آج ایک ساتھ خوشی اور غم کا دن تھا۔ بی بی ماں کی شادی کا دن!
چاندی کے جھم جھماتے تھالوں میں ایک قطار سے دس جگر مگر کرتے تولواں جوڑے، رکھے تھے اور گیارھواں تھا، جو سونے کا تھا، اس میں سب سے قیمتی جوڑا سجا ہوا تھا، جس کی مجموعی قیمت پچیس ہزار سے بھی اوپر تھی۔
اندر جہیز کا سارا کا سارا سامان سجا ہوا تھا۔ اس میں لس لس کرتے کپڑوں کے جوڑے ہی کوئی سو سے اوپر تھے۔ یہ گیارہ جوڑے تو الگ سے اس لئے سجائے گئے تھے کہ ان میں سچے موتی اور ہیرے ٹنکوائے گئے تھے۔ یہ بات بڑی پاشا کے جدت طراز دماغ نے ہی سوچی تھی۔ انہوں نے بڑے نواب صاحب کو سمجھایا تھا، ’’میں ایسے بہوت نواب لوگوں دیکھی جو بس شادی ہوتے کے ساتھ اچ دلہن کے جہیز کی نخدی اور زیوراں اڑانا شروع کر دیتے۔ اپنی بچی کو میں اس واسطے اچ آدھا روپیہ تو کپڑوں کی شکل میں دے دئی۔ اللہ نہ کرو کی اس کا شوہر کبھی اس کے روپے پیسے پو نظر کرو، پن وخت وخت کی بات ہے، کبھی اپنا ہور اس کے جہیز کا سارا روپیہ بھی انوں اڑا ڈالے تو کم سے کم برے وخت کے ساتھ یہ کپڑے لتی تو رہنا۔ اب یہ تو انوں کرنے سے رہے کی صندوخوں میں سے کپڑے نکال نکال کو لے جا رئیں۔ کپڑا لتا تو عورت ذات کے ہاتھ کو اچ رہتا۔ سو میں یہ ترکیب کری کی سوا لاکھ کے خریب کے ہیرے موتی کپڑوں کے جوڑوں میں ٹنکوا دی۔ ہور ایک جوڑا خاص طور سے شادی کے دن پہننے کا ہے، وہ خریب خریب پچیس ہزار کا یا اس سے بھی بڑھ کر ہوئیں کا…. کیوں میں اچھا کری نا جی؟‘‘
اتنی لمبی چوڑی بات کے جواب میں نواب صاحب نے صرف انہیں مسکرا کر دیکھنے پر اکتفا کی۔
’’آپ کچھ بولے نئیں؟‘‘ بڑی پاشا الجھ گئیں۔
’’ہم آپ کے کاموں میں کبھی دخل دیئے؟‘‘ وہ اسی طرح مسکرا کر بولے۔
’’تو پھر چلو ذرا آپ بھی بچی کے کپڑوں کی بہار دیکھو لیو۔‘‘
دونوں میاں بیوی مہمانوں کے ہجوم میں سے گزرتے ہوئے جب جہیز والے کمرے میں پہنچے تو آنکھیں چندھیا گئیں۔ خوشی خوشی بڑی پاشا سونے کے طشت والا جوڑا سب سے پہلے دکھانے کے لئے بڑھیں تو ان کی تیوریوں پر بل پڑ گئے۔ سونے کے جھلملاتے طشت میں ہیروں کے ٹنکے جوڑے ٹکے جوڑے کے ٹھیک اوپر ایک سادہ سرخ مدرے کا چوڑی دار پاجامہ، مدرے کا ہی کرتا اور سوتی ململ کا سستے مول کا سرخ دوپٹہ بڑے اہتمام سے طے کیا ہوا رکھا تھا۔
جھوٹے گوٹے اور سستی چمکیوں سے ٹکا ہوا! انہوں نے جھلا کر ادھر ادھر دیکھا اور خون برساتی نگاہوں سے اور اپنے پورے وجود کا زور لگا کر چلا کر کہا، ’’یہ کون اجاڑ مارا انے سڑی گت کا جوڑا سونے کے طشت میں رکھا سو؟‘‘
سارے نوکر چاکر، خواصیں، مغلانی بوا دم بخود سانس روک کونے کی طرف دیکھنے لگے، جہاں اپنی بے نور آنکھیں لئے رمضو بابا کھڑے کانپ رہے تھے۔
