(Last Updated On: )
جاں دے کے بچی بر سرِ پیکار بچائی
ناموسِ بشر ہم نے لگاتار بچائی
انصاف کی میزان پہ رشتے نہیں دیکھے
سرداری نہیں حرمتِ اقدار بچائی
جب حکم ہوا آ گئے گھر بار اٹھا کر
سب دان دیا نعمتِ ایثار بچائی
یہ قرض بھی ہے بعد کی نسلوں پہ ہمارا
تہذیب بشکلِ اثر آثار بچائی
دنیا کے حریصوں نے تو کیا کچھ نہ بچایا
یہ ہم ہیں کہ بس دولتِ کردار بچائی
بات آئی بچانے کی تو ایمان بچایا
سر وار دیے نسبتِ سرکار بچائی
تدلیس کا خدشہ ہو کہ تلبیس کا فتنہ
ایک ایک حدیثِ شہِ ابرار بچائی
پھر غیرتِ ایماں کا تقاضا تو یہی تھا
اسلاف کی سنت بھی تھی دستار بچائی
کیا بات ہے کاشر اسے کہتے ہیں بچانا
حریتِ افکار سرِ دار بچائی