“آپ انکے نام بتا سکتی ہیں ۔۔۔؟؟”
“ناہل اور زارون” ۔۔۔ہاتھ سے ان دونوں کی طرف اشارہ کر کے بتایا ۔۔ تو انسپیکٹر نے بری نظر ان دونوں پر ڈالی ۔۔۔
“آپ پر گولی کس نے چلائی ۔۔۔۔؟؟” یہ وہ سوال تھا جس پر سب کی دھڑکنیں تھمی تھیں ۔۔۔اس سوال کا جواب کسی کو نہیں پتہ تھا ۔۔۔۔زارون نے گھبرا کر نایاب کو دیکھا اور ناہل نے زحمی نظروں سے زارون پر ڈالی ۔۔۔نایاب نے ایک قابل فہم نظر سب پر ڈالی ۔۔۔چند پل کے لکے آنکھیں بند کیں ۔۔۔
“مجھے پورا یقین ہے تم اسے ٹھیک کر لو گی “۔۔۔۔ پھپھو کی امید بھری آوزز اسکے کانوں میں سنائی دی ۔۔۔
۔۔۔”تم صرف میری ہو آج کے بعد مجھے ناہل کے ساتھ نظر نہ آو “۔۔۔ زارون کا نفرت امیز لہجہ بھی یاد آیا تھا ۔۔۔”تم پر کسی کی بری نظر مجھ سے برادشت نہیں پوتی نایاب” ۔۔۔ناہل کی فکر بھری آواز بھی کہیں دور سے سنائی دی ۔۔۔سب کی آوازیں وہ سن سکتی تھی ۔۔۔مگر اسکی اپنی آواز کہاں تھی؟؟ ۔۔۔اسنے اپنے دل میں جھانکا تھا ۔۔۔”اسے معاف کر دو نایاب ۔۔۔جیل انسان کو حیوان بنا دیتی ہے شاید تمہارے معاف کر دینے سے وہ ٹھیک ہو جائے” ۔۔۔یہ اسکے اندد کی اچھائی کہ آواز تھی ۔۔
“کیوں معاف کروں اسنے کتنا برا کیا ہے میرے ساتھ؟ ۔۔۔اسنے گولی چلائی ہے مجھ پر ۔۔میری جان لینے کی کوشش کی!!” ۔۔۔اپنا خون کیوں معاف کروں میں”۔۔۔اسکے اندر کی انا پرست لڑکی چلائی تھی ۔۔۔
“تو اسے جھیل بھیج کے تمہارے ساتھ جو ہوہا وہ ٹھیک ہو جائے گا ؟؟۔۔۔اچھائی اپنی بات پر محضر تھی ۔۔
“اسے اسکے کیے کی سزا تو ملے گی ۔۔۔یہی الله کا قرآن کہتا ہے خون کے بدلے خون “۔۔۔۔انا پرست لڑکی نے مصبوط دلیل پیش کی تو اچھائی ہلکا سا مسکرائی ۔۔۔
تو “نایاب فاروق” بھی ان لوگوں میں شامل ہو گئیں ہیں جو قرآن کو صرف “اپنے مطلب” کے لیے سمجھتے ہیں ۔۔۔مانا کے قرآن میں خون کے بدلے خون کا حکم ہے ۔۔۔مگر حود سوچو اگر یہ طریقہ سب سے افصل ہوتا تو “اللہ” معاف کر دینے والے کو زیادہ اجر کیوں دیتا !۔۔۔معاف کرنا بدلہ لینے سے زیادہ مشکل ہوتا ہے نایاب یہ صرف وہی لوگ کر سکتے ہیں جن میں “انا” نہ ہو ۔۔۔اور آج مجھے افسوس ہو رہا تم پے ۔۔۔تمہیں بھی یہ “میں” کھا گئی۔۔۔مجھے لگا تھا تم الگ ہو گی ۔۔۔تم بھی وہی نکلی “خود پرست “۔۔۔آج تم میں اور ایک عام لڑکی میں کوئی فرق نہیں رہا ۔۔۔اور جب کوئی فرق نہیں ریا تو مجھے بھی کوئی فرق نہیں پڑے گا تمہارا جو دل آئے وہ کرو” ۔۔۔کاٹ دار لہجے میں بولتی وہ اچھی لڑکی چپ ہوئی اور ملامت بھری نظر اس پر ڈال کے غاہب ہو گئی ۔۔۔انا پرست لڑکی نے شرمندگی سے سر جھکا لیا ۔۔۔
“مس نایاب آپ ٹھیک ہیں؟؟ ۔۔۔انسپکٹر کی فکر مند آواز نے اسکی سوچو کا تسلسل توڑا ۔۔۔وہ چونک کے سیدھی ہوئی ۔۔۔۔”میں ٹھیک ہوں”۔۔۔انسپیکٹر کی طرف دیکھ کے بولی تو اسنے سر ہلایا ۔۔۔۔
“آپ نے بتایا نہیں کے آپ پر گولی کس نے چلائی؟ ۔ پھر سے وہی سوال دہراتا وہ انسپکٹر اسے اکتائی ہوئی نظروں سے دیکھ رہا تھا. ۔۔نایاب نے ایک گہری سانس لی تھی ۔۔۔”کسی نے گولی مجھ پر نہیں چلائی میرے کزنز بس ریوالور چیک کر رہے تھے ۔۔۔انہیں نہیں پتہ تھا وہ لوڈڈ ہے ۔۔۔گولی چلی اور میں بیچ میں آگئی” ۔۔۔اسنے بازو سینے پر باندھ کر اتنے اعتماد سے پہلی بار جھاٹ بولا تو سب کے سب حیران رہ گئے. ۔۔زارون نے بے یقینی سے اسے دیکھا تھا. ۔۔اسکے دل پے لگی گرہیں یک دم ٹوٹی تھیں ۔۔۔
“آر یو شیور کے آپ یہی بیان ریکاڑ کروانا چاہتی ہیں؟!” انسپکٹر نے ایک آخری بار اس سے پوچھا ۔۔۔
“شیور “۔۔۔شانے اچکا کے اسنے بات ختم کی تو پولیس والا الوادعی نظر سب پے ڈالتا اپنے عملے سمیت وہاں سے نکل گیا ۔۔۔۔۔
“یہ کیا کیا تم نے نایاب ۔۔۔؟؟ بتایا کیوں نہیں پولیس والوں کو کے تم پر گولی زارون نے چلائی تھی”! ۔۔۔انسپیکٹر کے باہر نکلتے ہی ۔۔۔۔ناہل غصے سے بولتا اسکے قریب آیا ۔۔۔باقی سب جو نایاب کے بیان سے تھوڑا مطمئن ہوئے تھے اس انکشاف پر حیران ہی رہ گئے تھے ۔۔۔
“کیا مطلب ہے ؟؟زارون نے گولی چلائی ہے نایاب پر ؟؟” سریا کی تعجب بھری آواز سنائی دی تو ناہل انکی جانب مڑا ۔۔۔
“جی زارون نے ہی گولی چلائی تھی نایاب پر” ۔۔۔ناہل نے کاٹ دار نظر شرمندہ سے کھڑے زارون پر ڈالی ۔۔۔
“اسنے مجھ پر گولی نہیں چلائی تھی تم پر چلائی تھی ناہل “۔۔۔نایاب بیچ میں ہی بھڑک کر بولی تو وہ اسکے تھوڑا اور قریب آیا ۔۔۔”تو میری جان کی کوئی ویلیو نہیں ہے تمہارے نزدیک ؟۔۔۔زحمی نظروں اسے دیکھتے پوچھ رہا تھا ۔۔۔نایاب نے گہری سانس لی تھی ۔۔۔
“تمہاری گولی میں نے کھا لی ۔۔۔اور کتنی ویلیو چاہیے تمہیں ؟”ناہل” ۔۔۔اسنے سوالیہ آبرو اٹھا کر اسے دیکھا تھا۔۔۔وہ لاجواب ہو کے رہ گیا تھا ۔۔۔
“تو تم نے اسے پولیس کے حوالے کیوں نہیں کیا نایاب؟؟” ۔۔۔فاروق صاب جھنجھلا کر بول پڑے ۔۔۔(باقی سب شاک سے ان لوگوں بحث کرتے دیکھ رہے تھے) ۔۔۔
نایاب نے آنکھیں بند کر کے ڈھیر سارے آنسووں کو اندر اتارا ۔۔۔ سریا اسکے پاس آہیں تھیں نرمی سے اسکے شانے پر ہاتھ رکھا تھا ۔۔۔”بتاو نایاب تم نے کیوں کیا ایسا؟؟ ۔۔۔کیوں اپنے مجرم کو سزا نہیں دی ۔۔؟؟؟”نایاب نے سر اٹھا کے انہیں دیکھا ۔۔۔۔وہ نم آنکھوں سے مسکراتیں اس سے پوچھ رہیں تھیں ۔۔۔ان کی آنکھوں میں صاف لکھا تھا کے وہ سب سمجھ گئی ہیں ۔۔۔مگر باقی سب کو وہی سمجھا سکتی تھی ۔۔۔نایاب نے ان کر سے نظر ہٹا کر شماہل پھپھو کو دیکھا ۔۔۔