کسی نے یہ حرکت کی ہوتی تو بڑی پاشا گرج کر پوچھتیں…. ’’تمے اندھے تھے کیا؟ دکھا نئیں کہ سونے کا تھال ہے، ہور جوڑے سمدھیانے میں جانے کو ہیں؟‘‘ مگر وہاں تو واقعی سابقہ ایک اندھے سے ہی تھا۔ پھر بھی وہ اپنے غصے کو دبا نہ سکیں اور پھٹ پڑیں، ’’تمہاری یہ ہمت کیسے ہوئی گے بڈھے میاں؟ تم دو ٹکے کے آدمی معلوم نہیں کیا کہ یہ کا کا جہیز ہے؟‘‘
رمضو با با بے نور آنکھوں سے خلا میں دیکھتے ہوئے بولے، ’’جی معلوم ہے پاشا میری بچی کی شادی ہے، ہور اسی کا جہیز ہے۔‘‘
’’تمہاری بچی؟ شرم آنا نا تم کو! یہ پھٹے کپڑے، چیتھڑے، گودڑیاں لٹکا کو ہماری شہزادی جیسی بچی کو اپنی بچی بولتے….‘‘
لیکن رمضو با با تو صرف یہ سوچ رہے تھے کہ شہزادی پاشا اگر میری بچی نہیں تو پھر کس کس کی بچی ہے؟ کیا پیدا کرنے والے باپ کو ہی یہ حق ہے کہ وہ باپ کہلائے؟ وہ اگر باپ نہیں تھے اور شہزادی پاشا ان کی بچی نہیں تھی تو پھر یہ دنیا کون سی محبت کے سہارے قائم تھی۔
اونچی ساڑھی ڈیوڑھی کے باہر سے پھاٹک پر پہرا دیتا ہوا عرب چاؤشبہت دیر سے یہ تماشا دیکھ رہا تھا کہ گلی کے بہت سے چھوکرے ایک نیک صورت نابینا شخص کو ہشکا رہے تھے، مانو وہ کوئی جانور ہوں۔ کوئی ان کے تہہ بند کا کونہ پکڑ کر کھینچتا، کوئی داڑھی ہلا کر دوڑ بھاگ جاتا، کوئی مضبوط قسم کا چھوکرا انہیں چک پھیری دیتی اور پھر سب مل کر قہقہے لگانا شروع کر دیتے۔
چاؤشپہلے پہل تو خود بھی مسکراتا رہا اور مزے لیتا رہا، لیکن ایک بار جب دھکا کھا کر بڑے میاں زمین پر گر پڑے تو اس نے زور سے اپنا ڈنڈا لہرایا اور چلا چلا کر بولا ’’کیوں گے حرام زادو، تمہارے ماواں نے اس واسطے اچ جن کر چھوڑ دیاں کیا کہ غریب ہندے کو ستاتے رہو۔‘‘
اس کے ڈنڈا لہراتے ہی سارے چھوکرے رفو چکر ہو گئے۔ چاؤشپھر بھی بڑبڑاتا رہا، ’’اب سے ادھر دکھے تو حرام زادو سب کا باپ بن کر بتا دیوں گا۔‘‘ پھر وہ آگے بڑھ کر میاں کا ہاتھ پکڑ کر انہیں اٹھاتے ہوئے بولے۔ ’’پھاتک بند ہے میاں جی، تبنی کھلی ہے۔ ذرا سر نیچو کر کے اندر داخل ہونا پڑے گا۔‘‘
انہیں سہارا دے کر کھڑکی سے اندر داخل کر کے وہ دونوں ہاتھ جھٹکے ہوئے بولا، مگر آپ ادھر یہ حرام کے پوٹوں میں کیسے پھنس گئے میاں جی؟‘‘
’’کیا بولوں بیٹا…. مسجد سے ذرا چائے پینے باہر نکلا تھا کہ چھوکروں نے گھیر لئے اور بھگاتے بھگاتے معلوم نئیں کدھر کا کدھر لے کو آ گئے۔ اب میں واپس کیسا تو بھی جاؤںگا۔‘‘ اور ان کی آنکھوں میں، جو بے نور تھیں، پانی چمک اٹھا۔
چاؤشنے اپنے گلے میں کچھ اٹکتا محسوس کیا۔ رکتے رکتے پوچھا، ’’آپ کا کوئی تو ہوئیں گا، جو ڈھونڈ کو آ کو لے جائیں گا۔‘‘
’’نئیں میاں…. میرا بس اللہ ہے۔‘‘
چاؤشکچھ دیر کے لئے سن سا ہو گیا، پھر خوش ہو کر بولا، ’’ادھر ڈیوڑھی میں مسجد بھی تو ہئی…. آپ سارے نوکریاں ہیں نئیں، ان کے بچوں کو نماز روزہ سکھلاتے بیٹھنا….‘‘
’’ڈیوڑھی کے مالک کچھ بولیں گے تو نئیں، اور پھر….‘‘
ابھی رمضو با با کی بات ان کے مونہہ میں ہی تھی کہ ایک ننھی سی آواز نے ان کے کانوں میں جلترنگ سا بجا دیا:
’’با با…. چلو سب لوگاں کھانا کھانے چل رئیں، تم بھی چلو۔‘‘
