زرنیش آپا کیوں ناراض ہورہی ہیں ۔ میں نےاب کوئی انوکھی بات نہیں کی تھی ۔وہ اس کے پیچھے پیچھے گھر میں داخل ہوا۔
اوہ شٹ اپ شافع! تم نے ایسی بات نہیں کی ۔جانتے ہو ہمارے الفاظ اکثر لوگوں کو وہ اذیت دیتے ہیں ۔جو بڑے بڑے ہتھیار بھی نہیں دیتے ۔کیا تم جانتے ہو تمھارے الفاظ نے اسکو کتنی تکلیف اذیت دی ہوگی ۔وہ بولی ۔
نہیں شافع تم نہیں سمجھ سکتے۔کیونکہ تم کبھی ایسے مراحل سے گزرے ہی نہیں۔
انسان کبھی بھی کسی کا درد تب تک نہیں سمجھ سکتا جب تک وہ محسوس نہ کرلے۔
لیکن ۔۔۔۔۔۔۔۔یہ کہہ کر وہ رکی۔
لیکن پھر بھی اسکو اپنا ررد بڑا لگے گا۔وہ ٹھہر کر بولی ۔
اسکی بات پر اسے واقعی شرمندگی ہوئی۔۔
سوری ۔وہ سر جھکا کر بولے ۔
مجھے کیوں سوری کررہے ۔۔۔۔
شافع اگر کوئی مجھے بولے کہ میں ایک ہاتھ سے معذور ہوں تو تم کیا کرلوگے۔وہ اس کے جھکے سر کی طرف دیکھ کر سوالیہ لہجے میں بولا ۔
میں اسکانہ توڑ دوں گا۔ وہ چلایا ۔
کیوں وہ تو سچ کہہ رہا ہے میں ایک ہاتھ سے معذور ہوں میں اپاہج ہوں۔اس کے لہجے میں لرکھڑاہٹ واضح تھی۔
لیکن آپا اس میں آپکا تو کوئی قصور نہیں وہ تو صرف حادثہ اور یہ تو اللّٰه کی حکمت ہے ۔وہ اسکی طرف دیکھ کرمحبت بھرے لہجے میں کہا۔
واہ شافع بات مجھ پر آئی تو اللّٰه کی حکمت ۔۔۔۔۔
اسی طرح غریب ہونا اسکا قصور نہیں اللّٰه کے کام ہیں اور تم وعدہ کرو آج کے بعد کسی کو بھی یوں نہیں بولو گے۔وہ نظریں اٹھا کر اس کے چہرے کی طرف دیکھ کر بولی۔جہاں شرمندگی واضح تھی۔
میں نہیں کرونگا ۔وہ جھکے سر کے ساتھ بولا۔
اسکی بات سن کر وہ مسکرائی ۔۔
شام کے سائے ڈھلنے لگے ۔رات کی چاندنی ہر سو پھیلنے لگی۔وہ ابھی بھی خوب خرگوش کے مزے لے رہی تھی۔کمرہ گہری تاریکی میں ڈوبا ہوا۔
کمرے کا دروازہ کھلا اور وہ اندر داخل ہوئی
کمرے کے سوئچ بورڈ سے اس نے کمرے کی لائٹس اون کی۔
اٹھ جاؤ بھئی کتنا سونا ہے۔زرنیش نے اسے جگایا۔
امممممم ۔۔۔ابھی تو میں سوئی تھی۔وہ نیند میں کروٹ لے کر بولی۔
میڈم رات کے آٹھ بج گئے ہیں۔وہ کمر پر ہاتھ ٹکا کر بولی۔
اسی بات سن کر وہ اس نے آدھی بند آنکھیں کھولیں اور گھڑی کی جانب دیکھا تو واقعی آٹھ بج گئے تھے ۔
اوہ نو!میں اتنی دیر سو کیسے گئی۔یہ کہتے ہوئے وہ ہڑبڑی میں کہہ کر اٹھی ۔۔
آرام سے بہن۔۔۔۔۔۔۔زرنیش اسکی جلدبازی دیکھ کر بولی ۔
تم فریش ہو کر آؤ میں تب تک کھانا لگاتی ہوں ۔زرنیش اس کےکندھے پرتھپکی دے کر باہر چلی گئی وہ بھی باتھ روم میں چلی گئی ۔
اس وقت وہ سب لاؤنج میں بیٹھے خوش گپیوں میں مصروف تھے۔
مجھے تو ابھی بھی یقین نہیں آرہا کہ شافع نے میرے لیے یہ خوبصورت گھڑی خریدی وہ بھی اپنے پیسوں سے۔فریال بولی۔
یقین تو مجھے بھی نہیں آرہا۔زرنیش بولی۔
اس سے پہلے شافع کوئی جواب دیتا ۔
رافع آگیا۔
