وہ ابھی فائق اور دوسروں دوستوں کو بھگتا کر کمرے میں آیا تھا۔۔ وہ جو کافی توڑ پوڑ ایسپیکٹ کر رہا تھا سامنے اسے سوئے پڑے دیکھ کر تھوڑا پر سکون ہو گیا۔۔
وہ ابھی خود بھی اتنا تھک گیا تھا کہ لڑائی جھگڑا افورڈ نہیں کر سکتا تھا۔۔ شیروانی کے بٹن کھولتا وہ رموارڈروب کی جانب بڑھا۔۔ اپنے لیے اچھا آرام دہ سوٹ نکال کر واشروم میں گھس گیا اور کافی دیر بعد نہا کر فریش ہو کر باہر آیا۔۔
بیڈ پہ بیٹھ کر ایک نظر اپنی نتاع حیات کی طرف دیکھا جو شاید گھوڑے بیچ کر سوئی تھی اس لیے تو اتنی پرسکون تھی کہ ہلکے ہلکے خراٹوں کی آواز آہان بخوبی سن سکتا تھا۔۔
مرد مار۔۔ مسکراتے ہوئے وہ بڑبڑایا۔۔ پھر سکون سے اپنی سائڈ پہ کروٹ کے بل لیٹ گیا۔۔
اففف یہ کیا ہے۔۔ لیٹنے کے تھوڑی دیر بعد ہی اسے جسم اور چہرے پہ ایچنگ سٹارٹ ہو گئی تھی۔۔
یہ ہے کیا۔۔ اٹھ کر لیمپ کی روشنی میں اس نے بیڈ شیٹ پہ ہاتھ پھیرا پھر اسے ناک کے قریب لے کا کر سونگھا۔۔ اور ہاتھ سے آتی مہک سے وہ لمحے کے ہزارویں حصے میں سمجھ گیا تھا کہ یہ کیا۔۔
غصے کی لہر اس کے اندر دوڑی تھی کیونکہ اسے سرخ مرچ سے الرجی تھی۔۔ اسکی طرف وہ سرعت سے بڑھا۔۔
یہ سب تم نے کیا ہے نا۔۔ اسکے اوپر سے غصے سے کمبل ہٹاتا وہ اسے گھور رہا تھا پتہ تو تھا کہ اس نے ہی کیا ہے پر کنفرم کرنا ضروری تھا۔۔
کیا کیا ہے میں نے۔۔ نیند سے اچانک اٹھ کر بھی اسے سب یاد تھا بمشکل اپنی ہنسی روک کر معصومیت بھرے لہجے میں پوچھا۔۔
یہ مرچیں جو تم نے بیڈ پہ پھینکی ہے۔۔ اسکی وجہ سے مجھے اتنی ایچنگ ہو رہی ہے۔۔ بیچارے آہان کے چہرے کی ایک سائڈ سرخ مرچوں سے سرخ ہو گئی تھی
ایک منٹ ایک منٹ۔۔ اب وہ اٹھ بیٹھی۔۔
پہلی بات سرخ مرچیں کیا آسمان سے اتریں گی میرے پاس۔۔ اور دوسری بات ایچنگ تمہیں نہ نہانے کہ وجہ سے ہو رہی ہیں۔۔ جاؤ جا کر نہاؤ تو خودی ٹھیک ہو جائے گی۔۔ اس کی کسی بات کی پرواہ نہ کرتے ہوئے وہ پھر سے لیٹ گئی تھی۔۔
تم سے تو میں صبح پوچھوں گا۔۔ منہ پہ ہاتھ پھیر کر وہ اپنی سائڈ پہ پڑے پانی کے جگ کے قریب آیا تھا تا کہ پانی پی کر اپنا غصہ ہلکا کر سکے۔۔
مگر یہ کیا جونہی اس نے پانی کا گھونٹ بھرا یوں لگا جیسے پوری نمک کی کان منہ میں گھل گئی ہو۔۔ جسے وہی اس نے فوارے کی صورت میں منہ سے باہر پھینکا تھا۔۔
اور پیچھے حور جو سن کر اس کی حرکت و سکنات کا اندازہ لگا سکتی تھی اسکے فوارے پہ بے اختیار قہقہہ لگا کر ہنسی۔ ۔
مانتی ہو نا سب تم نے کیا ہے۔۔ اسکی ہنسی نے آہان پہ جلتی پہ تیل کی طرح کام کیا تھا۔۔ اسکی طرف مڑ کر وہ غصے سے بولا۔۔