’’چاؤشنے دھیرے سے بوڑھے کو سنایا، ’’یہ ڈیوڑھی کے نواب صاحب کی صاحب زادی ہے نا؟ بہوت نوکریاں ہیں نا۔ سب کا کھانا ایک اچ لگتا…. چلو میاں جی۔‘‘
’’نئیں چاؤش،تم ہٹو…. با با کی انگلی پکڑ کر میں لے جاؤںگی۔‘‘
’’ہو بابا، تم کو بالکل نئیں دکھتا؟…. ‘‘معصوم سی جان بے حد پیارے لہجے میں پوچھ رہی تھی۔
’’نئیں ماں، کچھ بھی نئیں دکھتا۔ ہور اچھا اچ ہے کہ کچھ نئیں دکھتا۔ دیکھنے کے واسطے دنیا میں اچھی چیز ہے اچ کیا؟‘‘
’’میں جو ہوں بابا۔‘‘ وہ خوشی خوشی بولی، ’’میں بہت اچھی ہوں بابا۔ میرے گورے گورے گالاں ہیں۔ بٹن کے ویسے چمک دار آنکھاں ہیں۔ ہور بابا خوب گھنے سنہرے بالاں بھی ہیں۔ سب لوگاں بولتے، میں گڑیا ویسی دکھتی۔ تم میرے کو دیکھنا نئیں چاہئیں گے کیا با با؟‘‘
رمضو با با چلتے چلتے ٹھٹھک گئے۔ ان کے ویران دل میں اتھل پتھل سی ہوئی وہ خود پر قابو پا کر بولے، ’’اگے واہ! میں کیسا اتی اچھی بچی کو نئیں دیکھنا چاہوں گا۔!‘‘
’’ہو بابا۔ میں سچی بہوت اچھی بچی ہوں۔ دادی حضور بولتے، شہزادی ماں کو دیکھے تو آنکھوں کی جوت بڑھ جاتی ہے۔ تم میرے کو غور سے دیکھنا بابا، تمہارے آنکھاں سے سوب دکھنے لگ جائیں گا۔‘‘
رمضو بابا نے ٹٹول ٹٹول کر اس کا ننھا سا چہرہ اپنے ہاتھوں میں تھاما، اس کے ملائم ملائم اور خوشی سے گرمائے ہوئے گالوں پر پسینے کی ہلکی سی نمی محسوس کی اور بہت محبت سے اس کی پیشانی پر بوسہ دے کر کہا، میں بھی کتا نادان تھا بی بی ماں، جو سوچتا تھا کہ دنیا میں دیکھنے کے لائخ ہے ہی کیا…. یہ دنیا تو بہت بھی بہوت خوب صورت لگتی ہوئیں گی، کیوں کہ اس میں تو تو رہتی ہے۔‘‘
سات سال کی ننھی منی سی جان نے ایک مجبور اور دنیا سے ٹوٹے ہوئے شخص میں جینے کی ہر خوشی بھر دی۔ بی بی ماں نے ہی اپنے با با جان کی سفارش پہنچائی…. ’’با با جان آپ باتاں تو نئیں کریں گے نا؟ ایک بات بولتیوں بولوں؟‘‘
نواب صاحب نے ہنس کر اسے دیکھا…. ’’بی بی ماں، ہم کبھی آپ کو باتاں کرے؟ بولو، کیا بولتے آپ؟‘‘
’’با با جان۔ وہ انوں بڈھے سر کے جو بابا ہیں نا…. ان کو انکھیاں نئیں بابا جان…. کچھ بھی نئیں دکھتا ان کو…. میں بھی نئیں دکھتی۔ ان کو یہی اچ انے پاس رہنے دیتے آپ؟‘‘
’’ہم کبھی آپ کی بات کو ناں بولے بی بی ماں؟‘‘
اور نواب صاحب سچ مچ تھے بھی ایسے ہی…. کسی کے کسی کام میں دخل دیتے، نہ کسی پر اپنی رائے ٹھونستے۔ البتہ بڑی پاشا نے خوب ہنگامہ کھڑا کیا۔ جب پتہ چلا تو خوب چڑ کر آئیں۔
’’ہو میں سنی کی آپ کی ہور مصیبت پال لئے۔‘‘
’’جانے دیو بیگم…. اللہ رازخ ہے۔‘‘
’’وہ تو ہے…. میں نئیں بولی کیا، مگر اجاڑ کیا مصیبت ہے…. ایک اندھے کو رکھنا بولے تو آفت۔ کبھی باؤلیمیں گر ور گیا تو؟‘‘
’’بیگم انوں حافظ جی ہیں…. خواہ مخواہ اندھا بول کے بے عزتی کر کے گناہ کائے کو مول لیتے آپ؟‘‘ نواب صاحب نے نرمی سے کہا۔
