بعض ادیبوں پر یونیورسٹی سطح کا کام ہوتا ہے تو وہ اس کے معاملہ میں اپنی دکھاوے کی عدم دلچسپی اور بے نیازی کا تاثر ظاہر کرتے ہیں۔حالانکہ ایسے” بے نیاز“ ادیبوں میں سے اکثر نے پورے جوڑ توڑ سے کام لے کر اور اپنی پبلک ریلیشننگ سے پوری طرح کام لے کر خود پر کام کرانے کے پروجیکٹ منظور کرائے ہوتے ہیں۔ ادلے بدلے کی تحقیق بھی رواج پا چکی ہے۔اعلیٰ تعلیمی درسگاہوں سے وابستہ بیشتر ادیبوں نے ایک جامعہ میں اپنے بارے میں تحقیقی کام کرانے کے بدلے میں دوسرے ادیب کے بارے میں اپنی نگرانی میںتحقیقی پراجیکٹ شروع کرادیا۔اس حقیقت کو ظاہر کرنے کے ساتھ یہ اعتراف کرنا بھی ضروری ہے کہ ادلے بدلے کے ایسے تحقیقی کاموں میںاختیار و اقتدار کے کھیل کے باوجود بعض کام واقعتاً اپنا علمی اور ادبی استحقاق رکھتے ہیں۔ علم اور تحقیق کے نام پر یہ سلسلہ پاکستان اور ہندوستان میں یکساں طور پر چل رہا ہے۔ جامعات میں منفی علمی اورتحقیقی ماحول کے ساتھ متعدد ایسے علمی اور تحقیقی پروجیکٹس بھی ہیں جو کسی قسم کے جوڑ توڑ کے بغیر خالصتاََ علمی اور ادبی بنیادوں پر شروع اور مکمل کیے گئے۔گویا ہماری جامعات میں منفی اور مثبت دونوں طرح کے کام چل رہے ہیں۔
میرے ادبی کام پر ہونیوالے تحقیقی کام میں تین پروجیکٹس میرے لیے بہت ہی خاص ہیں اور ان تینوں کی اپنی اپنی الگ روداد ہے۔سال ۲۰۰۰میں جب لندن کے ادبی مافیا نے ڈاکٹر پرویز پروازی اور جمیل الرحمن جیسے کرم فرماؤں کے اشتراک سے میرے خلاف گم نام مراسلہ بازی کی غلیظ مہم چلائی تو ان سب کے نام ظاہر کرنے کے بعد میں وقتی طور پر ادبی دنیا سے ہی کنارا کر چکا تھا۔عزت و وقار کی علامت باور کرائے جانے والے مذکورہ بالا دونوں کرم فرماؤں کواخلاقیات اور تہذیب کے حوالے سے ذلت اور ضلالت کے جس گڑھے میں گراہوا دیکھ لیا تھا،اس کے بعد وقتی طور پر ادب سے ہی دل اچاٹ ہو گیا ۔
میں اپنی ذہنی اذیت میں مبتلا ادبی دنیاسے الگ تھلگ پڑا ہوا تھا جب اچانک خبر ملی کہ اسلامیہ یونیورسٹی بھاولپورسے ایک طالبہ منزہ یاسمین میرے ادبی کام پر ایم اے اردو کا مقالہ لکھنے جا رہی ہیں۔ایسے لگا جیسے خدا نے یار لوگوں کی ناجائز زیادتی کو سہہ جانے کے اجر کے طور پریہ خوشی کی خبر عطا کی ہے۔یہ مقالہ بروقت مکمل کر لیا گیا اور اسے کتابی صورت میں بھی شائع کر دیا گیا۔میں منزہ یاسمین ،ان کے نگران پروفیسر ڈاکٹر شفیق احمد،منزہ کے والد ڈاکٹر انور صابر اور اپنے پرانے دوست ڈاکٹر نذر خلیق سب کا شکر گزار ہوں کہ ان سب کی علمی و ادبی محبت کے نتیجہ میں جامعات کی سطح پرمیرے ادبی کام کا پہلا تحقیقی مطالعہ مکمل کیا گیا۔اس تحقیقی کام کا سب سے بڑا فائدہ یہ ہوا کہ میں ادبی طور پر پھر سے متحرک ہو گیا۔