ثنائیلہ سخت حیرت، بے یقینی اور تعجب سے سفید ٹائلوں اور آتشی بوگن ویلیا کی بیلوں سے ڈھکا آرٹسٹک انداز میں بنا بنگلہ دیکھ رہی تھی۔ اس وسیع و عریض بنگلے کے سیاہ گیٹ پر لگی تختی پر لکھا نام اور عہدہ پڑھ کر اُسے دھچکا لگا۔ وہ اندر داخل ہونے سے پہلے ہی سخت مرعوب ہو چکی تھی۔ گیٹ پر اُس کی آمد کی اطلاع تھی اس لیے اُسے فوراً ہی اندر پہنچا دیا گیا۔ وسیع پورٹیکو میں ایک لائن میں تین گاڑیاں کھڑی تھیں۔ دائیں جانب لش گرین لان میں ایک موروں کا جوڑا اٹھکیلیاں کر رہا تھا۔وہ انہیں دیکھ کر وہ مبہوت ہوئی۔
’’زبردست۔۔۔!!!!‘‘ اُس نے دل ہی دل میں انہیں سراہا۔اچانک اس کی نگاہ لان میں بوگن ویلیا کی بیل کے پاس بیٹھے موحد پر پڑی۔جو دلچسپی سے اُسے اندر آتے دیکھ رہا تھا۔
’’آئیں ناں ثنائیلہ۔۔۔!!!آپ رُک کیوں گئیں۔۔۔؟؟؟؟‘‘ موحد نے بڑی خوشدلی سے استقبال کیا۔ پچھلے تین دن سے اُس کو فلو اور ہلکا بخار تھا۔اُس نے ثنائیلہ سے ذکر کیا تو اُس نے عیادت کی فرمائش کر دی ،جسے وہ ٹال نہیں سکا۔دونوں میں بہت اچھی انڈر اسٹینڈنگ پیدا ہو چکی تھی۔
’’آپ کی ماما گھر نہیں ہے ناں۔۔۔؟؟؟؟‘‘ ثنائیلہ نے کئی کینال پر مشتمل اس گھر کو توصیفی نظروں سے دیکھا اور اُس کے لہجے میں چھپا خوف محسوس کرکے موحد ہنس دیا۔
’’ماما تو اندر ہیں۔۔۔‘‘ اُس نے جان بوجھ کر چھیڑا۔ثنائیلہ گھبرا کر لان چئیر سے فوراً کھڑی ہوگئی۔
’’کیا ہو گیا ہے ثنائیلہ۔۔۔‘‘اُس کی اڑتی رنگت دیکھ کر وہ شوخ ہوا۔’’آپ کا تو چڑیا کی طرح نازک دل ہے۔۔۔‘‘
’’آپ نے تو کہا تھا کہ ماما اور سسٹر نارا ن گئی ہوئیں ہیں۔۔۔‘‘ ثنائیلہ نے سخت شکایتی نظروں سے اُسے دیکھا۔
’’ارے بابا ،وہ واقعی ناران گئی ہوئی تھیں۔‘‘ موحد نے مسکرا کر کہا۔’’لیکن رات ان کی واپسی ہو گئی تھی اور صبح وہ لوگ بابا کے ساتھ کھاریاں گئے ہیں کوئی ملٹری کا فنکشن ہے۔‘‘موحد کی اطلاع پر ثنائیلہ نے سکون کا سانس لیا اور دوبارہ سے لان چئیر پر بیٹھ گئی۔
’’یہ پھولوں کا گلدستہ شاید میم آپ میرے لیے لائی تھیں۔۔۔‘‘موحد کے شرارت بھرے انداز پر وہ سٹپٹا گئی۔
’’آئی ایم سوری۔۔۔‘‘اُس نے ماتھے پر نمودار ہونے والی ننھی بوندوں کوٹشو سے صاف کرتے ہوئے بکے اُس کی جانب بڑھایا جو وہ اپنی گود میں رکھ کر بیٹھی ہوئی تھی۔
’’اب کیسی طبیعت ہے آپ کی۔۔۔؟؟؟؟‘‘ اُس کو عیادت کی رسم نبھانے کا بھی خیال آیا۔
’’اب تو بالکل ٹھیک ہو گیا ہوں۔۔۔‘‘اُس کی معنی خیز نگاہیں ثنائیلہ کے ہاتھ پیر پھلا رہی تھیں۔
’’آپ اپنی کہانیوں میں رومینٹک ڈائیلاگ لکھتی ہیں۔۔۔‘‘موحد کے سنجیدہ سے سوال نے اُسے مزیدبوکھلا دیا۔’’کیا مطلب۔۔۔‘‘؟؟؟؟
’’مطلب یہ کہ ابھی تو میں نے کچھ کہا ہی نہیں اور محترمہ بالکل اسٹابری کی طرح سرخ ہو گئی ہیں تو جب وہ خود لکھتی ہوں گی تو تب کیا حالت ہو گی۔۔۔‘‘موحد کو اپنے سامنے بیٹھی یہ سادہ سی لڑکی نہ جانے کیوں اچھی لگنے لگی تھی۔
’’لفظ لکھنا اور چیز جب کہ ان کو برتنا ایک اور مرحلہ ہوتا ہے۔۔۔‘‘ثنائیلہ نے پر اعتماد نظر آنے کی کوشش کی۔
’’کون سی چیز زیادہ آسان ہے،لکھنا یا ان کا تجربہ کرنا۔۔۔‘‘وہ دلچسپی سے بولا۔
’’تھیوری سے زیادہ پریکٹیکل ہمیشہ مشکل ہوتا ہے۔۔۔‘‘ ثنائیلہ کے بے ساختہ جملے پر وہ قہقہہ لگا کر ہنسا۔جب کہ ثنائیلہ خفت زدہ انداز سے موروں کے جوڑے کو دیکھنے لگی جو پورے لان میں اٹکھیلیاں کررہے تھے۔