’’میں کیا بے عزتی کری جی؟ بس اتا اچ بولی ناکی باؤلیمیں گر گرا کر مر مرا گیا؟ اب اس کو رکھے، سو اس کے اوپر ہور ایک نوکر رکھو۔ ہور بڑھاؤخرچے۔‘‘
نواب صاحب اسی طرح نرمی سے بولے، ’’بیگم، ہر انسان اپنا نصیب، اپنا رزخ لے کر آیا ہے، آپ کیوں ایسا سوچتے؟
’’مگر میں بول دی، اب رہیا سو رہیا، پن آپ تنخواہ وغیرہ نکو باندھو۔ اول اچ کتے نوکراں چپ مفت کی روٹیاں توڑئے؟‘‘
نواب صاحب نے بڑی تکلیف سے انہیں دیکھا…. ’’بیگم، آپ اب بولے یعنی بعد میں، اس واسطے ہم کچھ نئیں کر سکتے۔ اگر پہلے سے بولتے تو ہم غور کرتے۔ ہم تو انوں تنخواہ بھی دو روپے ماہانہ باندھ چکے۔‘‘
’’دو روپے؟‘‘ بڑی پاشا پیشانی پر ہاتھ مار کر بولیں، ’’آپ کو کچھ بھی عخل نئیں ہے، کھانا کپڑا جب دیوڑھی سے ملیں گا تو دو روپے کائے کے واسطے؟‘‘
’’بیگم جیتی زندگی کو سو ضرورتیاں لگے دے رہتے۔ کچھ بھی کرے گا بے چارہ۔‘‘
لیکن بڑی بیگم کے جی کو یہ بات لگ گئی کہ دو روپے خواہ مخواہ باندھ دیئے گئے۔ چنانچہ انہوں نے بڑے میاں کے کھانے چائے میں کٹوتی کرا دی۔ جب نوکروں کا کھانا لگتا تو بڑی پاشا خاص طور سے برتاؤوالے خادم اور خادمہ سے آکر کہتیں، ’’آج صبح انے بڈگا ناشتہ کر کو بیٹھا ہے، اب دوپہر کا کھانا نکو اس کو۔‘‘
انو میاں اور بھاگ بھری ایک دوسرے کا مونہہ دیکھتے، وہ ہٹ جاتیں تو کہتے: اتے بڑے نواب کے بیگم ہیں انوں۔ کائے کو تو بھی غریبوں کے کھانے پینے کو ٹوکتے۔‘‘
’’دئی اچ میں بھی سوچتیوں…. ایسا تو کتا روپیہ خیر خیرات میں نکل جاتا۔ اللہ مالوم بے چارے میاں جی سے کائے کا بیر باندھ کو بیٹھے ہیں بڑی پاشا۔‘‘
بی بی ماں کو پتہ چلتا کہ آج رمضو بابا کا دوپہر کا کھانا ناغہ کر دیا گیا تو وہ فوراً اپنے کرتے کے دامن میں دو تین چپاتیاں اور بھنے گوشت کا یا مرغی کا سالن چھپا کر ڈیوڑھی میں پہنچ جاتیں…. ’’بابا، دیکھو آپ کے واسطے میں کیا لائی؟ با با آپ کو دانتاں تو ہیں نا؟ اک دم کو تلی مرغی تھی۔ پر با با میں روٹی اچ لائی، کھانا (چاول) کے ساتھ لائی؟ کرتے میں لاتی تو کرتا خراب ہو جاتا۔ امنی جان دیکھ لیتی اور باتاں کرتے۔ اس واسطے خالی کاغذ میں لپیٹ کو، روٹی مرغی اچ لے کو آ گئی۔‘‘
رمضو با با کا دل سینے میں تھرتھرانے لگتا۔ آنسوؤںکو پیتے ہوئے وہ اٹک اٹک کر نوالے نگلتے۔ ادھر بی بی ماں مستقل اپنا ریکارڈ بجائے جاتی۔
’’بابا، آپ کو آنکھیاں نئیں ہیں نا؟ کچھ بھی نئیں دکھتا ہوئیں گا؟ یہ بھی نئیں دکھتا ہوئیں گا کہ اتی بڑی ڈیوڑھی میں کتے سارے نوکراں ہیں اور کتا سارا کھانا پکتا؟ تو بابا پھر امنی جان آپ کو کھانا دینے کو کائے کو چڑتے؟ کیا معلوم میرے کو، مگر میرے بابا جان بالکل نئیں چڑتے۔ امنی جان تنخواہ بٹی، سو اب کے بھی بابا جان سے خوب لڑ لئے کی آپ کو کائے کو تنخواہ ہونا۔ مگر آپ کو سو ضرورتاں ہئیں؟ ہوئیں گے۔ نئیں تو بابا جان کائے کو ایسا بولتے…. بابا، آپ کو کبھی بھی کوئی بھی چیز کا کام پڑے تو میرے کو چپکے سے بولنا۔ پیسے ہونا تو وہ بھی بولنا۔ میں امنی جان کی تجوری میں سے چرا کو….‘‘
