کیسی ہو ارشیا ۔۔۔؟ یہ پوچھنے والی صبیحہ تھی ۔
ٹھیک ہوں ۔۔ ارشیا نے مختصر جواب دیا ۔۔
ہممم لگ تو نہیں رہی ۔۔۔ ہانیہ نے فورا اسکا چہرہ دیکھتے ہوئے کہا ۔۔۔
ارشیا نے اسے کوئی جواب نہ دیا ۔۔۔
تبھی اعظم چاچا اسکے لیے چائے لائے ۔ ارشیا بیٹی یہ چائے اپکی ۔۔
ارشیا اور صبیحہ نے نے اعظم چاچا کو دیکھا۔
میں چائے نہیں مانگوائی ۔ اعظم چاچا ۔
اچھا مجھے تو اشعر بیٹا نے کہا کہ اپ۔کو دینی ہے چائے ۔۔ وہ چائے رکھتے واپس چلے گئے ۔
ارشیانے جہاں چائے کو دیکھا وہی صبیحہ کا دل کیا وہ چائے اٹھا کر دیوار پردے مار ۔
ہانیہ دونوں کی حالت سے محظوظ ہو تی رہی ۔جب کوئی کچھ نہ بولا تو
ہانیہ نے بات شروع کرتے اشعر کو بہت فکر تمہاری ارشیا ۔۔۔ دیکھو تم ائی اور اسنے چائے بھیج دی ۔۔۔ ساتھ طنزیہ مسکرائی ۔۔۔
ارشیا کو وہ طنز اتنا برا نہ لگا جتنا صبیحہ کو ۔
صبیحہ اسے دیکھتے ۔۔۔۔ سنبھال کر ارشیا جو دیکھتا ہے ویسا ہوتا نہیں ۔۔۔ کسی کی ہمدردی مہنگی بھی پڑ سکتی باقی تم سمجھ دار ہو کہتے وہاں سے چلی گئی وہ غصے میں کچھا اور کہہ کر اپنا پلان خراب نہیں کرنا چاہتی تھی ۔۔۔۔۔
ہانیہ اسے دیکھ کر مسکراتے اپنی ٹیبل پر بیٹھ گئی ۔۔۔۔
ارشیا صبیحہ کی بات سمجھ نہ سکی ۔ کیا وہ اشعر کے بارے میں کوئی غلط فہمی پالنے سے اسے روک رہی تھی یا اسے کچھ سمجھا رہی تھی اشعر سے متعلق ۔۔ اسنے اسی کشمکش میں فائل اٹھائی تو ایک کارڈ نیچے گرا اسنے کارڈ اٹھا کر دیکھا تو صرف سوری لکھا تھا وہ سوری دیکھتے سمجھ گئی کہ کون کر سکتا ۔ایسے سوری صرف اشعر اسے بولتا تھا ۔ اسنے بنا کچھ سوچے وہ کارڈ پھاڑ کر ڈسبن میں پھینک دیا ۔
اور چائے اٹھا کو واپس دے ائی ۔۔۔
وہی اشعر جو اس کی اس حرکت کو دیکھ رہا تھا اسے سمجھ نہ ایا ارشیا کی ناراضگی ۔۔۔۔ کل کی اسکی حرکت جتنا اسے حیران کر گئی تھی وہی اج اس کا ایسا کرنا اسے تشویش میں ڈال رہا تھا ۔۔۔۔۔
اصف اور اقصیٰ نے دن بھر کل سے متعلق اس سے کوئی بات نہیں کی تھی اور ارشیا بھی خود کو ایسے ظاہر کرتی رہی جیسے وہ بہت مصروف ہے باقی سب اسے دیکھ دیکھ کر باتیں کرتے جیسے ا س کو ڈسکس کرنے کے علاؤہ کوئی کام نہیں ۔۔۔۔۔
وہ اشعر سے کوئی فائل۔لینے گئی جب ہانیہ اور صبیحہ ڈسک پر بیٹھے اسے اور اشعر کو ڈسکس کررہی تھیں ۔
واقعی اشعر یہ صرف اسی وجہ سے کررہا ۔۔۔۔یہ سوال۔ہانیہ کی طرف سے تھا ۔۔۔
صبیحہ خود جو مصروف ظاہر کرتے ساتھ ساتھ ہانیہ۔کو بتا رہی تھی ۔۔۔
ہاں بالکل ۔ اسنے خود مجھ سے کہا ۔۔ ہم اچھے دوست ہیں پورا دن افس میں بھی ساتھ ہوتے ہیں ۔۔ تو بندے کی نیچر کا پتہ چل۔ہی جاتا ہے ۔۔۔۔ اور اس کا مین ٹارگٹ ہی ارشیا ہے فئ حال ۔
پر ارشیا ہی کیوں ؟؟؟ ہانیہ۔نے تجسّسو سے پوچھا۔۔۔
ارشیا نے اتے ہی اسے کوئی لڑائی کی تھی ۔ پر بعد میں اسنے معافی مانگ لی تھی ارشیا سے لیکن تب تک وہ اسے زیر کرنے کا سوچ چکا تھا ۔ یار وہ ہے ہی فلرٹی ۔۔۔۔۔ کہتا کافی بدلنے کی کوشش کرتا ہوں پر ارشیا کو ن دیکھ وہ پھر سے ویسا ہوتا جا رہا ہے ۔ وہ ارشیا سے ٹائم پاس کر رہا ۔ بس اس کی نظر میں خود کا بہت اونچا مرتبہ دیکھنا چاہتا ۔۔۔۔
ہانیہ نے فورا تم یہ سب ارشیا کو کیوں نییں بتاتی ؟؟؟
اشعر دوست ہے میرا۔ اسنے مجھے اپنا رازدار بنایا ہے پھر محبت میں انسان اگلے پے آنکھیں بند کر کے اسکی ہر غلطی گناہ کو بس ایک اس کا عمل سمجھتا ۔۔ مجھے بھی اشعر کا یہ سب کرنا فئ حال بس اس کا ایک ایڈونچر لگ رہا ۔۔
ارشیا کو لگا اس سے مزید کچھ نہیں سںنا جائے گا ۔ وہ بنا کچھ پوچھے سوچے واپس اگئی ۔ انکھوں سے آنسوؤں جاری تھے ۔ بہت دونوں سے ایک چیز برداشت کرتے کرتے جیسے اسکی ہمت جواب دے گئی ۔ وہ سر جھکائے اپنے آنسوؤں کو۔روکنے کی ناکام کوشش کرتی رہی ۔ جب نہ روک پائی تو تھک کر واش روم چلی گئی __________
ادھر اصف اور اشعر کھڑے اپنی پریزنٹیشن دیکھ رہے تھے ۔۔۔۔ ۔ اشعر کا دھیان پریزنٹیشن میں نہیں تھا ۔ آصف اسے سب بتاتا جا رہا تھا پر وہ جیسے کل اور اج کی ارشیا کی حرکت کو ذہن سے نہیں نکال پا رہا تھا
اصف نے دو دفعہ اس سے پوچھا کہ تم بتاؤ مجھے تو کل۔کی پریزنٹیشن مجھے تو بالکل ٹھیک لگی رہی کوئی کمی ہے تو تم مجھے بتاؤ ۔۔۔
جب دو دفعہ پوچھنے کے بعد بھی اسکا جواب نہ ایا تو اشعر کا چہرا دیکھتے جو دیکھ تو لیپ۔ٹوپ۔کی سکرین رہا تھا ہر دھیان کہیں اور تھا ۔۔۔۔
اشعر۔کے کندھے پر ہاتھ رکھتے تم ٹھیک ہو ۔۔۔
اشعر نے چونک کر اسے دیکھتے ہاں ٹھیک ہوں کیوں کیا ہوا ۔۔۔
آصف نے لیپ ٹوپ بند کر تے ۔ تمہارا اور ارشیا کا جھگڑا ہوا ہے ۔ اشعر نے حیرانی سے اسے دیکھا تو اصف نے اشعر کو بنا دیکھے ۔ تم دونوں نہ بات کررہے ہو نہ پہلے کی طرح اب چھوٹی چھوٹی باتوں پے بحث کرتے ہو ۔ ڈنر کے بعد سے تم دونوں بدلے بدلے ہو ۔۔۔۔۔۔ اور کل کو جیسے اسنے ری ایکٹ کیا ۔ وہ اتنی شورٹ ٹمپر نہیں ہے نا ہی کبھی اسنے ایسا ری ایکٹ کیا ہے بہت ہی سلجھی ہوئی ہے ۔ تمہارے ساتھ ایسا رویہ کچھ تو ہوا پے تم دونوں کو ۔۔۔ اب ٹوٹل اشعر کودیکھتے ۔
