انگلیاں چٹخاتی وہ صبغہ کو جبکہ صبغہ نروس سی اسی کو دیکھے جارہی تھی۔۔۔۔۔
دونوں ہی اپنی سوچوں میں الجھی ہوئی تھی جب زویا نے گلا کھنکھارے اسے اپنی جانب متوجہ کیا تھا۔
صبغہ کے دیکھے پر وہ دھیما سا مسکرائی تھی۔
“سوری!” ہاتھ ملتے وہ بولی
“فار واٹ؟” صبغہ نے حیرت سے سوال کیا
“وہ، وہ جھوٹ بولا تھا آف کے لیے” زویا کی بات پر وہ دھیما سا مسکرائی تھی۔
“اٹس اوکے!۔۔۔مگر آئیندہ ایسا نہ ہو” اسکی وارننگ پر زویا نے سر اثبات میں ہلایا تھا۔
“ویسے ایک سوال پوچھوں؟” ہمت کیے وہ بولی
“شیور؟”
“وہ آپ، آپ بھائی کو کیسے؟ آئی مین کیا آپ دونوں پہلے سے ایک دوسرے کو جانتے تھے؟” اس کی بات پر صبغہ نے سر ہلایا تھا۔
“آپ نقاب اتار سکتی ہے!” زویا کی بات پر اس نے حجاب پن نکالے نقاب اتارہ تھا۔
اس کا چہرہ دیکھ کئی دیر تو زویا کچھ بول نہ پائی تھی، اس کا چہرہ بالکل چاند کی طرح دمکتا تھا، وہ بہت خوبصورت تھی، زویا نے اعتراف کیا تھا مگر جو چیز اسے منفرد بناتی تھی وہ تھی اس کی آنکھیں جو سرد سو سپاٹ تھی۔۔۔۔۔
کبھی کبھار تو زویا کو ان آنکھوں سے خوف محسوس ہوتا تھا۔
“آپ، آپ کیسے، کہاں اور کب ملے تھے؟” زویا کو جاننے کا اشتیاق ہوا
گہری سانس خارج کیے صبغہ نے اسے تمام قصہ سنایا تھا، زویا تو بس منہ کھولے حیرت سے اسے سنے جارہی تھی۔
کتنی عجیب لوو سٹوری تھی ان کی۔
“آپ چاچو سے ناراض مت ہوئیے گا!۔۔۔ وہ ایسے ہی ہے مگر دل کے بہت اچھے ہے!” زویا کی بات پر صبغہ دھیما سا مسکرا دی تھی۔
وہ ضرور اس کی بات پر آنکھیں بند کرکے یقین کرلیتی اگر اسے لوگوں کو پڑھنا نا آتا ہوتا۔
اور زویا کی معصومیت سے تو وہ پہلے دن سے ہی واقف ہوچکی تھی۔
اس سے پہلے وہ کوئی جواب دیتی کانچ ٹوٹنے کی آواز پر ان دونوں نے دروازے کی جانب دیکھا تھا۔
“یہ؟” کسی نسوانی چیخ پر زویا اور وہ دونوں اپنی جگہ سے اٹھ کھڑی ہوئی تھی۔
“شزا آپی!” زویا اس آواز کو پہچان چکی تھی۔
“شزا؟” صبغہ نے چونک کر اسے دیکھا
“شزا آپی، ارحام چاچو کی بیٹی۔۔۔۔!”
