’’ایم سوری ہمیں اپنی عزت بہت پیاری ہے اور تمہاری والدہ صاحبہ سدا کی ہلاکو خان۔ میں تو خیر منہ پر جواب دے آتی ہوں مگر فوزیہ اور آمنہ میں یہ عادت نہیں ہے۔ ہمیں تو بی بی معاف ہی رکھو، ایک خاور بھائی کی وجہ سے اپنی نازوں پلی پیاری بہن کو کنویں میں نہیں دھکیلنا ہمیں۔‘‘
’’دفع ہو جائو ایک تو میں تمہاری بہن کے بھلے کے لیے سوچ رہی ہوں، اوپر سے ہمیں ہی لعن طعن کر رہی ہو۔ اب تم آنا اپنا کوئی دُکھڑا لے کر میرے پاس۔‘‘ وہ فوراً خفا ہو کر کھڑی ہو گئی مریم ہنس دی۔
مدعی لاکھ بُرا چاہے تو کیا ہوتا ہے
وہی ہوتا ہے جو منظورِ خدا ہوتا ہے
’’تو مائی ڈیئر فرینڈ! پہلے کنفرم کر لو کہ تمہارے بھائی صاحب واقعی ہماری فوزیہ کو پسند کرتے ہیں۔ ڈائریکٹ ہاں کہلوائو پھر میرے پاس آنا۔ شک کے گھوڑے دوڑانے کا کوئی فائدہ نہیں میری جان! تمہاری والدہ کو بُرا بھلا نہیں کہہ رہی حقیقت بیان کر رہی ہوں اگر خاور بھائی سیریس اور سنجیدہ ہوئے تو ہم کوئی حل بھی سوچیں گے، آگے اللہ کی مرضی۔‘‘
’’تم نہ مانو مگر مجھے یقین ہے میرا شک درست ہے، رہی کنفرم کرنے کی بات تو وہ بھی شام تک کر لیتی ہوں پھر بھاگنا نہیں، مل کر پلاننگ کرنی ہو گی، ہمیں کرشمہ کو بدظن کرتے ہوئے امی کو ان کے رشتہ داروں کے خلاف نہیں بلکہ خاور بھائی کی رسائی فوزیہ آپی تک ممکن بنانا ہو گی۔ یہ کیسے کرنا ہے دونوں مل کر طے کریں گے تب تک خاور بھائی کا اقرار بھی لے آتی ہوں۔ اوکے چلتی ہوں پھر ملیں گے ایک چھوٹے سے بریک کے بعد۔‘‘ وہ ہاتھ ہلاتی کمرے سے نکل گئی، تو وہ پُرسوچ نظروں سے اسے جاتا دیکھے گئی۔
صبا دوبارہ آئی تو خاور بھائی کی فوزیہ سے متعلق پسندیدگی کی تمام رپورٹ تیار کر رکھی تھی۔
’’گھر جاتے ہی میں نے سیدھا خاور بھائی کو جا لیا تھا، میں نے ڈائریکٹ بات کی تھی وہ لگے ٹالنے، میں نے بھی سنا ڈالیں تمہیں اور فوزیہ آپی کو بتا دینے کی دھمکی دی تو اقرار کرتے ہی بنی۔ بقول ان کے کہ وہ فوزیہ آپی کو شروع سے ہی پسند کرتے تھے، امی سے کئی بار ذکر بھی کیا مگر اپنے سے کم تر لوگوں میں رشتہ کرنے پر قطعی راضی نہ ہوئیں بھلے وہ ہمارے رشتہ دار ہی کیوں نہ ہوں۔ انہوں نے زور دیا تو امی نے دھمکی دی کہ اگر انہوں نے ضد کی تو وہ فوزیہ آپی اور چچی بیگم کے گھر جا کر انہیں سنا دیں گی کہ ویسے تو بڑی نیک پارسا بنتی ہیں مگر بیٹی کو کھلا چھوڑ دیا ہے کہ دوسروں کے لڑکے پھانسے۔ یہ تم لوگوں کی کردار کشی ہی نہ تھا عزتِ نفس پر بھی حملہ تھا۔