’’ارے رے رے! توبہ توبہ بی بی ماں!‘‘ رمضو میاں اچانک اس کی بات کاٹ کر بولے اٹھتے…. ’’چوری چکاری کی باتیں نکو کرو آپ؟ آپ کو میں سکھایا نئیں کی اللہ میاں چوری سے بہوت چڑتے۔ اور بی بی ماں، میں آپ کو کل عربی کا سبخ پڑھائے بعد نصیحتاں کرا تھا نئیں کہ اپنے حضورﷺ فرمائے کی ماں باپ کا حکم ماننا۔ ان کے خلاف کوئی بات مت کرنا۔‘‘
بی بی ماں بات کاٹ کر کہہ اٹھتی، ’’ہور آپ اچ یہ بھی سکھائے نا کہ حضور بولے کہ بھوکوں کو کھانا کھلانا…. پھر آپ بھوکے رہے تو میں کیا کھانا مت کھلاؤں؟‘‘
وہ سٹ پٹا جاتے، ’’وہ تو ٹھیک ہے بی بی ماں؟ پر اگر آپ کی امنی جان کے دل میں نئیں تھا تو آپ چھپا چرا کو کھانا نئیں لانا تھا۔‘‘
’’میں چھپا کو تو لائی، چرا کو کب لائی؟ میں تو اپنے حصے میں سے لائی۔ اپنا حصہ میں کھاؤںکی کسی کو کھلاؤں۔‘‘ پھر وہ خفا ہو کر کہتی، ’’اچھا آپ میرے کو چوٹی بولے نا؟ میں اب سے آپ کے پاس نئیں آؤںگی۔‘‘
لیکن تھوڑی ہی دیر بعد وہ چہکتی ہوئی آ جاتی اور اپنی معصوم بک بک شروع کر دیتی۔ بیچ بیچ میں چاؤشکو گواہ بھی بناتی جاتی۔
’’کیوں چاؤش،بابا خود میرے کو سبخ پڑھاتے نا کی غریبوں کی مدد کرنا چاہئے؟ اپنے حضورﷺ کو بھی ایسا ہی سکھائے نا؟‘‘
’’جی ہو، بی بی ماں۔‘‘ چاؤش مسکرا کر گواہی دیتا، ’’آپ سچی بولتے۔‘‘
’’اچھا چاؤش،تم بابا کو اب کی تنخواہ پر لنگی کرتا لا دینا۔ بہوت پھٹ گیا نا۔‘‘
رمضو بابا اپنی جگہ سٹ پٹا جاتے۔ چاؤشالگ پینترے بدلنے لگتا۔ چاؤشکی بڑی ساری فیملی تھی۔ پانچ روپے مہینہ تنخواہ تھی، جو ڈیوڑھی کے سارے نوکروں سے بڑھ کر تھی، مگر پھر بھی کم بخت پوری نہ پڑتی۔ بابا چار آٹھ آنے، خود رکھ کر پوری تنخواہ چاؤشکے حوالے کر دیتے۔
’’جی ہو بی بی ماں، اب کے مہینے ضرور لا دیوں گا۔‘‘ وہ رکتے رکتے کہتا مگر وہ مہینہ کبھی نہیں آتا۔
بی بی ماں اس بھید سے لا علم اپنی خدمات پیش کئے جاتی…. ’’ہو بابا میں بابا جان کو بول کے کہ ان کا ایک آدھ کرتا پاجامہ لا کر دیوں…. کتے پھٹ گئے تمہارے کپڑے….‘‘
’’نئیں بی بی ماں، چپ آپ کو دکھتے کہ پھٹے وے ہیں۔ اچھے خصے تو ہیں۔ دیکھو تو بھلا چاؤشمیاں کی بی بی نے یہ پیوند لگا کو بالکل نوا کر دیئے ہیں یہ کرتا۔‘‘
’’مگر بابا، تمہارا کرتا سفید تھا، یہ پیوند تو گلابی رنگ کا ہے۔‘‘
چاؤشاپنی جگہ چرمرا جاتا۔ بابا بات ٹالنے کو کہتے، ’’ارے بی بی ماں، تو میں اچ بولا تھا کہ گلابی پیوند لگاتا…. پھول کے ویسا گلابی گلابی اچھا لگتا نا؟‘‘ ’’اچھا بابا، میرے کو اب عید پر دادی ماں عیدی دیں گے تو میں تمہارے واسطے گلابی پھولاں کا کرتا پاجامہ بناؤںگی…. آں۔‘‘
رمضو بابا اور چاؤشدونوں ہنس پڑے۔ بابا کہتے، ’’نئیں ماں…. بڈھوں کو گلابی پھولاں کیسے لگیں گے؟ سب لوگاں ہنسیں گے…. اپ اتا خیال رکھتے، بس وئی اچ بہت ہے۔‘‘
