(Last Updated On: )
“کیا ہوا ہے اماں آپ نے مجھے میرے کمرے میں جانے سے کیوں منا کیا ” وہ ابھی صبح صبح ہی لوٹ کر آیا تھا اس کا دل ہی نہیں لگ رہا تھا عجب سی الجھن ہو رہی تھی جیسے کچھ بہت غلط ہونے والا ہے اس کے ساتھ
“ہائے اکرام ہم لوٹ گئے برباد ہو گئے ہم کسی کو منہ دکھانے کے قابل نہیں رہے ہیں ” اماں دھائیاں دے دے کر رو رہی تھی
“اماں باتیں نا ہوا کیا ہے یہ دانیال کو چوٹ کیسے آئی ہے اور شاہ زرثانیہ ٹھیک ہے نا ” وہ بےصبری سے گویا ہوا
“اس بدکردار ہو کیا ہونا ہے اسنے تو ہمیں کسی کو منہ دیکھنے کے قابل نہیں چھوڑا جانتے ہوں کل رات تمہاری بیوی سے کوئی ملنے آیا تھا “
“بس اماں آگے کچھ مت کہیے گا میری ثانیہ ایسی نہیں ہے ” وہ اماں کی بات کاٹ کر چلایا
” ہاں ہاں اب کہ دو میں اور تمہارا بھائی جھوٹ بول رہے ہے نہ جس نے اس بندے کو تمہارے کمرے سے بھاگتے ہوئے خود دیکھا ہے ۔۔” اماں نے جھوٹ بولنے کی انتہا کر لی اس وقت اگر وہ یہ سب نہ کہتی تو انہیں یقین تھا اکرام ان پر یقین کھبی نہیں کرتا دانیال نے دیکھا اماں نے دیکھا ایک ہی بات تھی یہ سوچ کر اماں کا دل مطمئن تھا
“تمہارے بھائی کی جو یہ حالت ہوئی ہے یہ تمہاری بیوی اور اس کے یار کی کرم نوازی ہے دانیال نے تو اسے پہلے بھی دیکھا تھا مگر وہ بھاگ گیا کل رات پکڑا گیا تو تمہاری بیوی نے دانیال کے سر پر لیمپ دے مارا اور اس اپنے یار کو بھاگا دیا ” اماں نے رو رو کر ساری بات اکرام کو بتائی
“آ اما اماں آپ یہ سب کیا کہ رہی ہے پلیز کہ دے یہ سب مزاق تھا میری ثانیہ ایسی نہیں ہے ” وہ ہارے جواری کی طرح اماں کے قدموں میں بیٹھ کر بولا
“میرے لال میرے بیٹے میں تمہاری ماں ہوں یہ تمہارا بھائی ہے ہم تم سے کیوں جھوٹ بولت گے وہ کم ذات پتا نہیں کب سے ہم سب کو دھکا دے رہی ہے ناجانے کب سے یہ چکر چل رہا ہے اور وہ آنے والا بچہ ناجانے کس کا ہے ۔۔۔ میں نے خود دیکھا اس بندے کو ٹیرس سے نیچے کھودتے ہوئے ” اماں نے روہنسی ہو کر کہا
پاس بیٹھا دانیال دل ہی دل میں اماں کی ایکٹنگ کو داد دے رہا تھا وہ تو اس سب معاملے سے بہت آسانی سے نکل گیا تھا
“بچاری ثانیہ” اسنے کمنگی سے سوچھا
“بس ابھی کے ابھی جا کر اسے ہاتھ سے پکڑ کر گھر سے باہر کروں میں اس کا غلیظ وجود اب اپنے گھر میں برداشت نہیں کر سکتی “
اکرام غصّے سے اٹھ کر اپنے کمرے کی طرف گیا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کچھ عشق تھا کچھ مجبوری تھی سو میں نے جیون وار دیا
میں کیسا زندہ آدمی تھا اک شخص نے مجھ کو مار دیا
۔
ایک سبز شاخ گلاب کی تھی اک دنیا اپنے خواب کی تھی
وہ ایک بہار جو آئی نہیں اس کے لئے سب کچھ ہار دیا
۔
یہ سجا سجایا گھر ساتھی مری ذات نہیں مرا حال نہیں
اے کاش کبھی تم جان سکو اس سکھ نے جو آزار دیا
۔
میں کھلی ہوئی اک سچائی مجھے جاننے والے جانتے ہیں
میں نے کن لوگوں سے نفرت کی اور کن لوگوں کو پیار دیا
۔
وہ عشق بہت مشکل تھا مگر آسان نہ تھا یوں جینا بھی
اس عشق نے زندہ رہنے کا مجھے ظرف دیا پندار دیا
“کون تھا وہ جواب دوں مجھے” اکرام غصّے سے ڈھارا ثانیہ کو بالوں سے پکڑ کر اماں اور دانیال کے سامنے لایا
“م مجھے ن نہ نہیں ہے پتا وہاں کو ۔۔ کوئی نہیں تھا اکرام۔۔ میں سچ کہ ۔۔ رہی ہوں وہاں صرف اور صرف ۔۔ دانیال بھائی تھے میں نے خود کو بچانے کے لیے ان کے سر پر لیمپ مارا تھا ” اس نے مشکل سے اپنی بات مکمل کی آج اس کا مان یقین سب ٹوٹ کر بکھر گیا تھا جس شخص کو اس نے ٹوٹ کر چاہا تھا جیسے پانچ سال اپنے ہونے کا یقین دلایا تھا جس کے قدم کے ساتھ قدم ملا کر اس نے ساری دنیا کا مقابلہ کیا تھا آج اسی شحض نے بھری محفل میں رسوا کر دیا تھا محبت اتنی بے اعتبار ہوتی ہے کیاجو ایسے ہی کیسی کی باتوں میں آ کر مشکوک ہو جاتی ہے ان چھ سالوں میں کہا اکرام کو لگا کہ اس کی بیوی نے بےوفا کی ہے بس ایک لمحہ لگا اسے اس کے کردار کو نشانہ بنانے میں آج ثانیہ کو احساس ہوا جسے اس نے دنیا میں سب سے بھر کر چاہا تھا وہ اس کا تھا ہی نہیں جس کی محبت میں اس نے اماں کی مار کھائی آج وہ ہی اس سے اس کے کردار کی گواہی مانگنے کھڑا تھا
“بکواس کرتی ہوں میرے سامنے میرے بھائی پر الزام لگا رہی ہوں اپنے کرتوت چھپانے کے لیے میرے بھائی کو بیچ میں لا رہی ہوں ۔۔۔ بتاؤ کون تھا وہ جس کی خاطر تم نے میری محبت کو دوھکا دیا بولو ” اکرام نے زور سے چلا کر پوچھا
اماں اور دانیال خاموش تماشائی بنے کھڑے تھے انہوں نے اپنا کام کر دیا تھا جو آگ دانیال نے لگانی تھی لگا چکا تھا اب تو بس انجام دیکھنے کا منتظر تھا