“گڑیا!” زویا کےتعارف پر وہ جیسے اس تک پہنچ چکی تھی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
صبغہ کو زویا کے ساتھ کمرے کی جانب روانہ کیے سنان خود معتصیم کی کال رسیو کرنے کے لیے پیچھے رک گیا تھا۔
اس سے بات کرنے کے بعد اس کا ارادہ اب کمرے میں جانے کا تھا جب وائے۔زی اس کے راستے میں حائل ہوا تھا۔
“وائے۔زی تم ابھی تک جاگ رہے ہو؟” سنان نے حیرت سے گھڑی کی جانب دیکھا۔
“کہی جارہے ہو؟” وائے۔زی نے اس کا سوال اگنور کیا تھا۔
“بھائی اس وقت تو کمرے میں ہی جاؤں گا نا؟” سنان ہنس کر بولا تھا
“تم اپنے کمرے میں نہیں جارہے، شزا کے پاس جارہے ہو تم!۔۔۔ اس کے پاس جاؤ، اس سے باتیں کرو، اسے احساس دلاؤ کہ وہ اکیلی نہیں ہے اس کے پاس ایک بھائی ہے۔۔۔۔ ورنہ وہ یونہی رہی تو ان شاءاللہ جلد ہی اس کے قل کروانے پڑجائے گے تمہیں۔۔۔۔۔ بات تو سمجھ گئے ہوگے!” اس کا کندھا تھپتھپاتا وہ وہاں سے چل دیا تھا۔
سنان کافی حد تک اس کے طنز کو سمجھ چکا تھا اور خود کو کوسا بھی تھا کہ وہ کیسے شزا سے اس حد تک بےفکر رہ سکتا تھا۔
ایک نگاہ اپنے کمرے پر ڈالتا وہ قدم اٹھاتا شزا کے کمرے کی جانب بڑھا تھا، اس نے دروازہ ناک کیا تھا جو اپنے آپ کھل گیا تھا۔
“شزا؟” گہری سانس لیے اس نے شزا کو پکارا تھا جب اسے کہی سے ہنسی کی آواز آئی تھی۔
بیڈ کے پاس سے گزرتا، دونوں سوئے ہوئے بچوں پر ایک نظر ڈالے وہ بالکونی میں داخل ہوا تھا۔
“شزا؟” اس نے شزا کو پکارا جو ریلینگ سے تقریباً گرنے کو تھی اس کی پکار پر وہ سیدھی ہوئی تھی یوں جیسے کوئی چوری پکڑی گئی ہو
“ہاں؟” وہ فوراً سیدھی ہوئی تھی۔
“یہاں کیا کررہی ہو؟ اور سوئی کیوں نہیں ابھی تک؟” سنان کی بات پر اس کی نظریں جھک گئی تھی۔
“وہ، وہ نیند نہیں آرہی تھی” ایک نظر لان پر ڈالے وہ سنان کی جانب متوجہ ہوئی
سنان نے بھی اسی کے تعاقب میں دیکھا تھا جہاں ہرسو سناٹا تھا۔
“مجھے بھی نہیں آرہی تھی، چلو آؤ باتیں کرتے ہیں!” وہ بالکونی میں موجود جھولے پر بیٹھا بولا اور اپنے ساتھ موجود جگہ پر ہاتھ رکھے اسے بیٹھنے کا اشارہ کیا تھا۔
“نن۔۔۔نہیں۔۔۔ وہ میرا مطلب آپ کو اپنی بیوی کے پاس جانا چاہیے۔۔۔ وہ انتظار کررہی ہوگی” اس کی بات سن کر شزا کے چہرے کا رنگ اڑا تھا۔
“کچھ نہیں ہوتا چلا جاؤں گا اس کے پاس بھی لیکن آج کچھ وقت میں اپنی بہن کے ساتھ گزارنا چاہتا ہوں، ویسے بھی تمہیں ٹائم جو نہیں دے پایا تھا!” اسکو زبردستی اپنے پاس بٹھائے وہ بولا تھا
اس کی بات پر شزا زبردستی کا مسکرائی تھی۔
