دن ہے یا رات. اسے گنبد کے اندر پتہ نہیں چلتا
غاروں سے نکل کر جنگلوں میں گھومتے کٹار دانتوں والے بھیڑیئے، گدیلے پنجوں میں بلیڈ چھپائے گیلی زمین پر اپنے قدموں کے نشان چھوڑتے، اندھیرے میں راستہ بناتے ہیں۔
آبشار بن کر گہری سبزی مائل نیلی دھند میں بکھرتی ندی طلسماتی منتر گنگناتی پیروں سے لپٹتی ہے جو اندھیرے پہنے روشن جگہ کی تلاش میں سرگرداں ان فاصلوں کو عبور کرتے ہیں جہان دور ہوتی جھاڑیاں، درخت چھدرے ہو کر افق میں گھل جاتے ہیں۔ .
نازک انگلیاں ہوا پر اپنی گرفت چھوڑ دیتی ہیں اور مسلسل آہنگ میں بہتے پر عزم دریا اس سرد ہوا کی تیز دھار سے کٹ جاتے ہیں صرف اتنا پتہ ہے کہ سیاہ چھت میں موتی جڑا غار اس کے گرد اور بھی تنگ ہو گیا ہے اور وہ غار کے فرش پر لیٹی چھت سے بچ نکلنے کی راہ ڈھونڈتی ہے۔ لیکن وہ انگلیاں جنہوں نے مدتوں ہوا کو مٹھی میں باندھ رکھا تھا اب دکھتے جسموں والے سنپولئے ہیں جو کائی میں پھنسے موتیوں کو نکل کر راہ بنانے کی کوشش میں تھک چکے ہیں۔
شبنم کا پہلا قطرہ، راستوں پر کملائی، ساکت گھاس کی نیم جان پتی پر زندگی لیے تھرکتا ہے۔
وہ چھت کے نیچے فرش پر سُوت سُوت رینگتی ہے
سحر زدہ، رینگتی پھولوں کی بیل۔
اسے معلوم ہے ایک بار پھر آگ کے کنوارے شعلے کو سجدہ کرنا ہے تاکہ اس کے سانس میں مد و جزر لوٹ آئے۔ اور جب وہ شعلہ بدن بازو پھیلائے تو کائنات ایک بار پھر صاف و شفاف ہو جائے۔
وہ اپنے خواب سے چھلانگ لگاتی ہے لیکن آسمان پیچھے سرک جاتا ہے اور وہ گر جاتی ہے، گرتی چلی جاتی ہے یہ جانتے ہوئے بھی کہ کٹار دانتوں والے بھیڑئے منہ کھولے نیچے کھڑے ہیں۔
نیچے دن ہے یا رات، اسے غار کے اندر پتا نہیں چلتا۔
میں خدا کا شاہکار میرے ہر مسام میں تیرا سانس ہے میرے مستقبل میں میری زندگی میں ماضی کے صیغے میں اس لیے بات کرتی ہوں کہ یہ سکولوں میں پڑھی گرامر کا جبر ہے۔ میرے وجود میں ازل بھی ہے اور ابد بھی آغاز میں انجام میری ثمر آور کوکھ کے وطن کے دریاؤں کی مٹی سے تشکیل پائی ہے جس میں ماضی اور حال ہم بستر ہوتے ہیں اور وقت آنے پر چشمے کی صورت بہ نکلتے ہیں۔ مستقبل کی جانب رواں دواں میرے جسم کی لہریں تیرے لئے مضطرب ہیں۔ تو آتا کیوں نہیں۔ گالی نہ دو۔ گہرائیوں کا دوست سناٹا، لوگ آسمان تلے گلیوں بازاروں میں گھروں دفتروں کھیتوں کارخانوں میں اپنے کام میں مگن رہتے ہیں اور میں پہلی پکار پر پیغمبروں کی ہڈیوں سے نکلتا گیت، میں اپنے ہونٹون سے لگی بانسری کو موت کے حوالے نہیں کروں گی کہ ان کی کمانوں سے نکلے تیروں اور زنجیروں سے چھوڑے گئے کتوں سے خوف زدہ نہیں ہوں ماں باپ، بہن بھائی، دوست سہیلیاں سب مجھے حیرت سے دیکھتے ہیں لیکن میرے پیروں سے لپٹی جنگلی بیل میں کھلا پھول ہی میری بات سمجھتا ہے جس کی آنکھیں طلوع ہوتے شعور کی لالی جذب کرنے کے لئے کھلی رہتی ہیں، جان لو کہ تم ہو۔
کھچا کھچ بھرے یونیورسٹی لیکچر تھیٹر میں اپنے لیکچرون کے دوران وہ اپنی آواز کے اتار چڑھاؤ کے ساتھ اپنے ہاتھوں کی سنگت سے بہت محظوظ ہوتی ہے تیز، زیرک، متجسس، شرارتی آنکھوں سے متوجہ طلبا طالبات اپنے دانتوں میں بال پوائنٹ دبائے غلط فیصلوں پر جھپٹنے کو تیار۔.
