکار سنے گا؟ ۔۔۔ میری تو کچھ سمجھ نہیں آرہا ۔۔۔ یا اللہ پاک تو ہی میری مدد فرما”۔ اسنے بائیں ہاتھ سے چادر کی مدد سے چہرہ ڈھانپ رکھا تھا اور دائیں ہاتھ میں بیگ پکڑے فٹ پاتھ پہ ہلکے قدم رکھ رہی تھی۔
“میرے پاس تو اتنے پیسے بھی نہیں کہ کہیں رہنے کا بندوبست ہی کر لوں جتنے ہیں ان سے تو دو وقت کی روٹی مشکل ہے ۔۔۔ انجان لوگوں سے بھری اس دنیا میں،، میں کس سے مدد طلب کروں ۔۔۔۔ یہ کس دلدل میں آ پھنسی ہوں میں؟”۔ ادھر ادھر حالات کا جائزہ لیتے وہ بڑبڑاتے چلی جا رہی تھی۔
“اب تو میری ہمت بھی جواب دے گئی ۔۔۔ پانی چاہیئے مجھے میرا حلق بھی خشک ہو گیا ۔۔۔۔ اب تو ٹھیک سے چلا بھی نہیں جا رہا اوپر سے یہ گرمی”۔ تین گھنٹے لگاتار مارچ کرنے کے بعد اب اسکی ہمت بھی دم توڑ چکی تھی جسکی وجہ سے وہ وہیں بیٹھ گئی تھی۔
“تم؟”۔ جونہی اسنے اپنا بیگ کھولا ایک شخص قدم اٹھاتا اسکے قریب آیا جس پہ وہ بوکھلا اٹھی۔
☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆
صبح کے دس بج رہے تھے ۔۔۔ آفس میں احتشام کی عدم موجودگی نے سعد کو انصاری ہاوس آنے پہ مجبور کیا۔
“اسلام و علیکم انکل”۔ واجد صحن میں بیٹھا اخبار پڑھنے میں منہمک تھا جب سعد اسکے قریب آیا۔
“و علیکم اسلام سعد بیٹا سناو کیسے ہو؟؟”۔ سعد کی آواز پہ اسنے اخبار سائیڈ پہ کرتے اسکی احوال پرسی کی۔
“رب کا احسان ہے انکل ۔۔۔ سر کہاں ہیں وہ آج آفس نہیں آئے تو سوچا خود چل کے مل لوں”۔
“احتشام اپنے روم میں ہے صبح سے باہر نہیں آیا تم وہیں جا کر مل لو”۔
“جی بہتر”۔ بولتے ہی وہ سیڑھیاں چڑھتے احتشام کے روم تک آیا۔
ہاتھوں میں چاقو دبائے احتشام گھٹنوں کے بل زمین پہ سر جھکائے بیٹھا تھا اور جہان فانی سے بے نیاز اپنی آنکھیں موند رکھیں تھیں۔
ان چاقووں کی بدولت اسکے دونوں ہاتھ مکمل زخمی ہو چکے تھے اور ان سے خون رس رہا تھا۔۔۔ سعد کی آنکھوں میں یہ منظر پہنچا کہ وہ زودرسی احتشام کی طرف آیا۔
“سر یہ آپ کیا کر رہے ہیں؟؟۔۔۔ آپ کے ہاتھوں سے خون بہہ رہا ہے”۔ احتشام کے برابر بیٹھتے وہ ہڑبڑا اٹھا۔
“اپنی بیوی کو دیئے زخموں اور تکلیفوں کو محسوس کرنے کی کوشش میں ہوں”۔ آنکھوں سے مسلسل بہتی آبشاریں،، لبوں پہ نا چار مسکراہٹ ،، نم چہرہ۔۔۔ اسکا دل اپنی ہستی فنا کرنے کو چاہا۔
“سر آپ خود کو تکلیف نا پہنچائیں ۔۔۔ ایسا کرنے سے مزید مشکلات کا سامنا کرنا پڑے گا ۔۔ آپ بے فکر رہیں خدا نے چاہا تو آپکی وائف انشاءاللہ ضرور مل جائیں گیں”۔ اسکے ہاتھوں سے چاقو پکڑتے سعد نے اسے دلاسہ دیا۔
“تمھیں لگتا ہے کہ وہ اب بھی میرے پاس آئے گی؟”۔ آنکھیں کھولتے اسنے سعد کی جانب دیکھا جہاں کوئی جواب نا تھا۔
“سر آپ میرے ساتھ آئیں”۔ اسکو سہارا دیتے سعد نے اسے بیڈ کی پائینتی پہ بٹھایا۔ “فرسٹ ایڈ باکس؟؟”۔ احتشام کی جانب دیکھتے اسنے سوال کیا جس پہ احتشام نے دائیں جانب سائیڈ ٹیبل کی طرف اشارہ کیا۔
فرسٹ ایڈ باکس کے ہمراہ سعد دوبارہ احتشام کے قریب آیا ۔۔۔ احتشام کے عہدے کے پیش نظر اسنے کھڑا ہونا مناسب سمجھا۔۔۔ اسکے ہاتھوں کے زخموں کو صاف کرتے سعد نے ان پہ مرہم رکھی۔
“کوئی کام تھا؟؟؟”۔ مرہم پٹی سے فارغ ہوتے سعد کو اسنے مخاطب کیا۔
“جی سر”۔ احتشام کے سامنے کھڑے ہوتے وہ سیدھا ہوا۔ “سر یہ بات شوشل میڈیا،، نیوز چینل غرض یہ کہ ہر جگہ جنگل کی آگ کی مانند پھیل چکی ہے کہ گیسٹ ہاؤس آپکی بہن کے نام ہے ۔۔۔۔ یہ افواہ پھیلا دی گئی ہے کہ اس ریڈ کے پیچھے آپکا کوئی مقصد تھا”۔ سعد نے وضاحت کرتے کہا۔
“ڈیم اٹ”۔ بولتے ہی وہ بیڈ سے اٹھا۔
“سر کورٹ نے آپ سے وضاحت طلب کی ہے جسکے لیئے آپکو پندرہ دن کی مہلت دی گئی ہے اگر آپ ایسا نا کر سکے تو۔۔۔”۔ احتشام کو آگاہ کرتے وہ لمحہ بھر کو رکا۔
“تو؟؟؟”۔ احتشام نے تجسس بھری نگاہ اسکی جانب اچھالی۔
“آپکے خلاف ارسٹ وارنٹ جاری کر دیئے جائیں گے”۔ سنجیدہ لہجے میں اسنے اختصار کیا۔
☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