“آج ایک ماں میرے پاس آئی تھی ۔۔۔یہ امید لے کے میں اسکے بیٹے کو ٹھیک کر سکتی ہوں ۔۔۔اور اسے ٹھیک کرنے کا اس سے بہتر طریقہ میرے پاس کوئی نہیں تھا ۔۔ہاں میں اسے جیل بھیج سکتی تھی مگر جیل بھیج دینے سے وہ مزید مینٹلی اپ سیٹ ہو سکتا تھا ۔۔شاید میرے معاف کر دینے سے وہ ٹھیک ہو جائے ۔۔اور ویسے بھی میں وہی کرتی ہوں جس سے مجھے سکون ملے ۔۔اور معاف کر دینے سے زیادہ سکون کسی اور چیز میں نہیں” ۔۔۔سادگی سے شانے اچکا کر کہتی وہ سادہ سی لڑکی سب کی آنکھوں میں آنسوں لے آئی تھی ۔۔۔ سریا نے اسے گلے لگا کر اسکا سر چوما تھا ۔۔۔فاروق صاب اور دادو نے فحر سے اپنی نایاب کو دیکھتے آنکھوں میں آئے آنسوں صاف کیے تھے ۔۔وہاں اب سب حوش تھے مگروہ تین جو آج کے دن بدلے تھے ۔۔۔جہنیں زندگی نے گھٹنوں کے بل جھکایا تھا ۔۔ ۔ناہل ،شہرین اور زارون ۔۔۔جنہیں لگتا تھا کے اب وہ سدھر گئے ہیں ۔۔۔نایاب نے انکو حقیقت کا دوسرا رح بھی دیکھایا تھا ۔۔۔وہ رشک بھری نظروں سے اسے دیکھ رہے تھے ۔۔۔فاروق صاب اب اسکے پاس بیٹھے تھے ۔۔دادو کو سریا نے اسی کے پاس بیڈ پر بیٹھا دیا تھا. ۔۔جنکے گال وہ مسکرا چوم رہی تھی ۔۔۔وہ سچ میں پرسکون تھی ۔۔۔اور یہ سکون صرف چند لوگوں کو ہی حاصل ہو پاتا تھا. ۔۔
“””””””””””””””””””””””””””””””””””””””””””””””””
اسے ہسپتال سے گھر آئے ایک ہفتہ ہو چکا تھا ۔۔اسکا زحم کافی حد تک بہتر ہو چکا تھا۔۔اس ایک ہفتے میں اسے اتنی محبت ملی تھی کے وہ حیران رہ گئی تھی ۔۔۔جگہ جگہ سے اسکے لیے اتنے پھول اور کارڈز جمع ہو گئے تھے کے اب سنبھالنے مشکل ہو گئے تھے ۔۔۔گھر والوں نے الگ ہاتھ کا چھالہ بنا رکھا تھا مجال ہے اسے کوئی بیڈ سے نیچے اترنے دیتا ۔۔۔اسپشلی شماہل پھپھو تو ہر وقت اسکے ساتھ رہیں تھیں ۔۔۔ابھی تھوڑی ہی دیر پہلے اسنے آرام کا بول کر سب کو کمرے سے باہر بھیجا تھا ۔۔۔ اب وہ کھڑکی میں کھڑی ان سارے خوش کن واقعات کے بارے میں سوچ رہی تھی جو ان چند دنوں میں رونما ہوئے تھے ۔۔۔ناہل کی شادی تھوڑے دنوں لے لیے ملتوی کر دی گئی تھی (اور اب کل اسکا نکاح سادگی سے رکھا گیا تھا ) ۔۔۔اور سمینہ پھپھو نے ان سب کو واپس نہیں جانے دیا تھا ۔۔۔
کل ہی شہرین اس سے مل کر گئی تھی ۔۔۔اسنے اپنے ہر برے رویے کی معافی مانگی تھی ۔۔۔اور تو اور فلم کرنے سے بھی انکار کر دیا تھا ۔۔۔ڈوپٹے میں لپٹی وہ ماڈرن لڑکی ۔۔۔کتنی معصوم لگی تھی اسے ۔۔۔نایاب نے نا صرف اسے معاف کیا تھا بلکہ اب انکی اچھی دوستی بھی ہو گئی تھی ۔۔۔زارون بھی سدھر چکا تھا ۔۔۔مگر ابھی تک وہ ایک بار بھی اسکے سامنے نہیں آیا تھا ۔۔۔سوچتے ہوئے وہ یک دم چونکی ۔۔۔”۔سامنے تو میرے یہ ناہل کا بچہ بھی نہیں آیا ۔۔۔زارون کو تو چلو گلٹ ہو گا مگر اس ناہل کو کیا موت پڑی ہے؟ ایک بار بھی دیکھنے نہیں آیا ۔۔۔”اونہہ” گدھا ۔۔۔لگنے دیتی اسے گولی تو سمجھ آتی اسے “۔۔۔اسنے کڑھ کر سوچا تھا اور منہ بناتی واپس بیڈ تک آئی تھی ۔۔۔بیڈ کروان سے ٹیک لگا کر آنکھیں موندی ہی تھیں کے دروازے پر دستک سنائی دی ۔۔۔اسکا دل بے احیتار دھڑکا ۔۔۔ کہیں ناہل تو نہیں ؟؟ مسکرا کر سوچا ۔۔۔پھر اگلے ہی لمحے چہرہ سپاٹ کیا ۔۔۔”کم ان” ،رغب سے کہتی وہ دوبارہ ٹیک لگا کے بیٹھ گئی ۔۔۔”آگئی نواب صاب کو میری یاد میں بھی کوئی لفٹ نہیں کرواں گی” ۔۔۔دل میں سوچتی وہ بمشکل اپنی مسکراہٹ روک رہی تھی ۔۔دروازہ آرام سے کھلا تھا کوئی اندر آیا تھا ۔۔۔ وہ ویسے ہی ٹیک لگا کے بیٹھی رہی ۔۔۔
“نایاب !!” آنے والےکی نرم سی آواز پر وہ چونک کے اٹھی ۔۔۔وہ ناہل نہیں تھا زارون تھا شرمندہ نظروں اسے دیکھتا دروازے کی چوکھٹ پر کھڑا تھا ۔۔۔نایاب نے ناہل کو زیر لب گدھے سے حطاب سے نوازہ ۔۔۔اور سیدھی ہو کے بییٹھی
“ارے زارون آو نا، کھڑے کیوں ہو بیٹھو” ۔۔۔وہ مسکرا کہتی اسے صوفے پر بیھٹنے کا اشارہ کر رہی تھی انداز ایک دم دوستانہ تھا ۔۔۔(اب وہ ان لوگوں میں سے نہیں تھی کے معاف کرنے کے بعد بھی دل میں نفرت رکھتے ۔۔۔وہ جب معاف کر دیتی تھی تو پچھلا نہ کچھ یاد کرتی تھی نا کسی کو کرنے دیتی تھی۔۔۔)
زراون نے چند بل چونک کے اسے دیکھا تھا ۔۔۔اسکی سبز آنکھوں اسکے لیے صرف نرمی تھی نہ غصہ نہ چڑ چڑاہٹ ۔۔۔وہ سر جھٹکتا صوفے پر بیٹھ گیا ۔۔۔
“کیسی ہو ؟؟ “شرمندگی چھپاتا وہ بمشکل بول پایا تھا ۔۔۔نایاب نے گہری سانس لے کے کچھ دیر اسے دیکھا تھا ۔۔۔جس کا سر کبھی جھکتا ہی نہیں تھا آج وہ سر جھکائے بیٹھا تھا ۔۔۔وہ گلٹ میں تھا ۔۔۔اور اسکا گلٹ وہی دور کر سکتی تھی ۔۔۔
“اتنے دونوں بعد یاد آیا تمہیں کے میری طبعیت پوچھنی ہے”؟؟ ۔۔۔۔زروان نے ناراص لہجے پر سر اٹھا کے اسے دیکھا ۔۔۔وہ غصے میں لگتی تھی مگر آنکھوں میں شرارت کی چمک تھی ۔۔۔
“نایاب میں شر مندہ ہوں بڑی مشکل سے حود تو تمہارے سامنا کرنے کے لیے تیار کر کے لایا ہوں پلیز”۔۔۔سنجیدگی سے بولتے ہوئے اسکا سر پھر سے جھک چکا تھا ۔۔۔