اشعر نے جیسے کچھ سوچتے ہوئے مجھے پتہ ہے وہ باقی لڑکیوں کی طرح نہیں ہے ۔ میں سمجھ نہیں پا رہا اسے ۔۔۔ وہ ایک پہلی بنتی جا رہی ہے ۔۔۔۔ وہ کچھ اور کہتا جب ارشیا نے اصف کو اواز دی ۔
اصف تمہیں سر وقار بولا رہے ہیں ۔
آصف ۔نے ہاں میں سر ہلایا۔۔ میں چلتا ہوں کہتے وہاں سے چلا گیا ۔ ارشیا ابھی تک۔کھڑے اشعر کو دیکھ رہی تھی ۔ اشعر نے بھی ارشیا کو دیکھا پر کچھ کہا نہیں جیسے سوچ رہا ہو کہ بات کرے یا نہیں ۔۔۔۔ یہ پہلا دن تھا جب اشغر کو یہ سوچنے کی ضرورت پڑی تھی ۔۔۔۔
ارشیا سےجب مزید ضبط نہ ہوا تو وہ موڑ کر جانے لگی اشعر نے اسکا ہاتھ پکڑتے روکوں بات کرنی ہے مجھے ۔۔۔۔
ارشیا نے غصے سے موڑ کر دیکھا ساتھ ہی ہاتھ کھینچ لیا ۔
اشعر نے اسے شوکڈ طریقے سے دیکھا ۔
آئندہ مجھے ہاتھ مت لگانا ۔۔۔ارشیا نے انگلی دیکھاتے اسے وارن کیا ۔۔۔
اشعر نے اسے پہلے ایسے کبھی نہیں دیکھا تھا ۔۔۔
صبیحہ اور ہانیہ وہاں ابھی ائی پر اشعر اور ارشیا کو دیکھتے روک گئیں ۔۔۔
ٹھیک ہے نہیں ہاتھ لگاوں کا لیکن مسئلہ کیا ہے تم کل سے میرے ساتھ ایسا کیوں کر رہی ہو ۔؟؟؟
میں تمہیں صفائی دینا ضروری نہیں سمجھتی ارشیا ہر لفظ پر زور دیتے ہوئے بولی ۔۔۔۔
اشعر نے خود کو نارمل کرتے لہجہ سنجیدہ رکھتے ۔ پر کیوں اتنے دن کی دوستی ہے ہماری لوکیگز ہیں ہم اتنا حق ہے میرا کہ۔میں جان سکوں
ارشیا نے اسکی بات کاٹتے تمہارا کوئی حق نہیں ہے اور دوست ہم کبھی بھی دوست نہیں تھے تمہیں تو شاید دوستی کا مطلب بھی نہیں پتہ ہو گا ۔۔۔۔
اشعر نے تم ایسے کیسے کہہ سکتی ہو ۔۔؟؟ تم جانتی ہی کتنا ہو میری کو دوستی؟؟؟
ارشیا نے غصے سے د یکھتے جتنا جان چکی ہو تمہیں مسٹر اشعر مزید جاننے کی خواہش بھی نہیں ہے میری
مجھے بھی تو پتہ چلے کیا جانتی ہو تم میرے بارے میں ۔۔۔ اشعر ,,نے بھی اب اپنے لہجہ پرزور دیتے ہوئے کہا ۔۔۔۔
ارشیا کو جیسے اسکا لہجہ اسکی ڈھٹائی اسکی لاعلمی سب تیش دلا گئے ۔غصے میں اس نے جو بولنا شروع کیا ۔ پھر نہ روکی تم جیسا گھٹیا شخص میں نے اج تک نہیں دیکھا ۔ تم جیسے مرد ہی ہوتی جو اپنی انا کی تسکین کے لیے عورت کو زیر کرتے ہو اسے اپنے پاؤں کی جوتی سمجھتے ہو ۔ تم سے پہلے مردوں کے بارے میں میری سوچ اور تھی پر تمہیں دیکھ کر ہوا اچھے مرد بھی ہوتے ہیں پر نہیں یہی میری زندگی کی سب سے بڑی غلطی تھی کہ میں تمہیں پہچان نہیں پائی ۔۔۔ تم نہایت ہی گھٹیا ۔ پسماندہ سوچ کے مالک عورت کو ایک کھیل سمجھنے والے شخص ہو ۔
ارشیا بنا روکے سب ایک سانس میں بول گئی اسکا اشعر کے لیے تحقیر اور نفرت بھرا لہجہ بآسانی محسوس کیا جا سکتا تھا ۔
اشعر نے خود کے لیے ایسے لفاظ سنتے جہاں غصہ سے اسکا چہرہ لال ہو گیا وہی خود پر ضبط کرتے ۔ میں نے تمہیں باقی لڑکیوں سے الگ سمجھا پر تم ۔اسنے ہر لفظ چبا چبا کر کہا۔۔۔۔۔ وہ روکا ۔
مجھے یہی غلط فہمی تھی پر تم نے بتا دیا کہ کتنی اچھی فیملی سے تعلق رکھتے ہو تمہاری ماں نے تمہاری کیسی پرورش کی ۔۔۔
ارشی۔۔۔ غصے سے اونچی اواز میں کہتے ۔۔۔۔
میری ماں کےبارے میں ایک لفظ مت کہنا ورنہ۔۔۔۔۔ میرا صبر کو مت آزماؤ ۔۔ میرے سامنے سے چلی جاؤں ۔۔
ارشیا اسے غصے سے دیکھتے ۔۔۔ منحوس کہتے تھے نا تم مجھے منحوس میں نہیں وہ وقت تھا جب تم مجھے ملے تھے کہتے ۔ وہ وہاں سے چلی گئی ۔
صبیحہ کے پاس سے گزرتے تم محبت کرتی ہو نہ اس سے ۔ تو چھوڑ دو اسے جتنا جلدی ہو ورنہ پچھتاؤ ے کے علاوہ کچھ نہیں ہو گا ۔
کہتی وہ اس ڈپارٹمنٹ سے نکل ائی ۔۔۔ آنسوؤں سے پھر سے جیسے باند توڑ دیے وہ اپنا بیگ اٹھائی افس سے نکل۔ائی ۔ ۔۔
کتنی غلط فہمیاں تھیں اس کو اشعر کے متعلق اور اج وہ اپنی محبت کے ہاتھوں اتنا رسوا ہوئی تھی ۔۔۔
محبت کی پہلی سیڑھی ہی خوش فہمی ہوتی اور لوگ اسے ہی سچ سمجھ لیتے ۔۔
وہ ہوسٹل کی بجائے بس میں بیٹھے اپنے گھر چلی گئی کس کے لیے روکتی وہاں ۔۔ یک طرفہ محبت کی ناکامی اسے جیسے اس شہر سے ہی بے زار کر گئی مزید روک کر وہ باقی سب کو تکلیف نہیں دینا چاہتی تھی ۔۔ ۔۔۔
وہ رات کو گھر پہنچی اسکی ماں گھر اکیلی تھی بھائی اور بھابھی بچوں کے ساتھ اپنے میکے تھے ۔
ارشیا کو دیکھتے اسکی ماں بہت حیران ہوئی وہ جو اپنے بیٹے اور بہو کے انتظار میں دروازے پر آنکھیں ٹکائے بیٹھی تھی
تم ۔ ارشیا کو دیکھتے ۔ نسرین نے کہا۔۔۔۔
ارشیا سب کچھ چھپاتے ہاں میں کیا میں گھر نہیں آسکتی ۔۔۔امی ۔۔۔ اور اپ۔یہاں کیوں بیٹھی ہیں ۔۔۔