“میں جھوٹ نہیں بول رہی سچ ہے یہ سب جس دن سے میری شادی ہوئی ہے اماں نے اور اس آپ کے بدکردار بھائی نے مجھے مارا پیٹا میں چپ رہی ۔۔ میں چپ نہ رہتی چھ سال خود پر ظلم برداشت نہ کرتی تو آج یہ دن نہیں دیکھنا پڑتا جھوٹی آپ کی ماں آپ کا بھائی ۔۔۔۔ ” آج ثانیہ نے سچ بولنے کی ہمت کر ہی لی تھی مگر شاید بہت دیر ہو گئی تھی اب ایسا کچھ بھی نہیں بچا تھا اس کے قسمت اس سے روٹھ گئی تھی ثانیہ کی بات ختم ہونے سے پہلے ہی اکرام کا ہاتھ اٹھا تھا اس نے زور سے ثانیہ کے منہ پر تھپڑ مارا ثانیہ نے بے یقینی سے اکرام کو دیکھا پھر اپنے چہرے پر ہاتھ رکھا اس کے ہونٹ کے سائیڈ سے خون نکل رہا تھا
“بدکردار آوارہ عورت یہ ہی سب رہ گیا تھا تم اس حد تک گر جاؤ گی مجھے یقین نہیں آ رہا اپنے آپ کو بچانے کے لیے تم میری ماں اور میرے معصوم بھائی پر الزام لگا رہی ہوں “
وہ غصّے سے بے قابو ہو رہا تھا
“مما ۔۔۔۔بابا بھی گندے ہے ” شاہ زر جو کب سے ماں اور باپ کو غصے میں دیکھ رہا تھا چلا کر بولا
“بہت خوب میری ہی اولاد کو مجھ سے بدظن کر دیا تھا اور یہ جو دوسری تمہاری اولاد اس دنیا میں آ رہی ہیں وہ بھی نا جانے کس کا گناہ ہے جو مجھ پر مسلط کر رہی ہوں “
“بس اکرام بس خبردار میری اولاد کو کوئی گالی دی تو بہت سن چکے آپ سب کی اب اور نہیں بہت برداشت کر لیا میں نے مگر اب میری اولاد کو گناہ کہا تو جان لے لوں گی میں سب کی سمجھے آپ سب ” اس نے بے خوف ہو کر اکرام کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر کہا
ہاں اولاد کے لیے بزدل سے بزدل ماں بھی بہادر بن جاتی ہے ثانیہ نے ساری زندگی ظلم اکرام کی محبت میں برداشت کیے تھے مگر اب وہ ہی اپنا نہ رہا تو کیوں کرتی وہ اور برداشت
“جا رہی ہوں میں یہاں سے نہیں ہے میرا کسی سے بھی کوئی تعلق ” وہ رخ موڑ کر اماں کے سامنے کھڑی ہوئی
“اور آپ اماں آپ کو تو میں نے ماں سے بھر کر عزت دی خیال رکھا آپ اس قابل ہی نہیں تھی سانپ کی فطرت ہمیشہ سے دھسنا ہی ہوتا ہے چاہے اسے کتنا ہی دودھ پلا دیا جائے موقع ملنے پر وہ کاٹ ہی دیتا ہے آپ کو میرا وجود اس گھر میں برداشت نہیں تھا نہ تو جا رہی ہوں میں اللّٰہ کی عدالت بہت انصاف والی ہے آپ اور آپ کی یہ دونوں اولاد ضرور اللّٰہ کے سامنے پیش ہو گے تب میں اپنے پر ہوئے ہر ظلم کا حساب لوں گی وہ بھی سود سمیت ” وہ نفرت سے کہتی ہوئی مڑی شاہ زر کا ہاتھ تھاما
اماں کا دل ایک لمحے کے لیے کانپا ضرور تھا مگر اب وہ سچ بول کر اکرام کی نظروں میں گرنا نہیں چاہتی تھی ہاں انہوں نے کسی کو نہیں دیکھا تھا مگر دانیال دو سچ کہ رہا تھا وہ بلا کیوں جھوٹ بولتا
“کہا جا رہی ہوں تم تمہیں لگتا ہے اتنی آسانی سے میں تمہیں تمہارے یار سے ملنے دے دوں گا نہیں ثانیہ بی بی نہیں میں تمہیں یہاں سے کہی جانے نہیں دوں گا اتنا بے غیرت نہیں ہو میں ” اکرام نے اسے ہاتھ سے پکڑ کر گھسیٹا شاہ زر کا ہاتھ اس کے ہاتھ سے چھوٹ گیا
“چھوڑیں مجھے اکرام میں نے کوئی گناہ نہیں کیا خدا کا واسطہ ہے میرا یقین کرے ” وہ گرگرائی روئی مگر اس کی ایک نہ سنی اکرام نے اسے خوب مارا اس کی آنکھوں پر پٹی باندھ چکی تھی وہ چاہ کر بھی یقین نہیں کر سکتا تھا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
“کس چیز کی کمی دی میں نے تمہیں ہاں بولو کیا نہیں تھا میرے پاس جو تم نے میرے ساتھ بےوفائی کی جواب دوں مجھے ” اسنے کمرے میں لا کر دورازا لاکٹ کیا اسے زمین پر پھینکا اب اسے پاؤں سے بری طرح پیٹ رہا تھا ثانیہ کے جسم خون سے لت پت ہو گیا تھا
“میں اج تمہیں زندہ نہیں چھوڑوں گا تم نے مجھے دوھکا دیا تمہیں میں اب کسی اور کا بھی نہیں ہونے دوں گا
وہ اسے پاؤں سے ٹھوکر مار کر الماری کی طرف بڑھا وہاں سے اپنا ریوالور نکالا
“نہیں اکرام نہیں خدا کا واسطہ ہے یہ ظلم مت کرے مجھ پر “
“مما مما اوپن دی دوڑ “شاہ زر کب سے دروازا پیٹ رہا تھا اماں اور دانیال باہر لاؤنچ میں بیٹھے تماشائے سے لطف اندوز ہو رہے تھے
اکرام کی آنکھوں میں خون اترا تھا اسے کچھ بھی دیکھائی نہیں دے رہا تھا نہ کچھ سنائی دے رہا تھا اسے تو اپنے بیٹے کی روتی بلکتی فریاد بھی سنائی نہیں دے رہی تھی
اس نے گن ثانیہ پر فوکس کی ایک دو تین فائر کیے ثانیہ کی آنکھیں بند ہو گئی فائر کی آواز سے اماں کو ہوش آیا
“اکرام اکرام دروازا کھولوں خدا کا واسطہ ہے دروازہ کھولوں ثانیہ بے قصور ہیں میں نے جھوٹ بولا تھا کوئی نہیں تھا وہاں مجھے معلوم تھا وہاں دانیال ہی تھا میں دانیال کی محبت میں آندھی ہو گئی تھی خدا کا واسطہ ہے دروازہ کھولوں ” اماں رو رو کر فریاد کر رہی تھی سچ بول رہی تھی دروازا پیٹ رہی تھی شاہ زر ڈر کر پیچھے ہوا