“ڈونٹ ٹیل می کے تم یہاں سوری یا تھینگ یو بولنے آئے ہو “۔۔۔نایاب بے اسے مزید بولنے نہیں دیا تھا ۔۔۔”جب میں نے اس دن تمہیں معاف کر دیا تو دل سے معاف کر دیا ۔۔۔اور میں پچھلی باتوں پر نہ خود شرمندہ ہوتی ہوں نہ کسی کو ہونے دیتی ہوں ۔۔۔اسلیے بیتی باتوں کو مارو گولی ۔۔۔ اورکوئی آج کہ بات کرو”۔۔۔شرارت سے کہہ کر اسنے شانے اچکائے تو زروان نے بے احتیار جھکا سر پھر اٹھا کر اسے دیکھا ۔۔۔وہ بلکل ایسے بات کر رہی تھی جیسے ان دونوں میں کمال کی دوستی ہو ۔۔۔
“میں جانتا ہوں تم نے مجھے معاف کر دیا ہے مگر میں شرمندہ ہوں ۔۔۔میرا گلٹ کم نہیں ہو رہا۔۔۔میں خود سے نظریں ملانے کے قابل نہیں رہا. ۔۔وہ شدید بے بس لگتا تھا ۔۔۔ وہ اسکی حالت سمجھ سکتی تھی ۔۔۔
“یہ شرمندگی اسلیے ہے کے تم خود کو معاف نہیں کر پا رہے ۔۔۔اپنے آپ کو معاف کر دو زارون ۔۔۔ہر اس غلطی کے لیے جو تم نے کی ہے ۔۔۔تب ہی تم خود سے نظریں ملا پاو گے ۔۔”
“مگر میرا ضمیر مجھے خود کو معاف کرنے نہیں دیتا ؟؟۔۔۔اسنے اپنا سر ہاتھوں پر گرا لیا تھا ۔۔۔
“ضمیر بے رحم ہوتا ہے اور بے رحم سے رحم کی اپیل کرنا بے قوفی ہوتی ہے زارون” ۔۔۔نایاب نے مسکرا قابل فہم نظروں سے دیکھا تو کچھ پل کے لیے وہ ساکت سا ہو گیا ۔۔۔
“پھر کس سے رحم کی اپیل کروں”۔۔۔سوالیہ نظروں سے نایاب کو گھورتا وہ کافی ڈسٹرب لگ رہا تھا ۔۔۔
“رحمان سے” ۔۔۔نایاب نے مسکرا کے انگلی آسمان کی طرف موڑی تو زارون کو لگا کے اسکی سانس رک گئ ہے ۔۔۔اتنے دونوں سے وہ خود سے معافی مانگ رہا تھا ۔۔۔اللہ سے معافی تو اسنے مانگی ہی نہیں ۔۔دل پے لگی آخری گرہ بھی ٹوٹ گئ اسنے بے احتیار آنکھوں میں آئے آنسوں صاف کیے ۔۔۔اور تشکر آمیز نظروں سے اپنی محسنہ کو دیکھا. ۔۔۔وہ مسکراتی نظروں سے دیکھ رہی تھی ۔۔۔شاید وہ سمجھ چکی تھی جو وہ اسے سمجھانا چاہتی تھی، وہ سمجھ گیا ہے ۔۔۔
“تھینک یو نایاب ۔۔۔تھینک یو سو مچ مجھے یہ نئی زندگی دینے کے لیے ۔۔۔مجھے سیدھا رستہ دکھانے کے لیے ۔۔۔!! شدت جذبات سے اسکی آواز کانپ رہی تھی ۔۔
۔۔۔
“تمہارے سوکھے تھینک یو کا میں اچار ڈالوں” ۔۔۔جل کر کہتی دوبارہ ٹیک لگا کے بیٹھی ۔۔۔تو زارون نے کی آنکھوِں حیرانگی در آئی ۔۔۔
“اچھے حاصے امیر آدمی ہو ۔۔۔خود کا بزنس ہے ۔۔۔تھوڑی جیب ڈھیلی کرو۔۔۔یہاں کمرے میں رہ رہ کے بور ہو گی ہوں میں ۔مجھے اور میری دوستوں کو آوٹنگ پے لے جاو “۔۔۔”ہممم” سوچتے ہوئے دو منٹ چپ ہوئی ۔۔۔وہ جو حیران سا بیٹھا تھا ۔۔۔اسکے ماتھے بل یک دم کم ہوئے. ۔۔
“لنچ، ڈنر “پی سی” میں کرواو اور ہم چاروں کو اچھی سی شاپنگ بھی کرواؤ تو میں تمہارا سوری اور یہ تھینک یو واٹ ایور جو بھی ہے قبول کرلوں گی۔”۔۔شانے بے نیازی سے بولتے آخر میں گردن اکڑا کر اسنے فراماہشوں کی لمبی لسٹ اسے تھمائی تو تو زارون نےنفی میں سر ہلایا ۔۔۔(وہ جس نے اتنے لوگوں میں اسے شرمندہ نہیں ہونے دیا تھا آج وہ اپنے سامنے کیوں شرمندہ ہونے دیتی) ۔۔۔
“مطلب مجھے کنگلا کیے بنا نہیں مانو گی” ۔۔۔وہ بے چارگی سے بولا تو اسنے آنکھیں ٹپٹپا کے اثبات میں سر ہلایا ۔۔۔
زارون نے گپری سانس لی ۔۔۔”اچھا ٹھیک ہے بتاو کون سی دوستیں ہیں تمہاری ؟۔۔۔ ۔۔
“فروا، بسماء اور شہرین” ۔۔۔اکساہیٹڈ سی کہتی ہو گے ہو کے بیٹھی ۔۔۔مگر اسکے یہ تینوں نام لینے پر وہ پھدک کر صوفے سے کھڑا ہوہا ۔۔۔
“وہ تین تمہاری سہلیاں ہیں؟ ۔۔۔اور تم چاہتی ہو میں ان تینوں کو شاپنگ کرواو؟؟! ۔۔۔۔۔۔وہ شاک کے عالم میں بولا تو نایاب نے پھر سے اثبات میں سر ہلایا ۔۔۔
“جی نہیں میں ہر گز ان چڑیلوں کو ساتھ لے کر نہیں جاوں گا ۔۔۔جتنا شاپنگ کا انہیں کریز ہے مجھے تو سڑک پے لے آہیں گی” ۔۔۔وہ نفی میں سر ہلاتا صاف مکر گیا ۔۔۔
“تم میری دوستوں کو چڑیل بول رہے ہو اتنی بھی بری نہیں” ۔۔۔نایاب نے حفا نظر اس پر ڈالی تو جل ہی گیا ۔۔۔
“اتنی بری نہیں ہیں بہت بری ہیں ۔۔۔اور باقی دو تو چلو پھر ٹھیک ہیں مگر تمہاری وہ دوست فروا ۔۔”توبہ” ۔۔۔ اسنے دونوں کانوں کو ہاتھ لگائے فروا بے دھیانی سے اچھلتی کھلے دروازے سے اندر آئی مگر زارون کی باتیں سن کر ٹھٹھک کر رکی ۔۔۔۔۔نایاب کی نظر جوں ہی اس پر پڑی تھی اسنے گبھرا کر زارون کو دیکھا مگر وہ بنا نایاب پے دھیان دیے اپنے دل کی بھڑاس نکال رہا ر تھا ۔۔۔”پچھلے ایک ہفتے سے میں اسکے طعنے اور گھورتی نظریں برداشت کر رہا ہوں ۔۔۔قسم سے بلکل ایسے گھورتی ہے جیسے چڑیل اپنے شکار کو گھورتی ہے۔۔۔اور تم چاہتی ہو میں اس چڑیل کو شاپنگ پے جاوں ۔۔۔تاکے خون کے ساتھ ساتھ وہ میرے پیسے بھی حتم کر جائے” ۔۔۔ناگورای سے بولتے اسنے سر جھٹکا تو نایاب نے مسکراہٹ دبا کے اسے دیکھا ۔۔۔
“سوچو اگر یہ سب فروا سن جائے تو وہ تمہارا کیا حال کر گی؟ ۔۔۔نایاب نے افسوس سے گردن ہلائی۔۔۔
“میں کیا ڈرتا ہوں اس سے ۔۔۔بے شک سن لے” ۔۔۔زارون نے ناک سے مکھی اڑائی تو پیچھے کھڑی فروا کا خون مزید کھول گیا ۔۔۔
“اچھا اگر ایسی بات ہے تو مجھے گھوم کر دیکھاو” ۔۔۔نایاب نے معصومیت سے کہا تو وہ “لو یہ بھی کوئی کام ہے” ۔۔کہتا پیچھے گھوم کر دوبارہ اسکی جانب مڑا ۔۔۔
