“زندگانی کی حقیقت کوہ کن کے دل سے پوچھ
جوئے شیر و تیشہ و سنگ گراں ہے زندگی۔۔۔۔”
زندگی بھی کتنی عجیب ہوتی ہے نہ کسی کے ساتھ مخلص اور کسی کے ساتھ بےوفا۔۔۔۔۔
کیا واقعی تابش میرا ہونے جارہا ہے؟؟
“ہاں کوئی خواب نہیں حقیقت ہے یہ سب مجھے مشعل کو بتانا چاہیے” ۔ماہنور نے یہ کہتے ہوئے فون ملانے لگی
ابھی ابھی وہ ناشتے سے فارغ ہوکر کمرے میں آئی تو اس نے فیکھا کہ اسکے فون پر ماہنور کی مسڈ کالز تھی اس نے کال بیک کی۔
“کہاں غائب تھی اب تو میڈم کے تیور ہی بدل گئے ہیں”۔جیسے ہی فون اٹھایا ماہنور شروع ہوگئی۔
“نہیں ایسا کچھ نہیں ہے وہ بس ابھی ناشتے سے فارغ ہوکر کمرے میں آئی ہوں تو دیکھا کال آئی ہوئی تھی تو کرلی۔’س نے وجہ بتائی۔
“اچھا تمہیں ایک بات بتانی تھی۔”مانو بولی
“جی کہو۔”وہ بولی
“وہ تابش رشتہ لائے تھے امی ابو نے ہاں کردی ایک ہفتے بعد نکاح ہے میرا”۔وہ شرماتے ہوئے بولی۔
“کمینی میسنی مجھے باتیں سنارہی تھی بچو تم اب میرے ہاتھ سے آرہی ہوں میں وہاں ۔۔۔۔ “یہ کہہ کر اس نے فوں رکھ دیا۔
اور اپنی چادر لے کر باہر کی طرف لپکی۔
اس وقت وہ پورچ میں تھی جب شموئل داخل ہوا۔
“کہیں جانا ہے کیا؟”اس نے رسانیت سے مشعل سے پوچھا
“جی وہ میں نے دوست کی طرف جانا تھا لیکن ڈرائیور شاید نہیں ہے۔”اس نے اپنا مسئلہ بیان کیا۔
شموئل مسکرایا۔
“آجاؤ میں تمہیں چھوڑ دیتا ہوں۔”وہ بولا
“جی ٹھیک ہے ۔”مشعل نےمسکرا کر کہا اور اس کے پیچھے چل پڑی۔۔
“اوئے میرے ویر دا ویاہ اے اوہ بھلے بھلے او شاوں او شاواں۔”۔شافع بھنگڑے ڈالتا اپنا ہی کوئی ایجاد کردہ گانا گانے میں مصروف تھا۔
“اوہ میرا کھوتا گھوڑی چڑھیا۔۔۔۔۔اللہ خیر کرے گھوڑی دی۔۔”اپنے سے ہی بول بناتے ہوئے وہ گانے میں مگن تھا جب اس کے سر پر ایک چپت لگائی تھی تابش نے۔
“بس کر۔ بس کر!بڑے سے بڑے سنگر تیرے گانے سن کر خودکشی کرلیں گے ۔۔”تابش تنک کر بولا۔
“اففف لاکھوں جانوں کو مرنے سے بچانے کے لیے میں یہ کڑوا گھونٹ پی ہی لیتا ہوں ” وہ ڈرامائی انداز میں بولا۔
“اوہ بس کردے باز آجا ۔۔۔۔کچھ پلان کر اچھا سا تابش آفندی کی شادی ہےآفٹر آل۔”تابش اترا کر بولا
“ہاں ایسا کرتے ہیں تیری بارات گدھا ریڑھی کی بگھی بنا کر لے جاتے ہیں کتنا سہانا منظر ہوگا جب ایک گدھا دوسرے گدھے پرچڑھے گا”۔وہ پورا منظر کھینچتے ہوئے بولا۔
“آہ ۔۔۔۔آوئی چھوڑ مجھے ۔”اسکی گردن اس وقت تابش کی گرفت میں تھی۔
“کیا بکواس کررہا ہےتوانسان بن انسان۔”وہ اسکی گردن زور زور سے ہلاتے ہوئے بولا
“اچھا اچھا یار مذاق کررہا تھا تو ہمارا پرنس ہے بلکہ گینگ ہے ہمارا”ڈونکی گنگ”وہ ابھی بھی مستی کے موڈ میں تھا ۔
شافع۔۔۔اسکی آواز میں ایک دھمکی تھی جو شافع کو اچھے سے سمجھ آگئی تھی۔
اوکے ۔۔۔وہ بولا
“بدید،بےفیض،بےمروت ہاں مجھے باتیں سنارہی تھی تو دوست کہلانے کے لائق نہیں ہے بہت بہت بے شرم ہے بات نہ کری مجؓ سے اور میں تیرے نکاح میں بھی نہیں آؤنگی۔۔۔۔”وہ مارتےمارتے جب تھک گئی تو ایک طرف بیٹھ کر منہ پھلاکر بولی۔
“یار دیکھ سب سے پہلے تجھے ہی بتایا ایسا ہوسکتا تھا کہ میں تجھ سے کچھ چھپاتی تو میرا کلیجہ جگر سب کچھ ہے میرے دل کی دھڑکن ہے” وہ اسکو گلے لگاتے ہوئے بولی۔