اس کے تھوڑا عرصہ بعد میں نہ صرف تخلیقی طورپر فعال ہوا بلکہ مجھے’ جدیدادب ‘ کے تیسرے اور سب سے کامیاب دورکا آغاز کرنے کی توفیق بھی ملی۔تب میں نے ایک مضمون لکھا تھا،”منزہ یاسمین کا مقالہ :چند وضاحتیں“اس میں کتابت کی بعض اغلاط کی طرف توجہ دلائی تھی جن کے باعث تحقیقی امور میں خرابی کا اندیشہ ہو سکتا تھا۔ میں نے اسی مضمون میں یہ اقرار کیا:
” میرے ادبی کام کے بارے میں عزیزی منزہ یاسمین نے اسلامیہ یونیورسٹی بہاولپور سے سال2000 تا2002 ءکے سیشن میں ایم اے کا تحقیقی مقالہ لکھا تھا۔میرے لیے یہ مقالہ کئی لحاظ سے خوشی اور اہمیت کا موجب ہے۔ایک یہ کہ میرے بارے میں یونیورسٹی لیول کا یہ پہلا کام ہوا ہے۔ایک اور یہ کہ اس کا تحقیقی اور علمی معیار اتنا عمدہ ہے کہ میرے دیکھے ہوئے ایم فل اور پی ایچ ڈی کے کئی مقالات سے بہتر ہے۔“
(بحوالہ کتاب ”تاثرات“ ص ۱۲۱۔کتاب ہذا ص ۳۴۱ )
اس دوران ہندوستان کی ریاست کرناٹک کے شہر گلبرگہ سے عبدالرب استادنے رابطہ قائم کیا۔وہ مغربی دنیا میں اردو افسانے کے موضوع پر پی ایچ ڈی کرنے جا رہے تھے اور اس سلسلہ میں مجھ سے امدادی مواد کے متمنی تھے۔میرے پاس جتنا میٹر موجود تھا،میں نے انہیں فراہم کر دیا۔ کوئی سال بھر کے وقفہ کے بعد پھر ان کی طرف سے اطلاع ملی کہ وہ پہلے موضوع کو چھوڑ کر کسی اور موضوع پر کام کرنا چاہ رہے ہیں۔تب مجھے یہ بات معلوم نہ تھی لیکن اب معلوم ہوئی ہے کہ چونکہ عبدالرب استاد میری طرح متعدد دیگر افسانہ نگاروں سے بھی رابطہ میں تھے۔سوجرمنی کے منیرالدین احمد سے بھی ان کی مراسلت تھی۔منیرالدین احمد،ڈاکٹر پرویز پروازی کے پھوپی زاد بھائی ہیں۔منیرالدین احمد نے عبدالرب استاد کو مشورہ دیا کہ مغربی دنیا میں اردو افسانے کا کام بہت بکھرا ہوا ہے،اسے سمیٹنے میں بہت وقت لگ جائے گا۔یہاں تک ان کا مشورہ بڑی حد تک مناسب تھا۔اس کے بعد انہوں نے مزید مشورہ دیا کہ مغربی دنیا سے کسی ایک افسانہ نگار کو منتخب کرکے اس کے پورے کام پر پی ایچ ڈی کریں۔اس مزید مشورہ میں انہوں نے یہ اضافہ بھی کیا کہ اپنا اسمِ گرامی خود انہیں تجویزکردیاکہ منیرالدین احمد کے ادبی کام کو موضوع بنا سکتے ہیں۔
عبدالرب استاد نے جو تب گلبرگہ یونیورسٹی میں اردو کے لیکچرر تھے،اس مشورے کی روح کو گرہ سے باندھ لیا،البتہ ان کے تحقیقی کام کے لیے کون سا ادیب بہتر ہے؟اس پر انہوں نے از خود غور شروع کیا۔متعددناموں کی لسٹ کو مختصر کرتے کرتے قرعۂ فال میرے نام نکل آیا۔حمید سہروردی ان کے نگران مقرر ہوئے۔”حیدر قریشی شخصیت اور ادبی جہات“موضوع طے پایا اوریونیورسٹی کی جانب سے باضابطہ طور پر منظور ہو گیا۔