السلام علیکم !کیا ہورہا ؟وہ صوفے پر گر کر ٹائی کی ناٹ ڈھیلی کرتے ہوئے بولا ۔
یقین دلایا جاررہا ہے۔زہرام بولا۔
اس پررافع نے سب کی طرف دیکھا فریال پر نظر پڑتے ہی وہ چونک گیا۔
تم۔تم کب آئی۔اس نے پوچھا ۔
کچھ گھنٹوں پہلے۔اس نے رسمی طور پر جواب دیا ۔
رافع نے ایک مکمل نظر اس پر دوڑائی
اورنج پلین سوٹ کندھوں کے گرد اچھی طرح لپٹی شال جس کے اوپر نہایت نفیس کام ہوا تھا اس کی شخصیت کو اور نکھار رہی تھی۔
اس کی نظر اس کی کلائی پر بندھی گھڑی پر پڑی ۔
اور اسے سیکینڈ کے ہزارویں حصے میں پہچان گیا ۔
یہ گھڑی!۔ وہ بولا ۔
مرگئے ۔چل شافع بیٹا کٹ لے ادھرسے ۔شافع منہ میں بڑبڑایا۔
اوہ یہ گھڑی یہ تو مجھے شافع نےدی ہے۔پیاری ہے نہ۔وہ گھڑی کی طرف دیکھ کر مسکراتے ہوئے بولی ۔
بہت۔۔۔اس کے لیے تو اسے شاباشی ملنی چاہیے ۔وہ آستین چڑھاتے ہوئےدانت پیس بولا ۔
اس کی نظر چپکے سے اوپر جاتےشافع پرپڑی ۔
وہ تیزی سے اس کے پیچھے بھاگا ۔
اس سےپہلے وہ کمرے کا دروازہ لاک کرتا وہ اندر داخل ہوگیا۔
تجھے شرم نہ آئی یہ کرتے ہوئے بے حیا انسان بھائی کی چیزیں دوسروں کو دیتے ہوئے تجھے کیا لگا مجھے معلوم نہیں ہوگا ۔رک تجھے بتاتا میں یہ کہہ کر اس نے شافع کوبیڈ پر دھکا دیا اور تکیے سے اسے مارنے لگا۔
رک رک با ۔۔بات تو سن میری مجھے ۔۔وہ بولا ۔
کچھ نہیں سننا ۔وہ اسے مارتے ہوئے دیکھا۔
کچھ سیکنڈز بعد اس نے محسوس کیا شافع کے جسم میں کوئی حرکت نہیں ہوررہی۔وہ ٹینشن میں آگیا۔
شافع۔شافع !اس نے اسے ہلایا ۔
وہ ایک طرف ڈھلک گیا۔
اس سے وہ سکتے میں آگیا ۔
شافع میرے بھائی میری جان اٹھ ۔تجھے پتا ہے نہ کہ می۔ تیرےبغیر ادھوراہوں ۔وہ اسے ہلاتےہوئے بولا۔
شافع سے اور برداشت نہ ہوا وہ آنکھیں کھول کر بولا۔
بھائی دوسرے کی بھی سن لیتے ۔
رافع حیرانی سے اسکی طرف دیکھا اور اسے دھکا دے کر بولا ۔
جان نکال دی تھی میری۔اس نے اسے کھینچ کر خود سے لگایا ۔
میں نے فریال کع نہیں نکالا ۔وہ شرارتی لہجے میں بولا ۔دفعہ ہو۔رافع اسے کہنی مارت ہوئے بولا۔
ویسے لوگ اپنی محبوبہ لے لیے جان بھی قربان کردیتے تو ایک گھڑی کے لیے رورہا چچ چچ۔بہت بری بات ہے ۔شافع آنکھیں بند کرکے شہادت کی انگلی کو نفی میں ہلاتے ہوئے بولا ۔
خدا تجھ جیسا بھائی کسی کو نہ دے۔رافع چڑ کر بولا ۔
اور تجھ جیسا بھائی سب کو دے تاکہ انھیں بھی میرے دکھ کا اندازہ ہو۔شافع گہری سانس لیتے ہوئے بولا ۔
اس کی بات پر رافع صرف سر ہلا سکا۔
**********************************
وہ بیڈ پر لیٹے پنکھے کو گھور رہی تھیں ۔آج نیند انکی آنکھوں سے کوسوں دور تھی ۔
کروٹ لے کر انھوں نے اپنی بیٹی کو دیکھا
دبلی پتلی عام سے نین نقوش تراشے ہوئے باریک ہونٹ ۔گھنی پلکیں۔
حالات نے اسے وقت سے پہلے بڑا کردیا تھا ۔انھیں اس کو دیکھ کر بہت دکھ ہوا۔