’’یہ میرے بابا کو چولستان میں رہنے والے ایک ملازم نے گفٹ کیے تھے۔۔۔‘‘موحد نے اُس کی نظروں کے تعاقب میں دیکھتے ہوئے اطلاع دی۔
’’یہ کب سے ہیں آپ کے گھر۔۔۔؟؟؟؟‘‘ ثنائیلہ نے تجسّس سے پوچھا۔
’’پچھلے دو سال سے یہ ہمارے گھر کا حصّہ ہیں،لیکن مجھے آج انکی خوش قسمتی کا یقین آ گیاہے۔‘‘ موحد کے ذومعنی انداز پر اس نے چونک کر دیکھا۔
’’آپ جب سے یہاں ہیں اُس وقت سے انہی پر نظر کرم کر کے بیٹھی ہیں اس لیے مجھے لگا کہ مجھ سے زیادہ تو یہ لکیّ ہیں۔‘‘ موحد کی بات پر وہ بے ساختہ جھینپ سی گئی۔اُس کے گال تپ گئے اور وہ پلکیں جھپک جھپک کر سامنے بیٹھے شخص کو دیکھنے لگی۔جس کا بدلا ہو اروپ اُس کے ہاتھ پیر پھلا رہا تھا۔
’’ثنائیلہ ،ایک بات کہوں۔۔۔؟؟؟؟‘‘اُس کے لہجے کی حدت سے ثنائیلہ کا دل پگھلا۔
’’ابھی بھی وقت ہے ،سوچ لیں کہ میرے جیسا شخص زندگی کی دوڑ میں آپ کے ساتھ کیسے چلے گا۔۔۔؟؟؟‘‘ ثنائیلہ نے ایک دم نگاہ اٹھا کر اُس کی جانب دیکھا ۔موحد کی آنکھوں میں بے بسی کے سارے رنگ تھے۔
’’محبت اگر،سوچ سمجھ کر اور نفع و نقصان دیکھ کر کی جائے تو وہ محبت نہیں ایگری منٹ ہوتا ہے اور مجھے زندگی میں ایگری منٹ کبھی بھی اچھے نہیں لگتے۔۔۔‘‘ وہ بڑے پر اعتماد انداز سے اس کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر مزیدگویا ہوئی۔
’’اس چیز کی کیا گارنٹی ہے کہ میں جو دونوں پاؤں زمین پر رکھے آپ کے سامنے موجود ہوں ۔آنے والے وقتوں میں یہ زمین بھی میرے قدموں کے نیچے رہے گی یا نہیں۔‘‘وہ اس کی بات پر لاجواب ہوا۔
’’مجھے ہمیشہ اس چیز پر فخر رہے گا کہ آپ کے جسم کا ایک حصّہ اپنے فرائض کی انجام دہی کے نتیجے میں ضائع ہوا۔یہ عزت اور یہ مقام ہر شخص کے حصّے میں تھوڑا آتا ہے۔اللہ ایسے کاموں کے لیے اپنے خاص بندوں کا انتخاب کرتا ہے۔۔۔‘‘ثنائیلہ کے لفظ موحد کے جسم میں ایک نئی توانائی کا خوبصورت اور توانا احسا س بھر رہے تھے۔
’’ایک بات تو بتائیں۔۔۔‘‘وہ تھوڑی سی ہچکچاہٹ کا شکار ہوئی۔موحد نے سراٹھا کر اُس عام سی نظر آنے والی خاص لڑکی کو دیکھا۔
’’میں تو عام سی شکل وصورت کی لڑکی ہوں۔آپ کو مجھ میں کیا خاص نظر آ گیا۔۔۔‘‘ ثنائیلہ کے لبوں پر وہ سوال آ ہی گیا جو وہ کافی دنوں سے کرنا چاہ رہی تھی۔
’’آپ کی اپنے فرضی کردار سے محبت اور لگن،جس کے نتیجے میں ،میں آپ کے سامنے ہوں۔۔۔‘‘موحد نے مسکرا کر کہا۔’’آپ مجھے بہت حیران کن لگیں ،آپ کے جذبے میں سچائی تھی اور جب جذبوں میں سچائی ہو اور کچھ کر گذرنے کی دھن ہو تو منزلیں خود بخود سامنے آ جاتی ہیں۔۔۔‘‘
’’ایک اور بات پوچھوں۔۔۔؟؟؟؟‘‘ ثنائیلہ کے چہرے پر گہری سوچ کا تاثر ابھرا موحد نے فوراً اثبات میں سر ہلایا۔’’اگر زندگی میں آپ کے ساتھ یہ حادثہ نہ ہوا ہوتا،اور آپ اپنے قدموں پر کھڑے ہوتے تو کیا تب بھی مجھ جیسی عام سی لڑکی کے جذبوں کی پذیرائی کرتے۔۔۔‘‘
’’کیا مطلب۔۔۔؟؟؟؟‘‘ وہ بُری طرح چونکا۔
’’دیکھیں ناں ،آپ کے اسٹیٹس اور میرے اسٹیٹس میں زمین و آسمان کا فرق ہے۔آپ کی وجاہت اور متاثر کن شخصیت کو دیکھ کر ابھی بھی لڑکیاں مڑ مڑ کر دیکھتی ہیں ۔آپ کے پاس وہ سب کچھ ہے جو میرے پاس نہیں۔ایسے میں کیا تب بھی آپ کی زندگی میں میری کوئی گنجائش نکلتی۔۔۔‘‘اُس نے انتہائی سفاک سوال بڑے سادہ لہجے میں پوچھا ۔موحد نے ایک لمبا سانس لیا۔