خاور بھائی فوزیہ آپی سے حقیقی محبت کرتے ہیں اور فوزیہ آپی تو قطعی بے خبر تھیں، پھر وہ بھلا ان کی بے عزتی کیسے گوارا کر لیتے، ناراض ہو کر ڈیوٹی پر چلے گئے امی نے اپنی ضد منوائی۔ کرشمہ سے منگنی کر ڈالی وہ اب بھی فوزیہ آپی کو دل و جان سے چاہتے ہیں مگر ان کی عزت کا خیال پسندیدگی کے جذبات پر حاوی ہو جاتا ہے تو بے بس ہو کر رہ جاتے ہیں۔ یہ ہے سارا قصہ مختصر۔‘‘
’’ہوں…‘‘ وہ بھی خاور بھائی کے جذبات سے متاثر ہوئی۔
’’کیا پلاننگ ہے پھر؟‘‘ وہ دونوں سر جوڑے بیٹھ گئی تھیں۔
کتنی دیر تک دونوں مختلف تجاویز دیتی اور رد کرتی رہیں پھر ایک فیصلے پر دونوں متفق ہو ہی گئیں۔
’’آئیڈیا تو اچھا ہے کل سے ہی کام شروع کر دیتی ہوں۔‘‘ صبا خاصی پُرجوش تھی۔
’’مگر دھیان سے کہ تمہاری امی کو شک نہ ہو۔ اس طرح کام کرنا ہے کہ سانپ بھی مر جائے اور لاٹھی بھی نہ ٹوٹے۔ تمہاری امی کو قطعی پتا نہ چلے کہ کرشمہ سے منگنی توڑنے میں ہمارا ہاتھ ہے۔ انہیں اس طرح بدظن کرنا ہے کہ تمہاری والدہ محترمہ کو اپنے فیصلے پر صرف شرمندگی ہی ہو۔‘‘ اس نے خصوصی ہدایات جاری کی تھیں۔
’’اوکے باس…‘‘ صبا مسکرا دی۔
’’اور یہ فوزیہ آپی کے پروپوزلز والا معاملہ تم سنبھال لو گی نا؟‘‘
’’اس کی فکر مت کرو۔‘‘ مریم مطمئن تھی۔
’’یہ خاور بھائی اس دفعہ کچھ زیادہ دن نہیں رہ لیے چھٹی پر۔‘‘
’’نہیں… آج چھٹی ختم ہو رہی ہے ان کی، شام کو واپس جا رہے ہیں۔‘‘
’’اور یہ تمہارے پائوں کا کیا حال ہے۔ کب تک پٹی اُتر رہی ہے اور بستر کب چھوڑو گی۔‘‘
’’ایک دو دن میں اُتر جائے گی۔‘‘ اس نے اپنے پائوں کو دیکھا۔ بیٹھے بٹھائے یہ مصیبت مول لے لی تھی۔ صبا ہنس دی اس کے چہرے کے زاویوں کو دیکھ کر۔
’’یہ تو وہی بات ہوئی کہ
اُلجھا ہے پائوں یار کا زلفِ دراز میں
لو آپ اپنے دام میں صیاد آ گیا
آئندہ عمر بھائی کے صبر و ضبط کو مت آزمانا، اس دفعہ تو بچت ہو گئی، اگلی دفعہ سیدھی ٹانگ ٹوٹے گی۔ ویسے دل سے دُعا نکلی ان کے۔‘‘ وہ فوراً شرارت پر اُتر آئی تھی۔
’’دفع ہو…‘‘ وہ ہمیشہ کی طرح فوراً چڑ گئی تھی اور اس نے کھینچ کر ایک رسالہ اس کو مارا تھا جو اس کے منہ پر جا لگا اور کچھ زیادہ زور سے لگا تھا۔ وہ سارے کمرے میں ناچتی پھر رہی تھی، ساتھ والے کمرے میں پڑھائی میں مشغول پڑھاکو آمنہ غصہ سے اُٹھ کر دروازے پر آ کھڑی ہوئی۔
’’مسئلہ کیا ہے تم لوگوں کو؟ شور مچا رکھا ہے، ایک لفظ بھی پلے نہیں پڑ رہا اور تمہیں اپنے گھر چین نہیں پڑتا، ہر وقت ادھر دندناتی پھرتی ہو، تمہاری اماں کو ہمارا تمہارے گھر جانا تو بڑا چبھتا ہے، اپنی دختر نیک ذرا نظر نہیں آتی۔‘‘ آمنہ کبھی کبھار اس طرح جرأت دکھاتی تھی اور اس کے الفاظ پر صبا تو صدمے سے کھڑی دیکھ رہی تھی مریم کو بھی ہنسی آنے لگی۔