“خالہ آپ نے بھی مجھے غیر کردیا” ۔وہ شکوہ کناں نظروں سے فائزہ بیگم کو دیکھ کر بولیں جو انکی لڑائی کے مزے لے رہی تھیں ۔
“ارے میرا بچہ ایسا کچھ نہیں ہے۔تمہارے بغیر میں اس بندریا کو رخصت کرسکتی بھلا کیا نہیں نہ تو بس پھر ناراض نہ ہو”۔وہ شفقت سے بھرپور لہجے سے بولیں۔
“میں تمہارے پسندیدہ پکوڑے بنائے لاتی ہوں۔”یہ کہہ کر وہ باہرکی جانب بڑھ گئیں۔
انکے جانے کے بعد اس نے ماہنور کو اور نخرے دکھائے اور وہ بھی اسکو منانے کی تگ ودو میں لگی رہی۔۔۔
اوئے بات سن کہاں کھو گیا ہے تو۔تابش جیسے ہی کمرے میں داخل ہوا تو شافع کسی گہری سوچ میں تھا چہرے سے سنجیدگی نمایاں ہورہی تھیں۔
یار میں سوچ رہا ہوں تیری شادی ماہنور سے ہوگی۔۔
ہمم ! “تابش نےاسے گھورا ۔
اوہ ہو آئی مین بھابھی سے جب تیری شادی ہوگی تو بڑے رشتے نکل آئیں گے۔۔وہ سنجیدہ بولا
ہیں کیسے رشتے باؤلا ہوگیا ہے کیا۔؟؟ تابش کے سر کے اوپر سے اسکی بات گزر گئی۔
ہاں نہ دیکھ بھابھی کی بہنوں جیسی دوست مشعل میری بہن ہے اس لحاظ سے وہ تیری سالی اور میں بھابھی کا دیور۔۔آئی سمجھ۔
ہاں۔اس نے اثبات میں سر ہلایا۔
اب میری بہن تیری سالی ہوئی اس رشتے سے میں تیرا سالہ ہوا۔۔اور اسی طرح مشعل بھابھی کی نندبھی لگی میری بہن تیری بہن۔شافع کے یہ بنائے گئے رشتے سن کر تابش کا سر گھوم گیا۔
اب جب شادی یوگی تو بچے ہونگے اب مشعل بھابھی انکی خالہ پھپھو اورچچی بن جاۂے گی۔
ہیں چچی کیسے بے حیا ابھی بہن کہہ رہا تھا ہن ڈائیریکٹ چچی۔تابش بیچ میں بولا۔
ابے اوئے زہرام سے ۔۔شافع چڑ کر بولا۔
یہ کیا سین ہے اب۔۔وہ نا سمجھی سے بولا۔
اس سین پر بعد میں دھیان دینا پہلے میری ساری باتیں سن۔۔بیچ میں دوسری بات سن کر شافع کا پارہ ہائی ہوا۔
اور میں ماموں بھی لگا اور چاچو بھی اب جب میری شادی ہوگگی اور میرے بچے ہونگے ےب۔۔۔۔۔۔۔۔
بس یہ میرے جڑے ہاتھ دیکھ لے یہ گھریلو عورت جو تیرے اندر ہے اسے گھر ہی چھوڑ کر آیا کر۔اس نے تال میل کیئے رشتوں پر تابش کا سر گھوم گیا ۔
ایک تو اتنی محنت کرو اور پھر بھی انکو میری قدرنہیں آئے گی۔وہ منہ بناتا بول رہا تھا۔
شام ڈھل چکی تھی جب وہ گھر داخل یوئے تھے اندر سے چلانے کی آوازیں آرہی تھی مشعل اور شموئل بھاگ کر اندر گئے۔
نکلو یہاں سے مجھے نفرت ہے تمہاری شکل سے میں کبھی یہ دوبارہ یہ چہرہ نہیں دیکھنا چاہتا۔مصطفی صاحب طیش کی حالت میں چیخ رہے تھے ۔
مصطفی پلیز!!!معاف کردیں ایسے مجھے اس عمر میں رسوا نہکریں۔ ساریہ ہاتھ جوڑ کر معافی مانگ رہی تھی۔
ساریہ جسٹ شٹ اپ اور نکلو ادھر سے ابھی کہ ابھی۔مصطفی صاحب ہھر چلائے۔
ساریہ بیگم نے نفی میں سر ہلایا آنسو ٹوٹ کر گالوں ہر گررہے تھے۔
مصطفی صاحب کی برداشت سے اب سب باہر تھا انکا دماغ کام نہیں کررہا تھا۔وہ آگے بڑھے ساریہ کو بازو سے دبوچا اور باہر کی طرف دھکا دیا۔
ایک پل کے لیے ساریہ نے اہنی آنکھیں بند کرلیں اور شدت سے اللہ کو پکارا۔
اس سے پہلے ساریہ گرتی کسی نے انھیں تھام لیا ۔
“ساریہ آنٹی کہیں نہیں جائیں گی” مضبوط لہجے میں کہتی ہوئی مشعل کی آنکھیں مصطفی صاحب کے چہرے ہر ٹکی ہوئی تھیں اور دونوں ہاتھ ساریہ بیگم کو سنبھالے ہوئے تھے۔
ساریہ بیگم اپنے عقب سے یہ جملے سن کر حیران رہ گئی اور مشعل کو دیکھ کر انکا دل اور ملال کے دلدل میں ڈوب گیا۔