’’نئیں بابا۔‘‘ وہ اپنی ہی ہانکے جاتی، گلابی پھولاں بہت اچھے لگتے…. تم دیکھنا….‘‘ اچانک وہ ٹھٹھک جاتی، ’’ارے بابا، تم کو تو دکھتا نئیں نا؟ بابا حکیم صاحب سارے ڈیوڑھی کے لوگاں کا علاج کرتے…. میں بابا جان سے بولوں گی کہ تمہارے آنکھاں کا علاج کروانے کو…. پھر بابا تم دیکھنا گلابی پھولاں کتے اچھے…. میں کتنی اچھی دکھتی۔‘‘
بابااس کے پیار کے سمندر میں ڈوب کر کہتے، ’’میری گڑیا، وہ تو میں اندھا ہو کر بھی دیکھتا ہوں کہ تو کتی اچھی ہے۔‘‘
دھیرے دھیرے، وہ چھپا چھپا کر کھانا لانے والی، ببابا کی بینائی واپس آ جانے کی دعائیں کرنے والی اپنی عیدی سے بابا کے لئے کپڑے سلوانے کی چاہ کرنے والی بڑی ہوتی گئی۔ اس کا اُردو کا پہلا قاعدہ ختم ہوا، پھر پہلا پارا شروع ہوا۔ پھر اُردو کی پہلی کتاب ختم ہوئی، پھر دوسرا سیپارہ، پھر تیسرا…. بابا اسے دل لگا کر مذہب کی تعلیم دیتے رہے…. پھر اس کا قرآن شریف ختم ہوا، اُردو کی قابلیت آئی…. فارسی والی استانی ماں نے اسے فارسی سکھائی۔ انگلش پڑھانے والی نے اسے انگلش میں طاق کیا…. وقت کا پنچھی اونچی اونچی اڑانیں بھرتا رہا، مگر اس چہکتی مینا نے جس ڈال پر بسیرا کیا تھا وہ نہ چھوٹا…. وہ اب بھی اسی طرح بابا کے پاس آتی، ان کے کھانے کا اہتمام کرتی۔ یہ ضرور تھا کہ شعور آتے آتے وہ زبان کی قدر و قیمت سے واقف ہوتی گئی اور ہر دم پڑپڑ کرتی رہنے والی مینا اب دھیمے دھیمے لہجے میں کم ہی باتیں کرتی، لیکن رمضو بابا کے لئے اس کے دل میں پیار کی جڑیں گہری سے گہری ہوتی گئیں۔
بابل کے آنگن میں چہکنے والی چڑیا کب تک آزاد رہتی؟ ہوتے ہوتے بابا کے کانوں میں بھی یہ بات پڑ ہی گئی کہ بی بی ماں کی شادی ہونے والی ہے۔ کیسی خوشی کی خبر تھی۔ لیکن بابا کا دل جیسے ڈوب کر رہ گیا…. ’’ڈیوڑھی میں اب میرے واسطے کیا تو بھی رہ جائیں گا مولیٰ!‘‘ وہ دل مسوس مسوس کر رہ جاتے۔ بی بی ماں اپنے گھر کی ہو رہی تھی۔ یہ بھی ناممکن تھا کہ وہ دعا کرتے کہ یہ سماعت ٹل جائے۔ ایک نہ ایک دن تو بی بی ماں کو یہ ڈیوڑھی، یہ آنگن، یہ میکہ چھوڑنا ہی تھا۔ اچھا ہے جہاں رہے میری بچی خوش رہے۔ لیکن اپنی بچی کو مجھے کچھ نہ کچھ تو دینا ہی چاہئے۔
اپنے میٹھے سبھاؤاور نرم سلوک اور شیریں زبان کی وجہ سے با با نے سارے نوکروں میں ایک مقام بنا لیا تھا۔ دائی ماں سے ان کے صلاح مشورے خوب چلتے تھے۔
’’دائی ماں، سونا تو بہوت مہنگا ہے۔ میں بی بی ماں کو کیا تو بھی دیوں؟‘‘ ایسا سوچا ہوں کہ ایک آدھ کپڑوں کا جوڑا دیوں۔‘‘
’’جی ہو میاں جی…. ضرور دیو آپ۔ آپ کا دیا ہوا ٹکڑا بھی برکت بھرا ہوئیں گا۔ آخر کو آپ اتا اللہ کا کلام یاد کرے وے ہیں۔‘‘
’’تو دائی ماں کم خواب کا جوڑا دیوں؟‘‘
دائی ماں نے ترس بھری نگاہوں سے انہیں دیکھا۔ ٹال کر بولیں، ’’ائی کم خواب کائے کو؟ اپنا دورا دیو کوئی۔‘‘ وہ جانتی تھیں کہ اتنا مہنگا کپڑا ان کے بس کا نہیں….