ہاں میں مانتی ہو۔۔ سب میں نے کیا ہے۔۔ اپنی ایک آنکھ کو دباتی اب کی اس نے اقرار کر ہی لیا۔۔ آہان کو غصہ تو بہت چڑھا لیکن آنکھیں بند کرتے جیسے اس نے خود پہ کنٹرول کیا تھا۔۔
اب تم بتاؤ میں کہاں سوؤں۔۔ کمرے میں بیڈ کے علاوہ کوئی جگہ نہیں اور دوسرے کمرے میں فائق ہے۔۔ میں اچھا لگوں کا اسکے ہوتے ہوئے باہر لاؤنج میں سوتے ہوئے۔۔ وہ بہت تحمل سے اسے پیار سے سمجھا رہا تھا۔۔
میری بلا سے جہاں مرضی سو جاؤ۔۔
Literally i don’t care۔۔
لفظ چبا چبا کر کہتی وہ اسے مزید طیش دلا گئی۔۔
تمہیں مجھ سے ڈر نہیں لگتا۔۔ اس کے بازو کو دبوچ کر اپنی طرف کھینچتا وہ غصے سے بولا۔۔
حور کو اسکی انگلیاں اپنے بازو میں کھبتی ہوئی محسوس ہو رہی تھی پر وہ پھر بھی ڈھٹائی سے بولی۔۔
ڈر۔۔ کس بات کا ڈر۔۔ مجھے صرف ایک ڈر تھا اپنی ماں اور اپنی عزت کا۔۔ وہ ڈر تو آپ نے خود ختم کیا۔۔ بھول گئے ابھی کچھ دیر پہلے نکاح ہوا ہے ہمارا۔۔ اب ڈر نہیں لگ رہا مجھے کیونکہ اب آپ میرے شوہر ہیں۔۔ شروعی حق ہے آپ کا۔۔ پر ہاں۔۔ اگر آپ ایسا زبردستی کرے گئے تو شاید گھن ضرور آئے گی۔۔
کتنی حقارت تھی اس کے لہجے میں یہ آہان بخوبی محسوس کر سکتا تھا۔۔
ہممم۔۔ اسے جھٹکے سے الگ کرتا ہنکارہ بھر کر وہ واشروم میں گھس گیا۔۔ جبکہ پیچھے حور نے اپنے بازو کیطرف دیکھا جو انگلیوں کے نشان سے سرخ ہو رہا تھا۔۔
جنگلی ۔۔ منہ میں بڑبڑاتی وہ کروٹ لے کر سو گئی جہاں سے وہ ابھی کچھ دیر پہلے گیا تھا۔۔
@@@
نیند میں ہی اسے ٹھنڈ ٹھنڈ کا احساس ہوا تھا یوں جیسے کسی کا ٹھنڈا وجود اسکے ساتھ چپک گیا ہو۔۔
اس نے ہلنے کی کوشش کی پر بے سود۔۔ ایسا محسوس ہو رہا تھا جیسے وہ لاک ہو گئی ہو۔۔ بشکل اپنی آنکھیں کھول کر اس نے سامنے دیکھا۔۔ وہ کسی کے چوڑے سینے کے ساتھ لگی تھی۔۔
اور اس حد تک قریب تھی کہ جس پہ لگے بال اس کے ہونٹوں کو چھو رہے تھے۔۔
جونہی ذہن ہوش میں آیا ساری سچویشن اسے سمجھ میں آ گیا۔
۔
پیچھے ہٹو۔۔ خود کو اس کی قربت سے آذاد کروا کر وہ پیچھے ہونا چاہتی تھی پر سامنے بھی اس کا فوجی تھا ایک دھان پان کی لڑکی کو قابو میں کرنا کیا مشکل تھا اس کے لیے۔۔
کیوں۔۔ یک لفظی جواب۔۔
کیا مطلب کیوں۔۔ مجھے الجھن ہو رہی ہے۔۔ حور کو اس کے کیوں پہ تپ ہی تو چڑھ گئی تھی۔۔
تو میں کیا کروں۔۔ یہ الجھنبھی توتمہاری ہی پیدا کی ہوئی ہے۔۔ نہ تم مرچیں گراتی۔۔ نہ میں دوسری بار نہاتا اور نہ مجھے تمہاری گرماہٹ کی ضرورت محسوس ہوتی۔۔