“تم جانتی ہو شزا خالہ، ماما، بابا، میں۔۔۔۔ تم بہت عزیز ہو ہمیں۔۔۔۔ خالہ کو تو موقع نہیں ملا مگر ماما، بابا بہت محبت کرتے تھے تم سے۔۔۔۔ تم جانتی ہو جب تم دو سال کی تھی نا تب سے عادت سے تمہیں کہ بابا جب بھی آفس جاتے تم سے گال پر پیار ضرور لیتے اور میں!۔۔۔۔۔ مجھے تو سکول نہیں جانے دیتی تھی، ہر وقت میرے آگے پیچھے گھومتی تھی تم۔۔۔۔ سب بہت محبت کرتے تھے تم سے، چھوٹی سی زویا بھی جب بہت روتی تھی نا تو ماما بھی اسے خاموش نہیں کروا پاتی تھی مگر تمہارے پاس آتے ہی وہ ہنس دیتی۔۔۔۔۔۔ تم، تم سب کی فیورٹ تھی۔۔۔۔تمہاری خوشی ہی سب کی خوشی ہوتی تھی”
“کیا سب واقعی میں مجھ سے بہت محبت کرتے تھے؟” شزا نے چونک کر سوال کیا
“ہاں!” سنان نے سر ہلایا
“آپ بھی؟” پھر سے سوال ہوا جس پر سنان نے سر ہلایا تھا
“تو پھر اسے کیوں مار دیا؟ وہ بھی تو میری خوشی تھا، اسے کیوں چھینا مجھ سے؟۔۔۔۔ صرف اسی لیے کہ وہ دشمن کا بیٹا تھا آپ نے اسے مار دیا!” سنان جو مسکرا رہا تھا یکدم اسکی بات پر سنجیدہ ہوا تھا، وہ کہاں کی بات کہاں لیجارہی تھی۔
“شزا اسے میں نے نہیں مارا!” سنان نے ہر لفظ پر زور ڈالا تھا۔
“او ہاں!۔۔۔۔۔ آپ نہیں، آپ کیسے مار سکتے ہے!” وہ اچانک مسکرائی
“ایک، ایک سیکریٹ بتاؤں، کسی کو بتائے گے تو نہیں؟” اچانک اس کی آنکھیں کسی سوچ کے تحت روشن ہوئی تھی۔
سنان اس کے اچانک بدلتے موڈ پر حیران ہوا تھا
“ہاں ضرور بتاؤ، جانتی ہو بچپن میں بھی تم اپنی تمام باتیں مجھ سے شئیر کرتی تھی، میں تمہارا سیکریٹ کیپیر تھا!” سنان مسکرایا
“کیا سچ میں؟” اس نے پلکیں جھپکائے سوال کیا
“ہاں!” سنان نے ہنس کر سر ہلایا
“تو آپ اس سیکریٹ کو بھی کسی کو مت بتائیے گا۔۔۔۔ وہ، وہ زندہ ہے!”اسے وارن کیے، ادھر ادھر دیکھتی وہ اس کے قریب ہوئی بولی تھی
“کون، کون زندہ ہے؟” اس کی بات نے سنان کو پریشان کردیا تھا۔
“حماد!۔۔۔۔۔۔ وہ زندہ ہے، ابھی مجھ سے ملنے آیا تھا چھپ کر، مگر آپ کسی کو مت بتائیے گا، نہیں تو وہ اسے دوبارہ مار دے گے۔۔۔۔۔۔ نہیں نا بتائے گے کسی کو؟۔۔۔ میرا سیکریٹ رکھے گے نا اپنے پاس؟” کتنی آس تھی اس کے لہجے میں۔
“کون آیا تھا تم سے ملنے؟” سنان کو جیسے اپنے کانوں پر یقین نہیں آیا تھا۔
“حماد!” اس نے دوبارہ مسکراتے ہوئے نام دوہرایا تھا۔
“حماد؟۔۔۔ میری جان تمہیں کوئی غلط فہمی ہوئی ہے وہ کیسے آسکتا ہے؟”
“کیوں، کیوں نہیں آسکتا؟” شزا نے اس کی بات کاٹی تھی
“وہ۔۔۔ حماد، حماد مرچکا ہے شزا!۔۔۔۔ وہ مرگیا ہے!” سنان نے اسے سمجھانا چاہا تھا
ایک دم شزا کی مسکراتی آنکھوں میں غصہ اتر آیا تھا۔