جب وہی وہ گزرے زمانوں مقبروں مزاروں کا پوسٹ مارٹم کرتی ہے تو اسے ٹیلی ویژن میں مسکراتے نیم برہنہ جسم یاد آ جاتے ہیں جو مدھم ہوا میں پھلوں سے لدی شاخ کی طرح ہولے ہولے جھومتے، ملوں کارخانوں کی پیداوار کے ساتھ آرام اور سکون کی پیکنگ میں اضطراب اور ہیجان بھی بیچتے ہیں۔
جب اس کے سامنے تشویش سے دہن لٹک جاتے ہیں اور آنکھیں حیرت میں کھل جاتی ہیں تو وہ ایک لحظہ توقف کے بعد مسکرا کے کہتی ہے۔
— اس میں پریشانی کی کوئی بات نہیں۔ میں خود تاریخ سے گزر کے آئی ہوں تاکہ دھوکا نہ کھا سکوں۔ میں نے ہر واقعہ کو بارہا مرتبہ پرکھا ہے۔ میرے ہاتھوں میں دیکھو۔ ان میں وہ تمام شخصیات واقعات سردی سے ٹھٹھرتے چھوٹے چھوٹے بچوں کی طرح کپکپاتے ہیں۔ لگتا ہے نا جیسے میں ان کی ماں ہوں۔ میں نے تمہاری خاطر ان کی قوت ان کے اسرار کو چھین لیا ہے۔ میں نے انہیں معجزوں سے عاق کر دیا ہے اب یہ تمہاری طرح نہ ختم ہونے والی کہانیاں سنا سنا کر محظوظ کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔۔۔ یہ ہے ہمارے لئے تمہاری تاریخ۔
لیکچر جاری رہتا ہے
لیکچرر جاری رہتا ہے وہ اپنی آنکھوں کے سامنے اپنے ہونٹون پر مضطرب مسکراہٹ لیے یونیورسٹی سے نکل کر اس ہجوم میں تحلیل ہو جاتی ہے جو خوبصورت اشیاء سے لدے شو کیسوں کو ایک نظر حسرت سے دیکھ کر سلوموشن میں چلتا رہتا ہے۔
عورتیں، مرد، بچے، طلبا طالبات گھرہستنیں، دفتروں کی سیکریٹریاں، کلرک، ٹیلیفون آپریٹر، سکول ٹیچر، پروفیسر، عالم، شاعر، ملنگ، جابر حاکموں کا عذاب اپنی پشت پر لیے زندگی سے پھاڑے گئے بے یار و مددگار گرد آلود فٹ پاتھوں پر بیٹھے نجومیوں کے ماتھوں پر کھچی سیلن ماری بھول بھلیاں میں ایک دوسرے کو تلاش کرتی اندھیروں کو کھٹکھٹاتی انگلیاں۔
یکدم اس کی آنکھوں میں پھیلتا اندھیرا اس کے حلق میں دھڑکنے لگتا ہے۔
وہ ایک ایک کر کے تیز، زیرک، متجسس، شرارتی آنکھوں کو ٹٹولتی ہے۔ بال پوائنٹ ان کے دانتوں میں اسی طرح دبے ہیں، غلط فیصلوں پر جھپٹنے کے لیے تیار۔ اس سے پہلے پیشتر کہ چپ کا لمحہ سب کی گردن کا پھندہ بن جائے وہ بوجھل، کھردری، مدھم آواز میں، ایک ایک لفظ کو ناپتی تولتی ان سے پوچھتی ہے۔۔۔ تمہیں ایک دوسرے کے ماتھے پر کندہ روشنی نظر نہیں آتی؟ روشنی نظر نہیں آتی؟