“لو گھوم گیا” ۔۔بے دھیانی میں بولتے ہوئے وہ چونکا ۔۔۔آنکھوں میں یک دم ڈر سمٹ آیا ۔۔۔نایاب نے بمشکل حود کو ہنسے سے روکا ۔۔۔”اب گھومے گا اسکا سر” ۔۔۔نایاب نے مزے سے کہتے اپنا فون اٹھایا ۔۔۔ویڈیو کیرہ آن کیا ۔۔WWE کی ریسلنگ لاہیو دیکھنے کو ملنے والی تھی ۔۔
زروان حشک لبوں پر زبان پھیرتا ۔۔۔ہیچھے مڑا تو وہ سرخ چہرہ لیے اسے کاٹ کھانے والی نظروں سے گھور رہی تھی ۔۔۔”تم نے مجھے چڑیل کہا ۔۔۔اب بتاتی ہوں تمہیں چڑیل ہوتی کیا ہے” ۔۔۔فروا نے حون حار لہجے میں بولتے اپنے لمبے ناحنوں سے اسکے چہرے پر حملہ کیا تو بے چارہ بمشکل خود کو بچاتا وہاں سے باہر بھاگا ۔۔۔۔۔”رکو تم بتاتی ہوں تمہیں “۔۔۔فروا چلاتی ہوئی اسکے پیچھے بھاگی ۔۔۔تو نایاب کا دماغ ہی گھوم گیا ۔۔۔”ارے ادھر ہی لڑو نا تم دونوں” ۔۔۔اسنے پیچھے سے چلا کر کہا مگر وہ دونوں شاید دور بھاگ چکے تھے ۔۔۔نایاب نے کڑھ کے موباہیل بند کر کے نیچے رکھا. ۔۔اس بے چاری کا سارا شو ہی حراب ہو گیا تھا ۔۔۔
****************************************
دوسرے دن گھر میں عحیب افرا تفری سی پھیلی تھی ۔۔۔ناہل کا نکاح سادگی سے تھا مگر انکے گھر پر ہی تھا ۔۔۔نایاب کو ان لوگوں نے یہ بول کے چپ کروا دیا تھا کے ۔۔۔شہرین کی مرصی اسی میں ۔۔۔اور وہ ماننے کے علاوہ کر بھی کیا سکتی تھی ۔۔۔۔مگر اسے دال میں کچھ کالا صرور لگ رہا تھا کیوں وہ سب مشکوک حرکتیں کر رہے تھے ۔۔۔ناہل گدھے کے سر سے سینگ کی طرح عاہب تھا ۔۔۔ سمینہ ،سریا اور شماہل اسے دو تین بار کھسر پھسر کرتی دیکھائی دیں ۔۔۔مگر اسکے آتے ہی بلکل چپ ۔۔۔وہ سب کچھ تو چھپا رپے تھے مگر کیا ؟؟ بہت سوچنے کے بعد بھی اسے کچھ سمجھ نہیِں آیا تو اسنے ان سب کو انکے حال پر ہی چھوڑ دیا ۔۔ فل حال وہ ساری الجھنوں کو جھٹکتے ہوئے واپس کمرے میں آئی تھی ۔۔۔جہاں ساری لڑکیاں نکاح کی مناسبت سے تیار ہو رہیں تھیں ۔۔
وہ اندر داحل ہوئی فروا پھدکتی ہوئی اس تک آئی ۔۔۔غلابی لمبے فراک کے ساتھ ہلکے سے میک اپ اور کھلے بالوں میں وہ اچھی لگ رہی تھی ۔۔۔”ماشااللہ کافی اچھی لگ رہی ہو” ۔۔۔نایاب نے اسکے پاس آنے پر مسکرا کر کہا تو اسنے سر حم کر کے اسکا شکریہ ادا کیا اسے بازو سے پکڑ کر بیڈ تک لائی ۔۔۔”ہم سب تو تیار ہو چکے ہیں اب تمہاری باری ہے چلو جلدی سے یہ جوڑا پہن کر آو”۔۔۔۔فروا نے مسکرا کر کہتے ہوئے بیڈ پر پڑا بھاری جوڑا اسے تھما دیا تھما دیا ۔۔اسنے حیرت ہاتھ میں پکڑے جوڑے کو اک نظر دیکھا ( سفید رنگ کا خوبصورت فراک تھا جسکے گلےاور دامن پر سٹون ورک ہوہا تھا ۔۔۔ڈوپٹہ گہرا سرح تھا جسکے باڈر پر فراک جیسا کام تھا ) نایاب نے سوالیہ آبرو اٹھا کر فروا کو دیکھا ۔۔۔
“یہ دلہن کا جوڑا لگ رہا ہے ۔۔۔میں اتنا ہیوی جوڑا نہیں پہن سکتی ۔۔۔وہ جوڑا کہاں ہے جو میں نکال کر گئی تھی؟؟” ۔۔۔اسکی تفیش شروع ہو چکی تھی ۔۔۔فروا نے تھوک نگل کر خود کو نارمل کیا ۔۔
“ارے یہ میں نے یہ جوڑا لیا ہے تمہارے لیے آج تم یہی پہنو گی” ۔۔۔فروا کے کچھ بھی بولنے سے پہلے سمینہ پھپھو محبت سے بولتی دروازے سے اندر آہیں ۔۔
“مگر پھپھو یہ اتنا ہیوی!۔۔۔اسنے زرا الجھ کے دیکھا ۔۔۔
“کوئی ہیوی نہیں ہے بس آج تم یہی پہنو گی” ۔۔۔پھپھو نے تو حتمی لہجے میں بات ہی حتم کر دی ۔۔۔
“لیکن پھپھو!!” ۔۔۔نایاب بے بسی سے جوڑے کی جانب دیکھ کے منمائی ۔۔۔
“مجھے پتہ تم اپنے ڈیزاہن کردہ کپڑے ہی پہنتی ہو ۔۔۔مگر میرا دل کیا کے میرے بیٹے کی شادی میں تم میری پسند کے کپڑے پہنوں ۔۔۔مگر مجھے کیا پتہ تھا تم میری بات ہی نہیں مانو گی “۔۔۔سمینہ نے ایموشنل ہو کے آنکھوں سے مصنوعی آنسو صاف کیے اور جوڑا اسکے ہاتھ سے لیا ۔۔۔وہ تو گڑ بڑا ہی گئی ۔۔۔”نہیں نہیں پھپھو میں پہنتی ہوں نا ۔۔۔۔بہت پیارا ہے “۔۔۔نایاب نے انکے ہاتھ جوڑا واپس لیا ۔۔۔اور حود کو کوستی واش روم کی جانب بڑھی ۔۔۔
“واو پھپھو کمال کی ایکٹنک کی ہے آپ نے” ۔۔۔۔جب وہ اندر چلی گی تو فروا ار سمینہ نے شرارت سے ایک دوسرے کو دیکھتے ہاتھ پر ہاتھ مارا۔۔۔تھوڑا ہنسیں پھر منہ پے ہاتھ رکھتے چپ ہوئیں۔۔۔”ٹاپ سیکرٹ ۔” والی نظروں سے ایک دوسرے کو دیکھ کر سر ہلایا. ۔۔۔
“””””””‘”””””””””**************”””””””””””””””
جب وہ جوڑا پہن کر باہر آئی تو اسکی چھپ ہی نرالی تھی۔۔۔۔اتنا خوبصورت وہ پہلے کبھی نہیں لگی تھی فروا کے منہ سے بے احتیار ماشا اللہ نکلا تھا ۔۔۔اسنے اسکے پاس آکر ڈارمائی انداز میں انگلی کی نوک سے کاجل اپنی آنکھوں کے کونے سے لے کر اسکی گردن کے پیچھے لگایا ۔۔نایاب اکتائی ہوئی نظروں سے اسے دیکھ رہی تھی ۔۔۔”آو میں تمہیں تیار کر دیتی ہوں” ۔۔۔فروا نے اسکا پکڑ کر اسے ڈرسینگ ٹیبل کے پاس لایا اور کندھوں سے دبا کر سٹول پر بیٹھا دیا ۔۔۔
“میں جیولری لے آئی ہوں “۔۔۔۔اتنے میں بسماء بھی اپنا پیچ رنگ کا لہنگا سنبھالتی ایک ہاتھ میں جیولری کا ڈبہ پکڑے اندر آئی ۔۔۔نایاب نے گردن موڑ کے اسے دیکھا ۔۔۔پیچ رنگ کا لہنگا پہنے بالوں کو جوڑے میں باندھے لائٹ سے میک اپ میں وہ بہت اچھی لگ تھی ۔۔۔