وہ ایان ثمرہ کو۔لینے گیا ہے تو ان سب کا انتظار کر رہی ہوں ۔۔۔ تم اس وقت کیوں ائی ثمرہ کو پتہ چلا تو کیا کیا باتیں بنائے گئی تمہارے بھائی کو الٹا سیدھا بتائے گئی کیوں ائی ہو تم ۔۔۔
ارشیا ماں کی پریشانی سمجھ سکتی تھی پر اسکا مزید اب اس شہر میں روکنا ممکن نہ تھا ورنہ وہ اپنی ماں کو کبھی پریشان نہ کرتی وہ چھٹیاں ہے مجھے تو کل ہڑتال ہے وہاں بسوں کی میں سوچا ابھی ا جاوں ورنہ دو دن بعد انا پڑتا ۔۔۔۔ اسنے فورا سے جھوٹ بولا
۔۔۔ نسرین پھر بھی مطمئن نہ ہوئی پر ارشیا کو دیکھتے اچھا جاؤ تم اندر جا کر کھانا کھا لو ۔۔۔ تھک گئی ہو گئی ۔۔۔
ارشیا ماں کو دیکھتے اپ نہیں ائی گئی ۔۔۔
نسرین فورا نہیں نہیں ایان انے والا ہے اسے ایک سکینڈ بھی دیر سے دروازہ کھولے تو قہرام مچا دیتا ۔۔۔ اوپر سے تم ائی ہو اس وقت پتہ نہیں کیا سوچے گا وہ ۔۔۔
ارشیا ماں کو دیکھتے جو اس عمر میں ارام کی جگہ چوکیدار بنی بیٹھی تھی اس گھر کی ۔۔۔۔ انسو صاف کرتے اج کا اسکا دن پی خراب تھا ۔ امی صرف 9 بجے ہیں اپ۔کیوں پریشان ہو رہی ہیں ۔۔۔ کچھ نہیں ہوتا ۔۔۔۔ وہ کچھ اور کہتی کہ گاڑی کا ہارن سنائی دیا ۔ اپنی ماں کو کہ۔میں کھولتی ہوں کا اشارہ کرتے اسنے فورا دروازہ کھولا ۔۔۔
گاڑی پورچ میں روکی ۔ بچے نکل۔کر بنا کسی کو سلام دعا کیے گھر میں چلے گئے ثمرہ اترتے ہی ارشیا کویکھتے تم کب ائی ۔۔۔
سلام بھابھی ۔۔۔۔ بس ابھی ائی ہوں ۔۔۔
ثمرہ نے بنا سلام کا جواب دیے ارشی کو دیکھا جیسے کچھ کھوج رہی ہو ۔۔۔
ایان باہر نکلا ارشیا۔نے اسے بھی سلام کیا ۔۔۔
ایان نے وعلیکم سلام کہتے اسکے سر پر ہاتھ رکھا ۔ تم کب ائی ۔
ارشیا کچھ کہتی ۔ نسرین نے فورا شام کو ہی اگئی تھی ۔۔۔ ایان اور ارشیا دونوں نے ماں کو دیکھا ۔۔
ایان اچھا کہتے ثمرہ کودیکھتے میں تھک گیا ہوں اسلیے سونے جا رہا ہوں مجھے کوئی تنگ نہ۔کرے کہتے اندر
چلا گیا ۔۔
ثمرہ نے ارشیا کا بیگ دیکھا دروازے کے پاس روک کرارشیا کو دیکھتے یہ بیگ شام سے یہی پڑا ہوا ۔۔ اسے تو سنبھال لیتی بہت ہی لاپرواہ ہو تم ابھی تک ۔کہتے اندر چلی گئی ۔
ماں نے سکھ کا سانس لیا ۔ وہی ارشیا نے اس گھر کو دیکھا جو اسکے باپ کا گھر تھا پر گھر والی کوئی بات نہ۔تھی ۔ اس گھر میں مکین تھے پر گھر کو اباد نہیں کر پائے تھے ۔
رات کو وہ۔اکیلی تھی اپنے کمرے میں ایک دفعہ۔پھر سے اسے اسکے دکھ نے گھیر لیا وہ دکھ جو بھولنے کی جھٹکنے کی جتنی بھی کوشش کرتی ناکام ہوتی ۔۔۔۔ اشعر کا رویہ اسکی باتیں اور ان کی اج کا جھگڑا جیسے صبیحہ کی کہی ہر بات پر مہر لگاتا گیا ۔۔۔۔۔ اسے اپنی خوش فہمی پر زیادہ غصہ تھا ۔ اسے لگا اسکے بعد اس کے ساتھ اس سے زیادہ برا نہیں ہو سکتا ۔۔۔ پر وہ غلط تھی
بہت دن گزر گئے اسنے کسی سے بات نہیں کی تھی ۔۔ خاموش تو وہ پہلے بھی ہوتی تھی پر اب اسکی خاموشی جیسے چیختی تھی ۔ نسرین کو تو یہی لگتا تھا ۔۔۔ اس نے سوچا بات کرے پر پھر خود ہی کسی خدشہ سے ڈرتے ہوئے ٹالتی رپی ۔۔ ۔۔ زندگی میں اتنی برے دن دیکھے تھے کہ اب وقت سے پہلے ہی ہر چیز کو سوچ کر ڈر جاتی ۔۔۔۔۔ ارشیا خود بھی
وہ جب سے ائی تھی تب سے اسکا سیل بند تھا ۔ ۔۔فئ حال کسی کو نہیں بتانا چاہتی تھی کہ وہ کہاں ہے ۔۔۔کیوں ائی وہاں سے ۔۔۔ اشعر کے پاس اسکا نمبر نہیں تھا ۔ پر پھر بھی اسنے سیل فون اون نہ کیا ۔۔۔
چار دن گزرنے کے بعد ۔۔۔۔
تمہارا نمبر کیوں بند ہے ۔ ثمرہ نے اتے ہی ارشیا پے دھاڑی وہ جو اپنی ہی سوچ میں گم تھی جی بھابھی
تمہارا فون کیوں بند ہے۔ تمہارا د بھائی کب سے فون کررہا میں کہاں کہاں جاوں کس کس کو دیکھو ۔۔۔ ایک دفعہ کال نہیں لی ااور اتنا غصہ کر رہا یہاں جو باقی سب ویلے روٹیاں توڑ رہے ان ک کوئی کچھ نہیں کہتا ۔۔۔ کہتی ارشیا کو سب سناتی روم سےنکل گئی ۔۔۔ ارشیا نے فورا سے اپنا سیل بیگ سےنکال کر اون کیا ۔ سب سے پہلے اسے علی کے بہت سے میسج ملے ۔ اسے شرمندگی ہوئی ۔۔۔۔
کم از کم اسے علی کو تو بتا کر انا چاییے تھا ۔ آصف اور اقصیٰ پلوشہ سب کے میسجز تھے ۔۔۔ لیکن فئ حال اسنے صرف علی کو کال کی ۔۔۔۔ پہلی بل پرہی علی نے کال اٹھا لی ۔۔۔۔ کہاں ہیں اپی ۔۔۔؟؟؟
سلام چھوٹے ۔۔۔ کیسے ہو ۔ ارشیا نے اسکے سوال کا جواب دیے بنا کہا ۔۔
سوری ۔۔۔۔۔ اپی وعلیکم سلام کہاں ہیں اپ ۔۔۔؟؟
میں گھر پر ہوں کچھ پروبلم ہو گئی تھی تو اس لیے واپس انا پڑا ۔ احد کیسا ہے ۔۔
وہ ٹھیک ہے ۔۔۔۔ اپ اتنی جلدی چلی گئی سب اپ کا پوچھ رہےتھے پر مجھے خود نہیں پتہ تھا۔۔۔۔۔ ان سب کو کیا بتاتا ۔۔۔۔۔
بنا اسے اسکی بات کا جواب دیے ۔۔۔۔۔۔۔ اچھاا ایک کام کرو گے ۔۔۔ چھوٹے؟؟؟
جی اپی بولیں ۔۔۔
میرا ریسیگنیشن دے دینا اور ہوسٹل سے میرا سامان اٹھا کر لے جانا میں کبھی ائی تو لے لوں گئی ۔۔۔ تمہارے گھر سے ۔۔۔