’’میں اس حادثے سے پہلے قسمت پر یقین نہیں رکھتا تھا لیکن اس کے بعد مجھے معلوم ہوا کہ اللہ کی پلاننگ میں جو چیزیں شامل ہوں،وہ ہو کر رہتی ہیں۔آپ کو میری زندگی میں آنا ہی تھا۔ یہ کیسے ہوتا؟یہ اللہ بہتر جانتا ہے چاہے یہ حادثہ ہوتا یا نہ ہوتا۔آپ کی جگہ میراگھر اور میرادل ہی تھا۔۔۔‘‘موحد میں بڑی مثبت تبدیلی آئی تھی۔وہ مسکراتے ہوئے اُسے دیکھ رہا تھا جو اب کھلکھلا کر ہنس رہی تھی۔
* * *
عائشہ نے کوئی آٹھویں بار اپنی رسٹ واچ میں وقت دیکھا تھا۔ اُس کی نگاہیں پارک کے داخلی گیٹ کی جانب تھیں جہاں سے رامس نے آنا تھا۔گذشتہ رات اُس نے بڑے پژمردہ خیالات کے ساتھ بسر کی ۔دل کے ساتھ ویسے ہی اُس کی ٹھنی ہوئی تھی۔ساری رات وہ اپنے بیڈ روم سے اسٹوڈیو کے چکر لگاتے ہوئے گذار دیتی ۔دل کو کسی بھی لمحے سکون حاصل نہیں تھا۔ہر وقت یہی سوچ دل و دماغ کا احاطہ کیے رکھتی کہ اُس شخص نے میرے ساتھ ایسا کیوں کیا۔
’’اُس کو پوری دنیا میں افئیر چلانے کے لیے کیا میں ہی ملی تھی۔۔۔؟؟؟؟؟‘‘ یہ سوچ اُسے بُری طرح جھنجھلا کر رکھ دیتی۔انہی پریشان کن سوچوں کی وجہ سے اُس نے کئی تصاویر اپنی خراب کیں ۔کئی کینوس اٹھا کر اسٹور میں پھینکے۔
’’شکل سے تو وہ بالکل بھی ایسا نہیں لگتا تھا۔۔۔‘‘دل ہر وقت یہی دہائی دیتا رہتا۔
’’شکلیں ہی تو دھوکا دیتی ہیں ۔یہ لوگوں کی فنکاری ہی تو ہوتی ہے کہ وہ ایک چہرے پر کئی چہرے سجا لیتے ہیں۔۔۔‘‘دماغ بڑی مکاّر سی مسکراہٹ کے ساتھ یاد دلاتا۔وہ اپنی گاڑی کے ساتھ ٹیک لگائے شام کی واک کے لیے آنے والے لوگوں کو بے زاری سے دیکھ رہی تھی۔ دماغ میں مختلف سوچوں نے اودھم مچا رکھا تھا۔وقت جیسے جیسے گذر رہا تھا عائشہ کے دل کی دھڑکنیں بے ترتیب ہوتی جا رہیں تھیں۔
’’کہیں اُس بے وقوف نے خود کشی تو نہیں کر لی،پہلے بھی یہ کارنامہ سر انجام دے چکا ہے۔۔۔‘‘عائشہ کادھیان اب رامس کی جانب ہوا۔
’’ماہم کمینی کے مسئلے ہی ختم نہیں ہوتے ،پتا نہیں آجکل کن چکروں میں ہے،جو محترمہ کی مصروفیت ہی ختم ہونے کا نام نہیں لے رہی۔‘‘عائشہ کو ایک دم ہی ماہم پر غصّہ آنے لگا۔
’’انسانیت نام کی کوئی چیز نہیں ہے اس میں ،سائیکلوجی پڑھ پڑھ کر خود بھی سائیکک ہو گئی ہے۔۔۔‘‘ماہم نے آگے بڑھ کر شہتوت کے درخت سے ایک نرم سی ٹہنی توڑی۔وہ اب ماہم کو دل ہی دل میں کوستے ہوئے گیٹ کی طرف دیکھ رہی تھی۔
’’میری بلا سے ،بھاڑ میں جائے رامس ،میں خوامخواہ اس کے لیے اپ سیٹ ہو رہی ہوں۔۔۔‘‘اُس نے اب اپنی کلاس خود لی۔رسٹ واچ پر ٹائم دیکھا ۔اُسے وہاں کھڑے ہوئے پورے چالیس منٹ ہو چکے تھے۔
’’اُس کو کال کر کے پوچھ لیتی ہوں کہ کہاں رہ گیا ہے وہ۔۔۔‘‘ایک عقلمندانہ نکتہ اُسے بڑی دیر بعد سوجھ ہی گیا۔اُس نے گاڑی کی فرنٹ سیٹ سے اپنا بیگ نکالا ۔
’’ہیلو۔۔۔‘‘ وہ بالکل اُس کے پیچھے سے آ کر بولا تو عائشہ اچھل کر رہ گئی۔اُس نے فق چہرے سے اپنے پیچھے بلیک جینز پر فیروزی ٹی شرٹ میں بالکل فریش رامس کو دیکھا۔اُسے کئی لمحوں تک یقین ہی نہیں آیا۔
’’آپ زندہ ہیں۔۔۔؟؟؟؟‘‘ عائشہ کے طنزیہ انداز پر وہ قہقہہ لگا کر ہنسا اور ہنستا ہی چلا گیا۔’’مجھے ایک سو ایک فیصد یقین تھا کہ آپ یہی سوچ رہیں ہوں گی کہ میں نے شاید سو سائیڈ (خودکشی) کر لی ہے۔۔۔‘‘
’’خیر ایسی بھی کوئی بات نہیں ۔۔۔‘‘وہ صاف مکر گئی۔اُسے یقین نہیں آ رہا تھا کہ وہ اتنا تروتازہ اور فریش بھی لگ سکتا ہے۔
’’کیا دیکھ رہی ہیں ،کہ میں اتنا نہا دھوکر دل لگا کر شیو کر کے کیسے آ گیا۔۔۔؟؟؟؟‘‘ اُس نے بڑی سرعت سے عائشہ کے ذہن میں ابھرتی سوچوں کو پڑھا۔
