حیدرآباد اردو ادب کا ہند و پاک میں ایک بہت بڑا مرکز ہے۔ جہاں اس ستیزہ کار زمانے میں بھی، چراغِ فکر و فن کو روشن کیے، بادِ مخالف کے تھپیڑے سے سہتے کئی جیالے مست و مگن رواں دواں ہیں۔
۱۹۷۱ء میں میں نے ایک بہت ضخیم مضمون لکھا جو تقریباً ان تمام حیدرآبادی شاعروں کے مختصر تذکرہ پر مبنی تھا جو ۱۹۶۰ء کے بعد فعال رہے۔
مضمون طویل تھا چھپنے کے لیے بہت جگہ مانگتا تھا (اب تو مجھے بھی اس کی اصل دشواری سے ملے، الماریوں میں شاید کہیں کاغذوں کے انبار میں بند ہو) اس طوالت کے سبب رسائل اس کے متحمل نہ ہو سکے۔
ادارۂ پیکر کے سرخیل اور پیکر کے مدیر اعظم راہی صاحب (اور ان کی بزمِ مشاورت جس میں اکمل حیدرآبادی، روف خلش، غیاث متین اور حسن فرخ) نے اس مضمون کو پسند کیا لیکن اتفاق ان سب کا اس پر تھا کہ صرف انتخاب شائع کیا جائے، تذکرے جو تعارف تھے ان کو کم کیا جائے۔ اس طرح یہ مضمون ایک اکائی بن کر ابھرا۔ میں نے ایسے زوائد نکال دیے ہیں جو ادارتی شعبے نے در انداز کر دیے تھے اور اس مضمون کو اس طرح اس شکل میں پیش کر رہا ہوں۔ جو اصل کے قریب تر ہے۔
٭٭٭
کیا حرف ع جس لغت میں ہو وہ عربی کا ہو گا؟
اردو کا ہر وہ لفظ، جس میں حرفِ "عین" آتا ہو، وہ اصلاً عربی کا ہو گا! مرزا غالب اپنے...