آمنہ جس طرح تن فن کرتی آئی تھی چلی بھی گئی، صبا کا سکتہ قائم تھا۔
’’یہ… یہ آمنہ تھی…‘‘ وہ بے یقین تھی۔
’’نا… نا… رونا نہیں میری بہنا… اس نے ٹھیک تمہاری اماں کا ظلم گنوایا ہے۔ نہ جانے کب کا دُکھا دل تھا عین موقع پر پھٹا تھا۔‘‘ مریم نے جلتی پر تیل کا کام کیا تھا۔
’’میں ہی احمق بیوقوف ہوں، جو تم لوگوں کی محبت میں دوڑی چلی آتی ہوں۔‘‘
’’دفع ہو…‘‘ اس کا جملہ اب کے دہرا کر تن فن کرتی یہ جا وہ جا۔
جذبہ عشق سلامت ہے تو ان شاء اللہ
کچے دھاگے سے چلے آئیں گے سرکار بندھے
پیچھے سے مریم کے شرارتی شعر نے سیڑھیوں تک صبا کا پیچھا کیا تھا۔
اس کے پائوں کی پٹی اُتر چکی تھی۔ پائوں کی مالش جاری تھی۔ ابھی ڈاکٹر صاحب نے پائوں پر بوجھ ڈالنے سے منع کیا تھا سو وہ ابھی تک بستر پر تھی۔ وہ کتاب لیے منہمک سی تھی جب دروازے پر دستک ہوئی تھی۔
’’آ جائو بھئی…‘‘ اس کا خیال تھا کہ صبا ہو گی، اسے اپنے گھر میں چین نہیں پڑ رہا تھا، آج کل مگر عمر کو اندر داخل ہوتے دیکھ کر اس کا منہ بن گیا۔ کوئی اور وقت ہوتا تو وہ ایک منٹ بھی سامنے نہ ٹھہرتی اس نے خاصی بیچارگی سے اپنے پائوں کو دیکھا، جسے مالش کر کے امی نے کچھ دیر قبل کپڑے میں لپیٹا تھا۔
’’سلام مسنون… مزاج بخیر…‘‘ وہ مسکرا کر کہہ رہا تھا۔
’’بخیر… بخیر…‘‘ منہ بنا کر اس نے کہا تو وہ ہنس دیا۔ عیادت کرنے والوں کے لیے رکھی کرسی گھسیٹ کر وہ بیٹھ گیا تھا۔
’’حساب چکانے میں تو تمہارا کوئی ثانی نہیں۔ کسی اور معاملے میں بھی یہ روایت برقرار رکھ لیا کرو۔‘‘
’’مثلاً…؟‘‘ اب وہ نازل ہو چکا تھا تو بھگتے بنا کوئی چارہ نہ تھا۔ کتاب بند کر کے وہ سیدھی ہو بیٹھی۔
’’مثلاً یہ کہ کبھی محبت کا جواب محبت سے بھی دے لیا کرو۔‘‘ اس نے غصے سے گھورا۔
’’امی اور آمنہ باہر نہیں تھیں کیا؟‘‘ دوسرے معنوں میں اس کی موجودگی پر اعتراض کیا تھا۔
’’کوئی خاتون آئی بیٹھی ہیں ایک دو رشتے لے کر آمنہ ان کی خاطر تواضع کر رہی ہے جبکہ فوزیہ پاس بیٹھی سن رہی ہے۔‘‘
’’اچھا…‘‘ رشتے کا سن کر وہ ایک دم پُرجوش ہوئی۔
’’کیسے رشتے لے کر آئی ہیں؟‘‘
’’ماشاء اللہ! تم لڑکیاں صرف رشتوں کا سن کر ہی خوش ہو جاتی ہو۔ کوئی مطلب کی بات کرو تو سر سے ہی گزر جاتی ہے۔‘‘
’’مائنڈ یو… یہ صرف ہم لڑکیوں کا ہی خاصہ نہیں جہاں ایک دو لڑکیاں کھڑی دیکھ لیں، آپ مردوں کی بھی رال ٹپکنے لگتی ہے۔ کوئی گھاس ڈالے یا نہ ڈالے لسوڑے کی طرح لیس ہو جانا فرض سمجھتے ہیں۔‘‘ لڑاکا عورتوں کی طرح اس نے فوراً حساب بے باق کیا تھا۔