مشی بیٹا یہ کیا کہہ رہی ہو آپ۔۔مصطفی صاحب پیار سے آگے بڑھے مگر اس نے ہاتھ کا اشارہ کر کے روک دیا۔
ساریہ بیگم اب سیدھی ہوچکی تھیں۔
میں نے کہا ساریہ آنٹی کہیں نہیں جائیں گی اورامید کرتی یوں آپ میری بات کی نفی نہیں کریں گے۔مشعل نے کہا۔
اسکا آخری جملہ سن کر مصطفی صاحب نے دو منٹ کے توقف سے گہرا سانس لیا جس کا مطلب تھا وہ راضی ہیں اور وہاں سے چلے گئے ۔
مشعل ایک نظر ساریہ اور مرال کو دیکھتے ہوئے اوپر چلی گئی۔
“کیسی لڑکی ہے یہ میں نے کتنا برا کیا اسکے اور اسکی ماں کے ساتھ آج یہی میرا سہارا بن کر آئی ہے” انھوں نے خود کلامی کی نظریں ابھی ھی اسی کے تعاقب میں تھیں۔
شام کے سائے اور گہرے ہوئے جارہے تھے۔
وہ اپنا سامان پیک کرنے میں مصروف تھی جب مرال کمرے میں آئی اور ہلکا سا دروازہ ناک کر کے اندر آنے کا پوچھا۔
“آجائیں” اس نے بغیر دیکھے کہا۔
یہ کیا کررہی ہو تم۔مرال نے اسے سامان پیک کرتے دیکھ حیرانگی سے پوچھا ۔
مرال کی آواز سن کر اس نے سر اٹھا کر دیکھا اور چند سیکینڈز کے لیے چونک گئی پھر دوبارہ نارمل انداز میں کام کرتے بولی۔
“روم شفٹنگ یہ کمرہ آپکا ہے جب آپ نہیں تھیں تب دادو نے مجھے دیا لیکن اب آپ آگئیں ہیں تو میرا یہاں کوئی کام نہیں۔وہ کتابیں بیگ میں ڈال رہی تھی ۔
کیا تم مجھ سے اتنی نفرت کرتی ہو کہ میرے ساتھ رہنا بھی گوارا نہ کرو۔مرال دکھ سے بولی۔
نہیں ایسی کوئی بات نہیں تم جو سوچ رہی وہ نہیں ۔مشعل نے ہریشان ہوکر جواب دیا ۔
تو کیسی بات ہے ہم بہنیں ہیں اور بہنیں ہمیشہ ساتھ رہتی ہیں اور مجھے بہت خوشی ہوگی کہ تم میرے ساتھ رہو یہاں۔وہ اسکے ہاتھ چوم کر بولی۔
مشعل کی آنکھوں سے آنسو گرے جنھیں مرال نے محبت سے صاف کیا۔
” اب ان آنسوؤں کو زندگی سے نکالو تاکہ خوشیوں کو ڈھیر ساری جگہ ملے”وہ اس کے گال پر ہلکی سے چٹکی کاٹتے ہوئے بولی۔
وہ صوفے کے ساتھ سر ٹکائے آنکھیں موندے لیٹے ہوئے تھے جب انہیں اپنے قریب ایک لمس کا احساس ہوا۔آنکھیں کھول کر دیکھا تو مرال تھی جو رو رہی تھی۔
کیا ہوا میرے بچے تم رو کیوں رہی ہو۔مصطفی صاحب پریشانی سے بولے۔
بابا آپ مجھ سے بھی ناراض ہیں کی۔اس نے روتے ہوئے کوچھا ۔
ارے میرا بچہ میرا دل ایسا کچھ نہیں ہے میں کیوں تم سے ناراض ہونگا یہ سب تم نے تھوڑی کیا ہے۔وہ اسکو ساتھ لگاتے یوئے بولے۔
ساری خطائیں غلطیاں تو میں نے کی ہیں ۔وہ آہستہ سے بولے مگر مرال نے سن لیا۔
بابا ایسا کچھ نہیں ہے۔آپ بھی بے قصور ہیں یہ سب تو وقت کا لکھا تھا اس نے تو ہوکر رہنا تھا۔وہ انکو سمجھاتے ہوئے بولی۔
وہ مجھے معاف کیوں نہیں کرتی۔مصطفی صاجب بولے۔
بابا یہ ایک وقتی ٹروما ہے اتنے سال کی جو باتیں غبار غصہ سب اچانک ختم نہیں ہوتا اسے ٹائم دیں۔وہ انہیں تسلی دیتے ہوئے بولی۔
آج موسم باقی دنوں کی نسبت ٹھنڈا اور سہانا تھا گرمیوں میں تو شدت سے ایسے موسم کی خواہش کی جاتی ہے۔
وہ ننگے پیر گھاس پر چل رہی تھیں انکی یہ عادت ابھی بھی ایسی ہی تھی۔
انکا دل چاہ رہا تھا کہ اڑ کر کہیں سے بس چائے آجائے۔
“یار دیکھو موسم کتنا مزےدار اور سہانا ہوا ہے ایسا کرو مجھے چائے بنادو نہ ۔۔
اففف ایک تو تمہاری چاۓ کی عادت سے تنگ ہوں میں”
اچانک اسکے ذہن میں پرانی جھلکیاں ابھریں۔