وہ جو سکون سے سن رہا تھا ۔ پر ارشیا کی بات سمجھتے ۔۔۔۔۔ علی نے پریشانی سے پوچھا اپی ۔ اپ واپس نہیں آئیں گی ۔۔۔
پتہ نہیں چھوٹے ۔ لیکن فئ حال نہیں اوں گی ۔ ۔۔۔۔ پر تم لوگوں سے ملنے ضرور آتی رہوں گی ۔ میرے لیےدعا کرنا چھوٹے ۔۔۔۔۔
علی کچھ نہ کہہ پایا ۔
ارشیا نے دومنٹ ویٹ کیا کہ وہ کچھ کہے جب کچھ نہ کہا تو میں رکھتی ہوں اپنا اور احد کا خیال رکھنا فون بند ملے تو پریشان مت ہونا ۔ الللہ حافظ ۔۔۔۔
ارشیا سیل فون رکھے بے مقصد اسکی سکرین دیکھتی رہی جیسے ابھی کسی اور کا میسبج ائے گا ۔۔۔۔ وہ کبھی نہیں میسج کرے گا ۔۔۔۔ میں اسکی زندگی کی پہلی لڑکی تھوڑی تھی ۔۔۔۔۔۔
وہ شام کو سوئی تھی جب اسے ایان کی اونچی اونچی آوازیں آئیں ۔ پر یہ سوچ کر کہ وہ بات ہی ایسے کرتا دوبارہ لیٹ گئی ۔۔۔
ثمرہ نے زور سے دروازہ کھولا کہ دروزاہ جا کر دیوار کے ساتھ لگا ۔ ارشیا ہڑبڑا کر اٹھی ۔ ۔۔۔
کیا گل کھیلا کر ائی ہو تم یہاں ۔۔۔۔ ثمرہ نے ارشیا کو دیکھتے ہی دھاڑی ۔۔۔ ۔۔۔
کیا ہوا بھابھی ارشیا نے ڈرتے ہوئے پوچھا ۔۔۔۔
کیا ہوا بھابھی؟؟؟؟ معصوم تو ایسے بن رہی جیسے کچھ پتہ ہی نہ ہو ۔۔۔۔ چلو اٹھو بھائی بلا رہا ہےتمہارا ۔۔۔۔
ثمرہ نے اسے گھورتے ہو ئے کہا ۔۔
امی کہاں ہیں ۔۔۔ ؟؟؟ ارشیا نے ثمرہ کے لہجے اور ایان کے غصے والی اواز کا سوچتے پوچھا
وہ بھی ادھر ہی بیٹھی ہیں ۔۔۔ اب چلو کہتے ہی وہ پہلے باہر نکلی ارشیا دوپٹہ اٹھائے ثمرہ کے پیچھے بھاگی ۔۔۔
ڈرائنگ روم میں ثمرہ کے پیچھے داخل ہوتے اسے عرفان نظر ایا ۔ سلام عرفان بھائی کہتے اس نے اہان کو دیکھا ۔۔۔ جی بھائی اپ نے بلایا ۔۔۔
ایان نےاسے غصے سے دیکھا ۔ بیٹھو تم سے بات کرنی ہے ۔۔۔ ثمرہ پہلے ہی بیٹھ چکی تھی صرف وہ کھڑی تھی ۔۔ ایک صوفے پر عرفان کے سامنے بیٹھ گئی ۔۔۔۔۔
عرفان اسے نہیں دیکھ رہا تھا ۔ ایان نے اسکے بیٹھتے ہی تمہارا اور عرفان کا کیا چکر چل رہا ہے ۔
ارشیا نے فورا میں سمجھی نہیں ۔۔۔۔
ایان اپنے غصے کو بے حد درجے نرم رکھتے عرفان مجھے سب بتا چکا ہے ۔۔۔
عررفان بھائی سے میرا کیا تعلق ۔ وہ ربیعہ کے بھائی ہیں اس کے علاوہ وہ جو اٹک اٹک کےبول رہی تھی ایان کے غصے کو دیکھتے ۔
جھوٹ مت بولو ۔ وہ اٹھ کر ارشیا کی طرف ایا ۔ ارشیا بھی ڈر کر کھڑی پو گئی ۔۔۔۔
دیکھا دیا تم نے ایک عورت زات کو کبھی کھولا نہیں چھوڑنا چاہیے ۔۔۔ وہ جیسے دھاڑا ۔۔۔
میں نےایسا کچھ نہیں کیا بولنا تھا کہ ایان کا زور دار تھپڑ ارشیا کے منہ پر پڑا ۔۔۔۔ اسکو بالوں سے پکڑتے کتنے دنوں سے چکر چل رہا ہے کب سے ہماری انکھوں میں دھول جھونک رہی ہو تم ۔۔۔
درد سے ارشیا کے منہ سے قہرا کے علاوہ کچھ نہ بولا گیا ۔ اپنے محافظ کی زبانسے ہی اپنی عزت پر وار اسکی انکھوں میں آنسوؤں کا سیلاب ا مڈ ایا ۔۔۔۔
نسرین نے اگے بڑھتے تمہارے ہاتھ جوڑتی ہوں چھوڑ دو میری بیٹی کو ۔۔۔۔۔ ایک دفعہ اس کی بات سن تو لو ۔۔۔
ثمرہ نے فورا نسرین کو دیکھتے اپکی ہی چھوٹ کا یہ نتیجہ ہے کہ وہ سب کرتی پھر رہی پے ۔۔۔۔ وہ ہماری عزت نلا لم کر رہی اوروہ بے غیرت بھائی بنے بیٹھا رہے ۔۔ کیا چاہتی ہیںوہ اس سے پوچھے تک نہیں ۔۔
کچھ نہیں کیا میں نے ارشیا بھی اونچی اواز میں بولی میں ربیعہ کے بھائی کی حیثیت سے زیادہ نہ جانتی ہوں نہ سمجھتی ہوں
ارشیا نے غصے سے عرفان کی طرف دیکھا جو سب ایسے دیکھ رہا تھا جیسے ٹی وی پر چل رہا ہو ۔۔۔۔
عرفان ارشیا کے دیکھنے پر معصوم سا بنتے ۔ تم یہ سب کیوں کہہ رہی ہو ۔۔۔ ایان بھائی جو کچھتھا میں نے اپ کو بتا دیا ۔ ۔۔۔
کیا بتایا تم نے ۔۔۔ مجھے بتاؤ ۔۔؟؟؟
ثمرہ نے فورا تمہارے کارنامے ہی ںتائے ہیں اسنے ۔۔۔
میرے کارنامے ۔۔۔۔ کیا کر دیا ہے میں نے ایسے ۔۔۔۔ ۔ ارشیا کے دماغ سوچ بھی نہیں سکتا تھا جو کچھ وہ ایان کو اسکے متعلق بتا چکا تھا ۔۔۔۔
ایان ارشیا کو بازو سے کھینچتے کیا تم اسے میسج نہیں کرتی تھی ۔۔۔ رات رات بات نہیں کرتی تھی ۔ اور اب تمہارا فون اتنے دنوں سے بند ہے کیوں ؟؟؟
میں نے کوئی میسج نہیں کیا اسے ۔؟؟؟ ارشیا نے ایان کو روتے ہوئے کہا ۔۔۔ یہ جھوٹ بول رہا ہے ۔۔ پلیز میں ایسی نہیں ہوں ۔۔۔
عرفان نے دیکھا کہ ارشیا کو روتے اسے لگا کہیں کوئی اسکے آنسوؤں دیکھ کر پگھل ہی نہ جائے ۔ ایان بھائی اپکو اگر میری باتوں کا یقین نہیں تو یہ دیکھیں یہ اتنے سارے میسج میں کرتا تھا اسے اور اسنے پیلے دن ہی مجھ ڈے کہا تھا کہ میرے میسج ساتھ ساتھ ڈیلیٹ کر دینا اسلیے اسکے میسج اتنے خاص نہیں ہے ورنہ اپ ہی بتائیں میں اتنا میڈج اسے کیوں کرتا ۔ اور کال دیکھیں یہ کال بھی اس نے پک کی تھی ۔ باقی کالز میں ساتھ ساتھ ڈیلیٹ کرتا رہا ہوں یہ ایک کیسے رہ گئی پر اچھا ہوا خدا بھی میرے ساتھ ہے ثابوت رہا میرے پاس ۔۔۔ ورنہ یہ تو مکر ہی گئی ہے ۔۔۔۔ عرفان ارشیا کو غصے سے دیکھتے ۔ ارشیا نے اسے غصے سے گھورا ۔ جھوٹ بول رہا ہے یہ میں نے کبھی اسکو میسج نہیں کیا میرے پاس تو نمبر نہیں ہے اسکا ۔