’’اطلس کا کیسا رہیں گا؟‘‘
’’نکو میاں جی، اطلس کے بہوت سارے جوڑے سل رئے۔‘‘
’’پھر جامہ دار کا؟‘‘
’’جامہ دار چبھتا بولتے بی بی ماں۔‘‘ وہ ٹالے جاتیں۔
’’اب میں غریب عورت کیا مشورہ دیوں۔ آپ تو خود لایخ آدمی ہیں۔‘‘
’’اپنا لال مدرے نئیں تو سوسی کا جوڑا اور ململ کا دوپٹہ۔‘‘
’’جی ہو، یہ بہوت اچھا رہیں گا۔‘‘
’’ہور میرے کو تو دائی ماں کچھ دکھتا نویں ، بہوت پہلے جب آنکھاں تھے تب دکھتا تھا۔ گھر کے عورتاں چمکی ستارے گوٹا ٹانکتے تھے…. اس سے کپڑوں پر رونخ اور چمک آ جاتی تھی۔‘‘
’’جی ہو میاں جی۔‘‘
’’مگر ٹانکے گا کون؟‘‘
’’ائی میاں جی، اتے پوٹیاں ہیں ، چپ کد کڑے لگا لیتے،گھومتیاں پھرتیاں ، اس کی آپ فکر نہ کرو۔ بس میرے کو پیسے دے دیو…. میں سوب کر لیوں گی۔‘‘
’’کپڑے…. دوپٹہ…. گوٹا…. چمکی سب ملا کو کم ہے کم دس روپے ضرور اچ ہوئیں گے میاں جی۔‘‘
وہ بیٹھتے بیٹھے دھنس سے گئے۔ غریب چاؤشکو دے دلا کر، کبھی کبھار کی چار آٹھ آنے کو ہوتے ہی کیا تھے۔ ان چار آٹھ آنوں میں کبھی وہ بی بی ماں کو بیسن کے مرکل، بیر، جام خرید کر کھلا دیتے تھے۔ کبھی سستی آتی تو خود چاؤشکے ہاتھ سے ایک آدھا پیالی چائے اسلامی ہوٹل سے منگا کر پی لیتے تھے۔ اس وقت تو جیب میں دمڑی بھی نہ تھی۔ بڑی مشکل سے بولے، ’’شادی کب ہے مگر دائی ماں ؟‘‘
’’بس تین ہفتے ہی تو رہ گئے ماں۔‘‘ دائی ماں ٹھنڈی سانس بھر کر بولیں ، ’’پھر تو میری مینا…. میری چہکتی بلبل میرے آنگن کو سونا کر دے گی۔‘‘
وہ آنکھوں میں بھر آنے والے آنسو پونچھنے لگیں۔ رمضو بابا کا اپنا دل بھی نمکین پانی میں ڈوبنے لگا۔
یہ الگ داستان تھی کہ رمضو بابا نے کس طرح دس روپے کی رقم جوڑی…. اپنی چائے پانی چھوڑ دی، پیٹ کاٹا۔ پاس پڑوس کے صاحب حیثیت بچوں کو چاؤشسے بلوا بلوا کر درس دیئے، راتوں کو نیندیں حرام کی،ں کسی کو دن میں پڑھایا، کسی کو رات میں۔
نہ چاؤشکو اپنی تنخواہ دینی بند کی، نہ اس سے ادھار سدھار کا سوال کیا۔ بس ایک ہی دھن تھی کہ کسی طرح دس روپے جمع ہو جائیں۔ پھر یہ ڈر بھی تھا کہ ڈیوڑھی کے مالکوں کو پتہ نہ چل جائے کہ با با آس پڑوس کے بچوں کو بلا بلا کر پڑھاتا اور پیسے وصول کرتا ہے۔ رات کو پڑھاتے، دن بھر جماہیوں پر جماہیاں لیتے۔ چاؤشکہتا بھی…. ’’میاں جی، اتی سستی آرہی ہے تو ایک کوپ چائے لا دیوں ؟‘‘
’’وہ ہنس کر بولتے، ’’اگے نئیں میاں ، سستی کائے کی؟ ابھی تو سارے نوکروں کو چائے بٹی تھی۔‘‘
اور جب دس روپے کی خطیر رقم دائی ماں کے ہاتھوں میں پہنچی تو بڑھاپا ٹوٹ کر بابا پر برس چکا تھا۔ سفید جھاگ ایسے بال صافے میں جھانکتے ہوئے۔ کمزوری سے ہلتا ڈولتا، جسم اس کے ساتھ ہلتی کانپتی ڈاڑھی۔ ہاتھوں میں رعشہ…. دائی ماں نے روپے ان کے ہاتھوں سے لئے تو حیرت سے انہیں دیکھ کر بولیں ، ’’ائی ماں جی، آپ کا جی اچھا نئیں کیا؟ اتے کمزور کائے لگ رئے؟‘‘ وہ ٹوٹی ہوئی آواز سے بولے، ’’میری بی بی ماں چلی جائے گی بول کے، سوچ سوچ کے یہ حال ہو گیا۔‘‘
یہ تو سب ہی کے دل کی آواز تھی…. دائی ماں بھی سسک کر رہ گئی۔