آنکھوں میں ہلکا سا پانی آگیا اس اے پہلے وہ پانی اور بڑھتا انکو چائے کی مہک آئی مڑ کر دیکھا تو مشعل میز پر چائے رکھ رہی تھی ۔
وہ میز کے پاس آئیں۔
مشعل نے انکو چائے کپ میں ڈال کر دی۔دائمہ چائے لے کر بیٹھ گئی ۔
تمہیں کیسے پتہ مجھے چائے پسند ہے ۔وہ ہلکی سی چسکی لیتے ہوئے بولں۔
انکی بات سن کر مشعل جو کپ کیں اپنے لیے چائے نکال رہی تھی ہلکا سا مسکرائی اور بولی۔
مجھے بھی بہت پسند ہے جب بھی میں ایسے موسم میں امی سے زبردستی چائے بنواتی تھی تو امی کہتی تھیں۔
“تم بالکل اپنی دائمہ خالہ پر گئی ہو ۔ وہ مسکراتے ہوئے بول رہی تھی۔
وہ میرا ذکر کرتی تھی؟دائمہ نے آس سے ہوچھا
انکی ہر بات کا اختتام تو آپ ہی تو ہوتے تھے۔وہ بولی۔
کیا ہورہا ہے بھئی۔ملک فرحان انکے قریب بیٹھتے ہوئے ہوچھا۔
کچھ نہیں مشعل کنزہ کی باتیں بتارہی تھی۔دائمہ بیگم نے کہا۔۔
اسکی بات سن کر انھوں نے مشعل کو دیکھا جس کا چہرہ ہر احساس سے عاری تھا اور وہ کپ سے چائے نکال رہی تھی۔
مجھے بھی تو بتاؤ کیا کہتی تھی وہ ہمارے بارے میں۔انھوں نے بچوں کی طرح پوچھا۔
اس نے چائے کا کپ انکے آگے کیا اور اٹھ کر چلی گئی۔
ملک فرحان کا دل کٹ سا گیا۔
چچا دوریوں کے بادل جھٹ رہے ہیں بہت جلد صاف آسمان نظر آۓ گا۔دائمہ تسلی دیتے ہوئے بولی۔
اس وقت وہ بالکنی میں کھڑی آسمان میں چمکتے مہتاب کو دیکھ رہی تھی۔
” کتنا دلفریث منظر تھا یہ”وہ اس منظر میں اس قدر کھوئی یوئی تھی کہ اسے خبر ہی نہ یوئی کب وہ اسکے ہیچھے آکر کھڑا ہوا تھا۔
کیا سوچ رہی ہو۔زہرام میں اپنے پختہ لہجے میں کہا۔
اسکی آواز سن کر وہ پلٹی مگر ہوئی رسپانس ظاہر نہیں کیا۔
“چاند کتنا خوبصورت لگتا ہے نہ” وہ بھی اس کے پاس کھڑا ہوکر بولا۔
“جو چیز جتنی خوبصورت ہوتی ہے نہ وہ اتنی ہی بدصورت بھی ہوتی ہے” وہ چاند کو دیکھتے ہوئے
زہرام ناسمجھی سے اسے دیکھ رہا تھا ۔
مشعل مسکرائی اور دوبارہ رخ چاند کی طرف کر کے بولی۔
“یہ چاند یہاں سے جس قدر خوبصورت لگ رہا ہے نہ مگر قریب سے دیکھو تو اس پر گڑھے ہی گڑھے ہیں اور اس کے شر سے اللہ نے پناہ مانگنے کو بھی کہا۔
اور دوسری طرف جن رشتوں سے میں شروع سے ہی نفرت کرتی آئی ہوں ان سے زیادہ شاید ہی کوئی اور رشتہ مجھ سے محبت کرپاتا” وہ ٹرانس کی کیفیت میزن تھی۔
زہرام اسکو مسکرا کر دیکھ رہا تھا۔
“میرے اور اپنےبرشتے کے بارے میں کیا خیال ہے”۔اس نے پوچھا۔
مشعل اسکی آنکھوں میں دیکھ رہی تھی جہاں چمک تھی۔
کچھ چیزیں نامکمل رہتی ہیں اور انکے نامکمل ہونے میں ہی بہتری ہوتی ہے ۔وہ سرد لہجے میں بول کر وہاں سے چلی گئی۔
زہرام کی نگاہوں سے دور تک اسکا تعاقب کیا۔۔
جاں دینا بس ایک زیاں کا سودا تھا
راہ طلب میں کس کو یہ اندازہ تھا
آنکھوں میں دیدار کا کاجل ڈالا تھا
آنچل پہ امید کا تارہ ٹانکا تھا
ہاتھوں کی بانکیں چھن چھن چھن ہنستی تھیں
پیروں کی جھانجھن کو غصہ آتا تھا
ہوا سکھی تھی میری، رت ہمجولی تھی
ہم تینوں نے مل کر کیا کیا سوچا تھا
ہر کونے میں اپنے آپ سے باتیں کیں
ہر پہچل پر آئینے میں دیکھا تھا
شام ڈھلے آہٹ کی کرنیں پھوٹی تھیں
سورج ڈوب کے میرے گھر میں نکلا تھا
(زہرا نگاہ)
چلملاتی دھوپ میں سفید اور گلابی پھول چمک رہے تھے۔ تھے۔
سفید اور گلابی رنگ کی تھیم کے مطابق سب نے ڈریسنگ کی ہوئی تھی مشعل نے ہلکاسفید کرتا شرارا پینا ہوا تھا جس پر گلابی موتیوں کا کام تھا مرال نے بھی سیم ڈریسنگ کی ہوئی تھی ۔