مجھے جب اس خبر سے آگاہ کیا گیا،میں اپنی عادت کے مطابق حیران بھی ہوا اور بہت زیادہ خوش بھی ہوا۔اللہ کا شکر بھی ادا کیا کہ وہ جب دینا چاہے تو کیسے کیسے مشکل یا نا ممکن قسم کے رستوں سے بھی عطا کردیتا ہے۔اپنی ساری کتابیں فراہم کرنا میرے لیے مشکل نہ تھا،سو اپنی کتابیں انہیں فراہم کر دیں۔خود پر ہونے والے کام کا مواد بھی فراہم کر دیا۔۸۰۰۲ءمیں یہ کام مکمل ہوجانے کی امید تھی۔لیکن اسی سال کے وسط میں یونیورسٹی کے شعبہ اردو کی کسی داخلی سیاست کے نتیجہ میں عبدالرب استاد کے تحقیقی پروجیکٹ کے خلاف مہم شروع کر دی گئی۔اس سیاسی مقصد کے حصول کا سب سے آسان ہدف یہ بن گیا کہ عبدالرب استاد اور حیدر قریشی دونوں ہم مسلک ہیں اور یہ اپنے مسلک کی تبلیغ کے لیے پی ایچ ڈی کی جا رہی ہے۔اس مہم میں اس حد تک اشتعال انگیزی سے کام لیا گیا کہ یونیورسٹی میں باقاعدہ جلوس نکالا گیااورسیکولر بھارت کی ایک یونیورسٹی میں ایک تحقیقی پروجیکٹ کو محض اس اشتعال انگیزی کی بنیاد پر روک لیا گیا کہ ریسرچ اسکالر اور ریسرچ کا موضوع بننے والا دونوں افراد ہم مسلک ہیں۔اس طرزِ عمل سے پھر یہ اصول وضع ہوتا ہے کہ کسی بھی مذہب اور مسلک کا کوئی فرد اپنے ہم مسلک کسی فرد پر کوئی تحقیقی کام نہیں کر سکتا،چاہے وہ علمی اور ادبی طور پر کتناہی حق کیوں نہ رکھتا ہو۔
اس سلسلہ میں یہاں اپنے مسلک اور اپنی جماعت کے تعلق سے دوتین وضاحتیں کرنا ضروری سمجھتا ہوں۔پہلی یہ کہ جب عبدالرب استاد سے میرا ابتدائی رابطہ ہوا،تب دونوں کو ہی ایک دوسرے کے معتقدات کا کوئی علم نہ تھا۔رابطہ کی نوعیت خالصتاََ علمی و ادبی تھی۔کافی بعد میں جا کر یہ بات سامنے آئی کہ اتفاق سے ہم دونوں ایک ہی جماعت سے تعلق رکھتے ہیں۔
دوسری وضاحت جو نہ اپنی جماعت سے کسی نوعیت کا شکوہ ہے اور نہ ہی عامتہ المسلمین سے کسی ہمدردی کے حصول کی غرض ہے،لیکن اس کا اظہار اس پورے واقعاتی تناظر میں کر دیا جانااب ضروری لگتا ہے۔باسٹھ سال کی مجموعی عمرمیں اور لگ بھگ چالیس سال کی ادبی عمر میںمیری جماعت کے کسی قومی یا بین الاقوامی مشاعرے یا ادبی پروگرام میں مجھے کبھی مدعو نہیں کیا گیااور نہ ہی مجھے کبھی جماعت کے ٹی وی کے کسی فنکشن یا پروگرام میں بلایا گیا ہے۔اس سے اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ میری ادبی کارکردگی کی میری اپنی جماعت میں کیا حیثیت ہے۔اس لحاظ سے میرے ادبی کام کومحض ایک مسلک کے حوالے سے دیکھنا کتنا بامعنی رہ جاتا ہے؟یہ الزام تراشی کرنے والے اور جلوس نکالنے اور نکلوانے حضرات کے لیے غور طلب ہے۔