میں جھوٹ نہیں بول رہا ۔۔۔ یہ نمبر دیکھیں ایان بھائی ۔۔۔۔ خود بتائیں کون جھوٹ بول رہا ۔۔۔
نمبر دیکھتے ۔ ہوئے
۔۔ یہ ربیعہ کا نمبر ہے وہ بھی بھابھی نے دیا تھا اسے ۔۔۔ بھابھی اپ بتائیں ۔۔۔؟؟؟ اسنے ثمرہ کے سامنے جا کر کہا ۔
ثمرہ نے ایان کا غصے والا چہرہ دیکھا تو می میں نے دیا تھا ربیعہ کو پر ہو سکتا اسنے اسے لیا ہو یا تم نے کہا ہو ربیعہ کو وہ مجھ سے لے کر عرفان کو دے دیں ۔۔۔۔۔
ایان نے فورا سے عرفان تم جاؤ فئ حال۔یہاں سے ۔۔۔۔۔
ایان نے مجبور ہوتے ہوئے کہا ۔۔
عرفان کو اور کیا چاہیے تھا ۔ اسے بس ارشیا کی زندگی تباہ کرنی تھی جو ہوگی تھی وہ سب کو ایک نظر دیکھتے چلا گیا ۔۔۔۔
ارشیا نے ضبط سے انکھیں بند کی ۔۔۔ اور کیا کچھ ہونا باقی تھا ۔ ایک عزت تھی اج اس پت بھی داغ لگ گیا ۔۔ ۔۔۔ دل۔میں سوچتے کوئی اور نہیں تو اسکی ماں اسکا ساتھ ضرور دے گی ۔۔۔۔
اسنے درد سے اپنی انکھیں کھولی ۔ جب ایان اسے ڈرائنگ روم سے گھسیٹا ہوا گھر کے فرنٹ کی طرف لا رہا تھا ۔ اسے سیڑھیوں سے گھسیٹتے ہوئے اسنے ارشیا کو زمین پر برونو کے پاس پھینک دیا ۔ غصے سے کہتے میرے گھر میں تجھ جیسی غلیظ ناپاک بد کردار لڑکی کے لیے کوئی جگہ نہیں ہے ۔
تمہاری جگہ یہاں ہے اس کتے کے ساتھ ۔۔۔۔۔ نہیں تم تو اس کتے سے بھی گئی گزری ہو وہ تو پھر بھی وفا کرتا تم نے تو ہمارے منہ پر کالک مل دی ۔۔۔
ارشیا نے اپنے محافظ کے منہ سے ایسے الفاظ سنتے اسنے ایان کو دیکھا ۔ بے شک وہ اسے پسند نہیں کرتا تھا پر اج تک اسنے ارشیا پے نہ ہاتھ اٹھایا تھا نہ ہی اسکے لیے ایسے الفاظ بولے تھے ۔۔۔۔
نسرین نے اگے انے کی کوشش کی تو پیچھے ہٹ جائیں ۔ سب کچھ اپکی وجہ سے ہوا ہے اپ اگر اسے پیدا ہوتے ہی مر دیتی تو یہ نہ ہوتا ۔ ابا ٹھیک اس سے نفرت کر تا تھا عورت ذات ہوتی ہی نہیں عزت کے قابل ۔۔۔۔
ارشیا نے اٹھ کر میں نے کچھ نہیں کیا ۔ میری صرف ایک دفعہ بات ہوئی وہ بھی ربیعہ سے میں نہیں جانتی عرفان کے پاس نمبر کہاں سے ایا ۔۔
ثمرہ نے لو جی یہ خود بھی مان گئی کہ اسنے اس سے ایک دفعہ بات کی ۔ اور وہ فون کال وہ کس نے کی تھی ۔ یہ تو ثابوت تھا اسکے پاس ورنہ تم تو سیدھا ہی مکر جاتی ۔
ارشیا پھر سے دھاڑی میں نے کچھ نہیں کیا ۔ نہیں جانتی اپ لوگ الزام لگا رہے ہیں مجھ پر ۔ اسنے ثمرہ کے سامنے ہاتھ جوڑتے پلیز بھابھی میرے ساتھ ایسا مت کریں ۔ میری عزت کو نیلام مت کریں ۔۔۔۔
ایان اسکے سامنے غصے سے اور تم نے جو بیچ بازار ہماری عزت کو چوراہے پے لٹکا دیا ہے اسکا کیا ۔۔۔۔ کتنی راتیں رنگین کی ہے تم نے اپنے اس یار کے ساتھ ؟؟؟
ایان ۔۔۔۔۔۔۔ ارشیا نے غصے سے اسکی انکھوں میں دیکھتے ہوئے کہا ۔
ارشیا کو منہ سے پکڑتے آواز نیچی ۔ تم جیسی کم عقل بد کردار عورت کو اونچی آواز میں بات کرنا زب نہیں
دیتا ۔۔۔
ارشیا اسکا ہاتھ غصے سے ہٹاتے بولوں گی میں میرے کردار پر کیچڑ اچھالا جا رہا ہے میرے کردار کو چاک چاک کیا جا رہا ہے میں چپ نہیں رہوں گئی ۔۔۔
ایان نے اگے بڑھتے تم سمجھتی کیا ہو خود کو ۔۔۔ نسرین نے اسکے اگے ہاتھ جوڑتے چھوڑ دو اسے ایان معاف کر دو اسے غلطی ہو گئی ۔۔۔
ارشیا ماں کو دیکھتے کوئی غلطی نہیں ہوئی مجھ سے کچھ نہیں کیا میں نے ۔۔۔۔
ایان اسے غصے ڈے دیکھتے تمہارا تو میں کوئی بندوست کرتا ہوں ۔۔۔ اڈکو کسی نے کھانا دیا تو دیکھنا بھوکی رہے گی تو خود سمجھ اجائے گی ۔۔۔۔کہتے سے نکل گیا ۔۔۔
ثمرہ نے ان دونوں کو دیکھتے جب یہی سب کرنا تھا تو شہر ہی رہتی واپس کیوں ائی میرے شوہر کے ہاتھوں قتل ہو کر تم مجھے اور میرے بچوں کو بے سہارا کرنا چاہتی ہو ۔۔
ارشیا نے غصے سے ثمرہ کے سامنے کچھ خوف خدا کریں بھابھی اپکے گھر بھی ایک بیٹی ہے ۔۔ اپ جانتی ہیں میرا نمبر اپ نے دیا تھا ربیعہ کو ۔۔۔
ثمرہ گڑبڑ ائی ۔۔۔۔ اپنے کرتوت میرے ماتھے مت مارو ۔۔۔۔
اور جو ہوا ہے اسمیں صرف تمہاری اپنی غلطی ہے اور کسی کی نہیں ۔۔۔۔ میری بیٹی کا نام بھی۔مت لینا تم وہ تمہارے جیسی بالکل نہیں ہو گی ۔۔۔۔ بد کردار ۔۔۔۔
وہ نسرین کو دیکھتے تم تو چلو یہاں سے بیٹی کے کرتوت نہیں دیکھتی وہ نسرین کو کھینچتے اندر لے جا رہی تھی
جب ارشیا چلائی ۔۔۔ کچھ نہیں کیا میں نے ۔۔۔۔ پاک ہوں میں ۔۔۔۔۔ کوئی رشتہ نہیں ہے میرا اسکے ساتھ ۔۔بہت برا کر رہی ہیں اپ ۔ خدا کی لاٹھی بے آواز ہے میرا انصاف وہ کرے گا ۔ وہ چیختی رہی پر جیسے کوئی سن ہی نہیں رہا تھا۔۔۔۔۔ کہتے وہ تھک کر بیٹھ گئی ۔ اوازوں سے روتے وہ بے بسی سے چلائی پر کوئی نہیں تھا اسکے پاس اسکے حق میں گواہی دینے والا۔۔۔۔ کوئی نہیں تھا جو اسکا یقیں کرتا ۔۔۔۔۔۔ پوری رات وہ روتی رہی ۔۔۔ برونو کے پاس بیٹھے پر اس گھر کے مکینوں کے لیے وہ کتے سے بھی گئی گزری حیثیت رکھتی تھی جنہیں برونو تو یاد تھا پر وہ نہیں۔۔۔