اکرام نے اپنے ہاتھ میں پکڑی ریوالور کو دیکھا پھر سامنے خون میں لت پت مردا وجود کو
“نہیں نہیں یہ کیا کر دیا میں نے نہیں اماں مار ڈالا آج آپ نے مجھے ” اس نے گن نیچے پھینکی اور بھاگ کر ثانیہ کے سامنے بیھٹا اسکے نبضِ چیک کیا جو نا جانے کس وقت چلنا بند ہو گئی تھی
“ثانیہ اٹھو دیکھوں مجھے میری ثانی ۔۔۔۔ نہیں ۔۔۔ ” وہ چلایا واپس اٹھ کر ریوالور اٹھائی اپنے ماتھے پر رکھی داض ۔۔۔۔۔
“اکرام ثانیہ اماں وہی نیچے گر گئی
دانیال نے بھاگ کر دروازے پر لات ماری اماں کی نظر اندار کے منظر پر پڑی تو ان کی آنکھیں بند ہونے لگی
” آک ۔۔۔ اکرام “
دانیال نے پھٹی نظروں سے سامنے خون میں لت پت پڑی ثانیہ کو دیکھا تھوڑے فاصلے پر اکرام کا مردا وجود پڑا تھا شاہ زر چلایا
سب ختم ہو چکا تھا ہستا بستا گھر بکھر کر برباد ہو گیا تھا اماں نے بھی پھر دوبارہ آنکھیں نہیں کھولیں تھی وہ احساس ندامت میں اپنی جان دے بیٹھی تھی اس دن اس گھر سے تین تین جنازے اٹھے تھے
بلکہ تین بھی نہیں چار ایک وجود تو اس دنیا میں آنے سے پہلے ہی اللّٰہ کو پیارا ہو گیا تھا ۔۔۔۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
پری زمین پر بیٹھی ہوئی تھی شاہ زر اس کے سامنے ہی زمین پر بیٹھا تھا ٹیرس کے دروازے کے پاس دونوں ہی بے آواز رو رہے تھے پری کی رونے میں اب شدت آ گئی تھی وہ ہچکیایوں کے ساتھ رو رہی تھی
” جانتی ہوں پری جب میں آگے بڑھا میں بھاگ کر مما کے گلے لگنا چاہتا تھا مگر مما تو زمین پر لیٹی ہوئی تھی نا ۔۔۔ میں نے ان کو ہلایا بہت ہلایا وہ نہیں اٹھی ۔۔۔پری میری مما نہیں اٹھی تھی میرے ہاتھوں پر خون لگ گیا تھا ۔ ان ہاتھوں پر پری “
شاہ زر نے اپنے دونوں ہاتھ پری کے سامنے کئے وہ اس وقت وہی پانچ سال کا بچہ بنا ہوا تھا وہ اس وقت اپنے ماضی میں کھویا ہوا تھا اپنے اردگرد سے بے خبر اس کا دل رو رہا تھا وہ لمحہ اسے جینے نہیں دیتا تھا اسے آج بھی اپنے ہاتھوں پر اپنی ماں کے وہ خون کے نشان نظر آتے تھے وہ اس تلخ حقیقت سے نکالنا چاہتا تھا پر مما کی اس آخری رات کی سسکیاں اسے جینے نہیں دیتی تھی
“میں کیوں نہیں مارا اپنی مما کے ساتھ بتاؤ نا پری میں کیوں زندہ رہا مما مجھے اپنے ساتھ کیوں نہیں لے کر گئی “
پری کے دل کو کچھ ہوا کیا تھا وہ شخص کتنا درد کتنا ازیت میں تھا وہ اتنے سالوں سے اتنا بڑا غم اسے جینے نہیں دیتا تھا اس کی ماں کو اس کے سامنے لوگ بدکردار ہونے کی گالی دیتے تھے وہ بے گناہ ہو کر بھی گناہگار تھی
“تمہیں پتا ہے پری میری مما کے جنازے میں سب نے مجھے کہا میں ایک بدکردار ماں کا بیٹا ہو جس نے مجھ سے میرا باپ میری دادی بھی چین کی میرا باپ بہت غیرت مند تھا اس نے غیرت کے نام پر قتل کیا وہ بے غیرت نہیں تھا اس لیے اس نے خود کو بھی مار ڈالا ۔۔۔۔۔وہ مار گیا اچھا ہوا اس نے خود کو مار ڈالا تھا پری نہیں تو آج وہ میرے ہاتھوں مار چکا ہوتا پری قاتل تھا وہ میری ماں کا ۔۔۔ قاتل تو ابھی بھی ذندہ ہے وہ تو اب جی رہا ہے نا پری تم جانتی ہو میں نے اس قاتل کو دنیا والوں کے سامنے رسوا کر دیا اسے بزنس میں ہرا دیا وہ کنگال ہو گیا میں نے سب چین لیا اس سے ساری دنیا والوں سے منہ چھپا کر گھومتا ہے ۔۔۔ مجھے پھر بھی سکون نہیں ملتا پری وہ زندگی کیوں ہے کیوں ہے وہ زندہ “
وہ آخر میں خود کلامی میں بولا اس کی ہمت ختم ہو گئی تھی وہ اب اور نہیں بول سکتا تھا اسے وہ پل یاد آ رہے تھے شاہ زر کا دل پھٹ رہا تھا وہ وہی آنکھیں بند کیے بیٹھا رہا
“جانے کب ہوں گے کم اس دنیا کے غم
جینے والوں پے صدا بے جرم خطا
ہوتے آ رہے ہیں ستم
یہاں دار پے دم
جانے کب ہوں گے کم اس دنیا کے غم”
پری نے ایک نظر اس بے بس انسان کو دیکھا جس نے اتنے سال صرف غم دیکھے تھے کیسے جیا ہو گا وہ لمحے جب اسے اس کی ماں کے بدکردار ہونے کے طعنے ملتے ہو گے کتنا عظیم تھا یہ شحض جس نے اپنے ماں کا بدلہ لینے کا سوچا مگر اس پر عمل نہیں کر پایا وہ بہت محتلف تھا بہت خاص تھا
پری اٹھ کر جانے لگی اب اس کے پاس کوئی لفظ باقی نہیں رہا تھا نہ کوئی تسلی نہ کوئی دلاسہ وہ تو ایک قاتل کی بیٹی تھی اس انسان کی اولاد جس نے ایک ہستا بستا گھر اپنے نفرت کے انتقام میں اجھاڑ دیا تھا
“پریشے “
“ہہہم “
“مجھے معاف کر دینا میں نے تمہارے باپ کے کئے کی سزا تمہیں دینے کی کوشش کی میں بے غیرت مرد نہیں ہوں پر تمہارے ساتھ میں نے جو کچھ کیا وہ کوئی غیرت مند مرد کبھی نہ کرتا بزدل نکلا میں بھی ” اس کی آنکھیں بند تھی پھر بھی پری اس کے آنکھوں کے پیچھے قرب کو دیکھ سکتی تھی