ہمیں اس حال میں پہنچانے والوں کو کبھی معاف نہیں کرونگی ۔انکو کبھی معافی نہیں ملے گی۔
اس وقت وہ کتنے سکون کی زندگی گزارہے ہیں مگر خدا کی لاٹھی بے آواز ہے۔دیکھنا اسکا حساب کیسا ہوگا ۔انکا انجام دیکھنا تم۔وہ اس کو دیکھتے ہوئے سوچ رہی تھیں ۔
********************************
ہر طرف اسٹوڈنٹس کا رش تھا سب کع لسٹ میں اپنا نام دیکھنے کا شوق تھا ۔
اففففف یار اتنے لوگ کہیں چائنہ کی آبادی تونہیں ۔ماہنور بولی۔
تم نے ہی پھنسایا ہے مجھے یہاں اور دوسری میری اماں نے۔ پتہ نہیں کیا شوق ہے انہیں مجھے پڑھانے کا ۔
ایک منٹ مجھ کو نام دیکھنے دے ۔
ماہنور اچک کر نام دیکھنے لگی۔
پہلے نمبر پر ۔۔۔۔۔۔۔۔
فریال یوسف ۔۔۔
دوسرے نمبر پر شافع نشاط۔
تیسرا کس کا ہے۔۔۔۔۔۔
رافع ارشاد ۔۔۔۔۔۔۔
چوتھا نام ہے ۔۔
مشعل مصطفٰی
اوئے مشعل تیرا چوتھا نام ہے ۔۔۔
مشعل اسکی بات سن کر حیران ہوگئی ۔
اس نے پوری لسٹ چھان ماری ۔۔۔
مگر اسکا نام کہیں بھی نہیں تھا ۔
شکر الحمداللّٰه۔اس نے سکون کا سانس لیتے ہوئے کہا۔
اب کیا کرنے کا ارادہ ہے۔مشعل نے ہوچھا۔
کچھ نہیں یار اکیڈمی کی طرف سے ایک ٹیوشن کی آفر ہوئی ہے وہی جاؤں گی آج پہلا دن ہے اور ویسے بھی میرا اب یہاں پڑھنے کا ارادہ بھی نہیں تھا۔جتنا پڑھ لیا اتنا ہی سہی ہے۔
چلو بیسٹ آف لک۔مشعل نے کہا ۔
***************************
اوہ مائی گوڈ واؤ میری فرسٹ پوزیشن آئی ہے مجھے تو ابھی بھی یقین نہیں آرہا پنجاب یونیورسٹی جہاں پڑھنا خواب لگتا تھا۔اب وہ حقیقت بننے جارہا ۔فریال کے لہجے میں خوشی واضح تھی
میڈم ادھر ہم بھی آپ کے ساتھ ہیں۔شافع بولا جو پچھلے آدھے گھنٹے سے اس کے ڈائلاگ سن رہا تھا ۔
ہاں تو میں منع کب کیا مسٹرشافع نشاط ۔وہ بولی۔
ویسے فریال ایک بات تو بتاؤ تمہیں اس یونیورسٹی میں پڑھنے کا شوق کیوں تھا ملتان میں بھی تو اچھی اچھی یونیورسٹیز ہیں۔شافع نے پوچھا۔
پتہ نہیں لیکن یہ یونیورسٹی ہمیشہ مجھے اپنی طرف کھینچتی ہے یہاں کچھ ایسا تو ہے۔ جب بھی خیال آتا تواسی یونیورسٹی کا۔
میری ماما بھی اسی یونیورسٹی میں پڑھی بابا بھی اس وجہ سے مجھے اس سے لگاؤ ہے۔وہ ایک سحر میں کھو کر بولی ۔
ہمممممم یعنی تم اس یونیورسٹی میں اپنا ہم سفر ڈھونڈنا چاہتی یو۔وہ بولا۔
افففف شافع تم کبھی نہیں سدھر سکتے۔فریال اسکی بات سن کر بد مزہ ہوگئی اور وہاں سے چل پڑی۔
ارے میں نے کیا کہا۔شافع بھی اسکی پیچھے چل پڑا ۔
وقت ان لوگوں کو پھر اسی جگہ لے آیا جہاں سے شروع ہوئی تھی ایک داستان محبت لیکن اسے نظر لگ گئی ۔کیا وہ راز کھلنے جاررہے ہیں جن کو ان بچوں سے چھپا کر رکھا گیا۔کیا یہ لوگ ذریعہ بنے گے بچھڑے لوگوں کے ملاپ کا۔کیا ہوگا کوئی نہیں جانتا سوائے وقت کے۔