’’تو پھر مانتی ہو نا کہ کچھ نہ کچھ ذہنی مطابقت پائی جاتی ہے ہم دونوں میں۔‘‘ وہ چڑانے سے باز نہ آیا تھا۔
’’ہونہہ…‘‘ اس نے سر جھٹکا۔
’’زیادہ ناامید ہونے کی ضرورت نہیں ہے، رشتے والی ایک نہیں پورے دو رشتے لے کر آئی ہے۔ کہیں نا کہیں تمہارا بھی کام بن جائے گا۔‘‘
’’میں کبھی خود سے ناامید نہیں ہوئی۔ جہاں بھی ہو گا بہت بہتر اور پرفیکٹ ہو گا۔‘‘ اس کے تیور ہنوز بگڑے ہوئے تھے۔ عمر نے اس کے چہرے کی سرخی دیکھی۔
’’تمہارے ان خیالات کو کیا سمجھوں؟‘‘ اچانک بے چین سا ہو کر پہلو بدلا۔
’’سمجھنے کی کیا ضرورت ہے؟ جو نظر آ رہا ہے وہ کافی نہیں ہے۔‘‘ وہ مطمئن اور پُراعتماد تھی۔
’’تمہیں پتا ہے میں تمہارے معاملے میں بہت سیریس اور سنجیدہ ہوں۔‘‘
’’تو پھر…؟‘‘ اس نے عمر کو براہِ راست دیکھا۔
’’مریم! سیدھی سادی زندگی چل رہی ہے اس کو کیوں اُلجھا رہی ہو۔‘‘
’’میں اس سلسلے میں آپ سے کوئی بات کرنا نہیں چاہتی، آپ براہِ مہربانی چلے جائیں۔‘‘ دو ٹوک انداز تھا، عمر نے بہت غصے سے اسے دیکھا۔
’’میں تم سے کوئی فلرٹ یا ٹائم پاس نہیں کر رہا، سیدھا راستہ اختیار کیا تھا۔ اپنے بڑوں کے ذریعے بات پہنچائی تھی، میں تھرو آئوٹ پر اپر چینل سے تم تک آنا چاہتا تھا، ہلکی پھلکی چھیڑ چھاڑ اور بات ہے مگر میں نے قطعی کبھی تمہارے احساسات کو مجروح نہیں ہونے دیا۔ دانستہ یا نادانستہ بہر صورت دونوں حالات میں، میں نے پوری کوشش کی کہ تمہارا احترام مجروح نہ ہو۔‘‘ مریم اس کے انداز گفتگو سے ایک دم سٹپٹا سی گئی تھی۔ اس طرح براہِ راست اس نے کبھی اظہار نہیں کیا تھا اور اب بوکھلا گئی تھی کہ کس طرح اس صورتحال سے باہر نکلے۔
’’تم نے ردا سے جو ساری بکواس کی وہ ایک طرف میں تم پر واضح کر دینا چاہتا ہوں کہ میں پیچھے ہٹنے والوں میں سے نہیں ہوں۔ میں تم سے کوئی اظہار یا اقرار نہیں چاہ رہا، تم چچی جان کی بے جا ضد اور انا کی وجہ سے جو جذباتی فیصلہ کرنا چاہ رہی ہو، اس کی وضاحت کر رہا ہوں کہ احمقوں کی طرح اگر ایک ہی بات پر ڈٹی رہو گی تو نقصان سراسر تمہارا ہی ہو گا۔ سمجھیں…‘‘ وہ غصے سے کہہ کر اس پر ایک غصیلی نگاہ ڈالی کر کمرے سے نکل گیا تھا اور مریم وہ حیرت سے اس کا یہ غصیلا روپ دیکھ رہی تھی۔
اس کا پائوں ٹھیک ہو چکا تھا وہ پہلے کی طرح اب پھر بلی کی طرح اِدھر سے اُدھر گھومنا شروع ہو چکی تھی۔ صبا کی وجہ سے وہ اب دیوار تو نہیں پھلانگ رہی تھی البتہ دن میں ایک چکر اُدھر کا ضرور لگاتی تھی۔
اس وقت بھی دونوں چھت پر بیٹھی اپنا مشن خاص سر انجام دے رہی تھیں۔ صبا کے ہاتھ میں موبائل تھا اور وہ بڑی غمزدہ شکل بنائے مصنوعی آنسو بہاتے مکمل طور پر افسردہ تھی۔