“میں نے اپنی ماں کا بدلہ اللّٰہ کی عدالت میں چھوڑ دیا ہے میرے پاس اتنی طاقت ضرور ہے کہ میں اپنا بدلہ لے سکوں مگر میں لوں گا نہیں اللّٰہ اپنے بندوں پر ہوئے ظلم کا حساب بہت اچھے سے لے گا مجھے اب اس دن کا انتظار ہے جب وہ شخص بھی رسوا ہو کر اس دنیا سے جائے گا ۔۔۔ اور ہاں تمہارے باپ کا سارا کاروبار میں نے تباہی کردیا ہے جانتی ہوں کیوں؟ ” شاہ زر آنکھیں کھول کر پری کو دیکھا جو اسے ہی دیکھ رہی تھی اس کی آنکھوں میں بھی درد تھا مان ٹوٹ جانے کا غم تھا شاہ زر نے نظریں چرا لی اس نے دور آسمان میں کچھ تلاش کرنے کی ناکام کوشش کی
“پری اب بھی وہی کھڑی شاہ زر کے بولنے کا انتظار کر رہی تھی وہ اس وقت جس دکھ اور تکلیف سے گزر رہی تھی اس کے درد سے اس کا خدا اور وہ ہی واقف تھے
“کیونکہ اس کاروبار کے چکر میں میرے باپ نے اپنا آپ بلا دیا تھا اپنی بیوی اور اولاد کو کھو دیا تھا وہ اس سوسائٹی میں ایک مقام بنانے کے چکر میں سب کچھ برباد کر بیٹھے تھے ۔جانتی ہوں مجھے اپنے باپ سے شدید نفرت ہے “
شاہ زر کچھ لمحوں کے لیے روکا گہری سانس لے کر خود کو پر سکون کیا
“جانتی ہوں میں جو باہر سے سخت اور بدمزاج نظر آتا ہوں نا تم سب کو اگر تم میرے دل کے اندار جھانک کر دیکھ لوں نا تو تمہیں مجھ پر ترس آ جائے گا ہمدردی کرنے لگوں گی مجھ سے مگر شاہ زر کو ترس میں ملی توجہ اور پیار کبھی نہیں چاہئے تھا اس لیے میں نے خود پر مغرور ہونے کا لیبل لگا دیا میں کسی کے سامنے ٹوٹ کر بکھرنا نہیں چاہتا تھا ۔۔ ہاں آخری بات جانے سے پہلے مجھے معاف کر کے جانا شاید نہیں یقیناً یہ تمہاری اور میری آخری ملاقات ہو گی میں اب کبھی بھی واپس اس ملک نہیں آنا چاہتا ” اس نے کہ کر اپنی آنکھیں پھر سے بند کر دی
پری نے حسرت سے اس کے چہرے کو دیکھا وہ کچھ پل اسے ایسے ہی دیکھنا چاہتی تھی پھر ناجانے کب وہ اس چہرے کو دیکھ پائے گی آنسو اس کی آنکھوں سے اب بھی نکل رہے تھے ہر منظر دھندلایا ہوا تھا وہ پھر بھی تک تکی باندھ کر اسے ہی دیکھ رہی تھی
“شاہ زر آج میں اندار سے ٹوٹ گئی ہوں مجھے لگا تھا میں آپ کو خود سے محبت کرنے پر مجبور کر دوں گی مگر میری غلط فہمی تھی میں تو آپ کے قابل نہیں ہوں کاش یہ سب ایسے نا ہوتا پاپا کی غلطی کی سزا مجھے نہ ملتی مگر شاید اسے ہی مکافات عمل کہتے ہیں ۔۔ ” اس نے دل میں کہا شاہ زر سے کچھ بھی کہنے کی اس میں ہمت نہیں تھی پری نے اپنے آنسو صاف کیے پھر شاہ زر سے نظریں ہٹا کر باہر کی طرف بڑھ گئی اگر وہ کچھ لمحے اور روکتی تو اپنے آپ پر کنٹرول نہیں رکھ پاتی اب وہ اس شخص کے لیے مزید آزمائش نہیں بنا چاہتی تھی
شاہ زر نے اس کے جانے کے بعد آنکھیں کھول دی اب وہاں کوئی نہیں تھا اس کے دل کی طرح وہ کمرہ بھی حالی تھا
“کاش پری میں تمہیں روک سکتا تو روک لیتا مگر یہ میرے بس میں نہیں ہے “
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کھبی کھبی ایسا وقت بھی آتا ہے کہ ہم خود اپنے ہاتھوں سے اپنی خوشی قربان کر دیتے ہیں وہ بھی اس گناہ کی وجہ سے جو ہم سے سرزر ہی نہیں ہوئے ہوتے وہ گناہ ہم سے وابستہ کسی بہت اپنے کے ہوتے ہیں مگر اس کا حساب ہمیں اپنا سب کچھ گنوا کر دینا پڑتا ہے اپنی سب سے قیمتی چیز قربان کر دینی پڑتی ہے ہمارے پاس چاہ کر بھی کوئی اور راستہ نہیں بچتا اور آج پری کے پاس بھی کچھ نہیں بچا تھا وہ آج اس گھر سے خالی ہاتھ لوٹ رہی تھی اس کے پاس کچھ بھی نہیں تھا سب کچھ وہ لوٹا کر جا رہی تھی ناجانے اب وہ کیسے رہ پاتی وہ بوا سے مل کر بہت روئی اتنا تو وہ اپنی رخصتی پر نہیں روئی تھی وہ تب بھی اتنا نہیں روئی تھی جب اس کی بارات نہیں آئی تھی تب بھی نہیں جب شاہ زر نے اس پر ہاتھ اٹھایا تھا تب بھی نہیں جب اس کے باپ نے اس سے ہر رشتہ توڑ دیا تھا آج اس کا دل رو رہا تھا اس کی روح تڑپ رہی تھی اس نے ایک آخری حسرت بھری نگاہ اس گھر پر ڈالی پھر گاڑی میں بیٹھ کر اس گھر سے دور بہت دور ہوتی چلی گئی شاید ہمیشہ ہمیشہ کے لیے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
وہ اس وقت اپنے گھر کے ہال میں کھڑی تھی اس کا دماغ جھوم رہا تھا اس نے اس وقت بلک ٹراؤزر کے ساتھ ریڈ شاٹ شرٹ پہن رکھی تھی دوپٹا گلے میں ڈالا تھا بال چھوڑے سے نکل کر چہرے کا طواف کر رہے تھے مما کو اس کے آنے کی اطلاع مل گئی تھی وہ جلدی سے اس کے پاس آئی اسے دیکھ کر اس کے گلے لگ کر خوب روئی اپنی ممتا کی پیاس بجھانا چاہتی تھی پری نے کوئی گرم جوشی نہیں دیکھائی وہ خالی خالی نظروں سے اپنی ماں کو دیکھ رہی تھی کلثوم بیگم نے اسے خود سے الگ کیا اس کا چہرہ اپنے ہاتھوں میں لیا