صبح بھی وہ وہی تھی جب ایان ایا اسے غصے سے دیکھتے اسنے لاٹھی سے برونو کو بہت پیٹا ارشیا کے مانا کر نے پر اسے دور دھکا دیا ۔۔۔۔۔ وہ زمین پر گر گئی
جب ایان خود تھک گیا تو ڈنڈا پھینکتےارشیا کو غصے سے دیکھتے وہ چلا گیا ۔۔۔۔ ارشیا بھاگتی برونو کے پاس ائی ۔ اسے اسکی وفاداری کی بہت بڑی سزا ملی تھی ۔ وہ روتے ہوئے اس سے معافیاں مانگتی رہی ۔۔۔ برونو کی درد سے نکلتی آوازیں سنتی رہی ۔۔۔ ۔
صبح سے شام ہوگئی پر وہ وہاں بیٹھی رہی ۔۔۔ کسی نے اسے نہیں پوچھا ۔۔۔
شام کو نسرین اسکے پاس ائی ۔۔ ۔۔۔۔ اٹھو اندر چلو ۔۔۔۔ ایان باہر جا رہا تھا۔ ماں کو دیکھتے ۔۔۔۔ سمجھا دیں اسے اب اس نے کچھ کیا تو جان سے مار دوں گا میں اسے ۔۔۔
کہتا باہر نکل۔گیا ۔۔۔
ارشیا نے بے بسی سے ماں کو دیکھتے میں نے کچھ نہیں کیا امی ۔۔۔۔ یہ سب الزام ہے مجھ پے ۔۔۔ آنسوؤں ایک دفعہ۔پھر سے امڈ ائے ۔۔۔ نسرین نے اسے اٹھاتے رو مت اندر چلو ۔۔۔
اسے بیڈ پے بٹھاتے اسے پانی کا گلاس دیا ۔۔۔
ارشیا نے سارا پانی ایک ساتھ پی لیا ۔۔۔ اسکی ماں اسکی یہ حالت دیکھتے ۔ میں کھانا لاتی ہوں ۔۔۔ ارشیا نے ماں کا ہاتھ پکڑتے نہیں مجھے کھانا نہیں کھانا بس اپ میرے پاس رہیں ۔۔۔ اپ کو یقین ہے نا مجھ پے کہ میں ایسا کچھ نہیں کر سکتی ۔۔۔
نسرین نے ہاں میں سر ہلایا ۔۔۔۔ وہ انسووں میں مسکراتے ماں کو دیکھا جیسے اسکی ماں کا اس پر یقیں اسے ایک وجہ دے گیا ہو جینے کی ۔۔۔
رات کو اسنےاں کے ساتھ ہی کچھ نوالے کھائے ۔ وہ بھی نسرین کے بہت کہنے پر ۔۔۔
ارشیا کا جب آنسوؤں تھم گئے تو نسرین نے اسکے سامنے بیٹھتے مجھے تمہیں کچھ بتانا ہے ۔۔۔۔
ارشیا نے ماں کو دیکھا جو اس سے آنکھیں نہیں ملا رہی تھی ۔۔۔۔
تمہارے لیے رشتہ ایا ہے ۔۔۔؟؟؟ میں نے اور ایان نے ہاں کر دی ہے ۔ اگلے ہفتے تمہار ی شادی ہے ۔۔۔۔
یہ آپ کیا کہہ رہی ہیں شادی ۔ اتنی جلدی ۔۔۔؟؟؟
جو ہو رہا اسے ہونے دو ارشیا۔۔۔ شادی کر کے چلی جاؤں یہاں سے یہاں رہی تو یہ تمہیں جان سے مار دیں گئے ۔۔۔
نہیں میں اپنے اوپر لگے الزام کو صاف کیے بنا نہیں جاؤں گئی اور نہ ہی اپکو چھوڑ کر ۔۔۔۔ ۔
تم میری فکر مت کرو ۔
کیوں نہ کرو ۔ میں نہیں جاؤں گئی ۔ کہیں ۔۔۔ نہیں کرنی مجھے شادی ۔۔۔۔ اور اج کے بعد اپکو لگتا میں کسی مرد پر بھروسہ کر پاؤں گئی ۔۔۔ سارے مرد ایک جیسے ۔۔۔وہ بھی ایسا ہی ہو گا ۔۔۔ ابا ایاں اور عرفان جیسا ۔۔۔۔ اپکو لگتا یہ داغ میرے پیچھا چھوڑے گا ۔ نہیں کبھی بھی نہیں ۔۔۔۔ وہ نسرین کا۔ہاتھ پکڑتے ۔۔۔۔ اس لیے اپ چلیں میرے ساتھ اپ کو اور خود دونوں کو سنبھال سکتی ہوں ۔ ہم۔کچھ دن ۔میری دوست کے گھر رہ لیں گئے ۔ اپ بس چلیں ۔ میرے ساتھ ۔۔۔۔
نسرین نے اسکو دیکھا ۔ جو فئ حال حالات سمجھ ہی نہیں رہی تھی اسکا بھائی اسکی جان کا دشمن بنا بیٹھا تھا اور وہ ماں کی فکر لیے بیٹھی تھی ۔۔۔
غصے سے اپنا ہاتھ چھڑاتے نہیں جاؤں گی میں تمہارے ساتھ زندگی بھر مار کھائی ہے تمہارے با پ کے رحم و کرم پر رہی ہوں اور اب تم چاہتی کہ زندگی کے اس حصے میں بھی تم مجھے دوسروں کے سہارے پے رکھنا چاہتی ہو ۔۔۔ میں کہیں نہیں جاؤں گئی ۔ اپنے بیٹے کے پاس رہوں گئی ۔۔۔
ارشیا نے ماں کو حیرانی سے دیکھا میں کچھ نہیں لگتی اپکی ۔۔۔۔
نسرین نے دوسری طرف منہ موڑتے یہ تمہیں یہ سب کرنے سے پہلے سوچنا چاہیے تھا ۔ تم۔نے کسی کو منہ دیکھانے لائق نہیں چھوڑا ۔۔۔ ارشیا مجھے ۔۔۔۔ ۔۔۔۔ ایسی تربیت تو نہیں کی تھی۔میں نے تمہاری ۔۔۔ ۔۔
ارشیا نے بے یقینی سے ماں کو دیکھا ۔۔۔۔
شکر کرنا چاہیے تمہیں جو کچھ ہوا اسکے بعد تمہارا بھائی تمہیں صحیح طریقے سے رخصت کرنے پر مان گیا ورنہ تم نے تو کوئی کسر نہیں چھوڑی تھی ہمارا عزت چاک کرنے میں ۔۔۔۔ مجھے بے سہارا کرنے کی
شادی کرو اور جاؤ یہاں سے نکل جاؤ ہماری زندگیوں سے پھر موڑ کر دیکھنا بھی نہیں پیچھے کوئی نہیں ہے تمہارا ۔۔۔۔۔۔۔ جتنی جلدی ہو فارغ کروں میں تمہیں ۔۔۔۔۔ میں نہیں چاہتی میرے بیٹے کے ہاتھوں کسی کا قتل ہو ۔۔۔
ارشیا کے آنسوؤں تھم گئے ۔ وہ شوکڈ بس ماں کے منہ سے نکلنے والے الفاظ سنتی رہی ۔۔۔
نسرین اٹھ کر جانے لگی تو ارشیا نے ماں کا بیٹھے بیٹھے ہاتھ پکڑتے ۔ ایک ماں اپنے بچے کو سب سے زیادہ جانتی ہوتی ۔۔۔۔ کیا اپ کو لگتا کہ میں نے کیا ہے یہ سب ۔۔۔۔
نسرین نے ہاتھ چھڑاتے۔ شادی ایک ہفتے بعد ہے ۔ کل سے تیاریاں شروع ہو جائیں گی کسی کو اس بات کا پتہ نہ چلے ۔۔۔ کہتے وہ کمرے سے نکل گئی ۔۔۔ وہی ارشیا زمین پر بیٹھے اپنی ماں کے منہ سے نکلے خود کے لیے الفاظوں کو سوچتی رہی ۔۔۔