’’ہائے کیا بتائوں آپ کو، کتنی مشکل سے آپ کا نمبر لیا ہے، میری تو زندگی برباد ہو گئی۔ وہ شخص اور اس کی ساری فیملی ہی ایسی ہے، دھوکے باز فریبی لوگ۔ نت نئے لوگوں سے اور خوبصورت امیر لڑکیوں سے رشتہ جوڑنا تو ان کا پُرانا مشغلہ ہے، میرے علاوہ بھی کئی لڑکیاں ہیں جو یہ سب جھیل چکی ہیں۔‘‘ مریم نے وکٹری کا نشان بنا کر اسے سراہا، اس کی اداکاری کمال کی تھی۔ آواز بدل کر وہ بالکل مختلف ٹون میں مخاطب تھی۔
’’ارے پوچھیے مت ان کی والدہ کس قسم کی عورت ہیں، دولت کے علاوہ تو کچھ نظر نہیں آتا۔ مجھے دیکھا تو خوش ہو گئیں اور مجھ سے بہتر ملی تو مجھے بے عزت کر کے اسے اپنا لیا۔ جھوٹ کیوں بولوں کئی لڑکیوں اور خاندان والوں کو ریجیکٹ کر کے آپ کو چنا ہے، میں نے سنا ہے آج کل آپ سے بہتر فیملی مل گئی ہے انہیں۔‘‘
’’میں کیسے یقین کر لوں کہ آپ جھوٹ نہیں بول رہیں؟ بھلا کیا مقصد ہے آپ کا مجھے یہ معلومات فراہم کرنے کا؟‘‘
’’بھئی واقعی میرا بھلا کیا مقصد ہو گا مگر سچی بات تو یہی ہے کہ میں نہیں چاہتی کہ میری طرح اب کوئی اور لڑکی برباد ہو۔ میں اپنا بدلہ لینا چاہتی ہوں اس عورت کو احساس دلا کر وہ کتنی مفاد پرست لالچی اور خود غرض ہے اور اس کا وہ بیٹا وہ ماں سے بھی دو ہاتھ آگے ہے۔ اپنے آفیسرز کی بیٹیاں پھنساتا ہے۔ تبھی تو کبھی تم سے یا کسی سے رابطہ نہیں کرتا۔ ماں بہانے بناتی رہتی ہے کہ میرا بیٹا شرمیلا ہے، شریف ہے۔ اصل میں وہ کسی کو پسند کرنے لگا ہے وہ تم سے شادی کرنا ہی نہیں چاہتا۔ ورنہ جس طرح تم سے منگنی کو ایک سال ہو چکا ہے وہ رابطہ تو کرتا کوئی رسپانس دیتا۔‘‘
’’مائی گاڈ… ایسی سچویشن ہے دوسری طرف۔‘‘
’’تو اور کیا اس سے بھی خراب ترین حالات ہیں۔ پھر آپ نے اپنی مرضی کرنی ہے۔ میرا فرض تھا حالات سے آگاہ کرنا میں نے بتا دیا۔ اگر میری باتوں کا یقین نہیں آتا تو اپنی خالہ کے گھر آ کر چند دن رہ کر دیکھ لیں۔ سب واضح ہو جائے گا۔‘‘ وہ آخر میں اسے سوچنے کا موقع دینے کو جتا کر بولی۔
’’اگر ایسی بات ہے تو میں کل ہی چکر لگاتی ہوں کرشمہ عام لڑکی نہیں ہے جسے وہ دھوکا دے لیں۔ اتنا بڑا جھوٹ اتنا بڑا فراڈ میری مام تو بہن کی محبت میں پاگل ہو گئی ہیں انہیں کچھ کہوں گی تو وہ کہیں گی مجھے کسی نے ورغلایا ہے۔‘‘ اسپیکر آن ہونے کی وجہ سے مریم بھی سب سن رہی تھی، مسکرا دی۔
’’مجھے دھوکا دینا اتنا آسان نہیں۔ میں وہاں پہنچ کر آپ کو اطلاع کر دوں گی۔‘‘
’’اوکے… اللہ حافظ۔‘‘
’’اللہ حافظ…‘‘ صبا نے موبائل بند کر کے ایک گہرا سانس لیا۔