تیسری وضاحت یہ کہ جماعت سے تعلق رکھنے والے ادبی دنیا سے جڑے ہوئے بیشترشاعر اور ادیب اکثرمجھ سے بالکل لا تعلق ہیں۔،عبیداللہ علیم،رشید قیصرانی،صابر ظفر،مضطر عارفی ،طاہر عارف ،داؤد طاہر،ڈاکٹر پرویز پروازی، جمیل الرحمن، ۔ ۔ ۔ نہ صرف یہ لوگ مجھ سے لا تعلق ہیں بلکہ ان میں سے بعض میرے خلاف زہریلے پروپیگنڈہ کی مہم میں شریک رہے ہیں۔یہی وجہ ہے کہ جب میرے ادبی کام پر پی ایچ ڈی کا پروجیکٹ مکمل ہو کر منظور ہو اتو ان میں سے جو زندہ موجود ہیں،ان سب کو سانپ سونگھ گیا۔جماعت کی سو سال کی تاریخ میں جماعت سے تعلق رکھنے والے کسی بھی زندہ شاعر اور ادیب پریہ پہلا پی ایچ ڈی کا پروجیکٹ تھا جو مکمل ہوا تھا لیکن اس پران میں سے زندہ موجودادیبوں میںسے کسی کو رسمی مبارک باد کہنے کی توفیق بھی نہ ملی۔
گلبرگہ یونیورسٹی میں ہنگامہ ۲۰۰۸ءکے وسط میں کرایا گیاجبکہ میں نے ۲۰۰۶ءکے اواخر میں اپنی یادوں کے ایک باب میں مذہبی انتہا پسندوں کے بارے میں احتیاط کے ساتھ اپنی عمومی رائے کا اظہارکیا تھا جو جنوری ۲۰۰۷ء کے جدید ادب میں شائع کر دیا تھا۔اس رائے کو یہاں دہرا دینا مناسب سمجھتا ہوں۔
” اس وقت دنیا کو مذہبی انتہا پسندی سے شدید خطرات لا حق ہیں۔کسی ایک مذہب یا مسلک کو قصوروار کہے بغیر میرے نزدیک ہر مسلک اور مذہب کے انتہا پسند انسانیت کے لئے شدیدخطرہ ہیں۔میرے ذاتی خیال کے مطابق ہر مسلک اور مذہب کے پاس کچھ ایسی بنیادیں ہوتی ہیں جن پر وہ باقاعدہ قائم اور استوار ہوتا ہے۔اسی لئے اس کے پیروکاروں کے لئے اس پر کاربند رہنے کا کچھ جواز بنتا ہے۔اسی طرح ہر مذہب اور مسلک میں کچھ ایسے کمزور پہلو بھی ہوتے ہیںجن کی بنیاد پر ان پرمدلل اعتراض وارد ہوتے ہیں۔بس جہاں ایسے اعتراضات میں شدت آتی ہے وہیں دوسرے مذاہب کے لوگوں کو بھی اپنے مخالف کے کمزور پہلوؤں پر حملہ کرنے کا موقعہ مل جاتا ہے۔یوں مذہبی نفرتیں بڑھتی ہیں۔عمومی طور پر ہمارے تہذیبی اور ثقافتی میلان کے ساتھ ہمارا نفسیاتی میلان ہمیں کسی مسلک پر کاربند رکھتا ہے۔یا پھر بھیڑ چال کا نسل در نسل رویہ بھی ہمیں ہانکتا ہے۔یوں کوئی انتہائی جذباتی اور مشتعل قسم کا سچا مومن اگر کسی مسیحی،یہودی،ہندو یا سکھ گھرانے میں پیدا ہوتا تو وہاں بھی وہ اتنا ہی مخلص، سچا، کھرا، جذباتی اور مشتعل قسم کا مسیحی، یہودی ، ہندو یا سکھ ہوتا۔ میںہر مذہب کے اس قسم کے مومنین کا احترام بھی کرتا ہوں اور ان سے ڈرتا بھی ہوں اور ہر سال اکبر حمیدی کے الفاظ میں دعا کرتا ہوں:
یا رب العالمین! ترے لطف سے رہیں
محفوظ ”مومنین “ سے ”کفار“ اس برس
(کھٹی میٹھی یادیں کے باب: رہے نام اللہ کا !‘سے اقتباس۔
بحوالہ جدید ادب جرمنی۔شمارہ: جنوری تا جون ۲۰۰۷ء)