“پری میری جان میرے دل کے ٹکڑے تم آ گئی مجھے یقین تھا تم آؤ گی بلا کوئی اولاد بھی اپنے ماں باپ سے ناراض ہو سکتی ہے کیا “” انہوں نے اس کے ماتھے پر پیار کیا ان کا بس نہیں چل رہا تھا کہ وہ اپنی پری کے آنے کی خوشی میں ساری دنیا کو اکھٹا کر لیتی ان سب کو بتاتی آؤ دیکھو میری بیٹی آ گئی ہے اس نے ہمیں معاف کر دیا ہے
“آپ کے شوہر کہا ہے ” پری نے سپاٹ لہجے میں پوچھا
مما نے خیرانی سے پری کو دیکھا جس کی آنکھوں میں دکھ تھا سب کچھ کھو دینے کا ملال تھا اس کی آنکھوں میں کوئی بھی خوشی کا جذبہ نہیں تھا مما کے ہاتھ خود بخود نیچے گر گئے اور بے احتیار ایک قدم پیچھے ہوئی کچھ تو تھا پری کے لہجے میں جس نے انہیں بے یقین کر دیا تھا
“پری تم ٹھیک تو ہو نا “
“مجھے کیا ہونا ہے زندہ ہوں آپ کے سامنے کھڑی ہوں ” اس نے تلخ سی مسکراہٹ سے کہا
“مگر مجھے کیوں لگ رہا ہے تم ٹھیک نہیں ہوں “
“آپ کے اس سوال کا میرے پاس کوئی جواب نہیں ہے میں نے کہ دیا زندہ ہوں آپ کے تسلی کے لیے اتنا کافی ہے “
“تم آرام کروں تھک گئی ہوں گی پھر تم اپنے پاپا سے مل لینا وہ تمہیں دیکھ کر بہت خوش ہوں گے ” انہوں نے اسے بچوں کی طرح بہلایا
“ہاں خوش تو وہ واقعی ہوں گے ایک بار پھر سے شاہ زر کو ٹوٹ کر دیکھنے کی حسرت جو پوری ہونے جا رہی ہے ان کی ” اسنے نخوست سے کہا
مما اس کے انداز سے پریشان ہو گئی تھی یہ وہ پری تو نہیں تھی جو ان دونوں پر جان نچھاور کرتی تھی یہ تو کوئی اور ہی تھی جس سے ان کا واسطہ زندگی میں پہلی بار پھر رہا تھا
“تمہارے پاپا اپنے کمرے میں بند ہے ان کے بزنس میں انہیں بہت نقصان ہوا ہے اور یہ سب اس شاہ زر کی بدولت ہوا ہے ناجانے ہم سے کس بات کا بدلہ لے رہا ہے جیسی ماں ویسا بیٹا ” مما نے نفرت سے کہا
“بس مما بس شاہ زر کے یا شاہ زر کی مما کے خلاف ایک لفظ بھی اور کہا تو میں بھول جاؤ گی میرے سامنے میری ماں کھڑی ہے جن کے پاؤں کے نیچے میری جنت ہے “
کلثوم بیگم نے خیرانی سے پری کے تیور دیکھے
“آپ کوخوف نہیں آتا در کیوں نہیں لگتا ایک بےگناہ پر تہمت لگاتے ہوئے آپ کے دل کیوں نہیں کانپتے کیوں بھول جاتے ہیں آپ سب کے وہ اوپر بیٹھا ہے سب جہانوں کا بادشاہ جو سب دیکھ رہا ہے کیوں کسی پر بھی بنا دیکھے بنا ثبوت کے کسی کی بھی باتوں میں آ کر الزام لگا لیتے ہیں ۔۔ آپ نے دیکھا تھا شاہ زر کی مما کو کسی کے ساتھ آپ نے اپنی آنکھوں سے دیکھا تھا کیا ۔۔ ” وہ تیز آواز میں چلائی
“نہیں نا آپ نے تو کیا دادی نے بھی نہیں دیکھا تھا پھر بھی اسے بدکردار کہ دیا گیا اسے بدنام کر دیا ۔۔ اج میں کہتی ہوں میرا باپ بدکردار ہے کرے گی آپ یقین ۔۔ “
“پریشے تم اپنی حد کراس کر رہی ہوں تم بھول گئی ہوں کہ تم شاہ زر کے لیے اپنے باپ کے لیے کیسے الفاظ استعمال کر رہی ہوں “
مما کا برداشت جواب دے گیا وہ پری کی بات کاٹ کر زور سے ڈھاری
“بس اتنا ہی تھا خود پر بات آئی تو مجھے خاموش کرنے لگ گئی واہ مما واہ “
اس نے تالی بجا کر انہیں داد دی
مما نے پری کو غصے سے دیکھا
“کیا ہوا برا لگا چچ چچ چ افسوس ہوا بہت نا ” اسنے مزاق اڑایا
“پری ” دانیال صاحب کی آواز پر دونوں نے مڑ کر دیکھا ناجانے کب سے دانیال صاحب سیڑھیوں پر کھڑے ان کی گفتگو سن رہے رہے تھے غصّے سے ڈھارے
“بہت ہو گئی تمہاری بکواس یہ تربیت کی تھی ہم نے تمہاری کے ایک دن ایسے ہمارے سامنے آ کر کھڑی ہوں جاؤ اس دو ٹکے کے بندے کے لیے ” وہ پاس آ کر تلخی سے گویا ہوئے
“تربیت تو آپ کی بھی دادی دادا نے ایسی نہیں کی ہوں گئی نا پھر آپ ایسے کیوں نکلے ” وہ بے خودی سے بولی
” پریشے “کلثوم بیگم کا ہاتھ اس کے چہرے پر اپنے نشان چھوڑ گیا
“بہت ہوں گئی تمہاری بکواس اب ایک اور لفظ بھی کہا تو مجھ سے برا کوئی نہیں ہو گا “
“ہاہاہا آپ لوگوں سے برا تو کوئی ہوں بھی نہیں سکتا آپ کیا سمجھتی ہے آپ مجھے مارے گئی تو میں خاموش ہو جاؤ گی نہیں مما میں آج خاموش نہیں رہوں گی ” وہ ان کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بولی ایک ہاتھ سے اپنے چہرے کو چھوا جہاں اس کی ماں نے اسے تھپڑ مارا تھا
” تو شاہ زر نے تمہیں ہمارے خلاف بھڑکایا ہے وہ یہ سب کر کے سمجھ رہا ہوں گا اس نے مجھے ہرا دیا ہے تو یہ اسکی بہت بری بھول ہے وہ بد کردار ماں کا بیٹا ایسی نیچ حرکتیں نہیں کرے گا تو اور کون کرے گا ” دانیال صاحب نے نفرت سے کہا