لڑکوں میں سب نے سفید سوٹ پہننے ہوئے تھے۔
آج ماہنور کا نکاح تھا ۔ماہنور گلابی اور اوف وائٹ کے امتزاج کے لہنگے میں بہت خوبصورت لگ رہی تھی۔
کچھ ہی دیر بعد ماہنور اور تابش کے نکاح کی رسم ہوئی ۔
ہر طرف خوشیوں کا ایک الگ سماں تھا۔
مشعل نے اسکی خوشیوں کی دعا دل سے کی۔
اوہ بھائی مبارکاں تجھے تیری بربادی کی۔شافع کندھے پر دھپ مارتا ہوا با۔
باز آجا ورنہ میرے شادی کے دن بھی پٹے گا مجھ سے۔وہ آنکھیں دکھاتے یوئے بولا۔
اوہ یار ایک تو تم نہ ہر چیز پر مار دھاڑ پر اتر آتے او کدی تے مذاق سہہ لیا کرو۔وہ ہنجابی کا تڑکہ لگاتے بولا۔
تم نہیں سدھروگے۔تابش چڑ کر بولا۔
واہ مشعل تم تو کھل رہی ہو اس سفید رنگ میں۔۔دائمہ پھپھو نے دل سے تعریف کی۔
انکی تعریف پر مشعل کے ساتھ مصطفی صاحب جو انکی طرف آرہے تھے وہ بھی مسکرادیے۔
ہائے پھپھو اتنے دل سے تعریف کیآپ نے میری واقعی اتنی اچھی لگتی یوں میں آپکو تو دعا کرنا اللہ مجھے جلدی سے سفید کفن نصیب کریں تاکہ میں آپکو اور اچھی لگوں۔ مشعل مذاق میں بولی مگر اسکی بات سن کر دائمہ دہل گئی
مصطفی صاحب کے دل نے بے اختیار کہا
“اللہ نہ کرے ”
کتنی فضول گوئی کرتی ہو تم۔دائمہ ہلکا سا تھپڑ اسکی گال پر رسید کرتے ہوئے کہا۔
ہی ہی ہی امی بھی ایسے ہی کہتی تھی نہ آپکو۔وہ جلدبازی میں بول گئی مگر اگلے ہی پل اسے احساس ہوا
دائمہ کے چہرے کا رنگ لٹھے کی طرح سفید ہوا۔
امی واقعی چلی گئیں ہمیں چھوڑ کر۔آنسو آنکھوں میں آنے لگے۔
نہ میرا بچہ آج رونا نہیں خوشی ہے تیرے آنسو اسے تکلیف دیں گے بس نہیں جا ماہنور کو دیکھ کتنی خوش ہے وہ آج ۔وہ پریشان ہوحائے گی تیرے آنسو دیکھ کر۔وہ اسے گلے لگاتے ہوئے بولیں۔
انکے گکے لگ کر وہ بھی ہلجا سا مسکرائی۔
“ہاہاہا!کوئی جیل ایسی نہیں بنی جو انور کو قید کرسکے ہاہا ملک اقتتدار دیکھو نکل آیا انور باہر اب آئے گی نہ بکری چھری تلے”۔وہ خون آلود لہجے میں بول رہا تھا۔
ک۔کیا کرنے والا ہے تو۔محسن نے اس سے سہمتے ہوئے پوچھا ۔
ہاہا وہی جو ہوتا آتا ہے ہر کہانی میں بدلہ!انور ہنستا ہوا درشتی سے بولا۔
تو ملک اقتدار کو مارے گا۔محسن نے حیرت سے پوچھا ۔
نہ جس طرح دیو کی جان طوطے میں ہوتی اور دیو کو ختم کرنے کے لیے طوطے کو مارنا ضروری تب دیو تڑپ تڑپ کر مرتا اور اسی میں مزہ آتا۔
اسی طرح ملک اقتتدار کے طوطے کو پہلے مارنا پڑے گا پھر اسکے بعد اسکو ماریں گے۔انور اس وقت وہ وحشی لگ رہا تھا جو خون کا پیاسا ہوتا پے۔
محسن کو اسے حوف آرہا تھا۔
ناہنور کی شادی تقریب خیر خیریت سے اپنے اختتام کو پہنچی۔
ملک اقتتدار نے بھی اس حوالے سے ایک فیصلہ کیا تھا اور اسے ختمی شکل دینے کے لیے ملک ولا میں میٹنگ منقعد ہوئی جس میں گھر کے بڑے بچے سب شامل تھے
سوائے رافع کے۔
وہ کام کے سلسلے میں دوسرے شہر گیا ہوا تھا۔
آج جو میں بات کرنے جارہا ہوں مجھے امید ہے کہ وہ سب سن کر آپکو کوئی اعتراض نہیں ہوگا ۔اقتتدار صاحب رعب سار لہجے میں بول رہے تھے۔
ابا جسن آپ ہم سے ہماری جان بھی مانگ لیں ہمیں اعتراض نہیں ہوگا ۔ارشاد صاحب فرمان برداری سے بولے۔
انکی بات سن کر اقتتدار صاحب کا سینہ فخر سے چوڑا ہوگیا۔