سلیم شاہی، بنا آواز کی جوتیاں پہنے، آتے جاتے بڑے نواب صاحب دیکھتے کہ ڈیوڑھی میں ادھر درزنیں بیٹھی لچ لچ گوٹے، سانچے، سلمیٰ ستارے، بانکڑیاں ، کرنیں ٹانک رہی ہیں۔ اطلس، شامو، جامے دار، بنارسی اور کم خواب کے تھانوں کے تھان کھلے ہیں۔ سنار مسلسل زیورات بنانے میں جٹے ہوئے ہیں …. جوہری سچے ہیرے اور موتیوں کے پٹارے کھولے بیٹھے ہیں ، اور ادھر غلام گردش میں ایک جوڑا سل رہا ہے۔ سستے مول کی چمکیوں سے اسے سنوارا جا رہا ہے…. جھوٹی لچے سے ململ کی سجاوٹ بڑھائی جا رہی ہے اور دو کانپتے ہاتھ اس جوڑے کو اٹھا کر بار بار اپنی بے نور آنکھوں تک لے جاتے ہیں۔ ایک بوڑھی، لرزتی آواز بار بار پاس بیٹھی لڑکیوں سے پوچھتی ہے، ’’چھوکریو، میری بی بی ماں اس جوڑے میں شہزادی لگے گی نا؟‘‘ اور لڑکیاں آنکھوں ہی آنکھوں میں دکھ سے بوجھل نظروں کا تبادلہ کر کے انہیں جیسے دلاسہ دیتی ہیں ، جی ہو میاں جی، اتا اچھا جوڑا تو بی بی پاشا کے جہیز میں ایک بھئی نئی ہوئیں گا۔‘‘
’’خدا اس کا سہاگ بنائے رکھے…. مجھ اندھے کا کتا خیال رکھتی تھی…. نہ دنیا بار بار جنم لے گی، نہ ایسی چاند سورج کے ویسی بے مثال بچی پیدا ہوئیں گی…. میری بی بی ماں …. میری بچی….‘‘
تمہاری بچی؟…. بڑی پاشا چلائیں ’’شرم آنا نا تم کو…. یہ پھٹے کپڑے چیتھڑے، گودڑیاں لٹکا لے کو ہماری شہزادی جیسی بچی کو اپنی بچی بولتے۔‘‘
اور انہوں نے پوری طاقت سے جو جوڑا اٹھا کر جو پھینکا تو وہ سیدھا رمضو بابا کے پیروں میں جا پڑا۔
رمضو بابا کے آنکھیں نہیں تھیں ، کان تو تھے، اور ان کے کانوں نے مدھم سی، چلنے کی چاپ سنی…. پھر ان کے کانوں میں ہلکی سی ضبط بھری سسکی سی ابھری کوئی قریب آیا، پھر ان کے کانوں نے یوں سنا جیسے کسی نے ان کپڑوں کا بوسہ لیا ہو۔ پھر ان کے کانوں نے باقاعدہ سنا…. اور یقیناً یہ آواز ایک دردمند دل کی ہی ہو سکتی تھی۔
’’بیگم….‘‘ انہوں نے محسوس کیا کہ کوئی ان کے پیروں میں جھکا ہو اور اس نے وہ کپڑے اٹھا لئے ہوں۔
’’بیگم…. آپ نے یہ کپڑے پھینک دیئے! یہ کپڑے بیگم! جو اس دنیا میں تیار نہ ہوئے ہوتے تو صرف جنت سے ہی اتارے جا سکتے تھے اور جنہیں لے کر فرشتے بھی ڈرتے ڈرتے اس دنیا میں خدم رکھتے…. آپ کو ان کپڑوں کی خدر و خیمت معلوم ہے بیگم صاحبہ…. ان کے ایک ایک ٹانکے میں محبت گوندھی گئی ہے…. کتنے راتوں کی جاگ اور کتنے بھوکے لمحوں کا کرب ان میں گھلا ہوا ہے…. بیگم یہ جوڑا خون دل کی لالی سے سرخ ہے…. اس کے جھوٹے گوٹے اور سستی چمکیوں پر مت جائیے۔ اس میں جو چمک ہے وہ آپ کے سارے ہیرے اور موتیوں میں مل کر بھی نہیں ہو سکتی….‘‘
سارے مہمان، براتی، سمدھیانے والے حیرت سے کھڑے سن رہے تھے۔ وہ ایسی نرم آواز میں ، جو ہزار حکموں پر بھاری تھی، دھیمے سے بولے، ’’بی بی ماں کی عخد خوانی کے وخت اس کو یہی اچ جوڑا پہنایا جائیں گا۔‘‘
’’مگر آپ اتا تو سوچو، سارا حیدرآباد….‘‘
نواب صاحب نے بیگم صاحبہ کی بات کاٹ دی، ’’ہم آپ کا مطلب سمجھتے ہیں اور آپ یہ بھی جانتے ہیں کہ ہم کسی کو کسی کام سے منع کرتے نہ کسی کے کام میں دخل دیتے…. مگر ہم آپ کو کہے دیتے ہیں کہ بی بی ماں کی شادی اسی جوڑے سے ہوتی اور خاعدے کے مطابخ شادی کا جوڑا جو دوسرے دن خیرات کر دیا جاتا ہے…. یہ جوڑا خیرات میں نہیں دیا جائیں گا۔ یہ جوڑا نسل در نسل سنبھال سنبھال کر رکھا جائیں گا کہ لوگوں کو یاد رہے کہ محبت اس طرح کی جاتی ہے اور محبت کے یادگاراں اس طرح سنبھال کر محفوظ کئے جاتے ہیں۔‘‘
انہوں نے اپنے آنسو پونچھ کر رمضو بابا کے ہلتے کانپتے وجود کو سنبھالا جن کے ہونٹ تھرتھرا رہے تھے۔
’’زندگی میں آج پہلی بار جی چاہ رہا ہے کہ خدایا میرے بھی آنکھاں ہوتے اور میں اس مہربان چہرے کو دیکھ سکتا….‘‘ رمضو بابا کے ٹوٹے دل سے دعا نکلی اور وہ نواب صاحب سے لپٹ کر چیخ چیخ کر رونے لگے۔
٭٭٭