’’یہ سب میں نے آپ کے لیے کیا ہے۔اس لیے تو لیٹ ہو گیا۔۔۔‘‘وہ گاڑی سے ٹیک لگائے بڑے مزے سے بتا رہا تھا۔’’کل میرے مجنوں والے حلیے کو دیکھ کر آپ پریشان ہو گئیں تھیں ناں تو میں نے سوچا کہ جو لوگ آپ کے لیے اپ سیٹ ہوتے ہوں ان کو مزیدپریشان کرنا کہاں کی انسانیت ہے۔۔۔‘‘وہ بھی سامنے درخت سے ایک لمبی ساری ٹہنی توڑ لایا تھا۔جب کہ عائشہ حیرانگی سے اُس پر اعتماد نوجوان کو دیکھ رہی تھی جو کبھی ماہم کی کلینک میں علاج کے لیے آیا کرتا تھا۔
’’میں نے ساری رات اس بات کا سوگ منایا۔تکیے میں منہ دے کر بالکل بچوں کی طرح آخری بار رویا۔اُس کے بعد صبح ناشتہ کر کے اپنی محبت پر خوب ہنسا۔۔۔‘‘وہ زمین پر لکیریں کھینچتے ہوئے بڑے دلچسپ انداز سے اپنا کارنامہ سنا رہا تھا۔
’’اچھا،میں تو کل ڈر گئی تھی۔۔۔‘‘عائشہ نے صاف گوئی سے کہا۔
’’آپ نے سوچا ہوگا کہ جذباتی سا بندہ ہے کہیں خود کو کوئی نقصان نہ پہنچا لے۔۔۔‘‘اُس کا اندازہ سوفیصددرست تھا۔
’’میں شاید ایسا بھی کر گذرتا۔۔۔‘‘وہ لاپرواہی سے بولا ’’اگر آپ نے مجھے اپنے بھائی موحد کا نہ بتایا ہوتا۔۔‘‘ عائشہ اس کی بات پر اُلجھ گئی۔
’’میں نے سوچا کہ جب موحد جیسا بندہ جس نے ایک عظیم مقصد کی بناء پر اپنے جسم کا ایک حصّہ کھو دیا ۔جب اُس نے اُس جیسے شخص کی قدر نہیں کی تو میں اُس کے سامنے کس کھیت کی مولی ہوں۔۔۔‘‘وہ استہزائیہ انداز میں ہنسا۔
’’پھر اُس نے جس معمولی بات کو وجہ بنا کر مجھے مسترد کیا،میں تو شاکڈ رہ گیا۔۔۔‘‘وہ ہاتھ میں پکڑی ٹہنی زمیں پر آہستہ آہستہ مارتے ہوئے رنجیدہ لہجے میں مزیدبولا۔’’مجھے وہ اچھی لگتی تھی لیکن اپنی شکل وصورت کی بناء پر نہیں،اپنے پروفیشن کی وجہ سے۔۔۔‘‘ اُس کی بات پر عائشہ بُری طرح چونکی۔
’’ میرا خیال تھا کہ اُسے انسانیت سے محبت ہے۔وہ مسیحائی کے پیشے سے وابستہ ہے۔اس لیے میری زندگی میں آنے والے سارے خلا ء پُر کردے گی،لیکن۔۔۔‘‘ وہ دھیمے لہجے میں بولتے بولتے چپ کر گیا۔
’’بس ہر انسان اپنے لیے بہتر سوچ سکتا ہے،ہم کیا کہہ سکتے ہیں۔۔۔‘‘عائشہ کو کچھ لمحوں کے لیے اپنا غم بالکل بھول گیا۔
’’مجھے کئی دفعہ اس کی چیزیں عجیب تو لگتی تھیں لیکن میں جان بوجھ کر نظر انداز کر دیتا تھا،لیکن مجھے اب پتا چلا کہ انسان اپنی ان چھوٹی چھوٹی چیزوں سے بہت جلد پہچانا جاتا ہے جو وہ روانی میں کر رہا ہوتا ہے۔۔۔‘‘رامس نے پہلی دفعہ کھل کر اعتراف کیا۔
’’خیر چھوڑیں ،آپ میرے لیے کون سی پینٹنگ لائی ہیں۔۔۔‘‘ رامس نے جان بوجھ کر گفتگو کارخ بدلا تو عائشہ بھی کندھے جھٹک کر گاڑی کی ڈگی کی طرف بڑھی۔
’’واؤ۔۔۔بیوٹی فل۔۔۔‘‘ رامس توصیفی نگاہوں سے اُس خوبصورت پینٹنگ کو دیکھ رہا تھا۔
’’ پہاڑوں کے درمیان بل کھاتا ایک خوبصورت راستہ تھا۔جو تاحدّ نگاہ صاف شفاف اور روشن دِکھائی دے رہا تھا۔جب کہ پہاڑ سرخ ،زرد اور سبز رنگوں کے پھولوں سے اس طرح لدے ہوئے تھے کہ کوئی بھی حصّہ خالی نظر نہیں آ رہا تھا۔‘‘
’’آپ کا تخیلّ بہت خوبصورت ہے ۔۔۔‘‘رامس نے کھلے دل سے سراہا تو وہ مسکرا دی۔
’’میرا خیال تھا کہ آپ میرے لیے ایسی پینٹنگ بنا کر لائیں گی جس میں ایک لمبی ریلوے لائن پر ایک نوجوان اپنا سر جھکائے مایوس اور پریشان کن حالت میں بیٹھا ہوگا۔اس سے کچھ فاصلے پر ایک خوبصورت لڑکی اس کو چھوڑ کر ہمیشہ کے لیے جا رہی ہو گی۔۔۔‘‘ وہ رامس کی بات پر بے ساختہ ہنس پڑی۔
