“عقل اور گوگل کی مدد سے آپ جس بھی نتیجے پر پہنچنا چاہیں، پہنچ سکتے ہیں”۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
عظیم سازشی نظریات، خلائی مخلوق کی اڑن طشتریوں، شعبدہ بازوں سے علاج یا دیگر عجیب چیزوں پر یقین رکھنے والوں کی تعداد کم نہیں۔
جب کچھ ایسا ہے جس کو میں ماننا چاہتا ہوں تو میرا سوال یہ ہوتا ہے کہ “کیا میں اسے مان سکتا ہوں؟” اور میری تلاش اس کے حق میں کوئی ایویڈنس ڈھونڈ لینے میں ہو گی۔ جب بھی کچھ مل گیا تو میری تلاش ختم ہو گئی۔ میرے پاس جواز ہے۔ جبکہ اگر کچھ ایسا ہے جس کو میں نہیں ماننا چاہتا تو میرا سوال یہ ہے کہ “کیا مجھے اس کو ماننا پڑے گا؟”۔ کوئی ایک وجہ بھی جو شک کی بنیاد بن سکے، کافی ہو گی۔ صرف ایک ہی چابی سے میں مان لینے کی ہتھکڑی سے آزاد ہو سکتا ہوں۔
اور ان دو سوالات کے جواب کی تلاش اس قدر مختلف طرز کی ہے کہ یہ بصری دھوکہ بھی پیدا کر سکتی ہے۔ آپ وہ “دیکھ” لیتے ہیں جو دیکھنا چاہتے ہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ہم اس وقت تک اپنا کوئی بھی یقین تبدیل نہیں کرتے جب تک ایسا کرنے کا کوئی بھی جواز ختم ہو جائے (اور کئی بار اس کے بعد تک بھی)۔ حتیٰ کہ ایسا سائنس میں بھی ہوتا ہے۔ سائنسدان اپنے نظریات کے مخالف تحقیق میں سقم نکالنے میں مہارت رکھتے ہیں۔ مسئلہ یہ ہے کہ کئی بار شواہد کا ڈھیر اتنا زیادہ ہو جاتا ہے کہ ذہن تبدیل کرنا ہی پڑتا ہے۔ کیونکہ کسی ناقص تھیوری سے چپکے رہنے سے آپ اپنی کمیونیٹی میں بے وقوف لگیں گے۔ لیکن اگر غیرسائنسدان ہیں تو ایسا کوئی بار بھی نہیں۔ طریقوں پر سوال اٹھانا، ڈیٹا کی متبادل وضاحت دینا یا (اگر سب ناکام ہو جائے) تو محقق کی دیانتداری پر شک کرنا ہمیشہ کام آتا ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔
اور اب جب ہم سب اپنے فون پر ہی گوگل تک رسائی رکھتے ہیں تو کسی بھی نتیجے پر پہنچنے میں کوئی رکاوٹ ہی نہیں۔ گلوبل وارمنگ کی وجوہات ہوں، ویکسین کی مخالفت یا کچھ بھی اور۔ اپنے کسی بھی یقین کے حق میں شواہد ڈھونڈنے کے لئے سرچ کریں۔ آپ کو مایوسی نہیں ہو گی۔ گوگل آپ کی راہنمائی اس سمت میں کر دے گا جس کا آپ کو پہلے ہی پتا ہے۔
ہم سب ہی اس بات سے واقف تو ہیں لیکن جو سوال اہم ہے جسے سمجھنا ضروری ہے، وہ یہ ہے کہ ہم کونسی بات پر یقین کرنا چاہتے ہیں؟ اور اس کا جواب سادہ ہے۔
“ان پر جو ہماری ٹیم کو سپورٹ کرے”۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کئی پولیٹیکل سائنٹسٹ یہ خیال رکھتے تھے کہ ہم ووٹ خودغرضی کی بنیاد پر دیتے ہیں۔ اس امیدوار یا پالیسی کا انتخاب کرتے ہیں جو انہیں سب سے زیادہ فائدہ پہنچائے۔ لیکن دہائیوں کی تحقیق یہ بتاتی ہے کہ خودغرضی اس میں ایک کمزور predictor ہے۔
اس کے بجائے لوگ گروہوں کی پرواہ کرتے ہیں، خواہ وہ قومیت کے ہوں، مذہبی یا سیاسی۔ ڈون کنڈر اس تحقیقات کا خلاصہ ایسے کرتے ہیں۔
رائے عامہ کے بارے میں شہری خود سے یہ سوال نہیں کرتے کہ “اس میں میرے لئے کیا ہے” بلکہ یہ کہ “اس میں میرے گروپ کے لئے کیا ہے”۔
سیاسی رائے سماجی ممبرشپ کے تمغے کا کام کرتی ہے۔ سماجی کاز کا گروپ ہو، یونیورسٹی یا کھیلوں کی ٹیم جس کی سپورٹ کرتے ہیں۔
ہم سیاسی اعتبار سے “خودغرض” نہیں بلکہ “گروہ غرض” ہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اگر ایک ہی معلومات لوگوں کو دی جائے جن کی سیاسی وابستگی مختلف ہے، تو اس کو دیکھنے کا انداز مختلف ہو گا۔ اہم سیاسی ایشوز پر دلائل، سیاسی بحث یا اہم سیاسی شخصیت کی تقریر کے بعد لبرل اور کنزرویٹو کے آپس کے فرق عام طور پر بڑھ جاتے ہیں، اگرچہ ملنے والی معلومات ایک ہی ہے۔