میں یہاں گندھی مٹی کی ڈھیری پر نظریں جمائے کھڑی ہوں، افق کی شناخت اس کے حصول کی جد و جہد ریتلی ہوا کی طرح مجھ سے لپٹ کر مجھے خشک کئے دیتی ہے میں پازیب کے حلق میں پسینہ ٹپکاتی ہوں اور سانس لیتی ہوں، صحن میں لگے انار کے پودے کی جڑوں میں دفن خواب بھرے خطوں کو ایک بار پڑھ لینے کی خواہش کو مٹھی میں بند کر لینے کی تمنا میرے تلووں میں پھوٹ پھوٹ بہتی ہے۔ قطبین کے درمیان منجمد کر دینے والے طوفان اور جھلسا دینے والی ہواؤں میں تنہا میرا وجود زمین کا محور ہے۔ جتھوں میں منظوم لوگ جگہ جگہ الاؤ میں روشن اور پھر سورج کا ایک اور طلوع اور ساری شفق پرچم کی طرح لہرا کے الاؤ کی روشنی کو جذب کر لیتی ہے۔ لیکن میں نے لمحے کو طویل سے طویل تر ہوتے دیکھا اور وادیوں، میدانوں، سمندروں صحراؤں پر محیط چپ اسی لیے مجھے چولہے سے بھی محروم کر دیا گیا کہ میں ان ڈھالتے شعلوں کے بجائے ان داتاؤں کی حمد و ثنا کروں لیکن میں تو کھیتوں میں ماؤں کی زمین سے جلائی گئی مٹھی بھر خاک ہوں جس کی واپسی جنت کے قبرستانوں سے کبھی خواب تھی۔
بستیوں سے برہنہ کنواریاں پہاڑوں کی چوٹیوں پر نظریں جمائے اپنی پناہ گاہوں سے نکلتی ہیں شہروں کے دھوئیں سے اٹی پیامبر فاختائیں بارش میں اپنی سیاہی کو دھوتی ہیں ان کنواریوں کے پیچھے برہنہ مرد وادیوں کے سورج ایک مرتبہ پھر خون اور گوشت پوست کے موسموں کی زبان سیکھتے ہیں۔ میں اپنے گھر کے دروازے پر تالا لگا دیتی ہوں تاکہ میناروں کی آخری منزل میں گڑے لاؤڈ سپیکروں سے ہیجان چھین لوں اور دور سے آنے والے ہرنوں کے لئے راستہ صاف کر سکوں جو میرے راکھ خوابوں میں اگی گھاس کو چرنے آئین گے۔ بڑی بڑی رحمدل آنکھوں کے سواگت کے لئے میں اپنی مردہ کھال اتار کے پھینک دینا چاہتی ہوں جیسے وقت اپنی چھال کو رد کر دیتا ہے جسے صاحب فہم و ادراک تاریخ جانتے ہیں اور سینوں میں محفوظ کر لیتے ہیں۔ اسی لیے یہاں کی مٹی زہر ہے کہ اس میں ابن آدم کی نفرتیں رینگتی ہیں تو میں مٹی کی اس کینچلی کو اتار پھینکتی ہوں تاکہ میرے بدن کی شراب متی میں مٹی نہ ہو اور کہیں ابن آدم کے شر کا نطفہ نہ ٹھہر جائے اسی طرح دور زمین کی خاکی سطح کے نیچے دبی شفاف دمکتی سچایئاں، نیکیاں، خواہش اور محبتیں میرے بدن سے سیراب ہوتی ہیں۔ میں پوچھتی ہوں کیا چناؤ کا ہر راستہ داستانوں سے نہیں آتا۔ اساطیر سے جو مستقبل کے خزینے ہیں اب میں آگ کے پھول کو چوم کر کہہ سکتی ہوں کہ میرے ہونٹ میرے بدن پر پھیلا دو تاکہ میں اپنے ثمر سے بے خوف ہو کر صحرائی ہواؤں کے نشے میں جھوم سکوں۔
محلے کے چھوٹے چھوٹے شگفتہ اور معصوم بچوں کے درمیان اسے یہ اذیت ناک نا قابل برداشت اذیت اکثر محسوس ہوتی ہے کہ وہ اپنی بے قرار انگلیوں کے ساتھ بندھے بچوں سے پتلی گر کی طرح بات منوائے اور انہیں اپنے اتنا قریب لے آئے کہ ان کی مرضی اس کے بس میں ہو جائے۔ جب بھی وہ ان میں سے ایک کو جھولا باغ کی سیر کرانے کے لئے لے جاتی ہے تو سڑک پار کرتے ہوئے وہ اس کے ننھے منے ہاتھ پر اپنے سرد ہاتھ کی گرفت اور بھی مضبوط کر لیتی ہے پر اتنی نہیں کے منی انگلیاں پچک کر رہ جائیں۔ سڑک کو پار کرتے ہوئے بہت احتیاط سے پہلے دائیں دیکھتی ہے پھر بائیں دیکھتی ہے کہ کوئی کار، سکوٹر ریہڑا، ٹرک یا ویگن تو نہیں آ رہی جو اس کے ہاتھ میں پکڑی کومل پر اعتماد سی چیز کو روند کر نکل جائے۔