****************(*******\\\\\
ٹنگ ٹنگ!!وہ پچھلے پانچ منٹ سے گھر کی بیل بجا رہی تھی مگر دروازہ ابھی تک نہہں کھلا تھا ۔
کیسے لوگ ہیں عجیب۔وہ خفت زدہ ہوکر بولی۔
ایکسیوز می!اس سے پہلے وہ دوبارہ بیل بجاتی ۔ایک مردانہ آواز ااکے کانوں میں پڑی۔
جی
اس نے مڑ کر دیکھا وہاں ایک خوبصورت نوجوان کھڑا تھا ۔
جی؟وہ بولی ۔
آپ کوں ہیں اور اس گھر کی بیل کیوں بجا رہی ہیں اس نے اسکا بھر پور جائزہ لیتے ہوئے کہا۔
جی میں اکیڈمی کی طرف سے آئیں ہوں مجھے کہا گیا تھا کہ یہاں ٹیوشن کی ضرورت ہے لیکن یہاں تو دروازہ ہی نہیں کھل رہا۔وہ بولی۔
آپ مس ماہنور تنویر ہیں؟اس نے پوچھا ۔
جی لیکن آپ کو کیسے پتا ۔وہ حیران ہوکر بولی۔
جی میرا نام تابش آفندی ہے۔یہ میرا ہی گھر ہے اور وہ بچے میرے بھتیجے بھتیجین ہیں جو آج تو گھر پر نہیں ہیں۔لیکن آپ اندر آئیے۔وہ بولا۔
لہجے اور شکل سے تو خوش اخلاق لگ رہا ہے آگے کا معلوم نہیں ۔اس نے دل میں سوچا ۔
نہیں شکریہ چلنا چاہیے ۔وہ یہ کہہ کر وہاں سے چلی گئی ۔
وہ بس اسے جاتا ہوا دیکھ سکا ۔
************************************
دیکھ جمشید!تجھے بھی ہمارے گھر کی روایات کا پتا ہے یہاں منگ منکوحہ کی حیثیت رکھتی ہے تو نے پوری برادری میں منہ کالا کردیا ۔ساجد بولا ۔
بھائی صاحب میں مجبور تھا ۔
ارے چچا کیوں بہانے لگارہا ہے پورے گاؤں کو پتا ہے اصل بات۔انور نے منہ سے پان تھوکتے ہوئے کہا ۔
تجھے بڑوں سےبات کرنے کی تمیز نہیں۔ جمشید بولا ۔
ارے چچا عزت اور تمیز کی بات تو توچھوڑ۔ اپ بتا کیا کرنا ہے۔انور ٹانگ پر ٹانگ چڑھا کر بولا ۔
میری بیٹی کی رخصتی ہوگئی ہے وہ اب شادی شدہ ہے جائیں یہاں سے آپ لوگ ۔جمشید کڑک لہجے میں بولا ۔
اری او جمشید ۔تو نے ہمارے بیٹے پر اس کسان کو فوقیت دی۔ ارے کہاں میرا بیٹا اور کہاں وہ کسان کا خون ۔بیٹی کو راج کرانے کی بجائے تو بے اسے کام والی بنادیا۔عقل کہاں گئی تھی تیری۔ساجد دوبارہ بولا
بھائی صاب جب میری بیٹی کو کوئی اعتراض نہیں تو آپ لوگوں کو کیوں مسئلہ ہو رہا ہے میری بیٹی وہاں شادی کرنا چاہتی تھی میں نے کروادی ۔وہ طمانیت سے بولا ۔
ارے توبہ کیسا دور ہے بےحیائی کا بیٹی سے کون پوچھ کر شادی کرواتا ۔ساجد کانوں کو ہاتھ لگا کر بولا
کیوں اسکی شادی تھی نہ تو اس سے پوچھ کر ہی ہونی تھی اب جائیں یہاں سے آپ لوگ۔اسکی برداشت ختم ہوگئی اور وہ چلا کر بولا ۔
انہہہہ ایک تو چوری اوپر سے سینہ زوری۔چل انور یہاں تو خون ہی سفید ہیں ۔ساجد یہ کہہ کر چلا گیا۔
جمشید سرپکڑ کر رہ گیا ۔
***************************
مشی کیا کررہی ہو۔کنزہ بیگم نے اسے جاگتے ہوئے دیکھا ۔
کچھ نہیں امی نیند نہیں آرہی تھی تو بس کتاب لے کر بیٹھ گئی ۔
امی دل بے چین ہورہا کل پہلا دن ہے۔مانو بھی ساتھ نہیں اماں میں کیا کروں گی گھبراہٹ ہوررہی ہے۔