اس پر دلچسپ ٹیسٹ ڈریو ویسٹن نے کیا۔ امریکہ میں 2004 کے صدارتی انتخابات کی گرما گرمی میں انہوں نے پندرہ ری پبلکن اور پندرہ ڈیموکریٹ سپورٹرز کو لیا۔ انہیں کچھ انفارمیشن دی گئی اور اس دوران fMRI سکین کیا جا رہا تھا۔
جارج بش نے 2000 میں ایک بیان دیا تھا جس میں کین لے کی بہت تعریف کی تھی۔ (کین لے اینرون کے چیف ایگزیکٹو تھے جس نے بعد میں بہت بڑا فراڈ کیا تھا)۔
“اگر میں صدر بنا تو میرا ارادہ ہے کہ حکومت ویسے چلائی جائے جیسے کوئی چیف ایگزیکٹو اپنا ادارہ چلاتا ہے۔ کین لے اور اینرون وہ ماڈل ہے جس طرح میں یہ کرنا چاہوں گا”۔
اس کے بعد آنے والی انفارمیشن میں۔
“بش اب کین لے کا نام لینے سے گھبراتے ہیں”۔
اس مقام پر بش کے حامی بل کھا رہے تھے۔ لیکن اسی وقت ویسٹن نے نئی سلائیڈ دکھائی۔
“جو لوگ صدر سے واقف ہیں، یہ بتاتے ہیں کہ انہیں کین لے کی حرکات سے بڑا صدمہ پہنچا تھا۔ انہیں لگا تھا کہ جیسے انہیں دھوکہ دیا گیا ہو۔ وہ اینرون اور کین لے کی بھاری کرپشن کو شدید ناپسند کرتے ہیں اور اس کے سخت ناقد ہیں”۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ایسی ہی سلائیڈز بش کے مخالف امیداوار کیری کے بارے میں بھی تھیں۔ اس میں ایسی صورتحال بنائی گئی تھی جس میں کچھ دیر کے لئے ان کی بظاہر منافقت کے بارے میں بتایا گیا۔ اس “منافقت” کے بارے وقت حامی اس انفارمیشن سے خطرہ محسوس کرتے تھے اور مخالف اس سے راحت محسوس کرتے تھے۔
ویسٹن یہاں پر ذہن کے دو ماڈلز کا موازنہ کر رہے تھے۔ کیا ایسا ہوتا ہے کہ دماغ کا عقلی حصہ انفارمیشن کو ایک ہی طرح پراسس کرتا ہے لیکن جذباتی حصے سے زیادہ مضبوط ردِ عمل آتا ہے؟ یا پھر ایسا ہے کہ جذبات اور وجدان اصل تماشا چلا رہے ہیں اور عقلی حصہ صرف بعد میں ان کی وضاحت کیلئے آتا ہے؟
حاصل کردہ ڈیٹا بڑے واضح طور پر دوسرے ماڈل کی حمایت میں ہے۔ اپنے امیدوار کی منافقت والی انفارمیشن جذبات سے متعلق نیٹورک کو متحرک کر دیتی ہے۔ اور یہ ہونے والی تکلیف ہے۔ “کیا مجھے یہ ماننا پڑے گا؟” کے سوال کی ہتھکڑیاں تکلیف دیتی ہیں۔ اور یہ محاورے کی نہیں، اصل تکلیف ہے۔
جبکہ دماغ کے وہ حصے جن کا تعلق عقلی پراسسنگ سے ہے (diPFC)، ان میں کوئی اضافی پراسسنگ نہیں تھی۔
جب ویسٹن نے نئی انفارمیشن میں اس خطرے سے آزاد کر دیا تو پھر وینٹرل سٹرئیٹم کا حصہ گنگنانے لگا۔ یہ دماغ کی لذت کا مرکز ہے۔ (منشیات بھی اس حصے کو متحرک کرتی ہیں اسی لئے ان کی عادت ہو جاتی ہے)۔
ویسٹن نے معلوم کیا کہ جانبدار لوگوں کے لئے ان ہتھکڑیوں سے فرار باعثِ لذت تھا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔
اور اگر یہ ایسا ہے تو یہ اس کی وضاحت کر دیتا ہے کہ سخت جانبدار لوگ آخر اس قدر ضدی، بند ذہن کے اور اپنے نظریات سے جنون کی حد تک وفادار کیوں ہوتے ہیں؟
تجربات میں، ایک چوہا جسے ایک بٹن دبانے پر ذہن کے انعامی مرکز میں برقی سگنل ملے، اس بٹن کو مسلسل دباتا رہے گا۔ خواہ وہ بھوک سے مر ہی کیوں نہ جائے۔ جس طرح یہ چوہا بٹن دبانے سے باز نہیں رہ پاتا، ویسے ہی جانبداروں کے لئے یہ ممکن نہیں رہتا کہ وہ عجیب چیزوں پر یقین رکھنا بند کر دیں۔
اپنے نظریات سے سخت وفاداری اصلاً ہیروئن کے نشے کی طرح ہے۔
کیا حرف ع جس لغت میں ہو وہ عربی کا ہو گا؟
اردو کا ہر وہ لفظ، جس میں حرفِ "عین" آتا ہو، وہ اصلاً عربی کا ہو گا! مرزا غالب اپنے...