’’ہر گز نہیں،میں ایسا کر ہی نہیں سکتی۔۔۔‘‘ عائشہ نے فوراً تردید کی۔’’مجھے اگر رنگوں سے کچھ شدھ بدھ ہے تو میری کوشش ہوتی ہے کہ میری پینٹنگ سے کسی دوسرے بندے کو مثبت تحریک ملے۔مجھے مایوسی اور ناکامی کا کوئی بھی رنگ اچھا نہیں لگتا۔۔۔‘‘وہ بہت سلجھے ہوئے انداز سے اپنا موقف بتا رہی تھی۔
’’آپ بہت اچھی لڑکی ہیں ۔۔۔‘‘ رامس نے بڑے دل سے کہا۔’’وہ شخص بہت خوش قسمت ہوگا،جو زندگی کے سفر میں آپ کا شریک ہوگا۔۔۔‘‘اُس کی بات پر عائشہ کو جھٹکا لگا اور لاشعوری طور پر دل کے کئی ٹانکے ادھڑتے چلے گئے۔ایک دفعہ پھر دھیان کا دریا اُسی شخص کی سمت میں بہنے لگا۔جس نے دوبارہ اُس سے رابطہ کرنے کی بھی زحمت نہیں کی تھی۔
’’کیا ہوا،آپ اداس کیوں ہوگئیں۔۔۔‘‘وہ غضب کا چہرہ شناس تھا۔اُس کے چہرے کے نقوش میں ویسی ہی نرمی جھلکتی تھی جو اس دشمن جان کے چہرے پر بہتی تھی۔
’’ایسی تو کوئی بات نہیں،آپ سنائیں آپ کا بزنس کیسا چل رہا ہے۔۔۔‘‘ عائشہ نے خود کو سنبھالتے ہوئے بات بدلی۔
’’ابھی تو سب چیزوں کا آغاز تھا،لیکن آغاز میں ہی ایسا دھکا لگا ہے کہ ابھی تک جسم کی لرزش نہیں جا رہی۔۔۔‘‘وہ دانستہ خوشگوار لہجے میں کہہ کر ہنسا۔
’’کوئی بات نہیں آغاز میں ملنے والی ناکامی بعض دفعہ کسی بڑی کامیابی کا پیش خیمہ ہوتی ہے۔‘‘ عائشہ نے اُسے ہمت دلائی۔وہ اب اپنی گاڑی کے پاس کھڑے دس بارہ سالہ بچّے سے شام کے سارے اخبار خرید رہی تھی۔رامس نے بہت حیرانگی سے یہ منظر دیکھا۔
’’آپ اتنے سارے غیر معروف نام کے اخبارلے کر کیا کریں گی۔۔۔؟؟؟‘‘رامس نے سخت تعجب سے اُسے اپنے بیگ سے پیسے نکالتے ہوئے دیکھا۔اُس نے بچے سے کوئی بقایا نہیں لیا تھا۔ رامس اب اُس بچے کے چہرے پر پھیلنے والی مسرّت کو دیکھ رہا تھا جو سبز رنگ کا ایک نوٹ دیکھ کر اُس کے چہرے پر ابھری تھی۔
’’کچھ نہیں،بس اسٹور میں رکھ دوں گی۔۔۔‘‘ عائشہ نے اُسے مزیدحیران کیا۔’’تواتنے سارے اکھٹے لینے کی کیا ضرورت تھی۔۔۔؟؟؟‘‘ رامس نے بے تابی سے پوچھا۔
’’مجھے تو ضرورت نہیں تھی ،لیکن اُس بچے کو ضرورت تھی کیونکہ اُس کے گھر کا چولہا انہی پیسوں سے چلنا تھا۔‘‘ اُس کی بات پر رامس حیران ہو کر اس سادہ سی لڑکی کو دیکھنے لگا ۔جو اب ایک بوڑھی خاتون سے گاڑی صاف کرنے والے کپڑے وافر مقدار میں خرید رہی تھی۔
’’آپ کو اتنی زیادہ ہمدردی ہو رہی ہے تو آپ ان کی ویسے ہی مدد کردیتیں،اتنا سامان خریدنے کی کیا ضرورت تھی۔‘‘وہ جیسے ہی فارغ ہوئی تو رامس نے اُسے جھٹ مشورہ دیا۔
’’ہر شخص پیشہ ور بھکاری نہیں ہوتا،ہمیں اگر اللہ نے رزق کی فراوانی دی ہے تو اس کے ساتھ غریبوں کی عزت نفس کو مجروح کرنے کا پرمٹ تو نہیں دے دیا ناں۔۔۔‘‘وہ اُس کی بات پر کئی لمحے تک بول ہی نہیں پایا۔
’’آپ ماہم سے بہت مختلف ہیں۔۔۔‘‘وہ اُس سے سخت متاثر ہو چکا تھا۔
’’میں ماہم سے اتنی ہی مختلف ہوں جتنا ایک انسان ،دوسرے انسان سے ہوتا ہے۔۔۔‘‘ وہ اب رسٹ واچ پر ٹائم دیکھ رہی تھی۔مغرب کی اذان کا وقت ہونے والا تھا۔
’’کیا میں موحد سے ملنے کے لیے آپ کے گھر آ سکتا ہوں۔۔۔‘‘وہ اس کی اچانک فرمائش پر کچھ پریشان ہوئی۔’’وہ کیوں۔۔۔؟؟؟‘‘
’’میں اُس سے پوچھنا چاہتا ہوں کہ جب کوئی آپ کی ذات کی نفی کردے ۔آپ کی پوری شخصیت کو مسترد کر دے تو اس دکھ سے نکلنے میں کتنا وقت لگتا ہے۔۔۔؟؟؟‘‘ رامس کے سوال پر عائشہ کو لگا جیسے اُس کی قوت گویائی سلب ہو گئی ہو۔اپنے سامنے کھڑا خوش باش اور فریش سا نوجوان ابھی بھی اُس غم سے باہر نہیں نکلا تھا وہ ایک دفعہ پھر بے سکون ہوئی۔