ادبی طور پر میں کسی مسلک ، مذہب یانظریے کا پروپیگنڈہ کرنے کو کبھی بھی مستحسن نہیں سمجھتا۔یہی میرا ادبی مسلک ہے۔کاش جماعت کے حوالے سے مجھ پر حملہ کرنے والوں اور حملہ کرانے والوں نے مجھے پڑھ کر میرے خلاف کوئی فیصلہ لیا ہوتا۔ بہر حال یہ معاملہ پانچ سال تک معلق رہا اور بالآخرپانچ سال کی تاخیر کے بعد جون ۲۰۱۳ءمیں عبدالرب استاد کے تحقیقی کام پر انہیں پی ایچ ڈی کی ڈگری دے دی گئی۔
سال ۲۰۱۳ء جہاں پی ایچ ڈی کے پروجیکٹ کی تکمیل کا سال ثابت ہوا وہیںاسی سال حیران کن حد تک یونیورسٹی سطح کے چار نئے پروجیکٹ سامنے آئے۔یہ چاروں پاکستان اور انڈیا کی یونیورسٹیوں سے ایم فل کے نئے پروجیکٹ ہیں۔ان میں سے کلکتہ یونیورسٹی سے انجم آراءکو ۲۹نومبر۲۰۱۳ء کو ایم فل کی ڈگری دی گئی۔ان کے مقالہ کا موضوع تھا:”حیدر قریشی :حیات اور ادبی خدمات“۔پروفیسر شہناز نبی کی نگرانی میں یہ مقالہ مکمل کیا گیا ۔ ایک لحاظ سے اس کام نے اُس داغ کو دھونے کی کاوش کی جوگلبرگہ میںڈاکٹر عبدالرب استاد کی ذاتی مخالفت میں بعض نادانوں نے ہند کی علمی و ادبی ساکھ پر لگا دیا تھا۔انجم آراءکے ایم فل کے مقالہ سے یقیناََ اُس زیادتی کی بالواسطہ طور پر تلافی ہوئی ہے۔
دوسری طرف پاکستان میںہزارہ یونیورسٹی مانسہرہ، سے ایبٹ آبادکے معروف نقاد اور شاعرعامر سہیل نے ۲۰۱۴ءمیں ”حیدر قریشی کی ادبی خدمات“کے موضوع پر ایم فل کر لیا ہے۔ ڈاکٹر الطاف یوسفزئی ان کے نگران تھے۔ عامر سہیل نے یہ مقالہ بڑی محنت اور عرق ریزی کے ساتھ مکمل کیا ہے۔عامر سہیل کا ایم فل کا مقالہ علمی،ادبی ،تحقیقی و تنقیدی ہر زاویے سے ایک بھر پور مقالہ ہے۔عامر سہیل نے اپنی ساری ادبی عمر کا تجربہ اور ریاضت بروئے کار لا کر ایم فل کے اپنے مقالہ کو روایتی کام نہیں رہنے دیا۔یہ اس نوعیت کا کام ہوا ہے کہ اگر کسی کو بعد میں میرے ادبی کام پر کسی اور زاویے سے تحقیقی کام کرنے کی ضرورت محسوس ہوئی توعامر سہیل کا مقالہ اس تحقیق میں شاید سب سے زیادہ معاون اور مددگار ثابت ہوگا۔ تاہم یہاں مجھے ایک خوشی اور ایک تاسف کا اظہارکرنا ہے۔منزہ یاسمین کا ایم اے کا مقالہ اسلامیہ یونیورسٹی بھاولپور سے مکمل کیا گیا۔خانپور اور رحیم یار خان کی علاقائی نسبت سے بھاولپور میرا آبائی علاقہ ہے۔یہاں سے ایسا کام ہونا میرے لیے خوشی کا موجب ہے۔اسی طرح پاکستان کو چھوڑنے سے پہلے میراآخری پڑاؤ ایبٹ آبادمیں تھا۔میں یہیں ایک تعلیمی ادارہ میں اردو پڑھا رہا تھا،اس مناسبت سے اب ایبٹ آبادکے ایک ادیب عامر سہیل کاہزارہ یونیورسٹی سے میرے کام پر ایم فل کرنا بھی میرے لیے از حد خوشی کا موجب ہے۔