جیم فے غوری ایک طویل عرصہ سے اٹلی میں مقیم ہیں۔پاکستان میں تھے تو وہاں سے ایک ماہنامہ نکالتے تھے۔”تلاش “ کے نام سے چھپنے والے اس رسالہ میں کچھ ادبی،کچھ سماجی اور کچھ انسانی حقوق کے حوالے سے تحریریں شامل ہوا کرتی تھیں۔یہ رسالہ اب سہ ماہی ہو کر اٹلی سے نکل رہا ہے۔ اسی کی مناسبت سے جیم فے غوری نے ایک ویب سائٹ بھی بنا رکھی ہے۔
اس میں ادبی،سماجی اور انسانی حقوق کے حوالے سے خبریں،اطلاعات اور دوسرا مواد چھپتا رہتا ہے۔ایک رسالہ اور ایک ویب سائٹ چلانے کے ساتھ جیم فے غوری نے ادب کا تخلیقی عمل بھی جاری رکھا ہوا ہے۔لگ بھگ تیس سال پہلے ان کے افسانے روزنامہ امروز لاہور کے ادبی صفحہ پر چھپا کرتے تھے۔چند برس پہلے ان کا شعری مجموعہ بھی منظرِ عام پر آیا تھا۔میرا ان سے پہلا تعارف ان کے شعری مجموعہ کے ذریعے ہوا۔اس میں ان کے چند ماہیے بھی شامل تھے جو تینوں مساوی الوزن مصرعوں پر مشتمل تھے۔ظاہر ہے مجھے ایک بار تو انہیں بتانا تھا کہ ماہیے کا پنجابی لوک لَے والا وزن کیا ہے؟
جب میں نے ان سے اس سلسلہ میں بات کی تو انہوں نے بڑی خوشی اور بشاشت کے ساتھ کہا کہ مجھے اس بارے معلوم ہوا تھااور میں اب اپنے مطبوعہ ماہیوں کو بھی درست وزن میں کرتا ہوں اور آئندہ کے لیے آپ کے بیان کردہ وزن ہی کو ملحوظ رکھوں گا۔ان کے اس اندازِ گفتگو اور طرزِ عمل سے خوشی ہوئی۔جیم فے غوری نے ماہیے کی پنجابی لَے کو اختیار کرتے ہوئے ماہیے کہنے شروع کیے۔اور اب جب کہ ان کا نیا شعری مجموعہ چھپنے جا رہا ہے تو اس میں ان کی دوسری شاعری کے ساتھ ان کے کافی سارے ماہیے بھی شامل ہیں۔ان کی باقی شاعری اپنی جگہ۔۔مجھے یہاں ان کی ماہیا نگاری کے حوالے سے ہی کچھ کہنا ہے۔
اردو شاعری میں مسیحا اور مسیحائی کا استعارہ اپنے وسیع تر مفہوم میں اتنا مستحکم ہوچکا ہے کہ
اگر اس کے حوالے جمع کرنے شروع کیے تو ایک ضخیم کتاب تیار ہو سکتی ہے۔میری تخلیقات میں جہاں کہیں کہیں حضرت مسیح علیہ السلام کے فرمودات سے فیض حاصل کیا گیا ہے وہیں بائبل کی دوسری کتب سے بھی استفادہ کیا گیا ہے۔پیدائش،حزقی ایل،دانیال،مزامیرکے بعض حوالے یا اشارے تو مجھے اسی وقت ذہن میں آ گئے ہیںجو میری تحریروں میں صراحت کے ساتھ موجود ہیں۔
گویا میں نے جہاں قرآن شریف،احادیث،صوفیانہ روایات،بدھ کی تعلیمات ،رامائن اور ویدوں وغیرہ سے استفادہ کیا ہے،وہیں عہد نامہ قدیم اور عہد نامہ جدید سے بھی استفادہ کیا ہے۔
جیم فے غوری کے ہاں عہد نامہ قدیم کی چھاپ تو ہے لیکن عہد نامہ جدید کے اثرات زیادہ نمایاں ہیں۔
رب الارباب خدا کہنی ہیں مناجاتیں
کیوں اس دنیا میں کرن کے کاغذ پر
ہر شام کا رنگ جدا ہوں ختم ملاقاتیں
پھولوں کا مہینہ ہے تو ظلم مٹانے آ