آواز بدل کر ٹون چینج کر کے بولنا واقعی بڑا مشکل کام تھا۔ اس نے گہرے گہرے سانس لیے۔
’’زبردست! اس کا مطلب ہے ہمارا پلان کامیابی سے اپنی منزل کی طرف رواں دواں ہے۔ اب تم نے یہ کرنا ہے کہ اپنی والدہ ماجدہ کو پمپ کرنا ہے۔ کرشمہ کی وہ خامیاں بھی اُٹھتے بیٹھتے گنوانی ہیں جو اس میں نہیں ہوں گی اور جب کرشمہ ادھر آئے گی تو تم نے بی جمالو کا کردار ادا کر کے اپنی ماں اور اس کو اکٹھا نہیں بیٹھنے دینا بلکہ صورتحال ایسی پیدا کر دینی ہے کہ تمہاری والدہ صاحبہ خودبخود اس کی عادات و اطوار سے بدظن ہو جائیں۔ رہ گئی کرشمہ بی بی اس کی بھی برین واشنگ خاصی ہو چکی ہے یقینا اب وہ ساری حرکات سر انجام دے گی جو تمہاری والد حضور کو سخت ناپسند ہیں۔ دور کے ڈھول سہانے اب ساری حقیقت دونوں پارٹنر اپنی آنکھوں سے دیکھیں گی تو پھر راوی چین ہی چین لکھے گا۔‘‘ اس نے نقشہ کھینچتے آخر میں ہاتھ جھاڑے۔
’’اللہ کرے ایسا ہی ہو۔ ویسے اتنے دنوں سے فرضی ماریہ بن کر یہ جھوٹ بولنا بڑا مشکل کام رہا ہے، اپنے نامہ اعمال میں اتنے گناہ پہلے کبھی نہیں لکھوائے۔‘‘ صبا کی بات پر وہ ہنس دی۔
’’کوئی بات نہیں۔ اللہ معاف کر دے گا، ویسے تم نے ان چند دنوں میں اپنی والدہ ماجدہ کی جو خوبیاں بیان کی ہیں اسے سن کر دل خوش ہو گیا ہے۔ یار تم اپنی والدہ کو کتنی اچھی طرح سمجھتی ہو۔‘‘ آخر میں شرارت سے چھیڑا تو صبا نے گھور کر اسے تھپڑ کھینچ مارا۔
’’بکو مت۔‘‘
’’چلتی ہوں، امی کو شک ہو گیا کہ میں اس وقت اپنے کمرے میں نہیں تو وہ ہر وقت ادھر آنے کے جرم میں اُلٹا لٹکا دیں گی۔‘‘ وہ جانے کو اُٹھ کھڑی ہوئی تھی۔
’’کل ردا کی منگنی پر چل رہی ہو؟‘‘ مریم نے بھی اُٹھتے ہوئے پوچھا۔
’’ظاہر ہے امی ابو جی جا رہے ہیں تو میں بھی جائوں گی اور تم؟ ویسے بڑی زیادتی کر رہی ہو تم، ردا بہت ناراض ہو رہی تھی کہ تم اس کی کزن ہی نہیں عزیز از جان دوست بھی تھیں اب اس کی زندگی کے اتنے اہم موقعے پر بالکل غیروں والا رویہ اختیار کر رکھا ہے تم نے۔ آمنہ اور فوزیہ تو جائیں گی نا؟‘‘
’’ہوں… وہ وقار کے ساتھ کل ہی چلی گئی ہیں۔ میں صبح امی جی کے ساتھ ہی جائوں گی، کل آمنہ کا آخری پیپر تھا، دے کر آتے ہی وہ تایا ابو کے ہاں فوزیہ کو لے کر روانہ ہو گئی تھی۔ نجانے اتنے دن کیسے رُکی ہوئی تھی۔‘‘ اس نے مسکرا کر کہا تھا۔
صبا نے اسے دیکھا کچھ کہنا چاہا مگر پھر کبھی پر ٹال کر سر جھٹک گئی۔
’’اچھی بات ہے پھر صبح میں تمہارے ساتھ ہی چلی جائوں گی۔ امی جی اور ابو لوگ خود ہی بعد میں آ جائیں گے۔‘‘ اس نے فوراً پلان کیا تھا تو مریم نے اس کے فیصلے پر صادر کرتے گردن ہلا دی تھی۔