“انف از انف پاپا بس کر جائے اور کتنا خود کو گرائے گے اور کتنا جھوٹ بولے گے بس کر جائے آپ کو خدا کا خوف کیوں نہیں آتا کیوں بھول گئے ہے اللّٰہ کے عذاب کو ۔۔ کب تک ایک بے گناہ عورت پر تہمت پر تہمت لگاتے رہے گے ” پری چلائی پاس پڑا گلدان اٹھا کر زمین پر دے مارا
مما نے پری کے پاگل پن کو غور سے دیکھا کچھ تا تھا جس نے پری کو یہ سب کرنے پر مجبور کر دیا تھا
“مجھے بتاؤ پری ایسی کیا بات ہے جو تمہیں پریشان کر رہی ہے ” مما نے آگے بھر کر اسے ہاتھوں سے تھاما اب کی بار ان کا لہجہ نرم تھا وہ خود پریشان ہو رہی تھی پری کے رویہ پر
“مما میں کیا بتاؤں پوچھیے اپنے شوہر سے کیوں کیا انہوں نے وہ سب۔۔ کیوں تباہ کی ثانیہ چاچی کی زندگی پوچھے ان سے اس رات یہ ان کے کمرے میں کیوں گئے تھے ” وہ روتے ہوئے بے بسی سے بولی
“کیونکہ اس کے کمرے میں کوئی تھا میں نے خود دیکھا تھا “
“جھوٹ بول رہے ہیں آپ وہاں کوئی نہیں تھا “
“تم اپنے باپ پر الزام لگا رہی ہوں اس بات کے لیے جس کے بارے میں تم جانتی تک نہیں ہو”
“یہ الزام ہے تو کیا یہ بھی جھوٹ ہے کہ آپ ثانیہ چاچی سے پیار کرتے تھے ان سے شادی کرنا چاہتے تھے ” اس نے اپنے ہاتھ مما کے ہاتھوں سے کنچ کر تیز آواز میں کہا
دانیال صاحب جہاں کھڑے تھے وہی کھڑے رہ گئے اتنی راز کی بات پری کو کیسے پتا چلی ان کی سوچ سے باہر تھی
“یہ کیا اول فول بولے جا رہی ہوں پری اپنے باپ سے ایسے کوئی بات کرتا ہے ہو کیا گیا ہے تمہیں ” مما نے اسے ڈانٹا
“بتائیے نا پاپا کیا یہ سچ نہیں ہے “
پری نے مما کی بات کو نظر انداز کر کر دانیال صاحب سے پوچھا
انہوں نے پری کو سخت نظروں سے دیکھا
“بس پری بہت ہو گیا ڈرامہ اب اور بکواس سنے کا کوئی موڈ نہیں ہے میرا جاؤ تم بھی اپنے کمرے میں ” دانیال صاحب نے پری کی طرف دیکھ کر سخت لہجے میں کہا اور خود بھی واپس مڑ گئے
“آپ کو خوف نہیں آتا پاپا؟ کب تک بھاگے گے اس سچ سے ” وہ ان کے راستے میں آکر کھڑی ہوئی
“بکواس بند کرو اپنی تم کیا ثبوت ہے اس سب بکواس کی کیا ثابت کرنا چاہتی ہوں تم میں یعنی تمہارا باپ بد کردار ہے میں جھوٹا ہوں اور وہ عورت جس کو اس کے شوہر نے غیرت کے نام قاتل کیا وہ سچی ہے ” وہ غصے سے چلائے وہ غصے سے لال پیلے ہو رہے تھے
“میں نے خود ثانیہ چاچی کے سارے خط پڑھے ہے اس میں ساری حقیقت تھی جس نے میری آنکھیں کھول دیں مجھے تو یقین نہیں آ رہا میرا باپ جو میرا آئڈیل تھا وہ ایک جھوٹا انسان نکلا ” وہ بےبسی سے بولی
“واہ واہ پری بہت خوب کوئی بھی تمہیں کچھ بھی بتائے یا دیکھا دے تم اس پر یقین کر لوں گی اتنا ہی یقین تھا مجھ پر بولو جواب دو اتنا بے اعتبار ہو گیا میں کوئی ٹھوس ثبوت ہے تو لاؤ بتاؤ مجھے ” وہ برہم ہوئے
“میں ہوں وہ ثبوت “
ان تینوں نے مڑ کر ہال کے دروازے میں کھڑے کریم بابا کو دیکھا
“ہاں میں ہوں اس وقت کا چشم گیر گواہ میں موجود تھا اس وقت ” وہ اندار آ کر دانیال صاحب کے سامنے کھڑے ہو کر بولے
” آپ کریم بابا آپ اگر آپ اس وقت وہاں موجود تھے تو کیوں نہیں بتایا سب کو ” پری نے خیرانی سے پوچھا
“کیونکہ میں ڈر گیا تھا دانیال صاحب نے مجھے دھمکی دی تھی اگر میں نے منہ کھولا تو وہ مجھے اور میرے گھر والوں کو جان سے مار دے گے پھر میں تھا بھی گھر کا ملازم کون کرتا مجھ پر یقین “
“بکواس بند کرو کریم ؛ تم دو ٹکے کے ملازم میرے خلاف گواہی دوں گے تم ۔۔۔” دانیال صاحب نے آگے بھر کر اسے گریباں سے پکڑ کر جھنجوڑا
“چھوڑے انہیں پاپا ” پری نے آگے بڑھ کر کریم بابا کو دانیال کی قید سے آزاد کیا
کلثوم بیگم خاموش تماشائی بنی کھڑی تھی انہیں تو کچھ سمجھ نہیں آ رہی تھی یہ سب ہوا کیا ہے اتنا بڑا دھوکا اتنا بڑا جھوٹ یہ سب کیا تھا وہ سمجنے کی ناکام کوشش کی کر رہی تھی ان کا ذہن کام نہیں کر رہا تھا
“دور ہٹو مجھ سے آخر تم نے ثابت کر ہی دیا نا کہ پرائی اولاد پرائی ہی ہوتی ہے “
انہوں نے ایک ہاتھ سے پری کو پیچھے دھکیلا ۔۔۔ پری دا قدم پیچھے لڑکاڑائی کلثوم بیگم نے جلدی سے آگے بھر کر اس گرنے سے بچایا
پری کی آنکھوں میں بے یقینی تھی وہ یک تک اپنے باپ کو دیکھ رہی تھی ۔۔۔۔۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
حال ماضی سے ہم بھگوتے ہیں
جو نہ اپنا تھا اس کو روتے ہیں
عاق کر کے جہاں کی سب خوشیاں
غم میں خود غم نئے پروتے ہیں
خواب ٹوٹے کی کرچیاں چنتے
عمر بھر جاگتے نہ سوتے ہیں
روندتے خود بہار آنگن کی
بیج کیوں خود خزاں کے بوتے ہیں
گم شدہ کی تلاش میں ناداں
ہم سفر کو بھی اپنے کھوتے ہیں
دوریاں بھی عذاب ہیں لیکن
کم کہاں قرب پر یہ ہوتے ہیں
حد ہے دیوانگی کی یہ ابرک
داغ کو داغ سے ہی دھوتے ہیں
