جیم فے غوری
یادوں میں صدا دینا
ڈولتی کشتی کو
اب پار لگا دینا
ہر زخم کو بھر دے گا
ماہی جب لَوٹا
مجھے زندہ کر دے گا
پھولوں کو کھلنا ہے
روکے گی دنیا
پر ہم کو ملنا ہے
باغوں میں بہار آئی
آجا پردیسی
میں سب کچھ ہار آئی
ہم لوگ ہیں دیوانے
اپنی دنیا کو
تم جانو،خدا جانے
ہم لوٹ کے آئیں گے
سوکھی شاخوں میں
نئے پھول کھلائیں گے
ہم عہدِ وفا کرتے
ساتھ اگر رہتے
دن رات دعا کرتے
خط تیرا جلا ڈالا
زخمِ محبت کو
اک بھول بنا ڈالا
اک وعدہ کرنا ہے
ساتھ ترے جینا
اور ساتھ ہی مرنا ہے
آؤ ہم پیار کریں
منکر لوگوں میں
رب کا اقرار کریں
میری ہے حیات قلم
خون کی سُرخی سے
لکھتی ہے نجات قلم
حرفوں کی حفاظت کر
شمع جلا کر تو
محفل کی نظامت کر
یادوں کے دوار کھڑے
ہجر کے بستر پر
دو خشک گلاب پڑے
ہاتھوں میں تھام قلم
انٹرنیٹ بن کر
ہے سامنے جامِ جم
وہ ایک پری لڑکی
شام سے پہلے ہی
کھوٹی تھی،کھری لڑکی
دجلہ کا پانی لگے
سُرخ چناب ہوا
یہ بات پرانی لگے
یوں تیرا خفا ہونا
اچھا لگا ہے ترا
پل بھر میں خدا ہونا
راوی کی روانی میں
کشتی ڈول گئی
بِن جل کی کہانی میں
نقطہ تھا کہ قطرہ تھا
حرف کے جنگل میں
شاخوں پر بکھرا تھا
تو پھر سے سکندر بن
عشق کی مستی میں
سوچوں کا قلندر بن
آنے کی بشارت دے
ہجر کے لمحوں کو
سہنے کی ہمت دے
ظلمت کی کہانی ہے
خلقِ خدا کو سنا
لفظوں کی زبانی ہے
اک خواب اُگانا ہے
سہمے پرندوں کو
اک شخص ملانا ہے
ہر شام عذاب آئے
اجڑ گئی بستی
تب سُرخ گلاب آئے
ہونے نہ ہونے سے ہم
درد بھری رُت میں
کس کس کا کرتے غم
افلاک کا تارہ ہے
صبح کے ماتھے پر
چلنے کا اشارہ ہے
یوں تم سے دور ہوئے
وطن سے بے وطنی
پر ہم مجبور ہوئے
یوں خود کو سجا لینا
شاخِ بدن پر تم
اک پھول کھلا لینا
جو دکھ سہہ جاتے ہیں
یار کے پہلو میں
وہ مسند پاتے ہیں
جب پھول سے کھلتے ہیں
مے خانے جا کر
اپنوں سے ملتے ہیں
دیکھا ہے ستاروں میں
اسم لکھا تیرا
الفت کے نظاروں میں
کچھ ہے ہو جانے کو
شام کا سایہ جو
ہے صحن میں آنے کو
ہم ہاتھ ہلاتے ہوئے
رودئیے چپکے سے
اُس شہر سے جاتے ہوئے
غالبؔ کا خیال لگا
وصل کا موسم بھی
شبِ غم کی مثال لگا
ہجرت کا بنا موسم
شہر کی گلیوں میں
سولی کا سجا موسم
دریا کو تو چلنا ہے
اپنی نفی کر کے
ساگر میں ملنا ہے
تو ظلم مٹانے آ
خاک پہ بکھرے ہوئے
پھولواں کو اُٹھانے آ
اک قلعہ بنانا ہے
پتھر رد جو ہوا
کونے میں لگانا ہے
آکاش پہ آ چندا
مکھڑا مرے دل کے
دریا میں دکھا چندا
آنکھوں میں اُگا سپنا
رات کی لَو نے بھی
دھرتی کا گیت سنا
کیوں بم برساتے ہو
امن کی دنیا میں
فتنوں کو جگاتے ہو
دریا تو پرانا ہے
رات کو چندا سے
رشتہ بھی نبھانا ہے
پانی پر بہتا ہوا
دور نکل آیا
میں ظلم کو سہتا ہوا
آئینہ پاس رکھو
رات ہے، آنکھوں میں
خوابوں کی آس رکھو
یوں ہوتے رہے مدغم
تم جو ہوا ہو تو
شعلے کی طرح ہیں ہم
روشن سے سائے ہیں
سفر میں ماہی نے
کچھ دیپ جلائے ہیں
جب آئے ہو اس گھر میں
جو دل میں ہے وہ
پڑھ لو چشمِ تر میں
اب لَوٹ چلیں گھر کو
مدت بیت گئی
اِس در پہ جھکے سر کو
اس شہر کے لوگ بھلے
ابرِ غم کی رُتیں
اورعشق کے روگ بھلے
میلے میں کھو جائیں
پیار محبت کی
کچھ یادیں بو جائیں
قصہ ہی تمام کیا
تیری محبت میں
دل تیرے نام کیا
کب پیار میں سوتے تھے
راتیں جاگ کے ہم
چھپ چھپ کے روتے تھے
اس ظالم دنیا میں
روز ہی مرتے ہیں
جینے کی تمنا میں
اک دیپ جلا رکھنا
اپنی آنکھوں میں
اک خواب سجا رکھنا