“واو ماشاء اللّٰہ ،سبحان اللّٰہ کتنی پیاری لگ رہی ہو تم نایاب” ۔۔۔وہ محبت سے بولتی اسک تک آئی ۔۔۔جیولری باکس فروا کو تھمایا اور نایاب کو جھک کر گلے سے لگایا ۔۔۔نایاب نے اسے نرمی سے حود سے الگ کیا اور جانچتی نظروں سے ان دونوں کو دیکھا۔۔۔
“تم دونوں ایسے کیوں بی ہیو کر رہی ہو جیسے شادی میری ہے “۔۔۔وہ یک دم سے سوالیہ آبرو اٹھاتی بولی تو ان دونوں گڑ بڑ گئیں ۔۔۔
“تمہاری شادی ہے تو نہیں مگر تم کہو تو بات کرو سریا آنٹی سے ؟؟زارون بے چارہ تو خوشی پاگل ہی ہو جائے گا” ۔۔۔۔فروا نے آنکھیں مٹکا کر کہا تو نایاب نے ایک بری نظر اس پر ڈالی اور سر جھٹکتی آہینے کی جانب مڑی ۔۔۔
“میں حود تیار ہو جاوں گی ۔۔۔تم دونوں جاو ۔۔۔انحوئے کرو” ۔۔۔سادگی سے بولتی وہ اپنا کلچ کھولنے لگی تو بسماء نے آگے بڑھ کر اسکے ہاتھ سے اچک لیا ۔۔۔
“جی نہیں! آج ہم تمہیں تیار کریں گیے ۔۔ہمیں پتہ ہے جو تم خود تیار ہوتی ہو ۔۔۔آج تمہاری ایک نہیں چلے گی ۔۔۔سب ہم کریں گے ۔۔۔اسلیے چپ ہو کے بیٹھ جاو.” ۔۔ ۔۔فروا رعب سے بولتے اپنی میک اپ سامان کھول کر ڈریسنگ کر رکھا. ۔۔
“مگر کیوں ؟؟ مجھے کیوں تیار کرنا ہے تم دنوں نے” ۔۔۔وہ بھڑک کر چلائی تو فروا اور بسماء نے مشترکہ آنکھیں دیکھاہیں ۔۔۔وہ منہ بناتی چپ ہو کے بیٹھی ۔۔۔۔
اور اسکا میک اپ کرنے لگیں ۔۔۔۔میک اپ سوفٹ سا تھا اسلیے اسنے کرنے دیا تھا مگر جب جیولری کی باری آئی تو ۔۔۔”یہ اتنی ہیوی جیولری میں نہیں پہنوں گی”! ۔۔۔وہ دونوں سینے پر باندھے نفی میں سر ہلاتی پیچھے ہو کر بیھٹی ۔۔۔۔”ایسے کیسے نہیں پہنوں کی تمہارے تو اچھے بھی پہنیں گے” ۔۔۔فروا نے اسکے انکار کو بری طرح رد کرتے ہوئے اسے زبردستی جیولری پہنا دی۔۔ نازک سا خوبصورت سا ہار ۔۔۔۔جسمیں لگے سرح یاقوت اب اسکی گردن میں جگمگا رہے تھے ۔۔۔ساتھ ہی میچنگ بندے اور مانگ ٹیکا بھی ۔۔۔نایاب نے آہینے میں دیکھتے اپنے گلے میں پڑے اس خوبصورت ہار کو چھوا تھا ۔۔۔”واو یہ تو بہت خوبصورت ہے !۔۔۔وہ مسمراہز نظروں سے دیکھتی فروا کی جانب مڑی جو مسکرا کر شانے اچکاتی اب اسکے بالوں کو جوڑے میں باندھ رہی تھی. ۔۔”سمینہ پھپھو نے تمہارے لیے بھیجا ہے” ۔۔۔۔۔بسماء نے فروا کو اسکا ڈوپٹہ تھماتے ہوئے سر سری سا کہا۔۔۔اب نایاب کو فکر سی ہونے لگی تھی ۔۔۔سمنیہ پھپھو ۔۔۔یہ سب کیوں کر رہی ہیں ؟؟”۔۔۔وہ اپنے حیالوں میں کھوئی تھی. ۔۔فروا اور بسماء نے اسکا ڈوپٹہ پنوں کی مدد سے سیٹ کر دیا تھا ۔۔۔جو داہیں طرف سے آگے ڈالا گیا تھا اور باہیں جانب سے پیچھے ۔۔۔۔ وہ چونکی تو تب جب بسماء اور فروا چپکے سے دروازہ بند کرتیں باہر بھاگ گئیں ۔۔۔اسنے دانت پیس کے بند دروازے کو دیکھا.
“پتہ تھا کے اب میں سب پوچھو گی اسلیے بھاگ گئیں بگھوڑیاں”۔۔ منہ بناتی وہ کھڑی ہوئی ۔۔۔بے احیتار نظر سامنے اپنے عکس پر پڑی تو بلکل تھم سی گئی ۔۔۔۔اسے لگا سامنے کوئی اور ہی لڑکی کھڑی ہے ۔۔۔۔کتنی خوبصرت لگ رہی تھی وہ ۔۔۔۔۔”کیا یہ میں ہوں؟ ۔۔۔بے یقینی سے اپنے چہرے کو چھوتی بڑابڑائی ۔۔۔
ابھی وہ اپنے آپ ہی یقین نہ کر پائی تھی کے دروازہ پھر سے کھلا تھا اور اب ساری فیلمی یک دم سے اندر آئی تھی ۔۔۔وہ اس افتاد پر گبھرا کر پلٹی ۔۔۔وہ سب مسکراتی نظروں سے دیکھ رہے تھے ۔۔۔اسنے ایک اچٹتی نظر سب پر ڈالی سریا ماشاءاللّٰہ بولتی اس تک آہیں ۔۔۔محبت سے اسکا ماتھا چوما۔۔۔اور اسے سٹول پر بیٹھایا ۔۔۔
“یہ سب کیا ہو رہا ہے ؟۔۔۔۔اسنے حیراں نظروں سے سب کو دیکھا ۔۔۔اور جو نظر گہرے سبز رنگ کے کرتے پاجامے کے ساتھ سر پر ہم رنگ کا اسکارف لپیٹے شہرین پر پڑی تو اسکی آنکھیں باہر ابلنے کو تھیں ۔۔اب دادو اس سے گلے مل رہیں تھیں۔۔۔”شہرین تم یہاں؟؟ ۔۔۔تم تیار نہیں ہوئی تمہارا تو نکاح ہے نا آج ناہل کے ساتھ” ۔۔۔دادو اس سے الگ ہوئیں تو اسنے شہرین کو دیکھ کر پوچھا ۔۔۔
وہ نم آنکھوں سے مسکراتی اس تک آئی ۔۔۔اسکے ہاتھ پکڑ کر گھٹنوں کے بل بیھٹی ۔۔۔۔”نکاح تو ناہل کا ہے مگر میرے ساتھ نہیں ۔۔۔تمہارے ساتھ”. ۔۔۔شہرین نے اسکے ہاتھ دبا کر مصبوط لہجے میں کہا تو ۔۔۔اسکی حیران نظروں میں صدمہ در آیا ۔۔۔۔باقی سب حاموش کھڑے تھے ۔۔۔جو بم پھٹنا تھا پھٹ چکا تھا ۔۔۔اب دیکھنا تھا تباہی کتنی مچتی ہے ۔۔۔”آر یو آوئٹ آف یور ماہنڈ ۔۔۔یہ کیسے ہو سکتا ہے؟. ۔۔۔وہ اپنے ہاتھ چھڑاتی یک دم کھڑی ہوئی سریا نے کچھ کہنا چاہا تو فاروق صاب نے ہاتھ سے اشارہ کر کے منع کر دیا ۔۔۔سریا بھی خاموش ہو گئیں ابھی نایاب کو وہی ہینڈل کر سکتے تھے یہ وہ جانتی تھی ۔۔۔
“یہ میرا فیصلہ ہے نایاب ۔۔۔کیا تم اپنے بابا کی یہ پہلی اور آخری حواہش نہیں مانو گی!؟ ۔۔۔فاروق صاب نے اسے ایموشلنی بیلک میل کرنا چاہا. ۔۔
“رہیلی ابو” آپکو لگتا ہے مجھے ایسے جزباتی کرنا آسان ہے ہے ؟؟”۔۔۔وہ سوالیہ آبرواٹھا کر تنظریہ مسکراتے ہوئے انکی جانب مڑی تو سریا نے اپنا سر پیٹ لیا ۔۔۔
“جو بھی سمجھو ۔۔۔مگر میرا یہی فیصلہ ہے” ۔۔۔فاروق صاب نے حتمی لہجہ اپنایا ۔۔۔تو نایاب نے مصنوعی مسکراہٹ چہرے پے سجائے سب کو دیکھا ۔۔۔”اوہ تو یہ سب پلاننگ کرتے رہیں آپ سب ۔۔۔تب ہی میں بولوں سب اتنا پرفیکٹ کیسے ہے ۔۔۔واہ کیا پلان بنایا ہے آپ سب نے ۔۔۔غین نکاح کے وقت بتاہیں گے نایاب کو ۔۔۔وہ انکار نہیں کر پائے گی” ۔۔۔”گریٹ” ۔۔۔نایاب نے جزباتی اندز میں بولتے دونوں ہاتھ ہوا میں لہرا کے ان سب کو داد دی ۔۔۔۔جو سب نے ڈھیٹ پن کا مظاہرہ کرتے ہوئے سر کو حم کرتے ہوئے قبول کی ۔۔۔