بیٹا گھبرانا نہیں اور میری بات یاد رکھنا وہاں بہت سے لوگ ہونگے کسی سے زیادہ دوستی رکھنے کی ضرورت نہیں ۔میں نہیں چاہتی جو غلطی میں نے کی وہ تم بھی کرو۔
ہممممم امی مجھے معلوم ہے۔آپکو مجھ پر یقین رکھنا ہے اور میں وعدہ کرتی لوں آپکا اعتبار کبھی نہیں توڑوں گی۔
***********************\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\
شافع ،رافع۔ جلدی چلو آج پہلا دن ہے اور تم لوگوں کی وجہ سے مجھے بھی دیر ہوجائے گی۔آج پہلا دن ہے اور تم لوگوں کی تیاریاں ہی مکمل نہیں ساری رات کر کیا رہے تھے۔وہ بولی۔
کم ڈاؤن مائی سسٹر! رات کو تو ہم سو رہے تھے ۔اینڈ ہم دونوں ریڈی ہیں وہ دیکھو رافع بھی آگیا ۔لیکن آپکے بڑے ماسٹر صاحب نہیں آئے ۔۔۔۔شافع اس کے سامنے آکر بولا۔
ماسٹر صاحب؟؟؟؟فریال نے ناسمجھی سے کہا ۔
جی لیجیۓ ۔۔
با ادب ہوشیار ۔۔۔۔۔۔۔۔اور کیا ہوتا ہے؟شافع نعرہ لگاتے ہوئے روکا اور پوچھا ۔
اسکی اس حرکت سے رافع بد مزہ ہوا۔
ماسٹر صاحب باہر ہیں چل اب نکل۔وہ بولا اور اسے گردن سے پکڑ کر باہر لے گیا ۔
ملیۓ ہمارے نیو ماسٹر صاحب سے۔شافع سیلیوٹ کرکے بولا ۔
شافع اگر تم نے اب کچھ الٹا سیدھا بولا تو تمہاری یہی پریڈ کرواں گا محلے کے سب بچوں کو اکٹھا کر کے۔زہرام نے اسے کہا ۔
اوکے ۔چلو کھڑے کیوں ہو۔شافع فریال اور رافع کو دیکھ کر بولا جو اپنے مسکراہٹ دبارہے تھے
**********************
تیز تیز قدم بڑھائے وہ یونیورسٹی کی طرف بڑھ رہی تھی۔
پہلا دن ہے مانو بھی ساتھ نہیں پتا نہیں کیا ہوگا کیسے کیسے لوگ ہونگے بہت امیر امیر گھر کے بگھڑے بچے ہونگے۔میں کیا کرونگی۔۔وہ یونیورسٹی کی طرف دیکھتے ہوئے سوچ رہی تھی۔
سوچو میں وہ اتنی محو تھی سامنے سے آتی گاڑی کو دیکھ نہ پائی اور اس سے ٹکراتے ٹکراتے بچی۔
ہیلو میڈم ! سڑک پر چلتے ہوئے اپنی نظریں سڑک پر مرکوز رکھیں۔زہرام گاڑی سے باہر جھانک کر بولا ۔
اسکی بات میں چھپا طنز مشعل کو بخوبی سمجھ آیا ۔
وہ اسکی طرف دیکھے بغیر گزر گئی ۔
زہرام کی نظروں نے دور تک اسکا پیچھا کیا ۔
*******************************
زرنیش اپنے لیے چائے کا کپ بناکر لاؤنج میں داخل ہورہی تھی اچانک اسکی ٹکر شموئل کے ساتھ ہوگئی اور چائے کے داغ شموئل کی سفید شرٹ پر لگ گئے ۔
سو سوری شموئل بھائی ۔زرنیش گھبرا کر بولی ۔
تم ہمیشہ دوسروں کا کام برباد کیوں کرتی ہو۔تمہیں ہمیشہ وہ کام کرنے کا کیوں شوق کوتا ہے جو تمہارے لیے بنا ہی نہیں۔
زرنیش تمہاری اسی حرکت کی وجہ سے کسی نے اپنی جان گنوادی ۔وہ سخت لہجے میں بولا۔
اسکی اس بات پر اس نے سر اٹھا کر دیکھا آنسو نکلنے کے لیے بے تاب تھے ۔
مگر سامنے والا تو پتھر کا تھا ۔جس پر کچھ اثر نہیں کرتا۔