“وہ زندہ ہے، نہیں مرا وہ اور مجھ سے ملنے بھی آیا تھا۔۔۔۔ آپ کو یقین نہیں نا؟ جھوٹی لگتی ہوں نا میں؟۔۔۔ ٹھیک ہے میں اسے لے کر آتی ہوں پھر آئے گا آپ کو یقین” اپنی جگہ سے اٹھتی وہ تیزی سے کمرے کی جانب بھاگی تھی۔
کمرے سے نکلتے اس کا ارادہ لان میں جانے کا تھا جب سنان نے پیچھے سے آکر اس کی کلائی تھامی تھی۔
“شزا بےوقوفی مت کرو کہاں جارہی ہو؟” سنان نے اسے روکا تھا
“چھوڑے مجھے، مجھے حماد کے پاس جانا ہے۔۔۔۔ آپ کو یقین نہیں نا!۔۔۔ مگر یقین کرے وہ زندہ ہے، نہیں مرا!” اپنی کلائی آزاد کرواتی وہ بولی تھی۔
“شزا!، شزا!، شزا!!” سنان نے اسے کئی بار پکارا تھا جو حماد نام کی گردان کیے جارہی تھی۔
“شزا!!۔۔۔۔ کوئی نہیں ہے باہر سنا تم نے، وہاں کوئی نہیں ہے، حماد بھی نہیں۔۔۔۔۔ مرچکا ہے حماد!۔۔۔۔۔ نہیں آئے گا وہ اب واپس، تم بھی ہوش میں آجاؤ اور ایکسیپٹ کرلو اس حقیقت کو” سنان کی دھاڑ پر کئی لمحے کچھ نہ بول پائی تھی مانو جیسے سکتا طاری ہوگیا تھا اس پر۔
“شزا میری جان۔۔۔” اس کی آنکھوں میں ابھرتی بےیقینی دیکھ سنان نرم پڑا تھا
“جج۔۔۔جھوٹ، جھوٹے ہو تم!۔۔۔۔۔ تم نے، تم نے مارا اسے، میرے حماد، میرے حماد کو مار دیا تم نے!” اسے دور ہوتی وہ سر نفی میں ہلائے رو رہی تھی۔
“شزا میری بات تو۔۔۔۔۔”
“پاس مت آنا!” اسے قریب آتے دیکھ اس نے پاس موجود گلاس واز اٹھا کر زمین پر مارا تھا۔
“تم سب کے سب قاتل ہو!، قاتل ہو میری محبت، میرے حماد کے تم!۔۔۔۔۔۔ اور تم سب سے بڑے جھوٹے ہو!۔۔۔۔۔ تمہی نے مارا ہے اسے۔۔۔۔۔ تم لوگوں نے مار ڈالا، مار ڈالا اسے۔۔۔۔۔ کتنے بےرحم ہو تم!۔۔۔۔” وہ دھاڑی تھی
صبغہ اور زویا کمرے سے نکل آئی تھی، وہی ارحام شاہ بھی اپنے گاؤن کو کستے کمرے سے باہر نکلے تھے، ان کی نظریں پہلے کانچ کے ٹوٹے ہوئے واز پر گئی تھی۔
وائے۔زی تو نجانے کہاں غائب ہوگیا تھا۔
“شزا۔۔۔۔”
“وہ، وہ نہیں بھولتا مجھے، اس کا وجود۔۔۔۔۔ خون میں نہایا اس کا وجود۔۔۔۔۔ مجھے بچاتے دے دی اس نے جان۔۔۔ کاش وہ مجھے نہ بچاتا، کاش وہ مجھے مرجانے دیتا!۔۔۔۔۔۔ اس نے کیوں بچایا مجھے؟”
بےبسی کسے کہتے ہے کوئی شزا سلطان سے پوچھتا۔
“مجھے نفرت ہے تم سے، تم سب سے۔۔۔۔ تم سب مجرم ہو اس کے، میرے اور میرے بچوں کے۔۔۔۔۔ کاش میں ارحام شاہ کی بیٹی نہ ہوتی۔۔۔۔۔ کاش وہ شبیر زبیری کا بیٹا نہ ہوتے۔۔۔۔۔۔ کاش ہم یوں نہ ملتے،تو شائد ہم کبھی نہ بچھڑتے۔۔۔۔۔۔ مگر کچھ لوگوں کی زندگیاں تو بس کاش پر آکر رک جاتی ہے جیسے شزا حماد یا میں کہوں شزا سلطان کی!” وہ مسکرائی تھی جبکہ اس کی آنکھیں برس رہی تھی۔
