میں نے یہاں آکر دیکھا کہ ۱۸۵۷ء کی جنگ آزادی کی بدولت یہاں بیسیوں راجے، نواب، زمیندار، مولوی،مفتی، قاضی، ڈپٹی کلکٹر، منصف، صدر امین، صدر الصدور، رسالہ دار اور صوبے دار و غیرہ سنت یوسفی ادا کر رہے ہیں۔
نسلی امتیاز
وہ معزز ہندوستانی جن کے آگے سینکڑوں ہزاروں نوکر تھے، انھیں بھی سیاہ رنگت اور ہندوستانی باشندے ہونے کی وجہ سے دوسرے چوہڑے اور چماروں کی طرح موٹا جھوٹا کھانا دیا جاتا اور عام لوگوں کے ساتھ ان سے بھی مشقت لی جاتی تھی، مگر یوروپین گورے ؛ بلکہ اکثر دوگلے کالے کلوٹے بھی فقط کوٹ پتلون کے شرف یا عیسائی کلمہ پڑھنے کی وجہ سے پلٹن کے گوروں کے ہمراہ کھانے اورکپڑے کے مستحق سمجھے جاتے تھے، ان کے رہنے کے لیے الگ بنگلے اور خدمت کے لیے بلا تنخواہ نوکر مامور تھے اور اس سے بھی بڑھ کر یہ کہ جس گورے یا دوگلے کو لائسنس مل جاتا اس کو تو پچاس روپیہ ماہوار تک نقد تنخواہ بھی ملتی تھی۔
۱۸۷۹ء میں ایک نیا عبرت انگیز واقعہ پیش آیا، جسے دیکھ کر لوگوں کو رونا آتا تھا اور وہ یہ کہ اس سال ایک بدبخت راجہ رگن ناتھ پوری جس کے لیے مدت تک اخباروں نے بھی سر پھوڑا تھا، قید ہو کر کالاپانی پہنچا، چہرے کی رنگت کے سیاہ ہونے کے باعث سے وہ بے چارہ عام چوہڑے چماروں کے ساتھ کھانا کھاتا اور مشقت کرتا تھا، جب نازک مزاجی کے سبب مشقت نہ کر سکتا تھا تو جیل، بیت اور چکی پیسنے کی سزا پاتا، آخر کار ان صدموں کی تاب نہ لاتے ہوئے جیل میں چل بسا۔
انہی دنوں مسٹر لیمٹیر نامی ایک کرانی بھی یہیں پہنچا، جو کراودھ سے قید ہو کر آیا تھا، وہ بھی اگرچہ رنگ کا کالا تھا، لیکن کوٹ پتلون پہننے اور یوروپ کا باشندہ ہونے کے باعث گوروں کے ساتھ عمدہ کھانا کھاتا تھا، رہنے کے لیے اسے ایک الگ مکان مل گیا، جس میں عیش و آرام کا سب سامان تھا، مشقت کے بجاے اس پر یہ انعام کیا گیا کہ اسے ڈپٹی کمشنر کی کچہری میں کلرک لگا دیا گیا، چونکہ یہ کمبخت راجہ اور خوش نصیب کرانی یہاں بیک وق پہنچے تھے، اس لیے اس اختلاف سلوک اور طرفداری کو دیکھ کر ہر ایک کی آنکھیں اشکبار تھیں۔