اس کے الفاظ زرنیش کے لیے بہت تکلیف دہ تھے۔
مگر اسے کیا فکر ان باتوں کی۔
وہ وہاں سے چلا گیا ۔
کیوں مجھے ایسے ۔ کاش وہ حادثہ نہ ہوا ہوتا تو آج میں یوں اپنی دوست اور بازو سے محروم نہ ہوتی ساری غلطی میری تھی ۔ززرنیش نے سوچا آنسو جو آنکھوں میں بے تاب تھے وہ چھلک کر گالوں پر آگئے ۔
************”********************
ہائے !کیا میں یہاں بیٹھ سکتی ہوں ۔فریال نے مشی سے کہا جو کینٹین میں بیٹھی کتاب پڑھ رہی تھی۔
اس نے سر اٹھا کر دیکھا اور دوبارہ کتاب پڑھنے لگ گئی ۔
فریال کندھے اچکا کر پیٹھ گئی۔
میرانام فریال یوسف ہے۔۔۔۔۔۔۔۔وہ بولی۔
مشی نے اسکی طرف دیکھا ۔
مشعل۔۔۔۔مشعل مصطفیٰ ۔اس نے جواب
نائیس نیم کون سے ڈیپارٹمنٹ سے ہیں ۔۔اس نے دوبارہ پوچھا ۔
آرٹس۔وہ مختصر سا جواب دے کر بولی۔
میں انجینئرنگ ڈیپارٹمنٹ سے۔۔۔۔۔وہ بولی۔
اسکی بات سن کر وہ مسکرائی۔
اتنے میں فریال کے فون ٹون بجی اس نے دیکھا مسیج تھا۔
اس نے مشی کی طرف دیکھ کر کہا اچھا چلتی یوں میرے کزنز ڈھونڈ رہے ہے دوبارہ ملاقات ہوتی ۔
یہ کہ کر وہ طلی گئی۔
مشعل دوبارہ اپنے کتاب پڑھنے میں مصروف ہوگئی۔
*************************
تو آپ ہیں ماہ نور۔۔۔۔آئے میں آپکو نگہم اور آریز سے ملواتی ہوں۔مسز سہیل ماہنور کو اندر لاتے ہوئے بولیں۔
ماہنور نے انکا بھرپور جائزہ لیا ۔
خوبصورت سی ساڑھی پہنے جس کے بارڈر اور باززؤں پر نفیس کام ہوا تھا۔
باب کٹ سٹائل میں کٹے بال ۔۔انکی شخصیت کو چار چاند لگارہا تھا ۔
یہ لیں آگئے بچے۔۔۔۔۔۔اس نے آریز اور نگہم کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا۔
اس نے دیکھا دونوں کیوٹ کیوٹ بچے چھوٹے چھوٹےبیگ پکڑے اسکی طرف محبت سے دیکھ رہے تھے۔
ماہنور نے انکی طرف دیکھ کر اسمائل کی۔
بچے بھی مسکرائے۔
بچو جاؤ آپ نیو ٹیچر کے ساتھ۔مس ماہنور آپ سے پھر کبھی فرصت سے بات ہوگی ابھی مجھے جانا ہے یہ کہہ کر وہ چلی گئیں۔
ماہنور بچوں کے ساتھ ڈرائنگ روم میں آگئی۔
تو بچوں آپ لوگ ایک ہی کلاس میں پڑھتے ہو ؟اس نے پیار سے پوچھا جس پر دونوں نے سر ہلایا ۔
تو پہلے آپ لوگوں نے کون سا ہوم ورک کرنا ہے۔
اردو کے محاورے۔آریز بوکا ۔
تو چلیں نکالیں ۔وہ بولی۔
*******************
السلام علیکم !تابش نے کمرے میں داخل ہوتے کوئے کہا ۔
ماہنور جو بے نیازی سے بچوں کو پڑھا رہک تھی ایک دم سیدھی ہوئی اور دوپٹہ سر پر اوڑھا ۔
تابش کی نظروں سے یہ حرکت چھپی نہ رہ دکی اس کے چہرے پر ایک دھیمی سی مسکراہٹ آئی۔
مس تنویر اگر آپ فری ہیں تو چلیں میں آپکو ڈراپ کر آؤں۔وہ ماہنور کو براہ راست مخاطب کرتے ہوئے بولا
جی میں خود چلی جاؤں گی۔
آپ ہمارےگھر آئیں ہیں اب یہ ہماری ذمہ داری ہے کہ آپکو بخفاظت آپ کے گھر پہنچاۓ ۔وہ اسکی طرف دیکھ کر فارمل لہجے میں بولا ۔