’’امّاں تو میری کتابیں اور رسالے بوری میں کیوں ڈال رہی ہے۔۔۔‘‘ ؟؟؟؟سکینہ نے سامان کے ڈھیر پر پریشان حال بیٹھی جمیلہ مائی کو مخاطب کیا۔ جو اُس کی کتابوں کا ڈھیر سفید رنگ کی بوری میں ڈال رہی تھی۔پورا کمرہ پھیلا ہوا تھا۔
’’نی سکینہ ہو ر کیا کروں تیری کتابوں کا۔۔۔؟؟؟؟‘‘جمیلہ مائی نے اپنی الجھن کا اظہار کیا۔’’اب عید پر اتنا سارا سامان ہم پنڈ تو نہیں لے کر جا سکتے ناں۔۔۔‘‘گھر جانے کے لیے پیکینگ کرتی جمیلہ مائی خاصی فکرمند تھی کیونکہ رمضان المبارک کا آخری عشرہ چل رہا تھا اور اللہ دتّا ،جاجی کو لے کر ہسپتال پہنچ گیا تھا تاکہ سکینہ اور اس کی ماں کو پنڈ لے جاسکے۔ اس وقت وہ کمرے کے ایک کونے میں جائے نماز بچھائے ظہر کی نماز پڑھنے میں مصروف تھا۔جب کہ جاجی کو ریلوے اسٹیشن پر ٹکٹوں کی بکنگ کے لیے بھیجا ہواتھا۔
’’ یہ کتابیں اسی کمرے میں چھوڑ جا ،واپس بھی تو آنا ہے ناں۔۔۔‘‘سکینہ ہلکی سی جھنجھلاہٹ کا شکار ہوئی۔
’’کیسے چھوڑ دوں ،وہ ہیڈ نرس کہہ رہی تھی کہ سارا کمرہ خالی کر کے جانا۔۔۔‘‘ جمیلہ مائی کی پریشانی سن کر سکینہ کا دل دھک کر کے رہ گیا۔
’’امّاں ،کہیں ایسا تو نہیں ہوگا کہ ہم عید کر کے واپس آئیں تو ہسپتال والے یہ کمرہ کسی اور کو دے دیں ۔۔۔‘‘ سکینہ کے لہجے میں جھلکتا خوف جمیلہ مائی کو بھی فکرمند کر گیا۔
’’اللہ خیر سکھ رکھے پتّر،یہ کمرہ نہ سہی کوئی اور مل جائے گا۔۔۔‘‘ جمیلہ مائی نے دلاسا دیا۔
’’امّاں میں یہ کمرہ کسی اور کو نہیں دوں گی۔میری بہت یادیں اس سے وابستہ ہیں۔۔۔‘‘سکینہ کے لہجے میں بچگانہ سی ضد محسوس کر کے اللہ دتّا مسکرایا۔جائے نماز تہہ کر کے اُس نے اپنی دھی کے ماتھے پر ایک پھونک ماری۔
’’پتّر جو چیزیں ،بندے کی قسمت میں ہوں ان کو کوئی بھی نہیں چھین سکتا۔۔۔‘‘اُس نے اپنی دھی کو تسلی دی اور بڑے مطمئن انداز سے جمیلہ مائی کو لوہے کے ٹرنک میں کپڑے تہہ کر کے رکھتے ہوئے دیکھنے گا۔
’’ابّا،وڈیّ ڈاکٹر صیب سے بات کر کے جانا ناں،کہ ہمارا کمرہ کسی کو نہ دیں۔۔۔‘‘سکینہ کی فرمائش پر اللہ دتّا مسکرا دیا۔
’’پتّری ،وڈّے ڈاکٹر صیب ویسے ہی ہمارا اتنا خیال رکھتے ہیں اور جو بھلا مانس ہمارا بغیر کہے مان رکھتا ہو۔اُسے بار بار کہہ کر کیا شرمندہ کرنا۔‘‘اللہ دتّا کے زندگی گذارنے کے اپنے اصول تھے۔وہ ان پر مضبوطی سے کارآ مد تھا۔سکینہ کو ابّے کی بات پر ہلکی سی شرمندگی ہوئی۔
’’ڈاکٹر صاحب تو بیچارے خود بہت سیدھے سادھے اور اللہ لوک ہیں۔۔۔‘‘جمیلہ مائی نے بھی گفتگومیں حصّہ لیا۔
’’نی بھلیے لوکے۔۔۔اک بات کن کھول کے سن لے۔۔۔‘‘اللہ دتا تھوڑا سا سنجیدہ ہوا۔ سکینہ اور جمیلہ مائی نے حیرت سے اُسے دیکھا۔
’’یہ سیدھے اور اللہ لوک بھی ہم جیسے عام لوگوں کے لیے امتحان ہوتے ہیں۔۔‘‘ اللہ دتّے کمہار نے بہت عجیب بات کی۔
’’وہ کیوں ابّا۔۔۔؟؟؟؟‘‘ سکینہ جی بھر کر حیران ہوئی۔
’’یہ سیدھے سادھے لوگ من کے سچےّ اور اللہ کے بہت پیارے ہوتے ہیں ۔جو خود تو اللہ سوہنے کی خوشنودی کے سارے امتحان آسانی سے پاس کر جاتے ہیں لیکن ان کی سادگی دوسروں کے لیے بڑا امتحان بن جاتی ہے۔ناسمجھ اور خود کو ہوشیار سمجھنے والے لوگ ان کی سادگی کا ناجائز فائد ہ اٹھاتے ہیں۔جس کے نتیجے میں اللہ سائیں کی نظروں سے گر جاتے ہیں۔اس لیے ایسے لوگوں سے محتاط ہو کر ملنا چاہیے۔‘‘ اللہ دتّے کی بات نے سکینہ کو سخت الجھن میں مبتلا کیا۔
’’ابّا،ایسے لوگ تو پھرامتحان نہیں بلکہ دوسروں کے لیے سزا ہوئے ناں۔۔‘‘سکینہ کا لہجہ اللہ دتّے کو اچھا نہیں لگا۔