“ہیں ” رہیلی ۔۔۔۔آپ سب میری بات نہیں سنیں گے” ۔۔۔سب نے نفی میں سر ہلایا. ۔۔۔ایسا لگتا تھا جیسے سب کٹ پتلیاں ہوں ۔۔۔نایاب کا تو خون کی کھول گیا تھا اس ناٹک پر ۔۔۔
“تم سب لوگوں کو میں آحری بار بتا رہی ہوں۔۔۔میں ایسا ویسا کچھ نہیں کرنے والی” ۔۔۔وہ سب کو انگلی دیکھاتی وارن کرتی دروبارہ سٹول پر بیٹھ گئی ۔۔تو فاروق صاب نے باہر کھڑے مولوی صاب کو اندر بلایا ۔۔۔وہ بوتل کے جن کی طرح فورا سے پہلے خاصر تھے ۔۔۔نایاب نے پھٹی نظروں سے اپنے ابو دیکھا ۔۔۔جھنجنھلا کے کچھ کہنا چاہا تو دادو نے بیچ میں ہی ٹوک دیا ۔۔
“چپ کرو ۔۔۔اب تم بولی تو تمہاری گز بھر کی زبان کاٹ دوں گی ۔۔۔توبہ ہے ہمارے زمانے میں دلہن شادی سے دو سال تک نہیں بولتی تھی اور اسے دیکھو ۔۔۔۔کیسے پٹر پٹر بولے جا رہی ہے “۔۔۔۔دادو نے ایک غصیلی نظر اس پر ڈالی اور مولوی صاب کی جانب مڑی ۔۔۔”اما میاں تم کس کے انتظار میں ہو؟ نکاح پڑھواو !۔۔۔۔جھڑک کے مولوی صاب کو کہا تو انہوں وہ فوراً سے رجسٹر کھول کر حیران بیھٹی دلہن کی گود میں رکھا ۔۔۔تھا ۔۔۔”بیٹی یہاں ساہن کر دو “۔۔۔وہ اسے انگلی سے ساہن کرنے والی جگہ کی نشان دہی کروا رہے تھے ۔۔۔”آپ یہ سب اچھا نہیں کر رہے میرے ساتھ “۔۔۔اسنے دانت پیس کے چلا کر کہا تو سب نے کانوں میں انگلیاں ٹھوس لیں ۔۔۔۔نایاب کا دل کیا ان سب کو “افف”۔۔۔بری طرح سے پھنس گئی تھی وہ ۔۔۔
“ساہن کرو لڑکی ۔۔۔مولوی صاب نے اور نکاح پڑھوانے بھی جانا ہے “۔۔۔دادو نے غصے سے اسکے ہاتھ میں قلم تھمایا. ۔۔تو اسنے بے بسی سے گہری سانس لی یہ سب اسکی کوئی بات نہیں سننے والے تھے یہ بات تو طے تھی ۔۔۔مطلب گھونگھے بہرے بن کے آئے ہیں ۔۔۔
“میں ساہن کر دوں گی مگر آپ سب پہلے ناہل سے تو بات کریں ۔۔۔۔کیا پتہ وہ مجھ سے شادی نہ کرنا چاہتا ہو”.۔۔۔اب وہ پینترہ بدل کر مصنوعی مسکراہٹ سے بولی. ۔۔۔۔
کوئی کچھ نہیں بولا ۔۔۔البتہ مولوی صاب نے جھک کر رجسٹر کا ایک صحفہ پیچھے کیا. ۔۔اور اسے صحفے پر دیکھنے کے لیے کہا ۔۔۔جوں ہی اسکی نظر صحفے پر پڑی وہ پھدک کے کھڑی ہوئی ۔۔۔”ناہل کا ساہن کردہ نکاح نامہ ۔۔۔۔مطلب وہ پہلے ہی آدھا نکاح کر چکا ہے” ۔۔۔فروا نے مسکراہٹ دبا کر اسے واپس سٹول پر بیھٹا دیا ۔۔۔وہ رو دینے کو تھی وہ سب پوری تیاری کے ساتھ آئے تھے ۔۔۔
“تمہارا آحری اعتراص بھی پورا ہو گیا نایاب اب ساہن کرو. ۔۔فاروق صاب اسے حکم دیتے لہجے میں کہا تو اسنے بے بسے سے آنکھیں زور سے میچ کے کھولیں ۔۔۔”آپ سب میرری بات ۔۔۔۔!!؟؟”
“ساہن کرو نایاب!!” ۔۔۔اسکی بات پوری ہونے سے پہلے ہی وہ سب یک دم زور سے چلائے.۔۔۔نایاب نے زور سے دانت پیسے اور دھڑا ڈھڑ ساہن کر دیے ۔۔۔۔مولوی صاب نے قبول وہ ایجاب کی رسم نبھائی اور اس کے سر پر ہاتھ رکھتے باہر نکل گئے. ۔۔۔
اب اسنے قابل فہم نظروں سے سب کو گھورا وہ سب ویسے ہی سپاٹ چہرہ لیے ایک ایک کرتے باہر نکل گئے تھے ۔۔۔آخر میں مسکراہٹ دباتی فروا نکلی تھی ۔۔۔مگر جانے سے پہلے پلٹی ۔۔۔ اور زور سے”مبارک ہو “کہتی چھپاک سے باہر بھاگی ۔۔۔نایاب نے زور سے ہاتھ میں پکڑا قلم اسکےپیچھے سے پھینکا وہ بند دروازے سے ٹکرا کر نیچے گرا تھا ۔۔۔
وہ نڈھال سی بیڈ تک آئی تھی ۔۔۔اور دھپ سے اس پر گری تھی ۔۔”۔کیا ہو گیا تھا اتنا اچانک ۔۔۔ناہل اور اسکا شوہر ۔۔۔افف” ۔۔۔
اسکے میسج کی رنگ ٹون بجی تو بے دلی سے اٹھا کر دیکھا فروا کا میسج تھا۔۔۔اسنے دانت پیس کر میسج کھولا
“میری پیاری سہیلی نایاب تم سوچ رہی ہو گی کی یہ سب اچانک کیسے ہو گیا ۔۔۔مگر یہ سب اچانک نہیں ہوہا ۔۔۔یہ ہم سب کی ایک ہفتے کی پلاننگ تھی ۔۔۔شہرین نے خود اس رشتے سے انکار کرتے ہوئے تم سے شادی کا آہیڈیا ناہل کو دیا تھا ۔۔۔اور اندھا کیا چاہتا ہےدو آنکھیں ۔۔۔وہ تو فورا مان گیا اب مسلہ تھا تمہارا ۔۔۔اور ہمیں پتہ تھا تم ایسے نہیں مانو گی ۔۔۔اسلیے یہ سب ڈراما کرنا پڑا. ۔۔۔اور اس سب میں تمہیں ناہل کی کمی تو لگ ہی رہی ہو گی ۔۔۔۔تو گھبروا مت وہ انگلینڈ گیا ہے اپنے ڈگری لینے ۔۔۔ہم نے تو کہا تھا نکاح بعد میں رکھ لیتے ہیں جب تم واپس آو مگر اسکا کہنا تھا کے کہیں تم اسکا سر نہ توڑ دو اسلیے تمہارے جانے کے بعد ہی نکاح کروایا جائے تاکے جب وہ آئے تمہارا غصہ ٹھنڈا ہو جائے ۔۔۔قسم سے پورا مجنوں کا بھائی بنا پھر رہاہے ۔۔۔پاگل تمہارے پیچھے ۔۔۔کتنی مشکل سے اس پورے ہفتے ہم نے اسے تم سے ملنے سے دور رکھا ہے ہم ہی جانتے ہیں. ۔۔۔اور ابھی وہ کس دل سے انگلینڈ گیا ہے وہی جانتا ہے. ۔۔بے چارے کی شکل دیکھنے لائق تھی. ۔۔ہاں وہ تھوڑا جزباتی ہے ،ایمونشل ہے مگر نایاب وہ تم سے بے انتہا محبت بھی کرتا ہے.۔۔۔اور تم سے کہنے سے بھی ڈرتا ہے ۔۔۔اس لیے اسکی جگہ میں بتا رہی ہوں ۔۔اب وہ تمہارا شوہر ہے اور ایک محبت کرنے والا شوہر بہت قسمت والوں کا ملتا ہے اسکی قدر کرنا ۔۔۔۔تمہاری سب سے زیادہ پیاری، ذہین اورسگھڑ سہیلی طرف سے تمہیں یہ نئی زندگی مبارک ہو ۔۔۔۔!!