اسکی بات پر اسنے سرجھکالیا۔وہ اس کے اس طرح دیکھنے پر نروس ہورہی تھی۔
میں پانچ منٹ میں آرہا ہوں۔یہ کہہ کر وہ اپنے کمرے کی جانب بڑھ گیا ۔
اس کے جانے کے بعد اسنے سکھ کا سانس لیا ۔
************************
السلام علیکم ماما کیسی ہیں آپ۔فریال نے فون کان سے لگاتے کوئے کہا ۔
وعلیکم السلام کیسی یو اور کیسا رہا آج کا دن میری بیٹی کا ۔رحمہ بیگم دوسری طرف سے بولیں۔
بہت اچھا بہت بڑی یونیورسٹی تھی اور بہت مزہ آیا آپ بتائیں میرے بغیر کیسے کرلیتی ہیں گزارا۔بابا کیسے ہیں؟؟یادنہیں آتی انکو میری ۔وہ نروٹھے پن سے بولی۔
ایسا کچھ بھی نہیں سب تمہیں یاد کرتے ۔وہ مسکرا کر بولی۔
ارے!بس کرو پھپھو کو بھی تنگ کررہی ۔۔آدھے گھنٹے سے لگی ہوئی چلو آجاؤ کھانا لگ گیا ہے کھالو آکر۔شافع آ کر بول اچھا ماما میں فون رکھتی آپ سے بعد میں بات کرتی ۔وہ فون رکھتے یوئے بعلی۔
چلو ۔فون رکھنے کے بعد وہ بولی۔
**************************
ماہنور خاموشی سے گاڑی میں بیٹھی ہوئی تھی ۔تابش گاڑی ڈرائیو کررہا تھا اوروقفے وقفے سے فرونٹ مرر سے اسے دیکھتا۔
مس تنویر آپکا گھر کیا مینار پاکستان ہے یا چڑیا گھر ؟؟اس نے سنجیدگی سے پوچھا۔
ماہنور اسکی بات کا مفہوم نہیں سمجھی۔
جی کیا کہنا چاہ رہے ہیں آپ ۔۔۔اس نے پوچھا ۔
مطلب کہ مجھے آپکے گھر کا ایڈریس نہیں معلوم ۔وہ بولا لہجے میں سنجیدگی واضح تھی ۔
ماہ نور اسکی بات سن کر بہت شرمندہ ہوئی اور ایڈریس بتایا ۔
تابش نے چپکے سے اسے دیکھا ہلکا سا تبسم اس کے ہونٹوں پر بکھرا۔
*****************
شام ڈھلنے کو تھی ۔ وہ ساحل پر کھڑا سمندر کا نظارا دیکھ کر رہا تھا اور ساتھ ساتھ سگریٹ کے کش لگارہا تھا۔
اسکا ہم راز اور جا نشین دوست اس کے پاس کھڑا افسردہ نگاہوں سے دیکھ کر بولا ۔
تین سال ہوگئے ہیں اسے گئے ہوئےتو بھول کیوں نہیں جاتا اسے ۔وہ بولا جبکہ وہ حواب جانتا تھا۔
تین سال تین سال ،!فائز میں کیسے زندہ ہوں ہو اسکے بنا۔کیوں چلی گئی اسے معلوم تھا عشق کی آخری حدود تک میں اسے چاہتا تھا ۔ میں رزنیش کو کبھی معاف نہیں کرونگا وہ زمہ دار ہے سب کی ساری غلطی اسکی ہے نہ وہ اتنی ضدی ہوتی نہ وہ اسے اس رات اپنے ساتھ لےکرجاتی نہ وہ حادثہ ہوتا وہ ہے قصور وار۔۔۔وہ سگریٹ کا کش لگا کر بولا ۔اس کےلہجے میں کیانہیں تھا دکھ تھا اور نفرت تھی زرنیش کے لیے ۔
شموئل!زرنیش کا کیا قصور اس کا بھی تو ہاتھ۔۔۔۔۔۔ابھی اسکی بات مکمل نہیں ہوئی تھی کہ شموئل نے ہاتھ کے اشارے سے روک دیا۔فائز چپ کرگیا۔فائز جانتا اسے زرنیش کی حمایت میں کچھ کہنا پسندنہیں تھا ۔
وہ سمندر کع دیکھتا ہعا سگرٹ کے کش لگاریا تھا ۔
اداس مت رہا کر۔فائز افسردہ لہجے میں بولا۔
تم اداسی کی بات کرتے ہو
ہم زندگی اجاڑ بیٹھے ہیں۔
وہ طنزیہ مسکراکر بولا