میں خوش قسمت ہوں کہ مجھے تم لوگوں جیسی اولاد ملی ہاں تو میں جو بات کرنے لگا تھا وہ یہ ہے کہ دو ہفتوں کے فرق سے شموئل زرنیش کی شادی کی تمام رسومات کی جائیں گی اور ساتھ ہی فریال اور شافع کا نکاح ۔اقتتدار صاحب اتنا کہہ کر خاموش ہوۂے
سب کے چہرے پر خوشی کی ایک لہر دوڑ پڑی۔
زرنیش وہاں موجود نہیں تھی۔وہیں فریال کا رنگ لٹھے کی مانند سفید ہوا۔
“ایکسیوزمی” یہ کہہ کر وہ وہاں سے چلی گئی۔
باقی سب دوبارہ اپنی باتوں میں مصروف ہوگئے ۔
تھکا ہاراآج وہ گھر داخل ہو تھا گھر میں عجیب طرح کی ہلچل تھی۔
اسی اثنا میں ملازم گزرا۔
“یہ تیاریاں کس چیز کی ہیں” رافع نے اچھبنے پن سے پوچھا۔
وہ زرنیش بی بی اور شموۂل بھائی کی شادی ساتھ فریال بی بی اور شافع کا نکاح ہے ۔یہ کہہ کر وہ وہاں سے چلا گیا ۔
اس کے سر پر تو گویا بم پھٹ گیا ہو۔
اس وقت وہ مغرب کی نماز سے فارغ ہوکر بالکنی سے نیچے جھانک رہی تھی لان میں تیاریاں عروج پر تھیں کل نکاح تھا اسکا شافع کے ساتھ جس کو ہمیشہ سے وہ چھوٹا بھائی مانا تھا۔
رافع کے لیے محبت تو اس کے دل میں تب سے تھی جب سے اسے لفظ محبت لکھنا بھی نہیں آتا تھا۔
وہ اٹھی اور بیڈ کے قریب دراز سے گھڑی نکالی حو اسے شافع نے دی تھی ۔
وہ جانتی تھی یہ رافع کی سب سے عزیز ترین گھڑی تھی اس نے ہلکے سے گھڑی پر بوسہ دیا ۔
اللہ تمہیں مجھ سے بھی بہترین عطا کرے۔ وہ گھڑی جو دیکھتے ہوئے بڑبڑائی
کمرے میں داخل ہوکر اس نے تمام لائٹس جلائیں جس کی وجہ سے پورا کمرہ روشن ہوگیا۔
کیا تو یہ بنا بیٹھا ہے اٹھ کل میرا نکاح ہے تو میرا بھائی ہےاٹھ جا جا کے لان میں کرسیاں لگا۔وہ آرام سے صوفے پر بیٹھتے ہوۓ کہا۔
اس نے آنکھوں سے بازو ہٹاتے ہوئے دیکھا۔
تو جانتا تھا نہ۔۔اس نے شکوہ کن لہجے میں کہا۔
یار دادو کا حکم تھا اور فریال بھی راضی تھی اگر میں انکار کرتا تو انکا دل ٹوٹ جاتا اور آجکل ویسے بھی امی کی طبیعت ٹھیک نہیں رہتی ” وہ وضاحت کرتے ہوۓ بولا ۔
اچھا تمہیں بابا بلارہے ہیں۔ وہ شوز پہنتے ہوئے بے نیازی سے بولا۔
وہ گہرا سانس لیتا ہوا باہر چلے گیا ۔۔۔
اب وہ کچھ کربھی نہیں سکتا تھا۔۔۔۔
ٹھنڈی ہوائیں رات کو اور سرد بنارہی تھیں اس وقت وہ لان کی سیٹنگ چیک کررہا تھا کہ بےساختہ اسکی نظریں اٹھی سامنے بالکنی میں اسکی دشمن جان پر
پڑی جو کھڑکی میں کھڑی تھی
زندگی کے درد کو سہو گے تم
دل کا چین ڈھونڈتے رہو گے تم
زخمِ دل جب تمہیں ستائے گا
تم کو ایک شخص یاد آئے گا
جب کوئی پیار سے بلائے گا
تم کو ایک شخص یاد آئے گا
لذتِ غم سے آشنا ہوکر
اپنے محبوب جدا ہوکر
دل کہیں جب سکوں نہ پائے گا
تم کو ایک شخص یاد آئے گا
جب کوئی پیار سے بلائے گا
تم کو ایک شخص یاد آئے گا
تیرے لب پہ نام ہوگا پیار کا
شمع دیکھ کر جلے گا دل تیرا
جب کوئی ستارہ ٹمٹمائے گا
تم کو ایک شخص یاد آئے گا
جب کوئی پیار سے بلائے گا
تم کو ایک شخص یاد آئے گا۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اسکی نظریں اس پر ٹھہر گئیں موازنہ مشکل تھا چاند زیادہ خوبصورت تھا یا وہ۔
اچانک فریال کی نظریں اسکی جانب اٹھیں جو اسے ہی دیکھ رہا تھا۔
اسکو دیکھ کر فریال کا دل زور زور سے دھڑک رہا تھا۔
اس نے جلدی سے پردے گرائے اور اندر ہوگئی
رافع نے ایک گہرا سانس لیا اور دوبارہ مصروف ہوگیا کاموں میں۔