لمبا چوڑا میسج اسنے عور سے پڑھا تھا ۔۔۔ہر اگلی لاہن پر اسکا دل تھما تھا ۔۔۔اسنے بے یقینی سےموباہیل بند کر کے ساہیڈ پر رکھا ۔۔۔۔”کیا وہ مجھ سے ۔۔۔؟؟ ہونہہ گدھا کہیں کا خود بولنے کی ہمت نہیں ہے “۔۔۔۔۔سوچتے ہوئے اسکی آنکھیں چمکیں ۔۔ نچلا لب دانتوں میں دبائے اس نے موبائیل اٹھایا ۔۔۔ان باکس کھولا ۔۔۔اور میسج ٹاہپ کیا ۔۔۔
“مجھ پر یہ فلمی ڈاہیلاگ اثر نہیں کرتے اگر اتنی ہی محبت کرتا ہے تو خود آ کر بولے ۔۔۔اور تم جو اتنا پٹر پٹر بول رہی ہو ۔۔۔ملو مجھے بتاتی ہوں تمہیں” ۔۔۔۔سینڈ کا بٹن دبا کے موباہیل واپس ساہیڈ ٹیبل پے رکھا اور خود اہینے کے سامنے جا کر کھڑی ہوئی ۔۔۔وہ آج سچ میں خوبصورت لگ رہی تھی ۔۔۔”ہمم تو یہ تمہاری کارستانی ہے ناہل۔۔۔ویسے ہے بڑا چالاک ۔۔۔میں اسکی شادی نپٹانے آئی تھی ۔۔۔اور اسنے مجھے ہی نپٹا دیا ۔۔۔شکر ہے آج سے پہلے میں کسی فیملی فنگشن میں نہیں گئی” ۔۔۔جھر جھری لیتی وہ واش روم کی جانب بڑھی ۔۔۔اسے اس حلیے سے فوری طور ہر نجات چاہیے تھا ۔۔۔۔۔
“””””””””””””””””**************”””””””””””””””
آج دو دن پورے ہوئے تھے ۔۔۔۔وہ اپنے گھر واپس آ گئی تھی ۔۔اسکی رحصتی اسکے اپنے گھر سے ہونی تھی ۔۔۔تاریح طےکرنے آج ان سب نے آنا تھا.۔۔۔آنا تو ناہل نے بھی تھا آج ۔۔۔ان دو دنوں میں لاشعوری طور پر اسنے اسکے کسی فون یا میسج کا انتظار کیا تھا ۔۔۔مگر مجال ہے جو اسنے کوئی رابطہ کرنے کی کوشش بھی ہو ۔۔۔
اپنے بیڈ کے کراون سے ٹیک لگا کے بیھٹی وہ نہ چاہتے ہوئے بھی اسے ہی سوچ رہی تھی ۔۔۔اسکا لہجہ، اسکی کچھ جتاتی ہوئی نظریں ۔۔۔وہ سمجھ کے بھی کبھی سمجھ نہیں پائی تھی ۔۔۔نہ ہی کبھی اسنے ناہل کو کبھی نظر سے دیکھا تھا ۔۔۔مگر اب اچانک سے رشتہ بدلہ تو سارے احساس بھی یک دم بدلے تھے ۔۔۔
“میں اتنا کیوں سوچ رہی ہوں اسکے بارے میں؟” ۔۔۔حیالوں میں کھوئی وہ یک دم چونکی ۔۔۔مسکرا کر سر جھٹکا اور چپل پہنتی کمرے سے باہر نکل کر آئی ۔۔۔کمرہ بند کر کے ابھی کاریڈور میں ہی پہنچی تھی کے نیچے سے ان سب کے بولنے کی آوازیں آنا شروع ہوہیں ۔۔۔۔
یہ لوگ تو شام میں آنے والے تھے ۔۔۔ماتھے پے بل ڈالے تھوڑا آگے آئی وہ ریلنگ سے تھوڑا جھک کے نیچے دیکھا ۔۔سامنے صوفے پر وہ ٹانگ پر ٹانگ چڑھائے بیھٹا تھا( سیائی رنگ کی کاٹن کی شرٹ کے ساتھ گرے جینز پہنے ہوئے تھا ۔۔۔بال ہمشہ کی طرح محصوص اسٹاہل میں پیچھے سیٹ تھے ۔۔۔ہلکی سی بڑھی شیو میں وہ کافی اچھا لگ رہا تھا ).۔۔۔امی ابو اسکے سامنے والے صوفہ پر بیھٹے تھے ۔۔۔دادو اسی کے ساتھ صوفے پر بیٹھیِ تھیں سامنے لوازمات سے بھری ڈش شیشے کے میز پر رکھی تھی ۔۔۔دادو مسلسل اسے کچھ لینے کے لیے بول رہی تھیں اور وہ مسکرا کر نفی میں سر ہلا رہا تھا ۔۔۔اور جو نظر اوپر موڑی نایاب پھدک کے پیچھے ہٹی ۔۔۔دل کی دھڑکن یک دم تیز ہوئی ۔۔۔ اس نے دل پر ہاتھ رکھ کے ناہمورا سانس بحال کی ۔۔۔
“میں زرا نایاب سے کو دیکھ لو ” نیچے سے ناہل کی آتی آواز نے اسے مزید کنفیوز کر دیا ۔۔۔
“مجھے کیوں دیکھنا ہے پہلے نہیں دیکھا کیا ؟؟” حود سے بڑبڑاتی وہ واپس کمرے میں بھاگی ۔۔۔دروازہ بند کیا ۔۔۔تھوڑی دیر بند دروازے کو دیکھا پھر نفی میں سر ہلا کے دروازہ واپس کھولا ۔۔”نہیں نہیں بند دروازہ وہ تب تک بجائے گا جب تک میں کھول نہیں لیتی! ۔۔۔کیا کروں ؟؟۔۔۔زندگی میں پہلی بار وہ اتنی نروس ہو رہی تھی ۔۔۔داہیں سے باہیں چکر کاٹتی وہ تب چونکی جب قدموں کی آواز سے قریب آئی ۔۔۔وہ واش میں بھاگی جلدی سی کنڈی چڑھائی اور شاور کھول لیا ۔۔پانی کی آواز میں باہر کی آواز دب سی گی۔۔۔اسنے دروازے سے کان لگا کر سنا تھا اور کی ہول سے اندر جھانکا ۔۔۔شاید وہ اندر آ چکا تھا ۔۔
‘نایاب تم واش روم میں ہو کیا ؟؟”۔۔۔ تعجب سے کہتا وہ واش روم کے دروازے کے قریب آیا تو وہ جلدی سے پیچھے ہوئی ۔۔۔تھوڑی دیر میں دروازہ زور سے بند ہونے کی آواز سنائی دی تو اسنےواپس کی ہول سے جھانکا ۔۔۔کوئی نہیں نظر آیا تو تھوڑا سا دروازہ کھول کر کچھوے کی طرح گردن نکال کر باہر دیکھا ۔۔۔وہ شاید چلا گیا تھا کمرہ حالی تھا اور دروازہ بند ۔۔۔وہ سکون بھری سانس لیتی باہر آئی ۔۔۔
“میں ڈررتی تھوڑی نہ ہوں اس سے وہ تو بس ایسے ہی سبق سیکھا رہی تھی اسے” ۔۔۔اپنےآپ کو ہی جسٹیفیکشن دیتی ہو آہینے کے سامنے آ رکی ۔۔۔سامنے ڈریسنگ پر پڑا ربڑ بینڈ اٹھایا اور جوں ہی کھلے بالوں کو باھندنے کے لیے دونوں ہاتھوں میں سمیٹا تو یک دم ساکت ہوئی ۔۔۔آہنیے میں اسکا عکس صاف واضح تھا وہ بلکل اسکے پیچھے کھڑا سینے پر بازو باندھے اسے مسکراتی نظروں سےدیکھ رہا تھا ۔۔۔اسکےہاتھ سے بال چھوٹ گئے تھے وہ پلٹی نہیں تھی ویسے ہی حیران نظروں سے اسے دیکھ رہی تھی وہ چلتا ہوہا بلکل اسکے پیچھ آیا۔۔۔۔داہیں کندھے سے بال ہٹا کے تھوڑی رکھی اسکے دونوں ہاتھ محبت سے تھامے ۔۔۔
“آج میں یہ کہہ سکتا ہوں کے میں اس دنیا کا سب سے خوش نصیب مرد ہوں ۔۔۔کیوں کے مجھے تم ملی ہو” ۔۔وہ سامنے آہینے میں نظر آتی اسکی سبز آنکھوں میں دیکھتا محبت سے کہہ رہا تھا ۔۔۔وہ اسکے کتنا قریب تھا۔۔۔اور جن نظروں سے گھور رہا تھا اسکے گال دہک اٹھے تھے
“ناہل تم !!! “اس سے پہلے وہ کچھ بولتی ناہل نے اسکا ہاتھ چھوڑ شہادت کی انگلی اسکے ہونٹوں پے رکھ کے اسے چپ کروایا ۔۔۔