یہ خوشی اس لحاظ سے بہت زیادہ ہو جاتی ہے کہ جنوبی پنجاب میں بھاولپورکا پورا علاقہ میرے مسلک کے لوگوں کے لیے خاصا مشکل علاقہ ہے،جبکہ اسامہ بن لادن کے حوالے سے ایبٹ آباد کی عالمی شہرت اس کی پہچان بن چکی ہے۔ بظاہرایسے سنگلاخ علاقوں کی یونیورسٹیو ں سے میرے ادبی کام پر تحقیقی کام کیے گئے اور کسی کونے سے کوئی اعتراض نہ کیا گیاکہ یہ کام کس مسلک کے ادیب پر ہونے جا رہا ہے؟۔حالانکہ دونوں علاقوں میں میری مسلکی شناخت بڑی واضح تھی۔اس سے فرقہ پرستی میں اَٹے ہوئے وطنِ عزیز پاکستان کی تشویشناک حالت کے باوجودیہاں کی بعض اعلیٰ درسگاہوں میں پائی جانے والی غیرجانبداری اور رواداری کا تھوڑا بہت اندازہ کیا جا سکتا ہے۔ اس کے بر عکس انڈیا جیسے سیکولر ملک کی گلبرگہ یونیورسٹی میں میرے ادبی کام پر ہونے والے تحقیقی کام پر محض مسلک کا اعتراض لگا کراسے رکوا دینااور اس مقصد کے حصول کے لیے ناقابلِ یقین انداز کا ہنگامہ کرانا،وہاں کے عمومی سیکولر اور علمی و ادبی مزاج کے بالکل برعکس ہوجاتا ہے۔یہ محض یونیورسٹی کے متعلقہ شعبہ کے ا ن شریر عناصرکی وجہ سے ہوا جو صرف ذاتی عناد کی وجہ سے اور مقامی سیاست کی وجہ سے عبدالرب استاد کو زک پہنچانا چاہتے تھے لیکن در حقیقت اپنی نادانی میں اپنے ہی وطن کی علمی بدنامی کا موجب بن رہے تھے۔خوشی کی بات یہ ہے کہ وہاں خیر کی قوتیں آخر کار شر کی قوتوں پر غالب آئیں۔ہند کے عمومی سیکولر مزاج کا پاس کیا گیا اور فرقہ پرست عناصر کو اپنے مقصد میں ناکام ہونا پڑا۔ ہر چند اس کام میں پانچ سال کا وقت ضائع ہوا۔
۲۰۱۳ءمیں ہی جواہر لال نہرو یونیورسٹی دہلی سے ہردئے بھانو پرتاپ نے میری شاعری پر اور رضینہ خان نے میرے افسانوں پر ایم فل کے مقالہ کی رجسٹریشن کرائی۔یہ میرے لیے نہ صرف بے حد حیران کر دینے والی خوشی تھی بلکہ اس کے نتیجہ میں گلبرگہ کے بعض نادانوں کی طرف سے کی جانے والی ساری زیادتی کی بھی پوری تلافی ہو گئی۔ان دونوں مقالات کے نگران پروفیسر ڈاکٹر مظہر مہدی ہیں۔اور یہ دونوں مقالات اسی برس مکمل ہو گئے ہیں۔ رضینہ خان کا مقالہ مجھے دیکھنے کا موقعہ ملا ہے۔انہوں نے ”حیدر قریشی کی افسانہ نگاری کا مطالعہ“موضوع کو اپنی صلاحیت کے مطابق عمدگی سے نبھایا ہے تاہم انہوں نے میری دوسری ادبی جہات پر بھی اختصار کے ساتھ مطالعاتی جائزہ پیش کیا ہے۔پھر میری افسانہ نگاری پر بات کرنے کے ساتھ فن افسانہ نگاری پر بھی سیر حاصل گفتگو کی ہے۔
ہردئے بھانو پرتاپ ذاکر حسین دہلی کالج میں اردوکے استاد ہیں۔ان کا شعبہ اردو میں ہونا بجائے خود خوش کن خبر ہے۔اسی لیے ان کا میری شاعری پر ایم فل کرنا میری لیے دہری خوشی کا باعث ہے۔