اسے عرفان کے الزام اور ایان کے رویے سے زیادہ دکھ اپنی ماں کی بے یقینی کا ہوا ۔۔۔۔۔ کتنا بھروسہ تھا اسے اپنی ماں پر ۔ پر اسکی ماں نے بھی اسکا یقین نہیں کیا تھا ۔۔۔ اسے لگا یہ۔الزام اس سے سب کچھ لے گیا ۔ عزتان بھروسہ اور ایک رشتہ بھی جس کے سہارے وہ زندہ تھی ۔۔۔۔۔
شادی کی تیاریاں ہوتی رہی وہ نہیں جانتی تھی اسکی شادی کس کے ساتھ ہو رہی ۔ نہ ہی اسنے پوچھا ۔۔۔ ۔۔۔ ربیعہ کو بھی اسکی شادی پر نہ انے دیا گیا ۔ تھا ۔۔۔ عرفان تو جو اس دن کا غائب ہوا ہفتہ گزرنے کے بعد بھی واپس نہ ایا ۔۔۔
سعدیہ اسکی ساس اسے بہت پیار سے ملی ۔ اپنی بہو کے وارے نیارے ہوتی رہی ۔۔ وہ بہت سے لوگوں سے ملی پر غیر دماغی سے ۔
نکاح کے وقت جب نکاح خواں ایا تو اسنے اشعر کا نام لیا ارشیا کا جواب جیسے گلے میں اٹک گیا ہو ۔۔۔۔ جو بھی تھا وہ ایسی نہیں تھی کہ ایک فلرٹی بندے کو اپناتی ۔۔۔ اور جو کچھ وہ اسے کہہ کر ائی تھی یقیناً نہ وہ بھولا تھا نہ ہی ارشیا ۔
ارشیا نے کوئی جواب نہ دیا۔ کمرے میں خاموشی چھا گئی ایان کا غصے سے پار ہائی ہو گیا ۔۔۔ سب کھڑے ارشیا کے جواب کا انتظار کر رہے تھے ۔۔۔۔
پر ارشیا کو جیسے نام سن کر چپ۔لگ گئی ۔۔۔۔۔
آنکھیں بند کیے اور کتنا برا ہونا ہے اسکے ساتھ ۔۔۔۔ کس بات کی سزا مل رہی ہے اسے ۔۔۔۔
ایان نے ارشیا کے پاس اکر اس کے کندھے پر ہاتھ رکھ کر بیٹھ گیا اسکی کمر پر گن رکھتے کہا تھا کوئی مسئلہ کھڑا مت کرنا ۔ میری عزت کا تماشا مت بناؤ ۔۔۔ سیدھی طرح ہاں کرو ورنہ یہ گولیاں ار پار کر دوں گا میں ۔۔۔
ارشیا نے ضبط سے انکھیں بند کیے رکھیں ۔۔۔ وہ کرسکتا تھا ایسا ۔ ارشیا جانتی تھی ۔۔۔
اسنے گلے میں اٹکے جواب کو بہت مشکل۔سے نکالا اور قبول ہے ۔ بولا ۔۔۔ ۔۔ ہر طرف مبارک باد کی آوازیں گونجی اس نے انکھیں کھول دی جیسے اپنی زندگی کی انے والی مشکلات کو دیکھ خود کو مظبوط کر رہی ہو ۔۔
_____________
ادھر اشعر کے افس کے جانے کے بعد وہ کافی پریشان ہوا ۔۔۔ وہ نہیں سمجھ پا رہا تھا کہ ایک دم اسے ایسا کیا پتہ چلا کہ اسنے یہ سب کیا ۔۔۔
اشعر کی ماں نے اس کے لیے لڑکی پسند کی ۔ اشعر کا دھیان نہیں تھا ۔ سعدیہ اسے لڑکی کے بارے میں بتاتی رہی کہ وہ اسے ہوسپٹل میں ملی اسکی ماں ہے بھائی بھابھی ہیں پر اشعر کا دھیان نہیں تھا وہ کچھ سوچ کر اٹھ کے جانے لگا جب سعدیہ نے بیٹے کو دیکھتے پھر میں ہاں کردو اشعر ۔۔۔۔
اشعر نے ماں کو دیکھتے غیر دماغی سے ہاں میں سر ہلا دیا ۔۔۔ ۔۔۔
افس کے کام اور ارشیا کے رویہ میں اتنا مصروف رہا کہ اسکی شادی کا دن اگیا ۔۔۔۔۔
وہ پورا دن افس ہوتا تھا ۔ سعدیہ ہی خود ساری تیاری کرتی رہی ۔۔۔ اشعر کو تب عجیب لگا جب اسکے سارے خاندان والے ائے ۔ شادی سے دو دن پہلے ۔۔۔۔
لیکن ماں کی خوشی دیکھتے وہ چپ کر گیا ۔۔۔ ادھر سے اسے علی سے پتہ چلا کہ ارشیا واپس چلی گئی ہے ۔۔۔ اس نے یہ سوچ کر وہ نہ صحیح اسکی ماں تو خوش ہے چپ کر کے سب دیکھتا رہا۔۔۔۔
لیکن نکاح کے وقت پہلے تو وہ حواس بختہ ہو گیا ۔ جب اسنے ارشیا کا نام سنا لیکن اپنی ماں کو دیکھتے وہ کچھ نہ بول پایا ۔۔۔۔۔ سب کچھ سمجھتے کہ اسکی ماں نے ارشیا کو کیسے پسند کیا یہی سوچتے رخصتی ہو گئی ۔ گاڑی میں اسکے ساتھ بیٹھے وہ سوچتا رہا کیا ارشیا جانتی ہے کہ اسکی مجھ سے شادی ہوئی ہے جس سے وہ نفرت کرتی ہے ۔
________
اشعر ہوسپٹل میں تھا جب اسے اسفند کا فون ایا ۔ سر اپکے لیے ایک اچھی خبر ہے ۔۔۔۔ ہم نے پتہ لگا لیا ہے کہ وہ کون ہے جو ہماری کمپنی کو نقصان پہنچا رہا ہے ۔۔۔۔
اشعر نے بنا بولے اسکی بات سن رہا تھا ۔۔۔
اسفند کوئی جواب نہ پاکر ہیلو سر ۔۔۔۔
اشعر نے میں سن رہا ہوں
سر اسلم اس سب میں شامل ہے ہم جان گئے ہیں کہ وہ یہ سب کیسے کرتا ہے ۔۔۔ سر اس کام میں ایک اور چھوٹی کمپنی بھی شامل ہے سر اپ فری ہیں میں اپکو ڈیٹیل بتا دوں تاکہ کل کہ کل ہی اس کے خلاف کروائی کی جائے ۔۔۔
تمہارے پاس ثابوت پکے ہیں نا ۔۔ تو حاشر سے بات کرو پولیس کو ساتھ لے کر جاؤ اور کروائی کرواو اج میں تھوڑا مصروف ہوں ۔ تم خود ہینڈل کر لو ۔ دو دن کے بعد کی میٹینگ ارینج کرو میں سب سے خود اس دفعہ بات کرو گا ۔۔۔۔۔ ساتھ ہی اسفند کو میٹینگ سے متعلق کچھ اور انسٹرکشن دیتے اسنے فون رکھ دیا۔۔۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
پوری رات وہ وہی بیٹھی رہی جہاں اشعر اسے چھوڑ کر گیا تھا ۔۔۔ پر وہ باکل خاموش تھی آنسوؤں ابھی تک اسکی انکھوں سے نہ بہے تھے ۔۔۔۔۔۔۔ صبح سورج کی کرنیں اسکے سکت وجود پر پڑی پر تب بھی اپنی جگہ سے نہ ہلی ۔۔۔۔ دروازہ بجا پر اسے جیسے سنائی ہی نہیں دے رہا تھا ۔۔۔۔
علی نے دو سے تین دفعہ نوک کیا جب کوئی اواز نہ ائی تو اسنے دوارزے کو ہلکا سا پش کیا تو وہ کھولتا چلا گیا