*********************
شموئل بھائی دیکھیں مجھ کو چوٹ لگ گئی ۔آٹھ سالہ روتی ہوئی زرنیش نے بارہ سالہ شموئل سے بولی۔
ارے میری گڑیا کوچوٹ لگ گئی۔دیکھاؤ۔شموئل نے پیار سے اس کا ہاتھ پکڑ کر دیکھا ۔
تھوڑی سی چوٹ ہے ابھی میجک سے صحیح کردیتا ہوں۔وہ آنٹمنٹ لگا تے ہوئے بولا ۔
اسکی بات سن کر وہ مسکرائی ۔
دیکھو ٹھیک ہوگیا۔وہ ہنستے ہوئے بولا ۔
زرنیش آہستہ آہستہ چلاؤ مجھے ڈر لگ رہا ہے۔وردہ ڈرتے ہوئے بولی۔
اوہ کم آن تم تو بھائی سے زیادہ ڈرتی ہو۔زرنیش رش ڈرائیونگ کرتے ہوئے بولی۔
ویسے بتاؤنگی بھائی کو کہ ان کی دل عزیز منکوحہ رش ڈرائیونگ سے ڈرتی ہیں۔زرنیش اسکی طرف دیکھ کر شرارتی اندازمیں بولی۔
وردہ کےچہرے پر گلابی رنگ دیکھ کر زرنیش اور موڈ میں آگئی۔
اوئے ہوئے میری پیاری بھابھی جان۔وہ وردہ کا گال کھینچتے ہوئے بولی ۔
اسی اثنا میں سامنے ایک ٹرک آگیا وردہ نے ززنیش کو کھینچ کر خود سے لگایا گاڑی میں ایک دلخراش چیخ بلند ہوئی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اس نے آنکھیں کھولی۔خیالوں کی دنیا سے وہ باہر آئی۔
پرانی یادیں بھی کتنی خوبصورت ہوتی ہیں۔
لوٹ آو اے خوبصورت یادوں۔۔۔۔۔۔۔۔
مخلصی اور دوستی سے بھرے زمانے
کہاں کھوگئے ہیں وہ زمانے۔۔۔۔۔۔۔۔۔
لوٹ آؤ کہ بہت یاد آتی ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
تھک گئے ہیں اس نفرتوں کے سائے میں جی کر
لوٹ آؤ کے بہت یاد آتے ہیں ۔
وہ جان قربان کردینےوالےدوست ۔۔۔۔۔۔۔
وہ خود سے زیادہ چاہنے والے رشتے۔۔
پرانی یادیں ہمیشہ خوبصورت ہی کیوں رہتی ہیں؟؟؟یہ وہ سوال تھا جس کا جواب اس کے خود کے پاس بھی نہیں تھا۔
بعض اوقات ہماری زندگی میں ایسے حادثے کیوں رونما ہوتے ہیں جو ہمارے ہردلعزیز رشتوں کو ہم۔سے دوع کردیتے ہیں اور بدلے میں صرف دکھ دیتے ہیں ۔۔۔یہ وہ سوال تھے جس کا جواب وہ شاید کبھی تلاش نہیں کرپاتی۔
مگر شاید وہ یہ نہیں حانتی کہ ہر زحم کا مرہم ہوتا ہے ۔
******************************:
: ہم نے خود سے چھپا کے رکھا ہے
یار من کا……. خیال پوشیدہ !!!!
وہ ابھی اپنے کمرے میں آیا تھا ۔جیسے ہی وہ بیڈ ہر ریلکس ہوکر بیٹھا تو اس کی سوچوں کا مرکز ماہنور تھی۔
وہ کیوں اس کے بارے میں سوچ رہا تھا اسے خود بھی معلوم نہیں تھا ۔
شاید اسے محبت ہوگئی تھی مگر وہ شاید اس بات کا اقرار نہ کرتا کیونکہ ابھی اس بات کا خود بھی یقین نہیں تھا ۔
تابش آفندی کا شمار ان مردوں میں ہوتا پے جن کا اس بات پر یقین ہے کہ وہ محبت کا کوئی وجود نہیں یہ صرف فلمی اور ڈرامائی طور پر دیکھائی جاتی ہے۔
لیکن محبت تو اسے بھی ہوگئی تھی۔پہلی نظر کی محبت وہ بھی ماہنور تنویر سے۔۔۔۔۔
کیا تابش آفندی کبھی اس بات کا اقرار کرے گا کہ اسے ماہنور تنویر سے محبت ہوگئی ہے۔۔۔۔