آخر کار وہ دن آگیا جس کا بےصبری سے انتظار تھا سوائے ان دونوں کے کچھ ہی دیر میں نکاح ہوجانا تھا۔
“سن رہی ہے نہ تو۔۔۔۔۔۔۔۔۔
محبوبہ کی شادی میں کرسیاں لگا ریا ہوں۔۔۔۔”
گانے کو توڑ مڑور کے شافع نے اسکو چڑھایا اس نے غصے میں ایک دھموکہ اسکے پیٹ میں دیا جس پر وہ کراہ کر رہ گیا ۔
ظالم۔۔۔۔ تیرے لیے میں اتنی بڑی قربانی دے رہا ہوں اور۔۔ایک تو ہے جس کو میری قدر نہیں” وہ منہ بناتا ہوا بول رہا تھا۔
“اس وقت میرا دل چاہ رہا ہے کہ تیرا گلا دبادوں”رافع قدرے غصے سے بولا۔
” ہائے!گاؤں والوں سنو سنو بھائی بھائی کا دشمن ہوگیا ہائے قیامت” شافع ڈرانائی انداز میں اونچا اونچا بولنےلگا۔
رافع بوکھلاگیا اس نے جلدی سے اسے کھینچا اور اندر لے گیا۔
ساتھیوں تیار ہو نہ۔۔ وہ ماسک والا آدمی اپنے ساتھیوں سے بولا جو اسکے اشارے کے منتظر تھے۔
جی استاد۔۔
اس وقت قاضی صاحب فریال کے ساتھ اسکے کمرے میں تھے۔
“کب تک یہاں بیٹھےرہنے کا پلین ہے نکاح میرا ہے ڈرامے باز اٹھ جا” رافع شافع کے سر پر چپت لگا کر بولا۔
شافع حیران کن نظروں سے اسے دیکھ رہا تھا۔
“تجھے پتہ ہے” وہ خشک لہجے میں بولا۔
اس کی بات سن کر وہ مسکرایا اور دائیں طرف سر ہلایا۔
کس نے بتایا تجھے؟؟ابھی تک وہ صدمے میں تھا اسے حقیقت کھل جانے پر بے تحاشا دکھ تھا
“میں نے” مشعل نے کہا اور کھکھلا کر ہنسی اور وہاں سے بھاگ گئی۔
“نہیں چھوڑونگا” شافع یہ کہتے ہوئے اٹھا اور اسکے ہیچھے بھاگا۔
اب مشعل آگے اور شافع پیچھے تھا۔
مشعل کے قہقے گونج رہے تھے۔
وہ ملک فرحان کے پیچھے آئی
نانا بچائیں مجھے”یہ کہتے ہوئے وہ انکے پیچھے چھپی۔
ملک فرحان کو اپنے کانوں پر یقین نہیں آیا کہ واقعی مشعل نے انہیں نانا کہہ کر پکارا ہے۔
ایک دم مشعل کے قہوے سمٹے شافع بھی رک گیا۔
“سوری” یہ کہہ کر وہ جانے لگی۔
جب انھوں نے اسکا ہاتھ تھاما۔
“ابھی رک ناراض ہے میرا بچہ مجھ سے نانا کو معاف کردے” وہ اسکو قریب لاتے ہوئے محبت سے بولے۔
“نانو” یہ کہہ کر وہ انکے گلے لگ گئی۔
میرا بچہ” ملک فرحان نے سر پر پیار کرتے ہوئے کہا
شافع کے چہرے ہر ایک ہلکی سی مسکراہٹ ابھری۔
ابھی وہ ان سے علیحدہ ہوئی تھی۔ کہ اسکی نظریں ساکت ہوگئیں ۔
اٹیک!!۔نقاب ہوش اہنے ساتھیوں سے بولا۔
نانو!!ایک بلند چیخ کے ساتھ مشعل انکو سائیڈ ہر کرتے آگے آئی اور فضا میں دلخراش چیخیں بلند ہوئیں۔
مصطفی صاحب ایک میٹنگ میں تھے جس کے باعث وہ لیٹ پہنچے مگر یہاں کی حالت دیکھ کر انہیں کسی انہونی کا اندیشہ ہورہا تھا۔
اندر جاتے ہی انہیں جو خبر ملی اس نے انکے پیروں سے زمین کھینچ لی
اس وقت پورے ہسپتال میں بھگڈر مچی ہوئی تھی خون سے لت پت وہ نازک وجود کیسے ہسپتال لائے تھے انکو بھی نہیں معلوم تھا۔ملک فرحان کو اپنا دل بند ہوتا محسوس ہورہا تھا۔
“ڈاکٹر کدھر ہیں؟؟ ڈاکٹر جلدی بلاؤ میری بچی کو دیکھے آکر وہ۔وہ چلا رہے تھے نرسز بھاگتی ہوئی آئیں اس بےحس و حرکت وجود کو لے کر آپڑیشن تھیٹر لے گئے ملک صاحب کو باہر ہی روک لیا۔
میری بچی کو کچھ نہیں ہونے دینا ڈاکٹر جتنے پیسے چاہیے لے لینا۔ وہ ڈاکٹر کا گریبان پکڑتے ہوئے بولا۔
دیکھیں آپ بس دعا کریں سب کچھ اللہ کے یاتھ میں ہے۔ڈاکٹر اپنا گریبان چھڑواتے ہوۂے وہاں سے اندر چلے گئے ۔