۔۔ اسنے اندر اکر دیکھا اسے دروازے سے تھوڑی دور ارشیا دیکھائی دی ۔۔۔۔۔ وہ فورا ارشیا کی طرف ایا اپی کیا اپی ۔۔۔۔
ارشیا جو کسی خواب سے نکلی تھی ۔۔۔۔۔
علی اسنے علی کو دیکھتے ۔ وہ کہتا میری ماں نہیں ہے وہ ۔ میں بے وجہ کا حق جماتی سب پے میرا کوئی رشتہ نہیں ۔۔۔ تم بتاؤ کیا نہیں ہے وہ۔میری ماں کیا صرف اشعر کا حق کے ان پے ۔۔۔ وہ آنسوؤں سے روتے ہوئے بولتی رہی ۔۔۔ ۔۔۔۔۔
علی نے اسے اپ اٹھیں ۔ روئے نہیں میں بات کرتا ہوں اشعر بھائی سے ۔۔۔۔
نہیں کوئی بات نہیں کرو گے تم ۔۔۔۔ میرا مسئلہ ہے میں خود دیکھوں گی ۔۔۔ وہ جیسے خود سے کہہ رہی ہو ۔۔ اسے ارشیا کی حالت قابل رحم لگی ۔۔۔۔ وہ بہت فکھی تھی پر جیسے سوچ سمجھنے ک ی صلاحیت کھو چکی ہو ۔۔۔
تم جاؤ جا کر پتہ کرو امی کیسی ہیں پلیز اٹھو ہوسپٹل جاؤ مجھے بتاؤ کہ ان کی کسی طبیعت ہے ۔۔ تم جا سکتے ہو وہ تمہیں کچھ نہیں کہے گا ۔۔ تم جاو گے نا ۔۔۔ اسنے آس امید سے علی کو دیکھا ۔۔۔
علی نے ہاں میں سر ہلایا ۔۔۔ تو اٹھو جاؤ پھر ابھی جاؤ ۔۔۔۔ چلو اسکو بازو سے پکڑ کر دروازے کی طرف لے گئی ۔ باہر نکالتے مجھے فون کر کے بتانا میں انتظار کروں گی ۔۔۔ جلدی جاؤ اب ۔۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
۔
وہ محلے کے لڑکوں سے ہی پوچھ کہ وہ کون سے ہوسپٹل گئے ہیں وہ ہوسپٹل ایا ۔۔۔۔
ارشیا کو اس نے اج پہلی دفعہ ایسا دیکھا تھا ورنہ وہ ہمیشہ خود کو مظبوط رکھتی تھی ۔ وہ روتی نہیں تھی پر اج اسکے آنسوؤں دیکھے اسے اشعر پر بہت غصہ ایا ۔۔۔ اس اشعر اور پہلے اشعرمیں بہت فرق تھا ۔۔۔۔۔۔
اشعر کو سامنے بینچ پر بیٹھے دیکھ ۔۔ وہ سیدھا اسکے پاس ایا ۔۔۔
سلام اشعر بھائی ۔۔۔ سعدیہ امی کیسی ہیں ابھی ۔۔۔۔
اشعر نے علی کو سر اٹھا کر دیکھا ٹھیک ہیں ابھی بی پی کنٹرول ہے ابھی ان کا ۔ ڈاکٹر ابھی اکر چیک کرے گا
پھر پتہ چلے گا ۔۔۔ اشعر نے تمام صورت حال سے اگاہ کیا ۔۔۔ وہ جانتا تھا کہ اسے یہاں ارشیا نے ہی بھیجا ہو گا ۔ اور وہ اسے بتائے گا ۔۔۔ اسلیے اسنے تفصیل سے سب بتایا ۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔ ارشیا سے اسنے وہ سب غصے میں کہا تھا لیکن اب جب سب کچھ کنٹرول میں تھا اسے ارشیا سے ایسے بات کرنے پر وہ خود بھی شرمندہ تھا۔ اسنے اسکی ماں کی بہت خدمت کی تھی جب وہ یہاں نہیں تھا اور اشعر نے ایک منٹ میں اسکی خدمت کو پس پشت ڈال دیا تھا اسے پرایا کر دیا تھا ۔۔۔
دونوں میں کافی لمبا خاموشی کا وقفہ ایا۔۔۔۔۔
اپ کے گھر گیا تھا میں ۔۔۔۔ دروازے کے پاس اپی بیٹھی تھیں جہاں اپ انہیں چھوڑ کر ائے تھے ۔۔۔۔
اشعر نے علی کی طرف نہ دیکھا ۔ پر کان جیسے علی کی اواز پر سکت ہو گئے ۔۔۔۔
اج میں نے ان کو روتے دیکھا ۔ پہلے کبھی نہیں روئی وہ میرے سامنے ۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اپکو پتہ ہے
جب مجھے ہنس ہنس کر اپنے غم سناتی ہیں تو مجھے رونا اجاتا ۔۔۔ ایک مرد ہوتے مجھے رونا اجاتا ۔ تو سوچیں ایک نازک سی لڑکی نے وہ سب کیسے برادشت کیا ہو گا ۔۔۔ وہ روتی نہیں ہے اپنے غموں پے ۔ پتہ رونا تب نہیں اتا جب غم۔اتنے ملے انکھوں کے آنسوؤں خشک ہو جائیں ۔۔۔ یا برداشت کی حد ختم ہو جائے ۔۔۔ پھر غم۔ملے یا دکھ انسان کو فرق نہیں پڑتا ۔۔۔ علی نے اشعر کی طرف دیکھا پر وہ سامنے دیکھتا رہا۔۔
علی کا فون بجا تو ۔۔۔۔ فون کاٹتے ۔۔۔ میں پھر آوں گا امی سے ملنے۔۔ ایک ضروری کام ہے ۔ابھی ۔۔۔ وہ جانے لگا ۔۔ جب موڑ کراسنے اشعر کو دیکھتے ۔۔
۔۔ اشعر جو سامنے دیکھ رہا تھا علی کے روکنے پر اسکی طرف موڑ کر دیکھا ۔۔۔۔ اپی صحیح کہتی ہیں ۔ جس اشعر سے انہوں نے محبت کی تھی وہ اپ نہیں تھے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ مھے بھی لگتا اس اشعر سے میں پہلے کبھی نہیں ملا ۔۔۔۔۔ کہتا وہ باہر نکل گیا ۔۔۔
اشعر۔نے دور تک جاتے اسے دیکھا اسکے الفاظ جیسے اشعر کے اس پاس ہی گردش کر رہے ہو۔۔۔۔ وہ جو پہلے ہی احساس جرم میں سر جھکائے بیٹھا تھا علی اسکے جرم میں مزید اضافہ کر گیا تھا ۔۔۔ وہ نہ سمجھ پایا کہ خوش ہو کہ ارشیا نے اس سے محبت کرتی تھی یا اپنے کیے ہر رویے پر نادم ہو ۔۔۔۔۔۔۔ سامنے دیوار کو دیکھتے وہ کتنے ہی لمحے ہر چیز سے بے خبر کل رات اشعر کی باتیں سننے کے بعد ارشیا کا بے یقینی والا چہرہ یاد کر کے شرمندہ ہوتا رہا۔۔۔۔ کتنی اذیت تھی تب اسکے چہرے پر اشعر کے الفاظ نے اسے کتنا دکھ دیا تھا وہ بآسانی اسکے چہرے پر دیکھ سکتا تھا۔۔۔۔ ایک غلط فہمی اس سے کیا کروا بیٹھی تھی ۔۔۔۔ اسنے شرمندگی سے اپنا سر پکڑ لیا ۔
کیا حرف ع جس لغت میں ہو وہ عربی کا ہو گا؟
اردو کا ہر وہ لفظ، جس میں حرفِ "عین" آتا ہو، وہ اصلاً عربی کا ہو گا! مرزا غالب اپنے...