“میں اب اتنا بھی ڈرپوک نہیں کے اپنی بیوی سے محبت کا اِظہار نہ کر سکوں” ۔۔۔ شرارت سے کہتے ہوئے انگلی اسکے لبوں پر سے ہٹائی ۔۔۔کچھ دیر سامنے اسکی آنکھوں میں دیکھا ۔۔ کان کے نزدیک جھکا ۔۔۔”آئے لو یو ڈیم بیڈلی” ۔۔مدہم سی سرگوشی میں بولا تو نایاب نے اپنی آنکھیں بند کر لیں ۔۔۔وہ مسکرایا ۔۔۔”پچھلے چند دن میری زندگی کے سب سے مشکل دن تھے ۔۔تم سے دود رہنا آسان نہیں تھا” ۔۔وہ اداسی سے بولا ۔۔۔وہ ویسے ہی کھڑی رہی ۔۔۔”کتنی خوبصورت لگ رہی تھی تم نکاح کے جوڑے میں ۔۔۔تمہاری تصویر دیکھ کر تو دل بڑا بے ایمان ہوہا ۔۔مگر اب مزید دوری نہیں ۔۔۔ جزب سے بولتے اسنے اسکے کان کی لو کو چوما۔۔۔نایاب کا سانس تک رک گیا۔۔۔ “بہت جلد تمہیں لینے آوں گا میرا انتظار کرنا” ۔۔۔ایک آحری سرگوشی کرتا اگلے ہی پل وہ کمرے سے باہر تھا ۔۔۔ددروازہ بند ہونے کی آواز پر اسنے اپنی آنکھیں کھولیں ۔۔۔اور چونک کے پیچھے مڑ کر سارے کمرے میں دیکھا ۔۔۔اس بار سچ میں چلا گیا تھا ۔۔۔وہ دھڑکتے دل کے ساتھ بیڈ پر آبیٹھی ۔۔۔۔اپنے کان کی لو کو چھوا ۔۔۔ایک ابجانی سی مسکراہٹ اسکے لبوں پر آ ٹھہری ۔۔۔مسکرا کے بیڈ کے وسط میں دیکھا تو سرح پھولوں کا ایک بوکے پڑا تھا ۔۔۔وہ جھٹ سے اسکے قریب ہوئی اسے محبت سے اٹھایا ۔۔۔گہری سانس لے کر ان کی حوشبو کو اندر اتارا ۔۔۔کھل کے ہنسی ۔۔۔اور پھولوں کو دل سے لگاتی دھپ سے بیڈ پے گری ۔۔۔۔یہ احساس بھی بہت خوبصورت تھا کے وہ اس سے محبت کرتا تھا۔۔۔
“””””””””””””””””************””””””””””””””””
تین سال بعد
ان تین سالوں میں بہت کچھ بدلہ تھا۔۔۔فروا کی شادی ہوگئی تھی اور اب وہ پرمینینلٹی بے چارے زارون کے خون کے ساتھ ساتھ پیسہ بھی حتم کر رہی تھی ۔۔۔۔
بسماء شادی کر کے اپنے شوہر کے ساتھ لندن سیٹل ہو گئی تھی۔۔۔شہرین اب اپنا ایک این جی اوہ چلاتی تھی ۔۔
اور رہے ہمارے نایاب اور ناہل بھئ وہ دونوں اب تک نہ سدھرے تھے ۔۔۔
رات کے گیارہ بجے ان دونوں کے گھر میں جھانکو تو وہ مصروف سی چھوٹی چھوَی لاہٹس دیوار پر ٹانگنے میں لگی تھی ۔۔۔گھر کے دیگر ملازم یہاں وہاں بھاگ کر کام نپٹا رہے تھے ۔۔۔۔آج اسکی دو سالہ بیٹی امامہ کی دوسری برتھ ڈے پارٹی تھی ۔۔۔۔ناہل صاب صبح سے اسے لیے عاہب تھے ۔۔۔اور اسے پتہ تھا کے وہ کیوں عاہب ہے ۔۔۔
لینڈ لاہن کا فون بجا تو وہ اپنے حیالوں سے چونکی ۔۔۔ایک نظر ادھر ادھر دوڑتے ملازموں ڈالی کوئی بھی فون نہیں اٹھا رہا تھا ۔۔۔”افف” اسنے تھک کر سانس لی اور لاہٹس کو چھوڑتی فون کے قریب آئی ۔۔۔
“یس “۔۔۔مسکرا کر ڈھیر سارا غصہ صبط کر کے بولی ۔۔
“Happy birthday day to my cute little princess…sorry sorry sorry for the late wish ….”
وہ نان اسٹاب بولے گیا ۔۔۔۔نایاب نے گہری سانس لی ۔۔۔
“سوری میں آپ کی پرنسس نہیں ہوں” ۔۔۔۔۔۔نایاب کا دل کیا لینڈ لائن فون ناہل کے سر پے دے مارے مگر افسوس ۔۔۔ ہر بار کا اسکا یہی ڈارامہ ہوتا تھا
“تو آپ کون بول رہی ہیں ؟”۔۔۔معصوم سا سوال جھٹ سے حاصر تھا ۔۔۔
“نایاب بول رہی ہوں!!” وہ دانت پیستی صبط سے بولی پیچھے سے ملازموں کی کھی کھی کی آوازیں وہ سن سکتی تھی مگر ان سب کو کچھ بھی کہنا بے کار تھا ۔۔۔
“اوہ اچھا شاید میری بیوی نے نئی کام والی رکھی ہے ۔۔۔نئی ہو اسلیے معاف کر دیتا ہو چلو جلدی سے میری بیٹی بات کرواو” ۔۔۔نایاب نے بمشکل خود کو مشتعل ہونے سے روکا تھا ۔۔۔”اوہ ہیلو میں کام والی نہیں آپکی بیوی نایاب بول رہی ہوں” ۔۔۔بھڑک چلائی۔۔۔
“اووو ایک منٹ کیا آپ میری وہی نک چڑی بیوی ہیں جو ہر روز میرے گھر پے ہی پائی جاتی ہیں” ۔۔۔شدید بے افسوس سے اگلا سوال پوچھا گیا ۔۔۔
“ہاں جی بلکل میں وہی ہوں !”۔۔
” اوہ مائے گاڈ !!آپ نے میری کال کیسے اٹھا لی ۔۔۔؟؟ “وہ سحت حیران لگتا تھا۔۔
“وہ سب چھوڑو بتاو فون کیوں کیا ہے ۔۔؟؟ ”
“بڑی نے مروت ہو بندہ شوہر کا حال ہی پوچھ لیتا ہے ۔۔۔”
“ابھی مروت دکھانے کا وقت نہیں ہے ۔۔جلدی بولو کام کیا ہے “۔۔۔نایاب بے نیازی سے شانے اچکا کر کہا تو وہ سچ میں جل گیا ۔۔۔
“میری بیٹی سے بات کرواو “۔۔۔جلی ہوئی آواز پر نایاب نے بمشکل اپنا قہقہہ روکا ۔۔۔
“وہ گھر پر نہیں ہے اپنے پاپا کے ساتھ گئی ہے” ۔۔۔سپاٹ آواز میں جواب دیا تو وہ پھر سے بولا ۔۔۔
“ٹھیک ہے پھر ممی سے ہی بات کر لیتیے ہیں ۔۔۔کتنے دن ہو گئے ہیں ہم نے کوئی رومانٹک بات ہی نہیں کی”! ۔۔وہ یک دم گھمیبر آواز میں بولتے پٹھری سے اترا تو نایاب نے نفی میں سر ہلا یا ۔۔۔۔”ہو گیا تمہارا اب گھر آو ۔۔۔پتہ نہیں کدھر لے کے نکل جاتے ہو میری بیٹی کو ۔۔۔”
“ایکسکیوز می وہ میری بھی بیٹی ہے “۔۔۔وہ فٹ سے بولا تو نایاب نے کوفت سے آنکھیں گماہیں ۔۔۔
“اچھا تمہاری ہے اب گھر آو ۔”۔۔جھنجھلا کے کہتے اسنے فون رکھا ۔۔۔اور فریج سے تین منزلہ اپنے ہاتھو سے بنایا ہوہا کیک لا کر ٹیبل پر رکھا۔۔۔وہ سرخ کیک تھا جس پر سفید پھول لگے تھے ہمشہ کی طرح شاندار ۔۔۔
تھوڑی ہی دیر میں اسی گھر میں اس چھوٹی سی بچی نے (جو بےبی پنک فراک میں پری لگ رہی تھی) کیک کاٹا ۔۔۔تالیوں اور خوبصورت مسکراہٹوں سے رات کا وہ منظر معطر ہو گیا تھا ۔۔۔۔
کھڑی کے پردے سے جھانکتا چودہویں کا چاند اس خوبصورت منظر کو دیکھ کر مسکرایا ۔۔آگے ایسے کہی منظر وہ دیکھنے والا تھا ۔۔۔سچ میں وہ خوش نصیب تھا ۔۔۔
“””””‘””””””””””””””””***********””””””””””””””
ڈاکٹر شہباز ملک پہلا پنجابی پی ایچ ڈی
ڈاکٹر شہباز ملک پنجابی زبان و ادب کی دنیا میں ایک مشہور و معروف نام ہیں۔ وہ پاکستان میں پنجابی...