“لگتا ہے گھر سے سارے واز اٹھوانے پڑے گے!” اپنے حصے کی لائن بولتے ارحام شاہ یہ جا، وہ جا
ویسے بھی انہیں اپنا پہلا نقصان نہیں بھولا تھا جب شزا نے پہلے بھی غصے میں ان کا انتہائی قیمتی واز توڑ دیا تھا۔
“شزا۔۔۔”
“آپی! آئیے کمرے میں چلے بچے اکیلے ہیں!” سنان کچھ بولتا زویا اس کے پاس آتی، سنان کو آنکھوں سے اشارہ کرتی اسے لےجاچکی تھی۔
بےبسی سے بالوں میں انگلیاں چلائے سنان نے نگاہیں اٹھائی تھی جو صبغہ کی آنکھوں سے جاٹکڑائی تھی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔
فجر ادا کرنے کے بعد واک کی نیت سے وہ لان میں چلی آئی تھی جب اسے شزا سامنے ہی بینچ پر بیٹھی اپنی دنیا میں کھوئی نظر آئی تھی۔
کل رات کے ہنگامے کے بعد سنان اس قدر ڈسٹرب تھا کہ وہ نجانے کہا چلا گیا اور پھر فجر سے کچھ دیر پہلے گھر لوٹا تھا
صبغہ نے بھی اسے چھیڑنا مناسب نہ سمجھا تھا۔
شزا پر نگاہ ڈالے پہلے پہل تو اسے وہاں سے چلے جانا سوچا مگر نجانے دماغ میں کیا سمائی جو وہ اس کی جانب چل دی تھی۔
“اہمم!” اس نے شزا کو اپنی جانب متوجہ کیا تھا جو آنکھیں موندے، پیچھے کو ٹیک لگائے بیٹھی تھی۔
صبغہ کے گلا کھنکھارنے پر وہ اس کی جانب متوجہ ہوئی اور سوالیہ نظروں سے اسے دیکھا تھا۔
“وہ میں صبغہ، سنان کی وائف!” اسے لگا شائد شزا کو علم نہیں
“معلوم ہے، ایک نئے کارٹون کا اضافہ!” اسے جواب دیے وہ دوبارہ آنکھیں موند چکی تھی۔
صبغہ گہری سانس خارج کرتی اس کے پاس بیٹھ چکی تھی، اس نے فیصلہ کرلیا تھا کہ وہ شزا کو سنان کے حوالے سے بدظن نہیں ہونے دے گی، اسے کلئیر کردے گی۔
“اسے، اسے غلط مت سمجھو وہ بہت محبت کرتا ہے تم سے شزا!۔۔۔۔ بہن ہو تم اس کی، بہت عزیز ہو تم اسے!” صبغہ نے بات کا آغاز کیا تھا مگر کوئی جواب نہیں ملا
“شزا تم سن رہی ہو؟”
“ہمم سن رہی ہوں اور سمجھ بھی رہی ہوں اچھے سے!۔۔۔۔ جب خود سے کچھ نہ بن پایا تو بھیج دیا بیوی کو اپنا وکیل بنا کر!” وہ کلس کر بولی
“نہیں شزا ایسا نہیں۔۔۔۔”
“بات سنو بی بی جس کی بیوی ہو اسی کی بیوی بن کر رہو، میری ماں بننے کی زیادہ ضرورت نہیں۔۔۔۔ کمرے میں جارہی ہوں بچے جاگ گئے ہوگے!” اس پر حقیر نگاہ ڈالے وہ وہاں سے جاچکی تھی۔
“پوری کی پوری اپنے باپ پر گئ ہے” صبغہ بس سوچ سکی تھی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اس وقت گھر میں کوئی نہ تھا، سب کے سب مان کی برات پر گئے ہوئے تھے، گھر پر صرف ارحام شاہ، شزا اور میڈز موجود تھیں۔
“بات سنو ایک کپ کافی مجھے کمرے میں دے جاؤ!” ارحام شاہ نے میڈ کو حکم دیا تھا جو شزا کے کانوں تک باخوبی پہنچا تھا۔