’’ناں پتّر ناں،اللہ کے پیاروں کے لیے ایسے لفظ مذاق میں بھی استعمال نہیں کرتے۔سزا تو ہمیں ہمارے بداعمال کی ملتی ہے ان کی سادگی کی تونہیں۔۔۔‘‘ اللہ دتّے نے اپنی بات کی وضاحت کی ۔
’’تو ابّا ان کو کیا ضرورت پڑی ہے اتنا اچھا بننے کی ،جب ان کی اچھائی ہی دوسروں کے لیے امتحان بن جائے۔۔۔‘‘سکینہ نے بُرا سامنہ بنایا تو اللہ دتا اپنی لاڈلی کی بات پر ہنس پڑا۔
’’پتّر اگلے بندے کو کیا ضرورت پڑی ہے کہ بُرائی کا ڈھول اپنے گلے میں ڈال کر بجاتا رہے،اللہ سوہنے نے عقل تو دی ہے ناں۔۔۔‘‘ جمیلہ مائی نے بھی اپنے گھر والے کی طرفداری کی۔جو سکینہ کو ایک آنکھ نہیں بھائی۔
’’امّاں تو نے بھی لگتا ہے کہ ابّے کی ہر بات کی تائید کرنے کی قسم کھا رکھی ہے۔۔۔‘‘
’’ساری شریف عورتیں ایسا ہی کرتی ہیں ویسے بھی جس عورت سے اُس کا میاں خوش ہو وہ سیدھی جنت میں جاتی ہے۔۔۔‘‘جمیلہ مائی نے سکینہ کی پرانی فائل احتیاط سے ٹرنک میں رکھتے ہوئے اپنی طرف سے بڑی پتے کی بات بتائی۔
’’امّاں تو تو ویسے بھی سیدھی جنت میں جائے گی سارا دن تو تسبیح پکڑ کر جائے نماز پر بیٹھی رہتی ہے،تجھے کس چیز کی فکر ہے۔‘‘سکینہ نے ہنستے ہوئے امّاں کا مذاق اڑایا۔
’’اگر صرف تسبیح پکڑنے سے جنت ملنے لگتی تو پتّر سارا جہان رنگ برنگی تسبیحاں گلے میں لٹکائے پھرتا۔اللہ بندے کو اس کی نیتوں اور اعمال سے پرکھتا ہے۔‘‘ جمیلہ مائی نے اُسے سمجھانے کی کوشش کی۔
’’پھر بھی امّاں تو،اتنی اچھی اور نیک ہے،اللہ تجھ سے تو فوراً راضی ہو جائے گا۔۔۔‘‘سکینہ نے جمیلہ مائی کو مسکا لگایا ۔
’’پتّر بات انسان کے اچھے یا بُرے ہونے کی نہیں ہوتی بات صرف ایک لمحے کی ہوتی ہے ۔اب یہ انسان کی قسمت کے اس لمحے کی جھولی میں اُس کے لیے خیر کے پھول ہیں یا بُرائی کے کانٹے۔‘‘اللہ دتے نے اپنی بیٹی کو ایک نئی چیز سیکھانے کی کوشش کی۔
’’ابّا اگر ساری بات قسمت کی ہی ہے تو ہم خوامخواہ دوڑے پھر رہے ہیں۔۔۔‘‘سکینہ کو یہ فلسفہ اچھا نہیں لگا اور اُس نے فٹ سے اظہار بھی کر دیا۔
’’پتّر قسمت والی کتاب میں لکھی باتیں اپنی جگہ،پر اللہ نے ’’تدبیر‘‘کی کنجی بھی تو انسان کو تھمائی ہے ناں۔۔۔‘‘
’’تدبیر کی کنجی سے سارے دروازے کہاں کھلتے ہیں ابّا،جب قسمت انسان پر ہنستی ہے تو تدبیر کی ساری کوششیں دھری کی دھری رہ جاتی ہیں۔۔۔‘‘
’’پتّری جب دعا کا سکّہ چلتا ہے تو تیرے میرے جیسے نادان لوگ بھی حیران رہ جاتے ہیں کہ مولا کریم اتنا مہربان تھاا ور ہم خوامخواہ اُس سے مایوس ہوتے رہے۔‘‘اللہ دتّے کے پاس ہر چیز کا جواب تھا۔
’’چاچا جی یہ بہت مشکل باتیں ہیں ،آپ کیوں سکینہ کو ’’تقدیر ‘‘اور تدبیر‘‘کے فلسفے میں الجھا رہے ہیں۔‘‘ڈاکٹر خاور نے کمرے میں داخل ہوتے ہی سکینہ کے ابّا کو مخاطب کیا جو بڑی خوش دلی سے ان سے گلے مل رہے تھے۔
’’پتّر انسان نے خود اپنے آپ کو رنگ برنگی باتوں میں الجھا لیا ہے۔ورنہ دین اسلام جیسا بھی بھلا کوئی سادہ دین ہو سکتا ہے۔۔۔‘‘اللہ دتا کا مدّبر انداز ڈاکٹر خاور کو بہت متاثر کرتا تھا۔
’’کہتے تو آپ بالکل ٹھیک ہیں،بس انسان کو سیدھی سادھی باتیں بھی ذرا دیر سے ہی سمجھ میں آتی ہیں۔‘‘ڈاکٹر خاور نے کمرے میں پھیلے پھیلاوے کو دیکھتے ہوئے اندازہ لگایا۔’’کیا جانے کی تیاری ہو رہی ہے۔۔۔‘‘
’’جی ڈاکٹر صیب۔۔۔‘‘وہ دونوں میاں بیوی مسکرائے۔