اللہ میری بچی جو اپنی امان میں رکھیں۔زہرام اور ملک اقتتدار بھی بھاگتے کوئے ہسپتال میں داخل ہوئے۔
کہاں ہے مشعل؟؟اقتتدار صاحب نے پوچھا۔
اندر کے کر گئے ہیں۔وہ بامشکل بولے۔
یااللہ ! اللہ میں نے کبھی تیری بارگاہ میں ہاتھ نہیں پھیلائے جو حاصل کرنا چاہا اپنی دولت کے بل بوتے پر چاہا اللہ مگر اس بچی کی جان میں تجھ سے مانگتی ہوں اللہ تو تو وہ ہے نہ جو کہتا ہے بندے پکار مجھے میں سنوں گا تجھے اللہ میری خاطر نہیں ادکے اعمال کی خاطر اسکی ماں کی دعاؤں کے صدقے اللہ مجھےمعاف کردے میرے دل میں کسی قسم کی کوئی لالچ نہیں اللہ بس اسکو زندگی دے دے ۔۔۔ساریہ بیگم آنسو بہاتے ہوئے دعا کررہی تھیں ۔
آپریشن تھیٹر کے اوپر لگی لال بتی ہری بتی میں تبدیل ہوگئی تھی۔ بتی کے ہرے ہوتے ہی دروازہ کھولا انکے دل کی دھڑکنیں تیز ہوئیں۔
داکٹر جیسے ہی باہر آیا ملک فرحان انکی جانب لپکے ۔
جس حالت میں عہ یہاں آئیں تھیں انکا بچبا ناممکن تھا مگر انکے ساتھ دعائیں ہی اس قدر تھیں کہ وہ موت کے منہ سے باہر آگئں۔معجزے واقعی ہوتے ہیں۔ڈاکٹر انکا کندھا تھپتھپا کر جا چکا تھا
ملک فرحان وہیں اپنے رب کے حضور سجدے میں گرے۔۔۔۔
ملک ولا میں یہ خبر گویا بہار کے موسم کی مانند تھی۔
غربا و فقرا میں کثیر تعداد میں چیزیں بانٹیں گئیں۔
اس وقت سب اس سے مل کر باہر جا چکے تھے۔جب مصطفی صاحب اندر داخل ہوئے۔
کیا میں اتنا برا ہوں سب جو معافی مل چکی ہے سوائے میرے؟انھوں نے پوچھا۔
مشعل نے نگاہیں اٹھا کر انکو دیکھا۔
“بابا بیٹیاں کبھی بھی باپ جو معاف کرتے اچھی نہیں لگتیں”
“بابا آپ میرے مجرم نہیں امی کے مجرم تھے اور انکی جگہ میں کیسے معاف کروں آپکو ؟”
“ابو امی تومحبت تھیں نہ آپکی اور ابو محبت میں شدت اتنا معنی نہیں رکھتی جتنی اعتماد اور عزت معنی رکھتی ہیں ابو آپکی محبت کیسی تھی کہ آپ آگے بڑھ گئے لیکن امی تو ادھر ہی کھڑی رہیں امی کی محبت سچی تھی بابا”
“بابا میں ناراض نہیں ہوں مجھے ڈر لگتا ہے بابا کل کو کوئی آپکو یہ کہے مشعل بدکردار ہے آپ کیا میرے ساتھ بھی وہیں کریں گے جو امی کے ساتھ کیا تھا؟؟”
اسکی باتیں سن کر انھوں نے نفی میں سر ہلایا اور اسے گلے لگالیا۔۔۔۔
تین سال بعد۔۔۔۔۔۔۔
وہ اس قبر پر بیٹھا تھا جس کے نقش بھی مٹ چکے تھے۔
“زندگی واقعی ایک افسانہ ہے ۔۔۔۔جس کے اختتام سے ہم بے خبر ہوجائیں ناجانے کونسا پیج(دن)آخری ہو۔۔
اختتام اچھا ہو یا برا ہو کوئی نہیں جانتا سوائے منصف کے”
وہ اٹھا فاتحہ پڑھی اور واپسی کی راہ پر چل پڑا۔۔
ملازم نے بڑا سا گیٹ کھولا وہ جیسے ہی اندر داخل ہوئے ۔۔
نانا!نانا! ننھی ابیرا گلابی فراک پہنے چھوٹے چھوٹے قدنوں پر انکی طرف آئی۔
ابیرا کو دیکھ کر ملک مصطفی صاحب نے اسے گود میں اٹھا لیا۔
انکی حیات کا مقصد ہی اب یہ تھی۔
دور سے کھڑی مشعل یہ منظر دیکھ رہی تھی۔
زندگی بھی ایک افسانہ ہے جو جانے کس موڑ ہر بدل دے اپنا آپ ۔
زندگی ان پیریڈکٹیبل ہے ۔۔۔کب کیا ہوجائے کون جانے۔۔۔
ابھی سوچوں میں وہ گم تھی جب اسکی فون کی رنگ مس ہوئی۔
اس نے اٹھا کر دیکھا تو زہرام کا فون آرہا تھا۔
اسکا نام دیکھ کر ہی مشعل کے چہرے ہر ایک مسکراہٹ آگئی۔۔۔۔
بےشک زہرام اسکے لیے بہترین ہم سفر ثابت ہوا تھا اور وہ اس بات پر اپنے رب کی شکر گزار تھی۔