“دانیال کیا ہو گیا ہے آپ کو وہ بچی ہے اول فول بول رہی ہے آپ کو کیا ہو گیا ہے کسی باتیں کر رہے ہیں ” کلثوم بیگم نے التجا کی
“وہی بول رہا ہوں جو سچ ہے یہ کل کی اولاد اپنے باپ کے سامنے آ کر اس سے جواب مانگ رہی ہے میں نہیں جانتا تھا میں اپنے گھر میں ایک سانپ کی اولاد کو پال رہا ہوں جو بڑی ہو کر مجھے ہی ڈس لے گئ ” وہ تلخی سے گویا ہوئے
پری بے یقینی سے کبھی باپ اور کبھی ماں کو دیکھ رہی تھی
“بس کر جائے خدا کا واسطہ ہے بس کر جائے تم جاؤ پری بیٹا کمرے میں آرام کروں ” انہوں نے پری کو بچکارہ وہ اس وقت پری کو اس سارے منظر سے ہٹا دینا چاہتی تھی
“میں کون ہوں مما ” پری نے سوالیہ نظروں سے ماں کو دیکھا
“تم میری بیٹی ہوں صرف میری ” انہوں نے آگے بڑھ کر انہیں گلے لگانا چاہا پری دوقدم پیچھے ہٹیں کلثوم بیگم وہی روک گئی
“یہ کیا بتائیں گی میں بتاتا ہوں تمہیں تم ہماری اولاد نہیں ہوں تم ایک گناہ ہو اور ایسا سچ جیسے تمہاری ماں ساری دنیا سے چھپا کر رکھنا چاہتی تھی ” دانیال اس وقت غم اور غصے سے پاگل ہو رہے تھے ان کا زار اتنے سالوں بعد ایسے سب کے سامنے کھل جائے گا ان کے وہم و گمان میں بھی نہیں تھا وہ اس وقت سوچنے سمجھنے کی صلاحیت کھو بیٹھے تھے
“بس کرے دانیال کوئی گناہ نہیں ہے یہ میری بہن نے نکاح کیا تھا “
“ہاں وہ بھی چھپ کر اور نکاح کے دو ماہ بعد تمہاری بہن کو طلاق دے کر چلا گیا تھا وہ شخص کیا بچا تھا تمہاری بہن کے پاس کون کرتا اس کا یقین اگر اس وقت میں نہیں ہاتھ بڑھا کر تم سب کو سہارا نہ دیتا کون قبول کرتا اس کی اولاد کو ” وہ چلائے اپنے غم میں وہ اچھے برے کی تمیز بھول بیٹھے تھے
“تم اور تمہارے پورے خاندان پر احسان کیا ہے میں نے کیا تھی تم ایک بانچھ عورت تمہاری بہن کی اولاد کو اپنی اولاد سمجھ کر پلا اور کیا صلہ ملا مجھے ” وہ تلخی سے گویا ہوئے
“بس دانیال بس آپ جو اتنے سالوں سے مجھ پر احسان جتا رہے ہیں نہ یہ سب میں نے بہت برداشت کر لیا آپ کیا سمجھتے ہیں میں جانتی نہیں تھی کے میں نہیں بلکہ آپ کبھی باپ نہیں بن سکتے آپ نے وہ ریپوٹ لا کر مجھے بتائی اور آپ کو لگا میں نے یقین کر لیا تھا میں ساری حقیقت جانتی تھی مگر خاموش رہی آپ کو لگا میں آپ کو چھوڑ کر نا چلی جاؤ اس لیے آپ نے جھوٹ بولا پھر آپ نے پری کو گود لیا میں نے بھی سب بولا کر آپ کا ساتھ دیا یہی ظاہر کیا کے آپ کا مجھ پر احسان ہی احساس ہے ۔۔ مگر اب اور نہیں آپ ایک جھوٹے انسان ہوں آپ نے تو اپنے بھائی کا گھر برباد کر دلا میں اتنے سال ایک جھوٹے قاتل انسان کے ساتھ رہی کاش یہ سب میں بہت پہلے جان سکتی ” وہ نفرت سے گویا ہوئی
پری کے اردگرد دھماکے ہو رہے تھے اتنے راز تھے اس کی زندگی میں وہ کسی اور کی اولاد تھی وہ مما پاپا کی اولاد نہیں تھی اس کے آنکھوں کے سامنے اندھیرا چھانے لگا آوازیں آنا بند ہو گئی تھی اسے کچھ سنائی نہیں دے رہا تھا ساری آوازیں گھٹ مٹ ہو رہی تھی اسے کچھ سمجھ نہیں آرہا تھا وہ ڈھرام سے نیچے گری
کسی چیز کے گرنے کی آواز پر دونوں نے مڑ کر دیکھا پری زمین پر پڑی ہوئی تھیں
“پری میری جان آنکھیں کھولوں ” کلثوم بیگم نے جلدی سے اس کا سر اپنی گود میں رکھا اور اس کے چہرے پر ہلکا ہلکا مرنے لگی وہ اپنی لڑائی میں پری کو فراموش کر بیٹھی تھی انہیں خیال ہی نہیں آیا اتنا بڑا سچ سن کر پری پر کیا گزری ہو گی
“کریم بابا گاڑی نکالے جلدی “
دانیال نے ایک نظر دونوں کو دیکھا پھر مڑ کر اپنے کمرے میں چلے گئے وہ اب اور کسی کا سامنا نہیں کرنا چاہتے تھے۔۔۔۔۔۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ہسپتال کے بینچ پر بیٹھے وہ پری کی زندگی کی دعا مانگ رہی تھی انہوں نے آج اپنا سب کچھ کھویا تھا اب اپنی بیٹی کو کھونا نہیں چاہتی تھی انہوں نے بہت بار شاہ زر کو کال ملائی مگر نمبر مسلسل بند جا رہا تھا
ای سی یو کا دروازا کھولا ڈاکٹر باہر نکل کر ان کی طرف آیا کلثوم بیگم نے جلدی سے اٹھ کر باقی کا فاصلہ طے کیا
“میری بیٹی کسی ہے اب ڈاکٹر صاحب ” انہوں نے بےقراری سے پوچھا رونے کی وجہ سے ان کی آواز بھاری ہو رہی تھی
“ابھی کچھ کہ نہیں سکتے شدید ٹینس کی وجہ سے ان کے دماغ پر اسر ہوا ہے دعا کرے آگلے چوبیس گھنٹے میں انہیں ہوش آ جائے نہیں تو کومے میں جانے کے چانسس ہے ” ڈاکٹر نے انہیں صورتحال سے آگاہ کیا
“پلیز ڈاکٹر میری بیٹی کو بچا لے ” انہوں نے بےبسی سے کہا
“ہم اپنی طرف سے پوری کوشش کر رہے ہیں آگے اللّٰہ مالک آپ دعا کرے دوا سے ذیادہ انہیں اس وقت دعا کی ضرورت ہے ” وہ کہ کر چلے گئے
وہ وہی بیٹھی خدا سے پری کی زندگی کی دعا مانگ رہی تھی ان کے موبائل پر مسلسل فون آ رہا تھا نمبر گھر کا تھا انہوں نے بےزاری سے ریسیو کیا