’’ہاں بھئی سکینہ ٹھیک ہو،اتنا لمبا سفر کر لو گی ناں۔۔۔‘‘ ڈاکٹر خاور کے خوشگوار انداز پر سکینہ نے بڑی عجلت میں سر ہلا یا۔’’ڈاکٹرصاحب آپ سے ایک بات پوچھوں۔۔۔؟‘‘
’’ہاں ہاں ،کیوں نہیں۔۔۔‘‘وہ اس کے چہرے پر تذبذب کے آثار دیکھ کر حیران ہوئے۔
’’کہیں ایسا تو نہیں ہوگا ناں کہ میں واپس آؤں تو میرا یہ کمرہ کسی اور کے نام الاٹ ہو جائے۔۔۔‘‘سکینہ نے آخر کار وہ سوال کر ہی لیا جس نے اُسے پریشان کر رکھا تھا۔
’’ایسے کیسے ہو سکتا ہے سکینہ،آپ بے فکر ہو کر جائیں ،میں ہوں ناں۔۔۔‘‘ڈاکٹر خاور کے تسلّی آمیز انداز پر سکینہ نے سکون کا سانس لیا۔
’’ہو گئی پتّر اب تسلّی۔۔۔‘‘ جمیلہ مائی کو اس کی بچگانہ حرکت پر غصّہ آیا۔
’’اور ڈاکٹر صاحب میں اپنی کتابیں اور رسالے اس الماری میں رکھ کر تالا لگا دوں۔۔۔‘‘سکینہ نے موقع غنیمت جان کر اگلی فرمائش کی۔اُس پر امّاں کی تنبیہی نظروں کا کوئی اثر نہیں ہو رہا تھا۔اُس کے لیے اُس کے مسئلے زیادہ اہم تھے۔
’’ہاں تو رکھ جائیں ناں،اس میں کیا مسئلہ ہے۔۔۔‘‘ڈاکٹر خاور نے اس کی فائل پر نوٹس لکھتے ہوئے بے دھیانی سے کہا۔
’’لیکن وہ ہیڈ نرس تو کہتی ہے کہ سارا کمرہ خالی کر کے جائیں۔۔۔‘‘سکینہ کے الجھن بھرے انداز پر وہ چونکے۔ ’’اچھا۔۔۔؟؟؟؟چلیں کوئی مسئلہ نہیں ،میں ان سے کہہ دوں گا آپ اتنا سازو سامان لے کر کیسے جائیں گے۔۔۔‘‘ڈاکٹر خاور کے لہجے کی فکرمندی سکینہ کو اچھی لگی۔جب کہ جمیلہ مائی اور اللہ دتّا نے بڑی ممنون نگاہوں سے انہیں دیکھا جو ان کے لیے کم از کم رحمت کا فرشتہ بن گئے تھے۔
’’لے تائی اپنی سکینہ کے لیے پوری برتھ اور ہم تینوں کے لیے ایک علیحدہ برتھ کروا کے بڑی مشکل سے آیا ہوں۔۔۔‘‘جاجی اپنی دھن میں کندھے پر رکھے صافے سے منہ پونچھتا ہوا اندر داخل ہوا۔پہلے ہی قدم پر سٹپٹا کر رک گیا اور بوکھلا کر ڈاکٹر خاور کو سلام کیا۔
’’ہاں بھئی عید کی وجہ سے بکنگ بھی تو بہت مشکل ہوتی ہے ناں۔۔۔‘‘ ڈاکٹر خاور نے مسکراتے ہوئے کہا۔
’’جی ڈاکٹر صاحب تیسرے درجے میں تو آرام سے بکنگ ہو رہی تھی لیکن ہم اپنی سکینہ کو اتنی گرمی میں اکانومی کلاس میں تو نہیں لے کر جا سکتے ناں،اس لیے مہنگی ہی سہی لیکن اے سی والے ڈبّے کی سیٹیں کروائی ہیں۔۔۔‘‘جاجی کی سادگی کم از کم سکینہ کے لیے سخت کوفت کا باعث بنی۔
’’ہاں بڑی جہاز کی ٹکٹیں کرواآیا ہے ناں،شوہدا کہیں کا۔۔۔‘‘سکینہ نے دل ہی دل میں اُسے کوسا ۔جو ٹھنڈے پانی کے کولر سے برف نکال کر منہ پر پھیر رہا تھا۔
’’آج تو تایا،بہت ہی روزہ لگا ہے مجھے۔۔۔‘‘ اُس نے جھینپ کر وضاحت دی کیونکہ کمرے میں موجود سبھی لوگوں نے بڑی دلچسپی سے اُسے دیکھا۔
’’اس دفعہ بڑے عرصے بعد چکر لگا آپ کا۔۔۔‘‘ ڈاکٹر خاور نے ہنستے ہوئے جاجی کو دیکھا ۔
’’بس ڈاکٹر صاحب گندم کی کٹائی کا سیزن لگا کر آیا ہوں۔‘‘ اُس نے اب گرمی کی شدت سے بچنے کے لیے گیلا تولیہ سر پر رکھ لیا۔
’’پھر اپنی شادی کے میٹھے چاول کب کھلا رہے ہو۔۔۔‘‘ڈاکٹر خاور نے جاتے جاتے اُسے چھیڑا تو جاجی کا منہ شرم سے سرخ ہو گیا۔
’’بہت جلدی ڈاکٹر صاحب ۔۔۔‘‘اُس نے کنکھیوں سے سکینہ کا غصّے سے لال چہرہ دیکھا۔جس کا دل جل کر خاکستر ہو گیا تھا۔جب کہ جمیلہ مائی اور اللہ دتّا کے چہرے پر بڑے اطمینان کے رنگ پھیلے تھے۔سکینہ نے بیزاری سے دیوار کی جانب منہ کر لیا۔
* * *
کیا حرف ع جس لغت میں ہو وہ عربی کا ہو گا؟
اردو کا ہر وہ لفظ، جس میں حرفِ "عین" آتا ہو، وہ اصلاً عربی کا ہو گا! مرزا غالب اپنے...