اس کے بالوں میں منہ چھپاتا وہ جیسے خود چھپ رہا تھا۔۔
فاصلے پہ رہو۔۔ حور ابھی بھی اس کو خود سے الگ کرنے کی تگ و دو میں لگی تھی۔۔
نہ میری جان زیادہ مت ہلو۔۔ ورنہ تم سے تھوڑی ہی انچ دور سرخ مرچیں بکھری پڑیں ہیں۔۔ اور تم تو مجھ سے بھی نازک ہو۔۔ میں نہیں چاہتا تمہاری سکن وہ جلن محسوس کرے۔۔ اور یقیناً تم خود بھی نہیں چاہو گی۔۔
اس کی بات پہ حور کی حرکات و سکنات بند ہوگئی تھی۔۔ ہاں وہ واقعی یہ نہیں چاہتی تھی۔۔
کیسے اس نے اس کی گیم اس کے اوپر ہی ڈال دی تھی وہ جو سوچے بیٹھی تھی کہ وہ میٹرس پہ سوئے گا اور وہ پورے بیڈ پہ راج کرے گی تو یہ اس کی محض خام خیالی تھی۔۔
خاموشی سے اس نے اپنا سر اس کے سینے پہ ہی رکھ دیا تھا کہ اب اس کے پاس اس کے علاوہ اور چارہ بھی کوئی نہ تھا۔۔
@@@
صبح ان دونوں کی آنکھ دروازے پہ ہوئی دستک سے کھلی تھی۔۔
کون۔۔ حور کو خود میں ویسے ہی سموئے اس نے لیٹے لیٹے ہانک لگائی۔۔
اصاحب اٹھ جائے۔۔ وہ فائق بابا کہہ رہے ہیں کہ بی بی کے گھر والے آنے والے ہیں ناشتہ لے کر۔۔ دروازے کو لاک لگا تھا اس لیے وہ دروازے سے پار کی پیغام نامہ سنا رہی تھی۔۔
ٹبیک ہے تم جاؤ ہم آتے ہیں۔۔ اس کا حکم سن کر ملازمہ وہی سے واپس چلی گئی تھی۔
۔
جبکہ حور کی آنکھ دروازے پہ ہوئی دستک سے تو نہیں پر آہان کی ہانکوں سے ضرور کھل گئی تھی۔۔
اب چھوڑ بھی سے مجھے یا سانس گھٹ کر اب مار کر ہیچھوڑیں گئے۔۔ اسے سینے پہ ہاتھ رکھے وہ اسے پیچھے کو دھکیل رہی تھی۔۔
یہ پیار بھری تاکید تھی صرف۔۔ آئندہ یہ بیڈ پہ سرخ مرچوں والا کام نہیں کرنا۔۔ ہوپ سو تم سمجھ گئی ہو گی۔۔ اس کے ماتھے پہ پیار کرتا وہ اٹھ کر واشروم کی جانب بڑھ گیا۔۔
ہونہہ۔۔ پیار بھری تاکید تھی۔۔ اس کی نقل اتارتے اس نے رگڑ کر ماتھے پہ ہتھ پھیرا تھا یوں جیسے اس کے لبوں کے نشان کو اہنے ماتھے سے ہٹایا ہو۔۔
پھر گھڑی کی طرف دیکھا جو 10:45 کے ہندسے کو کراس کر گئی تھی۔۔
ہائے اتنی دیر سوتی رہی اماں کو پتہ چلا تو کیا سوچیں گی وہ۔۔ اور اس کے سامنے کلاس بھی لے ڈالیں گی۔۔ آگے ہی اتنا پھیلا ہوا ان کی کلاس لینے پہ اور شیر ہو جائے گا۔۔
ٹائم دیکھ کر وہ چپل پہن کر فورا وارڈروب کی جانب بڑھی تا کہ کوئی اچھا سا سوٹ پہن کر تیار ہو سکے۔۔ اب اماں کے سامنے ‘ہیپی کپل’ کی ایکٹنگ بھی تو کرنی تھی۔۔
کیا حرف ع جس لغت میں ہو وہ عربی کا ہو گا؟
اردو کا ہر وہ لفظ، جس میں حرفِ "عین" آتا ہو، وہ اصلاً عربی کا ہو گا! مرزا غالب اپنے...