مذکورہ بالاسارے ریسرچ اسکالرز نے اپنی اپنی ہمت اور لگن کے مطابق اچھا کام کیا ہے۔اور میرے نزدیک ہر ایک کی اپنی اپنی جگہ ایک اہمیت ہے،تاہم جب سارے اچھے کام میں سے زیادہ اچھے کام کا انتخاب کرنا ہو تو مجھے یہ کہنے میں کوئی عار نہیں کہ عامر سہیل کا مقالہ اپنی علمی،ادبی ،تحقیقی اور وسعت کی بنیاد پر دوسرے مقالات سے آگے دکھائی دے رہا ہے۔جیسے پہلے منزہ یاسمین کا مقالہ بعد میں آنے والوں کے لیے حوالے کی کتاب ثابت ہوا،ویسے ہی عامر سہیل کا مقالہ ایک نئی بنیاد اور نیا حوالہ بن کر سامنے آیا ہے۔اگر کسی اور ریسرچ اسکالر کو میرے کام پر مزید کام کرنے کا خیال آیا تومنزہ یاسمین،ڈاکٹرعبدالرب استاد،انجم آرائ،رضینہ خان اور ہردئے بھانو پرتاپ کے مقالات سے استفادہ کرنے کے ساتھ، اس کے لیے عامر سہیل کا مقالہ نئی تحقیقی راہوں کی نشان دہی کرتا دکھائی دے گا۔اتنی توجہ اور محنت و محبت کے ساتھ مقالہ لکھنے پر میں عامر سہیل کا شکر گزار ہوں،ان کے نگران ڈاکٹر الطاف یوسف زئی کا ممنون ہوں اور مانسہرہ یونیورسٹی کے اربابِ اختیار کابھی شکریہ ادا کرتا ہوں ۔
گلبرگہ یونیورسٹی کے ڈاکٹر عبدالرب استاد اور ان کے نگران ڈاکٹر حمید سہروردی کابہت زیادہ شکریہ ادا کرنا واجب ہے کہ پانچ سال تک میرے نام کی وجہ سے مشکلات کا سامنا کرنے کے باوجود اور اپنے کیرئیر کے داؤ پر لگ جانے کے باوجودانہوں نے اپنے پی ایچ ڈی کے پراجیکٹ سے دستبردار ہونا گورا نہیں کیا اور ساری صورتِ حال کا دانشمندانہ طریق سے سامنا کیا۔بالآخر اپنے مقصد میں کامیاب ہوئے جو اُن کے یونیورسٹی کیرئیر میں شاندار کامیابی کے ساتھ خود میرے لیے علمی و ادبی عزت کا موجب ہوا۔سو پروفیسر ڈاکٹر عبدالرب استاداورڈاکٹر حمید سہروردی دونوں دوستوں کا تہہ دل سے شکریہ۔
کلکتہ یونیورسٹی کی پروفیسر ڈاکٹر شہناز نبی کا تہہ دل سے ممنون ہوں کہ انہوں نے اپنی ایک ذہین شاگرد انجم آراء کے ذریعے میرے ادبی کام پر ایم فل کا پراجیکٹ مکمل کرایا۔
جواہر لال نہرو یونیورسٹی دہلی کے پروفیسرڈاکٹر مظہر مہدی کا شکر گزار ہوں کی ان کی ادبی محبت اور خلوص کے نتیجہ میں ان کے دو اچھے ریسرچ اسکالرز ہردئے بھانو پرتاپ اور رضینہ خان نے علی الترتیب میری شاعری اور میرے افسانوں کواپنے ایم فل کا موضوع بنایا اور مجھے عزت بخشی۔
اس سارے کام کوخدا کا خاص فضل شمار کرتے ہوئے سب سے زیادہ اس کا شکر گزار ہوں کہ اسی نے مجھ جیسے بے سروسامان بندے کے لیے انڈوپاک کی اعلیٰ علمی درسگاہوں میں ادبی عزت و توقیر کے اتنے سامان پیدا کر دئیے۔سو دل کی گہرائی سے اپنے پیارے خدا کا اعلانیہ شکریہ بھی ادا کرتا ہوں۔
اپنی اڑانےں، ساری شانےں،تیرے دَم سے یار
تیرے ہاتھ ہوائےںساری تیرے ہاتھ مےں ڈور
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