ہجر کی سُولی پر خاک پہ بکھرے ہوئے
رکھا ہوا سینہ ہے پھولوں کو اُٹھانے آ
اک قلعہ بنانا ہے آنے کی بشارت دے
پتھر رد جو ہوا ہجر کے لمحوں کو
کونے میں لگانا ہے سہنے کی ہمت دے
پہلے چار ماہیوں میں بائبل کی روحانی فضا موجود ہے لیکن پانچواں ماہیا تو حضرت مسیح علیہ السلام کے اس فرمان پر مشتمل ہو گیا ہے۔”جسے معماروں نے رد کیا وہی پتھر کونے کا سرا ہو گیا“
میں نے اس فرمانِ مقدس کو اپنے افسانوں کے ایک مجموعہ میں باقاعدہ ایک کونے میں سجا کر پیش کیا تھا،شاید اسی لیے مجھے اس فرمان کو ماہیا کے روپ میں دیکھ کر خوشی ہو رہی ہے۔
پاکستان میں مذہبی دہشت گردی،مذہبی نفرت انگیزی کے نتیجہ میں انسانی حقوق کی جو سنگین خلاف ورزی ابنائے وطن کے ساتھ روا رکھی جاتی ہے ،وہ کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں ہے۔اس انسانیت سوز نفرت کا شکار ہونے والے اہلِ وطن پھر مجبور ہو کر وطن سے ہجرت کرتے ہیں ۔بیرون ملک آکر ان سب کو مناسب تحفظ تو مل جاتا ہے لیکن اپنی دھرتی سے وابستگی اور محبت ان کے دلوں میں کسک پیدا کرتی رہتی ہے ۔یہ سارے تجربات جیم فے غوری کے ماہیوں میں یوں اپنا اظہار کرتے ہیں۔
گُل رنگ سہانے ہیں جذبوں کے ترانے ہیں
پھر سے تازہ ہوئے دیس کو دیکھے ہوئے
جو زخم پرانے ہیں اب بیتے زمانے ہیں
جب دیس کی یاد آئی طعنوں بھرے انگارے
رو کے سو گئے ہیں قوم کے، سینے پر
یہ کیسی سزا پائی چلتے ہیں دو دھارے
مجھے رب سے کہنا ہے
دیس میں اپنے کیوں
اک خوف سا رہنا ہے
اس تخصیص سے قطع نظر کرتے ہوئے اب جیم فے غوری کے چند ماہیے ان کے عمومی انداز کے طور پر دیکھیں۔
سناٹے میں رہتے ہیں تنہا سی بستی ہے نقطہ تھا کہ قطرہ تھا
خواب کی کشتی پر دستِ فلک پہ کوئی حرف کے جنگل میں
ہم نیند میں بہتے ہیں روشن سی ہستی ہے شاخوں پر بکھرا تھا
دیکھا اک تارا ہے ہر زخم کو بھر دے گا یادوں کے دوار کھڑے
صبح کا بھولا ہوا ماہی جب لَوٹا ہجر کے بستر پر
قسمت کا مارا ہے مجھے زندہ کر دے گا دو خشک گلاب پڑے
دل توڑ کے مت جانا یوں ہوتے رہے مدغم قصہ ہی تمام کیا
رب کا گھر ہے یہ تم جو ہوا ہو تو تیری محبت میں
یوں چھوڑ کے مت جانا شعلے کی طرح ہیں ہم دل تیرے نام کیا
لو آئی ہے تنہائی آؤہم پیار کریں
زرد دوپہروں میں منکر دنیا میں
دکھ نے لی انگڑائی رب کا اقرار کریں
جیم فے غوری جس فراخدلی کے ساتھ ماہیا نگاری کی طرف متوجہ ہوئے ہیں،اس پر میں انہیں ماہیا کی دنیا میں خوش آمدیدکہتا ہوں۔
اپنی فضا اور اپنے موضوعات کے اعتبار سے جیم فے غوری کے ماہیوں کو اردو ماہیے میں ایک نیا ذائقہ کہا جا سکتا ہے۔میں ان کی ادبی و تخلیقی کامیابیوں کے لیے دعا گو ہوں!
(جیم فے غوری کے ماہیوں کے مجموعہ ”خواب کی کشتی پر“میں شامل)