دیکھو بچہ سڑک پار کرتے ذرا رک احتیاط سے، بہت ہی احتیاط سے دیکھ لینا چاہیے کیونکہ زندگی اور موت کے درمیان بے احتیاطی کے لمحے کی صرف باریک سی جھلی ہوتی ہے۔
بچہ اس کے ساتھ چلتا ایک نظر اس کی طرف دیکھتا ہے جیسے بات اس کی سمجھ میں آ گئی ہے۔ لیکن وہ اپنے ہی دھیان میں سڑک کے پار مکانوں سے پرے دیکھتے ہوئے چلی جاتی ہے۔
— جب تمہاری نانی نہیں ہوں گی تو تم کیا کہو گی؟ وہ بہت بوڑھی ہیں نا!۔ وہ کسی وقت بھی اللہ میاں کے پاس جا سکتی ہیں۔ پتہ نہیں مرنے کے بعد لوگ کیا کرتے ہیں۔ ایک دفعہ کا ذکر تمہاری نانی کی بھی امی ہوتی تھی۔ اب وہ کہاں ہیں؟ ہوں؟
اور خاوند؟ وہ سوچتی ہے، اگر مرد بچہ جن سکتے تو ایک سے زیادہ کبھی نہ جنتے۔ کم از کم اس کی ماں تو اپنے ہر بچے کے جنم پر یہی کہا کرتی تھی۔ ہیں ابھی اس کے قل نہیں ہوئے۔۔ ابھی سے اٹھنا مناسب نہیں۔ ماں باپ بھائی بہن محبوب کتنے مزے کے رشتے ہوتے ہیں، نہیں، ابھی وہ ان کے پاس رہے گی محفل میلاد کے اختتام پر جائے گی۔
اختتام، اختتام کب ہو گا؟ اگر بتیوں کے دھوئیں اور خوشبو میں پھیلی یہ چھینک کبھی ختم نہیں ہو گی۔ اس سے پیشتر کہ دھواں اور خوشبو تمہاری سانس چھین لیں سب کے درمیان خلا چھوڑ دو، فرار ہو جاؤ، بھاگو دوڑو، بوسیدہ زخمی دیواروں سے ٹکراتی ہوئی ایک دوسرے کی طرف جھکے مکانوں کے درمیان پھڑپھڑاتی ہوئی، بھاگو، تازہ سانس کی کھوج میں چیختی رہو، سانس کی خواہش میں مسخ چہرہ لئے اس وقت تک بھاگتی رہو جب تک میونسپل کمیٹی کے نلکے پر کپڑے دھوتی عورتیں صابن کے بلبلوں سے تمہارے عکس کو نوچ نہ پھینکیں اور لنگوٹی باندھ کر نہاتے مرد اپنی آنکھوں کی مرچوں میں تمہیں چھینٹے مار کے بہا نہ دیں۔
وہ تیز قدموں سے گلی کا موڑ کاٹتی ہے
ہوا کا اب کوئی رنگ۔ کوئی بو نہیں۔ گلی کے دونوں طرف ایستادہ مکان، نئے پرانے، خلط ملط، ایک دوسرے کے سامنے جھکے جھکے، اکثر گھروں کے دروازے بند، ہولناک سڑک پر پہنچ کر بچے کو محسوس ہوتا ہے کہ کوئی اس کے سینے کو دبا کر اس کے سارے جسم کو سن کرنا چاہتا ہے۔ جیسے کوئی اس کے منہ میں آٹے کا پیڑا آہستہ آہستہ ٹھونسنے کی کوشش کرتا ہے۔
سڑک پار کرنے سے پہلے دونوں کے ہاتھوں کی گرفت ایک دوسرے پر اور بھی مضبوط ہو جاتی ہے اور موت سے بے خبر لفظ زندگی اور موت کے درمیان صرف ایک باریک سی جھلی ہوتی ہے۔
٭٭٭