کچھ سوچتے وہ میڈ کے پیچھے کچن میں گئی تھی۔
“مگر میم میں بنالوں گی” اس کی کافی بنانے کی بات سن میڈ نے انکار کیا تھا۔
“میں نے کہاں نا میں بنالوں گی، اپنے لیے بنارہی ہوں تو تمہارے سر کے لیے بھی بنادوں گی میں۔۔۔۔۔ تم روم میں دے آنا!” شزا کی بات پر اسنے سر ہلایا تھا۔
کافی بنانے کے بعد، آس پاس نگاہیں دوڑائے کسی کو موجود نہ پاکر اس نے زہر کی بوتل کو کھولا تھا اور اس میں سے آدھی بوتل سے تھوڑی کم کافی میں ڈال دی تھی۔
اچھے سے زہر اس میں ملائے اس نے میڈ کے ہاتھ کافی روم میں بھیجوا دی تھی۔
شزا کے دل میں گویا سکون در آیا تھا۔
اس کے حماد کے قاتل کا یہی انجام ہونا چاہیے تھا۔
اب کوئی چاہ کر بھی اسے نہیں بچاسکتا تھا کیونکہ گھر پر اس وقت کوئی بھی موجود نہ تھا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔
تھوڑی ہی دیر میں تمام نوکروں میں ہلچل مچ گئی تھی، ارحام شاہ کے منہ سے جھاگ نکل رہی تھی، ان کا رنگ نیلا پڑرہا تھا۔
دو گارڈز انہیں اپنے ساتھ ہسپتال لیکر روانہ ہوئے تھے اور یہ تمام کاروائی اس نے نہایت سکون سے دیکھی تھی۔
“اسے کہتے ہیں جیسے کو تیسا!” مزے سے کندھے اچکاتی وہ بچوں کی جانب متوجہ ہوگئی تھی۔
بھلے وہ شخص اس کا باپ تھا مگر وہ اس کے شوہر کا قاتل تھا اور شزا کو اس شخص سے کوئی دلی لگاؤ نہ تھا۔
مرتا ہے تو مرے اسے کیا!
۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ارحام شاہ کو آئی۔سی۔یو لیجایا گیا تھا، مرینہ چوہان اور شبیر زبیری کے ایک جاسوس نے ان تک یہ خبر پہنچائی تھی۔
“ماننا پڑے گا مرینہ تمہاری بھانجی تمہی پر گئی ہے۔۔۔۔ امید نہیں تھی اس عقلمندی کی ویسے مجھے اس سے!” شبیر زبیری کی بات پر انہوں نے قہقہ لگایا تھا۔
“کم آن شبیر ڈونٹ یو!۔۔۔ تم تو اس کے ٹیلینٹ سے اچھے خاصے مصتفید ہوچکے ہو!۔۔۔۔۔ جانتے تو ہو جو کرنے کی ٹھان لے وہ کرکے رہتی ہے” مرینہ کی بات پر انہوں نے اقرار میں سر اثبات میں ہلایا تھا۔
“کانگریچولیشنز ایوری بڈی، جو ہم چاہتے تھے وہ ہوگیا!۔۔۔۔ ارحام شاہ اس وقت زندگی اور موت کے درمیان لڑرہا ہے اور ان شاءاللہ موت ہی اس کا مقدر بنے گی!” جازل مسکراتا وہاں آیا تھا جسے سن وہ دونوں بھی مسکرا دیے تھے۔
“سو واٹ نیکسٹ؟” سیب کا بائٹ لیے اس نے سوال کیا تھا۔
شبیر زبیری اس کی بات سن معنی خیز سا مسکرائے تھے۔
“فہام جونیجو یاد ہے؟” ان کے سوال پر جازل یکدم سیدھا ہوا تھا۔