“بیگم صاحبہ میں پروین بات کر رہی ہوں “
دوسری طرف ملازمہ تھی
“ہاں بولو کیا بات ہے پروین “
“بیگم صاحبہ وہ ۔۔ وہ جی ” ملازمہ کہنے سے گھبرا رہی تھی
“وہ کیا پروین کھول کر بولوں میرے پاس اتنا وقت نہیں ہے کہ تمہاری باتیں سنو ” انہوں نے ڈانٹ کر کہا
“وہ جی بیگم صاحبہ میں نہ جی صاحب کے کمرے میں گئی تھی جی وہ جی ۔۔۔ صاحب نے خود کو نہ جی مار دیا ہے اپنے ہاتھ کا نبضِ کاٹ دیا ہے جی “
کلثوم بیگم کے ہاتھ سے موبائل ڈھیلا ہوا
“یہ کیا بکواس کر رہی ہوں ” وہ برہم ہوئی وہ اس وقت اور کوئی بھی بری خبر سنے کی پوزیشن میں نہیں تھی
“اللّٰہ پاک کی قسم جی میں سچ کہ رہی ہوں صاحب اس دنیا میں نہیں رہے “
کلثوم بیگم نے موبائل کانپتے ہاتھوں سے کود میں رکھا اور پوٹ پوٹ کر رو دی یہ سب ان کی زندگی میں کیا ہو رہا تھا آج کے دن ان کے شوہر نے خود کو حتم کر دیا تھا بیٹی زندگی اور موت کی لڑائی لڑ رہی تھی اندار
انہوں نے دونوں ہاتھوں میں سر گرا دیا کریم بابا بھاگ کر ان کے پاس آئے انہیں بھی ابھی پروین نے فون کر کے بتایا تھا
“سب ختم ہو گیا بابا سب کچھ ” وہ روتے ہوئے بولی
وہ ابھی ابھی دبئی پہنچا تھا اس کا دل بہت بے چین تھا ایرپوٹ سے ہوٹل تک کا سفر اس پر بہت باری گزرا تھا ابھی بھی وہ فائف سٹار ہوٹل کے کمرے میں بیٹھا خیالوں میں گم تھا
پری جب سے گئی تھی اسے بے نام سی بے چینی تھی اس کا دل کسی کام میں نہیں لگ رہا تھا شام کو اسے بزنس میٹنگ میں جانا تھا اس لیے اس نے سوچا کچھ ٹائم ریسٹ کر لے اتنے دو دن سے اس کی نیند سکون چین اب کہی گم ہو گیا تھا سکون سے تو پہلے بھی نہیں رہا تھا مگر پریشے کے جانے کے بعد اس کی زندگی کی آخری امید بھی ختم ہو گئی تھی
“کیا میری زندگی میں ہی یہی سب ہونا لکھا تھا بچپن سے خو میرے دل کے قریب رہی وہ میری زندگی نہیں بن سکی کیسے بنا سکتا تھا تمہیں میں اپنی زندگی تم میرے سامنے ہوتی تو میرے دکھ تازہ ہو جاتے تمہاری شکل میں مجھے تمہارے باپ کے کیے ظلم یاد آ جاتے ” اس نے دل میں پری کو یاد کیا پھر اٹھ کر بیڈ پر آیا کچھ ٹائم کے لیے اس نے سونا چاہا اور اس میں کامیاب بھی ہو گیا
وہ گہری نیند میں تھا
“بچاؤ مجھے بچاؤ شاہ زر آ کر دیکھو یہاں میرا کوئی نہیں ہے میں بلکل اکیلی ہو گی ہوں ” وہ کہی دور پہاڑوں میں راستہ بھول گئی تھی اور مدد کے لیے شاہ زر کو پکار رہی تھی مگر شاہ زر چاہ کر بھی وہ فاصلہ طے نہیں کر پا رہا تھا “پریشے”
شاہ زر گہری نیند سے جگا اس کا پورا وجود پسینے سے تر تھا اس نے آنکھیں کھول کر ادھر ادھر دیکھا کچھ وقت لگا اسے یقین کرنے میں کہ وہ خواب تھا اس نے اٹھ کر سائیڈ ٹیبل سے پانی کا گلاس اٹھایا اور ایک ہی گھونٹ میں پی گیا بے چینی تھی کے بڑھتی جا رہی تھی اس کی سمجھ میں کچھ نہیں آرہا تھا کہ وہ کیا کرے اس نے سر اپنے ہاتھوں میں گرا دیا اور گہری گہری سانسیں لینے لگا
“پلیز اللّٰہ جی میری پری کو اپنے حفظ و امان میں رکھنا
اس کا فون بچا فون کی آواز سے اسکا دل زور سے دھڑکا
“ہیلو ” اس نے کانپتے ہاتھوں سے فون اٹھایا اسے خود سمجھ نہیں آ رہی تھی کہ اس کا دل اتنا گھبرا کیوں رہا تھا
“اسلام علیکم سر میں اسد بات کر رہا ہوں ” فون پر اس کا مینجر تھا اس نے سکون کی سانس لی
“”ہاں بولو اسد “
“سر آپ کے گھر سے دو بری خبریں ہے ” شاہ زر کو کچھ انہونی کا احساس ہوا
“سر آپ کے چاچو نے خودکشی کر لی ہے اور پریشے میڈم ہاسپٹل میں ایڈمنٹ ہے ڈاکٹر کا کہا ہے کت انہیں چوبیس گھنٹے میں ہوش نہ آیا تو وہ کوما میں چلی جائے گی ۔۔ مجھے یہ سب آپ کی چاچا کے گھر سے کسی کریم بابا نے فون کر کے بتایا ہے آپ کی چاچی کی طبعیت بہت خراب ہے انہیں اپنا ہوش نہیں ہے آپ واپس آجائیں سر یہاں آپ کی بہت ضرورت ہے ” اسنے آخر میں مخلصانہ مشورہ دیا
“نہیں میری پری کو کچھ نہیں ہوں سکتا اسے کچھ نہیں ہو سکتا اسد تم جاؤ ان کے پاس میں آ رہا میرا ٹیکٹ ابھی ایسی وقت کرواں ” “ٹھیک ہے سر میں پتا کرتا ہوں “
اس نے فون بند کر کے سائیڈ پر رکھا
“تو میرا دل یوں ہی نہیں گھبرا رہا تھا تم مصیبت میں تھی پری میں اتنا ظالم کیوں ہو جاتا ہوں تمہارے معاملے میں میں کیوں بھول گیا تم اتنا بڑا سچ کیسے برداشت کر سکتی ہوں تم تو بہت معصوم ہو پری میں تمہیں کچھ ہونے نہیں دوں گا کچھ بھی نہیں تم میری سانسوں میں بستی ہوں ہاں میں آج اقرار کرتا ہوں تم ہو تو میں ہوں پری تمہارے بنا میں ادھورا ہوں بلکل ادھورا ۔۔۔۔۔۔۔
۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