“اب یہ کیا کرنے والے تھے؟” وہ بس سوچ سکا تھا اور ان کے سوال پر سر ہلایا تھا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
سنان، معتصیم اور وائے۔زی اس وقت ہسپتال میں موجود تھے۔ معتصیم آج ہی دو دن کے لیے آیا تھا۔
اس وقت وہ سب ڈاکٹر کا بےصبری سے انتظار کررہے تھے۔
تھوڑی ہی دیر میں ڈاکٹر روم سے باہر نکلا تھا۔
“آئی ایم سوری!” سر نفی میں ہلائے وہ وہاں سے جاچکا تھا۔
جہاں سنان اور معتصیم پر سکتہ طاری ہوا تھا وہی وائے۔زی بینچ پر ڈھے گیا تھا۔
وہ شخص جس نے اتنے سال اسے باپ بن کر پالا تھا، وہ جو اس کے لیے ایک سایہ بن گیا تھا، وہ آج نہیں رہا تھا
کاش، کاش اسے آئیڈیا ہوتا کہ شزا کچھ ایسا کرنے والی ہے تو وہ کہی نا جاتا۔۔۔۔ ان کا ارادہ زہر ارحام شاہ کو تھوڑی مقدار میں دینے کا تھا مگر شزا نے انہیں ضرورت سے زیادہ دے دیا تھا۔
اور ارحام شاہ بھی اس بات سے بےخبر تھے اسی لیے وہ پہلے سے کوئی بندوبست نہ کرسکے تھے۔
“ایکسکیوز می!۔۔۔۔آپ لوگ ڈیڈ باڈی لیجاسکتے ہیں!” ڈاکٹر کی بات سن اس نے اپنی سرخ انگارہ آنکھیں اٹھائی تھی۔
اس کو پورا جسم جیسے کوئی کام کرنے سے انکاری تھی۔
“یہ تم نے کیا کردیا شزا!” اس کی آنکھوں سے اشک رواں ہوگیا تھا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ارحام شاہ کی باڈی وہ گھر لے آئے تھے، معتصیم اس وقت ماورا کے ساتھ کال پر تھا اور اسے مزید کچھ دن گھر نہ آنے کے بابت بتارہا تھا۔
زارون شیخ کی تمام فیملی بھی آچکی تھی۔
کچھ دیر پہلے تک جن چہروں پر خوشی تھی اب وہی چہرے غم میں ڈوبے ہوئے تھے۔
ہاں اگر کسی کو زرا فرق نہیں پڑرہا تھا تو وہ تھی شزا سلطان جس کے دل میں آج ڈھیروں سکون اتر آیا تھا۔
“ارحام شاہ گون ناؤ اٹس یور ٹرن شبیر زبیری!(ارحام شاہ چلا گیا اب تمہاری باری شبیر زبیری!)” اس نے دل میں فیصلہ لیا تھا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
“کوئی ہے؟ ہیلو؟۔۔۔۔ پلیز۔۔۔۔ بچاؤ مجھے۔۔۔۔ کوئی بچاؤ۔۔۔۔۔۔۔ کوئی تو بچالو!” رسیوں میں بندھا وہ وجود برے سے رو رہا تھا۔
خود کو آزاد کروانے کی ہر ناممکن کوشش کروا چکا تھا وہ وجود، مگر لاحاصل۔
دروازہ کھلنے کی آواز پر اس نے سر اٹھایا تھا، سامنے موجود وجود کو دیکھ اس کی آنکھوں میں حیرت اور ساتھ ہی نفرت نے جگہ لے لی تھی۔
“welcome to hell dear”
وہ ہنسا تھا جبکہ رسیوں سے جکڑے وجود کی آنکھوں میں خون اتر آیا تھا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کیا حرف ع جس لغت میں ہو وہ عربی کا ہو گا؟
اردو کا ہر وہ لفظ، جس میں حرفِ "عین" آتا ہو، وہ اصلاً عربی کا ہو گا! مرزا غالب اپنے...